ایک ہی باپ ایک ہی ماں اور تمام نسل آدم تمام انسانوں کو اللہ تعالیٰ نے صرف حضرت آدم علیہ السلام سے ہی پیدا کیا ۔ انہی سے ان کی بیوی حضرت حوا کو پیدا کیا پھر ان دونوں سے نسل انسان جاری کی ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّاُنْثٰى وَجَعَلْنٰكُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَاۗىِٕلَ لِتَعَارَفُوْا ۭ اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَلِيْمٌ خَبِيْرٌ 13 ) 49- الحجرات:13 ) لوگو ہم نے تمہیں ایک ہی مرد و عورت سے پیدا کیا ہے پھر تمہارے کنبے اور قبیلے بنا دیئے تاکہ آپس میں ایک وسرے کو پہچانتے رہو ۔ اللہ کے ہاں سب سے زیادہ ذی عزت وہ ہے جو پرہیزگاری میں سب سے آگے ہے ۔ سورۃ نساء کے شروع میں ہے اے لوگو اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تم سب کو ایک ہی شخص یعنی حضرت آدم سے پیدا کیا ہے انہی سے ان کی بیوی کو پیدا کیا پھر ان دونوں میاں بیوی سے بہت سے مرد و عورت پھیلا دیئے ۔ یہاں فرماتا ہے کہ انہی سے ان کی بیوی کو بنایا تاکہ یہ آرام اٹھائیں چنانچہ ایک اور آیت میں ہے ( لتسکنو ا الیھا وجعل بینکم مودۃ ورحمتہ ) لوگو یہ بھی اللہ کی ایک مہربانی ہے کہ اس نے تمہارے لئے تمہاری بیویاں بنا دیں تاکہ تم ان سے سکون و آرام حاصل کرو اور اس نے تم میں باہم محبت و الفت پیدا کر دی ۔ پس یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے چاہت ہے جو میاں بیوی میں وہ پیدا کر دیتا ہے ۔ اسی لئے جادوگروں کی برائی بیان کرتے ہوئے قرآن نے فرمایا کہ وہ اپنی مکاریوں سے میاں بیوی میں جدائی ڈلوا دیتے ہیں ۔ عورت مرد کے ملنے سے بحکم الٰہی عورت کو حمل ٹھہر جاتا ہے جب تک وہ نطفے ، خون اور لوتھڑے کی شکل میں ہوتا ہے ہلکا سا رہتا ہے وہ برابر اپنے کام کاج میں آمد و رفت میں لگی رہتی ہے کوئی ایسی زیادہ تکلیف اور بار نہیں معلوم ہوتا اور اندر ہی اندر وہ برابر بڑھتا رہتا ہے اسے تو یونہی سا کچھ وہم کبھی ہوتا ہے کہ شاید کچھ ہو ۔ کچھ وقت یونہی گذر جانے کے بعد بوجھ معلوم ہونے لگتا ہے حمل ظاہر ہو جاتا ہے بچہ پیٹ میں بڑا ہو جاتا ہے طبیعت تھکنے لگتی ہے اب ماں باپ دونوں اللہ سے دعائیں کرنے لگتے ہیں کہ اگر وہ ہمیں صحیح سالم بیٹا عطا فرمائے تو ہم شکر گذاری کریں گے ۔ ڈر لگتا ہے کہ کہیں کچھ اور بات نہ ہو جائے ۔ اب جبکہ اللہ تعالیٰ نے مہربانی فرمائی اور صحیح سالم انسانی شکل و صورت کا بچہ عطا فرمایا تو اللہ کے ساتھ شرک کرنے لگتے ہیں ۔ مفسرین نے اس جگہ بہت سے آثار و احادیث بیان کئے ہیں جنہیں میں یہاں نقل کرتا ہوں اور ان میں جو بات ہے وہ بھی بیان کروں گا پھر جو بات صحیح ہے اسے بتاؤں گا ان شاء اللہ ۔ مسند احمد میں ہے کہ جب حضرت حوا کو اولاد ہوئی تو ابلیس گھومنے لگا ان کے بچے زندہ نہیں رہتے تھے شیطان نے سیکھایا کہ اب اس کا نام عبدالحارث رکھ دے تو یہ زندہ رہے گا چنانچہ انہوں نے یہی کیا اور یہی ہوا اور اصل میں یہ شیطانی حرکت تھی اور اسی کا حکم تھا ۔ امام ترمذی نے بھی اسے وارد کیا ہے پھر فرمایا ہے حسن غریب ہے ، میں کہتا ہوں اس حدیث میں تین علتیں ہیں ایک تو یہ کہ اس کے ایک راوی عمر بن ابراہیم مصری کی بابت امام ابو حاتم رازی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ راوی ایسا نہیں کہ اس سے حجت پکڑی جائے گو امام ابن معین نے اس کی توثیق کی ہے لیکن ابن مردویہ نے اسے معمر سے اس نے اپنے باپ سے اس نے سمرہ سے مرفوعاً روایت کیا ہے واللہ اعلم دوسرے یہ کہ یہی روایت موقوفاً حضرت سمرہ کے اپنے قول سے مروی ہوئی ہے جو کہ مرفوع نہیں ابن جرید میں خود حضرت عمرہ بن جندب کا اپنا فرمان ہے کہ حضرت آدم نے اپنے لڑکے کا نام عبدالحارث رکھا ۔ تیسرے اس آیت کی تفسیر اس کے راوی حضرت حسن سے بھی اس کے علاوہ بھی مروی ہے ۔ ظاہر ہے کہ اگر یہ مرفوع حدیث ان کی روایت کردہ ہوتی تو یہ خود اس کے خلاف تفسیر نہ کرتے ۔ چنانچہ ابن جرید میں ہے حضرت حسن فرماتے ہیں یہ حضرت آدم کا واقعہ نہیں بلکہ بعض مذاہب والوں کا واقعہ ہے اور روایت میں آپ کا یہ فرمان منقول ہے کہ اس سے مراد بعض مشرک انسان ہیں جو ایسا کرتے ہیں ، فرماتے ہیں کہ یہ یہود و نصاریٰ کا فعل بیان ہوا ہے کہ اپنی اولادوں کو اپنی روش پر ڈال لیتے ہیں ۔ یہ سب اسنادیں حضرت حسن تک بالکل صحیح ہیں اور اس آیت کو جو کچھ تفسیر کی گئی ہے اس میں سب سے بہتر تفسیر یہی ہے ۔ خیر مقصد یہ تھا کہ اتنا بڑا متقی اور پرہیزگار آدمی ایک آیت کی تفسیر میں ایک مرفوع حدیث قول پیغمبر روایت کرے پھر اس کے خلاف خود تفسیر کرے یہ بالکل ان ہونی بات ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ حدیث مرفوع نہیں بلکہ وہ حضرت سمرہ کا اپنا قول ہے ۔ اس کے بعد یہ بھی خیال ہوتا ہے کہ بہت ممکن ہے کہ حضرت سمرہ نے اسے ہل کتاب سے ماخوذ کیا ہو جیسے کعب و ہب وغیرہ جو مسلمان ہوگئے تھے ان شاء اللہ اس کا بیان بھی عنقریب ہوگا بہر صورت اس روایت کا مرفوع ہونا ہم تسلیم نہیں کرتے واللہ اعلم ۔ اب اور آثار جو اس بارے میں ہیں انہیں سنئے ۔ ابن عباس کہتے ہیں حضرت حوا کے جو بچے پیدا ہوتے تھے ان کا نام عبداللہ عبید اللہ وغیرہ رکھتی تھیں وہ بچے فوت ہو جاتے تھے پھر ان کے پاس ابلیس آیا اور کہا اگر تم کوئی اور نام رکھو تو تمہارے بچے زندہ رہیں گے چنانچہ ان دونوں نے یہی کیا جو بچہ پیدا ہوا اس کا نام عبدالحارث رکھا اس کا بیان ان آیتوں میں ہے اور روایت میں ہے کہ ان کے دو بجے اس سے پہلے مر چکے تھے اب حالت حمل میں شیطان ان کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ تمہیں معلوم بھی ہے کہ تمہارے پیٹ میں کیا ہے؟ ممکن ہے کوئی جانور ہی ہو ممکن ہے صحیح سالم نہ پیدا ہو ممکن ہے اگلوں کی طرح یہ بھی مر جائے تم میری مان لو اور اب جو بچہ پیدا ہو اس کا نام میرے نام پر رکھو تو انسان ہوگا صحیح سالم ہوگا زندہ رہے گا یہ بھی اس کے بہکاوے میں آ گئے اور عبدالحارث نام رکھا ۔ اسی کا بیان ان آیتوں میں ہے اور روایت میں ہے کہ پہلی دفعہ حمل کے وقت یہ آیا اور انہیں ڈرایا کہ میں وہی ہوں جس نے تمہیں جنت سے نکلویا اب یا تم میری اطاعت کرو ۔ ورنہ میں اسے یہ کر ڈالوں گا وہ کر ڈالوں گا وغیرہ ہر چند ڈرایا مگر انہوں نے اس کی اطاعت نہ کی ۔ اللہ کی شان وہ بچہ مردہ پیدا ہوا دوبارہ حمل ٹھہرا پھر یہ ملعون پہنچا اور اسی طرح خوف زدہ کرنے لگا اب بھی انہوں نے اس کی اطاعت نہ کی چنانچہ یہ دوسرا بچہ بھی مردہ ہوا ۔ تیسرے حمل کے وقت یہ خبیث پھر آیا اب کی مرتبہ اولاد کی محبت میں آ کر انہوں نے اس کی مان لی اور اس کا نام عبدالحارث رکھا اسی کا بیان ان آیتوں میں ہے ۔ ابن عباس سے اس اثر کو لے کر ان کے شاگردوں کی ایک جماعت نے بھی یہی کہا ہے جیسے حضرت مجاہد حضرت سعید بن جبیر حضرت عکرمہ اور دوسرے طبقے میں سے قتادہ سدی وغیرہ اسی طرح سلف سے خلف تک بہت سے مفسرین نے اس آیت کی تفسیر میں یہی کہا ہے ۔ لیکن ظاہر یہ ہے کہ یہ اثر اہل کتاب سے لیا گیا ہے ۔ اس کی بڑی دلیل یہ ہے کہ ابن عباس اسے ابی ابن کعب سے روایت کرتے ہیں جیسے کہ ابن ابی ہاتم میں ہے پس ظاہر ہے کہ یہ اہل کتاب کے آثار سے ہے ۔ جن کی بابت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ان کی باتوں کو نہ سچی کہو نہ جھوٹی ۔ ان کی روایتیں تین طرح کی ہیں ۔ ایک تو وہ جن کی صحت ہمارے ہاں کسی آیت یا حدیث سے ہوتی ہے ۔ ایک وہ جن کی تکذیب کسی آیت یا حدیث سے ہوتی ہو ۔ ایک وہ جس کی بابت کوئی ایسا فیصلہ ہمارے دین میں نہ ملے تو بقول حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس روایت کے بیان میں تو کوئی حرج نہیں لیکن تصدیق تکذیب جائز نہیں ۔ میرے نزدیک تو یہ اثر دوسری قسم کا ہے یعنی ماننے کے قابل نہیں اور جن صحابہ اور تابعین سے یہ مروی ہے انہوں نے اسے تیسری قسم کا اپنی اولاد کے معاملے میں اللہ کے ساتھ کرنے کا بیان ان آیتوں میں ہے نہ کہ حضرت امام حسن بصری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مشرکوں کا اپنی اولاد کے معاملے میں اللہ کے ساتھ کرنے کا بیان ان آیتوں میں ہے نہ کہ حضرت آدم و حوا کا ۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ اس شرک سے اور ان کے شریک ٹھہرانے سے بلند و بالا ہے ان آیتوں میں یہ ذکر اور ان سے پہلے آدم و حوا کا ذکر مثل تمہید کے ہے کہ ان اصلی ماں باپ کا ذکر کر کے پھر اور ماں باپوں کا ذکر ہوا اور ان ہی کا شرک بیان ہوا ۔ ذکر شخص سے ذکر جنس کی طرف استطراد کے طور پر جیسے آیت ( ولقد زینا السماء الدنیا بمصابیع ) میں ہے یعنی ہم نے دنیا کے آسمان کو ستاروں سے زینت دی اور انہیں شیطانوں پر انگارے برسانے والا بنایا اور یہ ظاہر ہے کہ جو ستارے زینت کے ہیں وہ جھڑتے نہیں ان سے شیطانوں کو مار نہیں پڑتی ۔ یہاں بھی استطراد تاروں کی شخصیت سے تاروں کی جنس کی طرف ہے اس کی اور بھی بہت سی مثالیں قرآن کریم میں موجود ہیں ، واللہ اعلم ۔
189۔ 1 ابتدا یعنی حضرت آدم (علیہ السلام) سے۔ اسی لئے انسان اول اور ابو البشر کہا جاتا ہے۔ 189۔ 2 اس سے مراد حضرت حوا ہیں، جو حضرت آدم (علیہ السلام) کی زوج بنیں۔ ان کی تخلیق حضرت آدم (علیہ السلام) سے ہوئی، جس طرح کہ منھا کی ضمیر سے، جو نفس واحدۃ کی طرف راجع ہے اور واضح ہے (مزید دیکھئے سورت نساء کا حاشیہ) 189۔ 3 یعنی اس سے اطمینان و سکون حاصل کرے۔ اس لئے کہ ایک جنس اپنے ہی ہم جنس سے صحیح معنوں میں مانوس اور قریب ہوسکتی ہے جو سکون حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے۔ قربت کے بغیر یہ ممکن ہی نہیں۔ دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (وَمِنْ اٰيٰتِهٖٓ اَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوْٓا اِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَّوَدَّةً وَّرَحْمَةً ) 30 ۔ الروم :21) اللہ کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے تمہارے لئے تم ہی میں سے (یا تمہاری جنس ہی میں سے) جوڑے پیدا کئے، تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو اور تمہارے دل میں اس نے پیار محبت رکھ دی یعنی اللہ نے مرد اور عورت دونوں کے اندر ایک دوسرے کے جذبات اور کشش رکھی ہے، فطرت کے یہ تقاضے وہ جوڑا بن کر پورا کرتے ہیں اور ایک دوسرے سے قرب و انس حاصل کرتے ہیں۔ چناچہ یہ واقعہ ہے کہ جو باہمی پیار میاں بیوی کے درمیان ہوتا ہے وہ دنیا میں کسی اور کے ساتھ نہیں ہوتا۔ 189۔ 4 یعنی یہ نسل انسانی اس طرح بڑھی اور آگے چل کر جب ان میں سے ایک زوج یعنی میاں بیوی نے ایک دوسرے سے قربت کی۔ تَغشَّاھَا کے معنی بیوی سے ہمبستری۔ یعنی وطی کرنے کے لئے ڈھانپا۔ 189۔ 5 یعنی حمل کے ابتدائی ایام میں حتٰی کہ نطفے سے عَلَقَۃِاور عَلَقَۃ، ُ سے مُضَغَۃ، ُ بننے تک، حمل خفیف رہتا ہے محسوس نہیں ہوتا اور عورت کو زیادہ گرانی بھی نہیں ہوتی۔ 189۔ 6 بوجھل ہوجانے سے مراد بچہ پیٹ میں بڑا ہوجاتا ہے تو جوں جوں ولادت کا وقت قریب آتا جاتا ہے، والدین کے دل میں خطرات اور توہمات پیدا ہوتے جاتے ہیں (بالخصوص جب عورت کو اٹھرا کی بیماری ہو تو انسانی فطرت ہے کہ خطرات میں وہ اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے، چناچہ وہ دونوں اللہ سے دعائیں کرتے ہیں اور شکر گزاری کا عہد کرتے ہیں۔
هُوَ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ ۔۔ : ایک جان، یعنی آدم (علیہ السلام) سے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے سورة نساء کی پہلی آیت۔ - لِيَسْكُنَ اِلَيْهَا ۚ فَلَمَّا تَغَشّٰىهَا ۔۔ : معلوم ہوا میاں بیوی کے تعلق کا اصل سکون و راحت ہے۔ دیکھیے سورة روم (٢١) ” فَلَمَّا تَغَشّٰىهَا “ جس مقصد کے لیے قرآن مجید نے یہ الفاظ استعمال فرمائے ہیں حقیقت یہ ہے کہ ان سے بڑھ کر ادب، حیا، پردے اور پاکیزگی کے ساتھ وہ مطلب ادا کرنے والے اور لفظ ملنا مشکل ہیں۔ ” صَالِحًا “ یعنی صحیح و سالم بچہ، جس میں کوئی جسمانی نقص نہ ہو۔ - اس آیت کی صحیح تفسیر جسے حافظ ابن کثیر اور دوسرے محققین نے اختیار فرمایا ہے، وہ ہے جو حسن بصری (رض) سے صحیح سند کے ساتھ ثابت ہے کہ بیشک شروع میں بطور تمہید آدم و حوا ( علیہ السلام) کا ذکر ہے، مگر اس کے بعد ” فَلَمَّا تَغَشّٰىهَا “ سے سلسلۂ کلام ان کی اولاد میں سے مشرکین کی طرف منتقل ہوگیا ہے اور اس کی مثالیں قرآن مجید میں موجود ہیں جن میں فرد کے ذکر سے سلسلۂ کلام جنس کی طرف منتقل ہوگیا ہے۔ اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ بعد میں (فَتَعٰلَى اللّٰهُ عَمَّا يُشْرِكُوْنَ ) وغیرہ یعنی تمام آیات میں آخر تک جمع کے الفاظ استعمال ہوئے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان سے جنس آدم مراد ہے۔ آدم (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے پیغمبر ہو کر شرک کا ارتکاب کیسے کرسکتے ہیں ؟ بہت سے مفسرین نے ان سے مراد آدم اور حوا ( علیہ السلام) لیے ہیں، ان کی بنیاد اس روایت پر ہے جو سمرہ (رض) سے ترمذی اور حاکم وغیرہ میں مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” جب حوا نے بچہ جنا تو ابلیس ان کے پاس آیا، ان کا کوئی لڑکا زندہ نہیں رہتا تھا۔ ابلیس کہنے لگا : ” اس کا نام عبد الحارث رکھو تو یہ زندہ رہے گا۔ “ چناچہ انھوں نے بچے کا نام عبد الحارث رکھا اور وہ زندہ بچ گیا۔ یہ سب کچھ شیطان کے اشارے سے تھا۔ “ لیکن حافظ ابن کثیر نے اس روایت کو ضعیف اور اسرائیلیات سے ماخوذ قرار دیا ہے اور اس کے ضعف کے تین اسباب بیان فرمائے ہیں، خصوصاً اس لیے بھی کہ اس میں شرک کی نسبت اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ نبی آدم (علیہ السلام) کی طرف کی گئی ہے۔ شیخ ناصر الدین البانی (رض) نے بھی سلسلہ ضعیفہ (٣٤٢) میں اس روایت کو ضعیف کہا ہے۔ اس روایت کی سند میں موجود ایک راوی حسن بصری (رض) نے وہ تفسیر فرمائی جو اوپر گزری اور صحیح سند کے ساتھ ان سے تفسیر طبری وغیرہ میں مروی ہے، اگر وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس روایت کو صحیح سمجھتے تو خود اس کے خلاف ہرگز تفسیر نہ فرماتے۔ اس لیے وہی تفسیر درست ہے۔ ہمارے استاذ شیخ محمد عبدہ (رض) ابن کثیر (رض) وغیرہ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ اگر یہ سارا قصہ آدم و حوا ( علیہ السلام) کے متعلق ہی تسلیم کرلیا جائے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ ” جَعَلَا لَهٗ شُرَكَاۗءَ “ میں استفہام انکاری ہے، یعنی جب اللہ تعالیٰ نے انھیں تندرست بچہ عطا کیا تو کیا آدم وحوا نے شرک کیا تھا ؟ جیسا کہ مشرکین عرب ان کی طرف شرک کی نسبت کرتے ہیں، یعنی نہیں۔ یہ تاویل بھی درست ہے، کیونکہ یہاں تک تثنیہ کی ضمیریں ہیں، آگے جمع کے صیغے کے ساتھ مشرکین پر رد ہے۔ - فَتَعٰلَى اللّٰهُ عَمَّا يُشْرِكُوْنَ : اس سے مراد بالاتفاق کفار عرب ہیں، جیسا کہ بعد والی آیات سے ثابت ہو رہا ہے، یعنی جب اولاد کی امید ہوتی ہے تو مشرکین اللہ سے تندرست اولاد عطا کرنے کی دعا کرتے اور شکر گزار ہونے کا وعدہ کرتے ہیں، مگر جب ٹھیک ٹھاک تندرست اولاد عطا ہوجاتی ہے تو اسے غیر اللہ کی دین قرار دے دیتے ہیں، کوئی اسے عبد العزیٰ کہتا ہے، کوئی عبد المطلب، کوئی عبد ود اور کوئی عبد یغوث، یا کسی مردے کے نام کی نذر و نیاز دیتے ہیں، یا شکریہ ادا کرنے کے لیے بچے کو کسی قبر پر لے جا کر اس کا ماتھا وہاں ٹکاتے ہیں کہ ان کے بزرگوں کے طفیل یہ بچہ ملا ہے۔ یہ سب صورتیں اللہ کا شریک ٹھہرانے کی ہیں جو صرف مشرکین عرب ہی میں نہیں تھیں بلکہ مسلمان کہلانے والے بہت سے لوگوں میں اب بھی عام ہیں، چناچہ وہ بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان کے مطابق اللہ کو سب سے پیارے دو نام عبداللہ یا عبد الرحمن یا اس سے ملتے جلتے نام یا شرک سے پاک نام رکھنے کے بجائے نبی بخش، حسین بخش، پیراں دتہ، عبد النبی، عبد الرسول اور بندۂ علی وغیرہ نام رکھتے ہیں۔ پھر وہ کسی کو کسی آستانے کا فقیر بنا دیتے ہیں، کسی کو کسی قبر کا مجاور بنا دیتے ہیں۔ کوئی اپنا نام سگ دربار غوثیہ رکھ لیتا ہے، کوئی سگ رسول یا سگ مدینہ۔ [ إِنَّا لِلّٰہِ وَ إِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ ]
دوسری آیت میں عقیدہ توحید کا ذکر ہے جو اسلام کا سب سے بڑا بنیادی عقیدہ ہے اور اس کے ساتھ شرک کے باطل اور نامعقول ہونے کا بیان کسی قدر تفصیل کے ساتھ آیا ہے۔ - شروع آیت میں حق تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ کا ایک مظہر حضرت آدم و حواء کی پیدائش سے اس طرح بیان فرمایا (آیت) هُوَ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّجَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا لِيَسْكُنَ اِلَيْهَا، یعنی اللہ تعالیٰ ہی کی شان ہے جس نے سارے بنی آدم کو ایک ذات آدم سے پیدا کیا اور انہیں سے ان کی بی بی حضرت حواء کو پیدا کیا جس کا مقصد یہ تھا کہ آدم (علیہ السلام) کو ایک ہم جنس ہم دم کے ذریعہ سکون حاصل ہو۔ - اللہ تعالیٰ کی اس صنعت عجیبہ کا تقاضہ یہی تھا کہ تمام اولاد آدم ہمیشہ اس کی شکر گزار ہوتی اور کسی مخلوق کو اس کی صفات کاملہ میں شریک نہ ٹھہراتی، مگر غفلت شعار انسان نے معاملہ اس کے خلاف کیا جس کا بیان اسی آیت کے دوسرے جملہ اور بعد کی آیت میں اس طرح فرمایا :- (آیت) فَلَمَّا تَغَشّٰىهَا حَمَلَتْ حَمْلًا خَفِيْفًا فَمَرَّتْ بِهٖ ۚ فَلَمَّآ اَثْقَلَتْ دَّعَوَا اللّٰهَ رَبَّهُمَا لَىِٕنْ اٰتَيْتَنَا صَالِحًا لَّنَكُوْنَنَّ مِنَ الشّٰكِرِيْنَ ۔ فَلَمَّآ اٰتٰىهُمَا صَالِحًا جَعَلَا لَهٗ شُرَكَاۗءَ فِيْمَآ اٰتٰىهُمَا ۚ فَتَعٰلَى اللّٰهُ عَمَّا يُشْرِكُوْنَ ، یعنی اولاد آدم نے اپنی غفلت و ناشکری سے اس معاملہ میں عمل یہ کیا کہ جب نر و مادہ کے باہمی اختلاط سے حمل قرار پایا تو شروع شروع میں جب تک حمل کا کوئی بوجھ نہ تھا عورت آزادی کے ساتھ چلتی پھرتی رہی پھر جب حق تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے تین اندھیریوں کے اندر اس حمل کی تربیت کرکے اس کو بڑھایا اور اس کا بوجھ محسوس ہونے لگا تو اب ماں باپ فکر میں پڑگئے اور یہ خطرے محسوس کرنے لگے کہ اس حمل سے کیسی اولاد پیدا ہوگی کیونکہ بعض اوقات انسان ہی کے پیٹ سے عجیب عجیب طرح کی مخلوق بھی پیدا ہوجاتی ہے اور بعض اوقات ناقص الخلقت بچہ پیدا ہوجاتا ہے، اندھا یا بہرا یا گونگا یا ہاتھ پیر سے معذور، ان خطرات کے سبب ماں باپ یہ دعائیں مانگنے لگے کہ یا اللہ ہمیں صحیح سالم بچہ عنایت فرمایئے اگر صحیح سالم بچہ پیدا ہوا تو ہم شکر گزار ہوں گے۔ - لیکن جب اللہ تعالیٰ نے ان کی دعائیں سن لیں اور بچہ صحیح سالم عطا کردیا تو اب شکر گزاری کے بجائے شرک میں مبتلا ہوگئے اور یہ اولاد ہی ان کے شرک میں مبتلا ہونے کا سبب بن گئی، جس کی مختلف صورتیں ہوتی ہیں، کبھی تو عقیدہ ہی فاسد ہوتا ہے، یوں سمجھ بیٹھتے ہیں کہ یہ بیٹا کسی ولی یا بزرگ نے دیا ہے، کبھی یہ ہوتا ہے کہ عملا اس بچہ کو کسی زندہ یا مردہ بزرگ کی طرف منسوب کرتے ہیں اور ان کے نام کی نذر و نیاز کرنے لگتے ہیں یا بچہ کو لے جا کر ان کے سامنے اس کا ماتھا ٹیک دیتے ہیں اور کبھی بچہ کا نام رکھنے میں مشرکانہ انداز اختیار کرتے ہیں، عبد اللات، عبد العزی یا عبد الشمس یا بندہ علی وغیرہ ایسے نام رکھ دیتے ہیں جن سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ بچہ اللہ تعالیٰ کے بجائے ان بتوں یا ان بزرگوں کا پیدا کیا ہوا بندہ ہے یہ سب مشرکانہ عقائد و اعمال ہیں جو اللہ تعالیٰ کی نعمت کے مقابلہ میں شکر کے بجائے ناشکری کی مختلف صورتیں ہیں۔
ہُوَالَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّجَعَلَ مِنْہَا زَوْجَہَا لِيَسْكُنَ اِلَيْہَا ٠ ۚ فَلَمَّا تَغَشّٰىہَا حَمَلَتْ حَمْلًا خَفِيْفًا فَمَرَّتْ بِہٖ ٠ ۚ فَلَمَّآ اَثْقَلَتْ دَّعَوَا اللہَ رَبَّہُمَا لَىِٕنْ اٰتَيْتَنَا صَالِحًا لَّنَكُوْنَنَّ مِنَ الشّٰكِرِيْنَ ١٨٩- خلق - الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] ، أي : أبدعهما، - ( خ ل ق ) الخلق - ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے - نفس - الَّنْفُس : الرُّوحُ في قوله تعالی: أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ [ الأنعام 93] قال : وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ [ البقرة 235] ، وقوله : تَعْلَمُ ما فِي نَفْسِي وَلا أَعْلَمُ ما فِي نَفْسِكَ [ المائدة 116] ، وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، وهذا۔ وإن کان قد حَصَلَ من حَيْثُ اللَّفْظُ مضافٌ ومضافٌ إليه يقتضي المغایرةَ ، وإثباتَ شيئين من حيث العبارةُ- فلا شيءَ من حيث المعنی سِوَاهُ تعالیٰ عن الاثْنَوِيَّة من کلِّ وجهٍ. وقال بعض الناس : إن إضافَةَ النَّفْسِ إليه تعالیٰ إضافةُ المِلْك، ويعني بنفسه نُفُوسَنا الأَمَّارَةَ بالسُّوء، وأضاف إليه علی سبیل المِلْك . - ( ن ف س ) النفس - کے معنی روح کے آتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ [ الأنعام 93] کہ نکال لو اپنی جانیں ۔ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ [ البقرة 235] اور جان رکھو جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے خدا کو سب معلوم ہے ۔ اور ذیل کی دونوں آیتوں ۔ تَعْلَمُ ما فِي نَفْسِي وَلا أَعْلَمُ ما فِي نَفْسِكَ [ المائدة 116] اور جو بات میرے دل میں ہے تو اسے جانتا ہے اور جو تیرے ضمیر میں ہے میں اسے نہیں جنتا ہوں ۔ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے اور یہاں نفسہ کی اضافت اگر چہ لفظی لحاظ سے مضاف اور مضاف الیہ میں مغایرۃ کو چاہتی ہے لیکن من حیث المعنی دونوں سے ایک ہی ذات مراد ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ ہر قسم کی دوائی سے پاک ہے بعض کا قول ہے کہ ذات باری تعالیٰ کی طرف نفس کی اضافت اضافت ملک ہے اور اس سے ہمارے نفوس امارہ مراد ہیں جو ہر وقت برائی پر ابھارتے رہتے ہیں ۔- جعل - جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها،- ( ج ع ل ) جعل ( ف )- یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔- زوج - يقال لكلّ واحد من القرینین من الذّكر والأنثی في الحیوانات الْمُتَزَاوِجَةُ زَوْجٌ ، ولكلّ قرینین فيها وفي غيرها زوج، کالخفّ والنّعل، ولكلّ ما يقترن بآخر مماثلا له أو مضادّ زوج . قال تعالی: فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثى[ القیامة 39] ، وقال : وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ- [ البقرة 35] ، وزَوْجَةٌ لغة رديئة، وجمعها زَوْجَاتٌ ، قال الشاعر : فبکا بناتي شجوهنّ وزوجتي وجمع الزّوج أَزْوَاجٌ. وقوله : هُمْ وَأَزْواجُهُمْ [يس 56] ، احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات 22] ، أي : أقرانهم المقتدین بهم في أفعالهم، وَلا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ إِلى ما مَتَّعْنا بِهِ أَزْواجاً مِنْهُمْ [ الحجر 88] ، أي : أشباها وأقرانا . وقوله : سُبْحانَ الَّذِي خَلَقَ الْأَزْواجَ [يس 36] ، وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنا زَوْجَيْنِ [ الذاریات 49] ، فتنبيه أنّ الأشياء کلّها مركّبة من جو هر وعرض، ومادّة وصورة، وأن لا شيء يتعرّى من تركيب يقتضي كونه مصنوعا، وأنه لا بدّ له من صانع تنبيها أنه تعالیٰ هو الفرد، وقوله : خَلَقْنا زَوْجَيْنِ [ الذاریات 49] ، فبيّن أنّ كلّ ما في العالم زوج من حيث إنّ له ضدّا، أو مثلا ما، أو تركيبا مّا، بل لا ينفكّ بوجه من تركيب، وإنما ذکر هاهنا زوجین تنبيها أنّ الشیء۔ وإن لم يكن له ضدّ ، ولا مثل۔ فإنه لا ينفكّ من تركيب جو هر وعرض، وذلک زوجان، وقوله : أَزْواجاً مِنْ نَباتٍ شَتَّى [ طه 53] ، أي : أنواعا متشابهة، وکذلک قوله : مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان 10] ، ثَمانِيَةَ أَزْواجٍ [ الأنعام 143] ، أي : أصناف . وقوله : وَكُنْتُمْ أَزْواجاً ثَلاثَةً [ الواقعة 7] ، أي : قرناء ثلاثا، وهم الذین فسّرهم بما بعد وقوله : وَإِذَا النُّفُوسُ زُوِّجَتْ [ التکوير 7] ، فقد قيل : معناه : قرن کلّ شيعة بمن شایعهم في الجنّة والنار، نحو : احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات 22] ، وقیل : قرنت الأرواح بأجسادها حسبما نبّه عليه قوله في أحد التّفسیرین : يا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلى رَبِّكِ راضِيَةً مَرْضِيَّةً [ الفجر 27- 28] ، أي : صاحبک . وقیل : قرنت النّفوس بأعمالها حسبما نبّه قوله : يَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ ما عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُحْضَراً وَما عَمِلَتْ مِنْ سُوءٍ [ آل عمران 30] ، وقوله : وَزَوَّجْناهُمْ بِحُورٍ عِينٍ [ الدخان 54] ، أي : قرنّاهم بهنّ ، ولم يجئ في القرآن زوّجناهم حورا، كما يقال زوّجته امرأة، تنبيها أن ذلک لا يكون علی حسب المتعارف فيما بيننا من المناکحة .- ( ز و ج ) الزوج جن حیوانات میں نر اور مادہ پایا جاتا ہے ان میں سے ہر ایک دوسرے کا زوج کہلاتا ہے یعنی نر اور مادہ دونوں میں سے ہر ایک پر اس کا اطلاق ہوتا ہے ۔ حیوانات کے علاوہ دوسری اشیاء میں جفت کو زوج کہا جاتا ہے جیسے موزے اور جوتے وغیرہ پھر اس چیز کو جو دوسری کی مماثل یا مقابل ہونے کی حثیت سے اس سے مقترن ہو وہ اس کا زوج کہلاتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنْثى [ القیامة 39] اور ( آخر کار ) اس کی دو قسمیں کیں ( یعنی ) مرد اور عورت ۔ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ [ البقرة 35] اور تیری بی بی جنت میں رہو ۔ اور بیوی کو زوجۃ ( تا کے ساتھ ) کہنا عامی لغت ہے اس کی جمع زوجات آتی ہے شاعر نے کہا ہے فبکا بناتي شجوهنّ وزوجتیتو میری بیوی اور بیٹیاں غم سے رونے لگیں ۔ اور زوج کی جمع ازواج آتی ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ هُمْ وَأَزْواجُهُمْ [يس 56] وہ اور ان کے جوڑے اور آیت : ۔ احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات 22] جو لوگ ( دنیا میں ) نا فرمانیاں کرتے رہے ہیں ان کو اور ان کے ساتھیوں کو ( ایک جگہ ) اکٹھا کرو ۔ میں ازواج سے ان کے وہ ساتھی مراد ہیں جو فعل میں ان کی اقتدا کیا کرتے تھے اور آیت کریمہ : ۔ إِلى ما مَتَّعْنا بِهِ أَزْواجاً مِنْهُمْ [ الحجر 88] اس کی طرف جو مختلف قسم کے لوگوں کو ہم نے ( دنیاوی سامان ) دے رکھے ہیں ۔ اشباہ و اقران یعنی ایک دوسرے سے ملتے جلتے لوگ مراد ہیں اور آیت : ۔ سُبْحانَ الَّذِي خَلَقَ الْأَزْواجَ [يس 36] پاک ہے وہ ذات جس نے ( ہر قسم کی ) چیزیں پیدا کیں ۔ نیز : ۔ وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنا زَوْجَيْنِ [ الذاریات 49] اور تمام چیزیں ہم نے دو قسم کی بنائیں ۔ میں اس بات پر تنبیہ کی ہے ۔ کہ تمام چیزیں جوہر ہوں یا عرض مادہ و صورت سے مرکب ہیں اور ہر چیز اپنی ہیئت ترکیبی کے لحا ظ سے بتا رہی ہے کہ اسے کسی نے بنایا ہے اور اس کے لئے صائع ( بنانے والا ) کا ہونا ضروری ہے نیز تنبیہ کی ہے کہ ذات باری تعالیٰ ہی فرد مطلق ہے اور اس ( خلقنا زوجین ) لفظ سے واضح ہوتا ہے کہ روئے عالم کی تمام چیزیں زوج ہیں اس حیثیت سے کہ ان میں سے ہر ایک چیز کی ہم مثل یا مقابل پائی جاتی ہے یا یہ کہ اس میں ترکیب پائی جاتی ہے بلکہ نفس ترکیب سے تو کوئی چیز بھی منفک نہیں ہے ۔ پھر ہر چیز کو زوجین کہنے سے اس بات پر تنبیہ کرنا مقصود ہے کہ اگر کسی چیز کی ضد یا مثل نہیں ہے تو وہ کم از کم جوہر اور عرض سے ضرور مرکب ہے لہذا ہر چیز اپنی اپنی جگہ پر زوجین ہے ۔ اور آیت أَزْواجاً مِنْ نَباتٍ شَتَّى [ طه 53] طرح طرح کی مختلف روئیدگیاں ۔ میں ازواج سے مختلف انواع مراد ہیں جو ایک دوسری سے ملتی جلتی ہوں اور یہی معنی آیت : ۔ مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان 10] ہر قسم کی عمدہ چیزیں ( اگائیں ) اور آیت کریمہ : ۔ ثَمانِيَةَ أَزْواجٍ [ الأنعام 143]( نر اور مادہ ) آٹھ قسم کے پیدا کئے ہیں ۔ میں مراد ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَكُنْتُمْ أَزْواجاً ثَلاثَةً [ الواقعة 7] میں ازواج کے معنی ہیں قرناء یعنی امثال ونظائر یعنی تم تین گروہ ہو جو ایک دوسرے کے قرین ہو چناچہ اس کے بعد اصحاب المیمنۃ سے اس کی تفصیل بیان فرمائی ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَإِذَا النُّفُوسُ زُوِّجَتْ [ التکوير 7] اور جب لوگ باہم ملا دیئے جائیں گے ۔ میں بعض نے زوجت کے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ ہر پیروکار کو اس پیشوا کے ساتھ جنت یا دوزخ میں اکٹھا کردیا جائیگا ۔ جیسا کہ آیت : ۔ احْشُرُوا الَّذِينَ ظَلَمُوا وَأَزْواجَهُمْ [ الصافات 22] میں مذکور ہوچکا ہے اور بعض نے آیت کے معنی یہ کئے ہیں کہ اس روز روحوں کو ان کے جسموں کے ساتھ ملا دیا جائیگا جیسا کہ آیت يا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلى رَبِّكِ راضِيَةً مَرْضِيَّةً [ الفجر 27- 28] اے اطمینان پانے والی جان اپنے رب کی طرف لوٹ آ ۔ تو اس سے راضی اور وہ تجھ سے راضی ۔ میں بعض نے ربک کے معنی صاحبک یعنی بدن ہی کئے ہیں اور بعض کے نزدیک زوجت سے مراد یہ ہے کہ نفوس کو ان کے اعمال کے ساتھ جمع کردیا جائیگا جیسا کہ آیت کریمہ : ۔ يَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ ما عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُحْضَراً وَما عَمِلَتْ مِنْ سُوءٍ [ آل عمران 30] جب کہ ہر شخص اپنے اچھے اور برے عملوں کو اپنے سامنے حاضر اور موجود پائیگا ۔ میں بھی اس معنی کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَزَوَّجْناهُمْ بِحُورٍ عِينٍ [ الدخان 54] اور ہم انہیں حورعین کا ساتھی بنا دیں گے ۔ میں زوجنا کے معنی باہم ساتھی اور رفیق اور رفیق بنا دینا ہیں یہی وجہ ہے کہ قرآن نے جہاں بھی حور کے ساتھ اس فعل ( زوجنا ) کا ذکر کیا ہے وہاں اس کے بعد باء لائی گئی ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ حوروں کے ساتھ محض رفاقت ہوگی جنسی میل جول اور ازواجی تعلقات نہیں ہوں گے کیونکہ اگر یہ مفہوم مراد ہوتا تو قرآن بحور کی بجائے زوجناھم حورا کہتا جیسا کہ زوجتہ امرءۃ کا محاورہ ہے یعنی میں نے اس عورت سے اس کا نکاح کردیا ۔- سكن - السُّكُونُ : ثبوت الشیء بعد تحرّك، ويستعمل في الاستیطان نحو : سَكَنَ فلان مکان کذا، أي : استوطنه، واسم المکان مَسْكَنُ ، والجمع مَسَاكِنُ ، قال تعالی: لا يُرى إِلَّا مَساكِنُهُمْ [ الأحقاف 25] ، وقال تعالی: وَلَهُ ما سَكَنَ فِي اللَّيْلِ وَالنَّهارِ [ الأنعام 13] ، ولِتَسْكُنُوا فِيهِ [يونس 67] ، فمن الأوّل يقال : سکنته، ومن الثاني يقال : أَسْكَنْتُهُ نحو قوله تعالی: رَبَّنا إِنِّي أَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِي [إبراهيم 37] ، وقال تعالی: أَسْكِنُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنْتُمْ مِنْ وُجْدِكُمْ [ الطلاق 6]- ( س ک ن ) السکون ( ن )- السکون ( ن ) حرکت کے بعد ٹھہر جانے کو سکون کہتے ہیں اور کسی جگہ رہائش اختیار کرلینے پر بھی یہ لفط بولا جاتا ہے اور سکن فلان مکان کذا کے معنی ہیں اس نے فلاں جگہ رہائش اختیار کرلی ۔ اسی اعتبار سے جائے رہائش کو مسکن کہا جاتا ہے اس کی جمع مساکن آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : لا يُرى إِلَّا مَساكِنُهُمْ [ الأحقاف 25] کہ ان کے گھروں کے سوا کچھ نظر ہی نہیں آتا تھا ۔ اور فرمایا : ۔ وَلَهُ ما سَكَنَ فِي اللَّيْلِ وَالنَّهارِ [ الأنعام 13] اور جو مخلوق رات اور دن میں بستی ہے سب اسی کی ہے ۔ ولِتَسْكُنُوا فِيهِ [يونس 67] تاکہ اس میں آرام کرو ۔ تو پہلے معنی یعنی سکون سے ( فعل متعدی ) سکنتہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کسی کو تسکین دینے یا ساکن کرنے کے ہیں اور اگر معنی سکونت مراد ہو تو اسکنتہ کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ رَبَّنا إِنِّي أَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِي [إبراهيم 37] اے پروردگار میں نے اپنی اولاد لا بسائی ہے أَسْكِنُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنْتُمْ مِنْ وُجْدِكُمْ [ الطلاق 6] 25 ) ( مطلقہ ) عورتوں کو ( ایام عدت میں ) اپنے مقدرو کے مطابق وہیں رکھو جہاں خود رہتے ہو ۔- غشي - غَشِيَهُ غِشَاوَةً وغِشَاءً : أتاه إتيان ما قد غَشِيَهُ ، أي : ستره . والْغِشَاوَةُ : ما يغطّى به الشیء، قال : وَجَعَلَ عَلى بَصَرِهِ غِشاوَةً [ الجاثية 23] - ( غ ش و ) غشیۃ غشاوۃ وغشاء - اس کے پاس اس چیز کی طرح آیا جو اسے چھپائے غشاوۃ ( اسم ) پر دہ جس سے کوئی چیز ڈھانپ دی جائے قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلَ عَلى بَصَرِهِ غِشاوَةً [ الجاثية 23] اور اس کی آنکھوں پر پر دہ ڈال دیا ۔ - خفیف - الخَفِيف : بإزاء الثّقيل، ويقال ذلک تارة باعتبار المضایفة بالوزن، و قیاس شيئين أحدهما بالآخر، نحو : درهم خفیف، ودرهم ثقیل .- والثاني : يقال باعتبار مضایفة الزّمان،- نحو : فرس خفیف، وفرس ثقیل : إذا عدا أحدهما أكثر من الآخر في زمان واحد .- الثالث : يقال خفیف فيما يستحليه الناس،- وثقیل فيما يستوخمه، فيكون الخفیف مدحا، والثقیل ذمّا، ومنه قوله تعالی: الْآنَ خَفَّفَ اللَّهُ عَنْكُمْ [ الأنفال 66] ، فَلا يُخَفَّفُ عَنْهُمُ [ البقرة 86] وأرى أنّ من هذا قوله : حَمَلَتْ حَمْلًا خَفِيفاً [ الأعراف 189] . - الرّابع : يقال خفیف فيمن يطيش،- و ثقیل فيما فيه وقار، فيكون الخفیف ذمّا، والثقیل مدحا . الخامس : يقال خفیف في الأجسام التي من شأنها أن ترجحن إلى أسفل کالأرض والماء، يقال : خَفَّ يَخِفُّ خَفّاً وخِفَّةً ، وخَفَّفَه تَخْفِيفاً وتَخَفَّفَ تَخَفُّفاً ، واستخففته، وخَفَّ المتاع : الخفیف منه، و کلام خفیف علی اللسان، قال تعالی: فَاسْتَخَفَّ قَوْمَهُ فَأَطاعُوهُ [ الزخرف 54] ، أي : حملهم أن يخفّوا معه، أو وجدهم خفافا في أبدانهم وعزائمهم، وقیل :- معناه وجدهم طائشين، وقوله تعالی: فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوازِينُهُ فَأُولئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ وَمَنْ خَفَّتْ مَوازِينُهُ فَأُولئِكَ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ [ المؤمنون 102- 103] ، فإشارة إلى كثرة الأعمال الصّالحة وقلّتها، وَلا يَسْتَخِفَّنَّكَ [ الروم 60] ، أي : لا يزعجنّك ويزيلنّك عن اعتقادک بما يوقعون من الشّبه، وخفّوا عن منازلهم : ارتحلوا منها في خفّة، والخُفُّ : الملبوس، وخُفُّ النّعامة والبعیر تشبيها بخفّ الإنسان .- ( خ ف ف ) الخفیف - ( ہلکا ) یہ ثقیل کے مقابلہ میں بولا جاتا ہے ۔ اس کا استعمال کئی طرح پر ہوتا ہے ( 1) کبھی وزن میں مقابلہ کے طور یعنی دو چیزوں کے باہم مقابلہ میں ایک کو خفیف اور دوسری کو ثقیل کہہ دیا جاتا ہے جیسے درھم خفیف ودرھم ثقیل یعنی وہ درہم ہم ہلکا ہے ۔ اور یہ بھاری ہے ( 2) اور کبھی ثقابل زمانی کے اعتبار سے بولے جاتے ہیں ۔ مثلا ( ایک گھوڑا جو فی گھنٹہ دس میل کی مسافت طے کرتا ہوں اور دوسرا پانچ میل فی گھنٹہ دوڑتا ہو تو پہلے کو خفیف ( سبک رفتار ) اور دوسرے کو ثقل ( سست رفتار ) کہا جاتا ہے ( 3) جس چیز کو خوش آئندہ پایا جائے اسے خفیف اور جو طبیعت پر گراں ہو اسے ثقیل کہا جاتا ہے اس صورت میں خفیف کا لفظ بطور مدح اور ثقیل کا لفظ بطور ندمت استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ آیات کریمہ ؛ الْآنَ خَفَّفَ اللَّهُ عَنْكُمْ [ الأنفال 66] اب خدا نے تم پر سے بوجھ ہلکا کردیا ۔ فَلا يُخَفَّفُ عَنْهُمُ [ البقرة 86] سو نہ تو ان سے عذاب ہلکا کیا جائے گا ۔ اسی معنی پر محمول ہیں اسی معنی پر محمول ہیں بلکہ ہمارے نزدیک آیت : حَمَلَتْ حَمْلًا خَفِيفاً [ الأعراف 189] اسے ہلکا سا حمل رہ جاتا ہے بھی اسی معنی پر محمول ہے ۔ ( 4) جو شخص جلد طیش میں آجائے اسے خفیف اور جو پر وقار ہو اسے ثقیل کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کے اعتبار سے خفیف صفت ذم ہوگئی اور ثقیل سفت مدح ۔ ( 5 ) جو اجسام نیچے کی طرف جھکنے والے ہوں انہیں ثقلا اور جو اپر کی جاں ب چڑھنے والے ہوں انہیں خفیفہ کہا جاتا ہے اسی معنی کے لحاظ سے زمین پانی وگیرہ ہا کو اجسام ثقیلہ اور ہوا آگ وغیرہ ہا اجسام خفیفہ میں داخل ہوں گے ۔- خف ( ض ) خفا وخفتہ ویخفف ۔ ہلکا ہونا خففہ تخفیفا ۔ ہکا کرنا ۔ استخفہ ۔ ہلکا سمجھنا خف المتاع سامان کا ہلکا ہونا اسی سے کلام خفیف علی اللسان کا محاورہ مستعار ہے یعنی وہ کلام جو زبان پر ہلکا ہو ۔ اور آیت کریمہ : فَاسْتَخَفَّ قَوْمَهُ فَأَطاعُوهُ [ الزخرف 54] غرض اس نے اپنی قوم کی عقل مار دی اور انہوں نے اس کی بات مان لی ۔ کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ اس نے اپنی قوم کو اکسایا کہ اس کے ساتھ تیزی سے چلیں اور یا یہ کہ انہیں اجسام وعزائم کے اعتبار سے ڈھیلا پایا اور بعض نے یہ معنی بھی کئے کہ انہیں جاہل اور کم عقل سمجھا ۔ اور آیت کریمہ : : فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوازِينُهُ فَأُولئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ وَمَنْ خَفَّتْ مَوازِينُهُ فَأُولئِكَ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ [ المؤمنون 102- 103] اور جن کے وزن ہلکے ہوں گے ۔ میں اعمال صالحہ کی کمی کی طرف اشارہ ہی اور آیت کریمہ : وَلا يَسْتَخِفَّنَّكَ [ الروم 60] اور وہ تمہیں اوچھا نہ بنادیں ۔ کے معنی یہ ہیں کہ وہ شبہات پیدا کر کے تمہیں تمہارے عقائد سے منزل اور برگشتہ نہ کردیں ۔ خفوا عن منازھم ۔ وہ تیزی سے کوچ کر گئے الخف ۔ موزہ ۔ انسان کے موزہ سے تشبیہ دے کر خف النعامتہ والبعیر ۔ ( سپل شتر وسم شتر مرغ ) کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔- مرر - المُرُورُ : المضيّ والاجتیاز بالشیء . قال تعالی: وَإِذا مَرُّوا بِهِمْ يَتَغامَزُونَ- [ المطففین 30] ، وَإِذا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِراماً [ الفرقان 72] تنبيها أنّهم إذا دفعوا إلى التّفوّه باللغو کنّوا عنه، وإذا سمعوه تصامموا عنه، وإذا شاهدوه أعرضوا عنه، وقوله : فَلَمَّا كَشَفْنا عَنْهُ ضُرَّهُ مَرَّ كَأَنْ لَمْ يَدْعُنا - [يونس 12] فقوله : مَرَّ هاهنا کقوله : وَإِذا أَنْعَمْنا عَلَى الْإِنْسانِ أَعْرَضَ وَنَأى بِجانِبِهِ [ الإسراء 83] وأمْرَرْتُ الحبلَ : إذا فتلته، والمَرِيرُ والمُمَرُّ :- المفتولُ ، ومنه : فلان ذو مِرَّةٍ ، كأنه محکم الفتل . قال : ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى- [ النجم 6] . ويقال : مَرَّ الشیءُ ، وأَمَرَّ : إذا صار مُرّاً ، ومنه - ( م ر ر ) المرور - ( م ر ر ) المرور کے معنی کسی چیز کے پاس سے گزر جانے کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : وَإِذا مَرُّوا بِهِمْ يَتَغامَزُونَ [ المطففین 30] اور جب ان کے پاس سے گزرتے تو باہم آنکھوں سے اشارہ کرتے ۔ وَإِذا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِراماً [ الفرقان 72] اور جب ان کو بیہودہ چیزوں کے پاس سے گزرنے کا اتفاق ہو تو شریفانہ انداز سے گزرجاتے ہیں ۔ نیز آیت کریمہ میں اس بات پر بھی متنبہ کیا ہے کہ اگر انہیں بیہودہ بات کہنے پر مجبوری بھی کیا جائے تو کنایہ سے بات کرتے ہیں اور لغوبات سن کر اس سے بہرے بن جاتے ہیں اور مشاہدہ کرتے ہیں تو اعراض کرلیتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : فَلَمَّا كَشَفْنا عَنْهُ ضُرَّهُ مَرَّ كَأَنْ لَمْ يَدْعُنا[يونس 12] پھر جب ہم اس تکلیف کو اس سے دور کردیتے ہیں ( تو بےلحاظ ہوجاتا اور ) اس طرح گزرجاتا ہے کہ گویا تکلیف پہنچنے پر ہمیں کبھی پکارا ہی نہیں تھا ۔ میں مربمعنی اعرض ہے ۔ جیسے فرمایا : وَإِذا أَنْعَمْنا عَلَى الْإِنْسانِ أَعْرَضَ وَنَأى بِجانِبِهِ [ الإسراء 83] اور جب ہم انسان کو نعمت بخشتے ہیں تو روگردان ہوجاتا اور پہلو پھیر لیتا ہے ۔ امررت الحبل کے معنی رسی بٹنے کے ہیں ۔ اور بٹی ہوئی رسی کو مریر یاممر کہاجاتا ہے اسی سے فلان ذومرکہاجاتا ہے اسی سے فلان ذومرۃ کا محاورہ ہے جس کے معنی طاقت ور اور توانا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى[ النجم 6] طاقتور نے ۔ مرالشئی وامر کسی چیز کا تلخ ہونا ۔ اسی سے محاورہ ہے۔ فلان مایمر سو مایحلی کہ فلاں نہ تو کڑوا ہے اور نہ میٹھا ۔ یعنی نہ تو اس سے کسی کو فائدہ پہنچتا ہے اور نہ ہی نقصان ۔ اور آیت کریمہ حَمَلَتْ حَمْلًا خَفِيفاً فَمَرَّتْ بِهِ [ الأعراف 189]( تو ) اسے ہلکا ساحمل رہ جاتا ہے ۔ اور وہ اس کے ساتھ چلتی پھرتی ہے ۔ میں مرت بمعنی استمرت ہے ۔ یعنی وہ اسے اٹھائے چلتی پھرتی رہتی ہے ۔ مرۃ ( فعلۃ ) ایک بار مرتان ض ( تثنیہ ) دو بار قرآن میں ہے : يَنْقُضُونَ عَهْدَهُمْ فِي كُلِّ مَرَّةٍ [ الأنفال 56] پھر وہ ہر بار اپنے عہد کو توڑ ڈالتے ہیں ۔ وَهُمْ بَدَؤُكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ [ التوبة 13] اور انہوں نے تم سے پہلی بار ( عہد شکنی کی ) ابتداء کی ۔إِنْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً [ التوبة 80] اگر آپ ان کے لئے ستربار بخشیں طلب فرمائیں ۔ إِنَّكُمْ رَضِيتُمْ بِالْقُعُودِ أَوَّلَ مَرَّةٍ [ التوبة 83] تم پہلی مرتبہ بیٹھ رہنے پر رضامند ہوگئے ۔ سَنُعَذِّبُهُمْ مَرَّتَيْنِ [ التوبة 101] ہم ان کو دو بار عذاب دیں گے ۔ ثَلاثَ مَرَّاتٍ [ النور 58] تین دفعہ ( یعنی تین اوقات ہیں ۔- لَمَّا - يستعمل علی وجهين :- أحدهما : لنفي الماضي وتقریب الفعل . نحو : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران 142] . والثاني : عَلَماً للظّرف نحو : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف 96] أي : في وقت مجيئه، وأمثلتها تکثر .- ( لما ( حرف ) یہ دوطرح پر استعمال ہوتا ہے زمانہ ماضی میں کسی فعل کی نفی اور اس کے قریب الوقوع ہونے کے لئے جیسے فرمایا : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران 142] حالانکہ ابھی خدا نے تم میں سے جہاد کرنے والوں کو اچھی طرح معلوم کیا ہی نہیں ۔ اور کبھی یہ اسم ظرف ک طورپر استعمال ہوتا ہے ۔ اور یہ قرآن میں بکژت آیا ہے ۔ جیسے فرمایا : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف 96] جب خوشخبری دینے والا آپہنچا۔- ثقل - الثِّقْل والخفّة متقابلان، فکل ما يترجح علی - ما يوزن به أو يقدّر به يقال : هو ثَقِيل، وأصله في الأجسام ثم يقال في المعاني، نحو : أَثْقَلَه الغرم والوزر . قال اللہ تعالی: أَمْ تَسْئَلُهُمْ أَجْراً فَهُمْ مِنْ مَغْرَمٍ مُثْقَلُونَ [ الطور 40] ، والثقیل في الإنسان يستعمل تارة في الذم، وهو أكثر في التعارف، وتارة في المدح - ( ث ق ل ) الثقل - یہ خفۃ کی ضد ہے اور اس کے معنی بھاری اور انبار ہونا کے ہیں اور ہر وہ چیز جو وزن یا اندازہ میں دوسری پر بھاری ہو اسے ثقیل کہا جاتا ہے اصل ( وضع ) کے اعتبار سے تو یہ اجسام کے بھاری ہونے پر بولا جاتا ہے لیکن ( مجاز ) معانی کے متعلق بھی استعمال ہوتا ہے چناچہ کہا جاتا ہے : ۔ اسے تادان یا گناہ کے بوجھ نے دبالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَمْ تَسْئَلُهُمْ أَجْراً فَهُمْ مِنْ مَغْرَمٍ مُثْقَلُونَ [ الطور 40] اے پیغمبر ) کیا تم ان سے صلہ مانگتے ہو کہ ان پر تادان کا بوجھ پڑرہا ہے ، - اور عرف میں انسان کے متعلق ثقیل کا لفظ عام طور تو بطور مذمت کے استعمال ہوتا ہے اور کبھی بطور مدح بھی آجاتا ہے - صالح - الصَّلَاحُ : ضدّ الفساد، وهما مختصّان في أكثر الاستعمال بالأفعال، وقوبل في القرآن تارة بالفساد، وتارة بالسّيّئة . قال تعالی: خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة 102] - ( ص ل ح ) الصالح - ۔ ( درست ، باترتیب ) یہ فساد کی ضد ہے عام طور پر یہ دونوں لفظ افعال کے متعلق استعمال ہوتے ہیں قرآن کریم میں لفظ صلاح کبھی تو فساد کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے اور کبھی سیئۃ کے چناچہ فرمایا : خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة 102] انہوں نے اچھے اور برے عملوں کے ملا دیا تھا ۔ - شكر - الشُّكْرُ : تصوّر النّعمة وإظهارها، قيل : وهو مقلوب عن الکشر، أي : الکشف، ويضادّه الکفر، وهو : نسیان النّعمة وسترها۔ - والشُّكْرُ ثلاثة أضرب :- شُكْرُ القلب، وهو تصوّر النّعمة .- وشُكْرُ اللّسان، وهو الثّناء علی المنعم .- وشُكْرُ سائر الجوارح، وهو مکافأة النّعمة بقدر استحقاقه .- وقوله تعالی: اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ 13] ،- ( ش ک ر ) الشکر - کے معنی کسی نعمت کا تصور اور اس کے اظہار کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ کشر سے مقلوب ہے جس کے معنی کشف یعنی کھولنا کے ہیں ۔ شکر کی ضد کفر ہے ۔ جس کے معنی نعمت کو بھلا دینے اور اسے چھپا رکھنے کے ہیں - شکر تین قسم پر ہے - شکر قلبی یعنی نعمت کا تصور کرنا شکر لسانی یعنی زبان سے منعم کی تعریف کرنا شکر بالجوارح یعنی بقدر استحقاق نعمت کی مکافات کرنا ۔ اور آیت کریمہ : اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ 13] اسے داود کی آل میرا شکر کرو ۔
تخلیق انسانی - قول باری ہے ھوالذی خالقکم من نفس واحدۃ وجعل منھا زوجھا۔ وہ اللہ ہی ہے جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی کی جنس سے اس کا جوڑا بنایا) ایک قول ہے کہ ہر جان سے اس کا جوڑا بنایا۔ گویا یوں فرمایا ” جان سے اس کا جوڑا بنایا “۔ اور اس سے جنس مراد لیا۔ آیت کی عبارت میں لفظ جنس پوشیدہ ہے۔ ایک قول ہے کہ آدم (علیہ السلام) و حوا (علیہ السلام) سے پیدا کیا۔ قول باری ہے لئن اتیتنا صالحاً ۔ اگر تو نے ہم کو اچھا سا بچہ دیا) حسن کا قول ہے ” ایک صحیح و سالم بچہ “ حضرت ابن عباس (رض) کا قول ہے ” ایک سالم انسان “ اس لئے کہ ماں باپ کو یہ خوف کھائے جاتا تھا کہ کہیں چوپائے کی شکل کی کوئی مخلوق نہ آجائے۔ قول باری ہے فلما اتاھما صالحاً جعل لہ شرکاء فیما اتاھما۔ مگر جب اللہ نے ان کو صحیح و سالم بچہ دے دیا تو وہ اس کی اس بخشش و عنایت میں دوسروں کو اس کا شریک ٹھہرانے لگے) حسن اور قتادہ کا قول ہے کہ فعل ” جعلا “ میں ضمیر جان اور اس کے جوڑے کی طرف راجع ہے آدم و حوا کی طرف راجع نہیں ہے دوسرے حضرات کا قول ہے کہ ضمیر ولد صالح کی طرف بایں معنی راجع ہے کہ پیدا ہونے والا بچہ جسمانی طور پر صحیح و سالم تھا۔ یہ صحت و سلامتی اس کی خلقت کے لحاظ سے تھی، دین کے لحاظ سے نہیں تھی۔ تثنیہ کی ضمیر کے مرجع کی یہ توجیہہ ہے کہ حضرت حوا کے ہاں ہر دفعہ دو بچے پیدا ہوتے تھے ایک لڑکا اور ایک لڑکی۔
(١٨٩) تم سب لوگوں کو آدم (علیہ السلام) کے نفس سے پیدا کیا اور انھیں کے نفس سے ان کی بیوی حضرت حواء (علیہا السلام) کو پیدا کیا، پھر میاں بیوی نے قربت کی تو ہلکا ساحمل لیے ہوئے چلتی پھرتی رہی، پھر جب حمل بوجھل ہوا تو ابلیس کے وسوسہ سے یہ خیال پیدا ہوا کہ یہ کہیں کوئی جانور تو نہ ہو تو دعا کی کہ اگر یہ صحیح سالم اولاد ہو تو ہم اس پر خوب صبر کریں گے ،
آیت ١٨٩ (ہُوَ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّجَعَلَ مِنْہَا زَوْجَہَا لِیَسْکُنَ اِلَیْہَا ج) ۔ - اس نکتے کی وضاحت سورة البقرۃ کی آیت ١٨٧ (وَابْتَغُوْا مَا کَتَبَ اللّٰہُ لَکُمْص) کے مطالعے کے دوران گزر چکی ہے۔ شوہر اور بیوی کے تعلقات میں جہاں اولاد کا معاملہ ہے وہاں تسکین اور سکون کا پہلو بھی ہے۔- (فَلَمَّا تَغَشّٰٹہَا حَمَلَتْ حَمْلاً خَفِیْفًا فَمَرَّتْ بِہٖ ج) ۔ - ابتدا میں حمل اتنا خفیف ہوتا ہے کہ پتا بھی نہیں چلتا کہ کوئی حمل ٹھہر گیا ہے۔
97: ’’ایک جان‘‘ سے مراد حضرت آدم (علیہ السلام) ہیں، اور ان کی بیوی سے مراد حضرت حوا علیہما السلام 98: اب یہاں سے حضرت آدم (علیہ السلام) کی ایسی اولاد کا ذکر ہورہا ہے جس نے بعد میں شرک کا راستہ اختیار کیا