Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بہت سی آیتوں میں یہ بیان ہوا ہے کہ آسمان و زمین اور کل مخلوق اللہ تعالیٰ نے چھ دن میں بنائی ہے یعنی اتوار سے جمعہ تک ۔ جمعہ کے دن ساری مخلوق پیدا ہو چکی ۔ اسی دن حضرت آدم پیدا ہوئے یا تو یہ دن دنیا کے معمولی دنوں کے برابر ہی تھے جیسے کہ آیت کے ظاہری الفاظ سے فی الفور سمجھا جاتا ہے یا ہر دن ایک ہزار سال کا تھا جیسے کہ حضرت مجاہد کا قول ہے اور حضرت امام احمد بن حنبل کا فرمان ہے اور بروایت ضحاک ابن عباس کا قول ہے ۔ ہفتہ کے دن کوئی مخلوق پیدا نہیں ہوئی ۔ اسی لئے اس کا نام عربی میں ( یوم السبت ) ہے ( سبت ) کے معنی قطع کرنے ختم کرنے کے ہیں ۔ ہاں مسند احمد نسائی اور صحیح مسلم میں جو حدیث ہے کہ اللہ نے مٹی کو ہفتہ کے دن پیدا کیا اور پہاڑوں کو اتوار کے دن اور درختوں کو پیر کے دن اور برائیوں کو منگل کے دن اور نور کو بدھ کے دن اور جانوروں کو جمعرات کے دن اور آدم کو جمعہ کے دن عصر کے بعد دن کی آخری گھڑی میں عصر سے لے کر مغرب تک ۔ حضور نے حضرت ابو ہریرہ کا ہاتھ پکڑ کر یہ گنوایا ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سات دن تک پیدائش کا سلسلہ جاری رہا حالانکہ قرآن میں موجود ہے کہ چھ دن میں پیدائش ختم ہوئی ۔ اسی وجہ سے امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ وغیرہ زبردست حفاظ حدیث نے اس حدیث پر کلام کیا ہے اور فرمایا ہے کہ یہ عبارت حضرت ابو ہریرہ نے کعب احبار سے لی ہے فرمان رسول نہیں ہے واللہ اعلم ۔ پھر فرماتا ہے کہ وہ اپنے عرش پر مستوی ہوا ۔ اس پر لوگوں نے بہت کچھ چہ میگوئیاں کی ہیں ۔ جنہیں تفصیل سے بیان کرنے کی یہ جگہ نہیں ۔ مناسب یہی ہے کہ اس مقام میں سلف صالحین کی روش اختیار کی جائے ۔ جیسے امام مالک ، امام اوزاعی ، امام ثوری ، امام لیث ، امام شافعی ، امام احمد ، امام اسحاق بن راہویہ وغیرہ وغیرہ ائمہ سلف وخلف رحمہم اللہ ۔ ان سب بزرگان دین کا مذہب یہی تھا کہ جیسی یہ آیت ہے اسی طرح اسے رکھا جائے بغیر کیفیت کے ، بغیر تشبیہ کے اور بغیر مہمل چھوڑنے کے ، ہاں مشبہین کے ذہنوں میں جو چیز آ رہی ہے اس سے اللہ تعالیٰ پاک اور بہت دور ہے اللہ کے مشابہ اس کی مخلوق میں سے کوئی نہیں ۔ فرمان ہے آیت ( لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْءٌ ۚ وَهُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ 11 ؀ ) 42- الشورى:11 ) اس کے مثل کوئی نہیں اور وہ سننے دیکھنے والا ہے ۔ بلکہ حقیقت یہی ہے جو ائمہ کرام رحمتہ اللہ علیہم نے فرمائی ہے انہی میں سے حضرت نعیم بن حماد خزاعی رحمتہ اللہ علیہ ہیں ۔ آپ حضرات امام بخاری کے استاد ہیں فرماتے ہیں جو شخص اللہ کو مخلوق سے تشبیہ دے وہ کافر ہے اور جو شخص اللہ کے اس وصف سے انکار کرے جو اس نے اپنی ذات پاک کیلئے بیان فرمایا ہے وہ بھی کافر ہے ۔ خود اللہ تعالیٰ نے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو اوصاف ذات باری تعالیٰ جل شانہ کے بیان فرمائے ہیں ان میں ہرگز تشبیہ نہیں ۔ پس صحیح ہدایت کے راستے پر وہی ہے جو آثار صحیحہ اور اخبار صریحہ سے جو اوصاف رب العزت وحدہ لاشریک لہ کے ثابت ہیں انہیں اسی طرح جانے جو اللہ کی جلالت شان کے شیان ہے اور ہر عیب و نقصان سے اپنے رب کو پاک اور مبرا و منزہ سمجھے ۔ پھر فرمان ہے کہ رات کا اندھیرا دن کے اجالے سے اور دن کا اجالا رات کے اندھیرے سے دور ہو جاتا ہے ، ہر ایک دوسرے کے پیچھے لپکا چلا آتا ہے یہ گیا وہ آیا وہ گیا یہ آیا ۔ جیسے فرمایا آیت ( وایتہ لھم الیل ) الخ ، ان کے سمجھنے کیلئے ہماری ایک نشانی رات ہے کہ اس میں سے ہم دن کو نکالتے ہیں جس سے یہ اندھیرے میں آ جاتے ہیں ۔ سورج اپنے ٹھکانے کی طرف برابر جا رہا ہے یہ ہے اندازہ اللہ کا مقرر کیا ہوا جو غالب اور باعلم ہے ۔ ہم نے چاند کی بھی منزلیں ٹھہرا دی ہیں یہاں تک کہ وہ کھجور کی پرانی ٹہنی جیسا ہو کر رہ جاتا ہے ۔ نہ آفتاب ماہتاب سے آگے نکل سکتا ہے نہ رات دن سے پہلے آ سکتی ہے ۔ سب کے سب اپنے اپنے مدار میں تیرتے پھرتے ہیں ۔ رات دن میں کوئی فاصلہ نہیں ایک کا جانا ہی دوسرے کا آجانا ہے ہر ایک دوسرے کے برابر پیچھے ہے آیت ( والشمس والقمر والنجوم ) کو بعض نے پیش سے بھی پڑھا ہے ۔ معنی مطلب دونوں صورتوں میں قریب قریب برابر ہے ۔ یہ سب اللہ کے زیر فرمان ، اس کے ماتحت اور اس کے ارادے میں ہیں ۔ ملک اور تصرف اسی کا ہے ۔ وہ برکتوں والا اور تمام جہان کا پالنے والا ہے ۔ فرمان ہے آیت ( تَبٰرَكَ الَّذِيْ جَعَلَ فِي السَّمَاۗءِ بُرُوْجًا وَّجَعَلَ فِيْهَا سِرٰجًا وَّقَمَرًا مُّنِيْرًا 61؀ ) 25- الفرقان:61 ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جس کسی نے کسی نیک پر اللہ کی حمد نہ کی بلکہ اپنے نفس کو سراہا اس نے کفر کیا اور اس کے اعمال غارت ہوئے اور جس نے یہ عقیدہ رکھا کہ اللہ نے کچھ اختیارات اپنے بندوں کو بھی دیئے ہیں اس نے اس کے ساتھ کفر کیا جو اللہ نے اپنے نبیوں پر نازل فرمایا ہے کیونکہ اس کا فرمان ہے آیت ( اَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ ۭ تَبٰرَكَ اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ 54؀ ) 7- الاعراف:54 ) ( ابن جریر ) ایک مرفوع دعا رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بھی مروی ہے کہ آپ فرماتے تھے دعا ( اللھم لک الملک کلہ ولک الحمد کلہ والیک یرجع الامر کلہ اسألک من الخیر کلہ و اعوذ بک من الشر کلہ ) یا اللہ سارا ملک تیرا ہی ہے سب حمد تیرے لئے ہی ہے سب کام تیری ہی طرف لوٹتے ہیں میں تجھ سے تمام بھلائیاں طلب کرتا ہوں اور ساری برائیوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

54۔ 1 یہ چھ دن اتوار، پیر، منگل، بدھ، جمعرات اور جمعہ ہیں۔ جمعہ کے دن ہی حضرت آدم (علیہ السلام) کی تخلیق ہوئی، ہفتے والے دن کہتے ہیں کوئی تخلیق نہیں ہوئی، اسی لئے اس کو یوم البست کہا جاتا ہے، کیونکہ سبت کے معنی ہیں قطع (کاٹنے) کے ہیں یعنی اس دن تخلیق کا کام قطع ہوگیا۔ پھر اس دن سے کیا مراد ہے ؟ ہماری دنیا کا دن، جو طلوع شمس سے شروع ہوتا ہے اور غروب شمس پر ختم ہوجاتا ہے۔ یا یہ دن ہزار سال کے برابر ہے ؟ جس طرح کہ اللہ کے یہاں کے دن کی گنتی ہے، یا جس طرح قیامت کے دن کے بارے میں آتا ہے۔ بظاہر یہ دوسری بات زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے۔ کیونکہ ایک تو اس وقت سورج چاند کا یہ نظام ہی نہیں تھا، آسمان اور زمین کی تخلیق کے بعد ہی یہ نظام قائم ہوا دوسرے یہ عالم بالا کا واقعہ ہے جس کو دنیا سے کوئی نسبت نہیں ہے، اس لئے اس دن کی اصل حقیقت اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے، ہم قطعیت کے ساتھ کوئی بات نہیں کہہ سکتے۔ علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ تو کُنْ سے سب کچھ پیدا کرسکتا تھا، اس کے باوجود اس نے ہر چیز کو الگ الگ درجہ بدرجہ سلسلہ وار بنایا اس کی بھی اصل حکمت اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے تاہم بعض علماء نے اس کی ایک حکمت لوگوں کو آرام، وقار اور تدریج (سلسلہ وار) کے ساتھ کام کرنے کا سبق دینا بتلائی ہے۔ وَا للّٰہُ اَعْلَم 54۔ 2 یعنی اللہ تعالیٰ عرش پر مستقر ( ّٹھہرا) ہے۔ لیکن کس طرح، کس کیفیت کے ساتھ، اسے ہم بیان نہیں کرسکتے کسی کے ساتھ تشبیہ ہی دے سکتے ہیں۔ نعیم بن حماد کا قول ہے جو اللہ کی تخلیق کے ساتھ تشبیہ دے اس نے بھی کفر کیا اور جس نے اللہ کی اپنے بارے میں بیان کردہ کسی بات کا انکار کیا، اس نے بھی کفر کیا اور اللہ کے بارے میں اس کی یا اس کے رسول کی بیان بات کو بیان کرنا، تشبیہ نہیں ہے۔ اس لئے جو باتیں اللہ تعالیٰ کے بارے میں نص (قطعی حکم) سے ثابت ہیں، ان پر بلا تاویل اور بلا کیف و تشبیہ پر ایمان رکھنا ضروری ہے۔ (ابن کثیر) 54۔ 3 حثیثا کے معنی ہیں نہایت تیزی سے اور مطلب ہے کہ ایک کے بعد دوسرا فورا آجاتا ہے یعنی دن کی روشنی آتی ہے تو رات کی تاریکی فوراً غائب ہوجاتی ہے اور رات آتی ہے تو دن کا اجالا ختم ہوجاتا ہے اور سب دور و نزدیک سیاہی چھا جاتی ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٥٣] یہاں دن سے مراد ہمارا یہ ٢٤ گھنٹے کا دن نہیں جو سورج سے تعلق رکھتا ہے کیونکہ یہ سورج تو اس وقت موجود ہی نہ تھا۔ قرآن کریم میں ایک اور مقام پر یوم کی مقدار ایک ہزار سال کا ذکر آیا ہے (٢٢ : ٤٧) اور دوسرے مقام پر پچاس ہزار سال کا (٧٠ : ٤) لہذا یہاں چھ دن سے چھ ادوار ہی مراد لیے جاسکتے ہیں۔ (مزید تفصیل کے لیے دیکھئے سورة حم السجدہ ٤١ کی آیات ٩ تا ١٢)- [٥٤] استواء علی العرش کا مفہوم :۔ قرآن میں جہاں بھی استویٰ علی کا لفظ آیا ہے تو اس کے معنی قرار پکڑنا یا جم کر بیٹھنا ہے لیکن بعض عقل پرست فرقے جن میں جہمیہ اور معتزلہ سرفہرست ہیں آیت (اسْتَوٰي عَلَي الْعَرْشِ 59؀) 25 ۔ الفرقان :59) کا ترجمہ عرش پر متمکن ہوگیا یا کائنات کے نظام پر غالب آگیا یا زمام اختیار و اقتدار سنبھالی وغیرہ کرتے ہیں اور استویٰ کے معنی استولیٰ سے کرتے ہیں جن کے متعلق امام ابن قیم نے فرمایا کہ - نون الیھود ولام جھمی ھما۔۔ فی وحی رب العرش زائد تان - یعنی یہودیوں کا نون ( حطہ کی بجائے حنطہ کہنا) اور جہیمہ کالام (یعنی استویٰ کی بجائے استولیٰ سمجھنا) دونوں باتیں وحی الٰہی سے زائد ہیں۔- فرقہ جہمیہ کا تعارف :۔ جہیمہ فرقہ کا بانی جہم بن صفوان دوسری صدی ہجری کے آغاز میں ہشام بن عبدالملک (١٠٥ ھ تا ١٢٥ ھ) کے زمانہ میں ظاہر ہوا۔ یہ شخص ارسطو کے تجریدی نظریہ ذات باری سے متاثر تھا (ارسطو ایک یونانی فلاسفر تھا جو ذات باری کے وجود کا قائل تھا مگر تجریدی نظریہ رکھتا تھا اور آخرت کا منکر تھا) جہم اپنے زعم کے مطابق اللہ تعالیٰ کی مکمل تنزیہہ بیان کرتا تھا اور اللہ تعالیٰ کی ان صفات کی نفی کرتا تھا جو کتاب و سنت میں وارد ہیں اور اس تنزیہہ میں اس نے اس قدر غلو اور مبالغہ سے کام لیا کہ بقول امام ابوحنیفہ (رح) اس نے اللہ تعالیٰ کو لاشے اور معدوم بنادیا وہ اللہ تعالیٰ کے لیے جہت یا سمت مقرر کرنے کو شرک قرار دیتا تھا اور اس کی طرف ہاتھ، پاؤں، چہرہ، آنکھیں اور پنڈلی کی نسبت کرنے کو، جن کا قرآن میں ثبوت موجود ہے ناجائز قرار دیتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے خود اپنے لیے عرش پر قرار پکڑنے یا اپنے ہاتھوں، آنکھوں، چہرے اور پنڈلی کا غیر مبہم الفاظ میں قرآن میں ذکر فرمایا ہے تو اس کی تنزیہہ خود اس سے زیادہ بہتر اور کون کرسکتا ہے۔ رہی یہ بات کہ اس کا عرش کیسا ہے یا اس نے کس طرح عرش پر قرار پکڑا ہے یا اس کا چہرہ، آنکھیں اور ہاتھ وغیرہ کیسے ہیں تو یہ جاننے کے ہم مکلف نہیں ہیں کیونکہ اس نے خود ہی فرمایا ہے کہ آیت (فَلَا تَضْرِبُوْا لِلّٰهِ الْاَمْثَالَ 74؀) 16 ۔ النحل :74) نیز فرمایا (لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْءٌ 11 ؀) 42 ۔ الشوری:11) تو بس ایک مسلمان کا کام یہ ہے کہ جو کچھ کتاب و سنت میں مذکور ہے اسے جوں کا توں تسلیم کرلے اسے عقل اور فلسفہ کی سان پر چڑھا کر اس کی دوراز کار تاویلات و تحریفات پیش کرنا ایک مسلمان کا شیوہ نہیں ہوسکتا اور نہ قرآن ایسی فلسفیانہ موشگافیوں کا متحمل ہی ہوسکتا ہے کیونکہ جن لوگوں پر یہ قرآن نازل ہوا تھا وہ امی تھے اور فلسفیانہ موشگافیوں سے قطعاً نابلد تھے۔- صفات الہٰی میں بحثیں کرنے والے ملعون ہیں :۔ قرآن کی ایسی آیات جن میں اللہ تعالیٰ کی صفات مذکور ہوں ان کی کرید کرنا اور ان کی عقلی توجیہات تلاش کرنا ان لوگوں کا کام ہے جن کے دلوں میں ٹیڑھ ہوتی ہے اور وہ یہ کام کسی فتنہ انگیزی یعنی کسی نئے فرقے کی طرح ڈالنے کی خاطر کرتے ہیں جس کے وہ قائد شمار ہو سکیں اور اس طرح امت کو فرقہ بازی کے فتنے سے دو چار کردیتے ہیں (ملاحظہ ہو سورة آل عمران کی آیت نمبر ٧ اور ٨) اور ایک دوسرے مقام پر فرمایا : آیت (وَذَرُوا الَّذِيْنَ يُلْحِدُوْنَ فِيْٓ اَسْمَاۗىِٕهٖ ١٨٠۔ ) 7 ۔ الاعراف :180) یعنی جو لوگ اللہ کے اسماء (صفات الہیٰ ) میں ٹیڑھی راہیں اختیار کرتے ہیں ان کی کوئی بات نہ مانو یاد رہے کہ الحاد کا تعلق عموماً ایسے باطل عقائد سے ہوتا ہے جو صفات الٰہی سے متعلق ہوتے ہیں۔- [٥٥] یعنی اللہ تعالیٰ زمین و آسمان کو پیدا کر کے عرش پر قرار پکڑنے کے بعد بیٹھ نہیں گیا جیسا کہ بعض دوسرے گمراہ فرقوں کا خیال ہے بلکہ وہ پوری کائنات پر اکیلا کنٹرول کر رہا ہے یہ سورج چاند ستارے اس کی مقرر کردہ چال کے مطابق اپنے اپنے کام پر لگے ہوئے ہیں اور اس کے حکم سے سرمو ادھر ادھر نہیں ہوسکتے اور کائنات میں جو کچھ تصرفات اور حوادث رونما ہو رہے ہیں سب اسی کے حکم اور اسی کی قدرت سے واقع ہوتے ہیں۔- [٥٦] حاکمیت اعلیٰ صرف اللہ کے لیے ہے :۔ یعنی یہ نہیں ہوسکتا کہ کائنات کی ایک ایک چیز کا خالق تو اللہ تعالیٰ ہو اور تدبیر امور کائنات میں دوسرے بھی اس کے ساتھ شامل ہوجائیں کوئی بارش برسانے کا دیوتا ہو تو کوئی فصلیں پیدا کرنے والا اور کوئی دوسرا مال و دولت عطا کرنے والا ہو۔ جو چیزیں خود اللہ تعالیٰ کے فرمان کے آگے بےبس اور مجبور ہوں وہ دوسری چیزوں پر کیا حکم چلا سکتی ہیں ؟ اور انسانی زندگی پر کیسے اثر انداز ہوسکتی ہیں ؟ مالک ہی یہ حق رکھتا ہے کہ اپنی مملوکہ چیز میں جیسے چاہے تصرف کرے اور مملوک اسی کا تابع فرمان ہو۔ - اگرچہ ربط مضمون کے لحاظ سے یہاں ستارہ پرستی کا رد مقصود ہے تاہم اس جملہ کا حکم عام ہے۔ یعنی اس دنیا میں انسانوں پر اللہ کے حکم کے سوا کسی دوسرے کا حکم چلنے کی کوئی وجہ نہیں۔ انسان اللہ کی مخلوق ہیں اور اسی کا عطا کردہ رزق کھاتے ہیں لہذا یہاں نہ حاکم کو اختیار ہے کہ وہ اللہ کے حکم کے خلاف کوئی حکم دے اور نہ عام انسانوں کو چاہیے کہ وہ اللہ کے حکم کے سوا کسی دوسرے کا حکم مانیں۔ جیسا کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ جس کام میں اللہ کی نافرمانی ہوتی ہو ایسے کام میں کسی مخلوق کی اطاعت نہ کرنی چاہیے۔ نیز اس آیت کی رو سے نظام خلافت کے سوا باقی سب نظام ہائے سیاست باطل قرار پاتے ہیں جن میں اللہ کے سوا دوسروں کا قانون نافذ ہوتا ہے۔- [٥٧] برکت کا مفہوم :۔ برکت کا مطلب یہ ہے کہ جن متوقع فوائد اور خیر و بھلائی کے لیے کوئی چیز پیدا کی گئی ہے وہ پورے کے پورے فوائد اس سے حاصل ہوجائیں یہاں اللہ تعالیٰ کے بابرکت ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کائنات کی کوئی بھی چیز جس مقصد اور خیر و بھلائی کے لیے بنائی تھی اس سے پورے کے پورے مقاصد حاصل ہو رہے ہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اِنَّ رَبَّكُمُ اللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ ۔۔ : ان چھ دنوں سے مراد دنیا کے چھ دن تو ہو نہیں سکتے، کیونکہ ان کا وجود سورج اور زمین سے ہے اور اس وقت سورج تھا نہ زمین۔ اب یا تو مراد ہزار سال کا وہ دن ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں کہا : ( وَاِنَّ يَوْمًا عِنْدَ رَبِّكَ كَاَلْفِ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ ) [ الحج : ٤٧ ] ” اور ایک دن تیرے رب کے ہاں ہزار سال کے برابر ہے، اس گنتی سے جو تم شمار کرتے ہو “ یا چھ ادوار مراد ہیں۔ قرآن مجید کی مختلف آیات پر غور کرنے سے یہ بھی معلوم ہوسکتا ہے کہ ہر دور میں کون سی چیز بنائی گئی۔ دیکھیے سورة حم السجدہ (١٠) صحیح احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یوم الاحد ( اتوار) سے خلق کی ابتدا ہوئی اور جمعہ کے دن پوری ہوگئی۔ (ابن کثیر۔ المنار) اللہ تعالیٰ چاہتا تو لفظ ” کُنْ “ سے ایک لمحے میں سب کچھ پیدا فرما دیتا، مگر اس کی حکمت کا تقاضا اسی طرح کرنے کا تھا جو اس نے کیا۔ بعض اہل علم نے اس سے اپنے کام بالتدریج کرنے کا استنباط فرمایا ہے۔- ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَي الْعَرْشِ : آیت کا یہ جملہ قرآن میں سات مقامات پر آیا ہے۔ آٹھویں جگہ سورة طہ (٥) میں (اَلرَّحْمَنُ عَلَي الْعَرْشِ اسْتَوٰى) ہے۔ اس کے معنی عرش پر بلند ہونے کے ہیں۔ سلف صالحین نے بلا تاویل اللہ تعالیٰ کو عرش پر تسلیم کیا ہے، چناچہ منقول ہے کہ ” استواء “ کے معنی تو معلوم ہیں، مگر اس کی کیفیت ہماری عقل سے بالا ہے، اس کا اقرار عین ایمان ہے اور انکار کفر ہے۔ یہی مذہب چاروں اماموں کا ہے۔ پس صحیح عقیدہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ساری مخلوق سے الگ عرش پر ہے، تاہم اس کا علم و قدرت سب پر حاوی ہے۔ اہل السنہ کا یہی عقیدہ ہے اور احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ کا عرش آسمان و زمین پر محیط ہے۔ (ابن کثیر۔ شوکانی) - يَطْلُبُهٗ حَثِيْثًا : یعنی رات کے بعد دن تیزی سے پہنچ جاتا ہے، کوئی وقفہ نہیں ہوتا۔ - مُسَخَّرٰتٍۢ بِاَمْرِهٖ ۭ: یعنی اللہ تعالیٰ نے جو وقت اور راستہ ان کے لیے مقرر فرمایا ہے وہ اسی پر چلتے رہتے ہیں اور بال برابر اس سے ادھر ادھر نہیں ہوتے۔ - اَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ ۭ: یعنی جس طرح خلق ( پیدا کرنے) میں اس کا کوئی شریک نہیں، اسی طرح حکم بھی اسی کا ہے، کوئی دوسرا اس میں شریک نہیں، خواہ تکوینی حکم ہو جو ساری کائنات میں چلتا ہے، یا تشریعی، یعنی شریعت کا قانون جو اس نے اپنے بندوں کو ایک حد تک اختیار دے کردیا ہے اور جس پر عمل کے مطابق جنت یا جہنم کی جزا یا سزا ملے گی۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - بے شک تمہارا رب اللہ ہی ہے جس نے سب آسمانوں اور زمین کو چھ روز (کے برابر وقت) میں پیدا کیا، پھر عرش پر (جو مشابہ ہے تخت سلطنت کے اس طرح) قائم (اور جلوہ فرما) ہوا (جو کہ اس کی شان کے لائق ہے) چھپا دیتا ہے شب (کی تاریکی) سے دن (کی روشنی) کو (یعنی شب کی تاریکی سے دن کی روشنی پوشیدہ اور زائل ہوجاتی ہے) ایسے طور پر کہ وہ شب دن کو جلدی سے آ لیتی ہے (یعنی دن آناً فاناً گزرتا معلوم ہوتا ہے یہاں تک کہ دفعةً رات آجاتی ہے) اور سورج اور چاند اور دوسرے ستاروں کو پیدا کیا، ایسے طور پر کہ سب اس کے حکم (تکوینی) کے تابع ہیں، یاد رکھو اللہ ہی کے لئے خاص ہے خالق ہونا اور حاکم ہونا، بڑے کمالات والے ہیں اللہ تعالیٰ جو تمام عالم کے پروردگار ہیں۔- معارف و مسائل - مذکورہ آیات میں سے پہلی آیت میں آسمان و زمین اور سیارات و نجوم کے پیدا کرنے اور ایک خاص نظام محکم کے تابع اپنے اپنے کام میں لگے رہنے کا ذکر اور اس کے ضمن میں حق تعالیٰ کی قدرت مطلقہ کا بیان کرکے ہر اہل عقل انسان کو اس کی دعوت فکر دی گئی ہے کہ جو ذات پاک اس عظیم الشان عالم کو عدم سے وجود میں لانے اور حکیمانہ نظام کے ساتھ چلانے پر قادر ہے اس کے لئے کیا مشکل ہے کہ ان چیزوں کو معدوم کرکے قیامت کے روز دوبارہ پیدا فرما دے، اس لئے قیامت کا انکار چھوڑ کر صرف اسی ذات کو اپنا رب سمجھیں اسی سے اپنی حاجات طلب کریں، اسی کی عبادت کریں، مخلوق پرستی کی دلدل سے نکلیں اور حقیقت کو پہچانیں اس میں ارشاد فرمایا کہ ” تمہارا رب اللہ ہی ہے، جس نے آسمان اور زمین کو چھ روز میں پیدا کیا “۔ - آسمان و زمین کی تخلیق میں چھ روز کی مدت کیوں ہوئی - دوسرا سوال یہ ہے کہ دن اور رات کا وجود آفتاب کی حرکت سے پہچانا جاتا ہے، آسمان اور زمین کی پیدائش سے پہلے جب نہ آفتاب تھا نہ ماہتاب، چھ دنوں کی تعداد کس حساب سے ہوئی۔ - اس لئے بعض حضرات مفسرین نے فرمایا کہ مراد چھ دن سے اتنا وقت اور زمانہ ہے جس میں چھ دن رات اس دنیا میں ہوتے ہیں، لیکن صاف اور بےغبار بات یہ ہے کہ دن اور رات کی یہ اصلاح کہ طلوع آفتاب سے غروب تک دن اور غروب سے طلوع تک رات، یہ تو اس دنیا کی اصطلاح ہے، پیدائش عالم سے پہلے ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دن اور رات کی دوسری علامات مقرر فرما رکھی ہیں، جیسے جنت میں ہوگا کہ وہاں کا دن اور رات حرکت آفتاب کے تابع نہیں ہوگا۔- اس سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ یہ ضروری نہیں کہ وہ چھ دن جس میں زمین و آسمان بنائے گئے وہ ہمارے چھ دن کے برابر ہوں بلکہ ہوسکتا ہے کہ اس سے بڑے ہوں، جیسے آخرت کے دن کے بارے میں ارشاد قرآنی ہے کہ ایک ہزار سال کے برابر ایک دن ہوگا۔- ابو عبداللہ رازی رحمة اللہ علیہ نے فرمایا کہ فلک اعظم کی حرکت اس دنیا کی حرکات کے مقابلہ میں اتنی تیز ہے کہ ایک دوڑنے والا انسان ایک قدم اٹھا کر زمین پر رکھنے نہیں پاتا کہ فلک اعظم تین ہزار میل کی مسافت طے کرلیتا ہے۔ (بحر محیط)- امام احمد بن حنبل رحمة اللہ علیہ اور مجاہد رحمة اللہ علیہ کا قول یہی ہے کہ یہاں چھ دن سے آخرت کے چھ دن مراد ہیں، اور بروایت ضحاک رحمة اللہ علیہ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے بھی یہی منقول ہے۔ - اور یہ چھ دن جن میں پیدائش عالم وجود میں آئی ہے، صحیح روایات کے مطابق اتوار سے شروع ہو کر جمعہ پر ختم ہوتے ہیں، یوم السبت یعنی ہفتہ کے اندر تخلیق عالم کا کام نہیں ہوا، بعض علماء نے فرمایا کہ سبت کے معنی قطع کرنے کے ہیں، اس روز کا یوم السبت اسی لئے نام رکھا گیا کہ اس پر کام ختم ہوگیا (تفسیر ابن کثیر) - آیت مذکورہ میں زمین و آسمان کی تخلیق چھ روز میں مکمل ہونے کا ذکر ہے اس کی تفصیل سورة حم سجدہ کی نویں اور دسویں آیات میں اس طرح آئی ہے کہ دو دن میں زمین بنائی گئی، پھر دو دن میں زمین کے اوپر پہاڑ، دریا، معاون، درخت، نباتات، اور انسان و حیوان کے کھانے پینے کی چیزیں بنائی گئیں، کل چار دن ہوگئے، ارشاد فرمایا : (آیت) خلق الارض فی یومین اور پھر فرمایا (آیت) قدر فیہا اقو تھا فی اربعۃ ایام۔- پہلے دو دن جس میں زمین بنائی گئی، اتوار اور پیر ہیں، اور دوسرے دو دن جن میں زمین کی آبادی کا سامان پہاڑ، دریا بنائے گئے وہ منگل اور بدھ ہیں، اس کے بعد ارشاد فرمایا (آیت) فقضھن سبع سموات فی یومین، یعنی پھر ساتوں آسمان بنائے دو دن میں، ظاہر ہے کہ یہ دو دن جمعرات اور جمعہ ہوں گے، اس طرح جمعہ تک چھ دن ہوگئے۔ - آسمان و زمین کی تخلیق کا بیان کرنے کے بعد ارشاد فرمایا (آیت) ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَي الْعَرْشِ ۔ یعنی پھر عرش پر قائم ہوا، استویٰ کے لفظی معنی قائم ہونے اور عرش شاہی تخت کو کہا جاتا ہے اب یہ عرش رحمن کیسا اور کیا ہے، اور اس پر قائم ہونے کا کیا مطلب ہے ؟- اس کے متعلق بےغبار اور صاف و صحیح وہ مسلک ہے جو سلف صالحین صحابہ وتابعین سے اور بعد میں اکثر حضرات صوفیائے کرام سے منقول ہے کہ انسانی عقل اللہ جل شانہ کی ذات وصفات کی حقیقت کا احاطہ کرنے سے عاجز ہے، اس کی کھوج میں پڑنا بیکار بلکہ مضر ہے ان پر اجمالاً یہ ایمان لانا چاہئے کہ ان الفاظ سے جو کچھ حق تعالیٰ کی مراد ہے وہ صحیح اور حق ہے، اور خود کوئی معنی متعین کرنے کی فکر نہ کرے۔ - حضرت امام مالک رحمة اللہ علیہ سے ایک شخص نے یہی سوال کیا کہ استواء علی العرش کا کیا مطلب ہے ؟ آپ نے کچھ دیر تامل فرمانے کے بعد فرمایا کہ لفظ استواء کے معنی تو معلوم ہیں اور اس کی کیفیت اور حقیقت کا ادراک عقل انسانی نہیں کرسکتی، اور ایمان لانا اس پر واجب ہے، اور اس کے متعلق کیفیت و حقیقت کا سوال کرنا بدعت ہے، کیونکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایسے سوالات نہیں کئے، سفیان ثوری، امام اوزاعی، لیث بن سعد، سفیان ابن عینیہ، عبداللہ بن مبارک رحمة اللہ علیہم اجمعین نے فرمایا کہ جو آیات اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات کے متعلق آئی ہیں ان کو جس طرح وہ آئی ہیں اسی طرح بغیر کسی تشریح و تاویل کے رکھ کر ان پر ایمان لانا چاہئے (مظہری)- اس کے بعد آیت مذکور میں فرمایا يُغْشِي الَّيْلَ النَّهَارَ ، یعنی اللہ تعالیٰ ڈھانپ دیتے ہیں رات کو دن پر اس طرح کہ رات جلدی کے ساتھ دن کو آ لیتی ہے، مراد یہ ہے کہ رات اور دن کا یہ انقلاب عظیم کہ پورے عالم کو نور سے اندھیرے میں یا اندھیرے سے نور میں لے آتا ہے، اللہ تعالیٰ کی قدرت قاہرہ کے تابع اتنی جلدی اور آسانی سے ہوجاتا ہے کہ ذرا دیر نہیں لگتی۔ - اس کے بعد ارشاد فرمایا وّالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ یعنی پیدا کیا اللہ تعالیٰ نے آفتاب اور چاند اور تمام ستاروں کو اس حال پر کہ سب کے سب اللہ تعالیٰ کے امر و حکم کے تابع چل رہے ہیں۔- اس میں ایک ذی عقل انسان کے لئے دعوت فکر ہے جو مخلوق کی بنائی ہوئی مصنوعات کا ہر وقت مشاہدہ کرتا ہے کہ بڑے بڑے ماہرین کی بنائی مشینوں میں اول تو کچھ نقائص رہتے ہیں، اور نقائص بھی نہ رہیں تو کیسی فولادی مشینیں اور کَل پرزے ہوں چلتے چلتے گھستے ہیں، ڈھیلے ہوتے ہیں، مرمت کی ضرورت ہوتی ہے، گریسنگ کی حاجت پیش آتی ہے، اور اس کیلئے کئی کئی دن بلکہ ہفتوں اور مہینوں مشین معطل رہتی ہے، لیکن ان خدائی مشینوں کو دیکھو کہ جس طرح اور جس شان سے پہلے دن ان کو چلایا تھا اسی طرح چل رہی ہیں، نہ کبھی ان کی رفتار میں ایک منٹ سیکنڈ کا فرق آتا ہے، نہ کبھی ان کا کوئی پرزہ گھستا ٹوٹتا ہے، نہ کبھی ان کو ورکشاپ کی ضرورت پڑتی ہے، وجہ یہ ہے کہ وہ مستخرات بامرہ، چل رہی ہیں، یعنی ان کے چلنے چلانے کے لئے نہ کوئی بجلی کا پاور درکار ہے، نہ کسی انجن کی مدد ضروری ہے، وہ صرف امر الٓہی سے چل رہی ہیں، اسی کے تابع ہیں، اس میں کوئی فرق آنا ناممکن ہے، ہاں جب خود قادر مطلق ہی ان کے فنا کرنے کا ارادہ ایک معیّن وقت پر کریں گے تو یہ سارا نظام درہم برہم ہوجائے گا، جس کا نام قیامت ہے۔- ان چند مثالوں کے ذکر کے بعد حق تعالیٰ کی قدرت قاہرہ مطلقہ کا بیان ایک کلی قاعدے کی صورت میں اس طرح کیا گیا الا لہ الخلق والامر، خلق کے معنی پیدا کرنا اور امر کے معنی حکم کرنا ہیں، معنی یہ ہیں کہ اسی کے لئے خاص ہے خالق ہونا اور حاکم ہونا، اس کے سوا کوئی دوسرا نہ کسی ادنی، چیز کو پیدا کرسکتا ہے اور نہ کسی کو کسی پر حکم کرنے کا حق ہے، (بجز اس کے کہ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے حکم کا کوئی خاصہ شعبہ کسی کے سپرد کردیا جائے تو وہ بھی حقیقت کے اعتبار سے اللہ ہی کا حکم ہے) اس لئے مراد آیت کی یہ ہوئی کہ یہ ساری چیزیں پیدا کرنا بھی اسی کا کام تھا، اور پیدا ہونے کے بعد ان سے کام لینا بھی کسی دوسرے کے بس کی بات نہ تھی وہ بھی اللہ تعالیٰ ہی کی قدرت کاملہ کا کرشمہ ہے۔ - صوفیاء کرام نے فرمایا کہ خلق اور امر دو عالم ہیں، خلق کا تعلق مادّہ اور مادّیات سے ہے، اور امر کا تعلق مجردات لطیفہ کے ساتھ ہے، (آیت) قل الروح من امر ربی۔ میں اس کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے کہ روح کو امر رب سے فرمایا، خلق اور امر دونوں کا اللہ تعالیٰ کے لئے خاص ہونے کا مطلب اس صورت میں یہ ہے کہ آسمان و زمین اور ان کے درمیان جتنی چیزیں ہیں یہ تو سب مادی ہیں، ان کی پیدائش کو خلق کہا گیا، اور ما فوق السموٰات جو مادہ اور مادّیت سے بری ہیں ان کی پیدائش کو لفظ امر سے تعبیر کیا گیا (مظہری) - آخر آیت میں ارشاد فرمایا (آیت) تَبٰرَكَ اللّٰهُ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ اس میں لفظ تبارک، برکت سے بنا ہے اور لفظ برکت، بڑھنے، زیادہ ہونے، ثابت رہنے وغیرہ کے کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے، اس جگہ لفظ تَبَارَکَ کے معنی بلند وبالا ہونے کے ہیں، جو بڑھنے کے معنی سے بھی لیا جاسکتا ہے، اور ثابت رہنے کے معنی سے بھی، کیونکہ اللہ تعالیٰ قائم اور ثابت بھی ہیں، اور بلند وبالا بھی، بلند ہونے کے معنی کی طرف حدیث کے ایک جملہ میں بھی اشارہ کیا گیا ہے تبارکت وتعالیت یا ذا الجلال، یہاں تَبَارَکتَ کی تفسیر تَعَالَیتَ کے لفظ سے کردی گئی ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اُدْعُوْا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَّخُفْيَۃً۝ ٠ ۭ اِنَّہٗ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِيْنَ۝ ٥٥ ۚ- دعا - الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ، - ( د ع و ) الدعاء ( ن )- کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ - ضرع - الضَّرْعُ : ضَرْعُ الناقةِ ، والشاة، وغیرهما، وأَضْرَعَتِ الشاةُ : نزل اللّبن في ضَرْعِهَا لقرب نتاجها، وذلک نحو : أتمر، وألبن : إذا کثر تمره ولبنه، وشاةٌ ضَرِيعٌ: عظیمةُ الضَّرْعِ ، وأما قوله : لَيْسَ لَهُمْ طَعامٌ إِلَّا مِنْ ضَرِيعٍ [ الغاشية 6] ، فقیل : هو يَبِيسُ الشَّبْرَقِ «1» ، وقیل : نباتٌ أحمرُ منتنُ الرّيحِ يرمي به البحر، وكيفما کان فإشارة إلى شيء منكر . وضَرَعَ إليهم : تناول ضَرْعَ أُمِّهِ ، وقیل منه : ضَرَعَ الرّجلُ ضَرَاعَةً : ضَعُفَ وذَلَّ ، فهو ضَارِعٌ ، وضَرِعٌ ، وتَضَرّعَ :- أظهر الضَّرَاعَةَ. قال تعالی: تَضَرُّعاً وَخُفْيَةً [ الأنعام 63] ، لَعَلَّهُمْ يَتَضَرَّعُونَ- [ الأنعام 42] ، لَعَلَّهُمْ يَضَّرَّعُونَ [ الأعراف 94] ، أي : يَتَضَرَّعُونَ فأدغم، فَلَوْلا إِذْ جاءَهُمْ بَأْسُنا تَضَرَّعُوا[ الأنعام 43] ، والمُضَارَعَةُ أصلُها : التّشارک في الضَّرَاعَةِ ، ثمّ جرّد للمشارکة، ومنه استعار النّحويّون لفظَ الفعلِ المُضَارِعِ.- ( ض ر ع ) الضرع اونٹنی اور بکری وغیرہ کے تھن اضرعت الشاۃ قرب دلادت کی وجہ سے بکری کے تھنوں میں دودھ اتر آیا یہ اتمر والبن کی طرح کا محاورہ ہے جس کے معنی ہیں زیادہ دودھ یا کھجوروں والا ہونا اور شاۃ ضریع کے معنی بڑے تھنوں والی بکری کے ہیں مگر آیت کریمہ : ۔ لَيْسَ لَهُمْ طَعامٌ إِلَّا مِنْ ضَرِيعٍ [ الغاشية 6] اور خار جھاڑ کے سوا ان کے لئے کوئی کھانا نہیں ہوگا میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں ضریع سے خشک شبرق مراد ہے اور بعض نے سرخ بدبو دار گھاس مراد لی ہے ۔ جسے سمندر باہر پھینک دیتا ہے بہر حال جو معنی بھی کیا جائے اس سے کسی مکرو ہ چیز کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے ۔ ضرع البھم چوپایہ کے بچہ نے اپنی ماں کے تھن کو منہ میں لے لیا بعض کے نزدیک اسی سے ضرع الرجل ضراعۃ کا محاورہ ہے جس کے معنی کمزور ہونے اور ذلت کا اظہار کرنے کے ہیں الضارع والضرع ( صفت فاعلی کمزور اور نحیف آدمی تضرع اس نے عجز وتزلل کا اظہار کیا ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ تَضَرُّعاً وَخُفْيَةً [ الأنعام 63] عاجزی اور نیاز پنہانی سے ۔ لَعَلَّهُمْ يَتَضَرَّعُونَ [ الأنعام 42] تاکہ عاجزی کریں لَعَلَّهُمْ يَضَّرَّعُونَ [ الأعراف 94] تاکہ اور زاری کریں ۔ یہ اصل میں یتضرعون ہے تاء کو ضاد میں ادغام کردیا گیا ہے ۔ نیز فرمایا : ۔ فَلَوْلا إِذْ جاءَهُمْ بَأْسُنا تَضَرَّعُوا[ الأنعام 43] تو جب ان پر ہمارا عذاب آتا رہا کیوں نہیں عاجزی کرتے رہے ۔ المضارعۃ کے اصل معنی ضراعۃ یعنی عمز و تذلل میں باہم شریک ہونے کے ہیں ۔ پھر محض شرکت کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے اسی سے علماء نحو نے الفعل المضارع کی اصطلاح قائم کی ہے کیونکہ اس میں دوز مانے پائے جاتے ہیں )- خفی - خَفِيَ الشیء خُفْيَةً : استتر، قال تعالی: ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعاً وَخُفْيَةً [ الأعراف 55] ،- ( خ ف ی ) خفی ( س )- خفیتہ ۔ الشیء پوشیدہ ہونا ۔ قرآن میں ہے : ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعاً وَخُفْيَةً [ الأعراف 55] اپنے پروردگار سے عاجزی سے اور چپکے چپکے دعائیں مانگا کرو ۔- حب - والمحبَّة :- إرادة ما تراه أو تظنّه خيرا، وهي علی ثلاثة أوجه :- محبّة للّذة، کمحبّة الرجل المرأة، ومنه :- وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان 8] .- ومحبّة للنفع، کمحبة شيء ينتفع به، ومنه :- وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13] .- ومحبّة للفضل، کمحبّة أهل العلم بعضهم لبعض لأجل العلم .- ( ح ب ب ) الحب والحبۃ - المحبۃ - کے معنی کسی چیز کو اچھا سمجھ کر اس کا ارادہ کرنے اور چاہنے کے ہیں - اور محبت تین قسم پر ہے :- ۔ ( 1) محض لذت اندوزی کے لئے - جیسے مرد کسی عورت سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ آیت : ۔ وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان 8] میں اسی نوع کی محبت کی طرف اشارہ ہے - ۔ ( 2 ) محبت نفع اندوزی کی خاطر - جیسا کہ انسان کسی نفع بخش اور مفید شے سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13 اور ایک چیز کو تم بہت چاہتے ہو یعنی تمہیں خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح حاصل ہوگی - ۔ ( 3 ) کبھی یہ محبت یہ محض فضل وشرف کی وجہ سے ہوتی ہے - جیسا کہ اہل علم وفضل آپس میں ایک دوسرے سے محض علم کی خاطر محبت کرتے ہیں ۔ - عدا - والاعْتِدَاءُ :- مجاوزة الحقّ. قال تعالی: وَلا تُمْسِكُوهُنَّ ضِراراً لِتَعْتَدُوا[ البقرة 231] ، وقال : وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُ [ النساء 14] ،- ( ع د و ) العدو - الاعتداء کے معنی حق سے تجاوز کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَلا تُمْسِكُوهُنَّ ضِراراً لِتَعْتَدُوا[ البقرة 231] اور اس نیت سے ان کو نکاح میں نہ رہنے دینا چاہیئے کہ انہیں تکلیف دو اور ان پر زیادتی کرو ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٥٤) اللہ نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا جس کے ایک دن کی درازی ایک ہزار سال کے برابر تھی، پھر تخت شاہی پر قائم ہوا، رات کو دن سے اور دن کو رات سے چھپا دیتا ہے بایں طور پر رات تیزی سے جاتی ہے اور دن تیزی سے آجاتا ہے، اسی طرح دن تیزی سے جاتا ہے اور رات آجاتی ہے اور سورج وغیرہ کو پیدا کیا کہ سب اپنی رفتار میں اسی کے حکم کے تابع ہیں۔- اللہ ہی نے تمام آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کیا اور وہی قیامت کے دن تمام مخلوق کے درمیان فیصلہ کرے گا۔ اللہ تعالیٰ تمام جہانوں کا آقا اور ان کی نگرانی کرنے والا برکتوں اور بلندیوں والا ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٥٤ (اِنَّ رَبَّکُمُ اللّٰہُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِیْ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ قف) ۔ - عرش کی حقیقت اور اللہ تعالیٰ کے عرش پر متمکن ہونے کی کیفیت ہمارے تصور سے بالا تر ہے۔ اس لحاظ سے یہ آیت متشابہات میں سے ہے۔ اس کی اصل حقیقت کو اللہ ہی جانتا ہے۔ ممکن ہے واقعتا یہ کوئی مجسم شے ہو اور کسی خاص جگہ پر موجود ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ محض استعارہ ہو۔ عالم غیب کی خبریں دینے والی اس طرح کی قرآنی آیات مستقل طور پر آیات متشابہات کے زمرے میں آتی ہیں۔ البتہ جن آیات میں بعض سائنسی حقائق بیان ہوئے ہیں ‘ ان میں سے اکثر کی صداقت سائنسی ترقی کے باعث منکشف ہوچکی ہے ‘ اور وہ محکمات کے درجے میں آچکی ہیں۔ اس سلسلے میں آئندہ تدریجاً مزید پیش رفت کی توقع بھی ہے۔ (واللہ اعلم )- (یُغْشِی الَّیْلَ النَّہَارَ یَطْلُبُہٗ حَثِیْثًالا) - دن رات کے پیچھے آتا ہے اور رات دن کے پیچھے آتی ہے۔- (وَّالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُوْمَ مُسَخَّرٰتٍم بِاَمْرِہٖ ط) - سورج ‘ چاند اور ستاروں کے مسخر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جو بھی قاعدہ یا قانون ان کے لیے مقرر کردیا گیا ہے ‘ وہ اس کی اطاعت کر رہے ہیں۔ - (اَلاَ لَہُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ ط) ۔ - ان الفاظ کے دو مفہوم ذہن میں رکھئے۔ ایک تو بہت سادہ اور سطحی مفہوم ہے کہ یہ کائنات اللہ نے تخلیق کی ہے اور اب اس میں اسی کا حکم کارفرما ہے۔ یعنی احکام طبیعیہ بھی اسی کے بنائے ہوئے ہیں جن کے مطابق کائنات کا نظام چل رہا ہے ‘ اور احکام تشریعیہ بھی اسی نے اتارے ہیں کہ یہ اوامر اور یہ نواہی ہیں ‘ انسان ان کے مطابق اپنی زندگی گزارے۔ مگر اس کا دوسرا اور گہرا مفہوم یہ ہے کہ کائنات میں تخلیق دو سطح پر ہوئی ہے۔ اس لحاظ سے یہ دو الگ الگ عالم ہیں ‘ ایک عالم خلق ہے اور دوسرا عالم امر۔ عالم امر میں عدم محض سے تخلیق ( ) ہوتی ہے اور اس میں تخلیق کے لیے بس کُن کہا جاتا ہے تو چیز وجود میں آجاتی ہے (فَیَکُون) ۔ اس کے لیے نہ وقت درکار ہے اور نہ کسی مادے کی ضرورت ہوتی ہے۔ فرشتوں ‘ انسانی ارواح اور وحی کا تعلق عالم امر سے ہے۔ اسی لیے ان کے سفر کرنے کے لیے بھی کوئی وقت درکار نہیں ہوتا۔ فرشتہ آنکھ جھپکنے میں زمین سے ساتویں آسمان پر پہنچ جاتا ہے۔ - دوسری طرف عالم خلق میں ایک شے سے کوئی دوسری شے طبعی قوانین اور ضوابط کے مطابق بنتی ہے۔ اس میں مادہ بھی درکار ہوتا ہے اور وقت بھی لگتا ہے۔ جیسے رحم مادر میں بچے کی تخلیق میں کئی ماہ لگتے ہیں۔ آم کی گٹھلی سے پودا اگنے اور بڑھ کر درخت بننے کے لیے کئی سال کا وقت درکار ہوتا ہے۔ عالم خلق میں جب زمین اور آسمانوں کی تخلیق ہوئی تو قرآن کے مطابق یہ چھ دنوں میں مکمل ہوئی۔ (یہ آیت بھی ابھی تک متشابہات میں سے ہے ‘ اگرچہ اس کے بارے میں اب جلد حقیقت منکشف ہونے کے امکانات ہیں۔ ) اس کی حقیقت کے بارے میں اللہ ہی جانتا ہے کہ ان چھ دنوں سے کتنا زمانہ مراد ہے۔ اس کا دورانیہ کئی لاکھ سال پر بھی محیط ہوسکتا ہے۔ خود قرآن کے مطابق ہمارا ایک دن اللہ کے نزدیک ایک ہزار سال کا بھی ہوسکتا ہے (سورۃ السجدۃ ‘ آیت ٥) اور پچاس ہزار سال کا بھی (سورۃ المعارج ‘ آیت ٤) ۔- یہ قرآن مجید کا اعجاز ہے کہ انتہائی پیچیدہ علمی نکتے کو بھی ایسے الفاظ اور ایسے پیرائے میں بیان کردیتا ہے کہ ایک عمومی ذہنی سطح کا آدمی بھی اسے پڑھ کر مطمئن ہوجاتا ہے ‘ جبکہ ایک فلسفی و حکیم انسان کو اسی نکتے کے اندر علم و معرفت کا بحربے کراں موجزن نظر آتا ہے۔ چناچہ پندرہ سو سال پہلے صحرائے عرب کے ایک بدو کو اس آیت کا یہ مفہوم سمجھنے میں کوئی الجھن محسوس نہیں ہوئی ہوگی کہ یہ کائنات اللہ کی تخلیق ہے اور اسی کو حق ہے کہ اس پر اپنا حکم چلائے۔ مگر جب ایک صاحب علم محقق اس لفظ امر پر غور کرتا ہے اور پھر قرآن مجید میں غوطہ زنی کرتا ہے کہ یہ لفظ امر قرآن مجید میں کہاں کہاں ‘ کن کن معانی میں استعمال ہوا ہے ‘ اور پھر ان تمام مطالب و مفاہیم کو آپس میں مربوط کر کے دیکھتا ہے تو اس پر بہت سے علمی حقائق منکشف ہوتے ہیں۔ بہر حال عالم خلق ایک الگ عالم ہے اور عالم امر الگ ‘ اور ان دونوں کے قوانین و ضوابط بھی الگ الگ ہیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :40 یہاں دن کا لفظ یا تو اسی چوبیس گھنٹے کے دن کا ہم معنی ہے جسے دنیا کے لوگ دن کہتے ہیں ، یا پھر یہ لفظ دور ( ) کے معنی میں استعمال ہوا ہے ، جیسا کہ سورة الحج آیت نمبر ٤۷ میں فرمایا وَاِنَّ یَوْمًاعِنْدَرَبِّکِ کَاَلْفِ سَنَةٍمِمَّاتَعُدُّوْنَ ( اور حقیقت یہ ہے کہ تیرے رب کے ہاں ایک دن ہزار سال کے برابر ہے اس حساب سے جو تم لوگ لگاتے ہو ) ، اور سورة مارج کی آیت ٤ میں فرمایا کہ تَعْرُجُ الْمَلٰئِکَةُوَالرُّوْحُ اِلَیْہِ فِیْ یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہ خَمْسِیْنَ اَلْفَ سَنَةٍ ( فرشتے اور جبرائیل اس کی طرف ایک دن میں چڑھتے ہیں جس کی مقدار پچاس ہزار سال کی ہے ) ۔ اس کا صحیح مفہوم اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو حٰم السجدہ حواشی ١١ تا ١۵ ) سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :41 خد ا کے استواء علی العرش ( تخت سلطنت پر جلوہ فرما ہونے ) کی تفصیلی کیفیت کو سمجھنا ہمارے لیے مشکل ہے ۔ بہت ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کائنات کی تخلیق کے بعد کسی مقام کو اپنی اس لامحدود سلطنت کا مرکز قرار دے کر اپنی تجلیات کو وہاں مرتکز فرمادیا ہو اور اسی کا نام عرش ہو جہاں سے سارے عالم پر موجود اور قوت کا فیضان بھی ہو رہا ہے اور تدبیر امر بھی فرمائی جا رہی ہے ۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ عرش سے مراد اقتدار فرماں روائی ہو اور اس پر جلوہ فرما ہونے سے مراد یہ ہو کہ اللہ نے کائنات کو پیدا کر کے اس کی زمام سلطنت اپنے ہاتھ میں لی ۔ بہر حال استواء علی العرش کا تفصیلی مفہوم خواہ کچھ بھی ہو ، قرآن میں اس کے ذکر کا اصل مقصد یہ ذہن نشین کرنا ہے کہ اللہ تعالیٰ محض خالق کائنات ہی نہیں ہے بلکہ مدبّر کائنات بھی ہے ۔ وہ دنیا کو وجود میں لانے کے بعد اس سے بے تعلق ہو کر کہیں بیٹھ نہیں گیا ہے بلکہ عملاً وہی سارے جہان کے جز و کل پر فرماں روائی کر رہا ہے ۔ سلطانی و حکمرانی کے تمام اختیارات بالفعل اس کے ہاتھ میں ہیں ہر چیز اس کے امر کی تابع ہے ، ذرّہ ذرّہ اس کے فرمان کا مطیع ہے اور موجودات کی قسمتیں دائماً اس کے حکم سے وابستہ ہیں ۔ اس طرح قرآن اس کی بنیادی غلط فہمی کی جڑ کاٹنا چاہتا ہے جس کی وجہ سے انسان کبھی شرک کی گمراہی میں مبتلا ہوا ہے اور کبھی خود مختیاری و خود سری کی ضلالت میں ۔ خدا کو کائنات کے انتظام سے عملاً بے تعلق سمجھ لینے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ آدمی یا تو اپنی قسمت کو دوسرں سے وابستہ سمجھے اور ان کے آگے سر جھکادے ، یا بھر اپنی قسمت کا مالک خود اپنے آپ کو سمجھے اور خود مختار بن بیٹھے ۔ یہاں ایک اور بات اور قابل توجہ ہے ۔ قرآن مجید میں خدا اور خلق کے تعلق کو واضح کرنے کے لیے انسانی زبان میں سے زیادہ تر وہ الفاظ ، مصطلحات ، استعارے اور انداز بیان انتخاب کیے گئے ہیں جو سلطنت و بادشاہی سے تعلق رکھتے ہیں ۔ یہ طرز بیان قرآن میں اس قدر نمایاں ہے کہ کوئی شخص جو سمجھ کر قرآن کو پڑھتا ہو اسے محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا ۔ بعض کم فہم ناقدین کے معکوس دماغوں نے اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ یہ کتاب جس عہد کی ”تصنیف “ہے اس زمانہ میں انسان کے ذہن پر شاہی نظام کا تسلط تھا اس لیے مصنف نے ( جس سے مراد ان ظالموں کے نزدیک محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ) خدا کو بادشاہ کے رنگ میں پیش کیا ۔ حالانکہ دراصل قرآن جس دائمی و ابدی حقیقت کو پیش کر رہا ہے وہ اس کے برعکس ہے ۔ وہ حقیقت یہ ہے کہ زمین اور آسمانوں میں پادشاہی صرف ایک ذات کی ہے ، اور حاکمیت ( ) جس شے کا نام ہے وہ اسی ذات کے لیے خاص ہے ، اور یہ نظام کائنات ایک کامل مرکزی نظام ہے جس میں تمام اختیارات کو وہی ایک ذات استعمال کر رہی ہے ، لہذا اس نظام میں جو شخص یا گروہ اپنی یا کسی اور کی جزوی یا کُلّی حاکمیت کا مدعی ہے وہ محض فریب میں مبتلا ہے ۔ نیز یہ کہ اس نظام کے اندر رہتے ہوئے انسان کے لیے اس کے سوا کوئی دوسرا رویہ صحیح نہیں ہو سکتا کہ اسی ایک ذات کو مذہبی معنوں میں واحد معبود بھی مانے اور سیاسی و تمدنی معنوں میں واحد سلطان ( ) بھی تسلیم کرے ۔ سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :42 یہ اسی مضمون کی مزید تشریح ہے جو”استواء علی العرش“ کے الفاظ میں مجملاً بیان کیا گیا تھا ۔ یعنی یہ کہ خدا محض خالق ہی نہیں آمر اور حاکم بھی ہے ۔ اس نے اپنی خلق کو پیدا کر کے نہ تو دوسروں کے حوالے کر دیا کہ وہ اس میں حکم چلائیں ، اور نہ پوری خلق کو یا اس کے کسی حصّے کو خود مختار بنا دیا ہے کہ جس طرح چاہے خود کام کرے ۔ بلکہ عملاً تمام کائنات کی تدبیر خدا کے اپنے ہاتھ میں ہے ۔ لیل ونہار کی گردش آپ سے آپ نہیں ہو رہی ہے بلکہ خدا کے حکم سے ہو رہی ہے ، جب چاہے اسے روک دے اور جب چاہے اس کے نظام کو تبدیل کر دے ۔ سورج اور چاند اور تارے خود کسی طاقت کے مالک نہیں ہیں بلکہ خدا کے ہاتھ میں بالکل مسخّر ہیں اور مجبور غلاموں کی طرح بس وہی کام کیے جا رہے ہیں جو خدا ان سے لے رہا ہے ۔ سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :43 برکت کے اصل معنی ہیں نمو ، افزائش اور بڑھوتری کے ، اور اسی کے ساتھ اس لفظ میں رفعت و عظمت کا مفہوم بھی ہے اور ثبات اور جماؤ کا بھی ۔ پھر ان سب مفہومات کے ساتھ خیر اور بھلائی کا تصورّ لازماً شامل ہے ۔ پس اللہ کے نہایت بابرکت ہونے کا مطلب یہ ہوا کہ اس کی خوبیوں اور بھلائیوں کی کوئی حد نہیں ہے ، بے حد و حساب خیرات اس کی ذات سے پھیل رہی ہیں ، اور وہ بہت بلند و برتر ہستی ہے ، کہیں جا کر اس کی بلندی ختم نہیں ہوتی ، اور اس کی یہ بھلائی اور رفعت مستقل ہے ، عارضی نہیں ہے کہ کبھی اس کو زوال ہو ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو ، الفرقان ، حواشی ۔ ١ ۔ ١۹ ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

28: یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب دنوں کا حساب موجودہ سورج کے طلوع و غروب سے نہیں ہوتا تھا۔ اس وقت کے دن کا شمار بظاہر کسی اور معیار پر کیا گیا ہے۔ جس کی حقیقت اﷲ تعالیٰ ہی کو معلوم ہے۔ اور یوں تو اﷲ تعالیٰ کو یہ بھی قدرت تھی کہ وہ پلک جھپکنے سے بھی پہلے پوری کائنات وجود میں لے آتا، لیکن اس عمل کے ذریعے اِنسان کو بھی جلد بازی کے بجائے اطمینان اور وقار کے ساتھ کام کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ 29: ’’استواء‘‘ عربی لفظ ہے جس کے معنیٰ ہیں سیدھا کرنا، قائم ہونا، قابو پانا اور بعض اوقات اس کے معنیٰ بیٹھنے کے بھی ہوتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ چونکہ جسم اور مکان سے پاک ہے، اس لئے اس کے یہ معنیٰ سمجھنا صحیح نہیں ہے کہ جس طرح کوئی اِنسان تخت پر بیٹھتا ہے، اس طرح (معاذاللہ) اﷲ تعالیٰ بھی عرش پر بیٹھے ہیں۔ استوا اﷲ تعالیٰ کی ایک صفت ہے اور جمہور اہل سنت کے نزدیک اس کی ٹھیک ٹھیک کیفیت اﷲ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اور اسے متشابہات میں شمار کیا گیا ہے، جن کی کھود کرید میں پڑنے کو سورہ آل عمران کے شروع میں خود قرآنِ کریم نے منع فرمایا ہے۔ چنانچہ اس کا کوئی بھی ترجمہ کرنا مغالطہ پیدا کرسکتا ہے۔ اسی بنا پر ہم نے یہاں اس کا ترجمہ نہیں کیا۔ نہ اس پر کوئی عملی مسئلہ موقوف ہے۔ اتنا ایمان رکھنا کافی ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے اپنی شان کے مطابق استوا فرمایا جس کی حقیقت ہماری محدودعقل کے ادراک سے باہر ہے۔