20۔ 1 وسوسہ اور وسو اس زلزلہ اور زلزال کے وزن پر ہے شیطان دل میں جو بری باتیں ڈالتا ہے، اس کو وسوسہ کہا جاتا ہے۔ 20۔ 1 یعنی شیطان کا مقصد اس بہکاوے سے حضرت آدم و حوا کو اس لباس جنت سے محروم کرکے انہیں شرمندہ کرنا تھا، جو انہیں جنت میں پہننے کے لئے دیا گیا تھا شرم گاہ کو سَوْءَۃ، ُ سے اس لئے تعبیر کیا گیا ہے کہ اس کے ظاہر ہونے کو برا سمجھا جاتا ہے۔
لِيُبْدِيَ لَهُمَا : بعض علمائے تفسیر نے لکھا ہے کہ ” ُ لِيُبْدِيَ “ میں ” لام “ عاقبت کا ہے، یعنی شیطان کے دل میں نہیں تھا کہ وہ ننگے ہوجائیں مگر ایسا کرنے کا انجام یہی تھا، لیکن زیادہ صحیح یہی ہے کہ یہ ” لام “ تعلیل کا ہے اور اس کی غرض یہی تھی اور اسے معلوم تھا کہ درخت کھانے کا نتیجہ کیا ہوگا۔ شرم گاہ کو ” سوء ۃ “ اس لیے کہتے ہیں کہ اس کا ننگا ہونا انسان کو طبعاً برا لگتا ہے اور ” سَاءَ یَسُوْءُ “ کا معنی برا لگنا ہے، گویا ان کو جنت کا جو لباس پہنایا گیا تھا، جس سے ان کی شرم گاہیں چھپی ہوئی تھیں، وہ ممنوعہ درخت کھانے سے اتر جانا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے آدم (علیہ السلام) کو پہلے ہی جنت کی چار خصوصی سہولتیں بتائی تھیں۔ جن میں سے ایک یہ تھی کہ تو جنت میں ننگا نہیں ہوگا اور ساتھ ہی بتادیا تھا کہ ممنوعہ درخت کھانے سے یہ سہولتیں چھن جائیں گی، اس لیے یہ بات آدم (علیہ السلام) کو بھی معلوم تھی، مگر شیطان کے قسم کھانے سے بھول گئے۔ ان سہولتوں کے لیے دیکھیے سورة طٰہٰ (١١٨، ١١٩)- وٗرِيَ ” وَریٰ “ یہ ” وَارٰی یُوَارِیْ مُوَارَاۃً “ ( مفاعلہ) سے ماضی مجہول ہے۔ - وَقَالَ مَا نَهٰىكُمَا رَبُّكُمَا۔۔ : شیطان نے ان دونوں کو یوں بہکایا کہ اللہ تعالیٰ کے تمہیں اس درخت سے منع کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اس کے کھانے سے تم فرشتے بن جاؤ گے، یعنی ان کی خصوصیات اور فطری کمالات تم میں بھی پیدا ہوجائیں گی، یا ہمیشہ ہمیشہ جنت میں رہنے والوں میں شامل ہوجاؤ گے۔ جن دو چیزوں کے درمیان ” أَوْ “ کا لفظ آئے ان میں سے ایک چیز بھی ہوسکتی ہے اور دونوں بھی۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک بھی نہ ہو۔ ایک بہرحال ضرور ہوگی، دوسری بھی ممکن ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آدم (علیہ السلام) فرشتوں کو اللہ کے قریب رہنے کی وجہ سے اپنے سے بہتر سمجھتے تھے، جیسا کہ فرمایا : ( وَ مَنْ عِنْدَهٗ لَا يَسْـتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِهٖ وَ لَا يَسْتَحْسِرُوْنَ ) [ الأنبیاء : ١٩ ] ” اور جو اس کے پاس ہیں وہ نہ اس کی عبادت سے تکبر کرتے ہیں اور نہ تھکتے ہیں۔ “ مگر یہ ایک جزوی فضیلت ہے، اس سے ہر لحاظ سے فرشتوں کا انسان سے افضل ہونا ثابت نہیں ہوتا۔
وَقَاسَمَہُمَآ اِنِّىْ لَكُمَا لَمِنَ النّٰصِحِيْنَ ٢١ ۙ- قْسَمَ ( حلف)- حلف، وأصله من الْقَسَامَةُ ، وهي أيمان تُقْسَمُ علی أولیاء المقتول، ثم صار اسما لكلّ حلف . قال : وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ الأنعام 109] ، أَهؤُلاءِ الَّذِينَ أَقْسَمْتُمْ [ الأعراف 49] ، وقال : لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ وَلا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ [ القیامة 1- 2] ، فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ وَالْمَغارِبِ [ المعارج 40] ، إِذْ أَقْسَمُوا لَيَصْرِمُنَّها مُصْبِحِينَ [ القلم 17] ، فَيُقْسِمانِ بِاللَّهِ [ المائدة 106]- اقسم - ( افعال کے معنی حلف اٹھانے کے ہیں یہ دروصل قسامۃ سے مشتق ہے اور قسیا مۃ ان قسموں کو کہا جاتا ہے جو او لیائے مقتول پر تقسیم کی جاتی ہیں پھر مطلق کے معنی استعمال ہونے لگا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمانِهِمْ [ الأنعام 109] اور یہ خدا کی سخت سخت قسمیں کھاتے ہیں ۔ - أَهؤُلاءِ الَّذِينَ أَقْسَمْتُمْ [ الأعراف 49] کیا یہ وہی لوگ ہیں جن کے مارے میں تم قسمیں کھایا کرتی تھے ۔ لا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيامَةِ وَلا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِ [ القیامة 1- 2] ہم کو روز قیامت کی قسم اور نفس لوامہ کی ۔ فَلا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشارِقِ وَالْمَغارِبِ [ المعارج 40] ہمیں مشرقوں اور مغربوں کے مالک کی قسم ۔ إِذْ أَقْسَمُوا لَيَصْرِمُنَّها مُصْبِحِينَ [ القلم 17] جب انہوں نے قسمیں کھا کھا کر کہا کہ ہم صبح ہوتے اس کا میوہ توڑلیں گے ۔ فَيُقْسِمانِ بِاللَّهِ [ المائدة 106] اور دونوں خدا کی قسمیں کھائیں ۔ ماسمعتہ وتقاسما باہم قسمیں اٹھانا ۔ قرآن میں ہے : وَقاسَمَهُما إِنِّي لَكُما لَمِنَ النَّاصِحِينَ [ الأعراف 21] اور ان کی قسم کھاکر کہا کہ میں تمہارا خیر خواہ ہوں ۔ - نصح - النُّصْحُ : تَحَرِّي فِعْلٍ أو قَوْلٍ فيه صلاحُ صاحبِهِ. قال تعالی: لَقَدْ أَبْلَغْتُكُمْ رِسالَةَ رَبِّي وَنَصَحْتُ لَكُمْ وَلكِنْ لا تُحِبُّونَ النَّاصِحِينَ [ الأعراف 79] وَلا يَنْفَعُكُمْ نُصْحِي إِنْ أَرَدْتُ أَنْ أَنْصَحَ لَكُمْ [هود 34] وهو من قولهم : نَصَحْتُ له الوُدَّ. أي : أَخْلَصْتُهُ ، ونَاصِحُ العَسَلِ : خَالِصُهُ ، أو من قولهم : نَصَحْتُ الجِلْدَ : خِطْتُه، والنَّاصِحُ : الخَيَّاطُ ، والنِّصَاحُ : الخَيْطُ ، وقوله : تُوبُوا إِلَى اللَّهِ تَوْبَةً نَصُوحاً [ التحریم 8] فمِنْ أَحَدِ هذين، إِمَّا الإخلاصُ ، وإِمَّا الإِحكامُ ، ويقال : نَصُوحٌ ونَصَاحٌ نحو ذَهُوب وذَهَاب،- ( ن ص ح ) النصح - کسی ایسے قول یا فعل کا قصد کرنے کو کہتے ہیں جس میں دوسرے کی خیر خواہی ہو قرآن میں ہے ۔ لَقَدْ أَبْلَغْتُكُمْ رِسالَةَ رَبِّي وَنَصَحْتُ لَكُمْ وَلكِنْ لا تُحِبُّونَ النَّاصِحِينَ [ الأعراف 79] میں نے تم کو خدا کا پیغام سنادیا ۔ اور تمہاری خیر خواہی کی مگر تم ایسے ہو کہ خیر خواہوں کو دوست ہی نہیں رکھتے ۔ یہ یا تو نصحت لہ الود کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی کسی سے خالص محبت کرنے کے ہیں اور ناصح العسل خالص شہد کو کہتے ہیں اور یا یہ نصحت الجلد سے ماخوذ ہے جس کے معنی چمڑے کو سینے کے ہیں ۔ اور ناصح کے معنی درزی اور نصاح کے معنی سلائی کا دھاگہ کے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : تُوبُوا إِلَى اللَّهِ تَوْبَةً نَصُوحاً [ التحریم 8] خدا کے آگے صاف دل سے توبہ کرو ۔ میں نصوحا کا لفظ بھی مذکورہ دونوں محاوروں میں سے ایک سے ماخوذ ہے اور اس کے معنی خالص یا محکم توبہ کے ہیں اس میں نصوح ور نصاح دو لغت ہیں جیسے ذھوب وذھاب
(٢٠۔ ٢١) شیطان نے اس درخت سے کھانے کا وسوسہ ڈالا تاکہ ان کے بدن کے اس حصہ کو ان کے سامنے ظاہر کردے جو نور کے لباس نے پوشیدہ کر رکھا تھا۔- اور شیطان نے ان سے کہا اے آدم وحوا اس درخت کے کھانے سے محض اس لیے روکا گیا ہے کہ کہیں تم جنت میں خیر وشر سے واقف نہ ہوجاؤ اور قسم کھائی کہ یہ درخت ہمیشہ زندہ رہنے کا درخت ہے اور مکر و فریب سے اس درخت ہمیشہ زندہ رہنے کا درخت ہے اور مکروفریب سے اس درخت کے پھل کھانے پر ان کو راضی کرلیا حتی کہ انہوں نے اس کو کھالیا ،
آیت ٢٠ (فَوَسْوَسَ لَہُمَا الشَّیْطٰنُ لِیُبْدِیَ لَہُمَا مَا وٗرِیَ عَنْہُمَا مِنْ سَوْاٰتِہِمَا) - قصۂ آدم ( علیہ السلام) و ابلیس کی تفصیل ہم سورة البقرۃ کے چوتھے رکوع میں بھی پڑھ چکے ہیں۔ یہاں یہ قصہ دوسری مرتبہ بیان ہوا ہے۔ پورے قرآن مجید میں یہ واقعہ سات مرتبہ آیا ہے ‘ چھ مرتبہ مکی سورتوں میں اور ایک مرتبہ مدنی سورت (البقرۃ) میں۔ لیکن ہر جگہ مختلف انداز سے بیان ہوا ہے اور ہر بار کسی نہ کسی نئی بات کا اس میں اضافہ ہوا ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوتی تحریک جیسے جیسے آگے بڑھ رہی تھی ‘ ہر دور کے مخصوص حالات کے سبب اس واقعے میں ہر دفعہ مزید تفصیلات شامل ہوتی گئیں۔ اس رکوع کے شروع میں جب اس قصے کا ذکر آیا ہے تو وہاں جمع کا صیغہ استعمال کر کے تمام انسانوں کو مخاطب کیا گیا ہے : (وَلَقَدْ خَلَقْنٰکُمْ ثُمَّ صَوَّرْنٰکُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلآءِکَۃِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ ق فَسَجَدُوْٓا اِلَّآ اِبْلِیْسَ ط) - سورۃ البقرۃ کی متعلقہ آیات کی وضاحت کرتے ہوئے اس ضمن میں بعض اہم نکات زیر بحث آ چکے ہیں۔ یہاں پر مزید کچھ باتیں تشریح طلب ہیں۔ ایک تو شیطان کے حضرت آدم اور حضرت حوا کو ورغلانے اور ان کے دلوں میں وسوسے ڈالنے کا سوال ہے کہ اس کی کیفیت کیا تھی۔ اس سلسلے میں جو باتیں یا مکالمات قرآن میں آئے ہیں ان سے یہ گمان ہرگز نہ کیا جائے کہ وہ اسی طرح ان کے درمیان وقوع پذیر بھی ہوئے تھے اور وہ ایک دوسرے کو دیکھتے اور پہچانتے ہوئے ایک دوسرے سے باتیں کرتے تھے۔ ایسا ہرگز نہیں تھا ‘ بلکہ شیطان جیسے آج ہماری نگاہوں سے پوشیدہ ہے اسی طرح حضرت آدم ( علیہ السلام) اور حضرت حوا ( علیہ السلام) کی نظروں سے بھی پوشیدہ تھا اور جس طرح آج ہمارے دلوں میں شیطانی وسوسے جنم لیتے ہیں اسی طرح ان کے دلوں میں بھی وسوسے پیدا ہوئے تھے۔ دوسرا اہم نکتہ ایک خاص ممنوعہ پھل کے چکھنے اور اس کی ایک خاص تاثیر کے بارے میں ہے۔ قرآن مجید میں ہمیں اس کی تفصیل اس طرح ملتی ہے کہ اس پھل کے چکھنے پر ان کی شرمگاہیں نمایاں ہوگئیں۔ جہاں تک اس کیفیت کی حقیقت کا تعلق ہے تو اسے معلوم کرنے کے لیے ہمارے پاس حتمی اور قطعی علمی ذرائع نہیں ہیں ‘ اس لیے اسے متشابہات میں ہی شمار کیا جائے گا۔ البتہ اس کے بارے میں مفسرین نے قیاس آرائیاں کی ہیں۔ مثلاً یہ کہ پہلے انہیں اپنے ان اعضاء کے بارے میں شعور نہیں تھا ‘ مگر وہ پھل چکھنے کے بعد یہ شعور ان میں بیدار ہوگیا ‘ یا یہ کہ پہلے انہیں جنت کا لباس دیا گیا تھا جو اس واقعے کے بعد اتر گیا۔ بعض لوگوں کے نزدیک یہ نیکی اور بدی کا درخت تھا جس کا پھل کھاتے ہی ان میں نیکی اور بدی کی تمیز پیدا ہوگئی۔ بعض حضرات کا خیال ہے کہ یہ دراصل آدم ( علیہ السلام) اور حوا ( علیہ السلام) کے درمیان پہلاجنسی اختلاط ( ) تھا ‘ جسے اس انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ یہ مختلف آراء ہیں ‘ لیکن صحیح بات یہی ہے کہ یہ متشابہات میں سے ہے اور ٹھوس علمی معلومات کے بغیر اس کے بارے میں کوئی قطعی اور حقیقی رائے قائم کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے کہ وہ درخت کون سا تھا اور اسے چکھنے کی اصل حقیقت اور کیفیت کیا تھی۔- (وَقَالَ مَا نَہٰٹکُمَا رَبُّکُمَا عَنْ ہٰذِہِ الشَّجَرَۃِ الآَّ اَنْ تَکُوْنَا مَلَکَیْنِ اَوْ تَکُوْنَا مِنَ الْخٰلِدِیْنَ ) ۔ - یہ تو سیدھی سی بات ہے کہ فرشتوں کو تو آدم ( علیہ السلام) کے سامنے جھکایا گیا تھا تو اس کے بعد آپ ( علیہ السلام) کے لیے فرشتہ بن جانا کون سی بڑی بات تھی ‘ لیکن بعض اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ انسان کو نسیان ہوجاتا ہے اور وہ اپنی اصل حقیقت ‘ اصل مقام کو بھول جاتا ہے۔ چناچہ یہ بات گویا شیطان نے وسوسے کے انداز سے ان کے ذہنوں میں ڈالنے کی کوشش کی کہ اس شجر ممنوعہ کا پھل کھا کر تم فرشتے بن جاؤ گے یا ہمیشہ ہمیشہ زندہ رہو گے اور تم پر موت طاری نہ ہوگی۔
6: بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس درخت کی خاصیت یہ تھی کہ اس کا پھل کھانے سے جنت کا لباس اتر جاتا تھا اور یہ بات ابلیس کو معلوم تھی، چنانچہ جب حضرت آدم اور حوا علیہما السلام نے اسے کھایا تو جنت کا جو لباس انہیں عطا ہوا تھا وہ ان کے جسم سے اتر گیا۔ 7: مطلب یہ تھا کہ چونکہ اس درخت کی خاصیت یہ ہے کہ جو اس میں سے کھا لیتا ہے وہ یا تو فرشتہ بن جاتا ہے، یا اسے ہمیشہ کی زندگی عطا ہوجاتی ہے، اس لیے اسے کھانے کے لیے مخصوس قوت کی ضرورت ہے۔ شروع میں آپ دونوں کو یہ قوت حاصل نہیں تھی۔ اس لیے منع کیا گیا تھا۔ اب آپ کو جنت میں رہتے ہوئے ایک زمانہ گذر گیا ہے اور آپ میں وہ قوت پیدا ہوگئی ہے اس لیے اب کھا لینے میں کچھ حرج نہیں۔