Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو علم غیب نہیں تھا اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم فرماتا ہے کہ آپ تمام کام سپرد الہ کریں اور صاف کہدیں کہ غیب کی کسی بات کا مجھے علم نہیں ۔ میں تو صرف وہ جانتا ہوں جو اللہ تعالیٰ مجھے معلوم کرا دے ۔ جیسے سورہ جن میں ہے کہ عالم الغیب اللہ تعالیٰ ہی ہے وہ اپنے غیب پر کسی کو آگاہ نہیں کرتا ۔ مجھے اگر غیب کی اطلاع ہوتی تو میں اپنے لئے بہت سی بھلائیاں سمیٹ لیتا ۔ مجاہد سے مروی ہے کہ اگر مجھے اپنی موت کا علم ہوتا تو نیکیوں میں بھی سبقت لے جاتا ۔ لیکن یہ قول غور طلب ہے کیونکہ حضور کے اعمال دائمی تھے جو نیکی ایک بار کرتے پھر اسے معمول بنالیتے ۔ ساری زندگی اور زندگی کا ہر ایک دن بلکہ ہر ایک گھڑی ایک ہی طرح کی تھی ۔ گویا کہ آپ کی نگاہیں ہر وقت اللہ تعالیٰ کی طرف لگتی رہتی تھیں ۔ زیادہ سے زیادہ یہ بات یوں ہو سکتی ہے کہ دوسروں کو میں ان کی موت کے وقت سے خبردار کر کے انہیں اعمال نیک کی رغبت دلاتا واللہ اعلم ۔ اس سے زیادہ اچھا قول اس کی تفسیر میں حضرت ابن عباس کا ہے کہ میں مال جمع کر لیتا مجھے معلوم ہو جاتا کہ اس چیز کے خریدنے میں نفع ہے میں اسے خرید لیتا ۔ جانتا کہ اس کی خریداری میں نقصان ہے نہ خریدتا ۔ خشک سالی کے لئے ترسالی میں ذخیرہ جمع کر لیتا ۔ ارزانی کے وقت گرانیے علم سے سودا جمع کر لیتا ۔ کبھی کوئی برائی مجھے نہ پہنچتی کیونکہ میں علم غیب سے جان لیتا کہ یہ برائی ہے تو میں پہلے سے ہی اس سے جتن کر لیتا ۔ لیکن میں علم غیب نہیں جانتا اس لئے فقیری بھی مجھ پر آتی ہے تکلیف بھی ہوتی ہے ۔ مجھ میں تم یہ وصف نہ مانو ۔ سنو مجھ میں وصف یہ ہے کہ میں برے لوگوں کو عذاب الٰہی سے ڈراتا ہوں ایمانداروں کو جنت کی خوش خبری سناتا ہوں جیسے فرمان ہے آیت ( فَاِنَّمَا يَسَّرْنٰهُ بِلِسَانِكَ لِتُبَشِّرَ بِهِ الْمُتَّقِيْنَ وَتُنْذِرَ بِهٖ قَوْمًا لُّدًّا 97؀ ) 19-مريم:97 ) ہم نے اسے تیری زبان پر آسان کر دیا ہے کہ تو پرہیز گاروں کو خوشخبری سنا دے اور بروں کو ڈرا دے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

188۔ 1 یہ آیت اس بات میں کتنی واضح ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عالم غیب نہیں۔ عالم غیب صرف اللہ کی ذات ہے، لیکن ظلم اور جہالت کی انتہا ہے کہ اس کے باوجود اہل بدعت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عالم الغیب باور کراتے ہیں۔ حالانکہ بعض جنگوں میں آپ کے دندان مبارک بھی شہید ہوئے، آپ کا چہرہ بھی زخمی ہوا، اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ یہ قوم کیسے فلاح یاب ہوگی جس نے اپنے نبی کے سر کو زخمی کردیا، کتب حدیث میں یہ واقعات بھی اور ذیل کے واقعات بھی درج ہیں۔ حضرت عائشہ (رض) پر تہمت لگی تو پورا ایک مہینہ مضطرب اور نہایت پریشان رہے۔ ایک یہودی عورت نے آپ کی دعوت کی اور کھانے میں زہر ملادیا، جسے آپ نے تناول فرمایا اور صحابہ نے بھی، حتٰی کہ بعض صحابہ تو کھانے کے زہر سے ہلاک ہی ہوگئے اور خود نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عمر بھر اس زہر کے اثرات محسوس فرماتے رہے۔ یہ اور اس قسم کے متعدد واقعات ہیں جن سے واضح ہے کہ آپ کو عدم علم کی وجہ سے یہ تکلیف پہنچی، نقصان اٹھانا پڑا، جس سے قرآن کی بیان کردہ حقیقت کا اثبات ہوتا ہے اگر میں غیب جانتا ہوتا تو مجھے کوئی مضرت نہ پہنچتی

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٨٨] علم غیب جاننے کے فائدے غیب کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں :۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے علم غیب جاننے کے دو فائدے بتلائے ہیں۔ ایک یہ کہ علم غیب جاننے والا اپنے لیے بہت سی بھلائیاں جمع کرسکتا ہے مثلاً ایک عام مثال لیجئے اگر کسی کو یہ بات یقینی طور پر معلوم ہو کہ فلاں وقت فلاں چیز کا بھاؤ اس حد تک چڑھ جائے گا تو وہ آسانی سے بہت نفع حاصل کرسکتا اور بہت سا مال و دولت کما سکتا ہے اور دوسرا یہ کہ ایسے شخص کو کوئی تکلیف نہیں پہنچ سکتی۔ اس لیے کہ وہ بروقت یا وقت سے پہلے اس کا علاج سوچ سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول سے فرمایا کہ آپ لوگوں سے کہہ دیجئے کہ میں تو اپنے بھی نفع و نقصان کا کچھ اختیار نہیں رکھتا تو تمہارا یا دوسروں کے نفع و نقصان کا کیسے مختار ہوسکتا ہوں، اور دوسری بات اس سے یہ معلوم ہوتی ہے کہ جب مجھے اتنا بھی علم غیب حاصل نہیں کہ اپنا ہی نفع و نقصان سوچ سکوں تو قیامت کے واقع ہونے کے متعلق آپ کو کیا بتاسکتا ہوں ؟۔- غیب کی خبریں بتلانے والے :۔ اب اسی معیار پر ان لوگوں کو آپ پرکھ لیجئے جو ستاروں کی چالوں سے، ہاتھ کی لکیروں سے، مختلف طریقوں سے فال لینے سے یا جفرور مل کے علم سے یا اپنے کشف سے علم غیب جاننے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ان کے اس دعویٰ کی کیا حقیقت ہے۔ مثلاً ایک نجومی، جوتشی جو فٹ پاتھ پر بیٹھ کر قسمت کی انگوٹھیاں بیچتا اور مختلف طرح سے لوگوں کو ان کی قسمت کے احوال سے مطلع کرتا ہے اگر وہ یہ علم جانتا ہوتا تو کیا اس کی یہ حالت زار ہوسکتی تھی ؟ کیا وہ چند دنوں میں امیر کبیر نہ بن سکتا تھا ؟- دور نبوی میں کاہن حضرات لوگوں کو غیب کی خبریں بتلایا کرتے اور اس غرض سے بڑے بڑے لوگ دور دور سے ان کے آستانوں پر آتے اور گراں قدر نذرانے پیش کرتے تھے۔ اس سلسلہ میں آپ نے فرمایا جو شخص غیب کی خبریں بتلانے والے کے پاس جائے اور اس سے کچھ پوچھے تو اس کی چالیس دن تک نماز قبول نہیں ہوتی۔ (مسلم۔ کتاب السلام، باب تحریم الکھانۃ ورتیان الکھان بحوالہ کتاب التوحید باب ٢٦ ماجاء فی الکھان ونحوھم) نیز آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو کوئی کسی کاہن کے پاس جا کر دریافت کرے پھر اسے سچا سمجھے تو اس نے اس سے اظہار براءت کیا جو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل ہوا ہے (ابو داؤد۔ کتاب الطب باب فی الکاھن۔ باب الکھانۃ والتطیر)- ان احادیث سے از خود یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ غیب کی خبریں بتلانے والا خود کافر ہوتا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

قُلْ لَّآ اَمْلِكُ لِنَفْسِيْ نَفْعًا۔۔ : یعنی اللہ تعالیٰ کی مشیت سے جو کچھ ہونا ہے ہو رہا ہے، مجھ میں ذاتی طور پر یہ بھی قدرت و اختیار نہیں کہ میں اپنی جان سے کسی نقصان یا تکلیف کو روک سکوں، یا کچھ نفع حاصل کرسکوں۔ تو جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس یہ اختیار نہیں تو پھر وہ کون ہوگا جسے اللہ تعالیٰ نے یہ اختیار عطا فرمایا ہے۔ دیکھیے سورة فرقان (٣) اور یونس (١٠٦، ١٠٧) بعض لوگ کہتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے لیے واقعی اختیار نہیں رکھتے، مگر دوسرے سب لوگوں کے لیے نفع و ضرر کا اختیار رکھتے ہیں۔ اس کے لیے دیکھیے سورة جن (٢٠ تا ٢٢) ۔- وَلَوْ كُنْتُ اَعْلَمُ الْغَيْبَ : یعنی نہ میں غیب دان ہی ہوں، اگر ایسا ہوتا تو کتنے ہی فائدے ہیں جنھیں میں پیشگی سمیٹ لیتا اور کتنے ہی نقصانات ہیں جن سے قبل از وقت آگاہ ہونے کی بنا پر میں بچ جاتا۔ یہاں لفظ ” لو “ (اگر) سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) باوجود افضل المرسلین ہونے کے علم غیب نہیں رکھتے تھے، کیونکہ یہ صرف اللہ تعالیٰ ہی کی صفت ہے۔ دیکھیے سورة نمل (٦٥) اس کے باوجود بعض نادان آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عالم الغیب باور کرواتے ہیں، حالانکہ بعض جنگوں میں آپ کا چہرہ زخمی ہوا، دانت مبارک بھی شہید ہوا، چہرے میں خود کی کڑیاں چبھ گئیں، ہونٹ پھٹ گیا، گھوڑے سے گر کر زخمی ہوئے تو کتنے دن صاحب فراش رہے۔ عائشہ (رض) پر بہتان لگا تو پورا ایک مہینا آپ پریشان رہے، ایک یہودی عورت نے کھانے میں زہر ملا دیا، جسے کھانے سے آپ کے بعض صحابہ شہید بھی ہوگئے، خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس زہر کا اثر آخر تک محسوس کرتے رہے۔ یہ سب واقعات شاہد ہیں کہ ” اگر میں غیب جانتا ہوتا تو مجھے کوئی تکلیف نہ پہنچتی۔ “ اس مضمون کو تفصیل سے پڑھنے کے لیے تقویۃ الایمان شاہ اسماعیل (رح) اور تلاش حق از ارشاد اللہ مان صاحب کا مطالعہ فرمائیں۔ - اِنْ اَنَا اِلَّا نَذِيْرٌ وَّبَشِيْرٌ لِّقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ : اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء اور اولیاء کو جو اللہ تعالیٰ نے سب لوگوں سے بڑا بنایا ہے، سو ان میں بڑائی یہی ہوتی ہے کہ وہ اللہ کی راہ بتاتے ہیں اور اس بات میں کچھ ان کی بڑائی نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو عالم میں تصرف کی قدرت دے دی ہو کہ موت و حیات یا نفع و نقصان ان کے اختیار میں ہو، یا یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو غیب دانی دے دی ہو کہ جس کے احوال جب چاہیں معلوم کرلیں۔ اس آیت سے شرک کی جڑ کٹ گئی، جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جو تمام عالم کے سردار ہیں، اپنی جان کے نفع و نقصان کا اختیار نہ ہو، نہ غیب کی بات معلوم ہو تو کسی اور نبی یا ولی یا بزرگ یا فقیر یا جن یا فرشتے کو کیا قدرت ہے کہ کسی کو فائدہ یا نقصان پہنچائے، یا غیب کی کوئی بات بتائے، البتہ وحی کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ آپ کو جو بات بتادیتا وہ آپ کو معلوم ہوجاتی اور آپ لوگوں کو اس کی خبر دے دیتے۔ (وحیدی)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر :- آپ کہہ دیجئے کہ میں خود اپنی ذات خاص کے لئے ( بھی چہ جائے کہ دوسرے کے لئے) کسی نفع ( تکوینی کے حاصل کرنے) کا اختیار نہیں رکھتا اور نہ کسی ضرر ( تکوینی کے دفع کرنے) کا ( اختیار رکھتا ہوں) مگر اتنا ہی کہ جتنا اللہ تعالیٰ نے چاہا ہو ( کہ مجھ کو اختیار دے دیں اور جس امر میں اختیار نہیں دیا اس میں بعض اوقات منافع فوت ہوجاتے ہیں اور مضار واقع ہوجاتے ہیں ایک مقدمہ تو یہ ہوا) اور ( دوسرا مقدمہ یہ ہے کہ) اگر میں غیب کی باتیں ( امور اختیار کے متعلق) جانتا ہوتا تو میں ( اپنے لئے) بہت سے منافع حاصل کرلیا کرتا اور کوئی مضرت ہی مجھ پر واقع نہ ہوتی ( کیونکہ علم غیب کے سبب معلوم ہوجاتا کہ فلاں امر میرے لئے یقینا نافع ہوگا اس کو اختیار کرلیا کرتا اور فلاں امر میرے لئے یقینا مضر ہوگا اس سے احتراز کرتا اور اب چونکہ علم غیب نہیں اس لئے بعض اوقات نافع کا علم نہیں ہوتا کہ اس کو اختیار کروں اسی طرح مضر کا علم نہیں ہوتا کہ اس سے بچوں بلکہ گاہے بالعکس نافع کو مضر اور مضر کو نافع سمجھ لیا جاتا ہے، حاصل استدلال کا یہ ہوا کہ علم غیب کے لئے نفع و ضرر کا مالک ہونا لازم تھا، یہ مقدمہ ذکر میں موخر ہے اور لازم منتفی ہے یہ مقدمہ ذکر میں مقدم ہے پس ملزوم یعنی علم غیب منتفی ہے اور یہ مطلوب ہے، غرض میں ایسے امور کا علم نہیں رکھتا) میں تو محض ( احکام شرعیہ بتلا کر ثواب کی) بشارت دینے والا اور ( عذاب سے) ڈرانے والا ہوں ان لوگوں کو جو ایمان رکھتے ہیں ( خلاصہ یہ کہ نبوت کا اصلی مقصود امور تکوینیہ کا احاطہ نہیں اس لئے ان امور کا علم جن میں تعیین قیامت بھی داخل ہے نبی کو ملنا ضروری نہیں البتہ نبوت کا اصل مقصود امور تشریعیہ کا علم وافی ہے سو وہ مجھ کو حاصل ہے) وہ اللہ ایسا ( قادر اور منعم) ہے جس نے تم کو ایک تن واحد ( یعنی آدم (علیہ السلام) سے پیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑا بنایا ( مراد حوا جسکی کیفیت شروع تفسیر سورة نساء میں گزر چکی) تاکہ وہ اس اپنے جوڑے سے انس حاصل کرے ( پس جب وہ خالق بھی ہے اور محسن بھی تو عبادت اسی کا حق ہے) پھر ( اگے ان کی والاد بڑھی اور ان میں بھی میاں بی بی ہوئے لیکن ان میں بعض کی یہ حالت ہوئی ہے کہ) جب میاں نے بی بی سے قربت کی تو اس کو حمل رہ گیا ( جو اول اول) ہلکا سا ( رہا) سو وہ اس کو ( پیٹ میں) لئے ہوئے ( بےتکلف) چلتی پھرتی رہی پھر جب وہ ( حاملہ اس حمل کے بڑھ جانے سے) بوجھل ہوگئی ( اور دونوں میاں بی بی کو یقین ہوگیا کہ حمل ہے) تو ( اس وقت ان کو طرح طرح کے احتمالات و توہمات ہونے لگے جسیا کہ بعضے حمل میں خطرات پیش آتے ہیں اس لئے) دونوں میاں بی بی اللہ سے جو کہ ان کا مالک ہے دعا کرنے لگے کہ اگر آپ نے ہم کو صحیح سالم اولاد دے دی تو ہم خوب شکر گزرای کریں گے ( جیسا عام عادت ہے کہ مصیبت کے وقت اللہ تعالیٰ سے بڑے بڑے عہد و پیمان ہوا کرتے ہیں) سو جب اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو صحیح سالم اولاد دے دی تو اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی چیز میں وہ دونوں اللہ کے شریک قرار دینے لگے ( مختلف طور پر کسی نے اعتقاد سے کہ یہ اولاد فلاں زندہ یا مردہ نے دی ہے، کسی نے عمل سے کہ اس کے نام کی نذر و نیاز کرنے لگے یا بچہ کو لے جا کر اس کے سامنے اس کا ماتھا ٹیک دیا، یا قول سے کہ اس کی بندگی پر نام رکھ دیا جیسے عبد شمس یا بندہ علی وغیرہما، یعنی یہ حق تو تھا خدا کا جو کہ منعم اور خالق اور قادر و محسن ہے اور صرف کیا اس کو دوسرے معبودوں کے لئے) سو اللہ تعالیٰ پاک ہے ان کے شرک سے ( یہاں تک تو حق تعالیٰ کی صفات مذکور تھیں جو مقتضی ہیں اس کے استحقاق معبودیت کو، آگے آلہہ باطلہ کے نقائص کا ذکر ہے جو مقتضی ہیں ان کے عدم استحقاق معبودیت کو پس فرماتے ہیں کہ) کیا ( اللہ تعالیٰ کے ساتھ) ایسوں کو شریک ٹھہراتے ہیں جو کسی چیز کو بنا نہ سکیں اور ( بلکہ) وہ خود ہی بنائے جاتے ہوں ( چناچہ ظاہر ہے کہ بت پرست خود ان کو تراشتے تھے) اور ( کسی چیز کا بنانا تو بڑی بات ہے) وہ ( تو ایسے عاجز ہیں کہ اس سے آسان کام بھی نہیں کرسکتے مثلا) ان کو کسی قسم کی مدد ( بھی) نہیں دے سکتے، اور (اس سے بھی بڑھ کر یہ ہے کہ) وہ خود اپنی بھی مدد نہیں کرسکتے (اگر کوئی حادثہ ان کو پیش آجائے مثلا کوئی شخص ان کو توڑنے پھوڑنے ہی لگے) اور ( اس سے بھی بڑھ کر سنو کہ) اگر تم ان کو کوئی بات بتلانے کو پکارو تو تمہارے کہنے پر نہ چلیں ( اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں ایک یہ کہ تم ان کو پکارو کہ وہ تم کو کوئی بات بتلائیں تو تمہارا کہنا نہ کریں یعنی نہ بتلائیں اور دوسرے اس سے زیادہ یہ کہ تم ان کو پکارو کہ آؤ ہم تم کو کچھ بتلائیں تو تمہارے کہنے پر نہ چلیں یعنی تمہاری بتلائی ہوئی بات پر عمل نہ کرسکیں بہرحال) تمہارے اعتبار سے دونوں امر برابر ہیں خواہ تم ان کو پکارو ( وہ جب نہیں سنتے) اور یا تم خاموش رہو ( جب تو نہ سننا ظاہر ہی ہے، خلاصہ یہ ہے کہ جو کام سب سے سہل تر ہے کہ کوئی بات بتلانے کے لئے پکارے تو سن لینا وہ اسی سے عاجز ہیں تو جو اس سے مشکل ہے کہ اپنی حفاظت کریں اور پھر جو اس سے مشکل ہے کہ دوسروں کی امداد کرنا اور پھر ان سب سے جو دشوار تر ہے کہ کسی شئے کو پیدا کرنا ان سے تو بدرجہ اولی زیادہ تر عاجز ہوں گے پھر ایسے عاجز محتاج کب معبودیت کے لائق ہو سکتے ہیں) - معارف و مسائل :- پہلی آیت میں مشرکین اور عوام کے اس غلط عقیدہ کی تردید ہے جو ان لوگوں نے انبیاء (علیہم السلام) کے بارے میں قائم کر رکھا تھا کہ وہ غیب دان ہوتے ہیں، ان کا علم اللہ تعالیٰ کی طرح تمام کائنات کے ذرہ ذرہ پر حاوی ہوتا ہے، نیز یہ کہ وہ ہر نفع اور نقصان کے مالک ہوتے ہیں جس کو جو چاہیں نفع یا نقصان پہنچا سکتے ہیں۔- اور اسی عقیدہ کے سبب وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قیامت کی معین تاریخ بتلانے کا مطالبہ کرتے تھے جس کا ذکر اس سے پہلی آیت میں گزر چکا ہے۔ - اس آیت نے ان کے اس مشرکانہ عقیدہ کی تردید کرتے ہوئے بتلادیا کہ علم غیب اور تمام کائنات کے ذرہ ذرہ کا علم محیط صرف اللہ جل شانہ کی مخصوص صفت ہے اس میں کسی مخلوق کو شریک ٹھہرانا خواہ وہ فرشتہ ہو یا نبی و رسول شرک اور ظلم عظیم ہے، اسی طرح ہر نفع نقصان کا مالک ہونا صرف اللہ تعالیٰ ہی کی صفت خاص ہے اس میں کسی کو شریک ٹھہرانا بھی شرک ہے، جس کے مٹانے ہی کے لئے قرآن نازل ہوا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مبعوث ہوئے۔ - قرآن کریم نے بیشمار آیات میں بار بار اس کو واضح فرما دیا ہے کہ علم غیب اور علم محیط جس سے کوئی ذرہ چھپا نہ رہے یہ صرف اللہ جل شانہ کی صفت خاص ہے اسی طرح قدرت مطلقہ کہ ہر نفع نقصان قبضہ میں ہو یہ بھی صفت خاص ہے حق تعالیٰ شانہ کی، ان صفتوں میں غیر اللہ کو شریک قرار دینا شرک ہے۔ - اس آیت میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا گیا ہے کہ آپ اس کا اعلان کریں کہ میں اپنے نفس کے لئے بھی نفع نقصان کا مالک نہیں، دوسروں کے نفع نقصان کا تو کیا ذکر ہے۔- اسی طرح یہ بھی اعلان کردیں کہ میں عالم الغیب نہیں ہوں کہ ہر چیز کا علم ہونا میرے لئے ضروری ہو، اور اگر مجھے علم غیب ہوتا تو میں ہر نفع کی چیز کو ضرور حاصل کرلیا کرتا اور کوئی نفع میرے ہاتھ سے فوت نہ ہوتا، اور ہر نقصان کی چیز سے ہمیشہ محفوظ ہی رہتا اور کبھی کوئی نقصان مجھے نہ پہنچتا، حالانکہ یہ دونوں باتیں نہیں ہیں، بہت سے کام ایسے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو حاصل کرنا چاہا مگر حاصل نہیں ہوئے، اور بہت سی تکلیفیں اور مضرتیں ایسی ہیں جن سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بچنے کا ارادہ کیا مگر وہ مضرت و تکلیف پہنچ گئی، غزوہ حدیبیہ کے موقع پر آپ صحابہ کرام کے ساتھ احرام باندھ کر عمرہ کا ارادہ کرکے حدود حرم تک پہنچ گئے مگر حرم میں داخل اور عمرہ کی ادائیگی اس وقت نہ ہوسکی سب کو احرام کھول کر واپس ہو ناپڑا۔- اسی طرح غزوہ احد میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو زخم پہنچا اور مسلمانوں کو عارضی شکست ہوئی، اسی طرح کے اور بہت سے واقعات ہیں جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی میں معروف و مشہور ہیں۔ - اور شاید ایسے واقعات کے ظاہر کرنے کا مقصد ہی یہ ہو کہ لوگوں پر عملا یہ بات واضح کردی جائے کہ انبیاء (علیہم السلام) اگرچہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ مقبول اور افضل خلائق ہیں مگر پھر بھی وہ خدائی علم وقدرت کے مالک نہیں تاکہ لوگ اس غلط فہمی کے شکار نہ ہوجائیں جس میں عیسائی اور نصرانی مبتلا ہوگئے کہ اپنے رسول کو خدائی صفات کا مالک سمجھ بیٹھے اور اس طرح شرک میں مبتلا ہوگئے۔- اس آیت نے بھی یہ واضح کردیا کہ انبیاء (علیہم السلام) نہ قادر مطلق ہوتے ہیں نہ عالم الغیب بلکہ ان کو علم وقدرت کا اتنا ہی حصہ حاصل ہوتا ہے جتنا من جانب اللہ ان کو دے دیا جائے۔ - ہاں اس میں شک و شبہ نہیں کہ جو حصہ علم کا ان کو عطا ہوتا ہے وہ ساری مخلوقات سے بڑھا ہوا ہوتا ہے خصوصا ہمارے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اولین و آخرین کا علم عطا فرمایا گیا تھا، یعنی تمام انبیاء (علیہم السلام) کو جتنا علم دیا گیا تھا وہ سب اور اس سے بھی زیادہ آپ کو عطا فرمایا گیا تھا، اور اسی عطا شدہ علم کے مطابق آپ نے ہزاروں غیب کی باتوں کی خبریں دیں جن کی سچائی کا ہر عام و خاص نے مشاہدہ کیا، اس کی وجہ سے یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہزاروں لاکھوں غیب کی چیزوں کا علم عطا کیا گیا تھا مگر اس کو اصطلاح قرآن میں علم غیب نہیں کہہ سکتے اور اس کی وجہ سے رسول کو عالم الغیب نہیں کہا جاسکتا۔- آخر آیت میں ارشاد فرمایا (آیت) اِنْ اَنَا اِلَّا نَذِيْرٌ وَّبَشِيْرٌ لِّقَوْمٍ يُّؤ ْمِنُوْنَ ، یعنی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ بھی اعلان کردیں کہ میرا فریضہ منصبی صرف یہ ہے کہ میں بدکاروں کو عذاب سے ڈراؤں اور نیک لوگوں کو ثواب عظیم کی خوشخبری سناؤں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قُلْ لَّآ اَمْلِكُ لِنَفْسِيْ نَفْعًا وَّلَا ضَرًّا اِلَّا مَا شَاۗءَ اللہُ۝ ٠ ۭ وَلَوْ كُنْتُ اَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْـتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ ۝ ٠ ۚ ۖ ۛ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوْۗءُ۝ ٠ ۚۛ اِنْ اَنَا اِلَّا نَذِيْرٌ وَّبَشِيْرٌ لِّقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ۝ ١٨٨ ۧ- ملك ( مالک)- فالمُلْك ضبط الشیء المتصرّف فيه بالحکم، والمِلْكُ کالجنس للمُلْكِ ، فكلّ مُلْك مِلْك، ولیس کلّ مِلْك مُلْكا . قال : قُلِ اللَّهُمَّ مالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشاءُ [ آل عمران 26] ، وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً وَلا يَمْلِكُونَ مَوْتاً وَلا حَياةً وَلا نُشُوراً [ الفرقان 3] ، وقال :- أَمَّنْ يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [يونس 31] ، قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا[ الأعراف 188] وفي غيرها من الآیات - ملک کے معنی زیر تصرف چیز پر بذیعہ حکم کنٹرول کرنے کے ہیں اور ملک بمنزلہ جنس کے ہیں لہذا ہر ملک کو ملک تو کہہ سکتے ہیں لیکن ہر ملک ملک نہیں کہہ سکتے قرآن میں ہے : ۔ وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً وَلا يَمْلِكُونَ مَوْتاً وَلا حَياةً وَلا نُشُوراً [ الفرقان 3] اور نہ نقصان اور نفع کا کچھ اختیار رکھتے ہیں اور نہ مرنا ان کے اختیار میں ہے اور نہ جینا اور نہ مر کر اٹھ کھڑے ہونا ۔ اور فرمایا : ۔ أَمَّنْ يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [يونس 31] یا تمہارے کانوں اور آنکھوں کا مالک کون ہے قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا[ الأعراف 188] کہ میں اپنے فائدے اور نقصان کا کچھ اختیار نہیں رکھتا علی بذلقیاس بہت سی آیات ہیں - نفع - النَّفْعُ : ما يُسْتَعَانُ به في الوُصُولِ إلى الخَيْرَاتِ ، وما يُتَوَصَّلُ به إلى الخَيْرِ فهو خَيْرٌ ، فَالنَّفْعُ خَيْرٌ ، وضِدُّهُ الضُّرُّ. قال تعالی: وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً [ الفرقان 3] - ( ن ف ع ) النفع - ہر اس چیز کو کہتے ہیں جس سے خیرات تک رسائی کے لئے استعانت حاصل کی جائے یا وسیلہ بنایا جائے پس نفع خیر کا نام ہے اور اس کی ضد ضر ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَلا يَمْلِكُونَ لِأَنْفُسِهِمْ ضَرًّا وَلا نَفْعاً [ الفرقان 3] اور نہ اپنے نقصان اور نفع کا کچھ اختیار رکھتے ہیں ۔- ضر - الضُّرُّ : سوءُ الحال، إمّا في نفسه لقلّة العلم والفضل والعفّة، وإمّا في بدنه لعدم جارحة ونقص، وإمّا في حالة ظاهرة من قلّة مال وجاه، وقوله : فَكَشَفْنا ما بِهِ مِنْ ضُرٍّ [ الأنبیاء 84] ، فهو محتمل لثلاثتها،- ( ض ر ر) الضر - کے معنی بدحالی کے ہیں خواہ اس کا تعلق انسان کے نفس سے ہو جیسے علم وفضل اور عفت کی کمی اور خواہ بدن سے ہو جیسے کسی عضو کا ناقص ہونا یا قلت مال وجاہ کے سبب ظاہری حالت کا برا ہونا ۔ اور آیت کریمہ : فَكَشَفْنا ما بِهِ مِنْ ضُرٍّ [ الأنبیاء 84] اور جوان کو تکلیف تھی وہ دورکردی ۔ میں لفظ ضر سے تینوں معنی مراد ہوسکتے ہیں - غيب - الغَيْبُ : مصدر غَابَتِ الشّمسُ وغیرها : إذا استترت عن العین، يقال : غَابَ عنّي كذا . قال تعالی: أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل 20]- ( غ ی ب ) الغیب ( ض )- غابت الشمس وغیر ھا کا مصدر ہے جس کے معنی کسی چیز کے نگاہوں سے اوجھل ہوجانے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ غاب عنی کذا فلاں چیز میری نگاہ سے اوجھل ہوئی ۔ قرآن میں ہے : أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل 20] کیا کہیں غائب ہوگیا ہے ۔ اور ہر وہ چیز جو انسان کے علم اور جو اس سے پودشیدہ ہو اس پر غیب کا لفظ بولا جاتا ہے - خير - الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه :- الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] ،- ( خ ی ر ) الخیر - ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ - اور خیر دو قسم پر ہے - ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔- مسس - المسّ کاللّمس لکن اللّمس قد يقال لطلب الشیء وإن لم يوجد - والمسّ يقال في كلّ ما ينال الإنسان من أذى. نحو قوله : وَقالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّاماً مَعْدُودَةً [ البقرة 80] ،- ( م س س ) المس کے - معنی چھونا کے ہیں اور لمس کے ہم معنی ہیں لیکن گاہے لمس کیس چیز کی تلاش - کرنے کو بھی کہتے ہیں اور اس میں یہ ضروری نہیں کہ وہ چیز مل جل بھی جائے ۔- اور مس کا لفظ ہر اس تکلیف کے لئے بول دیا جاتا ہے جو انسان تو پہنچے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَقالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّاماً مَعْدُودَةً [ البقرة 80] اور کہتے ہیں کہ دوزخ کی آگ ہمیں ۔۔ چھوہی نہیں سکے گی - ويقال : سَاءَنِي كذا، وسُؤْتَنِي، وأَسَأْتَ إلى فلان، قال : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک 27] ، وقال : لِيَسُوؤُا وُجُوهَكُمْ [ الإسراء 7] - ساء - اور ساءنی کذا وسؤتنی کہاجاتا ہے ۔ اور اسات الی ٰ فلان ( بصلہ الی ٰ ) بولتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک 27] تو کافروں کے منہ برے ہوجائیں گے ۔ لِيَسُوؤُا وُجُوهَكُمْ [ الإسراء 7] تاکہ تمہارے چہروں کو بگاڑیں ۔ - النذیر - والنَّذِيرُ : المنذر، ويقع علی كلّ شيء فيه إنذار، إنسانا کان أو غيره . إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ نوح 2] - ( ن ذ ر ) النذیر - النذیر کے معنی منذر یعنی ڈرانے والا ہیں ۔ اور اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس میں خوف پایا جائے خواہ وہ انسان ہو یا کوئی اور چیز چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ [ الأحقاف 9] اور میرا کام تو علانیہ ہدایت کرنا ہے ۔ - قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11]

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٨٨) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ اہل مکہ سے فرما دیجیے کہ میں نفع حاصل کرنے اور نقصان کو دور کرنے کی طاقت نہیں رکھتا مگر جس قدر اللہ تعالیٰ مجھے نفع ونقصان پہنچانا چاہے۔- اور اگر مجھے اس بات کا پتہ ہوتا کہ تمہارے اوپر عذاب کب نازل ہوگا تو اس کے شکریہ میں بہت سافائدہ حاصل کرلیتا اور تمہاری وجہ سے مجھے کسی قسم کا غم و پریشانی نہ ہوتی۔- اور ایک تفسیر یہ بھی کی گئی ہے کہ اگر مجھے غیب کی باتیں معلوم ہوتیں کہ میں کب انتقال کروں گا تو بہت ہی زیادہ نیکیاں کرلیتا اور مجھے کسی قسم کی پریشانی لاحق نہ ہوتی، یا یہ کہ مجھے اگر یہ معلوم ہوتا کہ قحط کب ہوگا اور اشیا کی گرانی کس وقت ہوگی تو میں بہت سی نعمتوں کو جمع کرلیتا اور مجھے کسی قسم کی تکلیف نہ پہنچتی، میں محض جنت کی بشارت دینے والا اور دوزخ سے ڈرانے والا ہوں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٨٨ (قُلْ لآَّ اَمْلِکُ لِنَفْسِیْ نَفْعًا وَّلاَ ضَرًّا الاَّ مَا شَآء اللّٰہُ ط) ۔ - آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انہیں بتائیں کہ میرے پاس علم غیب نہیں ہے۔ جیسا کہ سورة الانعام کی آیت ٥٠ میں فرمایا گیا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہہ دیجیے کہ میں نہ تم سے یہ کہتا ہوں کہ اللہ کے خزانے میرے قبضۂ قدرت میں ہیں ‘ نہ میں علم غیب جانتا ہوں اور نہ میں یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں۔ - (وَلَوْ کُنْتُ اَعْلَمُ الْغَیْبَ لاَسْتَکْثَرْتُ مِنَ الْخَیْرِج وَمَا مَسَّنِیَ السُّوْٓءُ ج) اور اگر مجھے علم غیب حاصل ہوتا تو میں بہت سا خیر جمع کرلیتا اور مجھے کبھی کوئی تکلیف نہ آتی۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :145 مطلب یہ ہے کہ قیامت کی ٹھیک تاریخ وہی بتا سکتا ہے جسے غیب کا علم ہو ، اور میرا حال یہ ہے کہ میں کل کے متعلق بھی نہیں جانتا کہ میرے ساتھ یا میرے بال بچوں کے ساتھ کیا کچھ پیش آنے والا ہے ۔ تم خود سمجھ سکتے ہو کہ اگر یہ علم مجھے حاصل ہوتا تو میں کتنے نقصانات سے قبل از وقت آگاہ ہو کر بچ جاتا اور کتنے فائدے محض پیشگی علم کی بدولت اپنی ذات کے لیے سمیٹ لیتا پھر یہ تمہاری کتنی بڑی نادانی ہے کہ تم مجھ سے پوچھتے ہو کہ قیامت کب آئے گی ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

96: یعنی اگر مجھے غیب کی ساری باتیں معلوم ہوجایا کرتیں تو میں دنیا کے سارے فائدے اکھٹے کرلیتا اور کبھی مجھے کوئی تکلیف نہ پہنچتی ؛ کیونکہ ہر کام کا انجام مجھے پہلے سے معلوم ہوجاتا، حالانکہ واقعہ ایسا نہیں ہے، اس سے معلوم ہوا کہ مجھے غیب کی ساری باتوں کا علم نہیں دیا گیا، البتہ جو باتیں وحی کے ذریعے بتادیتے ہیں ان کا مجھے بھی علم ہوجاتا ہے، یہ ان کافروں کی بھی تردید ہے جو پیغمبر کیلئے ضروری سمجھتے تھے کہ اسے خدائی کے اختیارات حاصل ہوں اور ان لوگوں کو بھی تنبیہ ہے جو اپنے پیغمبروں کی تعظیم میں حد سے نکل کر انہیں خدائی کا درجہ دے دیتے ہیں، اور جس شرک کو مٹانے کے لئے انبیا کرام علیہم السلام تشریف لائے تھے ان کی تعظیم کے نام پر اسی شرک کا ارتکاب کرنے لگتے ہیں۔