انسان دعا مانگے قبول ہوگی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو دعا کی ہدایت کرتا ہے جس میں ان کی دنیا اور آخرت کی بھلائی ہے ۔ فرماتا ہے کہ اپنے پروردگار کو عاجزی ، مسکینی اور آہستگی سے پکارو جیسے فرمان ہے آیت ( واذکر ربک فی نفسک ) الخ ، اپنے رب کو اپنے نفس میں یاد کر ۔ بخاری و مسلم میں حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ لوگوں نے دعا میں اپنی آوازیں بہت بلند کر دیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لوگو اپنی جانوں پر رحم کرو تم کسی بہرے کو یا غائب کو نہیں پکار رہے جسے تم پکار رہے ہو وہ بہت سننے والا اور بہت نزدیک ہے ۔ ابن عباس سے مروی ہے کہ پوشیدگی مراد ہے ، امام ابن جریر فرماتے ہیں ( تضرعا ) کے معنی ذلت مسکینی اور اطاعت گذاری کے ہیں اور ( خفیتہ ) کے معنی دلوں کے خشوع خضوع سے ، یقین کی صحت سے ، اس کی وحدانیت اور ربوبیت کا اس کے اور اپنے درمیان یقین رکھتے ہوئے پکارو نہ کہ ریا کاری کے ساتھ بہت بلند آواز سے ۔ حضرت حسن رحمتہ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ لوگ حافظ قرآن ہوتے تھے اور کسی کو معلوم بھی نہیں ہوتا تھا ، لوگ بہت بڑے فقیہہ ہو جاتے تھے اور کوئی جانتا بھی نہ تھا لوگ لمبی لمبی نمازیں اپنے گھروں میں پڑھتے تھے اور مہمانوں کو بھی پتہ نہ چلتا تھا ۔ یہ وہ لوگ تھے کہ جہاں تک ان کے بس میں ہوتا تھا اپنی کسی نیکی کو لوگوں پر ظاہر نہیں ہونے دیتے تھے ۔ پوری کوشش سے دعائیں کرتے تھے لیکن اس طرح جیسے کوئی سرگوشی کر رہا ہو یہ نہیں کہ چیخیں چلائیں ۔ یہی فرمان رب ہے کہ اپنے رب کو عاجزی اور آہستگی سے پکارو ۔ دیکھو اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک نیک بندے کا ذکر کیا جس سے وہ خوش تھا کہ اس نے اپنے رب کو خفیہ طور پر پکارا ۔ امام ابن جریج فرماتے ہیں دعا میں بلند آواز ، ندا اور چیخنے کو مکروہ سمجھا جاتا تھا بلکہ گریہ وزاری اور آہستگی کا حکم دیا جاتا تھا ۔ ابن عباس فرماتے ہیں دعا وغیرہ میں حد سے گذر جانے والون کو اللہ دوست نہیں رکھتا ۔ ابو مجاز کہتے ہیں مثلاً اپنے لئے نبی بن جانے کی دعا کرنا وغیرہ ۔ حضرت سعد نے سنا کہ ان کا لڑکا اپنی دعا میں کہہ رہا ہے کہ اے اللہ میں تجھ سے جنت اور اس کی نعمتیں اور اس کے ریشم و حریر وغیرہ وغیرہ طلب کرتا ہوں اور جہنم ، اس کی زنجیروں اور اس کے طوق وغیرہ سے تیری پناہ چاہتا ہوں ۔ تو آپ نے فرمایا تو نے اللہ سے بہت سی بھلائیاں طلب کیں اور بہت سی برائیوں سے پناہ چاہی ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپ فرماتے تھے کہ عنقریب کچھ لوگ ہوں گے جو دعا میں حد سے گذر جایا کریں گے ۔ ایک سند سے مروی ہے کہ وہ دعا مانگنے میں اور وضو کرنے میں حد سے نکل جائیں گے پھر آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی اور فرمایا تجھے اپنی دعا میں یہی کہنا کافی ہے کہ اے اللہ میں تجھ سے جنت اور جنت سے قریب کرنے والے قول و فعل کی توفیق طلب کرتا ہوں اور جہنم اور اس سے نزدیک کرنے والے قول و فعل سے تیری پناہ چاہتا ہوں ( ابو داؤد ) ابن ماجہ وغیرہ میں ہے ان کے صاحبزادے اپنی دعا میں یہ کہہ رہے تھے کہ یا اللہ جنت میں داخل ہونے کے بعد جنت کی دائیں جانب کا سفید رنگ کا عالیشان محل میں تجھ سے طلب کرتا ہوں ۔ پھر زمین پر امن و امان کے بعد فساد کرنے کو منع فرما رہا ہے کیونکہ اس وقت کا فساد خصوصیت سے زیادہ برائیاں پیدا کرتا ہے ۔ پس اللہ اسے حرام قرار دیتا ہے اور اپنی عبادت کرنے کا ، دعا کرنے کا ، مسکینی اور عاجزی کرنے کا حکم دیتا ہے کہ اللہ کو اس کے عذابوں سے ڈر کر اور اس کی نعمتوں کے امیدوار بن کر پکارو ۔ اللہ کی رحمت نیکو کاروں کے سروں پر منڈلا رہی ہے ۔ جو اس کے احکام بجا لاتے ہیں اس کے منع کردہ کاموں سے باز رہتے ہیں جیسے فرمایا آیت ( وَرَحْمَتِيْ وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ ۭ فَسَاَكْتُبُهَا لِلَّذِيْنَ يَتَّقُوْنَ وَيُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَالَّذِيْنَ هُمْ بِاٰيٰتِنَا يُؤْمِنُوْنَ ١٥٦ۚ ) 7- الاعراف:156 ) یوں تو میری رحمت تمام چیزوں کو گھیرے ہوئے ہے لیکن میں اسے مخصوص کر دونگا پرہیزگار لوگوں کے لئے ۔ چونکہ رحمت ثواب کی ضامن ہوتی ہے اس لئے قریب کہا قریبتہ نہ کہا یا اس لئے کہ وہ اللہ کی طرف مضاف ہے ۔ انہوں نے اللہ کے وعدوں کا سہارا لیا ۔ اللہ نے اپنا فیصلہ کر دیا کہ اس کی رحمت بالکل قریب ہے ۔
[٥٨] دعا کے آداب :۔ ایسے ہی ہر چیز کے خالق ومالک اور بابرکت اللہ تعالیٰ کے سامنے تمہیں اپنی حاجات پیش کرنا چاہئیں۔ اسی سے فریاد کرو اور اسی کی عبادت کرو۔ عجز و انکسار کے ساتھ دعا کرو اور تہہ دل سے اور دل میں کرو اور دعا میں ریاکاری کا دخل نہ ہو اور دعا میں حد ادب سے نہ بڑھنا چاہیے مثلاً ایسی چیزوں کی دعا نہ مانگے جو عادتاً یا شرعاً محال ہوں یا معاصی یا سائل لغو چیزوں کی طلب کرنے لگے یا ایسا سوال کرے جو مانگنے والے کی شان اور حیثیت کے مطابق حال نہ ہو۔ مثلاً کوئی اپنے لیے بادشاہ بننے کی دعا کرے کہ بیٹھے بٹھائے بادشاہت مل جائے تو ایسی دعا کرنا بھی حد سے بڑھنے کے ضمن میں آجاتا ہے۔
اُدْعُوْا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَّخُفْيَةً : ان دو آیات میں چار حکم ہیں، پہلا یہ کہ دعا عاجزی سے گڑ گڑا کر اور خشوع سے ہونی چاہیے اور دعا تنہائی میں کرنا مستحب اور بہتر ہے، کیونکہ اس سے ریا کو راستہ نہیں ملتا اور اخلاص میں خلل نہیں آتا۔ - اِنَّهٗ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِيْنَ : دوسرا یہ کہ حد سے بڑھنا اللہ تعالیٰ کو کسی صورت پسند نہیں۔ اس میں اللہ کے ساتھ شرک کرنا یا کسی پر ظلم کرنا بھی شامل ہے اور ایسی چیز کی دعا کرنا جو ناممکن ہو، مثلاً میں ہمیشہ زندہ رہوں، یا مجھے آخرت میں انبیاء کا مرتبہ حاصل ہوجائے، یا ایسی چیز کی دعا کرنا جس کے متعلق علم نہ ہو کہ اللہ تعالیٰ کو اس کا مانگنا پسند ہے، جیسے نوح (علیہ السلام) کی اپنے بیٹے کے لیے دعا بھی حد سے تجاوز تھا۔ اسی طرح چیخنا چلاتا اور مسنون دعائیں چھوڑ کر مقفی و مسجع کلام اور اشعار وغیرہ بھی حد سے تجاوز میں شامل ہیں۔ (شوکانی) ابو موسیٰ اشعری (رض) فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ سفر کے دوران میں ہماری آوازیں تکبیر اور لا الٰہ الا اللہ کے ساتھ بلند ہوئیں تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” لوگو اپنے آپ پر نرمی کرو (یعنی ذرا آہستہ پکارو) ، کیونکہ تم کسی گونگے یا غائب کو نہیں پکار رہے، بلکہ جسے پکار رہے ہو وہ سننے والا ہے اور قریب بھی۔ “ [ بخاری، الجہاد والسیر، باب ما یکرہ - من رفع الصوت فی التکبیر : ٢٩٩٢، ٦٣٨٩ ]- وَلَا تُفْسِدُوْا فِي الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِهَا : تیسرا یہ کہ زمین میں اس کی اصلاح کے بعد فساد مت کرو، یعنی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور شرک کے کام مت کرو، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر اور گناہوں کا ارتکاب ہی ” فساد فی الارض “ ہے، فرمایا : (ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ اَيْدِي النَّاسِ ) [ الروم : ٤١ ] ” خشکی اور سمندر میں فساد ظاہر ہوگیا اس کی وجہ سے جو لوگوں کے ہاتھوں نے کمایا۔ “ - وَادْعُوْهُ خَوْفًا وَّطَمَعًا : چوتھا یہ کہ دعا کرتے وقت اللہ تعالیٰ کا خوف بھی ہو اور دل میں دعا کی قبولیت کی طمع بھی، اسی طرح جہنم سے خوف بھی ہو اور جنت کی طمع بھی۔ شاہ عبد القادر (رض) فرماتے ہیں : ” یعنی اللہ پر دلیر مت ہو اور ناامید بھی مت ہو۔ “ طمع میں یہ چیز بھی داخل ہے کہ انسان دعا کے بعد مایوس نہ ہو، جیسا کہ ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” تم میں سے کسی کی دعا اس وقت تک قبول ہوتی ہے جب تک وہ جلدی نہ کرے اور جلدی یہ ہے کہ کہے میں نے اپنے رب سے دعا کی، مگر اس نے قبول نہ کی۔ “ [ بخاری، الدعوات، باب یستجاب للعبد ما لم یعجل : ٦٣٤٠ ]- کئی صوفیا کہتے ہیں کہ دعا کسی طمع اور خوف کے بغیر محض رب کی رضا کے لیے ہونی چاہیے، حتیٰ کہ ان میں سے بعض نے کہا کہ میرا دل چاہتا ہے کہ جنت کو جلا دوں اور جہنم کو بجھا دوں، تاکہ لوگ کسی خوف اور طمع کے بغیر اللہ کو یاد کریں۔ بعض کہتے ہیں کہ بس اللہ تعالیٰ مجھ پر راضی ہوجائے، پھر خواہ مجھے جنت میں بھیج دے یا جہنم میں پھینک دے۔ یہ بات کتاب و سنت کے خلاف ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ سے جنت کی دعا مانگتے اور جہنم سے پناہ مانگتے تھے۔ زیر تفسیر آیت بھی اس نظریے کے خلاف ہے اور دیگر بہت سی آیات بھی، مثلاً : ( يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَّطَمَعًا ) [ السجدۃ : ١٦ ] ” وہ اپنے رب کو خوف اور طمع کے ساتھ پکارتے ہیں۔ “ درحقیقت یہ بات اسلام کا لبادہ اوڑھنے والے بعض لوگوں نے جنت اور جہنم کو بےوقعت ٹھہرانے کے لیے بنائی ہے۔ جنت کی طمع اور جہنم سے خوف کوئی الگ چیز نہیں ہے، بلکہ جنت اللہ کی رضا ہی سے حاصل ہوگی اور جہنم بھی اسی کے غضب کا نتیجہ ہے جس سے بچنا بھی اس کی رضا ہی سے ممکن ہوگا۔ - اِنَّ رَحْمَتَ اللّٰهِ قَرِيْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِيْنَ : اس میں ترغیب ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے اصل حق دار وہی ہیں جو احسان کرنے والے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور فرمانبرداری بہتر سے بہتر انداز میں بجا لانے کی کوشش کرتے ہیں اور اعمال صالحہ پر دوام کرتے ہیں اور ” قریب “ یہ ” فَعِیْلٌ“ کے وزن پر ہے، جب یہ مسافت کے لیے آئے تو اس میں تذکیر و تانیث برابر ہوتی ہے اور اگر نسب کے لیے ہو تو بلا اختلاف ” قَرِیْبَۃٌ“ بولا جاتا ہے۔ یعنی مذکر اور مؤنث میں تاء کے ساتھ فرق کیا جاتا ہے۔ (شوکانی)
خلاصہ تفسیر - تم لوگ (ہر حالت میں اور ہر حاجت میں) اپنے پروردگار سے دعا کیا کرو تذلل ظاہر کرکے بھی اور چپکے چپکے بھی (البتہ یہ بات) واقعی (ہے کہ) اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو ناپسند کرتے ہیں جو (دعاء میں) حد (ادب) سے نکل جاویں (مثلاً محالات عقلیہ یا محرمات شرعیہ کی دعا مانگنے لگیں) اور دنیا میں بعد اس کے کہ (تعلیم توحید اور بعثت انبیاء کے ذریعہ) اس کی اصلاح اور درستی کردی گئی ہے، فساد مت پھیلاو (یعنی امور حقہ توحید وغیرہ کے ماننے اور ان پر چلنے سے جن کی اوپر تعلیم ہے عالم میں امن قائم ہوتا ہے تم تعلیم مذکور کو چھوڑ کر نقض امن مت کرو) اور (جیسا تم کو اوپر خاص دعا کرنے کا حکم ہوا ہے اسی طرح بقیہ عبادات کا حکم کیا جاتا ہے کہ) تم اللہ تعالیٰ کی عبادت (جس طریق سے تم کو بتلا دیا ہے) کیا کرو خدا تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے اور امیدوار رہتے ہوئے (یعنی عبادت کرکے نہ تو ناز ہو اور نہ مایوسی ہو، آگے عبادت کی ترغیب ہے کہ) بیشک اللہ تعالیٰ کی رحمت نزدیک ہے نیک کام کرنے والوں سے - معارف و مسائل - آیات مذکورہ سے پہلی آیات میں حق تعالیٰ کی قدرت کامل کے خاص خاص مظاہر اور اہم انعامات کا ذکر تھا، ان آیات میں اس کا بیان ہے کہ جب قدرت مطلقہ کا مالک اور تمام احسانات و انعامات کا کرنے والا صرف رب العالمین ہے تو مصیبت اور حاجت کے وقت اسی کو پکارنا اور اسی سے دعا کرنا چاہئے، اس کو چھوڑ کر کسی دوسری طرف متوجہ ہونا جہالت اور محرومی ہے۔- اسی کے ساتھ ان آیات میں دعاء کے بعض آداب بھی بتلا دیئے گئے، جن کی رعایت کرنے سے قبولیت دعاء کی امید زیادہ ہوجاتی ہے۔ - لفظ دعا عربی زبان میں کسی کو حاجت روائی کے لئے پکارنے کے معنی میں بھی آتا ہے، اور مطلق یاد کرنے کے معنی میں بھی، اور یہاں دونوں معنی مراد ہو سکتے ہیں، آیت میں ارشاد ہے : اُدْعُوْا رَبَّكُمْ یعنی پکارو اپنے رب کو اپنی حاجات کے لئے، یا یاد کرو اور عبادت کرو اپنے رب کی۔- پہلی صورت میں معنی یہ ہوں گے کہ اپنی حاجات صرف اللہ تعالیٰ سے مانگو اور دوسری صورت میں یہ کہ ذکر و عبادت صرف اسی کی کرو، یہ دونوں تفسیریں سلف صالحین ائمہ تفسیر سے منقول بھی ہیں۔- اس کے بعد ارشاد فرمایا تَضَرُّعًا وَّخُفْيَةً ، تضرّع کے معنی عجز و انکسار اور اظہار تذلل کے ہیں، اور خفیہ کے معنی پوشیدہ چھپا ہوا، جیسا کہ اردو زبان میں بھی یہ لفظ اسی معنی میں بولا جاتا ہے۔ - ان دونوں لفظوں میں دعا و ذکر کے لئے دو اہم آداب کا بیان ہے، اول یہ کہ قبولیت دعا کے لئے یہ ضروری ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنے عجز و انکسار اور تذلل کا اظہار کرکے دعا کرے، اس کے الفاظ بھی عجز و انکسار کے مناسب ہوں، لب و لہجہ بھی تواضع و انکسار کا ہو، ہیئت دعا مانگنے کی بھی ایسی ہی ہو، اس سے معلوم ہوا کہ آج کل عوام جس انداز سے دعا مانگتی ہیں اول تو اس کو دعا مانگنا ہی نہیں کہا جاسکتا، بلکہ پڑھنا کہنا چاہئے، کیونکہ اکثر یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ ہم جو کلمات زبان سے بول رہے ہیں ان کا مطلب کیا ہے، جیسا کہ آج کل عام مساجد میں اماموں کا معمول ہوگیا ہے کہ کچھ عربی زبان کے کلمات دعائیہ انھیں یاد ہوتے ہیں ختم نماز پر انھیں پڑھ دیتے ہیں، اکثر تو خود ان اماموں کو بھی ان کلمات کا مطلب و مفہوم معلوم نہیں ہوتا اور اگر ان کو معلوم ہو تو کم از کم جاہل مقتدی تو اس سے بالکل بیخبر ہوتے ہیں، وہ بےسمجھے بوجھے امام کے پڑھے ہوئے کلمات کے پیچھے آمین آمین کہتے ہیں، اس سارے تماشہ کا حاصل چند کلمات کا پڑھنا ہوتا ہے، دعا مانگنے کی جو حقیقت ہے یہاں پائی ہی نہیں جاتی، یہ دوسری بات ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و رحمت سے ان بےجان کلمات ہی کو قبول فرما کر قبولیت دعا کے آثار فرما دیں، مگر اپنی طرف سے یہ سمجھ لینا ضروری ہے کہ دعا پڑھی نہیں جاتی بلکہ مانگی جاتی ہے، اس کے لئے ضروری ہے کہ مانگنے کے ڈھنگ سے مانگا جائے۔ - دوسری بات یہ ہے کہ اگر کسی شخص کو اپنے کلمات کے معنی بھی معلوم ہوں اور سمجھ کر ہی کہہ ریا ہو تو اگر اس کے ساتھ عنوان اور لب و لہجہ اور ہیئت ظاہری تواضع و انکسار کی نہ ہو تو یہ دعا نرا ایک مطالبہ رہ جاتا ہے، جس کا کسی بندے کو کوئی حق نہیں۔- غرض پہلے لفظ میں روح دعا بتلا دی گئی کہ وہ عاجزی و انکساری اور اپنی ذلت و پستی کا اظہار کرکے اللہ تعالیٰ سے اپنی حاجت مانگنا ہے، دوسرے لفظ میں ایک دوسری ہدایت یہ دی گئی کہ دعا کا خفیہ اور آہستہ مانگنا افضل اور قرین قبول ہے، کیونکہ بآواز بلند دعا مانگنے میں اول تو تواضع و انکسار باقی رہنا مشکل ہے، ثانیاً اس میں ریاء و شہرت کا بھی خطرہ ہے، ثالثاً اس کی صورت عمل ایسی ہے کہ گویا یہ شخص یہ نہیں جانتا کہ اللہ تعالیٰ سمیع علیم ہیں، ہمارے ظاہر و باطن کو یکساں جانتے ہیں، ہر بات خفیہ ہو یا جہر اس کو سنتے ہیں، اسی لئے غزوہ خیبر کے موقع پر صحابہ کرام کی آواز دعا میں بلند ہوگئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ تم کسی بہرے کو یا غائب کو نہیں پکار رہے ہو جو اتنی بلند آواز سے کہتے ہو، بلکہ اہل سمیع و قریب تمہارا مخاطب ہے، یعنی اللہ تعالیٰ ، (اس لئے آواز بلند کرنا فضول ہے) خود اللہ جل شانہ نے ایک مرد صالح کی دعا کا ذکر ان الفاظ سے فرمایا ہے (آیت) اذ نادی ربہ نداء خفیا، یعنی ” جب انہوں نے رب کو پکارا آہستہ آواز سے “ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کو دعا کی یہ کیفیت پسند ہے کہ پست اور آہستہ آواز سے دعا مانگی جائے۔ - حضرت حسن بصری رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ علانیہ اور جہراً دعا کرنے میں اور آہستہ پست آواز سے کرنے میں ستر درجہ فضیلت کا فرق ہے، سلف صالحین کی عادت یہ تھی کہ ذکر و دعا میں بڑا مجاہدہ کرتے اور اکثر اوقات مشغول رہتے تھے مگر کوئی ان کی آواز نہ سنتا تھا، بلکہ ان کی دعائیں صرف ان کے اور ان کے رب کے درمیان رہتی تھیں، ان میں بہت سے حضرات پورا قرآن حفظ کرتے اور تلاوت کرتے رہتے تھے، مگر کسی دوسرے کو خبر نہ ہوتی تھی، اور بہت سے حضرات بڑا علم دین حاصل کرتے، مگر لوگوں پر جتلاتے نہ پھرتے تھے، بہت سے حضرات راتوں کو اپنے گھروں میں طویل طویل نمازیں ادا کرتے مگر آنے والوں کو کچھ خبر نہ ہوتی تھی، اور فرمایا کہ ہم نے ایسے حضرات کو دیکھا ہے کہ وہ تمام عبادات جن کو وہ پوشیدہ کرکے ادا کرسکتے تھے کبھی نہیں دیکھا گیا کہ اس کو ظاہر کرکے ادا کرتے ہوں، ان کی آوازیں دعاؤں میں نہایت پست ہوتی تھیں (ابن کثیر، مظہری) - ابن جریج نے فرمایا کہ دعاء میں آواز بلند کرنا اور شور کرنا مکروہ ہے، امام ابو جصاص حنفی نے احکام القرآن میں فرمایا کہ اس آیت سے معلوم ہوا کہ دعا کا آہستہ مانگنا بہ نسبت اظہار کے افضل ہے، حضرت حسن بصری اور ابن عباس (رض) سے ایسا ہی منقول ہے، اور اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نماز میں سورة فاتحہ کے ختم پر جو آمین کہی جاتی ہے اس کو بھی آہستہ کہنا افضل ہے، کیونکہ آمین بھی ایک دعا ہے۔ - ہمارے زمانہ کے ائمہ مساجد کو اللہ تعالیٰ ہدایت فرما دیں کہ قرآن و سنت کی اس تلقین اور بزرگان سلف کی ہدایت کو یکسر چھوڑ بیٹھے، ہر نماز کے بعد دعا کی ایک مصنوعی سی کاروائی ہوتی ہے، بلند آواز سے کچھ کلمات پڑھے جاتے ہیں جو آداب دعا کے خلاف ہونے کے علاوہ ان نمازیوں کی نماز میں بھی خلل انداز ہوتے ہیں جو مسبوق ہونے کی وجہ سے امام کے فارغ ہونے کے بعد اپنی باقی ماندہ نماز پوری کر رہے ہیں، غلبہ رسوم نے اس کی برائی اور مفاسد کو ان کی نظروں سے اوجھل کردیا ہے، کسی خاص موقع پر خاص دعا پوری جماعت سے کرانا مقصود ہو ایسے موقع پر ایک آدمی کسی قدر آواز سے دعا کے الفاظ کہے اور دوسرے آمین کہیں اس کا مضائقہ نہیں، شرط یہ ہے کہ دوسروں کی نماز و عبادت میں خلل کا موجب نہ بنیں، اور ایسا کرنے کی عادت نہ ڈالیں کہ عوام یہ سمجھنے لگیں کہ دعا کرنے کا طریقہ یہی ہے جیسا کہ آج کل عام طور سے ہو رہا ہے۔ - یہ بیان اپنی حاجات کے لئے دعا مانگنے کا تھا، اگر دعا کے معنی اس جگہ ذکر و عبادت کے لئے جاویں تو اس میں بھی علماء سلف کی تحقیق یہی ہے کہ ذکر سر ذکر جہر سے افضل ہے، اور صوفیائے کرام میں مشائخ چشتیہ جو مبتدی کو ذکر جہر کی تلقین فرماتے ہیں وہ اس شخص کے حال کی مناسبت سے بطور علاج کے ہے، تاکہ جہر کے ذریعہ کسل اور غفلت دور ہوجائے، اور قلب میں ذکر اللہ کے ساتھ ایک لگاؤ پیدا ہوجائے، ورنہ فی نفسہ ذکر میں جہر کرنا ان کے یہاں بھی مطلوب نہیں گو جائز ہے اور جواز اس کا بھی حدیث سے ثابت ہے بشرطیکہ اس میں ریا و نمود نہ ہو۔ - امام احمد بن حنبل، ابن حیان، بیہقی وغیرہ نے حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) کی روایت سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :- خیر الذکر الخفی وخیر الرزق ما یکفی - ” یعنی بہترین ذکر خفی ہے، اور بہترین رزق وہ ہے جو انسان کے لئے کافی ہو جائے “- ہاں خاص خاص حالات اور اوقات میں جہر ہی مطلوب اور افضل ہے ان اوقات و حالت کی تفصیل رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے قول و عمل سے واضح فرما دی ہے، مثلاً اذان و اقامت کا بلند آواز سے کہنا، جہری نمازوں میں بلند آواز سے تلاوت قرآن کرنا، تکبیرات نماز، تکبیرات تشریق، حج میں تلبیہ بلند آواز سے کہنا وغیرہ، اسی لئے فقہاء رحمہم اللہ نے فیصلہ اس باب میں یہ فرمایا ہے کہ کن خاص حالات اور مقامات میں رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قولاً یا عملاً جہر کرنے کی تلقین فرمائی ہے وہاں تو جہر ہی کرنا چاہئے، اس کے علاوہ دوسرے حالات و مقامات میں ذکر خفی اولیٰ وانفع ہے۔ - آخر آیت میں ارشاد فرمایا اِنَّهٗ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِيْنَ معتدین، اعتداء سے مشتق ہے اعتداء کے معنی ہیں حد سے تجاوز کرنا، معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ حد سے آگے بڑھنے والوں کو پسند نہیں فرماتے، حد سے آگے بڑھنا خواہ دعا میں ہو یا کسی دوسرے عمل میں سب کا یہی حال ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں، بلکہ اگر غور سے دیکھا جائے تو دین اسلام نام ہی حدود وقیود کی پابندی اور فرمانبرداری کا ہے، نماز، روزہ، حج، زکوٰة اور تمام معاملات میں حدود شرعیہ سے تجاوز کیا جائے تو وہ بجائے عبادت کے گناہ بن جاتے ہیں۔ - دعا میں حد سے تجاوز کرنے کی کئی صورتیں ہیں، ایک یہ کہ دعا میں لفظی تکلفات قافیہ وغیرہ کے اختیار کئے جائیں جس سے خشوع خضوع میں فرق پڑے، دوسرے یہ کہ دعا میں غیر ضروری قیدیں شرطیں لگائی جائیں، جیسے حدیث میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن مغفل (رض) نے دیکھا کہ ان کے صاحبزادے اس طرح دعا مانگ رہے ہیں کہ یا اللہ میں آپ سے جنت میں سفید رنگ کا داہنی جانب والا محل طلب کرتا ہوں، تو موصوف نے ان کو روکا، اور فرمایا کہ دعا میں ایسی قیدیں شرطیں لگانا حد سے تجاوز ہے، جس کو قرآن و حدیث میں ممنوع قرار دیا گیا ہے (مظہری) - تیسری صورت حد سے تجاوز کی یہ ہے کہ عام مسلمانوں کے لئے بددعا کرے یا کوئی ایسی چیز مانگے جو عام لوگوں کے لئے مضر ہو، اسی طرح ایک صورت حد سے تجاوز کی یہ بھی ہے جو اس جگہ مذکور ہے کہ دعا میں بلا ضرورت آواز بلند کی جائے (تفسیر مظہری، احکام القرآن)
وَلَا تُفْسِدُوْا فِي الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِہَا وَادْعُوْہُ خَوْفًا وَّطَمَعًا ٠ ۭ اِنَّ رَحْمَتَ اللہِ قَرِيْبٌ مِّنَ الْمُحْسِـنِيْنَ ٥٦- فسد - الفَسَادُ : خروج الشیء عن الاعتدال، قلیلا کان الخروج عنه أو كثيرا،. قال تعالی: لَفَسَدَتِ السَّماواتُ وَالْأَرْضُ [ المؤمنون 71] ، - ( ف س د ) الفساد - یہ فسد ( ن ) الشئی فھو فاسد کا مصدر ہے اور اس کے معنی کسی چیز کے حد اعتدال سے تجاوز کر جانا کے ہیں عام اس سے کہ وہ تجاوز کم ہو یا زیادہ قرآن میں ہے : ۔ لَفَسَدَتِ السَّماواتُ وَالْأَرْضُ [ المؤمنون 71] تو آسمان و زمین ۔۔۔۔۔ سب درہم برہم ہوجائیں ۔- أرض - الأرض : الجرم المقابل للسماء، وجمعه أرضون، ولا تجیء مجموعةً في القرآن ، ويعبّر بها عن أسفل الشیء، كما يعبر بالسماء عن أعلاه . - ( ا رض ) الارض - ( زمین ) سماء ( آسمان ) کے بالمقابل ایک جرم کا نام ہے اس کی جمع ارضون ہے ۔ جس کا صیغہ قرآن میں نہیں ہے کبھی ارض کا لفظ بول کر کسی چیز کا نیچے کا حصہ مراد لے لیتے ہیں جس طرح سماء کا لفظ اعلی حصہ پر بولا جاتا ہے ۔ - طمع - الطَّمَعُ : نزوعُ النّفسِ إلى الشیء شهوةً له، طَمِعْتُ أَطْمَعُ طَمَعاً وطُمَاعِيَةً ، فهو طَمِعٌ وطَامِعٌ.- قال تعالی: إِنَّا نَطْمَعُ أَنْ يَغْفِرَ لَنا رَبُّنا[ الشعراء 51] ، أَفَتَطْمَعُونَ أَنْ يُؤْمِنُوا لَكُمْ [ البقرة 75] ، خَوْفاً وَطَمَعاً [ الأعراف 56] ،- ( ط م ع ) الطمع - کے معنی ہیں نفس انسانی کا کسی چیز کی طرف خواہش کے ساتھ میلان ۔ طمع ( س ) طمعا وطماعیۃ کسی چیز کی طرف خواہش کے ساتھ مائل ہونا طمع وطامع اس طرح مائل ہونے والا قرآن میں ہے : ۔ - إِنَّا نَطْمَعُ أَنْ يَغْفِرَ لَنا رَبُّنا[ الشعراء 51] ہمین امید ہے کہ ہمارا خدا ہمارے گناہ بخش دیگا ۔- أَفَتَطْمَعُونَ أَنْ يُؤْمِنُوا لَكُمْ [ البقرة 75]( مومنوں ) کیا تم آرزو رکھتے ہو کہ یہ لوگ تمہارے دین کے قائل ہوجائیں گے ۔ خَوْفاً وَطَمَعاً [ الأعراف 56] وڑانے اور امید دلانے کیلئے - قرب - الْقُرْبُ والبعد يتقابلان . يقال : قَرُبْتُ منه أَقْرُبُ وقَرَّبْتُهُ أُقَرِّبُهُ قُرْباً وقُرْبَاناً ، ويستعمل ذلک في المکان، وفي الزمان، وفي النّسبة، وفي الحظوة، والرّعاية، والقدرة . فمن الأوّل نحو : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة 35] وَلا تَقْرَبُوا الزِّنى [ الإسراء 32] ، فَلا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرامَ بَعْدَ عامِهِمْ هذا [ التوبة 28] . وقوله : وَلا تَقْرَبُوهُنَ [ البقرة 222] ، كناية عن الجماع کقوله : فَلا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرامَ [ التوبة 28] ، وقوله : فَقَرَّبَهُ إِلَيْهِمْ [ الذاریات 27] . وفي الزّمان نحو : اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسابُهُمْ [ الأنبیاء 1] ، وقوله : وَإِنْ أَدْرِي أَقَرِيبٌ أَمْ بَعِيدٌ ما تُوعَدُونَ [ الأنبیاء 109] . وفي النّسبة نحو : وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُولُوا الْقُرْبى[ النساء 8] ، وقال : الْوالِدانِ وَالْأَقْرَبُونَ [ النساء 7] ، وقال : وَلَوْ كانَ ذا قُرْبى [ فاطر 18] ، وَلِذِي الْقُرْبى [ الأنفال 41] ، وَالْجارِ ذِي الْقُرْبى [ النساء 36] ، يَتِيماً ذا مَقْرَبَةٍ [ البلد 15] . وفي الحظوة : لَا الْمَلائِكَةُ الْمُقَرَّبُونَ [ النساء 172] ، وقال في عيسى: وَجِيهاً فِي الدُّنْيا وَالْآخِرَةِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ [ آل عمران 45] ، عَيْناً يَشْرَبُ بِهَا الْمُقَرَّبُونَ [ المطففین 28] ، فَأَمَّا إِنْ كانَ مِنَ الْمُقَرَّبِينَ [ الواقعة 88] ، قالَ نَعَمْ وَإِنَّكُمْ لَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ [ الأعراف 114] ، وَقَرَّبْناهُ نَجِيًّا[ مریم 52] . ويقال للحظوة : القُرْبَةُ ، کقوله : قُرُباتٍ عِنْدَ اللَّهِ وَصَلَواتِ الرَّسُولِ أَلا إِنَّها قُرْبَةٌ لَهُمْ [ التوبة 99] ، تُقَرِّبُكُمْ عِنْدَنا زُلْفى[ سبأ 37] . وفي الرّعاية نحو : إِنَّ رَحْمَتَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِنَ الْمُحْسِنِينَ [ الأعراف 56] ، وقوله : فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ [ البقرة 186] - وفي القدرة نحو : وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ [ ق 16] . قوله وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْكُمْ [ الواقعة 85] ، يحتمل أن يكون من حيث القدرة- ( ق ر ب ) القرب - القرب والبعد یہ دونوں ایک دوسرے کے مقابلہ میں استعمال ہوتے ہیں ۔ محاورہ ہے : قربت منہ اقرب وقربتہ اقربہ قربا قربانا کسی کے قریب جانا اور مکان زمان ، نسبی تعلق مرتبہ حفاظت اور قدرت سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے جنانچہ فرب مکانی کے متعلق فرمایا : وَلا تَقْرَبا هذِهِ الشَّجَرَةَ [ البقرة 35] لیکن اس درخت کے پاس نہ جانا نہیں تو ظالموں میں داخل ہوجاؤ گے ۔ لا تَقْرَبُوا مالَ الْيَتِيمِ [ الأنعام 152] اور یتیم کے مال کے پاس بھی نہ جانا ۔ وَلا تَقْرَبُوا الزِّنى [ الإسراء 32] اور زنا کے پا س بھی نہ جانا ۔ فَلا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرامَ بَعْدَ عامِهِمْ هذا [ التوبة 28] تو اس برس کے بعد وہ خانہ کعبہ کے پاس نہ جانے پائیں ۔ اور آیت کریمہ ولا تَقْرَبُوهُنَ [ البقرة 222] ان سے مقاربت نہ کرو ۔ میں جماع سے کنایہ ہے ۔ فَقَرَّبَهُ إِلَيْهِمْ [ الذاریات 27] اور ( کھانے کے لئے ) ان کے آگے رکھ دیا ۔ اور قرب زمانی کے متعلق فرمایا : اقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسابُهُمْ [ الأنبیاء 1] لوگوں کا حساب ( اعمال کا وقت نزدیک پہنچا ۔ وَإِنْ أَدْرِي أَقَرِيبٌ أَمْ بَعِيدٌ ما تُوعَدُونَ [ الأنبیاء 109] اور مجھے معلوم نہیں کہ جس چیز کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ عنقریب آنے والی ہے یا اس کا وقت دور ہے ۔ اور قرب نسبی کے متعلق فرمایا : وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُولُوا الْقُرْبى[ النساء 8] اور جب میراث کی تقسیم کے وقت ( غیر وارث ) رشتے دار آجائیں ۔ الْوالِدانِ وَالْأَقْرَبُونَ [ النساء 7] ماں باپ اور رشتے دار ۔ وَلَوْ كانَ ذا قُرْبى [ فاطر 18] گوہ وہ تمہاری رشتے دار ہو ۔ وَلِذِي الْقُرْبى [ الأنفال 41] اور اہل قرابت کا ۔ وَالْجارِ ذِي الْقُرْبى [ النساء 36] اور رشتے در ہمسایوں يَتِيماً ذا مَقْرَبَةٍ [ البلد 15] یتیم رشتے دار کو ۔۔۔ اور قرب بمعنی کے اعتبار سے کسی کے قریب ہونا کے متعلق فرمایا : لَا الْمَلائِكَةُ الْمُقَرَّبُونَ [ النساء 172] اور نہ مقرب فرشتے ( عار ) رکھتے ہیں ۔ اور عیسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : وَجِيهاً فِي الدُّنْيا وَالْآخِرَةِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ [ آل عمران 45]( اور جو ) دنیا اور آخرت میں آبرو اور ( خدا کے ) خاصوں میں سے ہوگا ۔ عَيْناً يَشْرَبُ بِهَا الْمُقَرَّبُونَ [ المطففین 28] وہ ایک چشمہ ہے جس میں سے ( خدا کے ) مقرب پئیں گے ۔ فَأَمَّا إِنْ كانَ مِنَ الْمُقَرَّبِينَ [ الواقعة 88] پھر اگر وہ خدا کے مقربوں میں سے ہے : قالَ نَعَمْ وَإِنَّكُمْ لَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ [ الأعراف 114]( فرعون نے ) کہا ہاں ( ضرور ) اور اس کے علاوہ تم مقربوں میں داخل کرلئے جاؤ گے ۔ وَقَرَّبْناهُ نَجِيًّا[ مریم 52] اور باتیں کرنے کے لئے نزدیک بلایا ۔ اور القربۃ کے معنی قرب حاصل کرنے کا ( ذریعہ ) کے بھی آتے ہیں جیسے فرمایا : قُرُباتٍ عِنْدَ اللَّهِ وَصَلَواتِ الرَّسُولِ أَلا إِنَّها قُرْبَةٌ لَهُمْ [ التوبة 99] اس کو خدا کی قربت کا ذریعہ ۔ أَلا إِنَّها قُرْبَةٌ لَهُمْ [ التوبة 99] دیکھو وہ بےشبہ ان کے لئے ( موجب ) قربت ہے۔ تُقَرِّبُكُمْ عِنْدَنا زُلْفى[ سبأ 37] کہ تم کو ہمارا مقرب بنادیں ۔ اور رعایت ونگہبانی کے متعلق فرمایا : إِنَّ رَحْمَتَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِنَ الْمُحْسِنِينَ [ الأعراف 56] کچھ شک نہیں کہ خدا کی رحمت نیکی کرنے والوں کے قریب ہے ۔ فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ [ البقرة 186] میں تو تمہارے پاس ہوں ۔ جب کوئی پکارنے والا پکارتا ہے تو میں اسکی دعا قبول کرتا ہوں ۔ اور قرب بمعنی قدرہ فرمایا : وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ [ ق 16] اور ہم اس کی رگ جان سے بھی زیادہ قریب ہیں ۔- احسان - الإحسان فوق العدل، وذاک أنّ العدل هو أن يعطي ما عليه، ويأخذ أقلّ مما له، والإحسان أن يعطي أكثر مما عليه، ويأخذ أقلّ ممّا له «3» .- فالإحسان زائد علی العدل، فتحرّي العدل - واجب، وتحرّي الإحسان ندب وتطوّع، وعلی هذا قوله تعالی: وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء 125] ، وقوله عزّ وجلّ : وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة 178] ، ولذلک عظّم اللہ تعالیٰ ثواب المحسنین، فقال تعالی: وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت 69] ، وقال تعالی:إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة 195] ، وقال تعالی: ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة 91] ، لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل 30] .- ( ح س ن ) الحسن - الاحسان ( افعال )- احسان عدل سے بڑھ کر چیز ہے کیونکہ دوسرے کا حق پورا دا کرنا اور اپنا حق پورا لے لینے کا نام عدل ہے لیکن احسان یہ ہے کہ دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دیا جائے اور اپنے حق سے کم لیا جائے لہذا احسان کا درجہ عدل سے بڑھ کر ہے ۔ اور انسان پر عدل و انصاف سے کام لینا تو واجب اور فرض ہے مگر احسان مندوب ہے ۔ اسی بنا پر فرمایا :۔ وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء 125] اور اس شخص سے کس کا دین اچھا ہوسکتا ہے جس نے حکم خدا قبول کیا اور وہ نیکو کا ر بھی ہے ۔ اور فرمایا ؛ وَأَداءٌ إِلَيْهِ بِإِحْسانٍ [ البقرة 178] اور پسندیدہ طریق سے ( قرار داد کی ) پیروی ( یعنی مطالبہ خونہار ) کرنا ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محسنین کے لئے بہت بڑے ثواب کا وعدہ کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا :۔ وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ [ العنکبوت 69] اور خدا تو نیکو کاروں کے ساتھ ہے ۔ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ [ البقرة 195] بیشک خدا نیکی کرنیوالوں کو دوست رکھتا ہے ۔ ما عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ [ التوبة 91] نیکو کاروں پر کسی طرح کا الزام نہیں ہے ۔ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ [ النحل 30] جنہوں نے اس دنیا میں نیکی کی ان کے لئے بھلائی ہے ۔
دعا کا طریقہ - قول باری ہے وادعواربکم تضرعاً عاوخفیۃ۔ اپنے رب کو پکارو گڑگڑاتے ہوئے اور چپکے چپکے) آیت میں چپکے چپکے رب کو پکارنے کا حکم ہے حسن کا قول ہے کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس بات کی تعلیم دی ہے کہ تم اپنے رب کو کس طرح پکارو۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک عہد صالح کا ذکر فرمایا جس کی پکار کو اس نے پسند فرمایا تھا چناچہ ارشاد ہے اذنادی ربہ نداء خفیا۔ جبکہ اس نے اپنے رب کو چپکے چپکے پکارا) یعنی حضرت زکریاعلیہ السلام عبداللہ بن المبارک نے حسن بصری سے روایت کی ہے کہ لوگ یعنی صحابہ کرام بڑی عاجزی اور نیاز مندی کے ساتھ دعائیں مانگا کرتے تھے اور صرف سرگوشی کی آواز سنائی دیتی تھی۔ حضرت ابوموسیٰ شعری (رض) نے روایت کی ہے و ہ فرماتے ہیں : ہم حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کچھ لوگوں کو بلند آواز سے دعائیں مانگتے ہوئے سنا۔ آپ نے ان سے فرمایا یایھا الناس انکم لاتدعون اصم ولاغائباً ۔ توگو، تم کسی ایسی ذات کو نہیں پکار رہے ہو جو بہری یا غائب ہے) یعنی تمہیں بلند آواز سے دعا مانگنے کی ضرورت نہیں ہے۔ حضرت سعد (رض) بن مالک نے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا خیرالذکر الخفی وخیرالرزق ما یکفی۔ بہترین ذکر ذکر خفی ہے اور بہترین رزق وہ ہے جو کفایت کرتا ہو) بکربن خینس نے ضرار سے اور انہوں نے حضرت انس (رض) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا عمل البرکلہ نصف العبادۃ والدعا نصف العبادۃ۔ نیکیوں کے تمام کام آدھی عبادت ہیں اور تنہا دعا آدمی عبادت ہے)- دعا کی ہیئت - سالم نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت ابن عمر (رض) سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب دعا کے لئے ہاتھ اٹھاتے تو ہاتھ نیچے کرنے سے پہلے انہیں ضرور اپنے چہرہ مبارک پر پھیر لیتے تھے) ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ اس آیت میں نیز مذکورہ بالا آثار و روایات میں جو کچھ ذکر ہوا وہ اس بات کی دلیل ہے کہ دعاء میں اخفا اس کے اظہار سے افضل ہے۔ اس لئے کہ خفیہ کے معنی سر یعنی پوشیدگی کے ہیں۔ یہ بات حضرت ابن عباس (رض) اور حسن بصری سے مروی ہے۔ اس میں یہ دلیل موجود ہے کہ نماز میں سورة فاتحہ کی قرات کے بعد آہستہ آواز میں آمین کہنا آمین بالجہر سے افضل ہے۔ اس لئے کہ آمین دعا ہے اس پر وہ بات دلالت کرتی ہے جو قول باری قد اجیبت دعوتکما۔ تم دونوں کی دعا قبول کرلی گئی) کی تاویل میں کہی گئی ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) دعا کر رہے تھے اور حضرت ہارون (علیہ السلام) آمین کہتے جاتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے دونوں کو دعا کرنے والوں کے نام سے موسوم کیا۔ بعض اہل علم کا قول ہے کہ چپکے چپکے دعا مانگنا اس لئے افضل ہے کہ اس میں ریاکاری کا کوئی شائبہ نہیں ہوتا۔ تضرع کے معنی کے بارے میں ایک قول ہے کہ یہ مختلف جہات میں جھکائو کا نام ہے۔ جب کوئی شخص اپنی دو انگلیوں کو خوف یا ذلت کی بنا پر دائیں بائیں جھکائے تو کہا جاتا ہے ضرع الرجل ضرعاً ۔ اسی سے بکری کے تھن کو ضرع کہتے ہیں اس لئے کو دودھ کا جھکائو تھن کی طرف ہوتا ہے۔ مشابہت کو مضارعت کہتے ہیں۔ اس لئے کہ اس میں ایک چیز اپنی مشابہ چیز کی طرف جھکتی اور مائل ہوتی ہے جس طرح مقاریت میں ہوتا ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ آپ جب دعا مانگتے تو انگشت شہادت کے ساتھ اشارہ بھی کرتے تھے حضرت ابن عباس (رض) کا قول ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یوم عرفہ کی شام کے وقت ہاتھ بلند کر کے دعا مانگتے ہوئے دیکھا گیا تھا حتی کہ آپ کے بغلوں کے اندرونی حصے نظر آرہے تھے حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو استسقاء یعنی بارش کی دعا مانگتے ہوئے دیکھا تھا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے دونوں ہاتھ پھیلا رکھے تھے حتی کہ میں نے آپ کے بغلوں کی سفیدی دیکھ لی تھی۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دعا کے لئے ہاتھ اٹھانے اور انگشت شہادت سے اشارہ کرنے کی جو روایت منقول ہے وہ تضرع کے بارے میں ان حضرات کے قول کی صحت کی دلیل ہے کہ جنہوں نے اس کے معنی انگلیوں کو دائیں بائیں پھیرنا بیان کئے ہیں۔
(٥٥) ظاہری اور پوشیدہ طور پر یا یہ کہ ڈر اور عاجزی ظاہر کرکے دعا کیا کرو وہ دعا میں ایسی باتوں کو پسند کرتا ہے جو ان کے لیے نیکوکاروں کے خلاف جائز نہیں۔
آیت ٥٥ (اُدْعُوْا رَبَّکُمْ تَضَرُّعًا وَّخُفْیَۃًط اِنَّہٗ لاَ یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ ۔ ) - گویا زیادہ بلند آواز سے دعا مانگنا اللہ کے ہاں پسندیدہ نہیں ہے۔
30: اس حد سے گزرنے میں یہ بات بھی داخل ہے کہ بہت اونچی آواز سے دعا مانگی جائے، اور یہ بھی کہ کوئی ناجائز یا ناممکن چیز طلب کی جائے، جو دعا کے بجائے (معاذاللہ) مذاق بن جائے، مثلاً یہ دعا کہ میں ابھی آسمان پر چڑھ جاؤں، کفار بعض اوقات آنحضرتﷺ سے اس قسم کی دعائیں مانگنے کا مطالبہ کرتے تھے۔