200۔ 1 اور اس موقع پر اگر آپ کو شیطان اشتعال میں لانے کی کوشش کرے تو آپ اللہ کی پناہ طلب فرمائیں۔
[١٩٨] یہ دراصل چوتھی ہدایت ہے کہ اگر کسی وقت معترضین کے اعتراضات یا مخالفین کی شرارتوں پر اشتعال آ بھی جائے تو سمجھ لو کہ یہ شیطان کی انگیخت ہے کیونکہ شیطان تو چاہتا ہی یہ ہے کہ دعوت حق کے راستے میں مختلف طریقوں سے رکاوٹیں کھڑی کر دے تو اسی وقت اللہ سے شیطان مردود سے پناہ مانگنا چاہیے کہ وہ اسے جوش میں بےقابو ہونے سے بچا لے اور اللہ چونکہ سمیع علیم ہے لہذا وہ آپ کے دل سے ایسے خیال کو دور کر دے گا۔
وَاِمَّا يَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطٰنِ نَزْغٌ۔۔ : قرآن میں تین مقامات پر معروف کا حکم دینے، درگزر کرنے، بہترین طریقے سے جواب دینے اور جاہلوں سے اعراض کا حکم دیا گیا ہے۔ ایک پچھلی آیت میں، دوسرا سورة مومنون (٩٦ تا ٩٨) میں اور تیسرا حم السجدہ (٣٤ تا ٣٦) میں اور حم السجدہ میں اس کا فائدہ یہ بتایا گیا ہے کہ دشمن بھی متاثر ہو کر دلی دوست کی طرح ہوجائے گا، مگر شیطان پر احسان کسی طرح اثر انداز نہیں ہوتا، کیونکہ وہ کھلا دشمن ہے اور ہر موقع پر انسان کو اکساتا اور غصہ دلاتا ہے۔ اس شیطانی حملے کا مقابلہ انسان کے بس کی بات نہیں، اس لیے تینوں آیات میں حکم دیا کہ اگر معلوم ہو کہ شیطان مجھے بھڑکا رہا ہے، غصے پر اکسا رہا ہے تو فوراً اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگو۔ اس پناہ کے سامنے شیطان بےبس ہے۔ قاموس میں ” نَزْغٌ‘ کا معنی ” چوکا مارنا، بھڑکانا اور وسوسہ ڈالنا “ لکھا ہے۔ - سلیمان بن صرد (رض) بیان کرتے ہیں کہ دو آدمی آپس میں گالی گلوچ کرنے لگے، ہم آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بیٹھے تھے، ان میں سے ایک سخت غصے میں اپنے ساتھی کو گالیاں دے رہا تھا تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” میں ایسا کلمہ جانتا ہوں کہ اگر وہ اسے کہہ لے تو جو حالت اس کی ہے ختم ہوجائے، وہ ہے ” اَعُوْذُ باللّٰہِ مِنَ الشَّیْطَان الرَّجِیْمِ “ لوگوں نے اس آدمی سے کہا : ” تم سنتے نہیں، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا فرما رہے ہیں ؟ “ اس نے کہا : ” میں کوئی پاگل نہیں ہوں۔ “ [ بخاری، الأدب، باب الحذر من الغضب ۔۔ : ٦١١٥۔ مسلم : ٢٦١٠ ] اوپر جن تین آیات کے حوالے دئیے گئے ہیں ان کے حواشی بھی ملاحظہ فرمائیں۔
دوسری آیت میں ارشاد فرمایا (آیت) وَاِمَّا يَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطٰنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ باللّٰهِ ۭاِنَّهٗ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ، یعنی اگر آپ کو شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ آنے لگے تو اللہ سے پناہ مانگ لیں، وہ سننے والا جاننے والا ہے۔- درحقیقت یہ آیت بھی پہلی آیت کے مضمون کی تکمیل ہے کیونکہ اس میں جو ہدایت دی گئی ہے کہ ظلم کرنے والوں اور جہالت سے پیش آنے والوں کی خطا سے درگزر کریں، ان کی برائی کا جواب برائی سے نہ دیں، یہ بات انسانی طبیعت کے لئے سب سے زیادہ بھاری اور شاق ہے، خصوصا ایسے مواقع میں شیطان اچھے بھلے انسان کو بھی غصہ دلا کر لڑنے جھگڑنے پر آمادہ کر ہی دیتا ہے، اس لئے دوسری آیت میں یہ تلقین کی گئی ہے کہ اگر ایسے صبر آزما موقع میں غصہ کے جذبات زیادہ مشتعل ہوتے نظر آئیں تو سمجھ لو کہ یہ شیطان کی طرف سے ہے اور اس کا علاج یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگ لو۔ - حدیث میں ہے کہ دو شخص آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے لڑ جھگڑ رہے تھے اور ایک شخص غصہ میں بےقابو ہو رہا تھا، آپ نے اس کو دیکھ کر فرمایا کہ میں ایک ایسا کلمہ جانتا ہوں کہ اگر یہ شخص وہ کلمہ کہہ لے یہ اشتعال جاتا رہے، فرمایا وہ کلمہ یہ ہے، اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم، اس شخص نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سن کر فورا یہ کلمہ پڑھ لیا تو فورا ہی سارا غصہ اور اشتعال ختم ہوگیا۔- فائدہ عجیبہ :- امام تفسیر ابن کثیر نے اس جگہ ایک عجیب بات یہ لکھی ہے کہ پورے قرآن میں تین آیتیں اخلاق فاضلہ کی تعلیم و تلقین کے لئے جامع آئی ہیں اور تینوں کے آخر میں شیطان سے پناہ مانگنے کا ذکر ہے، ایک تو یہی سورة اعراف کی آیت ہے، دوسری سورة مؤ منون کی یہ آیت ہے، (آیت) اِدْفَعْ بالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ السَّيِّئَةَ ۭ نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَا يَصِفُوْنَ ۔ وَقُلْ رَّبِّ اَعُوْذُ بِكَ مِنْ هَمَزٰتِ الشَّيٰطِيْنِ ، وَاَعُوْذُ بِكَ رَبِّ اَنْ يَّحْضُرُوْنِ ، (مؤ منون 97) یعنی دفع کرو برائی کو بھلائی سے، ہم خوب جانتے ہیں جو کچھ یہ کہا کرتے ہیں اور آپ یوں دعا کیجئے کہ اے میرے پروردگار میں آپ سے پناہ مانگتا ہوں شیطانوں کے دباؤ سے اور میرے پروردگار میں آپ سے پناہ مانگتا ہوں اس بات سے کہ شیاطین میرے پاس آئیں۔- تیسری آیت سورة حم سجدہ کی یہ ہے، (آیت) وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ ۭ اِدْفَعْ بالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِيْ بَيْنَكَ وَبَيْنَهٗ عَدَاوَةٌ كَاَنَّهٗ وَلِيٌّ حَمِيْمٌ۔ وَمَا يُلَقّٰىهَآ اِلَّا الَّذِيْنَ صَبَرُوْ آ وَمَا يُلَقّٰىهَآ اِلَّا ذُوْ حَظٍّ عَظِيْمٍ ، وَاِمَّا يَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطٰنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ باللّٰهِ ۭاِنَّهٗ هُوَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ ۔- یعنی نیکی اور بدی برابر نہیں ہوتی، آپ نیک برتاؤ سے ٹال دیا کریں، پھر یکایک آپ میں اور جس شخص میں عداوت تھی وہ ایسا ہوجاوے گا جیسا کوئی دلی دوست ہوتا ہے اور یہ بات انہیں لوگوں کو نصیب ہوتی ہے جو بڑے مستقل مزاج ہیں، اور یہ بات اسی کو نصیب ہوتی ہے جو بڑا صاحب نصیب ہے، اور اگر آپ کو شیطان کی طرف سے کچھ وسوسہ آنے لگے تو اللہ کی پناہ مانگ لیا کیجئے، بلاشبہ وہ خوب سننے والا اور خوب جاننے والا ہے۔- ان تینوں آیتوں میں غصہ دلانے والوں سے عفو و درگزر اور برائی کے بدلہ میں بھلائی کرنے کی ہدایت کے ساتھ ساتھ شیطان سے پناہ مانگنے کی ہدایت فرمائی گئی ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شیطان کو انسان جھگڑوں سے خاص دلچسپی ہے، جہاں جھگڑے کا کوئی موقعہ پیش آتا ہے شیاطین اس کو اپنی شکار گاہ بنالیتے ہیں، اور بڑے سے بڑے بردبار باوقار آرمی کو غصہ دلاکر حدود سے نکال دینے کی کوشش کرتے ہیں۔- اس کا علاج یہ ہے کہ جب غصہ قابو میں نہ آتا دیکھیں تو سمجھ جائیں کہ شیطان مجھ پر غالب آرہا ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع ہو کر اس سے پناہ مانگیں تب مکارم اخلاق کی تکمیل ہوسکے گی، اسی لئے بعد کی تیسری اور چوتھی آیت میں بھی شیطان سے پناہ مانگنے کی ہدایت دی گئی ہے۔
وَاِمَّا يَنْزَغَنَّكَ مِنَ الشَّيْطٰنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللہِ ٠ ۭ اِنَّہٗ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ ٢٠٠- نزع - نَزَعَ الشیء : جَذَبَهُ من مقرِّه كنَزْعِ القَوْس عن کبده، ويُستعمَل ذلک في الأعراض، ومنه : نَزْعُ العَداوة والمَحبّة من القلب . قال تعالی:- وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍ [ الأعراف 43] . وَانْتَزَعْتُ آيةً من القرآن في كذا، ونَزَعَ فلان کذا، أي : سَلَبَ. قال تعالی: تَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشاءُ [ آل عمران 26] ، وقوله : وَالنَّازِعاتِ غَرْقاً [ النازعات 1] قيل : هي الملائكة التي تَنْزِعُ الأرواح عن الأَشْباح، وقوله :إِنَّا أَرْسَلْنا عَلَيْهِمْ رِيحاً صَرْصَراً فِي يَوْمِ نَحْسٍ مُسْتَمِرٍّ [ القمر 19] وقوله : تَنْزِعُ النَّاسَ [ القمر 20] قيل : تقلع الناس من مقرّهم لشدَّة هبوبها . وقیل : تنزع أرواحهم من أبدانهم، والتَّنَازُعُ والمُنَازَعَةُ : المُجَاذَبَة، ويُعَبَّرُ بهما عن المخاصَمة والمُجادَلة، قال : فَإِنْ تَنازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ [ النساء 59] ، فَتَنازَعُوا أَمْرَهُمْ بَيْنَهُمْ [ طه 62] ، والنَّزْعُ عن الشیء : الكَفُّ عنه . والنُّزُوعُ : الاشتیاق الشّديد، وذلک هو المُعَبَّر عنه بإِمحَال النَّفْس مع الحبیب، ونَازَعَتْنِي نفسي إلى كذا، وأَنْزَعَ القومُ : نَزَعَتْ إِبِلُهم إلى مَوَاطِنِهِمْ. أي : حَنَّتْ ، ورجل أَنْزَعُ : زَالَ عنه شَعَرُ رَأْسِهِ كأنه نُزِعَ عنه ففارَقَ ، والنَّزْعَة : المَوْضِعُ من رأسِ الأَنْزَعِ ، ويقال : امرَأَةٌ زَعْرَاء، ولا يقال نَزْعَاء، وبئر نَزُوعٌ: قریبةُ القَعْرِ يُنْزَعُ منها بالید، وشرابٌ طَيِّبُ المَنْزَعَةِ. أي : المقطَع إذا شُرِبَ كما قال تعالی: خِتامُهُ مِسْكٌ [ المطففین 26] .- ( ن زع ) نزع - ( ن زع ) نزع اشئی کے معنی کسی چیز کو اس کی قرار گاہ سے کھینچنے کے ہیں ۔ جیسا کہ کمانکو در میان سے کھینچا جاتا ہے اور کبھی یہ لفظ اعراض کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور محبت یا عداوت کے دل سے کھینچ لینے کو بھی نزع کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍ [ الأعراف 43] اور جو کینے ان کے دلوں میں ہوں گے ۔ ہم سب نکال ڈالیں گے ۔ آیت کو کسی واقعہ میں بطور مثال کے پیش کرنا ۔ نزع فلان کذا کے معنی کسی چیز کو چھین لینے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ تَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشاءُ [ آل عمران 26] اور جس سے چاہے بادشاہی چھین لے اور آیت کریمہ : ۔ وَالنَّازِعاتِ غَرْقاً [ النازعات 1] ان فرشتوں کی قسم جو ڈوب کر کھینچ لیتے ہیں ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ نازعات سے مراد فرشتے ہیں جو روحوں کو جسموں سے کھینچتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّا أَرْسَلْنا عَلَيْهِمْ رِيحاً صَرْصَراً فِي يَوْمِ نَحْسٍ مُسْتَمِرٍّ [ القمر 19] ہم نے ان پر سخت منحوس دن میں آندھی چلائی وہ لوگوں کو اس طرح اکھیڑ ڈالتی تھی ۔ میں تنزع الناس کے معنی یہ ہیں کہ وہ ہو اپنی تیز کی وجہ سے لوگوں کو ان کے ٹھکانوں سے نکال باہر پھینک دیتی تھی بعض نے کہا ہے کہ لوگوں کی روحوں کو ان کے بد نوں سے کھینچ لینا مراد ہے ۔ التنازع والمنازعۃ : باہم ایک دوسرے کو کھینچا اس سے مخاصمت اور مجا دلہ یعنی باہم جھگڑا کرنا مراد ہوتا ہے ۔ چناچہ ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِنْ تَنازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ [ النساء 59] اور اگر کسی بات میں تم میں اختلاف واقع ہو تو رجوع کرو ۔ فَتَنازَعُوا أَمْرَهُمْ بَيْنَهُمْ [ طه 62] تو وہ باہم اپنے معاملہ میں جھگڑنے لگے ۔ النزع عن الشئی کے معنی کسی چیز سے رک جانے کے ہیں اور النزوع سخت اشتیاق کو کہتے ہیں ۔ وناز عتنی نفسی الیٰ کذا : نفس کا کسی طرف کھینچ کرلے جانا کس کا اشتیاق غالب آجانا ۔ انزع القوم اونٹوں کا پانے وطن کا مشتاق ہونا رجل انزع کے معنی سر کے بال بھڑ جانا کے ہیں ۔ اور نزعۃ سر کے اس حصہ کو کہتے ہیں جہاں سے بال جھڑ جائیں ۔ اور تانیث کے لئے نزعاء کی بجائے زعراء کا لفظ استعمال ہوتا ہے بئر نزدع کم گہرا کنواں جس سے ہاتھ کے - شطن - الشَّيْطَانُ النون فيه أصليّة «3» ، وهو من : شَطَنَ أي : تباعد، ومنه : بئر شَطُونٌ ، وشَطَنَتِ الدّار، وغربة شَطُونٌ ، وقیل : بل النون فيه زائدة، من : شَاطَ يَشِيطُ : احترق غضبا، فَالشَّيْطَانُ مخلوق من النار کما دلّ عليه قوله تعالی: وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن 15]: الشّيطان اسم لكلّ عارم من الجنّ والإنس والحیوانات . قال تعالی: شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام 112] - ( ش ط ن ) الشیطان - اس میں نون اصلی ہے اور یہ شطن سے مشتق ہے جس کے معنی دور ہونیکے ہیں اور بئر شطون ( بہت گہرا کنوآں ) شطنت الدار ۔ گھر کا دور ہونا غربۃ شطون ( بطن سے دوری ) وغیرہ محاوارت اسی سے مشتق ہیں بعض نے کہا ہے کہ لفظ شیطان میں نون زائدہ ہے اور یہ شاط یشیط سے مشتق ہے جس کے معنی غصہ سے سوختہ ہوجانے کے ہیں ۔ اور شیطان کو بھی شیطان اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ آگ سے پیدا ہوا ہے جیسا کہ آیت : ۔ وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن 15] اور جنات کو آگ کے شعلہ سے پیدا کیا ۔ سے معلوم ہوتا ہے ۔ ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ شیطان ہر سر کش کو کہتے ہیں خواہ وہ جن وانس سے ہو یا دیگر حیوانات سے ۔ قرآن میں ہے : ۔ شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام 112] شیطان ( سیرت ) انسانوں اور جنوں کو - عوذ - العَوْذُ : الالتجاء إلى الغیر والتّعلّق به . يقال : عَاذَ فلان بفلان، ومنه قوله تعالی: أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجاهِلِينَ [ البقرة 67] - ( ع و ذ) العوذ - ) ن ) کے معنی ہیں کسی کی پناہ لینا اور اس سے چمٹے رہنا ۔ محاورہ ہے : ۔ عاذ فلان بفلان فلاں نے اس کی پناہ لی اس سے ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔ أَعُوذُ بِاللَّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجاهِلِينَ [ البقرة 67] کہ میں خدا کی پناہ مانگتا ہوں کہ نادان بنوں ۔
نزغ شیطان کی حقیقت - قول باری ہے واما ینزغنک من الشیطان نزغ فاستعذباللہ انہ سمیع علیم۔ اور اگر کبھی شیطان تمہیں اکسائے تو اللہ کی پناہ مانگو وہ سننے اور جاننے والا ہے) نزع شیطان کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ دل میں وسوسہ پیدا کر کے راہ راست سے بھٹکانے کی صورت میں ظہور پذیر ہوتا ہے۔ یہ زیادہ تر اس وقت ہوتا ہے جب انسان پر غصے اور غضب کا غلبہ ہوتا ہے۔ ایک قول ہے کہ اس لفظ کے اصل معنی برائی کی طرف اکسانے کے ہیں ۔ شر اور برائی کی طرف دعوت دینے والی خصلت کو کہا جاتا ہے کہ یہ نزغہ شیطانی ہے جب اللہ کے علم میں یہ بات تھی کہ شیطان ہمیں برائی پر اکسائے گا تو اس نے ہمیں اس کے مکروہ فریب اور اس کے شر سے نجات حاصل کرنے کا طریقہ سکھلا دیا۔ وہ طریقہ یہ ہے کہ اللہ کی طرف توجہ کرو اور شیطانی وسوسے اور اس کے مکروہ فریب سے اللہ کی پناہ میں آجائو۔ آیت زیر بحث کی بعد والی آیت میں واضح کردیا کہ جب بندہ اللہ کی طرف توجہ کرتا ہے اور شیطانی وسوسے سے اس کی پناہ طلب کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی نگہبانی کرتا نیز اس کی بصیرت کو مضبوط کردیتا ہے چناچہ ارشاد ہوا ان الذین اتقوا اذا مسھم طائف من الشیطان تذکروا فاذاھم مبصرون۔ حقیقت میں یہ جو لوگ متقی ہیں ان کا حال تو یہ ہوتا ہے کہ کبھی شیطان کے اثر سے کوئی برا خیال انہیں چھو بھی جاتا ہے تو وہ فوراً چوکنے ہوجاتے ہیں اور پھر انہیں صاف نظر آنے لگتا ہے کہ ان کے لئے صحیح طریق کار کیا ہے) حضرت ابن عباس (رض) کا قول ہے طیف برے خیال کو کہتے ہیں۔ دوسرے حضرات کا قول ہے کہ یہ وسوسہ ہے۔ دونوں معنی متقارب ہیں۔ یہ آیت اس بات کی مقتضی ہے کہ جب ایک انسان - شیطان کے شر سے اللہ کی پناہ طلب کرتا ہے تو اللہ اسے پناہ دیتا ہے اور اس کے وسوسے کو اپنے دل سے دور کرنے کے لئے اس کی بصیرت کو اور مضبوط کردیتا ہے جس کے نتیجے میں وہ اس فعل سے دور ہوجاتا ہے جس کی شیطان دعوت دیتا ہے۔ نیز وہ شیطان کو اس کی قبیح ترین شکل اور ذلیل ترین مقام میں دیکھ لیتا ہے اس لئے کہ اسے معلوم ہوجاتا ہے کہ اگر وہ اس کی موافقت کرے گا تو اس کا انجام برا ہوگا۔ یہ سوچ کر اس کی خواہشات نفسانی کا اس پر دبائو کم ہوجاتا ہے۔ قول باری ہے اخوانھم یمدونھم ففی فی الخی ثم لایقصرون۔ رہے ان کے یعنی شیاطین کے بھائی بند تو وہ انہیں ان کی کج روی میں کھینچے لئے جاتے ہیں اور انہیں بھٹکانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھتے) حسن قتادہ اور سدی کے قول کے مطابق مفہوم یہ ہے کہ گمراہی میں شیاطین کے بھائی بندوں کی شیطان مدد کرتا رہتا ہے۔ دوسرے حضرات کا قول ہے شیطان کے مشرک بھائی بند مراد ہیں۔ انہیں بھائی بندوں کے نام سے موسوم کیا گیا ہے اس لئے کہ ان سب کا گمراہی پر اجتماع ہوجاتا ہے جس طرح حقیقی بھائیوں کے نسب پر اجتماع کی بنا پر ان کی آپس میں ایک دوسرے سے محبت ہوتی ہے اور ایک دوسرے کی طرف میلان ہوتا ہے۔ جس طرح اہل ایمان کو اس قول باری انما المومنون اخوۃ۔ تمام اہل ایمان آپس میں بھائی بھائی ہیں ) میں ایک دوسرے کے بھائی قرار دیا گیا ہے اس لئے کہ دین کی بنیاد پر یہ ایک دوسرے سے ہمدردی اور محبت کرتے ہیں نیز اسی بنیاد پر ان کا آپس میں ایک دوسرے سے لگائو ہوتا ہے جو شخص شیطان کے وسوسے اور اس کے پیداکردہ برے خیال سے اپنی اس بصرت یعنی دروں بینی اور معرفت کی بنا پر اللہ کی پناہ حاصل کرلیتا ہے کہ شیطان جس کام کی طرف بلاتا ہے وہ انتہائی قبیح ہوتا ہے اس سے دور رہنے میں بہتری ہوتی ہے اور اللہ کی طرف رجوع کر کے نیز اس کی ذات کا تصور کر کے خواہشات نفسانی کے دبائو سے چھٹکارا حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے درج بالا آیات میں ایسے لوگوں کے طرز عمل اور ان کے طریق کار سے سب کو آگاہ کیا ہے۔- پناہ کی صورتیں - استعادہ یعنی اللہ کی پناہ حاصل کرنا اعوذباللہ من الشیطن الرجیم۔ پڑھنے کے ذریعہ بھی ہوسکتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں نیز اس کے اوامر نواہی میں غور و فکر کے ذریعے بھی اسی طرح انجام کا رجنت کی صورت میں ملنے والی دائمی نعمت و راحت کے متعلق تصور کے واسطے سے بھی۔ اس طریق کار سے انسان پر اس کی نفسانی خواہشات، دل میں ابھرنے والے گمراہ کن خیالات اور شیطان کے پیداکردہ برے تصورات کا دبائو کم ہوجاتا ہے اور وہ اس بھنور سے باہر نکل آتا ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کا حال بیان کیا جو اللہ کی یاد سے روگرانی کرتے اور اس کی پناہ میں آنے سے پہلو بچاتے ہیں چناچہ فرمایا واخوانھم یمدونھم فی الغی ثم لا یقصرون) ایسے لوگ جس قدر اللہ کی یاد سے دور ہوتے چلے جائیں گے اسی قدر وہ شیطانی وساوس اور گمراہی کے پھندے میں پھنستے جائیں گے۔ وہ اس دلدل سے نکلنے کی کوئی کوشش نہیں کریں گے۔ اس کی نظیر یہ قول باری ہے ومن اعرض عن ذکری فان لہ معیشۃ ضنگا۔ اور جو شخص میری نصیحت سے روگردانی کرے اس کے لئے تنگی کا جینا ہوگا نیز فرمایا ومن یردان یضلہ یجعل صدرہ ضیقاً حرجاً کانما یصعدالی السماء۔ اور وہ جسے گمراہ رکھنے کا ارادہ کرلیتا ہے اس کے سینے کو وہ تنگ اور بہت تنگ کردیتا ہے جیسے اسے آسمان میں چڑھنا پڑ رہا ہو) ۔ وباللہ التوفیق۔
(٢٠٠) اور اگر کوئی وسوسہ غصہ کا آنے لگے تو شیطان کے وسوسہ سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگیے وہ اچھی طرح سننے والا اور آپ کے وسوسہ کے خیالات کو جاننے والا ہے۔
آیت ٢٠٠ (وَاِمَّا یَنْزَغَنَّکَ مِنَ الشَّیْطٰنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ باللّٰہِطاِنَّہٗ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ) ۔ - نزع اور نزغ ملتے جلتے حروف والے دو مادے ہیں ‘ ان میں صرف ع اور غ کا فرق ہے۔ نزع کھینچنے کے معنی دیتا ہے جبکہ نزغ کے معنی ہیں کچوکا لگانا ‘ اکسانا ‘ وسوسہ اندازی کرنا۔ یعنی اگر بر بنائے طبع بشری کبھی جذبات میں اشتعال اور غصہ آہی جائے تو فوراً بھانپ لیں کہ یہ شیطان کی جانب سے ایک چوک ہے ‘ چناچہ فوراً اللہ کی پناہ مانگیں۔ جیسا کہ غزوۂ احد میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو غصہ آگیا تھا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان مبارک سے ایسے الفاظ نکل گئے تھے : (کَیْفَ یُفْلِحُ قَوْمٌ خَضَبُوْا وَجْہَ نَبِیِّھِمْ بالدَّمِ وَھُوَ یَدْعُوْھُمْ اِلَی اللّٰہِ ) (١) یہ قوم کیسے فلاح پائے گی جس نے اپنے نبی کے چہرے کو خون سے رنگ دیا جبکہ وہ انہیں اللہ کی طرف بلا رہا تھا - یہ آیت آگے چل کرسورۂ حٰم السجدۃ میں ایک لفظ (ہُوَ ) کے اضافے کے ساتھ دوبارہ آئے گی : (اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ ) کہ یقیناً وہی ہے سب کچھ سننے والا اور سب کچھ جاننے والا۔
100: کچوکے سے مراد وسوسہ ہے اور اس آیت نے ہر مسلمان کو یہ تعلیم دی ہے کہ جب کبھی شیطان دل میں کوئی برے خیال کا وسوسہ ڈالے تو فوراً اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنی چاہئے اس بات کا ذکر خاص طور پر در گذر کا رویہ اپنانے کے سلسلے میں کیا گیا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ جہاں در گذر کرنے کی فضیلت ہے وہاں بھی اگر شیطانی اثر سے کبھی کسی کو غصہ آجائے تو اس کا علاج بھی اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگتا ہے۔