لغزش کے بعد کیا ہوا ؟ ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں حضرت آدم علیہ السلام کا قد مثل درخت کھجور کے بہت لمبا تھا اور سر پر بہت لمبے لمبے بال تھے ، درخت کھانے سے پہلے انہیں اپنی شرمگاہ کا علم بھی نہ تھا نظر ہی نہ پڑی تھی ۔ لیکن اس خطا کے ہوتے ہی وہ ظاہر ہو گئی ، بھاگنے لگے تو بال ایک درخت میں الجھ گئے ، کہنے لگے اے درخت مجھے چھوڑ دے درخت سے جواب ملا کہ ناممکن ہے ، اسی وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے آواز آئی کہ اے آدم مجھ سے بھاگ رہا ہے؟ کہنے لگے یا اللہ شرمندگی ہے ، شرمسار ہوں ، گو یہ روایت مرفوع بھی مروی ہے لیکن زیادہ صحیح موقوف ہونا ہی ہے ، ابن عباس فرماتے ہیں ، درخت کا پھل کھا لیا اور چھپانے کی چیز ظاہر ہو گئی ، جنت کے پتوں سے چھپانے لگے ، ایک کو ایک پر چپکا نے لگے ، حضرت آدم مارے غیرت کے ادھر ادھر بھاگنے لگے لیکن ایک درخت کے ساتھ الجھ کر رہ گئے اللہ تعالیٰ نے ندا دی کہ آدم مجھ سے بھاگتا ہے؟ آپ نے فرمایا نہیں یا اللہ مگر شرماتا ہوں ۔ جناب باری نے فرمایا آدم جو کچھ میں نے تجھے دے رکھا تھا کیا وہ تجھے کافی نہ تھا ؟ آپ نے جواب دیا بیشک کافی تھا لیکن یا اللہ مجھے یہ علم نہ تھا کہ کوئی تیرا نام لے کر تیری قسم کھا کر جھوٹ کہے گا ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اب تو میری نافرمانی کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا اور تکلیفیں اٹھانا ہوں گی ۔ چنانچہ جنت سے دونوں کو اتار دیا گیا ، اب اس کشادگی کے بعد کی یہ تنگی ان پر بہت گراں گذری کھانے پینے کو ترس گئے ، پھر انہیں لوہے کی صنعت سکھائی گئی ، کھیتی کا کام بتایا گیا ، آپ نے زمین صاف کی دانے بوئے ، وہ آگے بڑھے ، بالیں نکلیں ، دانے پکے ، پھر توڑے گئے ، پھر پیسے آ گئے ، آٹا گندھا ، پھر روٹی تیار ہوئی ، پھر کھائی جب جا کر بھوک کی تکلیف سے نجات پائی ۔ تین کے پتوں سے اپنا آگا پیچھا چھپاتے پھرتے تھے جو مثل کپڑے کے تھے ، وہ نورانی پردے جن سے ایک دوسرے سے یہ اعضا چھپے ہوئے تھے ، نافرمانی ہوتے ہی ہٹ گئے اور وہ نظر آنے لگے ، حضرت آدم اسی وقت اللہ کی طرف رغبت کرنے لگے توبہ استغفار کی طرف جھک پڑے ، بخلاف ابلیس کے کہ اس نے سزا کا نام سنتے ہی اپنے ابلیسی ہتھیار یعنی ہمیشہ کی زندگی وغیرہ طلب کی ۔ اللہ نے دونوں کی دعا سنی اور دونوں کی طلب کردہ چیزیں عنایت فرمائی ۔ مروی ہے کہ حضرت آدم نے جب درخت کھا لیا اسی وقت اللہ تعالیٰ نے فرمایا ان کی سزا یہ ہے کہ حمل کی حالت میں بھی تکلیف میں رہیں گی بچہ ہونے کے وقت بھی تکلیف اٹھائیں گی ، یہ سنتے ہی حضرت جواء نے نوحہ شروع کیا ، حکم ہوا کہ یہی تجھ پر اور تیری اولاد پر لکھ دیا گیا ۔ حضرت آدم نے جناب باری میں عرض کی اور اللہ نے انہیں دعا سکھائی ، انہوں نے دعا کی جو قبول ہوئی ۔ قصور معاف فرما دیا گیا فالحمد اللہ
22۔ 1 تدلیۃ اور ادلاء کے معنی ہیں کسی چیز کو اوپر سے نیچے چھوڑ دینا گویا شیطان ان کو مرتبہ علیا سے اتار کر ممنوعہ درخت کا پھل کھانے تک لے آیا 22۔ 2 یہ اس مصیت کا اثر ظاہر ہوا جو آدم (علیہ السلام) و حوا سے غیر شعوری اور غیر ارادی طور پر ہوئی اور پھر دونوں مارے شرم کے جنت کے پتے جوڑ جوڑ کر اپنی شرم گاہ چھپانے لگے۔ اس سے قبل انہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک ایسا نورانی لباس ملا ہوا تھا، جو اگرچہ غیر مرئی تھا لیکن ایک دوسرے کی شرم گاہ کے لئے ساتر (پردہ پوش) تھا۔ ابن کثیر 22۔ 3 یعنی اس تنبہ کے باوجود تم شیطان کے وسوسوں کا شکار ہوگئے۔ اس سے معلوم ہوا کہ شیطان کے جال بڑے حسین اور دلفریب ہوتے ہیں اور جن سے بچنے کے لئے بڑی کاوش و محنت اور ہر وقت چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔
[١٨] یعنی یہ نہیں ہوا کہ ادھر شیطان نے ان دونوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالا اور سبز باغ دکھائے تو فوراً سیدنا آدم وحوا (علیہا السلام) اس درخت کا پھل کھانے کو تیار ہوگئے بلکہ وہ مدتوں ان باتوں کی یقین دہانی کراتا رہا کہ اگر تم نے یہ پھل کھالیا تو تم فی الواقع انسانیت سے ترقی کر کے فرشتوں کے درجہ پر پہنچ جاؤ گے۔ اس دوران وہ قسمیں بھی کھاتا رہا تاآنکہ وہ انہیں اس نافرمانی پر اکسانے کی کوشش میں کامیاب ہوگیا۔- [ ١٩] حیا اور مقامات ستر کو ڈھانپنا انسانی فطرت میں داخل ہے :۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ شرم و حیا کا جذبہ اور اپنے مقامات ستر کو ڈھانپ کر رکھنا عورت اور مرد دونوں کی فطرت کے اندر داخل ہے پھل کھانے کی وجہ سے جب سیدنا آدم (علیہ السلام) و حوا (علیہ السلام) کا جنتی لباس چھن گیا تو سب سے پہلی فکر جو انہیں دامن گیر ہوئی وہ یہ تھی کہ اپنے مقامات ستر کو چھپائیں اور فوری طور پر کچھ نہ ملا تو جنت کے درختوں کے پتوں ہی کو ایک دوسرے پر یا اپنے بدن پر چسپاں کر کے اپنی شرمگاہوں کو چھپا دیا۔- اس آیت سے ان محققین کے بیان کی تردید ہوجاتی ہے جو انسانی تہذیب و تمدن کی داستان لکھنے بیٹھتے ہیں تو کہتے ہیں کہ انسان ابتداء ننگا رہا کرتا تھا اور مدتوں بعد اس نے لباس تیار کیا اور بدن ڈھانپنا سیکھا اور یہ وہی محققین ہیں جو انسان کو حیوان ہی کی ترقی یافتہ شکل قرار دیتے ہیں اور چونکہ حیوان اپنے مقامات ستر نہیں ڈھانپتے اس لیے انہوں نے سمجھ لیا کہ انسان بھی ابتداء ایسا ہی تھا۔ قرآن ان سب باتوں کی پر زور تردید کرتا ہے، وہ انسان کو ایک مستقل اور الگ مخلوق کی حیثیت دیتا ہے جو آدم سے شروع ہوئی اور آدم کا پتلا اللہ نے اپنے ہاتھ سے بنایا پھر اسے سنوارا اور بہت اچھی شکل و صورت بنائی پھر اس میں اپنی روح میں سے پھونک کر اسے باقی مخلوق سے افضل و برتر بنادیا پھر سیدنا آدم (علیہ السلام) کو نبوت عطا فرمائی لہذا وہ خالص موحد تھے جبکہ ہمارے ان محققین کا انسان ابتداء مظاہر پرست تھا وجہ یہ ہے کہ ان محققین کا سارا انحصار ظن وتخمین پر ہے۔ جب کہ وحی الٰہی ہمیں حقیقی علم عطا کرتی ہے۔
فَدَلّٰىهُمَا بِغُرُوْرٍ ۚ : ” دَلّٰی یُدَلِّیْ تَدْلِیَۃً “ ( تفعیل) اور ” اَدْلٰی یُدْلِیْ اِدْلَاءً “ (افعال) یہ ” دَلْوٌ“ (ڈول) سے ہے، یعنی جیسے ڈول نیچے گرایا جاتا ہے اس طرح کسی چیز کو اوپر سے نیچے کی طرف چھوڑنا، یعنی شیطان نے دھوکے سے ان کو ان کے بلند مرتبے سے نیچے اتار دیا۔ - فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَةَ : سورة طٰہٰ (١٢١) میں ہے : (فَاَكَلَا مِنْهَا) کہ انھوں نے اس میں سے کھالیا۔ زیر تفسیر آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ کھانے میں سے صرف چکھنے کی دیر تھی کہ جنت کی کرامت چھن گئی اور وہ بےلباس ہوگئے۔ - وَطَفِقَا يَخْصِفٰنِ عَلَيْهِمَا مِنْ وَّرَقِ الْجَنَّةِ ۭ: معلوم ہوا انسان فطرتاً باحیا پیدا ہوا ہے اور ننگا ہونا انسانی فطرت کے خلاف ہے، اس لیے آدم اور حوا ( علیہ السلام) درختوں کے پتوں سے ستر چھپانے لگے۔ شیطان اسی لیے بےلباس ہونے کو پسند کرتا ہے۔ جبکہ ننگا ہونا جانوروں کی فطرت ہے اور کفار اور ان کے پیروکار ننگا ہونا پسند کرتے ہیں، اگر لباس پہنتے ہیں تو ایسا جو انھیں بےلباس ہونے سے بھی زیادہ ننگا کرے، ان کی انسانی فطرت مسخ ہوچکی ہے، انھی کے بارے میں آتا ہے : ( ۭاُولٰۗىِٕكَ كَالْاَنْعَامِ بَلْ هُمْ اَضَلُّ ) [ الأعراف : ١٧٩ ] ” یہ لوگ چوپاؤں جیسے ہیں، بلکہ ان سے بھی زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں۔ “ - وَنَادٰىهُمَا رَبُّهُمَآ : اس آیت اور دوسری بہت سی آیات و احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کلام میں صوت (آواز) ہے اور فرشتے اور آدمی اسے سن سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی آواز اور کلام سے انکار کر کے قرآن کو کلام اللہ کے بجائے مخلوق قرار دینا سراسر گمراہی ہے۔ امام احمد ابن حنبل (رح) نے اپنی عظیم استقامت کے ساتھ ساتھ قرآن و سنت کے دلائل سے تمام دنیا کے سامنے اس بات کا غلط ہونا ثابت فرما دیا۔
قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَـنَا ٠ ۫ وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ ٢٣- رب - الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] - ( ر ب ب ) الرب ( ن )- کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔- ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی سب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں - نفس - الَّنْفُس : الرُّوحُ في قوله تعالی: أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ [ الأنعام 93] قال : وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ [ البقرة 235] ، وقوله : تَعْلَمُ ما فِي نَفْسِي وَلا أَعْلَمُ ما فِي نَفْسِكَ [ المائدة 116] ، وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، وهذا۔ وإن کان قد حَصَلَ من حَيْثُ اللَّفْظُ مضافٌ ومضافٌ إليه يقتضي المغایرةَ ، وإثباتَ شيئين من حيث العبارةُ- فلا شيءَ من حيث المعنی سِوَاهُ تعالیٰ عن الاثْنَوِيَّة من کلِّ وجهٍ. وقال بعض الناس : إن إضافَةَ النَّفْسِ إليه تعالیٰ إضافةُ المِلْك، ويعني بنفسه نُفُوسَنا الأَمَّارَةَ بالسُّوء، وأضاف إليه علی سبیل المِلْك . - ( ن ف س ) النفس - کے معنی روح کے آتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ [ الأنعام 93] کہ نکال لو اپنی جانیں ۔ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ [ البقرة 235] اور جان رکھو جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے خدا کو سب معلوم ہے ۔ اور ذیل کی دونوں آیتوں ۔ تَعْلَمُ ما فِي نَفْسِي وَلا أَعْلَمُ ما فِي نَفْسِكَ [ المائدة 116] اور جو بات میرے دل میں ہے تو اسے جانتا ہے اور جو تیرے ضمیر میں ہے میں اسے نہیں جنتا ہوں ۔ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے اور یہاں نفسہ کی اضافت اگر چہ لفظی لحاظ سے مضاف اور مضاف الیہ میں مغایرۃ کو چاہتی ہے لیکن من حیث المعنی دونوں سے ایک ہی ذات مراد ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ ہر قسم کی دوائی سے پاک ہے بعض کا قول ہے کہ ذات باری تعالیٰ کی طرف نفس کی اضافت اضافت ملک ہے اور اس سے ہمارے نفوس امارہ مراد ہیں جو ہر وقت برائی پر ابھارتے رہتے ہیں ۔- غفر - الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285]- ( غ ف ر ) الغفر - ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ - رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین .- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، - اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] لوگو تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )- خسر - ويستعمل ذلک في المقتنیات الخارجة کالمال والجاه في الدّنيا وهو الأكثر، وفي المقتنیات النّفسيّة کالصّحّة والسّلامة، والعقل والإيمان، والثّواب، وهو الذي جعله اللہ تعالیٰ الخسران المبین، وقال : الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَلا ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر 15] ،- ( خ س ر) الخسروالخسران - عام طور پر اس کا استعمال خارجی ذخائر میں نقصان اٹھانے پر ہوتا ہے ۔ جیسے مال وجاء وغیرہ لیکن کبھی معنوی ذخائر یعنی صحت وسلامتی عقل و ایمان اور ثواب کھو بیٹھنے پر بولا جاتا ہے بلکہ ان چیزوں میں نقصان اٹھانے کو اللہ تعالیٰ نے خسران مبین قرار دیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ وَأَهْلِيهِمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ أَلا ذلِكَ هُوَ الْخُسْرانُ الْمُبِينُ [ الزمر 15] جنہوں نے اپنے آپ اور اپنے گھر والوں کو نقصان میں ڈٖالا ۔ دیکھو یہی صریح نقصان ہے ۔
(٢٢) جب ان دونوں نے اس درخت کا پھل کھایا فورا ان کے پردہ کا بدن ایک دوسرے کے سامنے ہوگیا اور دونوں شرم وحیا سے انجیر کے پتوں سے اپنے جسم کو چھپانے لگے اس وقت آدم وحوا (علیہ السلام) سے پروردگار نے کہا کیا میں نے اس درخت سے کھانے سے تمہیں نہیں منع کیا تھا اور کہا تھا کہ شیطان تمہارا کھلا اور واضح دشمن ہے۔
(فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَۃَ بَدَتْ لَہُمَا سَوْاٰتُہُمَا وَطَفِقَا یَخْصِفٰنِ عَلَیْہِمَا مِنْ وَّرَقِ الْجَنَّۃِ ط) - اپنی عریانی کا احساس ہونے کے بعد وہ جنت کے درختوں کے پتوں کو آپس میں سی کر یا جوڑ کر اپنے اپنے ستر کو چھپانے کا اہتمام کرنے لگے۔
8: نیچے اتارنے کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ طاعت کے جس بلند مقام پر تھے، اس سے نیچے اتار لیا، اور یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ جنت سے دُنیا میں اتار لیا۔ 9: اس سے معلوم ہوا کہ عریانی سے حفاظت اِنسان کی فطرت میں داخل ہے اسی لئے جونہی دونوں کا لباس اترا انہوں نے ہر ممکن طریقے سے اپنا ستر چھپانے کی کوشش کی۔