Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

سفر ارضی کے بارے میں یہودی روایات بعض کہتے ہیں یہ خطاب حضرت آدم ، حضرت حوا ، شیطان ملعون اور سانپ کو ہے ۔ بعض سانپ کا ذکر نہیں کرتے ۔ یہ ظاہر ہے کہ اصل مقصد حضرت آدم ہیں اور شیطان ملعون ۔ جیسے سورۃ طہ میں ہے آیت ( اھبطا منھا جمیعا ) حوا حضرت آدم کے تابع تھیں اور سانپ کا ذکر اگر صحت تک پہنچ جائے تو وہ ابلیس کے حکم میں آ گیا ۔ مفسرین نے بہت سے اقوال ذکر کئے ہیں کہ آدم کہاں اترے ، شیطان کہاں پھینکا گیا وغیرہ ۔ لیکن دراصل ان کا مخرج بنی اسرائیل کی روایتیں ہیں اور ان کی صحت کا علم اللہ ہی کو ہے اور یہ بھی ظاہر ہے کہ اس جگہ کے جان لینے سے کوئی فائدہ نہیں اگر ہوتا تو ان کا بیان قرآن میں یا حدیث میں ضرور ہوتا ، کہدیا گیا کہ اب تمہارے قرار کی جگہ زمین ہے وہیں تم اپنی مقررہ زندگی کے دن پورے کرو گے جیسے کہ ہماری پہلی کتاب لوح محفوظ میں اول سے ہی لکھا ہوا موجود ہے ۔ اسی زمین پر جیو گے اور مرنے کے بعد بھی اسی میں دبائے جاؤ گے اور پھر حشر و نشر بھی اسی میں ہو گا ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( منھا خلقناکم وفیھا نعیدکم ومنھا نخرجکم تارۃ اخری ) پس اولاد آدم کے جینے کی جگہ بھی یہی اور مرنے کی جگہ بھی یہی ، قبریں بھی اسی میں اور قیامت کے دن اٹھیں گے بھی اسی سے ، پھر بدلہ دیئے جائیں گے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢١] ابلیس و آدم (علیہ السلام) کی ایک دوسرے سے دشمنی کی وجہ :۔ ابلیس آدم (علیہ السلام) کا اس لیے دشمن بن گیا کہ اس کی آزمائش کا جس میں وہ سخت ناکام رہا سبب آدم (علیہ السلام) بنے تھے اور آدم (علیہ السلام) اس لیے ابلیس کے دشمن بنے کہ اس نے مکر و فریب سے سبز باغ دکھا کر اور جھوٹی قسمیں کھا کر آدم (علیہ السلام) کو اللہ کی نافرمانی پر آمادہ کر ہی لیا چناچہ ان دونوں کو جنت سے نکال کر زمین میں لا بسایا گیا کیونکہ جنت ایسی محاذ آرائی کی جگہ نہیں ہے ایسی محاذ آرائی کے لیے زمین ہی موزوں تھی مناسب یہی تھا کہ حق و باطل کے سب معرکے زمین ہی پر واقع ہوں اس طرح اللہ کی وہ مشیت خود بخود پوری ہوگئی جس کے لیے اس نے انسان کو پیدا کیا تھا۔- یہاں ایک غلط فہمی کا ازالہ ضروری ہے جس میں اکثر لوگ مبتلا ہوجاتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ اگر اللہ کی مشیت ہی یہی تھی کہ آدم و حوا اور ان کی اولاد زمین میں آباد ہو اور شیطان ان کا دشمن بن کر آدم (علیہ السلام) اور اولاد آدم کو گمراہ کرتا رہے اور ان کے درمیان محاذ آرائی کا عمل جاری رہے اور اس طرح اس دنیا کو بنی آدم کے لیے دارالامتحان بنایا جائے تو پھر آخر اس قصہ آدم و ابلیس میں ابلیس کا یا آدم (علیہ السلام) کا قصور ہی کیا تھا ہونا تو وہی تھا جو اللہ کی مشیت میں تھا۔ پھر آدم و ابلیس اللہ کی نافرمانی کے مورد الزام کیوں ٹھہرائے گئے ؟- اللہ کی مشیت اور تقدیر کا مسئلہ :۔ اس طرح کے سوالات قرآن کریم میں اور بھی متعدد مقامات پر پیدا ہوتے ہیں جیسے اسی سورة میں ایک مقام پر فرمایا کہ ہم نے جنوں اور انسانوں کی اکثریت کو جہنم کے لیے پیدا کیا ہے (٧ : ١٧٩) یہاں بھی یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب جنوں اور انسانوں کی اکثریت کو پیدا ہی جہنم کے لیے کیا گیا ہے تو پھر اس میں جنوں اور انسانوں کا کیا قصور ہے ؟ اسی طرح احادیث صحیحہ میں بھی یہ مضمون بکثرت وارد ہے مثلاً جب شکم مادر میں روح پھونکی جاتی ہے تو ساتھ ہی فرشتہ یہ بھی لکھ دیتا ہے کہ یہ شخص جنتی ہوگا یا جہنمی۔ اور ایسے مقامات کتاب و سنت میں بیشمار ہیں۔ جہاں انسان یہ سوچتا ہے کہ ہم تو قدرت کے ہاتھ میں محض کھلونے ہیں مشیت تو اللہ کی پوری ہوتی ہے پھر ہمیں سزا کیوں ملے گی ؟- اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ کو کسی چیز کے نتیجہ کے متعلق پیشگی علم ہونا یا اس کا علم غیب کسی انسان کو اس بات پر مجبور یا اس کا پابند نہیں بناتا کہ وہ وہی کچھ کرے جو اللہ کے علم یا اس کی مشیت یا تقدیر میں لکھا ہے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جو کچھ انسان اپنے پورے ارادہ و اختیار سے کرنے والا ہوتا ہے اس کا اللہ کو پہلے سے علم ہوتا ہے اس بات کو ہم یہاں ایک مثال سے سمجھائیں گے۔- ایک بادشاہ اپنی مہمات میں اکثر اپنے درباری نجومی سے مشورہ لیا کرتا تھا نجومی اسے سیاروں کی چال کے زائچے تیار کر کے امور غیب سے مطلع کردیتا نجومی کی یہ خبریں کبھی درست ثابت ہوتیں اور کبھی کوئی خبر غلط بھی ثابت ہوجاتی۔ ایک دفعہ بادشاہ اس نجومی سے خفا ہوگیا اور وہ اس نجومی کو کسی بہانے سزا دینے کے متعلق سوچنے لگا اسے یک دم ایک خیال آیا اور اس نے ایک ایسا کمرہ بنانے کا حکم دیا جس کے چاروں طرف دروازے ہوں جب ایسا کمرہ تیار ہوگیا تو اس نے اس نجومی کو بلا کر کہا : میں اس کمرے میں داخل ہونے والا ہوں تم حساب لگا کر بتاؤ کہ میں اس کمرے کے کون سی سمت والے دروازے سے باہر نکلوں گا۔- نجومی کو بھی بادشاہ کی خفگی کا علم تھا وہ سمجھتا تھا کہ یہ سوال در اصل اس کی زندگی اور موت کا سوال ہے۔ چناچہ اس نے کہا کہ سوال کا جواب تو میں دے دوں گا لیکن میری شرط یہ ہے کہ میں اس سوال کا جواب لکھ کر آپ کے کسی معتمد علیہ وزیر کے پاس سربمہر کر کے امانت رکھ دیتا ہوں آپ یہ جواب اس وقت دیکھیں جب آپ کمرہ سے باہر نکل آئیں۔- بادشاہ نے اس شرط کو منظور کرلیا نجومی نے سوال کا جواب لکھ کر سربمہر کر کے وزیر کے حوالے کردیا تو بادشاہ نے اپنے معمار کو بلا کر کہا کہ میں اس کمرہ میں داخل ہوتا ہوں اس کے چاروں دروازے مقفل کردینا اور مجھے چھت پھاڑ کر اور سیڑھی لگا کر اوپر سے نکال لانا۔ چناچہ ایسا ہی کیا گیا۔ باہر آ کر بادشاہ نے نجومی کا جواب طلب کیا جو سب کے سامنے پڑھا گیا اس میں لکھا تھا کہ بادشاہ کسی بھی دروازے سے نہیں بلکہ چھت پھاڑ کر باہر نکلے گا بادشاہ یہ جواب سن کر دم بخود رہ گیا اور نجومی اس کے عتاب سے بچ گیا۔- اب دیکھئے کہ نجومی کی پہلے سے لکھی ہوئی تحریر نے بادشاہ کو ہرگز اس بات پر مجبور نہیں کیا کہ چھت پھاڑ کر باہر نکلے بلکہ وہ اس کام میں مکمل طور پر آزاد اور بااختیار تھا بالکل یہی صورت ان مسائل کی ہے جن کا اوپر ذکر ہوا ہے انسان جو کچھ کرتا ہے مکمل طور پر اپنے ارادہ و اختیار سے کرتا ہے اسی بناء پر اسے جزا و سزا ملے گی۔ رہی پیشگی لکھنے یا مشیت یا تقدیر کی بات تو یہ چیز اسے مجبور سمجھنے پر دلیل نہیں بن سکتی بلکہ یہ بات تو اللہ کے علم کی وسعت کی دلیل ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

قَالَ اهْبِطُوْا۔۔ : ” َمَتَاعٌ“ یعنی عارضی لذتیں اور فائدے، تنوین تنکیر سے معلوم ہوا کہ وہ بھی چند۔ مزید تفسیر کے لیے دیکھیے سورة بقرہ آیت (٣٦) کے فوائد۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قَالَ فِيْہَا تَحْيَوْنَ وَفِيْہَا تَمُوْتُوْنَ وَمِنْہَا تُخْرَجُوْنَ۝ ٢٥ ۧ- حيى- الحیاة تستعمل علی أوجه :- الأوّل : للقوّة النّامية الموجودة في النّبات والحیوان، ومنه قيل : نبات حَيٌّ ، قال عزّ وجلّ : اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید 17] ، - الثانية : للقوّة الحسّاسة، وبه سمّي الحیوان حيوانا،- قال عزّ وجلّ : وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر 22] ،- الثالثة : للقوّة العاملة العاقلة، کقوله تعالی:- أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] - والرابعة : عبارة عن ارتفاع الغمّ ،- وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] ، أي : هم متلذّذون، لما روي في الأخبار الکثيرة في أرواح الشّهداء - والخامسة : الحیاة الأخرويّة الأبديّة،- وذلک يتوصّل إليه بالحیاة التي هي العقل والعلم، قال اللہ تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال 24] - والسادسة : الحیاة التي يوصف بها الباري،- فإنه إذا قيل فيه تعالی: هو حيّ ، فمعناه : لا يصحّ عليه الموت، ولیس ذلک إلّا لله عزّ وجلّ.- ( ح ی ی ) الحیاۃ )- زندگی ، جینا یہ اصل میں - حیی ( س ) یحییٰ کا مصدر ہے ) کا استعمال مختلف وجوہ پر ہوتا ہے ۔- ( 1) قوت نامیہ جو حیوانات اور نباتات دونوں میں پائی جاتی ہے - ۔ اسی معنی کے لحاظ سے نوبت کو حیہ یعنی زندہ کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید 17] جان رکھو کہ خدا ہی زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ - ۔ ( 2 ) دوم حیاۃ کے معنی قوت احساس کے آتے ہیں - اور اسی قوت کی بناء پر حیوان کو حیوان کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر 22] اور زندے اور مردے برابر ہوسکتے ہیں ۔ - ( 3 ) قوت عاملہ کا عطا کرنا مراد ہوتا ہے - چنانچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔- ( 4 ) غم کا دور ہونا مراد ہوتا ہے - ۔ اس معنی میں شاعر نے کہا ہے ( خفیف ) جو شخص مرکر راحت کی نیند سوگیا وہ درحقیقت مردہ نہیں ہے حقیقتا مردے بنے ہوئے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھنا وہ مرے ہوئے نہیں ہیں بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہیں ۔ میں شہداء کو اسی معنی میں احیاء یعنی زندے کہا ہے کیونکہ وہ لذت و راحت میں ہیں جیسا کہ ارواح شہداء کے متعلق بہت سی احادیث مروی ہیں ۔ - ( 5 ) حیات سے آخرت کی دائمی زندگی مراد ہوتی ہے - ۔ جو کہ علم کی زندگی کے ذریعے حاصل ہوسکتی ہے : قرآن میں ہے : ۔ اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال 24] خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو جب کہ رسول خدا تمہیں ایسے کام کے لئے بلاتے ہیں جو تم کو زندگی ( جادواں ) بخشتا ہے۔- ( 6 ) وہ حیات جس سے صرف ذات باری تعالیٰ متصف ہوتی ہے - ۔ چناچہ جب اللہ تعالیٰ کی صفت میں حی کہا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ ذات اقدس ہوئی ہے جس کے متعلق موت کا تصور بھی نہیں ہوسکتا ۔ پھر دنیا اور آخرت کے لحاظ بھی زندگی دو قسم پر ہے یعنی حیات دنیا اور حیات آخرت چناچہ فرمایا : ۔ فَأَمَّا مَنْ طَغى وَآثَرَ الْحَياةَ الدُّنْيا [ النازعات 38] تو جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو مقدم سمجھنا ۔- موت - أنواع الموت بحسب أنواع الحیاة :- فالأوّل : ما هو بإزاء القوَّة النامية الموجودة في الإنسان والحیوانات والنّبات - . نحو قوله تعالی:- يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم 19] ، وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق 11] .- الثاني : زوال القوّة الحاسَّة . قال : يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا - [ مریم 23] ، أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم 66] .- الثالث : زوال القوَّة العاقلة، وهي الجهالة .- نحو : أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] ، وإيّاه قصد بقوله : إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل 80] .- الرابع : الحزن المکدِّر للحیاة،- وإيّاه قصد بقوله : وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَ- بِمَيِّتٍ [إبراهيم 17] .- الخامس : المنامُ ،- فقیل : النّوم مَوْتٌ خفیف، والموت نوم ثقیل، وعلی هذا النحو سمّاهما اللہ تعالیٰ توفِّيا . فقال : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] - ( م و ت ) الموت - یہ حیات کی ضد ہے - لہذا حیات کی طرح موت کی بھی کئی قسمیں ہیں - ۔ اول قوت نامیہ - ( جو کہ انسان حیوانات اور نباتات ( سب میں پائی جاتی ہے ) کے زوال کو موت کہتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم 19] زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق 11] اور اس پانی سے ہم نے شہر مردہ یعنی زمین افتادہ کو زندہ کیا ۔- دوم حس و شعور کے زائل ہوجانے کو موت کہتے ہیں - ۔ چناچہ فرمایا ۔ يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا[ مریم 23] کاش میں اس سے پہلے مر چکتی ۔ أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم 66] کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا زندہ کر کے نکالا جاؤں گا ۔ - سوم ۔ قوت عاقلہ کا زائل ہوجانا اور اسی کا نام جہالت ہے - چناچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل 80] کچھ شک نہیں کہ تم مردوں کو بات نہیں سنا سکتے ۔- چہارم ۔ غم جو زندگی کے چشمہ صافی کو مکدر کردیتا ہے - چنانچہ آیت کریمہ : ۔ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم 17] اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی ۔ مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا ۔ میں موت سے یہی مین مراد ہیں ۔- پنجم ۔ موت بمعنی نیند ہوتا ہے - اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ النوم موت خفیف والموت نوم ثقیل کہ نیند کا نام ہے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو توفی سے تعبیر فرمایا ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] اور وہی تو ہے جو ارت کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢٤) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہوا کہ سب جنت سے اتر جاؤ تمہارے لیے رہنے اور معیشت کے لیے، موت تک زمین میں جگہ تجویز کی گئی ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٤ (قَالَ اہْبِطُوْا بَعْضُکُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ ج) ۔ - ھُبُوط کے بارے میں سورة البقرۃ آیت ٣٦ میں وضاحت ہوچکی ہے کہ یہ لفظ صرف بلندی سے نیچے اترنے کے معنی کے لیے ہی خاص نہیں بلکہ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے کا مفہوم بھی اس میں شامل ہے۔ جس دشمنی کا ذکر یہاں کیا گیا وہ حضرت آدم کے ہبوط ارضی کے وقت سے آج تک شیطان کی ذریت اور آدم ( علیہ السلام) کی اولاد کے درمیان مسلسل چلی آرہی ہے اور قیامت تک چلتی رہے گی۔ اس کے علاوہ اس سے بنی نوع انسان کی باہمی دشمنیاں بھی مراد ہیں جو مختلف افراد اوراقوام کے درمیان پائی جاتی ہیں۔- (وَلَکُمْ فِی الْاَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَّمَتَاعٌ اِلٰی حِیْنٍ )- یہ ٹھکانہ اور مال و متاع ابدی نہیں ہے ‘ بلکہ ایک خاص وقت تک کے لیے ہے۔ اب تمہیں اس زمین پر رہنا بسنا ہے اور وہاں رہنے بسنے کے لیے جو چیزیں ضروری ہیں وہ وہاں پر فراہم کردی گئی ہیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani