Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

اچھے اعمال کی نشاندہی ابن عباس فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ ان سے وہ مال لے جو ان کی ضرورت سے زیادہ ہوں اور جسے یہ بخوشی اللہ کی راہ میں پیش کریں ۔ پہلے چونکہ زکوٰۃ کے احکام بہ تفصیل نہیں اترے تھے اس لئے یہی حکم تھا ۔ یہ بھی معنی کئے گئے ہیں کہ ضرورت سے زائد چیز اللہ کی راہ میں خرچ کر دیا کرو ۔ یہ بھی مطلب ہے کہ مشرکین سے بدلہ نہ لے دس سال تک تو یہی حکم رہا کہ درگذر کرتے ہو پھر جہاد کے احکام اترے ۔ یہ بھی مطلب ہے کہ لوگوں کے اچھے اخلاق اور عمدہ عادات جو ظاہر ہوں انہی پر نظریں رکھ ان کے باطن نہ ٹٹول ، تجسس نہ کرو ۔ حضرت عبداللہ بن زبیر وغیرہ سے بھی یہی تفسیر مروی ہے یہی قول زیادہ مشہور ہے حدیث میں ہے کہ اس آیت کو سن کر حضرت جبرائیل سے آپ نے دریافت کیا کہ اس کا کیا مطلب ہے؟ آپ نے فرمایا یہ کہ جو تجھ پر ظلم کرے تو اس سے درگذر کر ۔ جو تجھے نہ دے تو اس کے ساتھ بھی احسان و سلوک کر ۔ جو تجھ سے قطع تعلق کرے تو اس کے ساتھ بھی تعلق رکھ ۔ مسند احمد میں ہے حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملا اور آپ کا ہاتھ تھام کر درخواست کی کہ مجھے افضل اعمال بتائیے آپ نے فرمایا جو تجھ سے توڑے تو اس سے بھی جوڑ ، جو تجھ سے روکے تو اسے دے ، جو تجھ پر ظلم کرے تو اس پر بھی رحم کر ۔ اوپر والی روایت مرسل ہے اور یہ روایت ضعیف ہے ۔ عرف سے مراد نیک ہے ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ عینیہ بن حصن بن حذیفہ اپنے بھائی حر بن قیس کے ہاں آ کے ٹھہرا ۔ حضرت حر حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے خاص درباریوں میں تھے آپ کے درباری اور نزدیکی کا شرف صرف انہیں حاصل تھا جو قرآن کریم کے ماہر تھے خواہ وہ جوان ہوں خواہ بوڑھے ۔ اس نے درخواست کی کہ مجھے آپ امیر المومنین عمر کے دربار میں حاضری کی اجازت دلوا دیجئے ۔ آپ نے وہاں جا کر ان کے لئے اجازت چاہی امیر المومنین نے اجازت دے دی ۔ یہ جاتے ہی کہنے لگے کہ اے ابن خطاب تو ہمیں بکثرت مال بھی نہیں دیتا اور ہم میں عدل کے ساتھ فیصلے بھی نہیں کرتا ۔ آپ کو یہ کلام بھی برا لگا ، ممکن تھا کہ اسے اس کی اس تہمت پر سزا دیتے لیکن اسی وقت حضرت حر نے کہا اے امیر المومنین اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم فرمایا ہے کہ عفودرگذر کی عادت رکھ ، اچھائیوں کا حکم کرتا رہ اور جاہلوں سے چشم پوشی کر ۔ امیر المومنین یقین کیجئے کہ یہ نرا جاہل ہے قرآن کریم کی اس آیت کا کان میں پڑنا تھا کہ آپ کا تمام رنج و غم غصہ و غضب جاتا رہا ۔ آپ کی یہ تو عادت ہی تھی کہ ادھر کلام اللہ سنا ادھر گردن جھکا دی ۔ امیرالمومنین رضی اللہ عنہ کے پوتے حضرت سالم بن عبداللہ رحمہ اللہ کا ذکر ہے کہ آپ نے شامیوں کے ایک قافلے کو دیکھا ، جس میں گھنٹی تھی تو آپ نے فرمایا یہ گھنٹیاں منع ہیں ۔ انہوں نے کہ ہم اس مسئلے کو آپ سے زیادہ جانتے ہیں بڑی بڑی گھنٹیوں سے منع ہے اس جیسی چھوٹی گھنٹیوں میں کیا حرج ہے؟ حضرت سالم نے اسی آیت کا آخری جملہ پڑھ کر ان جاہلوں سے چشم پوشی کرلی ۔ عرف معروف عارف عارفہ سب کے ایک ہی معنی ہیں ۔ اس میں ہر اچھی بات کی اطاعت کا ذکر آ گیا پھر حکم دیا کہ جاہلوں سے منہ پھیر لیا کر گو یہ حکم آپ کو ہے لیکن دراصل تمام بندوں کو یہی حکم ہے ۔ مطلب یہ ہے ظلم برداشت کر لیا کرو تکلیف دہی کا خیال بھی نہ کرو ۔ یہ معنی نہیں کہ دین حق کے معاملے میں جو جہالت سے پیش آئے تم اس سے کچھ نہ کہو ، مسلمانوں سے جو کفر پر جم کر مقابلہ کرے تم اسے کجھ نہ کہنا ۔ یہ مطلب اس جملے کا نہیں ۔ یہ وہ پاکیزہ اخلاق ہیں جن کا مجسم عملی نمونہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے کسی نے اسی مضمون کو اپنے شعروں میں باندھا ہے ۔ شعر ( خذا لعفو وامربالعرف کما امرت واعرض عن الجاھلین ولن فی الکلام بکل الانام فمستحسن من ذوی الجاھلین یعنی درگزر کیا کر ، بھلی بات بتا دیا کر جیسے کہ تجھے حکم ہوا ہے ، نادانوں سے ہٹ جا یا کر ، ہر ایک سے نرم کلامی سے پیش آ ۔ یاد رکھ کہ عزت و جاہ پر پہنچ کر نرم اور خوش اخلاق رہنا ہی کمال ہے ۔ بعض مسلمانوں کا مقولہ ہے کہ لوگ دو طرح کے ہیں ایک تو بھلے اور محسن جو احسان و سلوک کریں قبول کر لے اور ان کے سر نہ ہو جا کہ ان کی وسعت سے زیادہ ان پر بوجھ ڈال دے ۔ دوسرے بد اور ظالم انہیں نیکی اور بھلائی کا حکم دے پھر بھی اگر وہ اپنی جہالت پر اور بد کرداری پر اڑے رہیں اور تیرے سامنے سرکشی اختیار کریں تو تو ان سے روگردانی کر لے یہی چیز اسے اس کی برائی سے ہٹا دے گی جیسے کہ اللہ کا فرمان ہے آیت ( اِدْفَعْ بِالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ السَّيِّئَةَ ۭ نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَا يَصِفُوْنَ 96؀ ) 23- المؤمنون:96 ) بہترین طریق سے دفع کر دو تو تمہارے دشمن بھی تمہارے دوست بن جائیں گے لیکن یہ انہی سے ہو سکتا ہے جو صابر ہوں اور نصیبوں والے ہوں ۔ اس کے بعد شیطانی و سوسوں سے اللہ کی پناہ مانگنے کا حکم ہوا اس لئے کہ وہ سخت ترین دشمن ہے اور ہے بھی احسان فراموش ۔ انسانی دشمنوں سے بچاؤ تو عضو درگذر اور سلوک و احسان سے ہو جاتا ہے لیکن اس ملعون سے سوائے اللہ کی پناہ کے اور کوئی بچاؤ نہیں ۔ یہ تینوں حکم جو سورہ اعراف کی ان تین آیتوں میں ہیں یہی سورہ مومنون میں بھی ہیں اور سورہ حم السجدہ میں بھی ۔ شیطان تو حضرت آدم علیہ السلام کے وقت سے دشمن انسان ہے ۔ یہ جب غصہ دلائے جوش میں لائے فرمان الٰہی کے خلاف ابھارے جاہلوں سے بدلہ لینے پر آمادہ کرے تو اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگ لیا کرو ۔ وہ جاہلوں کی جہالت کو بھی جانتا ہے اور تیرے بچاؤ کی ترکیبوں کو بھی جانتا ہے ۔ ساری مخلوق کا اسے علم ہے وہ تمام کاموں سے خبردار ہے ۔ کہتے ہیں کہ جب اگلے تین حکم سنے تو کہا اسے اللہ ان کاموں کے کرنے کے وقت تو شیطان ان کے خلاف بری طرح آمادہ کر دے گا اور نفس تو جوش انتقام سے پر ہوتا ہی ہے کہیں ان کی خلاف ورزی نہ ہو جائے تو یہ پچھلی آیت نازل ہوئی کہ ایسا کرنے سے شیطانی وسوسہ دفع ہو جائے گا اور تم ان اخلاق کریمانہ پر عامل ہو جاؤ گے ۔ میں نے اپنی اسی تفسیر کے شروع میں ہی اعوذ کی بحث میں اس حدیث کو بھی وارد کیا ہے کہ دو شخص لڑ جھگڑ رہے تھے جن میں سے ایک سخت غضبناک تھا حضور نے فرمایا مجھے ایک ایسا کلمہ یاد ہے اگر یہ کہہ لے تو ابھی یہ بات جاتی رہے ۔ وہ کلمہ ( اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم ) ہے کسی نے اس میں بھی ذکر کیا تو اس نے کہا کہ کیا میں کوئی دیوانہ ہو گیا ہوں؟ نزع کے اصلی معنی فساد کے ہیں وہ خواہ غصے سے ہو یا کسی اور وجہ سے ۔ فرمان قرآن ہے کہ میرے بندوں کو آگاہ کر دو کہ وہ بھلی بات زبان سے نکالا کریں ۔ شیطان ان میں فساد کی آگ بھڑکانا چاہتا ہے ۔ عیاذ کے معنی التجا اور استناد کے ہیں اور لاذ کا لفظ طلب خیر کے وقت بولا جاتا ہے جیسے حسن بن ہانی کا شعر ہے ۔ ( بامن الوذبہ فیما اوملہ ومن اعوذ بہ مما احاذرہ لا یجبر الناس عظماانت کا سرہ ولا یھیضون عظما انت جابرہ ) یعنی اے اللہ تو میری آرزوؤں کا مرکز ہے اور میرے بچاؤ اور پناہ کا مسکن ہے مجھے یقین ہے کہ جس ہڈی کو تو توڑنا جاہے اسے کوئی جوڑ نہیں سکتا اور جسے تو جوڑنا چاہے اسے کوئی توڑ نہیں سکتا ۔ باقی حدیثیں جو اعوذ کے متعلق تھیں وہ ہم اپنی اس تفسیر کے شروع میں ہی لکھ آئے ہیں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

199۔ 1 بعض علماء نے اس کے معنی کئے ہیں ضرورت سے زائد مال ہو، وہ لے لو اور یہ زکوٰۃ کی فضیلت سے قبل کا حکم ہے، لیکن دوسرے مفسرین نے اس سے اخلاقی ہدایت یعنی عفو و درگزر مراد لیا ہے اور امام بن جری اور امام بخاری وغیرہ نے اس کو ترجیح دی ہے، چناچہ امام بخاری نے اس کی تفسیر میں حضرت عمر کا واقعہ نقل کیا ہے کہ عیینہ بن حصن حضرت عمر کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آ کر تنقید کرنے لگے کہ آپ زکوٰۃ میں نہ پوری عطاء دیتے ہیں اور نہ ہمارے درمیان انصاف کرتے ہیں جس پر حضرت عمر غضب ناک ہوئے یہ صورت حال دیکھ کر حضرت عمر کے مشیر حر بن قیس نے (جو عیینہ کے بھتیجے تھے) حضرت عمر سے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم فرمایا تھا (درگزر اختیار کیجئے اور نیکی کا حکم دیجئے اور جاہلوں سے پرہیز کیجئیے اور یہ بھی جاہلوں میں سے ہے۔ جس پر حضرت عمر نے درگزر فرمایا اس کی تائید ان احادیث سے بھی ہوتی ہے جن میں ظلم کے مقابلے میں معاف کردینے، قطع رحمی کے مقابلے میں صلہ رحمی اور برائی کے بدلے احسان کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ 199۔ 2 عُرْف، ُ سے مراد معروف یعنی نیکی ہے۔ 199۔ 3 یعنی جب آپ نیکی کا حکم دینے میں اتمام حجت کر چکیں اور پھر بھی وہ نہ مانیں تو ان سے اعراض فرمالیں اور ان کے جھگڑوں اور حماقتوں کا جواب نہ دیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٩٧] داعی حق کے لئے ہدایات۔ ١۔ عفو و درگزر ٢۔ اچھی باتوں کا حکم ٣۔ بحث میں پرہیز۔ ٤۔ جوابی کارروائی سے اجتناب :۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو نہایت مختصر الفاظ میں تین نصیحتیں بیان فرمائی ہیں جو ہر داعی حق کے لیے نہایت اہم ہیں گویا داعی حق کو درپیش مسائل کا حل چند الفاظ میں بیان کر کے دریا کو کوزہ میں بند کردیا گیا ہے اور وہ یہ ہیں۔- ١۔ پچھلی چند آیات میں مشرکین کے معبودان باطل پر اور خود مشرکوں پر سنجیدہ الفاظ میں تنقید کی گئی ہے۔ جس کا یہ نتیجہ نکل سکتا ہے کہ وہ آپ کے خلاف زہر اگلنا یا آپ کو برا بھلا کہنا شروع کردیں۔ اندریں صورت آپ کو درگزر کرنے کی روش اختیار کرنا چاہیے، حوصلہ اور برداشت سے کام لینا چاہیے۔ اپنے رفقاء کی کمزوریوں پر بھی اور اپنے مخالفین کی اشتعال انگیزیوں پر بھی اپنے مزاج کو ٹھنڈا رکھنا چاہیے کیونکہ دعوت حق کے دوران اشتعال طبع سے بسا اوقات اصلی مقصد کو نقصان پہنچ جاتا ہے اور یہ صفت آپ میں بدرجہ اتم موجود تھی۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا آیت (فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ لِنْتَ لَھُمْ ١٥٩۔ ) 3 ۔ آل عمران :159)- ٢۔ صاف اور سادہ الفاظ میں ایسی بھلائیوں کی طرف دعوت دینا چاہیے جن کو عقل عامہ تسلیم کرنے کو تیار ہو اور اس انداز میں دینا چاہیے جسے لوگ گران بار محسوس نہ کریں اس کی بہترین مثال یہ واقعہ ہے کہ جب آپ نے معاذ بن جبل (رض) کو یمن کا گورنر بنا کر بھیجا تو یہ ہدایات فرمائیں۔ سب سے پہلے لوگوں کو ایک اللہ کی طرف دعوت دو پھر جب وہ اسلام لے آئیں تو انہیں بتلاؤ کہ تمہارے پروردگار نے تم پر دن بھر میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں پھر جب وہ اس پر عمل کرنے لگیں تو پھر بتلانا کہ تمہارے اموال پر اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ فرض کی ہے اور دیکھو زکوٰۃ وصول کرتے وقت ان کے عمدہ عمدہ مال لینے سے اجتناب کرنا اور مظلوم کی بددعا سے بچتے رہنا، کیونکہ اللہ اور مظلوم کی بددعا کے درمیان کوئی پردہ حائل نہیں ہوتا۔ (بخاری۔ کتاب الزکوۃ۔ باب لاتؤخَذَ کرائم اموال الناس فی الصدقۃ )- اس حدیث میں دعوت کی ترتیب اور خطاب کا جو انداز بیان کیا گیا ہے اس میں داعی حق کے لیے بیشمار اسباق موجود ہیں نیز آپ جب بھی کسی داعی کو روانہ فرماتے تو انہیں ارشاد فرماتے (بَشِّرُوْا وَلاَتُنَفِّرُوْا وَیَسِّرُوْا وَلاَ تُعَسِّرُوْا) (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب بعث ابی موسیٰ و معاذ الیٰ یمن) یعنی جہاں تم جاؤ تمہاری آمد لوگوں کے لیے خوشی کا باعث بنے نفرت کا باعث نہ بنے اور تم لوگوں کے لیے سہولت کا موجب بنو تنگی اور سختی کا موجب نہ بنو۔ - ٣۔ اور تیسری بات یہ ہے کہ اعتراض برائے اعتراض اور بحث برائے بحث کرنے والوں سے کنارہ کش رہنے کی کوشش کرو اگر تم ان کی ہی باتوں میں الجھ گئے تو دعوت حق کے فروغ کا کام وہیں رک جائے گا لہذا ایسے لوگوں کے اعتراضات اور طعن وتشنیع کا جواب دینے میں اپنا وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے بلکہ ان سے بےنیاز ہو کر اپنا سفر جاری رکھنا چاہیے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

خُذِ الْعَفْوَ : یعنی توحید کی دعوت کے جواب میں آپ کو مشرکوں اور جاہلوں کی طرف سے بہت تکلیف اٹھانا پڑے گی۔ دیکھیے آل عمران (١٨٦) اور بقرہ (١٠٩) آپ اس کے مقابلے میں درگزر سے کام لیں۔ یہاں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حسن اخلاق کی تعلیم دی ہے اور آپ کے واسطے سے ہر وہ شخص مخاطب ہے جو اسلام کی دعوت کا فریضہ سرانجام دے رہا ہے، جیسے فرمایا : (وَجَادِلْهُمْ بالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ ۭ ) [ النحل : ١٢٥ ] ” اور ان سے اس طریقے سے بحث کر جو سب سے اچھا ہے۔ “ اور فرمایا : (وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِكَ ۠ ) [ آل عمران : ١٥٩ ] ” اور اگر تو بدخلق سخت دل ہوتا تو یقیناً وہ تیرے گرد سے منتشر ہوجاتے۔ “- وَاْمُرْ بالْعُرْفِ : ” عَرَفَ یَعْرِفُ “ سے مصدر بمعنی معروف ہے، وہ بات جس کا اچھا ہونا فطرت انسانی پہچانتی ہے اور شریعت اس کی تائید کرتی ہے۔ یعنی درگزر کا مطلب یہ نہیں کہ آپ انھیں نیکی کا حکم دینا چھوڑ دیں، بلکہ عفو و درگزر کا تعلق حسن اخلاق سے ہے۔ - وَاَعْرِضْ عَنِ الْجٰهِلِيْنَ : اگر وہ ضد پر اڑ کر مخالفانہ رویہ اختیار کریں اور بےفائدہ تکرار کریں تو بجائے الجھنے کے آپ خاموشی اختیار کریں، خواہ وہ اس خاموشی کو کوئی معنی پہنا دیں۔ امید ہے کہ اس سے ان کے رویے میں تبدیلی پیدا ہوگی اور ان کی جارحیت کا وار خالی جائے گا۔ دیکھیے سورة قصص (٥٥) اور فرقان (٦٣) بعض علماء نے فرمایا کہ عفو و درگزر کا یہ حکم مکہ میں تھا، مدینہ میں جا کر قتال اور اقامت حدود کا حکم نازل ہوا تو یہ منسوخ ہوگیا۔ دیکھیے سورة بقرہ (١٠٩) مگر اس کے بعد بھی جو لوگ مسلمانوں میں سے جہالت اختیار کریں، جیسے منافق یا وہ کفار جن سے جنگ نہیں ہو رہی، ان سے درگزر کرنے، نیکی کا حکم دینے اور ان کی جہالت سے اعراض کا حکم اب بھی ہے، بلکہ دعوت کے وقت ان چیزوں کا خیال ہمیشہ رکھنا پڑے گا۔ ہاں حدود کے مجرموں یا جنگ پر آمادہ لوگوں سے ان کے لائق معاملہ کیا جائے گا اور اس کے واضح احکام قرآن و حدیث میں موجود ہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - لوگوں سے یہ برتاؤ رکھئے کہ ان کے اعمال و اخلاق میں سے) سرسری ( نظر میں جو) برتاؤ معقول و مناسب معلوم ہوں ان) کو قبول کرلیا کیجئے ( ان کی تہ اور حقیقت کی تلاش نہ کیجئے بلکہ ظاہری نظر میں سرسری طور پر جو کام کسی سے اچھا ہو اس کو بھلائی پر محمول کیجئے، باطن کا حال اللہ کے سپرد کیجئے کیونکہ پورا اخلاص و نیز شرائط قبول کی جامعیت اخص الخواص کا حصہ ہے، حاصل یہ کہ معاشرت میں سہولت رکھئے تشدد نہ کیجھئے، یہ برتاؤ تو اچھے کاموں میں ہے) اور ( جو کام ظاہر نظر میں بھی برا ہو اس میں یہ برتاؤ رکھئے کہ اس باب میں) نیک کام کی تعلیم کردیا کیجئے اور جاہلوں سے ایک کنارہ ہوجایا کیجئے ( اور ان کے بہت درپے نہ ہوجئے) اور اگر ( اتفاقا ان کی جہالت پر) آپ کو کوئی وسوسہ شیطان کی طرف سے (غصہ کا) آنے لگے (جس میں احتمال ہو کہ کوئی بات خلاف مصلحت کے صادر ہوجائے) تو (ایسی حالت میں فورا) اللہ کی پناہ مانگ لیا کیجئے بلا شبہ وہ خوب جاننے والا ہے ( آپ کے استعاذہ کو سنتا ہے، آپ کے مقصود کو جانتا ہے وہ آپ کو اس سے پناہ دے گا اور جس طرح استعاذہ و توجہ الی اللہ آپ کے لئے نافع ہے اسی طرح تمام خدا ترس لوگوں کے لئے بھی نافع ہے چنانچہ) یقینا ( یہ بات ہے کہ) جو لوگ خدا ترس ہیں جب ان کو کوئی خطرہ شیطان کی طرف سے (غصہ کا یا اور کسی امر کا) آجاتا ہے تو وہ ( فورا خدا کی) یاد میں لگ جاتے ہیں ( جیسے استعاذہ و دعا اور اللہ تعالیٰ کی عظمت و عذاب وثواب کو یاد کرنا) سو یکایک ان کی آنکھیں کھل جاتی ہیں ( اور حقیقت امر ان پر منکشف ہوجاتی ہے جس سے وہ خطرہ اثر نہیں کرتا) اور ( برخلاف اس کے) جو شیاطین کے تابع ہیں وہ ( شیاطین) ان کو گمراہی میں کھینچتے چلے جاتے ہیں پس وہ ( تابعین گمراہی سے) باز نہیں آتے ( نہ وہ استعاذہ کریں نہ محفوظ رہیں، سو وہ مشرکین تو شیطان کے تابع ہیں یہ کب بازآئیں گے اس لئے ان کے غم و غصہ میں پڑنا بےکار ہے) - معا رف ومسائل - اخلاق قرآنی کا ایک جامع ہدایت نامہ :- آیات مذکورہ قرآنی اخلاق فاضلہ کا ایک جامع ہدایت نامہ ہے جس کے ذریعہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تربیت کرکے آپ کو تمام اولین و آخرین میں صاحب خلق عظیم کا خطاب دیا گیا ہے۔ - پچھلی آیتوں میں دشمنان اسلام کی کجروی، ہٹ دھرمی اور بد اخلاقیوں کا ذکر کرنے کے بعد ان آیات میں اس کے بالمقابل رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اخلاق فاضلہ کی ہدایت دی گئی ہے جس کے تین جملے ہیں، پہلا جملہ خُذِ الْعَفْوَ ہے، عربی لغت کے اعتبار سے لفظ عفو کے کئی معنی ہوسکتے ہیں اور اس موقع پر ہر معنی کی گنجائش ہے، اسی لئے علماء تفسیر کی مختلف جماعتوں نے مختلف معنی لئے ہیں، جمہور مفسرین نے جس کو اختیار کیا ہے وہ یہ ہے کہ عفو کہا جاتا ہے ہر ایسے کام کو جو آسانی کے ساتھ بغیر کسی کلفت اور مشقت کے ہوسکے، تو معنی اس جملہ کے یہ ہوئے کہ آپ قبول کرلیا کریں اس چیز کو جو لوگ آسانی سے کرسکیں یعنی واجبات شرعیہ میں آپ لوگوں سے اعلی معیار کا مطالبہ نہ کریں بلکہ وہ جس پیمانہ پر آسانی سے عمل پیرا ہوسکیں آپ اتنے ہی درجہ کو قبول کرلیا کریں، مثلا نماز کی اصل حقیقت تو یہ ہے کہ بندہ ساری دنیا سے منقطع اور یکسو ہو کر اپنے رب کے سامنے ہاتھ بانھدے ہوئے اس لئے کھڑا ہے کہ حمد و ثنا کے ساتھ اپنے معروضات کو بلاواسطہ بارگاہ الہی میں خود پیش کررہا ہے گویا وہ اس وقت براہ راست حق تعالیٰ شانہ سے مخاطب ہے، اس کے جو آثار خشوع، خضوع ادب و احترام کے ہونا چاہئیں، ظاہر ہے کہ لاکھوں نمازیوں میں سے کسی کسی اللہ کے بندے کو نصیب ہوتے ہیں عام لوگ اس درجہ کو نہیں پاسکتے تو اس آیت نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ تعلیم دی کہ آپ ان لوگوں سے اس اعلی معیار کا مطالبہ ہی نہ رکھیں، بلکہ جس درجہ کو وہ آسانی سے حاصل کرسکتے ہیں وہ ہی قبول فرما لیں، اسی طرح دوسری عبادات زکوة، روزہ، حج اور عام معاملات و معاشرت کے واجبات شرعیہ میں جو لوگ پورا پورا حق ادا نہیں کرسکتے ان سے سرسری اطاعت و فرمانبرداری ہی کو قبول کرلیا جائے۔ - صحیح بخاری میں بروایت عبداللہ بن زبیر خود آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آیت کے یہی معنی نقل کئے گئے ہیں۔- اور ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آیت کے نازل ہونے پر فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے اعمال و اخلاق میں سرسری اطاعت قبول کرنے کا حکم دیا ہے، میں نے عزم کرلیا ہے کہ جب تک میں ان لوگوں کے ساتھ ہوں ایسا ہی عمل کروں گا ( ابن کثیر) - ائمہ تفسیر کی ایک بڑی جماعت حضرت عبداللہ بن عمر، عبداللہ بن زبیر، صدیقہ عائشہ اور مجاہد رضوان اللہ علیھم اجمعین وغیرہ نے اس جملہ کے بھی یہی معنی قرار دیئے ہیں۔ - دوسرے معنی عفو کے معافی اور درگزر کرنے کے بھی آتے ہیں، علماء تفسیر کی ایک جماعت نے اس جگہ یہی معنی مراد لے کر اس جملہ کا یہ مطلب قرار دیا ہے کہ آپ گناہگاروں خطاکاروں کے گناہ و قصور کو معاف کردیا کریں۔ - امام تفسیر ابن جریر طبری نے نقل کیا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جبریل امین سے آیت کا مطلب پوچھا، جبریل امین نے اللہ تعالیٰ سے دریافت کرنے کے بعد یہ مطلب بتلایا کہ اس آیت میں آپ کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ جو شخص آپ پر ظلم کرے آپ اس کو معاف کریں اور جو آپ کو کچھ نہ دے آپ اس پر بخشش کریں اور جو آپ سے تعلق قطع کرے آپ اس سے بھی ملا کریں۔ - اس جگہ ابن مردویہ نے بروایت سعد بن عبادہ نقل کیا ہے کہ غزوہ احد میں جب آنحضرت کے چچا حضرت حمزہ کو شہید کیا گیا اور بڑی بےدردی سے ان کے اعضاء کاٹ کر لاش کی بےحرمتی کی گئی تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لاش کو اس ہیئت میں دیکھ کر فرمایا کہ جن لوگوں نے حمزہ کے ساتھ ایسا معاملہ کیا ہے میں ان کے ستر آدمیوں کے ساتھ ایسا معاملہ کرکے چھوڑوں گا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی جس میں آپ کو بتلایا گیا کہ آپ کا یہ مقام نہیں، آپ کے شایان شان یہ ہے کہ عفو و درگزر سے کام لیں۔ - اس مضمون کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جو امام احمد نے عقبہ بن عامر کی روایت سے نقل کی ہے کہ ان کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو مکارم اخلاق کی تعلیم دی وہ وہی تھی کہ جو شخص تم پر ظلم کرے اس کو معاف کردو، جو تم سے قطع تعلق کردے تم اس سے ملا کرو، جو تمہیں محروم کردے تم اس کو بخشش دیا کرو۔ - اور بیہقی نے بروایت علی مرتضی نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے فرمایا کہ میں تم کو اولین و آخرین کے اخلاق سے بہتر اخلاق کی تعلیم دیتا ہوں، وہ یہ ہے کہ جو شخص تم کو محروم کرے تم اس پر بخشش کرو، جو تم پر ظلم کرے تم اس کو معاف کردو، جو تم سے تعلق قطع کرے تم اس سے بھی ملا کرو۔ - لفظ عفو کے پہلے اور دوسرے معنی میں اگرچہ فرق ہے لیکن حاصل دونوں کا ایک ہی ہے کہ لوگوں کے اعمال و اخلاق میں سرسری اطاعت و فرمانبرداری کو قبول فرمالیا کریں، زیادہ تجس اور تفتیش میں نہ پڑیں، اور ان سے اعلی معیار کی اطاعت کا مطالبہ نہ کریں اور ان کی خطاؤں اور قصور سے درگزر فرمائیں، ظلم کا انتقام نہ لیں، چناچہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اعمال و اخلاق ہمیشہ اسی سانچے میں ڈھلے رہے، جس کا پورا مظاہرہ اس وقت ہوا جب مکہ فتح ہو کر آپ کے جانی دشمن آپ کے قبضہ میں آئے تو آپ نے سب کو آزاد کرکے فرما دیا کہ تمہارے مظالم کا بدلہ لینا تو کیا ہم تمہیں پچھلے معاملات پر ملامت بھی نہیں کرتے۔- دوسرا جملہ اس ہدایت نامہ کا وَاْمُرْ بالْعُرْفِ ہے، عرف بمعنی معروف ہر اچھے اور مستحسن کام کو کہتے ہیں، مطلب یہ ہے کہ جو لوگ آپ کے ساتھ برائی اور ظلم سے پیش آئیں آپ ان سے انتقام نہ لیں بلکہ معاف کردیں مگر ساتھ ہی ان کو نیک کام کی ہدایت بھی کرتے رہیں، گویا بدی کا بدلہ نیکی سے ظلم کا بدلہ صرف انصاف ہی سے نہیں بلکہ احسان سے دیں۔ - تیسرا جملہ وَاَعْرِضْ عَنِ الْجٰهِلِيْنَ ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ جاہلوں سے آپ کنارہ کش ہوجائیں، مطلب یہ ہے کہ ظلم کا انتقام چھوڑ کر آپ ان کے ساتھ خیر خواہی اور ہمدردی کا معاملہ کریں اور نرمی کے ساتھ ان کو حق بات بتلائیں مگر بہت سے جاہل ایسے بھی ہوتے ہیں جو اس شریفانہ معاملہ سے متاثر نہیں ہوتے، اس کے باوجود جہالت اور سختی سے پیش آتے ہیں تو ایسے لوگوں کے ساتھ آپ کا معاملہ یہ ہونا چاہئے کہ ان کے دلخراش اور جاہلانہ کلام سے متاثر ہو کر انہیں جیسی سخت گفتگو نہ کریں بلکہ ان سے کنارہ کش ہوجائیں۔- امام تفسیر ابن کیثر نے فرمایا کہ کنارہ کش ہونے کا بھی مطلب یہ ہے کہ ان کی برائی کا جواب برائی سے نہ دیں، یہ معنی نہیں کہ ان کو ہدایت کرنا چھوڑ دیں کہ یہ وظیفہ رسالت و نبوت کے شایان شان نہیں۔- صحیح بخاری میں اس جگہ ایک واقعہ حضرت عبداللہ بن عباس سے نقل کیا ہے کہ حضرت فاروق اعظم کی خلافت کے زمانہ میں عیینہ ابن حصن مدینہ میں آیا اور اپنے بھتیجہ حر ابن قیس کا مہمان ہوا، حضرت حر بن قیس ان اہل علم حضرات میں سے تھے جو حضرت فاروق اعظم کی مجلس مشاورت میں شریک ہوا کرتے تھے، عیینہ نے اپنے بھتیجہ حر بن قیس سے کہا کہ تم امیر المومنین کے مقرب ہو میرے لئے ان سے ملاقات کا کوئی وقت لے لو، حر بن قیس نے فاروق اعظم سے درخواست کی کہ میرا چچا عیینہ آپ سے ملنا چاہتا ہے، آپ نے اجازت دے دی۔ - مگر عیینہ نے فاروق اعظم کی مجلس میں پہنچ کر نہایت غیر مہذب اور غلط گفتگو کی کہ نہ آپ ہمیں ہمارا پورا حق دیتے ہیں نہ ہمارے ساتھ انصاف کرتے ہیں، فاروق اعظم کو اس پر غصہ آیا تو حر بن قیس نے عرض کیا کہ امیر المومنین، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے (آیت) خُذِ الْعَفْوَ وَاْمُرْ بالْعُرْفِ وَاَعْرِضْ عَنِ الْجٰهِلِيْنَ ، اور یہ شخص بھی جاہلین میں سے ہے، یہ آیت سنتے ہی فاروق اعظم کا سارا غصہ ختم ہوگیا اور اس کو کچھ نہیں کہا، حضرت فاروق اعظم کی یہ عادت معروف و مشہور تھی کہ کان وقافا عند کتاب اللہ عز وجل یعنی کتاب اللہ کے احکام کے آگے گردن ڈالتے تھے۔ - یہ آیت مکارم اخلاق کی جامع آیت ہے، بعض علماء نے اس کا خلاصہ یہ بیان فرمایا ہے کہ لوگ دو قسم کے ہیں ایک محسن یعنی اچھے کام کرنے والے، دوسرے بدکار ظالم، اس آیت نے دونوں طبقوں کے ساتھ اخلاق کریمانہ برتنے کی یہ ہدایت دی ہے کہ نیک کام کرنے والوں سے ان کی ظاہری نیکی کو قبول کرلو، زیادہ تفتیش و تجسس میں نہ پڑو، اور نیکی کے اعلی معیار کا ان سے مطالبہ نہ کرو بلکہ جتنا وہ آسانی سے کرسکیں اس کو کافی سمجھو، اور بدکاروں کے معاملہ میں یہ ہدایت کی کہ ان کو نیک کام سکھلاؤ اور نیکی کا راستہ بتلاؤ، اگر وہ اس کو قبول نہ کریں اور اپنی گمراہی اور غطلی پر جمے رہیں اور جاہلانہ گفتگو سے پیش آئیں تو ان سے علیحدہ ہوجائیں اور ان کی جاہلانہ گفتگو کا جواب نہ دیں، اس طرز سے یہ امید ہے کہ ان کو کسی وقت ہوش آئے اور اپنی غطلی سے باز آجائیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

خُذِ الْعَفْوَوَاْمُرْ بِالْعُرْفِ وَاَعْرِضْ عَنِ الْجٰہِلِيْنَ۝ ١٩٩- عفو - فالعَفْوُ : هو التّجافي عن الذّنب . قال تعالی: فَمَنْ عَفا وَأَصْلَحَ [ الشوری 40] وَأَنْ تَعْفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوى [ البقرة 237]- ( ع ف و ) عفوت عنہ کے معنی ہیں میں نے اس سے درگزر کرتے ہوئے اس کا گناہ متادینے کا قصد کیا ز لہذا یہاں اصل میں اس کا مفعول ترک کردیا گیا ہے اور عن کا متعلق مخذوف ہی یا قصدت ازالتہ ذنبہ سار فا عنہ پس عفو کے معنی گناہ سے درگزر کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ فَمَنْ عَفا وَأَصْلَحَ [ الشوری 40] مگر جو درگزر کرے اور معاملہ کو درست کرلے وَأَنْ تَعْفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوى [ البقرة 237] اور اگر تم ہی اپنا حق چھوڑ دو تو یہ پرہیز گاری کی بات ہے ۔ - عرف - المَعْرِفَةُ والعِرْفَانُ : إدراک الشیء بتفکّر وتدبّر لأثره، وهو أخصّ من العلم، ويضادّه الإنكار، قال تعالی: فَلَمَّا جاءَهُمْ ما عَرَفُوا[ البقرة 89] ، فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [يوسف 58] - ( ع رف ) المعرفۃ والعرفان - کے معنی ہیں کسی چیز کی علامات وآثار پر غوروفکر کرکے اس کا ادراک کرلینا یہ علم سے اخص یعنی کم درجہ رکھتا ہے اور یہ الانکار کے مقابلہ میں بولا جاتا ہے قرآن میں ہے ؛- فَلَمَّا جاءَهُمْ ما عَرَفُوا[ البقرة 89] پھر جس کو وہ خوب پہنچانتے تھے جب ان کے پاس آپہنچی تو اس کافر ہوگئے ۔ فَعَرَفَهُمْ وَهُمْ لَهُ مُنْكِرُونَ [يوسف 58] تو یوسف نے ان کو پہچان لیا اور وہ ان کو نہ پہچان سکے ۔- اعرض - وإذا قيل : أَعْرَضَ عنّي، فمعناه : ولّى مُبدیا عَرْضَهُ. قال : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة 22] ، فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ- ( ع ر ض ) العرض - اعرض عنی اس نے مجھ سے روگردانی کی اعراض کیا ۔ قرآن میں ہے : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة 22] تو وہ ان سے منہ پھیرے ۔ فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ [ النساء 63] تم ان سے اعراض بر تو اور نصیحت کرتے رہو ۔- جهل - الجهل علی ثلاثة أضرب :- الأول : وهو خلوّ النفس من العلم، هذا هو الأصل، وقد جعل ذلک بعض المتکلمین معنی مقتضیا للأفعال الخارجة عن النظام، كما جعل العلم معنی مقتضیا للأفعال الجارية علی النظام .- والثاني : اعتقاد الشیء بخلاف ما هو عليه .- والثالث : فعل الشیء بخلاف ما حقّه أن يفعل، سواء اعتقد فيه اعتقادا صحیحا أو فاسدا، كمن يترک الصلاة متعمدا، وعلی ذلک قوله تعالی: قالُوا : أَتَتَّخِذُنا هُزُواً ؟ قالَ : أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجاهِلِينَ [ البقرة 67]- ( ج ھ ل ) الجھل - ۔ ( جہالت ) نادانی جہالت تین قسم پر ہے - ۔ ( 1) انسان کے ذہن کا علم سے خالی ہونا اور یہی اس کے اصل معنی ہیں اور بعض متکلمین نے کہا ہے کہ انسان کے وہ افعال جو نظام طبعی کے خلاف جاری ہوتے ہیں ان کا مقتضی بھی یہی معنی جہالت ہے ۔- ( 2) کسی چیز کے خلاف واقع یقین و اعتقاد قائم کرلینا ۔ - ( 3) کسی کام کو جس طرح سر انجام دینا چاہئے اس کے خلاف سر انجام دنیا ہم ان سے کہ متعلق اعتقاد صحیح ہو یا غلط مثلا کوئی شخص دیا ۔ دانستہ نماز ترک کردے چناچہ اسی معنی کے اعتبار سے آیت : أَتَتَّخِذُنا هُزُواً ؟ قالَ : أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجاهِلِينَ [ البقرة 67] میں ھزوا کو جہالت قرار دیا گیا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

دعوت الی اللہ کا صحیح طریق کار - قول باری ہے خذالعفو وامر بالعرف۔ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نرمی و درگزر کا طریقہ اختیار کرو اور معروف کی تلقین کیے جائو) ہشام بن عروہ نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت عبداللہ بن زبیر (رض) سے قول باری خذالعفو وامربالعرف واعرض عن الجاھلین، اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نرمی اور درگزر کا طریقہ اختیار کرو، معروف کی تلقین کئے ج اور اور جاہلوں سے نہ الجھو) کی تفسیر میں روایت کی ہے۔ انہوں نے فرمایا : بخدا اللہ تعالیٰ نے یہ آیت لوگوں کے اخلاق کے بارے میں نازل کی ہے “۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا اثقل شئی فی میزان المومن یوم القیامۃ الخلق الحسن، قیامت کے دن ایک مومن کے میزان عمل میں اس کے عمدہ اخلاق سب سے زیادہ وزن والے ہوں گے) عطا نے حضرت ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ ایک شخص نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا کہ نسا مومن سب سے افضل ہے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جواب دیا، ” جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں گے “۔ ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی انہیں معاذ بن المثنیٰ اور سعید بن محمد الاعرابی نے، انہیں محمد بن کثیر نے ، انہیں سفیان ثوری نے عبداللہ بن سعید بن ابی سعیدالمقبری سے، انہوں نے اپنے والد سے انہوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا انکم لاتسعون الناس باموالکم ولکن یسعھم منکم بسط الوجہ وحسن الخلق۔ تم اپنے مال و دولت کے ذریعے لوگوں سے بڑھ نہیں سکتے لیکن اپنی خندہ روئی اور حسن خلق کے ذریعے تم ان سے سبقت لے جاسکتے ہو) حسن اور مجاہد سے منقول ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دیا تھا کہ لوگوں کے اخلاق و سیرت کے نرم گوشوں کو پذیرائی بخشی جائے۔ عفو، تسہیل اور تیسیہ یعنی آسان کرنے کو کہتے ہیں۔ آیت کا مفہوم یہ ہوگا کہ نرمی سے کام لیا جائے لوگوں کے اخلاق کے نرم گوشوں کو پذیرائی بخشی جائے اور ان کے ساتھ معاملات میں بال کی کھال نکالنے والا رویہ اختیار نہ کیا جائے تیز ان کا عذر قبول کرلیا جائے حضرت ابن عباس (رض) سے قول باری خذالعفو کی تفسیر میں مروی ہے کہ اس سے لوگوں کے اموال میں ان کی ضرورت سے زائد مال مراد ہے۔ یہ بات زکواۃ کی فرضیت کا حکم نازل ہونے سے پہلے تھی۔ ضحاک اور سدی سے بھی یہی قول منقول ہے۔ ایک قول ہے کہ عفو کے اصل معنی ترک کے ہیں۔ اسی سے یہ قول باری ہے فمن عفی لہ من اخیہ شئی۔ جس شخص کے لئے اس کے بھائی کی طرف سے کوئی چیز چھوڑ دی جائے) یعنی ترک کردیا جائے گناہ معاف کرنے کا مفہوم یہ ہے کہ اس پر ترک عقوبت کی جائے یعنی سزا نہ دیا جائے۔ قول باری وامربالمعروف کے متعلق قتادہ اور عروہ کا قول ہے کہ عرف معروف کو کہتے ہیں۔ ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی ، انہیں ابراہیم بن عبداللہ نے انہیں سہل بن بکار نے انہیں عبدالسلام بن الخلیل نے عبیدہ الہجیمی سے، کہ ابوجری جابر بن سلیم نے کہا : میں اپنے جوان اونٹ پر سوار ہو کر مکہ چلا گیا، میں نے وہاں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تلاش کیا۔ میں نے مسجد کے دروازے پر اپنا اونٹ بٹھا دیا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسجد کے دروازے پر تھے۔ آپ کے جسم پر ایک اونی چادر تھی جس میں سرخ دھاریاں تھیں میں نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سلام کیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سلام کا جواب دیا پھر میں نے عرض کیا ہم بادیہ نشین لوگ ہیں ہمارے اندر طبیعت کی سختی پائی جاتی ہے آپ مجھے ایسے کلمات سکھا دیجئے جن سے مجھے نفع ہو “۔ یہ سن کر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے تین دفعہ قریب آجانے کو کہا۔ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قریب ہوگیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” اپنی بات دہرائو “۔ میں نے اپنی بات دہرا دی۔ اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” اللہ سے ڈرتے رہو، اور کسی بھی نیکی کو حقیر نہ سمجھو، اور یہ کہ اپنے بھائی کے ساتھ خندہ پیشانی سے ملو، نیز یہ کہ اپنے ڈول کا زائد پانی اس شخص کے برتن میں ڈال دو جو پانی کا طلبگار ہو۔ اگر کوئی شخص تمہارے کردار کے کسی ایسے عیب کی تمہیں گالی دے جس کا اسے علم ہو تو تم جواب میں اس کے کردار کے کسی عیب کو گالی کے طور پر استعمال نہ کرو جس کا تمہیں علم ہو۔ اس لئے اس شخص کی اس حرکت پر اللہ تمہیں اجر دے گا اور اس پر گناہ کا بوجھ ڈال دے گا۔ اللہ تعالیٰ نے جو چیزیں تمہیں عطا کی ہیں ان میں سے کسی چیز کو برا بھلا نہ کہو اور گالی نہ دو “۔ ابوجری کہتے ہیں : اس ذات کی قسم جس نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے پاس بلالیا۔ میں نے پھر کبھی کسی چیز کو گالی نہیں دی۔ نہ کسی بکری کو اور نہ کسی اونٹ کو “۔ معروف اس چیز کو کہتے ہیں جس کو بروئے کار لانا عقلی طور پر مستحسن ہو اور عقلاء کے نزدیک وہ ناپسندیدہ نہ ہو۔ قول باری ہے واعرض عن الجاھلین اس میں جاہلوں اور نادانوں سے ان کی جہالت اور نادانی کی بنا پر الجھنے سے منع کردیا گیا ہے اور ان سے اپنا دامن بچانے کا حکم دیا گیا ہے۔ یہ بات شاید قتال کے حکم کے نزول سے پہلے کی تھی اس لئے کہ اس وقت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ حکم تھا کہ لوگوں تک اللہ تعالیٰ کی بات پہنچا دیں اور ان پر اتمام حجت کردیں اس کی نظیر یہ قول باری ہے فاعرض عمن تولی عن ذکرنا ولم یردالا الحیوۃ الدنیا۔ جو لوگ ہمارے ذکر سے روگردانی کرتے ہیں اور جن کے پیش نظر صرف یہی دنیاوی زندگی ہے ان سے نہ الجھو) جب قتال کا حکم نازل ہوگیا تو باطل پرستوں اور فسادیوں سے نمٹنے کا طریق کار متعین ہوگیا وہ یہ کہ کبھی تلوار کے ذریعے ان کے افعال کی تردید کی جائے کبھی کوڑے کے ذریعے اور کبھی ان کی تذلیل اور انہیں قید کرنے کے ذریعے۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٩٩) نیکی اور احسان کا حکم کیجیے اور ابوجہل اور اس کے ساتھی جو مذاق اڑاتے ہیں ان سے درگزر کیجیے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٩٩ (خُذِ الْعَفْوَ وَاْمُرْ بالْعُرْفِ ) - جیسا کہ مکی سورتوں کے آخر میں اکثر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خطاب اور التفات ہوتا ہے یہاں بھی وہی انداز ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان لوگوں سے بہت زیادہ بحث مباحثہ میں نہ پڑیں ‘ ان کے رویے سے درگزر کریں اور اپنی دعوت جاری رکھیں۔- (وَاَعْرِضْ عَنِ الْجٰہِلِیْنَ ) ۔ - یہ جاہل لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے الجھنا چاہیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے کنارہ کشی کرلیں۔ جیسا کہ سورة الفرقان میں فرمایا : (وَاِذَا خَاطَبَہُمُ الْجٰہِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا۔ ) اور جب جاہل لوگ ان (رحمن کے بندوں ) سے الجھنا چاہتے ہیں تو وہ ان کو سلام کہتے (ہوئے گزر جاتے) ہیں۔ سورة القصص میں بھی اہل ایمان کا یہی طریقہ بیان کیا گیا ہے : (سَلٰمٌ عَلَیْکُمْ ز لَا نَبْتَغِی الْجٰہِلِیْنَ ) تمہیں سلام ہو ‘ ہم جاہلوں کے منہ نہیں لگنا چاہتے۔ آیت زیرنظر میں ایک داعی کے لیے تین بڑی بنیادی باتیں بتائی گئی ہیں۔ عفو درگزر سے کام لینا ‘ نیکی اور بھلائی کی بات کا حکم دیتے رہنا ‘ اور جاہل یعنی جذباتی اور مشتعل مزاج لوگوں سے اعراض کرنا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani