پہلا امتحان اور اسی میں لغزش اور اس کا انجام ابلیس کو نکال کر حضرت آدم و حوا کو جنت میں پہنچا دیا گیا اور بجز ایک درخت کے انہیں ساری جنت کی چیزیں کھانے کی رخصت دے دی گئی ۔ اس کا تفصیلی بیان سورۃ بقرہ کی تفسیر میں گذر چکا ہے ۔ شیطان کو اس سے بڑا ہی حسد ہوا ، ان کی نعمتوں کو دیکھ کر لعین جل گیا اور ٹھان لی کہ جس طرح سے ہو انہیں بہکا کر اللہ کے خلاف کر دوں ۔ چنانچہ جھوٹ افتراء باندھ کر ان سے کہنے لگا کہ دیکھو یہ درخت وہ ہے جس کے کھانے سے تم فرشتے بن جاؤ گے اور ہمیشہ کی زندگی اسی جنت میں پاؤ گے ۔ جیسے اور آیت میں ہے کہ ابلیس نے کہا میں تمہیں ایک درخت کا پتہ دیتا ہوں جس سے تمہیں بقاء اور ہمیشگی والا ملک مل جائے گا ۔ یہاں ہے کہ ان سے کہا تمہیں اس درخت سے صرف اس لئے روکا گیا ہے کہ کہیں تم فرشتے نہ بن جاؤ ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( یبین اللہ لکم ان تضلوا ) مطلب یہ ہے کہ ( لئلا تضلوا ) اور آیت میں ہے ( ان تمیدبکم ) یہاں بھی یہی مطلب ہے ۔ ( ملکین ) کی دوسری قرأت ( ملکین ) بھی ہے لیکن جمہور کی قرأت لام کے زبر کے ساتھ ہے ۔ پھر اپنا اعتبار جمانے کیلئے قسمیں کھانے لگا کہ دیکھو میری بات کو سچ مانو میں تمہارا خیر خواہ ہوں تم سے پہلے سے ہی یہاں رہتا ہوں ہر ایک چیز کے خواص سے واقف ہوں تم اسے کھا لو بس پھر یہیں رہو گے بلکہ فرشتے بن جاؤ گے قاسم باب مفاعلہ سے ہے اور اس کی خاصیت طرفین کی مشارکت ہے لیکن یہاں یہ خاصیت نہیں ہے ۔ ایسے اشعار بھی ہیں جہاں قاسم آیا ہے اور صرف ایک طرف کے لئے ۔ اس قسم کی وجہ سے اس خبیث کے بہکاوے میں حضرت آدم آ گئے ۔ سچ ہے مومن اس وقت دھوکا کھا جاتا ہے جب کوئی ناپاک انسان اللہ کو بیچ میں دیتا ہے ۔ چنانچہ سلف کا قول ہے کہ ہم اللہ کے نام کے بعد اپنے ہتھیار ڈال دیا کرتے ہیں ۔
19۔ 1 یعنی صرف اس درخت کو چھوڑ کر جہاں سے اور جتنا چاہو کھاؤ۔ ایک درخت کا پھل کھانے کی پابندی آزمائش کے طور عائد کی۔
[١٦] ابلیس کو تو اللہ تعالیٰ نے جنت سے نکال دیا اور آدم (علیہ السلام) کے بعد اس کی بیوی کو پیدا کر کے ان دونوں سے فرمایا کہ یہ جنت تمہارا مسکن ہے یہاں سے جو چاہو اور جتنا چاہو کھاؤ پیو البتہ اس ایک درخت کے قریب بھی نہ پھٹکنا۔ یہ درخت کون سا تھا ؟ اس کی صراحت نہیں کی گئی اور نہ اس کی ضرورت ہی تھی۔ اس حکم سے مقصود صرف آدم و حوا (علیہما السلام) کی آزمائش تھی کہ وہ کہاں تک اللہ کا یہ حکم بجا لاتے ہیں اور شیطان جو اپنی چھاتی پر ہاتھ مار کر کہتا ہے کہ میں آدم (علیہ السلام) اور اس کی اولاد کو گمراہ کر کے چھوڑوں گا کیا یہ اس کی چالوں میں آتے ہیں یا نہیں ؟
وَيٰٓاٰدَمُ اسْكُنْ اَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ ۔۔ : اس کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورة بقرہ (٣٥) ۔
خلاصہ تفسیر - اور ہم نے (آدم (علیہ السلام) کو) حکم دیا کہ اے آدم تم اور تمہاری بی بی (حواء) جنت میں رہو پھر جس جگہ سے چاہو (اور جس چیز کو چاہو) دونوں آدمی کھاؤ اور (اتنا خیال رہے کہ) اس (خاص) درخت کے پاس (بھی) مت جاؤ (یعنی اس کا پھل نہ کھاؤ) کبھی ان لوگوں کے شمار میں آجاؤ جن سے نامناسب کام ہوجایا کرتے ہیں، پھر شیطان نے ان دونوں کے دل میں وسوسہ ڈالا تاکہ (ان کو وہ ممنوع درخت کھلا کر) ان کا مستور بدن جو ایک دوسرے سے پوشیدہ تھا دونوں کے روبرو بےپردہ کر دے (کیونکہ اس درخت کے کھانے کی یہی تاثیر ہے، خواہ بالذات یا بوجہ ممانعت کے) اور (وہ وسوسہ یہ تھا کہ دونوں سے) کہنے لگا کہ تمہارے رب نے تم دونوں کو اس درخت (کے کھانے) سے اور کسی سبب سے منع نہیں فرمایا مگر محض اس وجہ سے کہ تم دونوں (اس کو کھاکر) کہیں فرشتے نہ بن جاؤ، یا کہیں ہمیشہ زندہ رہنے والوں میں سے نہ ہوجاؤ (حاصل وسوسہ کا یہ تھا اس درخت کے کھانے سے قوت ملکیت اور دائمی زندگی کی پیدا ہوجاتی ہے، مگر شروع میں آپ کا وجود اس طاقتور غذا کا متحمل نہ تھا، اس لئے منع کردیا گیا تھا، اب آپ کی حالت اور قوت میں ترقی ہوگئی، اور آپ کے قویٰ میں اس کا تحمل ہوگیا تو اب وہ ممانعت باقی نہ رہی) اور ان دونوں کے روبرو (اس بات پر) قسم کھالی کہ یقین جانئے میں آپ دونوں کا (دل سے) خیر خواہ ہوں تو (ایسی باتیں بنا کر) ان دونوں کو فریب سے نیچے لے آیا، (نیچے لانا باعتبار حالت اور رائے کے بھی تھا کہ اپنی رائے عالی کو چھوڑ کر اس دشمن کی رائے پر مائل ہوگئے، اور مقام کے اعتبار سے بھی جنت سے اسفل کی طرف اتارے گئے) پس ان دونوں نے جو درخت کو چکھا (فوراً ) دونوں کا مستور بدن ایک دوسرے کے سامنے کھل گیا، (یعنی جنت کا لباس اتر پڑا اور دونوں شرما گئے) اور (بدن چھپانے کے لئے) دونوں اپنے (بدن کے) اوپر جنت کے (درختوں کے) پتے جوڑ جوڑ کر رکھنے لگے اور (اس وقت) ان کے رب نے ان کو پکارا، کیا میں تم دونوں کو اس درخت (کے کھانے سے) ممانعت نہ کرچکا تھا اور یہ بتلا چکا تھا کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے، (اس کے بہکاوے سے بچتے رہنا) دونوں کہنے لگے کہ اے ہمارے رب ہم نے اپنا بڑا نقصان کیا (کہ پوری احتیاط اور تامل سے کام نہ لیا) اور اگر آپ ہماری مغفرت نہ کریں گے اور ہم پر رحم نہ کریں گے تو واقعی ہم بڑے خسارہ میں پڑجائیں گے، حق تعالیٰ نے (آدم و حواء (علیہما السلام) سے) فرمایا کہ (جنت سے) نیچے (زمین پر) ایسی حالت میں جاؤ کہ تم (یعنی تمہاری اولاد) باہم بعضے بعض کے دشمن رہو گئے اور تمہارے واسطے زمین میں رہنے کی جگہ (تجویز کی گئی) ہے اور (اسباب معیشت سے) نفع حاصل کرنا (تجویز ہوا ہے) ایک وقت (خاص) تک (یعنی موت کے وقت تک اور یہ بھی) فرمایا کہ تم کو وہاں ہی زندگی بسر کرنا ہے اور وہاں ہی مرنا ہے اور اسی میں سے (قیامت کے روز) پھر زندہ ہو کر نکلنا ہے۔- معارف ومسائل - حضرت آدم (علیہ السلام) اور ابلیس کا جو واقعہ آیات مذکورہ میں آیا ہے بعینہ یہ سب واقعہ سورة بقرہ کے چوتھے رکوع میں پوری تفصیل کے ساتھ آچکا ہے، اور اس کے متعلق جس قدر سوالات و شبہات ہو سکتے ہیں ان سب کا تفصیلی جواب اور پوری تشریح مع دیگر فوائد کے سورة بقرہ کی تفسیر میں صفحہ 118 سے صفحہ 144 تک لکھ دیا گیا ہے، ضرورت ہو تو وہاں دیکھ لیا جائے۔
فَوَسْوَسَ لَہُمَا الشَّيْطٰنُ لِيُبْدِيَ لَہُمَا مَا وٗرِيَ عَنْہُمَا مِنْ سَوْاٰتِہِمَا وَقَالَ مَا نَہٰىكُمَا رَبُّكُمَا عَنْ ہٰذِہِ الشَّجَرَۃِ اِلَّآ اَنْ تَكُوْنَا مَلَكَيْنِ اَوْ تَكُوْنَا مِنَ الْخٰلِدِيْنَ ٢٠- وسوس - الوَسْوَسَةُ : الخطرةُ الرّديئة، وأصله من الوَسْوَاسِ ، وهو صوت الحلي، والهمس الخفيّ. قال اللہ تعالی: فَوَسْوَسَ إِلَيْهِ الشَّيْطانُ [ طه 120] ، وقال : مِنْ شَرِّ الْوَسْواسِ [ الناس 4] ويقال لهمس الصّائد وَسْوَاسٌ.- ( وس وس ) الوسوسۃ - اس برے خیال کو کہتے ہیں جو دل میں پیدا ہوتا ہے اور اصل میں سے ماخوز ہے جس کے معنی زیور کی چھنکار یا ہلکی سی آہٹ کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَوَسْوَسَ إِلَيْهِ الشَّيْطانُ [ طه 120] تو شیطان نے ان کے دل میں وسوسہ ڈالا ۔ مِنْ شَرِّ الْوَسْواسِ [ الناس 4] شیطان وسوسہ انداز کی برائی سے جو ( خدا کا نام سنکر ) پیچھے ہٹ جاتا ہے ۔ اور وسواس کے معنی شکار ی کے پاؤں کی آہٹ کے بھی آتے ہیں ۔- شطن - الشَّيْطَانُ النون فيه أصليّة «3» ، وهو من : شَطَنَ أي : تباعد، ومنه : بئر شَطُونٌ ، وشَطَنَتِ الدّار، وغربة شَطُونٌ ، وقیل : بل النون فيه زائدة، من : شَاطَ يَشِيطُ : احترق غضبا، فَالشَّيْطَانُ مخلوق من النار کما دلّ عليه قوله تعالی: وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن 15]: الشّيطان اسم لكلّ عارم من الجنّ والإنس والحیوانات . قال تعالی: شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام 112] - ( ش ط ن ) الشیطان - اس میں نون اصلی ہے اور یہ شطن سے مشتق ہے جس کے معنی دور ہونیکے ہیں اور بئر شطون ( بہت گہرا کنوآں ) شطنت الدار ۔ گھر کا دور ہونا غربۃ شطون ( بطن سے دوری ) وغیرہ محاوارت اسی سے مشتق ہیں بعض نے کہا ہے کہ لفظ شیطان میں نون زائدہ ہے اور یہ شاط یشیط سے مشتق ہے جس کے معنی غصہ سے سوختہ ہوجانے کے ہیں ۔ اور شیطان کو بھی شیطان اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ آگ سے پیدا ہوا ہے جیسا کہ آیت : ۔ وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن 15] اور جنات کو آگ کے شعلہ سے پیدا کیا ۔ سے معلوم ہوتا ہے ۔ ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ شیطان ہر سر کش کو کہتے ہیں خواہ وہ جن وانس سے ہو یا دیگر حیوانات سے ۔ قرآن میں ہے : ۔ شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام 112] شیطان ( سیرت ) انسانوں اور جنوں کو - بدا - بَدَا الشیء بُدُوّاً وبَدَاءً أي : ظهر ظهورا بيّنا، قال اللہ تعالی: وَبَدا لَهُمْ مِنَ اللَّهِ ما لَمْ يَكُونُوا يَحْتَسِبُونَ [ الزمر 47] - ( ب د و ) بدا - ( ن ) الشئ یدوا وبداء کے معنی نمایاں طور پر ظاہر ہوجانا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ وَبَدا لَهُمْ مِنَ اللَّهِ ما لَمْ يَكُونُوا يَحْتَسِبُونَ [ الزمر 47] اور ان کیطرف سے وہ امر ظاہر ہوجائے گا جس کا ان کو خیال بھی نہ تھا ۔ - وری - يقال : وَارَيْتُ كذا : إذا سترته . قال تعالی: قَدْ أَنْزَلْنا عَلَيْكُمْ لِباساً يُوارِي سَوْآتِكُمْ- [ الأعراف 26] وتَوَارَى: استتر . قال تعالی: حَتَّى تَوارَتْ بِالْحِجابِ [ ص 32] وروي أن النبيّ عليه الصلاة والسلام «كان إذا أراد غزوا وَرَّى بِغَيْرِهِ» ، وذلک إذا ستر خبرا وأظهر غيره .- ( و ر ی )- واریت کذا ۔ کے معنی کسی چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ قَدْ أَنْزَلْنا عَلَيْكُمْ لِباساً يُوارِي سَوْآتِكُمْ [ الأعراف 26] ہم نے تم پر پوشاک اتاری کہ تمہارا سر ڈھانکے ۔ تواری ( لازم ) چھپ جانا ۔ قرآن میں ہے : ۔ حَتَّى تَوارَتْ بِالْحِجابِ [ ص 32] یہانتک کہ ( افتاب ) پردے میں چھپ گیا ۔ وریالخبر کے معنی تو ریہ کرنے کے ہیں یعنی اصل بات کو چھپا کر اسے کسی اور طریقہ سے ظاہر کرنا اس طور پر کہ جھوٹ بھی نہ ہو ۔ اور اصل مقصد بھی ظاہر نہ ہونے پائے ) چناچہ حدیث میں ہے ۔ ( 143 ) «كان إذا أراد غزوا وَرَّى بِغَيْرِهِ»کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کسی غزوہ پر تشریف لے جاتے تو تو ریہ سے کام لیتے ۔- سوْأَةِ ( شرم گاه)- وكنّي عن الْفَرْجِ بِالسَّوْأَةِ قال : كَيْفَ يُوارِي سَوْأَةَ أَخِيهِ [ المائدة 31] ، فَأُوارِيَ سَوْأَةَ أَخِي [ المائدة 31] ، يُوارِي سَوْآتِكُمْ [ الأعراف 26] ۔ اور کنایہ کے طور پر سوء کا لفظ عورت یا مرد کی شرمگاہ پر بھی بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : كَيْفَ يُوارِي سَوْأَةَ أَخِيهِ [ المائدة 31] اپنے بھائی کی لاش کو کیونکہ چھپائے ۔ فَأُوارِيَ سَوْأَةَ أَخِي [ المائدة 31] کہ اپنے بھائی کی لاش چھپا دیتا ۔ يُوارِي سَوْآتِكُمْ [ الأعراف 26] کہ تمہار ستر ڈھانکے ، بَدَتْ لَهُما سَوْآتُهُما [ الأعراف 22] تو ان کے ستر کی چیزیں کھل گئیں ۔ لِيُبْدِيَ لَهُما ما وُورِيَ عَنْهُما مِنْ سَوْآتِهِما[ الأعراف 20] تاکہ ان کے ستر کی چیزیں جو ان سے پوشیدہ تھیں ۔ کھول دے ۔ - نهى- النهي : الزّجر عن الشیء . قال تعالی: أَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهى عَبْداً إِذا صَلَّى[ العلق 9- 10]- ( ن ھ ی ) النهي - کسی چیز سے منع کردینا ۔ قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهى عَبْداً إِذا صَلَّى[ العلق 9- 10] بھلاتم نے اس شخص کو دیکھا جو منع کرتا ہے ( یعنی ) ایک بندے کو جب وہ نماز پڑھنے لگتا ہے ۔- ملك ( فرشته)- وأما المَلَكُ فالنحویون جعلوه من لفظ الملائكة، وجعل المیم فيه زائدة . وقال بعض المحقّقين : هو من المِلك، قال : والمتولّي من الملائكة شيئا من السّياسات يقال له : ملک بالفتح، ومن البشر يقال له : ملک بالکسر، فكلّ مَلَكٍ ملائكة ولیس کلّ ملائكة ملکاقال : وَالْمَلَكُ عَلى أَرْجائِها [ الحاقة 17] ، عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبابِلَ [ البقرة 102] - ( م ل ک ) الملک - الملک علمائے نحو اس لفظ کو ملا ئکۃ سے ماخوذ مانتے ہیں اور اس کی میم کو زائد بناتے ہیں لیکن بعض محقیقن نے اسے ملک سے مشتق مانا ہے اور کہا ہے کہ جو فرشتہ کائنات کا انتظام کرتا ہے اسے فتحہ لام کے ساتھ ملک کہا جاتا ہے اور انسان کو ملک ہیں معلوم ہوا کہ ملک تو ملا ئکۃ میں ہے لیکن کل ملا ئکۃ ملک نہیں ہو بلکہ ملک کا لفظ فرشتوں پر بولا جاتا ہے کی طرف کہ آیات ۔ وَالْمَلَكُ عَلى أَرْجائِها [ الحاقة 17] اور فرشتے اس کے کناروں پر اتر آئیں گے ۔ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبابِلَ [ البقرة 102] اور ان باتوں کے بھی پیچھے لگ گئے جو دو فرشتوں پر اتری تھیں ۔- خلد - الخُلُود : هو تبرّي الشیء من اعتراض الفساد، وبقاؤه علی الحالة التي هو عليها، والخُلُودُ في الجنّة : بقاء الأشياء علی الحالة التي عليها من غير اعتراض الفساد عليها، قال تعالی: أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة 82] ،- ( خ ل د ) الخلودُ ( ن )- کے معنی کسی چیز کے فساد کے عارضہ سے پاک ہونے اور اپنی اصلی حالت پر قائم - رہنے کے ہیں ۔ اور جب کسی چیز میں دراز تک تغیر و فساد پیدا نہ ہو۔ قرآن میں ہے : ۔ لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُونَ [ الشعراء 129] شاید تم ہمیشہ رہو گے ۔ جنت میں خلود کے معنی یہ ہیں کہ اس میں تمام چیزیں اپنی اپنی اصلی حالت پر قائم رہیں گی اور ان میں تغیر پیدا نہیں ہوگا ۔ قرآن میں ہے : ۔ أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة 82] یہی صاحب جنت میں ہمشہ اسمیں رہیں گے ۔
(١٩) اور فرمایا آدم (علیہ السلام) وحوا علیھا السلام جنت میں رہو، باقی اس درخت علم سے کچھ نہ کھانا، کبھی تم دونوں نامناسب کام کرنے والوں میں سے نہ ہوجانا۔