190۔ 1 شریک قرار دینے سے مراد یا تو بچے کا نام ایسا رکھنا ہے، مثلاً امام بخش، پیراں دیتا، عبدالشمس، بندہ علی وغیرہ جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ بچہ فلاں بزرگ، فلاں پیر کی (نعوذ باللہ) نظر کرم کا نتیجہ ہے۔ یا پھر اس اپنے عقیدے کا اظہار کرکے کہ ہم فلاں بزرگ فلاں قبر پر گئے تھے جس کے نتیجہ میں بچہ پیدا ہوا ہے، جو بدقسمتی سے مسلمان عوام میں بھی عام ہیں۔ اگلی آیات میں اللہ تعالیٰ شرک کی تردید فرما رہا ہے۔
[١٨٩] اولاد کے بارے میں شرکیہ افعال :۔ ترمذی میں ایک روایت آتی ہے کہ آدم و حوا (علیہما السلام) کے ہاں جو بچے پیدا ہوتے وہ مرجاتے تھے کیونکہ وہ کمزور الخلقت ہوتے تھے۔ ایک دفعہ جب سیدہ حوا (علیہا السلام) کو حمل ہوا تو آدم و حوا (علیہا السلام) دونوں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ اگر تندرست بچہ پیدا ہوا تو ہم اللہ کے شکر گزار ہوں گے۔ اسی دوران شیطان نے حوا (علیہا السلام) کو پٹی پڑھائی کہ اگر وہ اس ہونے والے بچے کا نام عبدالحارث رکھیں تو ان کا بچہ یقیناً تندرست ہوگا اور زندہ رہے گا۔ حارث دراصل ابلیس کا نام تھا اور جن دنوں وہ فرشتوں میں ملا ہوا تھا اسی نام سے پکارا جاتا تھا۔ چناچہ حوا (علیہا السلام) نے شیطان سے اس بات کا وعدہ کرلیا اور سیدنا آدم (علیہ السلام) کو بھی اس بات پر راضی کرلیا۔- اس روایت کو حافظ ابن کثیر نے تین وجہ سے معلول قرار دیا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ یہ سارا قصہ اسرائیلیات سے ماخوذ ہے نیز قرآن ہی کے الفاظ سے یہ قصہ کئی وجوہ سے باطل قرار پاتا ہے اور وہ یہ ہیں :۔- ١۔ ( جَعَلاَلَہُ شُرَکَاءَ ) سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کا شریک صرف ایک شیطان ہی نہیں بنایا گیا بلکہ یہ شریک ایک جماعت یا کم از کم دو سے زیادہ ہیں۔- ٢۔ (عَمَّا یُشْرِکُوْنَ ) سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ شرک کرنے والے دو (آدم و حوا علیہا السلام) نہ تھے بلکہ یہ بھی ایک جماعت ہے۔- ٣۔ اگر شیطان کو ہی شریک بنایا تھا تو اس کے لیے من آنا چاہیے تھا جو ذوی العقول کیلئے آتا ہے حالانکہ یہاں ( مَالاَیَخْلُقُ ) کے الفاظ ہیں۔- ٤۔ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہا السلام) کو سب نام سکھلا دیئے تھے اگر ابلیس یا شیطان کا کوئی نام حارث بھی ہوتا تو وہ آپ کو ضرور معلوم ہونا چاہیے تھا کیونکہ اسی سے تو براہ راست آپ کی دشمنی ٹھن گئی تھی۔ علاوہ ازیں کسی بھی سند صحیح سے یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ سیدنا آدم (علیہا السلام) کے کسی بیٹے کا نام عبدالحارث بھی تھا۔- اس آیت کے مخاطب دراصل مشرکین مکہ ہیں۔ ابتداء میں سیدنا آدم و حوا (علیہا السلام) کا ذکر ضرور ہے مگر بعد میں روئے سخن دور نبوی کے مشرکین کی طرف مڑ گیا ہے جن کی عادت تھی کہ جب بچہ پیٹ میں ہوتا تو اس کی سلامتی اور تندرست و صحیح سالم بچہ پیدا ہونے کے لیے اللہ تعالیٰ ہی سے دعائیں کیا کرتے تھے لیکن جب صحیح وسالم بچہ پیدا ہوجاتا تو اللہ تعالیٰ کے اس عطیہ میں دوسروں کو بھی شکریے کا حصہ دار ٹھہرا لیتے تھے اور ان کے نام ایسے ہی رکھ دیتے جن میں شرک پایا جاتا مثلاً عبدالشمس، عبدالعزّٰی عبد مناف وغیرہ اور نذریں نیازیں بھی اپنے دیوی دیوتاؤں کے آستانوں پر چڑھایا کرتے تھے۔ یہ حالت تو دور نبوی کے مشرکین کی تھی۔ مگر آج کے دور کے مشرکین جو خود مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ان مشرکوں سے چار ہاتھ آگے نکل گئے ہیں۔ یہ اولاد بھی غیروں سے مانگتے ہیں حمل کے دوران منتیں بھی غیروں کے نام ہی کی مانتے ہیں اور بچہ پیدا ہونے کے بعد نیاز بھی انہی کے آستانوں پر جا کر چڑھاتے ہیں اور نام بھی مشرکانہ رکھتے ہیں جیسے پیراں دتہ، پیر بخش وغیرہ۔ پھر بھی یہ موحد کے موحد اور مسلمان کے مسلمان ہی رہتے ہیں۔
تیسری آیت کے آخر میں ان لوگوں کی بےراہی اور کجروی کو واضح کرنے کیلئے فرمایا (آیت) فَتَعٰلَى اللّٰهُ عَمَّا يُشْرِكُوْنَ ، یعنی پاک ہے اللہ تعالیٰ اس شرک سے جس کو ان لوگوں نے اختیار کیا۔- آیات مذکورہ کی اس تفسیر سے یہ بات واضح ہوگئی کہ اس آیت کے پہلے جملہ میں حضرت آدم و حواء کا ذکر کرکے اولاد آدم کو ان کے اتباع اور شکر گزری کی تعلیم دی گئی ہے، اور آخری جملوں میں بعد کی آنے والی اولاد آدم کی گمراہی اور کجروی کا بیان کیا گیا ہے کہ انہوں نے بجائے شکر گزاری کے شرک کو اختیار کرلیا۔- اس سے معلوم ہوا کہ شرک اختیار کرنے والوں کے معاملہ کا تعلق حضرت آدم و حواء سے مطلق نہیں جس کے سبب حضرت آدم (علیہ السلام) کی عصمت پر کوئی شبہ ہو، بلکہ اس کا تعلق بعد کی آنے والی نسلوں کے عمل سے ہے، اور یہ تفسیر جو ہم نے اخیتار کی ہے تفسیر درمنثور میں بروایت ابن المنذر و ابن ابی حاتم مفسر القرآن حضرت عبداللہ بن عباس سے منقول ہے۔ - ترمذی اور حاکم کی روایات میں جو ایک قصہ حضرت آدم و حواء (علیہما السلام) کا اور شیطان کے فریب دینے کا مذکور ہے اس کو بعض نے اسرائیلی روایات قرار دے کر ناقابل اعتماد بتلایا ہے لیکن بہت سے محدثین نے اس کی توثیق بھی کی ہے، متذکرہ تفسیر پر اگر اس قصہ کی روایت کو صحیح بھی مان لیا جائے تو بھی آیت کی تفسیر میں کوئی اشکال و شبہ باقی نہیں رہتا۔- اس آیت سے چند احکام و فوائد حاصل ہوئے :- اول یہ کہ اللہ تعالیٰ نے عورت و مرد کے جوڑے کو ہم جنس بنایا تاکہ طبعی موافقت اور پورا انس ایک دوسرے کے ساتھ حاصل ہوسکے اور ازدواجی زندگی سے جو تعمیر عالم کے فوائد وابستہ ہیں وہ پوری طرح انجام پاسکیں۔- دوسرے یہ کہ ازدواجی زندگی کے جتنے حقوق و فرائض زوجین پر عائد ہوتے ہیں ان سب کا خلاصہ اور اصل مقصد سکون ہے، دنیا کی نئی معاشرت اور نئی رسموں میں جو چیزیں سکون کو برباد کرنے والی ہیں وہ ازدواجی تعلق کی بنیادی دشمن ہیں، اور آج کی مہذب دنیا میں جو گھریلو زندگی عموما تلخ نظر آتی ہے اور چار طرف طلاقوں کی بھرمار ہے، اس کا سب سے بڑا سبب یہی ہے کہ معاشرت میں ایسی چیزوں کو مستحسن سمجھ لیا گیا ہے جو گھریلو زندگی کے سکون کو سراسر برباد کرنے والی ہیں، عورت کی آزادی کے نام پر اس کی بےپردگی اور بےحیائی جو طوفان کی طرح عالمگیر ہوتی جاتی ہے اس کو ازدواجی سکون کے برباد کرنے میں بڑا دخل ہے اور تجربہ شاہد ہے کہ جوں جوں یہ بےپردگی اور بےحیائی عورت میں بڑھتی جاتی ہے اسی رفتار سے گھریلو سکون و اطمینان ختم ہوتا جاتا ہے۔- تیسرے یہ کہ بچوں کے ایسے نام رکھنا جن سے مشرکانہ مفہوم لیا جاسکتا ہو، چاہے نام رکھنے والوں کی نیت یہ نہ ہو، وہ بھی ایک مشرکانہ رسم ہونے کے سبب گناہ عظیم ہے جیسے عبد الشمس عبد العزی وغیرہ نام رکھنا۔- چوتھے یہ کہ بچوں کے نام رکھنے میں بھی اداء شکر کا طریقہ یہ ہے کہ ان کے نام اللہ و رسول کے ناموں پر رکھے جائیں، اسی لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عبد الرحمن، عبداللہ وغیرہ کو زیادہ پسند فرمایا ہے۔- افسوس ہے کہ آج مسلمانوں میں سے یہ رہی سہی اسلامی رسم بھی ختم ہوتی جاتی ہے، اول تو نام ہی غیر اسلامی رکھے جاتے ہیں، اور کہیں اسلامی نام رکھ بھی دیئے تو ان کو بھی انگریزی کے مخفف حروف میں منتقل کرکے ختم کردیا جاتا ہے، سیرت و صورت سے تو کسی کا مسلمان سمجھنا پہلے ہی مشکل ہوچکا تھا، ناموں کے اس نئے طرز نے اسلام کی اس آخری علامت کو بھی رخصت کردیا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دین کا فہم اور اسلام کی محبت عطا فرمائے۔ آمین
فَلَمَّآ اٰتٰىہُمَا صَالِحًا جَعَلَا لَہٗ شُرَكَاۗءَ فِيْمَآ اٰتٰىہُمَا ٠ ۚ فَتَعٰلَى اللہُ عَمَّا يُشْرِكُوْنَ ١٩٠- لَمَّا - يستعمل علی وجهين :- أحدهما : لنفي الماضي وتقریب الفعل . نحو : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران 142] . والثاني : عَلَماً للظّرف نحو : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف 96] أي : في وقت مجيئه، وأمثلتها تکثر .- ( لما ( حرف ) یہ دوطرح پر استعمال ہوتا ہے زمانہ ماضی میں کسی فعل کی نفی اور اس کے قریب الوقوع ہونے کے لئے جیسے فرمایا : وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جاهَدُوا[ آل عمران 142] حالانکہ ابھی خدا نے تم میں سے جہاد کرنے والوں کو اچھی طرح معلوم کیا ہی نہیں ۔ اور کبھی یہ اسم ظرف ک طورپر استعمال ہوتا ہے ۔ اور یہ قرآن میں بکژت آیا ہے ۔ جیسے فرمایا : فَلَمَّا أَنْ جاءَ الْبَشِيرُ [يوسف 96] جب خوشخبری دینے والا آپہنچا۔- أتى- الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام 40]- ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی " آنا " ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو۔- شرك - وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان :- أحدهما : الشِّرْكُ العظیم،- وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] ، - والثاني : الشِّرْكُ الصّغير،- وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ- [ الأعراف 190] ،- ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ - دین میں شریک دو قسم پر ہے - ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ - دوم شرک صغیر - کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔
(١٩٠) جب میاں بیوی کو صحیح سالم اولاد دے دی تو اس کے نام رکھنے میں ابلیس کو شریک ٹھہرانے لگے چناچہ عبداللہ اور عبدالحارث نام رکھا۔
آیت ١٩٠ (فَلَمَّآ اٰتٰٹہُمَا صَالِحًا جَعَلاَ لَہٗ شُرَکَآءَ فِیْمَآاٰتٰٹہُمَا ج) ۔ - کہ ہم فلاں بزرگ کے مزار پر گئے تھے ‘ ان کی نگاہ کرم ہوئی ہے ‘ یا فلاں دیوی یا دیوتا کی کرپا کی وجہ سے ہمیں اولاد مل گئی ہے۔
سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :146 یہاں مشرکین کی جاہلانہ گمراہیوں پر تنقید کی گئی ہے ۔ تقریر کا مدعا یہ ہے کہ نوع انسانی کو ابتداء وجود بخشنے والا اللہ تعالیٰ ہے جس سے خود مشرکین کو بھی انکار نہیں ۔ پھر ہر انسان کو وجود عطا کرنے والا بھی اللہ تعالیٰ ہی ہے اور اس بات کو بھی مشرکین جانتے ہیں ۔ عورت کے رحم میں نطفے کو ٹھیرانا ، پھر اس خفیف سے حمل کو پرورش کرکے ایک زندہ بچے کی صورت دینا ، پھر اس بچے کے اندر طرح طرح کی قومیں اور قابلیتیں ودیعت کرنا اور اس کو صحیح و سالم انسان بنا کر پیدا کرنا ، یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے ۔ اگر اللہ عورت کے پیٹ میں بندر یا سانپ یا کوئی اور عجیب الخلقت حیوان پیدا کردے ، یا بچے کو پیٹ ہی میں اندھا بہرا لنگڑا لولا بنا دے ، یا اس کی جسمانی و ذہنی اور نفسانی قوتوں میں کوئی نقص رکھ دے تو کسی میں یہ طاقت نہیں ہے کہ اللہ کی اس ساخت کو بدل ڈالے ۔ اس حقیقت سے مشرکین بھی اسی طرح آگاہ ہیں جس طرح موحِّدین ۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ زمانہ حمل میں ساری امیدیں اللہ ہی سے وابستہ ہوتی ہیں کہ وہی صحیح و سالم بچہ پیدا کرے گا ۔ لیکن اس پر بھی جہالت و نادانی کے طغیان کا یہ حال ہے کہ جب امید بر آتی ہے اور چاند سا بچہ نصیب ہو جاتا ہے تو شکر یے کے لیے نذریں اور نیازیں کسی دیوی ، کسی اوتار ، کسی ولی اور کسی حضرت کے نام پر چڑھائی جاتی ہیں اور بچے کو ایسے نام دیے جاتے ہیں کہ گویا وہ خدا کے سوا کسی اور کی عنایت کا نتیجہ ہے ، مثلاً حسین بخش ، پیر بخش ، عبدالرسول ، عبدالعُزّیٰ اور عبد شمس وغیرہ ۔ اس تقریر کے سمجھنے میں ایک بڑی غلط فہمی واقع ہوئی ہے جسے ضعیف روایات نے اور زیادہ تقویت پہنچا دی ۔ چونکہ آغاز میں نوع انسانی کی پیدائش ایک جان سے ہونے کا ذکر آیا ہے ، جس سے مراد حضرت آدم علیہ السلام ہیں ، اور پھر فوراً ہی ایک مرد و عورت کا ذکر شروع ہو گیا ہے جنہوں نے پہلے تو اللہ سے صحیح و سالم بچے کی پیدئش کے لیے دعا کی اور جب بچہ پیدا ہو گیا تو اللہ کی بخشش میں دوسروں کو شریک ٹھیرا لیا ۔ اس لیے لوگوں نے یہ سمجھا کہ یہ شرک کرنے والے میاں بیوی ضرور حضرت آدم و حوا علیہما السلام ہی ہوں گے ۔ اس غلط فہمی پر روایات کا ایک خول چڑھ گیا اور ایک پورا قصہ تصنیف کر دیا گیا کہ حضرت حوا کے بچے پیدا ہو ہو کر مر جاتے تھے ، آخر کار ایک بچے کی پیدائش کے موقع پر شیطان نے ان کو بہکا کر اس بات پر آمادہ کر دیا کہ اس کا نام عبدالحارث ( بندہ شیطان ) رکھ دیں ۔ غضب یہ ہے کہ ان روایات میں سے بعض کی سند نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک بھی پہنچا دی گئی ہے ۔ لیکن درحقیقت یہ تمام روایات غلط ہیں اور قرآن کی عبارت بھی ان کی تائید نہیں کرتی ۔ قرآن جو کچھ کہہ رہا ہے وہ صرف یہ ہے کہ نوع انسانی کا پہلا جوڑا جس سے آفرنیش کی ابتداہوئی ۔ اس کا خالق بھی اللہ ہی تھا ، کوئی دوسرا اس کار تخلیق میں شریک نہ تھا ، اور پھر ہر مرد و عورت کے ملاپ سے جو اولاد پیدا ہوتی ہے اس کا خالق بھی اللہ ہی ہے جس کا اقرار تم سب لوگوں کے دلوں میں موجود ہے ، چنانچہ اسی اقرار کی بدولت تم امید وہم کی حالت میں جب دعا مانگتے ہو تو اللہ ہی سے مانگتے ہو ، لیکن بعد میں جب امیدیں پوری ہو جاتی ہیں تو تمہیں شرک کی سوجھتی ہے ۔ اس تقریر میں کسی خاص مرد اور خاص عورت کا ذکر نہیں ہے بلکہ مشرکین میں سے ہر مرد اور ہر عورت کا حال بیان کیا گیا ہے ۔ اس مقام پر ایک اور بات بھی قابل توجہ ہے ۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے جن لوگوں کی مذمت کی ہے وہ عرب کے مشرکین تھے اور ان کا تصور یہ تھا کہ وہ صحیح و سالم اولاد پیدا ہونے کے لیے تو خدا ہی سے مانگتے تھے مگر جب بچہ پیدا ہو جاتا تھا تو اللہ کے اس عطیہ میں دوسروں کو شکریے کا حصہ دار ٹھیرا لیتے تھے ۔ بلا شبہ یہ حالت بھی نہایت بری تھی ۔ لیکن اب جو شرک ہم توحید کے مدعیوں میں پا رہے ہیں وہ اس سے بھی بدتر ہے ۔ یہ ظالم تو اولاد بھی غیروں ہی سے مانگتے ہیں ۔ حمل کے زمانے میں مَنَّتیں بھی غیروں کے نام ہی کی مانتے ہیں اور بچہ پیدا ہونے کے بعد نیاز بھی انہی کے آستانوں پر چڑھاتے ہیں ۔ اس پر بھی زمانہ جاہلیت کے عرب مشرک تھے اور یہ موجد ہیں ، ان کے لیے جہنم واجب تھی اور ان کے لیے نجات کی گارنٹی ہے ، ان کی گمراہیوں پر تنقید کی زبانیں تیز ہیں مگر ان کی گمراہیوں پر کوئی تنقید کر بیٹھے تو مذہبی درباروں میں بے چینی کی لہر دوڑ جاتی ہے ۔ اسی حالت کا ماتم حالی مرحوم نے اپنی مسدس میں کیا ہے: ۔ کرے غیر گر بت کی پوجا تو کافر جو ٹھیرائے بیٹا خدا کا تو کافر جھکے آگ پر بہر سجدہ تو کافر کواکب میں مانے کرشمہ تو کافر مگر مومنوں پر کشاہ ہیں راہیں پرستش کریں شوق سے جس کی چاہیں نبی کو جو چاہیں خدا کر دکھائیں اماموں کا رتبہ نبی سے بڑھائیں مزاروں پہ جا جا کہ نذریں چڑھائیں شہیدوں سے جا جا کے مانگیں دعائیں نہ توحید میں کچھ خلل اس سے آئے نہ اسلام بگڑے نہ ایمان جائے