قیامت کب اور کس وقت؟ یہ دریافت کرنے والے قریشی بھی تھے اور یہودی بھی لیکن چونکہ یہ آیت مکی ہے اس لئے ٹھیک یہی ہے کہ قریشیوں کا سوال تھا چونکہ وہ قیامت کے قائل ہی نہ تھے اس لئے اس قسم کے سوال کیا کرتے تھے کہ اگر سچے ہو تو اس کا ٹھیک وقت بتا دو ۔ ادھر بے ایمان اس کی جلدی مچا رہے ہیں ۔ ادھر ایماندار اسے حق جان کر اس سے ڈر رہے ہیں ۔ بات یہ ہے کہ جنہیں اس میں بھی شک ہے دو روز کی گمراہی میں تو وہی ہیں ۔ پوچھا کرتے تھے کہ قیامت واقع کب ہوگی؟ جواب سکھایا گیا کہ اس کے صحیح وقت کا علم سوائے اللہ کے کسی کو نہیں وہی اس کے صحیح وقت سے واقف ہے بجز اس کے کسی کو اس کے واقع ہونے کا وقت معلوم نہیں ۔ اس کا علم زمین و آسمان پر بھی بھاری ہے ، ان کے رہنے والی ساری مخلوق اس علم سے خالی ہے ۔ وہ جب آئے گی سب پر ایک ہی دقت واقع ہوگی ، سب کو ضرر پہنچے گا ۔ آسمان پھٹ جائے گا ستارے جھڑ جائیں گے سورج بےنور ہو جائیں گے پہاڑ اڑنے لگیں گے اسی لئے وہ ساری مخلوق پر گراں گذر رہی ہے ۔ اس کے واقع ہونے کے صحیح وقت کا علم ساری مخلوق پر بھاری ہے ۔ زمین و آسمان والے سب اس سے عاجز اور بےخبر ہیں ۔ وہ تو اچانک سب کی بےخبری میں ہی آئے گی ۔ کوئی بزرگ سے بزرگ فرشتہ ، کوئی بڑے سے بڑا پیغمبر بھی اس کے آنے کے وقت کا عالم نہیں ۔ وہ تو سب کی بےخبری میں ہی آ جائے گی ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں دنیا کے کل کام حسب دستور ہو رہے ہوں گے ، جانوروں والے اپنے جانوروں کے پانی پلانے کے حوض درست کر رہے ہوں گے ، تجارت والے تول تال میں مشغول ہوں گے جو قیامت آ جائے گی ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ قیامت قائم ہونے سے پہلے سورج مغرب کی طرف سے نکلے گا اسے دیکھتے ہی سب لوگ ایمان قبول کرلیں گے لیکن اس وقت کا ایمان ان کے لئے بےسود ہوگا ۔ جو اس سے پہلے ایمان نہ لائے ہوں اور جنہوں نے اس سے پہلے نیکیاں نہ کی ہوں ۔ قیامت اس طرح دفعتاً آ جائے گی کہ ایک شخص کپڑا پھیلائے دوسرے کو دکھا رہا ہوگا اور دوسرا دیکھ رہا ہوگا بھاؤ تاؤ ہو رہا ہوگا کہ قیامت ہو جائے گی نہ یہ خرید و فروخت کر سکیں گے نہ کپڑے کی تہہ کر سکیں گے کوئی دودھ دوہ کر لے آ رہا ہوگا پی نہ سکے گا کہ قیامت آ جائے گی کوئی حوض درست کر رہا ہوگا ابھی جانوروں کو پانی نہ پلا چکا ہوگا کہ قیامت آ جائے گی کوئی لقمہ اٹھائے ہوئے ہوگا ابھی منہ میں نہ ڈالا ہوگا کہ قیامت آ جائے گی ۔ صحیح مسلم شریف میں ہے آدمی دودھ کا کٹورا اٹھا کر پینا چاہتا ہی ہوگا ابھی منہ سے نہ لگ پائے گا کہ قیامت قائم ہو جائے گی کپڑے کے خریدار بھی سود نہ کر چکے ہوں گے کہ قیامت آ جائے گی حوض والے بھی لیپاپوتی کر رہے ہوں گے کہ قیامت برپا ہو جائے گی ۔ تجھ سے اس طرح پوچھتے ہیں گویا تو ان کا سجا رفیق ہے یہ تیرے پکے دوست ہیں ۔ اس طرح پوچھتے ہیں گویا کہ تجھے اس کا حال معلوم ہے حالانکہ کسی مقرب فرشتے یا نبی یا رسول کو اس کا علم ہرگز نہیں ۔ قریشیوں نے یہ بھی کہا تھا کہ حضور ہم تو آپ کے قرابتدار ہیں ہمیں تو بتا دیجئے کہ قیامت کب اور کس دن کس سال آئے گی؟ اس طرح پوچھا کہ گویا آپ کو معلوم ہے حالانکہ اس کا علم صرف اللہ کے پاس ہی ہے جیسے فرمان ہے آیت ( اِنَّ اللّٰهَ عِنْدَهٗ عِلْمُ السَّاعَةِ ۚ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ ۚ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْاَرْحَامِ ۭ وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌ مَّاذَا تَكْسِبُ غَدًا ۭ وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌۢ بِاَيِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌ خَبِيْرٌ 34ۧ ) 31- لقمان:34 ) قیامت کا علم صرف اللہ کو ہی ہے یہی معنی زیادہ ترجیح والے ہیں واللہ اعلم ۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے بھی جب اعرابی کا روپ دھار کر سائل کی وضع میں آپ کے پاس بیٹھ کر آپ سے قیامت کے بارے میں پوچھا تو آپ نے صاف جواب دیا کہ اس کا علم نہ مجھے ہے نہ تجھے ۔ اس سے پہلے کے سوالات آپ بتا چکے تھے اس سوال کے جواب میں اپنی لا علمی ظاہر کر کے پوری سورہ لقمان کی آخری آیت پڑھی کہ ان پانچ چیزوں کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ۔ یعنی علم قیامت ، بارش کا آنا ، مادہ کے پیٹ کے بچے کا حال ، کل کے حالات ، موت کی جگہ ۔ ہاں جب آپ نے اس کی علامتیں پوچھیں تو حضور نے بتا دیں ۔ پھر اسی آیت کو تلاوت فرمایا جبرائیل آپ کے ہر جواب پر یہی فرماتے جاتے تھے کہ آپ نے سچ فرمایا ان کے چلے جانے کے بعد صحابہ نے تعجب سے پوچھا کہ حضور یہ کون صاحب تھے؟ آپ نے فرمایا جبرائیل تھے تمہیں دین سکھانے آئے تھے ۔ جب کبھی وہ میرے پاس جس ہیئت میں آئے میں نے انہیں پہچان لیا لیکن اب کی مرتبہ تو میں خود اب تک نہ پہچان سکا تھا ۔ الحمد اللہ میں نے اس کے تمام طریقے کل سندوں کے ساتھ پوری بحث کر کے بخاری شریف کی شرح کے اول میں ہی ذکر کر دیئے ہیں ۔ ایک اعرابی نے آ کر با آواز بلند آپ کا نام لے کر آپ کو پکارا آپ نے اسی طرح جواب دیا ۔ اس نے کہا قیامت کب ہوگی؟ آپ نے فرمایا وہ آنے والی تو قطعاً ہے ، تو بتا تو نے اس کے لئے کیا تیاری کی ہے؟ اس نے جواب دیا کہ روزے نماز تو میرے پاس زیادہ نہیں البتہ میں اللہ اور اس کے رسول کی محبت سے اپنے دل کو پر پاتا ہوں آپ نے فرمایا انسان اسی کے ہمراہ ہوگا جس سے محبت رکھتا ہو ، مومن اس حدیث کو سن کر بہت ہی خوش ہوئے کہ اس قدر خوشی انہیں اور کسی چیز پر نہیں ہوئی تھی ۔ آپ کی عادت مبارک ہی تھی کہ جب کوئی آپ سے ایسا سوال کرے جس کی ضرورت نہ ہو تو آپ اسے وہ بات بتاتے جو اس سے کہیں زیادہ مفید ہو ۔ اسی لئے اس سائل کو بھی فرمایا کہ وقت کا علم کیا فائدہ دے گا ؟ ہو سکے تو تیاری کر لو ۔ صحیح مسلم میں ہے کہ اعراب لوگ حضور سے جب کبھی قیامت کے بارے سوال کرتے تو آپ جو ان میں سب سے کم عمر ہوتا اسے دیکھ کر فرماتے کہ اگر یہ اپنی طبعی عمر تک پہنچا تو اس کے بڑھاپے تک ہی تم اپنی قیامت کو پالو گے ۔ اس سے مراد ان کی موت ہے جو آخرت کے برزخ میں پہنچا دیتی ہے بعض روایتوں میں ان کے اس قسم کے سوال پر آنحضرت کا علی الا طلاق یہی فرمانا بھی مروی ہے کہ اس نوعمر کے بڑھاپے تک قیامت آ جائے گی یہ اطلاق بھی اسی تقلید پر مجمول ہوگا یعنی مراد اس سے ان لوگوں کی موت کا وقت ہے ، وفات سے ایک ماہ قبل آپ نے فرمایا تم مجھ سے قیامت کے بارے میں سوال کرتے ہو اس کے صحیح وقت کا علم تو صرف اللہ تعالیٰ ہی کو ہے ، میں قسمیہ بیان کرتا ہوں کہ اس وقت روئے زمین پر جتنے متنفس ہیں ان میں سے ایک بھی سو سال تک باقی نہ رہے گاـ ( مسلم ) مطلب اس سے یہ ہے کہ سو سال تک اس زمانے کے موجود لوگوں سے یہ دنیا خالی ہو جائے گی ۔ آپ فرماتے ہیں معراج والی شب میری ملاقات حضرت موسیٰ اور عیسیٰ علیہما السلام سے ہوئی وہاں قیامت کے وقت کا ذکر چلا تو حضرت ابراہیم کی طرف سب نے بات کو جھکا دیا ۔ آپ نے جواب دیا کہ مجھے تو اس کا علم نہیں سب حضرت موسیٰ کی طرف متوجہ ہوئے یہی جواب وہاں سے ملا پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف متوجہ ہوئے تو آپ نے فرمایا اس کے واقع ہونے کا وقت تو بجز اللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں جانتا ۔ ہاں مجھ سے میرے رب نے فرما رکھا ہے کہ دجال نکلنے والا ہے میرے ساتھ دو شاخیں ہوں گی وہ مجھے دیکھ کر سیسے کی طرح پگھلنے لگے گا آخر اللہ اسے میرے ہاتھوں ہلاک کرے گا یہاں تک کہ درخت اور پتھر بھی بولنے لگیں گے کہ اے مسلمان یہاں میرے نیچے ایک کافر چھپا ہوا ہے آ اور اسے قتل کر ڈال جب اللہ تعالیٰ ان سب کو ہلاک کر دے گا تب لوگ اپنے شہروں اور وطنوں کو لوٹیں گے ۔ اس وقت یاجوج ماجود نکلیں گے جو کودتے پھلانگتے چاروں طرف پھیل جائیں گے جہاں سے گذریں گے تباہی پھیلا دیں گے جس پانی سے گذریں گے سب پی جائیں گے ۔ آخر لوگ تنگ آ کر مجھ سے شکایت کریں گے میں اللہ سے دعا کروں گا اللہ تعالیٰ سب کو ہلاک کر دے گا ان کی لاشوں کا سڑاند پھیلے گی جس سے لوگ تنگ آ جائیں گے اللہ تعالیٰ بارش برسائے گا جو ان کی لاشوں کو بہا کر سمندر میں ڈال آئے گی پھر تو پہاڑ اڑنے لگیں گے اور زمین سکڑنے لگے گی ۔ جب یہ سب کچھ ظاہر ہوگا اس وقت قیامت ایسی قریب ہوگی جیسی پورے دن والی حاملہ عورت کے بچہ ہونے کا زمانہ قریب ہوتا ہے کہ گھر کے لوگ ہوشیار رہتے ہیں کہ نہ جانیں دن کو ہوجائے یا رات کو ۔ ـ ( ابن ماجہ مسند وغیرہ ) اس سے معلوم ہوا کہ قیامت کا علم کسی رسول کو بھی نہیں ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی اس کی علامات بیان فرماتے ہیں نہ کہ مقررہ وقت ۔ اس لئے کہ آپ احکام رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے جاری کرنے اور دجال کو قتل کرنے اور اپنی دعا کی برکت سے یاجوج ماجوج کو ہلاک کرنے کیلئے اس امت کے آخر زمانے میں نازل ہوں گے جس کا علم اللہ نے آپ کو دے دیا ہے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے قیامت کی بابت سوال ہوا تو آپ نے فرمایا اس کا علم اللہ کے پاس ہی ہے سوائے اس کے اسے اور کوئی نہیں جانتا ہاں میں تمہیں اس کی شرطیں بتلاتا ہوں اس سے پہلے بڑے بڑے فتنے اور لڑائیاں ہوں گی لوگوں کے خون ایسے سفید ہو جائیں گے کہ گویا کوئی کسی کو جانتا پہچانتا ہی نہیں ( مسند ) آپ اس آیت کے اترنے سے پہلے بھی اکثر قیامت کا ذکر فرماتے رہا کرتے تھے پس غور کر لو کہ یہ نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم جو سید الرسل ہیں خاتم الانبیاء ہیں نبی الرحمہ ہیں نبی اللہ ہیں الملحمہ ہیں عاقب ہیں مقفی ہیں ہاشر ہیں جن کے قدموں پر لوگوں کا حشر ہوگا جن کا فرمان ہے کہ میں اور قیامت اس طرح آئے ہیں اور آپ نے اپنی دونوں انگلیاں جوڑ کر بتائیں یعنی شہادت کی انگلی اور اس کے پاس کی انگلی لیکن باوجود اس کے قیامت کا علم آپ کو نہ تھا ۔ آپ سے جب سوال ہوا تو یہی حکم ملا جواب دو کہ اس کا علم صرف اللہ ہی کو ہے لیکن اکثر لوگ بےعلم ہیں ۔
187۔ 1 سَاعَۃ، ُ کے معنی ہیں گھڑی (لمحہ یا پل) کے ہیں قیامت کو ساعۃ اس لئے کہا گیا ہے کہ یہ اچانک اس طرح آجائے گی کہ پل بھر میں ساری کائنات درہم برہم ہوجائے گی یا سرعت حساب کے اعتبار سے قیامت کی گھڑی کو ساعۃ سے تعبیر کیا گیا۔ 187۔ 2 اَرْسَیٰ یُرْسِیْ کے معنی اثبات و وقوع کے ہیں، یعنی کب یہ قیامت ثابت یا واقع ہوگی۔ 187۔ 3 یعنی اس کا یقینی علم نہ کسی فرشتے کو ہے نہ کسی نبی کو، اللہ کے سوا اس کا علم کسی کے پاس نہیں، وہی اس کو اپنے وقت پر ظاہر فرمائے گا۔ 187۔ 4 اس کے ایک دوسرے معنی ہیں۔ اس کا علم آسمان اور زمین والوں پر بھاری ہے، کیونکہ وہ پوشیدہ ہے اور پوشیدہ چیز لوگوں پر بھاری ہوتی ہے۔ 187۔ 5 حَفِی، ُ کہتے ہیں پیچھے پڑ کر سوال کرنے اور تحقیق کرنے کو۔ یعنی یہ آپ سے قیامت کے بارے میں اس طرح سوال کرتے ہیں کہ گویا آپ نے رب کے پیچھے پڑ کر اس کی بابت ضروری علم حاصل کر رکھا ہے۔
[١٨٦] قیامت اچانک آئے گی :۔ قیامت کے اس بڑے حادثہ کی بہت سی علامات قرآن میں مذکور ہیں مثلاً زمین میں شدید زلزلے اور متواتر جھٹکے آئیں گے اور انسان حیرت سے یہ پوچھے گا کہ آج اس زمین کو کیا ہوگیا ہے ستارے بےنور ہوجائیں گے، سورج کی بساط لپیٹ دی جائے گی پہاڑ دھنکی ہوئی روئی کی طرح ادھر ادھر اڑنے لگیں گے اور ایسی ہی بہت سی باتیں یکدم ظاہر ہونے لگیں گی۔- اور سیدنا ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا قیامت (یوں اچانک) واقع ہوگی کہ دو آدمیوں نے اپنے درمیان کپڑا پھیلا رکھا ہوگا اور وہ اس کی خریدو فروخت نہ کرسکیں گے نہ اسے لپیٹ سکیں گے اور ایک آدمی اپنی اونٹنی کا دودھ دھو کر لوٹ رہا ہوگا مگر وہ اسے پی نہ سکے گا اور ایک آدمی اپنا حوض درست کر رہا ہوگا مگر وہ اس میں سے اپنے جانوروں کو پانی نہ پلا سکے گا اور ایک آدمی اپنا نوالہ منہ کی طرف اٹھائے ہوگا مگر وہ اسے کھا نہ سکے گا۔ (بخاری۔ کتاب الرقاق۔ باب طلوع الشمس من مغربہا)- [١٨٧] قیامت کا وقت نہ بتلانے کا فائدہ :۔ لوگ آپ سے قیامت کا سوال اس طرح کرتے ہیں جیسے آپ اسی مسئلہ کی تحقیق و تفتیش اور کھوج میں لگے ہوئے ہیں اور تلاش کے بعد اس کے علم تک رسائی حاصل کرچکے ہیں۔ حالانکہ قیامت کا علم صرف اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہے اور انبیاء (علیہ السلام) کسی ایسی بات کے پیچھے نہیں پڑا کرتے جس کا بتلانا اللہ تعالیٰ نے کسی خاص مصلحت کی بنا پر روک دیا ہو اور ظاہر ہے کہ اگر قیامت کا علم متعین تاریخ اور سن کے ساتھ دے دیا جاتا یا کسی کو اس کے موت کے وقت سے آگاہ کردیا جاتا تو اس طرح یہ دنیا انسان کے لیے دارالامتحان نہ رہ سکتی تھی لہذا ان باتوں کا کسی نبی تک کو نہ بتلانا مشیت الٰہی کے عین مطابق ہے اور لوگوں کو ایسے سوال کے پیچھے ہرگز نہ پڑنا چاہیے۔ بلکہ اس کے لیے کچھ تیاری کرنا چاہیے۔
يَسْــــَٔـلُوْنَكَ عَنِ السَّاعَةِ اَيَّانَ مُرْسٰىهَا : ” السَّاعَةِ “ ایک گھڑی، لمحہ، پل یا سیکنڈ، کیونکہ قیامت اچانک ایک ہی لمحے میں برپا ہوجائے گی۔ ” اَيَّانَ “ زیادہ صحیح یہی ہے کہ ” اَیٌّ“ سے ” فَعْلَانَ “ کا وزن ہے، ظرف زمان بمعنی ” مَتٰی “ یعنی کب۔ ” مُرْسٰىهَا “ یہ ” اَرْسٰی یُرْسِیْ “ باب افعال سے مصدر میمی ہے، لازم و متعدی دونوں معنوں میں آتا ہے، زیادہ تر بہت بھاری چیز کے ٹھہرنے، گڑ جانے، گاڑ دینے اور ٹھہرا دینے کو کہتے ہیں، جیسے فرمایا : (وَالْجِبَالَ اَرْسٰىهَا) [ النازعات : ٣٢ ] ” اور پہاڑ، اس نے انھیں گاڑ دیا۔ “ ” اَرْسَتِ السَّفِیْنَۃُ “ ” بحری جہاز لنگر انداز ہوا۔ “ ” اَيَّانَ مُرْسٰىهَا ۭ“ کا معنی ہے ” اَیَّانَ وُقُوْعُھَا “ کہ اس کا واقعہ ہونا کب ہے ؟ (قاموس) توحید، نبوت اور قضا و قدر کے بعد اب چوتھی چیز قیامت کے بارے میں بات ہو رہی ہے، کیونکہ قرآن میں یہ چاروں چیزیں اصل بنیاد کی حیثیت رکھتی ہیں۔ - ۭقُلْ اِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّيْ ۚ۔۔ : ” اِنَّمَا “ کلمۂ حصر ہے، یعنی اس کا علم صرف اللہ کے پاس ہے، اس نے یہ بات نہ کسی مقرب فرشتے کو بتائی ہے نہ کسی نبی مرسل کو۔ دیکھیے سورة نازعات (٤٤) اور نمل (٦٦) ۔- ثَقُلَتْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ: اس کا ایک معنی تو یہ ہے کہ اس کی ہیبت سے زمین و آسمان لرزتے ہیں، کیونکہ وہ سب اس وقت زیر و زبر ہوجائیں گے۔ دیکھیے سورة تکویر، انفطار، انشقاق، قمر (٤٦) اور حج (١، ٢) دوسرا یہ کہ اس کا علم زمین و آسمان سے بھی برداشت نہیں ہوسکتا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اسے صرف اپنے پاس رکھا ہے۔ شاہ ولی اللہ (رض) نے ” الفوز الکبیر “ میں اس کا معنی ” خَفِیَتْ “ کیا ہے، یعنی وہ آسمانوں اور زمین میں کسی کو معلوم نہیں۔ ابن جزی نے فرمایا : ” ثَقُلَتْ ثَقُلَ عِلْمُنَا اَیْ خَفِیَ “ یعنی اس کا علم مخفی ہے۔- لَا تَاْتِيْكُمْ اِلَّا بَغْتَةً ۭ: بیشک اس کی علامات عامہ اور علامات خاصہ، مثلاً دجال، دابہ، یاجوج ماجوج کا خروج اور عیسیٰ (علیہ السلام) کا نزول وغیرہ بتائی گئی ہیں، مگر ان واقعات میں سے بھی کوئی اس کا عین مقرر وقت نہیں کہ اس کے ساتھ ہی قیامت آجائے، اصل وقت صرف اللہ کے پاس ہے اور وہ اچانک یک لخت آئے گا۔- يَسْــــَٔـلُوْنَكَ كَاَنَّكَ حَفِيٌّ عَنْهَا : ” حَفِيّ “ اصل میں اس شخص کو کہتے ہیں جس نے کسی چیز کے متعلق بار بار پوچھ کر اچھی طرح اس کا علم حاصل کر رکھا ہو، یعنی یہ لوگ آپ سے بار بار اس طرح پوچھتے ہیں جیسے آپ نے بڑی کرید اور جستجو کے بعد اس کا پورا پورا علم حاصل کرلیا ہے۔
(آیت) يَسْــــَٔـلُوْنَكَ عَنِ السَّاعَةِ ۔- اس میں لفظ ساعة عربی لغت میں تھوڑے سے زمانہ کے لئے بولا جاتا ہے جس کی کوئی خاص تحدید لغت کے اعتبار سے نہیں ہے، اور اہل نجوم کی اصطلاح میں رات اور دن کے چوبیس حصوں میں سے ایک حصہ کا نام ساعة ہے جس کو اردو میں گھنٹہ کہا جاتا ہے، اور قرآن کی اصطلاح میں یہ لفظ اس دن کے لئے بولا جاتا ہے جو ساری مخلوقات کی موت کا دن ہوگا اور اس دن کے لئے بھی جس میں ساری مخلوقات دوبارہ زندہ ہو کر رب العالمین کے دربار میں حاضر ہوں گی۔ اَيَّانَ کے معنی کب اور مُرْسٰى کے معنی ٹھہرنے اور قائم ہونے کے ہیں۔ - لَا يُجَلِّيْهَا، تجلة سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں کھولنے اور ظاہر کرنے کے، بَغْتَةً کے معنی اچانک۔ حَفِيٌّ کے معنی حضرت عبداللہ بن عباس نے عالم اور باخبر کے بیان کئے ہیں، اور اصل میں اس شخص کو حَفِيٌّ کہا جاتا ہے جو سوالات کرکے کسی معاملہ کی پوری تحقیق کرلے۔- مطلب آیت کا یہ ہے کہ یہ لوگ آپ سے قیامت کے بارے میں سوال کرتے ہیں کہ وہ کب آئے گی، آپ ان سے کہہ دیجئے کہ اس کی تعیین کا صحیح علم صرف میرے رب کے پاس ہے، نہ پہلے سے اور کسی کو معلوم ہے اور عین وقت پر بھی کسی کو پہلے معلوم نہ ہوگا جب وقت مقدر آجائے گا تو خود اللہ تعالیٰ ہی اس کو ظاہر فرماویں گے، کوئی واسطہ درمیان میں نہ ہوگا، یہ حادثہ قیامت آسمانوں اور زمین پر بہت بھاری واقعہ ہوگا کہ ان کے ٹکڑے ہو کر اڑ جائیں گے اس لئے تقاضائے حکمت یہ ہے کہ ایسے شدید واقعہ کا اظہار پہلے سے نہ کیا جائے ورنہ یقین کرنے والوں کی زندگی تلخ ہوجائے گی اور منکرین کو مزید استہزاء و تمسخر کا موقع ملے گا، اس لئے فرمایا (آیت) لَا تَاْتِيْكُمْ اِلَّا بَغْتَةً ، یعنی قیامت تمہارے پاس اچانک ہی آئے گی۔ - بخاری و مسلم کی حدیث میں بروایت حضرت ابوہریرہ (رض) منقول ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قیامت کے دفعۃً اور اچانک آنے کے متعلق یہ بیان فرمایا کہ لوگ اپنے اپنے کاروبار میں مشغول ہوں گے، ایک شخص نے گاہک کو دکھلانے کے لئے کپڑے کا تھان کھولا ہوا ہوگا وہ ابھی معاملہ طے نہ کر پائیں گے کہ قیامت قائم ہوجائے گی، ایک شخص اپنی اونٹنی کا دودھ دوہ کرلے چلے گا اور ابھی اس کو استعمال کرنے نہ پائے گا کہ قیامت قائم ہوجائے گی، کوئی شخص اپنے حوض کی مرمت کر رہا ہوگا اس سے فارغ نہ ہوپائے گا کہ قیامت قائم ہوجائے گی، کوئی شخص کھانے کا لقمہ ہاتھ میں اٹھائے گا ابھی منہ تک نہ پہنچے گا کہ قیامت برپا ہوجائے گی، (روح المعانی) - مقصد اس کا یہ ہے کہ جس طرح انسان کی شخصی موت کی تاریخ اور وقت کو غیر معین و مبہیم رکھنے میں بڑی حکمتیں ہیں اسی طرح قیامت کو جو پورے عالم کی اجتماعی موت کا نام ہے اس کو مخفی اور مبہم رکھنے میں بھی بڑی حکمتیں ہیں، اول تو یہی ہے کہ یقین کرنے والوں کے لئے اس صورت میں زندگی دو بھر اور دنیا کے کام مشکل ہوجائیں گے اور منکرین کو طویل میعاد سن کر استہزاء و تمسخر کا بہانہ ملے گا اور انکی سرکشی میں اور اضافہ ہوگا۔ - اس لئے بتقاضائے حکمت اس کی تاریخ مبہم رکھا گیا تاکہ لوگ اس کے ہو لناک واقعات سے ہمیشہ ڈرتے رہیں اور یہ ڈر ہی انسان کو جرائم سے باز رکھنے کا سب سے زیادہ موثر علاج ہے، اس لئے ان آیات سے تعلیم یہ دی گئی کہ جب اس کا یقین ہے کہ قیامت کسی روز آئے گی اور رب العالمین کے سامنے سب کی پیشی ہوگی، ان کے عمر بھر کے چھوٹے بڑے اچھے برے سب اعمال کا جائزہ لیا جائے گا، جس کے نتیجہ میں یا جنت کی ناقابل قیاس اور لازوال نعمتیں ملیں گی اور یا پھر معاذ اللہ جہنم کا وہ شدید عذاب ہوگا جس کے تصور سے بھی پتہ پانی ہونے لگتا ہے، تو پھر ایک عقلمند کا کام یہ نہیں ہونا چاہئے کہ فرصت عمل کے وقت کو ان بحثوں میں ضائع کرے کہ یہ واقعہ کب کسی سن اور کس تاریخ میں ہوگا، بلکہ عقل کا تقاضہ یہ ہے کہ فرصت عمر کو غنیمت جان کر اس دن کے لئے تیاری میں مشغول ہوجائے، رب العالمین کے احکام کی خلاف ورزی سے ایسا ڈرے جیسے آگ سے ہر انسان ڈرتا ہے۔- آیت کے آخر میں پھر ان لوگوں کے سوال کا اعادہ کرکے فرمایا (آیت) يَسْــــَٔـلُوْنَكَ كَاَنَّكَ حَفِيٌّ عَنْهَا، پہلا سوال تو اس بات سے متعلق تھا کہ جب ایسا اہم واقعہ ہونے والا ہے تو ہمیں اس کا پورا پورا صحیح تاریخ اور وقت کے ساتھ علم ہونا چاہئے، جس کا جواب دے دیا گیا کہ یہ سوال بےعقلی اور بےوقوفی سے پیدا ہوا ہے، عقل کا تقاضہ ہی یہ ہے کہ اس کی تعیین کی کسی کو خبر نہ کی جائے تاکہ ہر عمل کرنے والا ہر وقت عذاب آخرت سے ڈر کر نیک عمل کے اختیار کرنے اور برے اعمال سے باز رہنے میں پوری توجہ دے۔ - اور اس دوسرے سوال کا منشاء ان لوگوں کا یہ سمجھنا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ضرور قیامت کی صحیح تاریخ اور وقت معلوم ہے اور آپ نے اللہ تعالیٰ سے تحقیق کرکے اس کا علم ضرور حاصل کرلیا ہے مگر آپ کسی وجہ سے بتاتے نہیں، اس لئے اپنی قرابت و رشتہ داری کا واسط دے کر آپ سے سوال کیا کہ ہمیں قیامت کا پورا پتہ بتلا دیں، اس سوال کے جواب میں ارشاد ہوا، (آیت) اِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ اللّٰهِ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ ۔ - یعنی آپ لوگوں کو بتلا دیں کہ حقیقت یہی ہے کہ قیامت کی صحیح تاریخ کا سوائے اللہ جل شانہ کے کسی فرشتہ یا نبی کو بھی علم نہیں ہے، مگر بہت سے لوگ اس حقیقت سے بیخبر ہیں کہ بہت سے علوم اللہ تعالیٰ صرف اپنے لئے محفوظ رکھتے ہیں جن کا کسی فرشتہ یا پیغمبر کو بھی پتہ نہیں ہوتا، لوگ اپنی جہالت سے یہ سمجھتے ہیں کہ تاریخ قیامت کا علم نبوت و رسالت کے لئے لازمی ہے اور پھر اس کا یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کا پورا علم نہیں تو یہ علامت اس کی ہے کہ معاذ اللہ آپ نبی نہیں، مگر اوپر معلوم ہوچکا کہ یہ خیال سرے سے غلط ہے۔ - خلاصہ یہ ہے کہ ایسے سوالات کرنے والے بڑے بیوقوف اور بیخبر ہیں، نہ ان کو مسئلہ کی حقیقت معلوم ہے نہ اس کی حکمت اور نہ سوال کرنے کا طریقہ۔ - ہاں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قیامت کی کچھ علامات کا علم دیا گیا تھا اور یہ کہ وہ اب قریب ہے، اس کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بہت سی احادیث صحیحہ میں واضح طور پر بیان فرمادیا ہے، ارشاد فرمایا کہ میری بعثت اور قیامت اس طرح ملی ہوئی ہیں جیسے ہاتھ کی دو انگلیاں ( ترمذی) - اور بعض اسلامی کتابوں میں جو پوری دنیا کی عمر سات ہزار سال بتلائی ہے یہ کوئی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حدیث نہیں، بلکہ اسرائیلی روایات سے لیا ہوا مضمون ہے۔ - علماء طبقات الا رض نے جو نئی تحقیقات سے دنیا کی عمر لاکھوں سال بتلائی ہے یہ نہ کسی قرآنی آیت سے ٹکراتی ہے نہ کسی حدیث صحیح سے، اسلامی روایات میں ایسی کچی بےسند باتوں کو داخل کردینے کا مقصد ہی شاید اسلام کے خلاف بد گمانیاں پیدا کرنا ہو، جن کی تردید خود صحیح احادیث میں موجود ہے، ایک صحیح حدیث میں خود رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اپنی امت کو مخاطب کر کے ارشاد ہے کہ تمہاری مثال پچھلی امتوں کے مقابلہ میں ایسی ہے جیسے سیاہ بیل کے بدن پر ایک سفید بال ہو، اس سے ہر شخص اندازہ لگا سکتا ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نظر میں دنیا کی عمر کتنی دراز ہے کہ اس کا اندازہ لگانا بھی دشوار ہے، اسی لئے حافظ ابن حزم اندلسی نے فرمایا کہ ہمارا اعتقاد یہ ہے کہ دنیا کی عمر کا کوئی صحیح اندازہ نہیں کیا جاسکتا، اس کا صحیح علم صرف پیدا کرنے والے ہی کو ہے۔ (مراغی)
يَسْــــَٔـلُوْنَكَ عَنِ السَّاعَۃِ اَيَّانَ مُرْسٰىہَا ٠ ۭ قُلْ اِنَّمَا عِلْمُہَا عِنْدَ رَبِّيْ ٠ ۚ لَا يُجَلِّيْہَا لِوَقْتِہَآ اِلَّا ہُوَ ٠ ۭۘؔثَقُلَتْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ٠ ۭ لَا تَاْتِيْكُمْ اِلَّا بَغْتَۃً ٠ ۭ يَسْــــَٔـلُوْنَكَ كَاَنَّكَ حَفِيٌّ عَنْہَا ٠ ۭ قُلْ اِنَّمَا عِلْمُہَا عِنْدَ اللہِ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ ١٨٧- سأل - السُّؤَالُ : استدعاء معرفة، أو ما يؤدّي إلى المعرفة، واستدعاء مال، أو ما يؤدّي إلى المال، فاستدعاء المعرفة جو ابه علی اللّسان، والید خلیفة له بالکتابة، أو الإشارة، واستدعاء المال جو ابه علی الید، واللّسان خلیفة لها إمّا بوعد، أو بردّ. - ( س ء ل ) السؤال - ( س ء ل ) السوال کے معنی کسی چیز کی معرفت حاصل کرنے کی استد عایا اس چیز کی استز عا کرنے کے ہیں ۔ جو مودی الی المعرفۃ ہو نیز مال کی استدعا یا اس چیز کی استدعا کرنے کو بھی سوال کہا جاتا ہے جو مودی الی المال ہو پھر کس چیز کی معرفت کی استدعا کا جواب اصل مٰن تو زبان سے دیا جاتا ہے لیکن کتابت یا اشارہ اس کا قائم مقام بن سکتا ہے اور مال کی استدعا کا جواب اصل میں تو ہاتھ سے ہوتا ہے لیکن زبان سے وعدہ یا انکار اس کے قائم مقام ہوجاتا ہے ۔- ساعة- السَّاعَةُ : جزء من أجزاء الزّمان، ويعبّر به عن القیامة، قال : اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ [ القمر 1] ، يَسْئَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ [ الأعراف 187]- ( س و ع ) الساعۃ - ( وقت ) اجزاء زمانہ میں سے ایک جزء کا نام ہے اور الساعۃ بول کر قیامت بھی مراد جاتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ [ القمر 1] قیامت قریب آکر پہنچی ۔ يَسْئَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ [ الأعراف 187] اے پیغمبر لوگ ) تم سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں ۔- أَيَّانَ- عبارة عن وقت الشیء، ويقارب معنی متی، قال تعالی: أَيَّانَ مُرْساها [ الأعراف 187] ، أَيَّانَ يَوْمُ الدِّينِ [ الذاریات 12] من قولهم : أي، وقیل : أصله : أيّ أوان، أي :- أيّ وقت، فحذف الألف ثم جعل الواو ياء فأدغم فصار أيّان . و :- ( ایان ) ایان - ( کب ) کسی شے کا وقت دریافت کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے اور یہ قریب قریب متی) کے ہم معنی ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ أَيَّانَ مُرْساها [ الأعراف 187] کہ اس ( قیامت ) کا وقوع کب ہوگا ۔ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ ( سورة النحل 21) ان کو بھی یہ معلوم نہیں کہ کب اٹھائے جائیں گے أَيَّانَ يَوْمُ الدِّينِ ( سورة الذاریات 12) کہ جزا کا دن کب ہوگا ۔ لفظ ایان دراصل امی سے مشتق ہے اور بعض کے نزدیک اس کی اصل ائ اوان ہے جس کے معنی ہیں کونسا وقت ، ، الف کو حذف کرکے واؤ کو یاء اور پھر اسے یاء میں ادغام کرکے ایان بنا لیا گیا ہے ۔ - رسا - يقال : رَسَا الشیء يَرْسُو : ثبت، وأَرْسَاهُ غيره، قال تعالی: وَقُدُورٍ راسِياتٍ [ سبأ 13] ، وقال تعالی: ارْكَبُوا فِيها بِسْمِ اللَّهِ مَجْراها وَمُرْساها - من : أجریت، وأَرْسَيْتُ ، فالمُرْسَى يقال للمصدر، والمکان، والزمان، والمفعول، وقرئ : ( مجريها ومرسيها) - ( ر س و ) رسا الشئی - ۔ ( ن ) کے معنی کسی چیز کے کسی جگہ پر ٹھہرنے اور استوار ہونے کے ہیں اور ارسٰی کے معنی ٹھہرانے اور استوار کردینے کے ۔ قرآن میں ہے : وَقُدُورٍ راسِياتٍ [ سبأ 13] اور بڑی بھاری بھاری دیگیں جو ایک پر جمی رہیں ۔ اور قرآن میں جو ہے ۔ ارْكَبُوا فِيها بِسْمِ اللَّهِ مَجْراها وَمُرْساها«3» اللہ کے نام سے اس کا چلنا اور لنگر انداز ہونا ہے ۔ تو یہ اجریت وارسیت ( باب افعال ) سے موخوذ ہے ۔ اور مرسی کا لفظ مصدر میمی آتا ہے اور صیغہ ظرف زمان ومکان اور اسم مفعول بھی استعمال ہوتا ہے اور آیت نذکورۃ الصدر میں ایک قرات وقرئ : ( مجريها ومرسيها) - بھی ہے ۔- عند - عند : لفظ موضوع للقرب، فتارة يستعمل في المکان، وتارة في الاعتقاد، نحو أن يقال : عِنْدِي كذا، وتارة في الزّلفی والمنزلة، وعلی ذلک قوله : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] ،- ( عند ) ظرف - عند یہ کسی چیز کا قرب ظاہر کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے کبھی تو مکان کا قرب ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور کبھی اعتقاد کے معنی ظاہر کرتا ہے جیسے عندی کذا اور کبھی کسی شخص کی قرب ومنزلت کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہے ۔- وقت - الوَقْتُ : نهاية الزمان المفروض للعمل، ولهذا لا يكاد يقال إلّا مقدّرا نحو قولهم : وَقَّتُّ كذا : جعلت له وَقْتاً. قال تعالی: إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103] . وقوله : وَإِذَا الرُّسُلُ أُقِّتَتْ [ المرسلات 11] . والمِيقَاتُ : الوقتُ المضروبُ للشیء، والوعد الذي جعل له وَقْتٌ. قال عزّ وجلّ : إِنَّ يَوْمَ الْفَصْلِ مِيقاتُهُمْ [ الدخان 40] ، إِنَّ يَوْمَ الْفَصْلِ كانَ مِيقاتاً [ النبأ 17] ، إِلى مِيقاتِ يَوْمٍ مَعْلُومٍ [ الواقعة 50] ،- ( و ق ت ) الوقت - ۔ کسی کام کے لئے مقرر زمانہ کی آخری حد کو کہتے ہیں ۔ اس لئے یہ لفظ معنین عرصہ کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے ۔ وقت کذا میں نے اس کے لئے اتنا عرصہ مقرر کیا ۔ اور ہر وہ چیز جس کے لئے عرصہ نتعین کردیا جائے موقوت کہلاتی ہے ۔ قرآن میں ہے : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء 103] بیشک نماز کا مومنوں پر اوقات ( مقرر ہ ) میں ادا کرنا فرض ہے ۔ ۔ وَإِذَا الرُّسُلُ أُقِّتَتْ [ المرسلات 11] اور جب پیغمبر اکٹھے کئے جائیں ۔ المیفات ۔ کسی شے کے مقررہ وقت یا اس وعدہ کے ہیں جس کے لئے کوئی وقت متعین کیا گیا ہو قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ يَوْمَ الْفَصْلِ مِيقاتُهُمْ [ الدخان 40] بیشک فیصلے کا دن مقرر ہے ۔ إِنَّ يَوْمَ الْفَصْلِ كانَ مِيقاتاً [ النبأ 17] کچھ شک نہیں کہ فیصلے کا دن اٹھنے کا وقت ہے ۔ إِلى مِيقاتِ يَوْمٍ مَعْلُومٍ [ الواقعة 50] سب ایک روز مقرر کے وقت پر جمع کئے جائیں گے ۔ اور کبھی میقات کا لفظ کسی کام کے لئے مقرر کردہ مقام پر بھی بالا جاتا ہے ۔ جیسے مواقیت الحج یعنی مواضع ( جو احرام باندھنے کے لئے مقرر کئے گئے ہیں ۔- ثقل - الثِّقْل والخفّة متقابلان، فکل ما يترجح علی - ما يوزن به أو يقدّر به يقال : هو ثَقِيل، وأصله في الأجسام ثم يقال في المعاني، نحو : أَثْقَلَه الغرم والوزر . قال اللہ تعالی: أَمْ تَسْئَلُهُمْ أَجْراً فَهُمْ مِنْ مَغْرَمٍ مُثْقَلُونَ [ الطور 40] ، والثقیل في الإنسان يستعمل تارة في الذم، وهو أكثر في التعارف، وتارة في المدح - ( ث ق ل ) الثقل - یہ خفۃ کی ضد ہے اور اس کے معنی بھاری اور انبار ہونا کے ہیں اور ہر وہ چیز جو وزن یا اندازہ میں دوسری پر بھاری ہو اسے ثقیل کہا جاتا ہے اصل ( وضع ) کے اعتبار سے تو یہ اجسام کے بھاری ہونے پر بولا جاتا ہے لیکن ( مجاز ) معانی کے متعلق بھی استعمال ہوتا ہے چناچہ کہا جاتا ہے : ۔ اسے تادان یا گناہ کے بوجھ نے دبالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَمْ تَسْئَلُهُمْ أَجْراً فَهُمْ مِنْ مَغْرَمٍ مُثْقَلُونَ [ الطور 40] اے پیغمبر ) کیا تم ان سے صلہ مانگتے ہو کہ ان پر تادان کا بوجھ پڑرہا ہے ، - اور عرف میں انسان کے متعلق ثقیل کا لفظ عام طور تو بطور مذمت کے استعمال ہوتا ہے اور کبھی بطور مدح بھی آجاتا ہے - سما - سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه، قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] ، - ( س م و ) سماء - ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔- أرض - الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . - ( ا رض ) الارض - ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ - أتى- الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام 40]- ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی " آنا " ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو۔- بغت - البَغْت : مفاجأة الشیء من حيث لا يحتسب . قال تعالی: لا تَأْتِيكُمْ إِلَّا بَغْتَةً [ الأعراف 187] ، وقال : بَلْ تَأْتِيهِمْ بَغْتَةً [ الأنبیاء 40] ، وقال : تَأْتِيَهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً [يوسف 107]- ( ب غ ت) البغت - ( ف) کے معنی کسی چیز کا یکبارگی ایسی جگہ سے ظاہر ہوجانا کے ہیں ۔ جہاں سے اس کے ظہور کا گمان تک بھی نہ ہو ۔ قرآن میں ہے ۔ لا تَأْتِيكُمْ إِلَّا بَغْتَةً [ الأعراف 187 اور ناگہاں تم پر آجائے گی ۔- تَأْتِيَهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً [يوسف 107] یا ان پر ناگہاں قیامت آجائے ۔ - حفی - الإحفاء في السؤال : التّترّع في الإلحاح في المطالبة، أو في البحث عن تعرّف الحال، وعلی الوجه الأول يقال : أَحْفَيْتُ السؤال، وأَحْفَيْتُ فلانا في السؤال، قال اللہ تعالی: إِنْ يَسْئَلْكُمُوها فَيُحْفِكُمْ تَبْخَلُوا [ محمد 37] ، وأصل ذلک من : أَحْفَيْتُ الدابة : جعلتها حافیا، أي : منسحج الحافر، والبعیر : جعلته منسحج الخفّ من المشي حتی يرقّ ، وقد حَفِيَ حَفاً وحَفْوَة، ومنه : أَحْفَيْتُ الشّارب : أخذته أخذا متناهيا، والحَفِيُّ : البرّ اللطیف في قوله عزّ وجلّ : إِنَّهُ كانَ بِي حَفِيًّا [ مریم 47] ، ويقال : حَفَيْتُ بفلان وتَحَفَّيْتُ به : إذا عنیت بإکرامه، والحَفِيّ : العالم بالشیء .- ( ح ف و ) الاحفاٰء - کے معنی کسی چیز کے مانگنے میں اصرار کرنے یا کسی کی حالت دریافت کرنے لئے بحث اور کاوش میں لگے رہنے کے ہیں پہلے معنی کے لحاظ سے احفیت السوال واحفیت فلانا فی السوال دونوں طرح کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ إِنْ يَسْئَلْكُمُوها فَيُحْفِكُمْ تَبْخَلُوا [ محمد 37] اگر وہ تم سے مال طلب کرے اور تمہیں تنگ کرے تو تم بخل کرنے لگو ۔ اصل میں یہ احفیت الدابۃ ( اسے سادہ گردانیدم پائے ستور را ) سے ہے ۔ جس کے معنی گھوڑے یا اونٹ کو زیادہ چلا کر اس کے سم یا پاؤں کو گھسا ہوا کردینے کے ہیں اور حفی حفا وحفوۃ کے معنی زیادہ چلنے سے پاؤں گے چھل جانے کے ہیں ۔ اسی سے احفیت الشارب ( نیک برید بروت را) ہے جس کے مونچھوں کو اچھی طرح کاٹ کر صاف کردینے کے ہیں ۔ الحفی ۔ نکیو کار اور نہایت مہربان ۔ قرآن میں ہے ۔ إِنَّهُ كانَ بِي حَفِيًّا [ مریم 47] بیشک وہ مجھ پر نہایت مہربان ہے ۔ کہا جاتا ہے احفیت بفلان وتحفیت بہ میں نے اس کے اعزاز رکرام کے بجا لانے میں کوئی وقیقہ فرو گذاشت نہیں کیا ۔ الحفی ( ایضا) کسی چیز کا اچھی طرح جاننے والا ۔- كثر - الْكِثْرَةَ والقلّة يستعملان في الكمّيّة المنفصلة كالأعداد قال تعالی: وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] - ( ک ث ر )- کثرت اور قلت کمیت منفصل یعنی اعداد میں استعمال ہوتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] اس سے ان میں سے اکثر کی سر کشی اور کفر اور بڑ ھیگا ۔- نوس - النَّاس قيل : أصله أُنَاس، فحذف فاؤه لمّا أدخل عليه الألف واللام، وقیل : قلب من نسي، وأصله إنسیان علی إفعلان، وقیل : أصله من : نَاسَ يَنُوس : إذا اضطرب، قال تعالی: قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] - ( ن و س ) الناس ۔- بعض نے کہا ہے کہ اس کی اصل اناس ہے ۔ ہمزہ کو حزف کر کے اس کے عوض الف لام لایا گیا ہے ۔ اور بعض کے نزدیک نسی سے مقلوب ہے اور اس کی اصل انسیان بر وزن افعلان ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ اصل میں ناس ینوس سے ہے جس کے معنی مضطرب ہوتے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ [ الناس 1] کہو کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ مانگنا ہوں ۔
قیامت کب آئے گی ؟- قول باری ہے یسئلونک عن الساعۃ ایان مرسھا۔ یہ لوگ تم سے پوچھتے ہیں کہ آخر وہ قیامت کی گھڑی کب نازل ہوگی ؟ ) تاآخر آیت ۔ قتادہ اور سدی کا قول ہے کہ مرسھا کے معنی قیام قیامت ہے۔ ایان، متی کے معنوں میں ہے۔ اس سوال میں اس وقت کے بارے میں دریافت کیا گیا تھا جو قیامت کے وقوع پذیر ہونے کے لئے ظرف بننے والا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں قیامت کے وقت کے متعلق کوئی بات نہیں بتائی تاکہ اس کے بندے قیامت کے وقت سے ہمیشہ ڈرتے رہیں اور یہ بات طاعت کی طرف زیادہ راغب کر دے اور معصیت سے انہیں زیادہ بازرکھے ۔ موسیٰ کسی بھاری چیز کی جائے استقرار کو کہتے ہیں۔ اسی سے الجبال الرسیات، ہے یعنی گڑے ہوئے مضبوط پہاڑ جب کشتی بندرگاہ پر لنگرانداز ہوجائے تو کہا جاتا ہے ” رسبت السفینۃ “ جب کوئی شخص اسے لنگر انداز کرلے تو کہا جاتا ہے ” ارسا ھا غیرھا “۔ حضرت ابن عباس (رض) کا قول ہے کہ یہود کے ایک گروہ نے قیامت کے متعلق سوال کیا تھا حسن اور قتادہ کا قول ہے کہ قریش نے یہ سوال کیا تھا۔ قول باری ہے لاتاتیکم الابغتۃ۔ وہ تم پر اچانک آجائے گی) قتادہ کا قول ہے کہ بغتۃ کے معنی غفلۃ کے ہیں۔ یہ شدید ترین صورت ہے۔ قول باری ہے ثقلت فی السموت والارض۔ آسمانوں اور زمین میں وہ بڑا سخت وقت ہوگا) سدی اور دیگر حضرات نے کہا ہے کہ اس وقت کا علم آسمانوں اور زمین والوں پر بڑا بھاری ہوگا وہ اس کے ادراک کی طاقت نہیں رکھتے حسن کا قول ہے قیامت کی کیفیت کا بیان اہل زمین وآسمان کے لئے بڑا سخت ہوگا اس لئے کہ اس گھڑی ستارے بکھر جائیں گے آسمانوں کے روشن اجرام بےنور ہوجائیں گے اور پہاڑ اپنی جگہ چھوڑ دیں گے اور اڑتے پھریں گے۔ قتادہ کا قول ہے کہ قیامت کی گھڑی آسمانوں پر بڑی سخت ہوگی اور اس کی شدت کی بنا پر آسمان اس کی برداشت کی طاقت نہیں رکھیں گے۔ قول باری ہے یسئلونک کانک حفتی عنھا۔ یہ لوگ اس کے متعلق تم سے اس طرح پوچھتے ہیں کہ گویا تم اس کی کھوج میں لگے ہوئے ہو) مجاہد ضحاک اور معمر کے قول کے مطابق گویا تمہیں اس کا علم ہے “ حضرت ابن عباس (رض) حسن قتادہ اور سدی کا قول ہے کہ آیت کی عبارت میں تقدیم و تاخیر ہے۔ اصل ترتیب یہ ہوگی یسئلونک عنھا کانک حفی بھم۔ یہ لوگ تم سے قیامت کے متعلق اس طرح پوچھتے ہیں گویا تم ان کے ساتھ کوئی نیکی کر کے مہربانی کرنا چاہتے ہو۔ اسی معنی میں یہ قول باری ہے انہ کان بی حفیاً ۔ یقینا وہ مجھ پر بہت مہربان ہے) ایک قول ہے کہ حفا کے اصل معنی کسی معاملے کے پیچھے پڑجانے اور اس کی کھوج میں لگ جانے کے ہیں۔ جب کوئی شخص کی کھوج میں لگ جائے تو کہا جاتا ہے احفی فلان فلاناً ۔ اسی طرح جب کوئی شخص مسلسل سوال کرتا رہے تو کہا جاتا ہے ” احفی السئوال “ اسی سے ہے ” احفی الشارب “ (فلاں شخص نے اپنی مونچھیں پوری طرح صاف کردیں) اسی سے لفظ الحفا ہے جس کے معنی مسلسل ننگے پائوں چلنے کی بنا پر قدموں کا چھل جانا ہے۔ حفی اس شخص کو کہا جاتا ہے جو تمہارے ساتھ نیکی کر کے تم پر مہربانی کرتا ہے۔ مہربانی کی وجہ یہ ہے کہ وہ تمہارے ساتھ نیکی کرنے کے درپے ہوتا ہے۔ قول باری حفی عنھا یعنی اس کا علم رکھنے والا۔ اس لئے کہ اس کا علم رکھنے والے نے اس کے متعلق علم حاصل کرنے میں مسلسل تگ و دو کی ہے۔ آیت میں اس شخص کے قول کے بطلان پر دلیل موجود ہے جو یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اسے دنیا کی باقی ماندہ مدت کا علم ہے۔ وہ استدلال کے طور پر ایک روایت پیش کرتا ہے جس میں ذکر ہے کہ دنیا کی عمر سات ہزار برس ہے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے بعد سے اس کی عمر صرف پانچ سو برس رہ گئی ہے۔ اگر اس شخص کی بات درست ہوتی تو پھر قیامت کے وقت کا سب کو علم ہوتا جبکہ اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ قیامت کا علم صرف اس کی ذات کو ہے اسے اپنے وقت پر وہی ظاہر کرے گا۔ نیز اس کی آمد اچانک ہوگی۔ اس کی آمد کا پہلے سے کسی کو علم نہ ہوسکے گا۔ اس لئے کہ ” بغتۃ “ یعنی اچانک کے معنوں میں یہ مفہوم داخل ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دنیا کی باقی ماندہ عمر کے متعلق روایات منقول ہیں لیکن ان روایات میں وقت کی کوئی تحدید نہیں ہے۔ مثلا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے بعثت والساعۃ کھاتین، میری بعثت اور قیامت میں ان دونوں انگلیوں جتنا فاصلہ ہے) آپ نے یہ فرما کر انگشت شہادت اور بیچ کی انگلی کی طرف اشارہ کیا اس جیسی ایک روایت شعبہ نے علی بن زید سے نقل کی ہے انہوں نے ابونضرہ سے اور انہوں نے حضرت ابوسعید خدری (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک دن ہمیں عصر کے بعد سے سورج چھپنے تک خطبہ دیا جس کے دوران آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا الانہ لم یبق من الدنیا فیما مضی الاکما بقی من ھذہ الشمس الی ان تغیب۔ لوگو دنیا کی گزری ہوئی عمر میں سے اب صرف اتنا عرصہ باقی رہ گیا ہے جتنا اس سورج کے غروب ہونے میں ہے) حضرت ابن عباس (رض) نے حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ روایت کی ہے کہ اجلکم فی اجل من مضی قبلکم کما بین صلوۃ العصر الی غروب الشمس، گزشتہ قوموں کی مدت کے مقابلہ میں تمہاری مدت اتنی ہے جتنی عصر کی نماز سے لے کر غروب آفتاب تک ہے) اسی طرح دیگر روایات ہیں۔ ان میں قیامت کی آمد کے وقت کی کوئی تحدید نہیں ہے۔ ان میں صرف قرب قیامت کی بات کہی گئی ہے ۔ قول باری فقدجاء اشراطھا۔ پس قیامت کی نشانیاں آگئی ہیں) کی تاویل میں یہ مروی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت قرب قیامت کی نشانیوں میں سے ایک ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا قل انما علیمھا عند ربی۔ کہہ دو اس کا علم تو صرف میرے رب کو ہے) پھر فرمایا قل انما علمھا عنداللہ۔ اس کا علم تو صرف اللہ کو ہے) ان دونوں آیتوں کی تفسیر میں ایک قول یہ ہے کہ پہلے علم سے مراد قیامت کے وقت کا علم ہے اور دوسرے سے اس کی حقیقت کا علم مراد ہے۔
(١٨٧) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اہل مکہ روز قیامت کے قائم ہونے اور اس کے وقت کے متعلق آپ سے پوچھتے ہیں کہ کب آئے گی، آپ فرما دیجیے کہ اس کا وقت مقرر صرف میرے رب کو معلوم ہے اس چیز کو بیان نہیں کیا گیا اس کا آنا اور اس کے واقع ہونے کا علم زمین و آسمان والوں پر بہت ہی بھاری حادثہ ہوگا اور وہ ایک دم آئے گی۔- اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہ آپ سے قیامت کے واقع ہونے کے بارے میں اس طرح سوال کرتے ہیں جیسے آپ اس کی تحقیقات کرچکے ہیں یا اس سے غافل ہیں، آپ فرما دیجیے کہ اس کے آنے کا علم صرف اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہے مگر اہل مکہ اس چیز کی تصدیق نہیں کرتے۔- شان نزول : یسئلونک عن الساعۃ۔ “ (الخ)- ابن جریر (رح) وغیرہ نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ حمل بن ابی قثیر اور سموال بن زید نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ اگر آپ نبی ہیں تو ہمیں بتائیے کہ قیامت کب قائم ہوگی کیوں کہ ہم جانتے ہیں وہ کیا ہے، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ ” یہ لوگ آپ سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ وہ کب واقع ہوگی، نیز قتادہ (رح) سے روایت کیا ہے کہ قریش نے یہ سوال کیا تھا۔
آیت ١٨٧ (یَسْءَلُوْنَکَ عَنِ السَّاعَۃِ اَیَّانَ مُرْسٰٹہَاط قُلْ اِنَّمَا عِلْمُہَا عِنْدَ رَبِّیْ ج) ۔ - یہ لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قیامت کے بارے میں سوال کرتے ہیں کہ کب لنگر انداز ہوگی ؟ آپ ان سے کہہ دیجیے کہ اس کے بارے میں سوائے میرے اللہ کے کوئی نہیں جانتا۔ کسی کے پاس اس بارے میں کوئی علم نہیں ہے۔ مُرْسٰی جہاز کے لنگر انداز ہونے کو کہا جاتا ہے۔ جیسے بِسْمِ اللّٰہِ مَجْرٖٹھَٰا وَمُرْسٰھَا ۔- (لاَ یُجَلِّیْہَا لِوَقْتِہَآ اِلاَّ ہُوَ ط) (ثَقُلَتْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ط) - آسمان و زمین اس سے بوجھل ہیں۔ جیسے ایک مادہ اپنا حمل لیے پھرتی ہے ‘ اسی طرح یہ کائنات بھی قیامت کو یعنی اپنی فنا کو لیے لیے پھرتی ہے۔ ہر شے جو تخلیق کی گئی ہے اس کی ایک اجل مسمیٰ اس کے اندر موجود ہے۔ گویا ہر مخلوق کی موت اس کے وجود کے اندر سمو دی گئی ہے۔ چناچہ ہر انسان اپنی موت کو ساتھ ساتھ لیے پھر رہا ہے اور اسی لحاظ سے پوری کائنات بھی۔ - (لاَ تَاْتِیْکُمْ الاَّ بَغْتَۃً ط) (یَسْءَلُوْنَکَ کَاَنَّکَ حَفِیٌّ عَنْہَا ط) - آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تو وہ ایسے پوچھتے ہیں جیسے سمجھتے ہوں کہ آپ کو تو بس قیامت کی تاریخ ہی کے بارے میں فکر دامن گیر ہے اور آپ اس کی تحقیق و جستجو میں لگے ہوئے ہیں۔ حالانکہ آپ کا اس سے کوئی سروکار نہیں ‘ یہ تو ہمارا معاملہ ہے۔