Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

23۔ 1 توبہ استغفار کے یہ وہی کلمات ہیں جو حضرت آدم (علیہ السلام) نے اللہ تبارک و تعالیٰ سے سیکھے، جیسا کہ سورة بقرہ، آیت 37 میں صراحت ہے (دیکھئے آیت مذکورہ کا حاشیہ) گویا شیطان نے اللہ کی نافرمانی کا ارتکاب کیا تو اس کے بعد وہ اس پر نہ صرف اڑ گیا بلکہ جواز و اثبات میں عقلی قیاسی دلائل دینے لگا، جس کے نتیجہ میں وہ راندہ درگاہ اور ہمیشہ کے لئے ملعون قرار پایا اور حضرت آدم (علیہ السلام) نے اپنی غلطی پر ندامت و پشیمانی کا اظہار اور بارگاہ الٰہی میں توبہ و استفغار کا اہتمام کیا۔ تو اللہ تعالیٰ کی رحمت و مغفرت کے مستحق قرار پائے۔ یوں گویا دونوں راستوں کی نشان دہی ہوگئی، شیطانی راستے کی بھی اور اللہ والوں کے راستے کی بھی۔ گناہ کرکے اس پر اترانا، اصرار کرنا اور اسکو صحیح ثابت کرنے کے لئے دلائل کے انبار فراہم کرنا شیطانی راستہ ہے۔ اور گناہ کے بعد احساس ندمت سے مغلوب ہو کر بارگاہ الٰہی میں جھک جانا اور توبہ استغفار کا اہتمام کرنا بندگان الٰہی کا راستہ ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢٠] ابلیس وآدم (علیہ السلام) کے خصائل کا فرق :۔ ان آیات سے شیطان اور آدم (علیہ السلام) کی سرشت کا فرق معلوم ہوجاتا ہے جو یہ ہے کہ - (١) ابلیس نے اللہ کی نافرمانی عمداً کی جبکہ آدم (علیہ السلام) سے بھول کر ہوئی۔- (٢) ابلیس سے باز پرس ہوئی تو اس نے اعتراف کرنے کی بجائے تکبر کیا اور اکڑ بیٹھا اور آدم (علیہ السلام) سے ہوئی تو انہوں نے اعتراف کیا اور اللہ کے حضور توبہ کی۔- (٣) ابلیس نے اپنی نافرمانی اور گمراہی کا الزام اللہ کے ذمے لگا دیا جبکہ آدم (علیہ السلام) نے یہ اعتراف کیا کہ واقعی یہ قصور ہمارا ہی تھا۔- (٤) ابلیس انہی جرائم کی وجہ سے بارگاہ الٰہی سے ہمیشہ کے لیے ملعون اور راندہ ہوا قرار دیا گیا اور آدم (علیہ السلام) اپنی غلطی کے اعتراف اور توبہ کی وجہ سے مقرب بارگاہ الٰہی بن گئے اور انہیں نبوت عطا ہوئی۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَا ۫۔۔ : سورة بقرہ میں ہے کہ آدم (علیہ السلام) نے یہ کلمات رب تعالیٰ سے سیکھے تھے اور انھی کلمات سے ان کی توبہ قبول ہوئی تھی۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورة بقرہ آیت (٣٧) کے فوائد۔ آدم (علیہ السلام) کی اس دعا سے ان کا اور ابلیس کا فرق واضح ہوتا ہے، یہاں عجز ہے، اعتراف گناہ ہے، اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنی محتاجی کا اظہار اور بخشش کی درخواست ہے، وہاں تکبر ہے، اپنے گناہ پر اصرار ہے، آئندہ مزید نافرمانی کے ارادے کا اظہار ہے اور مہلت کی درخواست ہے۔ اسی طرح یہاں پاک فطرت ہونے کی بنا پر قسم کی وجہ سے دشمن پر بھی اعتبار ہے، وہاں حسد کی وجہ سے بےگناہوں سے بھی دشمنی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی بےنیازی دیکھیے کہ دوست کی دعا بھی قبول اور دشمن کی بھی۔ یقیناً اس میں اس پاک پروردگار کی بیشمار حکمتیں تھیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قَالَ اہْبِطُوْا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ۝ ٠ ۚ وَلَكُمْ فِي الْاَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَّمَتَاعٌ اِلٰي حِيْنٍ۝ ٢٤- هبط - الهُبُوط : الانحدار علی سبیل القهر كهبوط الحجر، والهَبُوط بالفتح : المنحدر . يقال :- هَبَطْتُ أنا، وهَبَطْتُ غيري، يكون اللازم والمتعدّي علی لفظ واحد . قال تعالی: وَإِنَّ مِنْها لَما يَهْبِطُ مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ [ البقرة 74] يقال : هَبَطْتُ وهَبَطْتُهُ هَبْطاً ، وإذا استعمل في الإنسان الهُبُوط فعلی سبیل الاستخفاف بخلاف الإنزال، فإنّ الإنزال ذكره تعالیٰ في الأشياء التي نبّه علی شرفها، كإنزال الملائكة والقرآن والمطر وغیر ذلك . والهَبُوطُ ذکر حيث نبّه علی الغضّ نحو : وَقُلْنَا اهْبِطُوا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة 36] ، فَاهْبِطْ مِنْها فَما يَكُونُ لَكَ أَنْ تَتَكَبَّرَ فِيها [ الأعراف 13] ، اهْبِطُوا مِصْراً فَإِنَّ لَكُمْ ما سَأَلْتُمْ [ البقرة 61] ولیس في قوله : فَإِنَّ لَكُمْ ما سَأَلْتُمْ [ البقرة 61] تعظیم وتشریف، ألا تری أنه تعالیٰ قال :- وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ وَباؤُ بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ [ البقرة 61] ، وقال جلّ ذكره : قُلْنَا اهْبِطُوا مِنْها جَمِيعاً [ البقرة 38] ويقال : هَبَطَ المَرَضُ لحم العلیل : حطّه عنه، والهَبِيط :- الضّامر من النّوق وغیرها إذا کان ضمره من سوء غذاء، وقلّة تفقّد .- ( ھ ب ط ) الھبوط - ( ض ) کے معنی کسی چیز کے قہرا یعنی بےاختیار ی کی حالت میں نیچے اتر آنا کے ہیں جیسا کہ پتھر بلندی سے نیچے گر پڑتا ہے اور الھبوط ( بفتح لہاء ) صیغہ صفت ہے یعنی نیچے گر نے والی چیز ھبط ( فعل لازم اور متعدی دونوں طرح استعمال ہوتا ہے جیسے انا میں نیچے اتار دیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِنَّ مِنْها لَما يَهْبِطُ مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ [ البقرة 74] اور بعض پتھر ایسے بھی ( ہوتے ہیں ) جو اللہ کے ڈر سے گر پڑتے ہیں ۔ اور جب لفظ ھبوط انسان کے لئے بولا جاتا ہے تو اس میں استخفاف اور حقارت کا پہلو پایا جاتا ہے بخلاف لفظ انزال ( الا فعال کے کہ اسے اللہ تعالیٰ نے بہت سے موقعوں پر با شرف چیزوں کے لئے استعمال کیا گیا ہے جیسے ملائکہ قرآن بارش وغیرہ اور جہاں کہیں کسی چیز کے حقیر ہونے پر تنبیہ مقصؤد ہے وہاں لفظ ھبوط استعمال کیا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَقُلْنَا اهْبِطُوا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ [ البقرة 36] اور ہم نے حکم دیا کہ تم ( سب ) اتر جاؤ تم ایک کے دشمن ایک ۔ فَاهْبِطْ مِنْها فَما يَكُونُ لَكَ أَنْ تَتَكَبَّرَ فِيها [ الأعراف 13] تو بہشت سے نیچے اتر کیونکہ تیری ہستی نہیں کہ تو بہشت میں رہ کر شیخی مارے ۔ اهْبِطُوا مِصْراً فَإِنَّ لَكُمْ ما سَأَلْتُمْ [ البقرة 61] اچھا تو ) کسی شہر میں اتر پڑوں کہ جو مانگتے ہو ( وہاں تم کو ملے گا ۔ یہاں یہ نہ سمجھنا چاہیئے کہ سے ان کا شرف ظاہر ہوتا ہے کیونکہ اس کے مابعد کی آیت : ۔ وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ وَباؤُ بِغَضَبٍ مِنَ اللَّهِ [ البقرة 61] اور ان پر ذلت اور محتاجی لیسدی گئی اور وہ خدا کے غضب میں آگئے ان ہم کو دور کرنے کے لئے کافی ہے ۔ قُلْنَا اهْبِطُوا مِنْها جَمِيعاً [ البقرة 38] ہم نے حکم دیا کہ تم سب کے سب ) یہاں سے اتر جاؤ محاورہ ہے ھیط المرض لھم العلیل بیمار ینے اس کے گوشت کو کم کردیا یعنی ( لاغر کردیا اور الھبط اونٹ وغیرہ کو کہتے ہیں جو غذا کے ناقص اور مالک کی بےاعتنائی کی وجہ سے لاغر ہوجائے ۔- مستقر - قَرَّ في مکانه يَقِرُّ قَرَاراً ، إذا ثبت ثبوتا جامدا، وقوله : فَمُسْتَقَرٌّ وَمُسْتَوْدَعٌ [ الأنعام 98] ، قال ابن مسعود : مُسْتَقَرٌّ في الأرض ومستودع في القبور وقال ابن عبّاس : مستقرّ في الأرض ومستودع في الأصلاب . وقال الحسن : مستقرّ في الآخرة ومستودع في الدّنيا . وجملة الأمر أنّ كلّ حال ينقل عنها الإنسان فلیس بالمستقرّ التّامّ.- ( ق ر ر ) قرر - فی مکانہ یقر قرار ا ( ض ) کے معنی کسی جگہ جم کر ٹھہر جانے کے ہیں اصل میں یہ فر سے ہے جس کے معنی سردی کے ہیں جو کہ سکون کو چاہتی ہے ۔ اور آیت کریمہ : فَمُسْتَقَرٌّ وَمُسْتَوْدَعٌ [ الأنعام 98] تمہاری لئے ایک ٹھہرنے کی جگہ ہے اور ایک سپر د ہونے کی ۔ میں ابن مسعود کے نزدیک مستقر سے مراد زمین میں ٹھہرنا ہے اور مستودع سے مراد قبر میں ہیں ۔ ابن عباس کا قول ہے کہ مستقر سے مراد تو زمین ہی ہے لیکن مستودع سے مراد دنیا ہے ۔ الحاصل ہر وہ حالت جس سے انسان منتقل ہوجائے وہ مستقر تام نہیں ہوسکتا ہے ۔- متع - الْمُتُوعُ : الامتداد والارتفاع . يقال : مَتَعَ النهار ومَتَعَ النّبات : إذا ارتفع في أول النّبات، والْمَتَاعُ : انتفاعٌ ممتدُّ الوقت، يقال : مَتَّعَهُ اللهُ بکذا، وأَمْتَعَهُ ، وتَمَتَّعَ به . قال تعالی: وَمَتَّعْناهُمْ إِلى حِينٍ [يونس 98] وكلّ موضع ذکر فيه «تمتّعوا» في الدّنيا فعلی طریق التّهديد، وذلک لما فيه من معنی التّوسّع،- ( م ت ع ) المتوع - کے معنی کیس چیز کا بڑھنا اور بلند ہونا کے ہیں جیسے متع النھار دن بلند ہوگیا ۔ متع النسبات ( پو دا بڑھ کر بلند ہوگیا المتاع عرصہ دراز تک فائدہ اٹھانا محاورہ ہے : ۔ متعہ اللہ بکذا وامتعہ اللہ اسے دیر تک فائدہ اٹھانے کا موقع دے تمتع بہ اس نے عرصہ دراز تک اس سے فائدہ اٹھایا قران میں ہے : ۔ وَمَتَّعْناهُمْ إِلى حِينٍ [يونس 98] اور ایک مدت تک ( فوائد دینوی سے ) ان کو بہرہ مندر کھا ۔ اور قرآن پاک میں جہاں کہیں دنیاوی ساز و سامان کے متعلق تمتعو آیا ہے تو اس سے تہدید مراد ہے کیونکہ اس میں ایک گو نہ عیش کو شی اور وسعت کے معنی پائے جاتے ہیں - حين - الحین : وقت بلوغ الشیء وحصوله، وهو مبهم المعنی ويتخصّص بالمضاف إليه، نحو قوله تعالی: وَلاتَ حِينَ مَناصٍ [ ص 3] - ( ح ی ن ) الحین - ۔ اس وقت کو کہتے ہیں جس میں کوئی چیز پہنچے اور حاصل ہو ۔ یہ ظرف مبہم ہے اور اس کی تعین ہمیشہ مضاف الیہ سے ہوتی ہے جیسے فرمایا : ۔ وَلاتَ حِينَ مَناصٍ [ ص 3] اور وہ رہائی کا وقت نہ تھا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢٣) وہ عرض کرنے لگے ہم نے غلطی سے اپنا نقصان کیا، اگر آپ ہم سے درگزر نہ فرمائیں گے تو اس جرم کی وجہ سے ہمارا بڑا نقصان ہوگا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٣ (قَالاَ رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَاسکتۃ وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ ) ۔ - یعنی ہم اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہیں کہ ہم نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے۔ یہ وہی کلمات ہیں جن کے بارے میں ہم سورة البقرۃ (آیت ٣٧) میں پڑھ آئے ہیں : (فَتَلَقّٰٓی اٰدَمُ مِنْ رَّبِّہٖ کَلِمٰتٍ فَتَابَ عَلَیْہِ ط) یعنی آدم ( علیہ السلام) نے اپنے رب سے کچھ کلمات سیکھ لیے اور ان کے ذریعے سے معافی مانگی تو اللہ نے اس کی توبہ قبول کرلی۔ وہاں اس ضمن میں صرف اشارہ کیا گیا تھا ‘ یہاں وہ کلمات بتا دیے گئے ہیں۔ اس سارے واقعے میں ایک اہم بات یہ بھی قابل غور ہے کہ قرآن میں کہیں بھی کوئی ایسا اشارہ نہیں ملتا جس سے یہ ثابت ہو کہ ابلیس نے یہ وسوسہ ابتدا میں اماں حوا ( علیہ السلام) کے دل میں ڈالا تھا۔ اس سلسلے میں عام طور پر ہمارے ہاں جو کہانیاں موجود ہیں ان کی رو سے شیطان کے بہکاوے میں پہلے حضرت حوا آئیں اور پھر وہ حضرت آدم ( علیہ السلام) کو گمراہ کرنے کا ذریعہ بنیں۔ لیکن قرآن اس امکان کی نفی کرتا ہے۔ آیات زیر نظر کے مطالعے سے تو ان دونوں کا بہکاوے میں آجانا بالکل واضح ہوجاتا ہے کیونکہ یہاں قرآن مسلسل تثنیہ کا صیغہ استعمال کر رہا ہے۔ یعنی شیطان نے ان دونوں کو ورغلایا ‘ دونوں اس کے بہکاوے میں آگئے اور پھر دونوں نے اللہ سے معافی مانگی اور اللہ نے دونوں کو معاف کردیا۔ - حضرت حوا ( علیہ السلام) کے شیطان کے بہکاوے میں آنے والی کہانیوں کی ترویج دراصل عیسائیت کے زیر اثر ہوئی ہے۔ عیسائیت میں عورت کو گناہ اور برائی کی جڑ سمجھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ (حوا) سے لفظ ان کے ہاں برائی کا ہم معنی قرار پایا ہے۔ عیسائیت میں شادی کرنا اور عورت سے قربت کا تعلق ایک گھٹیا فعل تصور کیا جاتا تھا ‘ جبکہ تجرد کی زندگی گزارنا اور رہبانیت کے طور طریقوں کو ان کے ہاں روحانیت کی معراج سمجھا جاتا تھا۔ نتیجتاً ان کے ہاں اس طرح کی کہانیوں نے جنم لیا ‘ جن سے ثابت ہوتا ہے کہ آدم ( علیہ السلام) کو جنت سے نکلوانے اور ان کی آزمائشوں اور مصیبتوں کا باعث بننے والی دراصل ایک عورت تھی۔ بہر حال ایسے تصورات اور نظریات کی تائید قرآن مجید سے نہیں ہوتی۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :13 اس قصّے سے چند اہم حقیقتوں پر روشنی پڑتی ہے: ( ١ ) انسان کے اندر شرم و حیا کا جذبہ ایک فطری جذبہ ہے اور اس کا اوّلین مظہر وہ شرم ہے جو اپنے جسم کے مخصوص حصّوں کو دوسروں کے سامنے کھو لنے میں آدمی کو فطرةً محسوس ہوتی ہے ۔ قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ یہ شرم انسان کے اندر تہذیب کے ارتقاء سے مصنوعی طور پر پیدا نہیں ہوئی ہے اور نہ یہ اکتسابی چیز ہے ، جیسا کہ شیطان کے بعض شاگردوں نے قیاس کیا ہے ، بلکہ درحقیقت یہ وہ فطری چیز ہے جو اوّل روز سے انسان میں موجود تھی ۔ ( ۲ ) شیطان کی پہلی چال جو اس نے انسان کو فطرت انسانی کی سیدھی راہ سے ہٹانے کے لیے چلی ، یہ تھی کہ اس کے اس جذبہ شرم وحیا پر ضرب لگائے اور برہنگی کے راستے سے اس کےلیے فواحش کا دروازہ کھولے اور اس کو جنسی معاملات میں بد راہ کردے ۔ بالفاظِ دیگر اپنے حرف کے محاذ میں ضعیف ترین مقام جو اس نے حملہ کےلیے تلاش کیا وہ اس کی زندگی کا جنسی پہلو تھا ، اور پہلی ضرب جو اس نے لگائی وہ اس محافظ فصپل پر لگائی جو شرم و حیا کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے انسانی فطرت میں رکھی تھی ۔ شیاطین ور ان کے شاگردوں کی یہ روش آج تک جوں کی توں قائم ہے ۔ ”ترقی“کا کوئی کام ان کے ہاں شروع نہیں ہو سکتا جب تک کہ عورت کو بے پردہ کرکے وہ بازار میں نہ لاکھڑا کریں اور اسے کسی نہ کسی طرح عریاں نہ کردیں ۔ ( ۳ ) یہ بھی انسان کی عین فطرت ہے کہ وہ برائی کی کھلی دعوت کو کم ہی قبول کرتا ہے ۔ عموماً اسے جال میں پھانسنے کے لیے ہر داعیِ شر کو خیر خواہ کے بھیس ہی میں آنا پڑتا ہے ۔ ( ٤ ) انسان کے اندر معالیِ امور مثلاً بشریت سے بالا تر مقام پر پہنچنے یا حیاتِ جاوداں حاصل کرنے کی ایک فطری پیاس موجود ہے اور شیطان کو اسے فریب دینے میں پہلی کامیابی اِسی ذریعہ سے ہوئی کہ اس نے انسان کی اس خواہش سے اپیل کیا ۔ شیطان کا سب سے زیادہ چلتا ہوا حربہ یہ ہے کہ وہ آدمی کو بلندی پرلے جانے اور موجودہ حالت سے بہتر حالت پر پہنچا دینے کی امید دلاتا ہے اور پھر اس کے لیے وہ راستہ پیش کرتا ہے جو اسے اُلٹا پستی کی طرف لے جائے ۔ ( ۵ ) عام طور پر یہ جو مشہور ہوگیا ہے کہ شیطان نے پہلے حضرت حوّا کو دام فریب میں گرفتار کیا اور پھر انہیں حضرت آدم علیہ السلالم کو پھانسنے کے لیے آلہ کار بنایا ، قرآن اس کی تردید کرتا ہے ۔ اس کا بیان یہ ہے کہ شیطان نے دونوں کو دھوکا دیا اور دونوں اس سے دھوکا کھا گئے ۔ بظاہر یہ بہت چھوٹی سی بات معلوم ہوتی ہے ، لیکن جن لوگوں کو معلوم ہے کہ حضرت حوّا کے متعلق اس مشہور روایت نے دنیا میں عورت کے اخلاقی ، قانونی اور معاشرتی مرتبے کو گرانے میں کتنا زبردست حصہ لیا ہے وہی قرآن کے اس بیان کی حقیقی قدر و قیمت سمجھ سکتے ہیں ۔ ( ٦ ) یہ گمان کرنے کےلیے کوئی معقول وجہ موجود نہیں ہے کہ شجر ممنوعہ کو مزہ چکھتے ہی آدم و حوّا کے ستر کُھل جانا اس درخت کی کسی خاصیّت کا نتیجہ تھا ۔ درحقیقت یہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کے سِوا کسی اور چیز کا نتیجہ نہ تھا ۔ اللہ تعالیٰ نے پہلے ان کا ستر اپنے انتظام سے ڈھانکا تھا ۔ جب انہوں نے حکم کی خلاف ورزی کی تو خدا کی حفاظت ان سے ہٹا لی گئی ، ان کا پردہ کھول دیا گیا اور انہیں خود ان کے اپنے نفس کے حوالے کر دیا گیا کہ اپنی پردہ پوشی کا انتظام خود کریں اگر اس کی ضرورت سمجھتے ہیں ، اور اگر ضروت نہ سمجھیں یا اس کے لیے سعی نہ کریں تو خدا کو اس کی کچھ پروا نہیں کہ وہ کس حال میں پھرتے ہیں ۔ یہ گویا ہمیشہ کے لیے اس حقیقت کا مظاہرہ تھا کہ انسان جب خدا کی نافرمانی کرے گا تو دیر یا سویر اس کا پردہ کھل کر رہے گا ۔ اور یہ کہ انسان کے ساتھ خدا کی تائید و حمایت اسی وقت تک رہے گی جب تک وہ خدا کا مطیع فرمان رہے گا ۔ طاعت کے حدود سے قدم باہر نکالنے کے بعد اسے خدا کی تائید ہرگز حاصل نہ ہو گی بلکہ اسے خود اس کے اپنے نفس کے حوالے کر دیا جائے گا ۔ یہ وہی مضمون ہے جو متعدد احادیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے اور اسی کے متعلق حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دُعا فرمائی ہے کہ اللھم رحمتک ارجو افلا تکلنی الیٰ تفسی طرفة عین ( خدایا میں تیری رحمت کا امیدوار ہوں پس مجھے ایک لمحہ کے لیے بھی میرے نفس کے حوالے نہ کر ) ۔ ( ۷ ) شیطان یہ ثابت کرنا چاہتا تھا کہ انسان اس فضیلت کا مستحق نہیں ہے جو اس کے مقابلہ میں انسان کو دی گئی ہے ۔ لیکن پہلے ہی معرکے میں اس نے شکست کھائی ۔ اس میں شک نہیں کہ اس معر کے میں انسان اپنے رب کے امر کی فرمانبرداری کرنے میں پوری طرح کامیاب نہ ہو سکا اور اس کی یہ کمزوری ظاہر ہو گئی کہ وہ اپنے حریف کے فریب میں آکر اطاعت کی راہ سے ہٹ سکتا ہے ۔ مگر بہر حال اس اولین مقابلہ میں یہ قطعی ثابت ہو گیا کہ انسان اپنے اخلاقی مرتبہ میں ایک افضل مخلوق ہے ۔ اولاً ، شیطان اپنی بڑائی کا خود مدعی تھا ، اور انسان نے اس کا دعویٰ آپ نہیں کیا بلکہ بڑائی اسے دی گئی ۔ ثانیاً ، شیطان نے خالص غرور تکبر کی بنا پر اللہ کے امر کی نافرمانی آپ اپنے اختیار سے کی اور انسان نے نافرمانی کو خود اختیار نہیں کیا بلکہ شیطان کے بہکانے سے وہ اس میں مبتلا ہوا ۔ ثالثاً ، انسان نے شر کی کھلی دعوت کو قبول نہیں کیا بلکہ داعیِ شر کو داعیِ خیر بن کر اس کے سامنے آنا پڑا ۔ وہ پستی کی طرف پستی کی طلب میں نہیں گیا بلکہ اس دھوکے میں مبتلا ہو کر گیا کہ یہ راستہ اسے بلندی کی طرف لے جائے گا ۔ رابعاً ، شیطان کو تنبیہ کی گئی تو وہ اپنے قصور کا اعتراف کرنے اور بندگی کی طرف پلٹ آنے کے بجائے نافرمانی پر اور زیادہ جم گیا ، اور جب انسان کو اس کے قصور پر متنبہ کیا گیا تو اس نے شیطان کی طرح سرکشی نہیں کی بلکہ اپنی غلطی کا احساس ہوتے ہی وہ نادم ہوا ، اپنے قصور کا اعتراف کر کے بغاوت سے اطاعت کی طرف پلٹ آیا اور معافی مانگ کر اپنے رب کے دامنِ رحمت میں پناہ ڈھونڈنے لگا ۔ ( ۸ ) اس طرح شیطان کی راہ اور وہ راہ جو انسان کے لائق ہے ، دونوں ایک دوسرے سے بالکل متمیّر ہو گئیں ۔ خالص شیطانی راہ یہ ہے کہ بندگی سے منہ موڑے ، خدا کے مقابلہ میں سرکشی اختیار کرے ، متنبہ کیے جانے باسجود پورے استکبار کے ساتھ اپنے باغیانہ طرزِ عمل پر اصراف کیے چلا جائے اور جو لوگ طاعت کی راہ چل رہے ہوں ان کو بھی بہکائے اور معصیّت کی راہ پر لانے کی کوشش کرے ۔ بخلاف اس کے جو راہ انسان کےلائق ہے وہ یہ ہے کہ اوّل تو وہ شیطانی اغوا کی مزاحمت کرے اور اپنے اس دشمن کی چالوں کو سمجھنے اور ان سے بچنے کے لیے ہر وقت چوکنّا رہے ، لیکن اگر کبھی اس کا قدم بندگی وطاعت کی راہ سے ہٹ بھی جائےتو اپنی غلطی کا احساس ہوتے ہی ندامت و شرمساری کے ساتھ فورًا اپنے رب کی طرف پلٹے اور اس قصور کی تلافی کر دے جو اس سے سرزد ہوگیا ہے ۔ یہی وہ اصل سبق ہے جو اللہ تعالیٰ اس قصے سے یہاں دینا چاہتا ہے ۔ ذہن نشین یہ کرنا مقصود ہے کہ جس راہ پر تم لوگ جا رہے ہو یہ شیطان کی راہ ہے ۔ یہ تمہارا خدائی ہدایت سے بے نیاز ہو گا شیاطینِ جن و انس کو اپنا ولی و سرپرست بنانا ، اور یہ تمہارا پے در پےتنبیہات کے باوجود اپنی غلطی پر اصرار کیے چلے جانا ، یہ دراصل خالص شیطانی رویّہ ہے ۔ تم اپنے ازلی دشمن کے دام میں گرفتار ہوگئے ہو اور اس سے مکمل شکست کھا رہے ہو ۔ اس کا انجام پھر وہی ہے جس سے شیطان خو دو چار ہونے والا ہے ۔ اگر تم حقیقت میں خود اپنے دشمن نہیں ہوگئے ہو اور کچھ بھی ہوش تم میں باقی ہے تو سنبھلو اور وہ راہ اختیار کرو جو آکر کار تمہارے باپ اور تمہاری ماں آدم و حوّا نے اختیار کی تھی ۔ سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :14 یہ شبہ نہ کیا جائے کہ حضرت آدم وحوا علیہما السلام کو جنت سے اُتر جانے کا یہ حکم سزا کے طور پر دیا گیا تھا ۔ قرآن میں متعدد مقامات پر اس کی تصریح کی گئی ہے کہ اللہ نے ان کی توبہ قبول کر لی اور انہیں معاف کر دیا ۔ لہٰذا اس حکم میں سزا کا کوئی پہلو نہیں ہے بلکہ یہ اس منشاء کی تکمیل ہے جس کے لیے انسان کو پیدا کیا گیا تھا ۔ ( تشریح کے لیے ملا حظہ ہو سورة بقرہ ، حاشیہ٤۸و۵۳ ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

10: یہ استغفار کے وہی الفاظ ہیں جن کے بارے میں سورۂ بقرہ (٢: ٣٧) میں فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہی یہ الفاظ سکھائے تھے، کیونکہ اس وقت تک انہیں توبہ کا طریقہ بھی معلوم نہیں تھا، اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ توبہ کرنے کے لئے یہ الفاظ نہایت مناسب ہیں اور ان کے ذریعے توبہ قبول ہونے کی زیادہ امید ہے، کیونکہ یہ خود اللہ تعالیٰ ہی کے سکھائے ہوئے ہیں، اس طرح اللہ تعالیٰ نے اگر ایک طرف شیطان کو مہلت دے کر اسے انسان کو بہکانے کی صلاحیت دی جو انسان کے لئے زہر جیسی تھی تو دوسری طرف انسان کو توبہ اور استغفار کا تریاق بھی عطا فرمادیا کہ اگر شیطان کے بہکائے میں آکر وہ کبھی کوئی گناہ کر گزرے تو اسے فوراً توبہ کرنی چاہئے، جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے کئے پر شرمندہ ہو، اور آئندہ نہ کرنے کا عزم کرے اور اللہ تعالیٰ سے معافی مانگے اس طرح شیطان کا چڑھایا ہوا زہر اترجائے گا۔