Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

56۔ 1 ان آیات میں چار چیزوں کی تلقین کی گئی ہے 1۔ اللہ تعالیٰ سے آہ زاری اور خفیہ طریقے سے دعا کی جائے، جس طرح کہ حدیث میں آتا ہے لوگو اپنے نفس کے ساتھ نرمی کرو (یعنی آواز پست رکھو) تم جس کو پکار رہے ہو، وہ بہرا نہ غائب، وہ تمہاری دعائیں سننے والا اور قریب ہے (صحیح بخاری) 2۔ دعا میں زیادتی نہ کی جائے یعنی اپنی حیثیت اور مرتبے سے بڑھ کر دعا نہ کی جائے۔ 3۔ اصلاح کے بعد فساد نہ پھیلایا جائے یعنی اللہ کی نافرمانیاں کر کے فساد پھیلانے میں حصہ نہ لیا جائے۔ 4۔ اس کے عذاب کا ڈر بھی دل میں ہو اور اس کی رحمت کی امید بھی ہو۔ اس طریقے سے دعا کرنے والے محسنین ہیں۔ یقینا اللہ کی رحمت ان کے قریب ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٥٩] فساد فی الارض کیا ہے ؟:۔ فساد فی الارض یہ ہے کہ انسان اللہ کی بندگی چھوڑ کر اپنے نفس کی یا دوسروں کی اطاعت شروع کر دے اور اللہ کی بتلائی ہوئی راہ ہدایت کو چھوڑ کر اپنے اخلاق، معاشرت، معیشت، سیاست اور تمدن کی عمارت کو ایسے اصول و قوانین پر قائم کرے جو کسی اور کی رہنمائی سے ماخوذ ہوں یہی وہ بنیادی فساد ہے جس سے زمین کے انتظام میں خرابی کی بیشمار صورتیں پیدا ہوجاتی ہیں اور ایسے پیچیدہ مسائل اٹھ کھڑے ہوتے ہیں جن کے حل کی کوئی صورت نظر نہیں آتی اور اگر کوئی حل سوچا بھی جائے تو مسائل سلجھنے کی بجائے مزید پیچیدہ ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ضمناً اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ابتداء زمین میں اصلاح ہی اصلاح تھی کیونکہ پہلے بشر آدم خود نبی تھے بعد میں شیطانی عناصر نے اس اصلاح میں بگاڑ کی صورتیں پیدا کیں تو اللہ تعالیٰ انبیاء بھیج کر اس بگاڑ کو ختم کرتا رہا۔ جبکہ انسانی تمدن کی داستان لکھنے والے یہ نظریہ قائم کرتے ہیں کہ انسان ظلمت سے نکل کر بتدریج روشنی میں آیا ہے اور اس کی زندگی بگاڑ سے شروع ہوئی جو بتدریج سنور رہی ہے قرآن اس نظریہ کی پر زور تردید کرتا ہے۔- معاشرے کی اصلاح کا آغاز توحید ہی سے ہوسکتا ہے :۔ یعنی بگاڑ کو درست کرنے کی واحد صورت یہ ہے کہ اس کی ابتدا توحید سے کی جائے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام انبیاء جو دنیا میں آئے عموماً ان حالات میں آئے کہ معاشرے میں طرح طرح کا بگاڑ پیدا ہوچکا تھا، تو انہوں نے اپنی دعوت کا آغاز توحید ہی سے کیا کہ اللہ کے ساتھ کسی بھی دوسرے کی بندگی سے اجتناب کو شرط اول قرار دیا یہ اصول اپنانے کے بعد معاشرہ سے برائیاں خود بخود رخصت ہوتی چلی جاتی ہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

دوسری آیت میں ارشاد فرمایا : (آیت) وَلَا تُفْسِدُوْا فِي الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِهَا اس میں دو لفظ متضاد اور متقابل آئے ہیں صلاح اور فساد، صلاح کے معنی درستی اور فساد کے معنی خرابی کے آتے ہیں، امام راغب رحمة اللہ علیہ نے مفردات القرآن میں فرمایا کہ فساد کہتے ہیں کسی چیز کے اعتدال سے نکل جانے کو خواہ یہ نکلنا تھوڑا سا ہو یا زیادہ، اور ہر فساد میں کمی بیشی کا مدار اسی اعتدال سے خروج پر ہے، جس قدر خروج بڑھے گا فساد بڑھے گا فساد کے معنی خرابی پیدا کرنا اور اصلاح کے معنی درستی کرنا ہے اس لئے وَلَا تُفْسِدُوْا فِي الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِهَا کے معنی یہ ہوئے کہ ” زمین میں خرابی نہ پیدا کرو بعد اس کے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی درستی فرما دی ہے “۔- امام راغب رحمة اللہ علیہ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کی اصلاح کرنا اس کی کئی صورتیں ہوتی ہیں، ایک یہ کہ اس کو اول ہی ٹھیک ٹھیک اور درست پیدا فرمایا، جیسے (آیت) واصلح بالہم دوسرے یہ کہ اس میں جو فساد آگیا تھا اس کو دور کردیا، جیسے (آیت) یصلح لکم اعمالکم، تیسری یہ کہ اس کو صلاح کا حکم دیا جائے، اس آیت میں جو یہ ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب زمین کی اصلاح و درستی فرما دی تو اس کے بعد تم اس میں فساد اور خرابی نہ ڈالو، اس میں زمین کی درستی کرنے کے دو مفہوم ہو سکتے ہیں، ایک ظاہری درستی کہ زمین کو کھیتی اور درخت اگانے کے قابل بنایا، اس پر بادلوں سے پانی برسا کر زمین سے پھل پھول نکالے، انسان اور دوسرے جانداروں کے لئے زمین سے ہر قسم کی ضروریات زندگی اور آسائش کے سامان پیدا فرمائے۔ - دوسرا مفہوم یہ ہے کہ زمین کی باطنی اور معنوی اصلاح فرمائی، اس طرح کہ زمین پر اپنے رسول اپنی کتابیں اور ہدایات بھیج کر اس کو کفر و شرک اور گمراہی سے پاک کیا اور ہوسکتا ہے کہ یہ دونوں مفہوم یعنی ظاہری اور باطنی ہر طرح کی اصلاح اس آیت میں مراد ہو، تو اب معنی آیت کے یہ ہوگئے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین کو ظاہری اور باطنی طور پر درست فرما دیا ہے، اب تم اس میں اپنے گناہوں اور نافرمانیوں کے ذریعے فساد نہ مچاؤ، اور خرابی پیدا نہ کرو۔ - زمین کی درستی اور خرابی کیا ہے اور لوگوں کے گناہوں کا اس میں کیا دخل ہے - جس طرح اصلاح کی دو قسمیں ظاہری اور باطنی ہیں اسی طرح فساد کی بھی دو قسمیں ہیں، زمین کی ظاہری اصلاح تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو ایسا جسم بنایا ہے کہ نہ پانی کی طرح نرم ہے جس پر قرار نہ ہوسکے، اور نہ پتھر لوہے کی طرح سخت ہے جس کو کھودا نہ جاسکے، ایک درمیانی حالت میں رکھا گیا ہے، تاکہ انسان اس کو نرم کرکے اس میں کھیتی اور درخت اور پھول پھل اگاسکے، اور کھود کر اس میں کنویں اور خندقیں، نہریں بنا سکیں، مکانات کی بنیادیں مستحکم کرسکیں، پھر اس زمین کے اندر اور باہر ایسے سامان پیدا فرما دیئے جن سے زمین کی آبادی ہو، اس میں سبزی اور درخت اور پھول پھل اگ سکیں، باہر سے ہوا، روشنی، گرمی، سردی پیدا کی، اور پھر بادلوں کے ذریعے اس پر پانی برسایا جس سے درخت پیدا ہو سکیں، مختلف ستاروں اور سیاروں کی سرد گرم کرنیں ان پر ڈالی گئیں جن سے پھولوں پھلوں میں رنگ اور رس بھرے گئے، انسان کو فہم و عقل عطا کی گئی، جس کے ذریعہ اس نے زمین سے نکلنے والے کام مواد لکڑی، لوہا، تانبہ، پیتل، ایلومینیم وغیرہ کے جوڑ توڑ لگا کر مصنوعات کی ایک نئی دنیا بنا ڈالی، یہ سب زمین کی اصلاح ظاہری ہے جو حق تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے فرمائی۔ - اور اصلاح باطنی و روحانی کا مدار ذکر اللہ، تعلق مع اللہ اور اس کی اطاعت پر ہے، اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے اول تو ہر انسان کے قلب میں ایک مادّہ اور جذبہ خدا کی اطاعت اور یاد کا رکھ دیا ہے (آیت) فالھمھا فجورھا وتقوھا، اور انسان کے گردوپیش کے ہر ذرے ذرے میں اپنی قدرت کاملہ اور صنعت عجیبہ کے ایسے مظاہر رکھے کہ ان کو دیکھ کر معمولی فہم و ادراک رکھنے والا بھی بول اٹھے کہ (آیت) فتبرک اللّٰہ احسن الخلقین، اس کے علاوہ اپنے رسول بھیجے کتابیں نازل فرمائیں جن کے ذریعہ مخلوق کا رشتہ خالق کے ساتھ جوڑنے کا پورا انتظام فرمایا۔- اس طرح گویا زمین کی مکمل اصلاح ظاہری اور باطنی ہوگئی، اب حکم یہ ہے کہ ہم نے اس زمین کو درست کردیا ہے تم اس کو خراب نہ کرو۔ - جس طرح اصلاح کی دو قسمیں ظاہری اور باطنی بیان کی گئی ہیں اسی طرح اس کے بالمقابل فساد کی بھی دو قسمیں ظاہری اور باطنی ہیں، اور اس ارشاد ربانی کے ذریعہ دونوں ہی کی ممانعت کی گئی ہے۔ - اگرچہ قرآن اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اصل وظیفہ اور فرض منصبی اصلاح باطنی ہے، اور اس کے بالمقابل فساد باطنی سے روکنا ہے، لیکن اس دنیا میں ظاہر و باطن کے اصلاح و فساد میں ایک ایسا ربط ہے کہ ایک کا فساد دوسرے کے فساد کا موجب بن جاتا ہے، اس لئے شریعت قرآن نے جس طرح باطنی فساد کے دروازے بند کئے ہیں اسی طرح ظاہری فساد کو بھی منع فرمایا چوری ڈاکہ، قتل اور بےحیائی کے تمام طریقے دنیا میں ظاہری اور باطنی ہر طرح کا فساد پیدا کرتے ہیں، اس لئے ان چیزوں پر خصوصیت سے پابندیاں اور سخت سزائیں مقرر فرمائی، اور عام گناہوں اور جرائم کو بھی ممنوع قرار دیا، کیونکہ ہر جرم و گناہ کہیں ظاہری فساد کا موجب ہوتا ہے کہیں باطنی فساد کا، اور اگر غور سے دیکھا جائے تو ظاہری فساد باطنی فساد کا سبب بنتا ہے، اور ہر باطنی فساد ظاہری فساد کا موجب ہوتا ہے۔ - ظاہری فساد کا باطنی کے لئے مستلزم ہونا تو اس لئے ظاہر ہے کہ وہ اطاعت احکام الٓہیہ کی خلاف ورزی ہے، اور خدا تعالیٰ کی نافرمانی ہی کا دوسرا نام فساد باطنی ہے، البتہ فساد باطنی کس طرح فساد ظاہری کا سبب بنتا ہے، اس کا پہچاننا کسی قدر غور و فکر کا محتاج ہے، وجہ یہ ہے کہ یہ سارا جہان اور اس کی ہر چھوٹی بڑی چیز سب مالک الملک و الملکوک کی بنائی ہوئی اور اس کے تابع فرمان ہے، جب تک انسان اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے لگے تو دنیا کی ساری چیزیں در پردہ انسان کی نافرمان ہوجاتی ہیں، جس کو بظاہر انسان اپنی آنکھ سے نہیں دیکھتا، لیکن ان چیزوں کے آثار و خواص اور نتائج و فوائد میں غور کرنے سے بدیہی طور پر اس کا ثبوت مل جاتا ہے۔ - ظاہر میں تو یہ دنیا کی ساری چیزیں انسان کے استعمال میں رہتی ہیں، پانی اس کے حلق میں اترے تو پیاس بجھانے سے انکار نہیں کرتا، کھانا اس کی بھوک رفع کرنے سے نہیں رکتا، لباس اور مکان اس کی سردی گرمی کی آسائشوں کو مہیا کرنے سے انکار نہیں کرتا۔- لیکن عواقب اور نتائج کو دیکھا جائے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے کوئی چیز اپنا کام پورا نہیں کر رہی، کیونکہ اصل مقصد ان تمام چیزوں اور ان کے استعمال کا یہ ہے کہ انسان کو آرام و راحت میسر آئے، اس کی پریشانی اور تکلیف دور ہو اور بیماریوں کو شفاء ہو۔ - ان دنیا کے حالات پر نظر ڈالئے تو معلوم ہوگا کہ آج کل سامان راحت اور سامان شفاء کی زائد از قیاس فراوانی کے باوجود انسانوں کی اکثریت انتہائی پریشانیوں اور بیماریوں کا شکار ہے، نئے نئے امراض، نئی نئی مصیبتیں برس رہی ہیں، کوئی بڑے سے بڑا انسان اپنی جگہ مطمئن اور آسودہ نہیں ہے، بلکہ جوں جوں یہ سامان بڑھتے جاتے ہیں اسی انداز سے مصائب و آفات اور امراض اور پریشانیاں بڑھتی جاتی ہیں ” مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی “- آج کا انسان جس کو برق و بھاپ اور دوسری مادی رنگینیوں نے مسحور بنا رکھا ہے، ذرا ان چیزوں سے بلند ہو کر سوچے تو اس کو معلوم ہوگا کہ ہماری ساری کوششیں اور ساری مصنوعات و ایجادات ہمارے اصل مقصد یعنی اطمینان و راحت کے حاصل کرنے میں فیل اور ناکام ہیں، اس کی وجہ بجز اس معنوی اور باطنی سبب کے نہیں ہے کہ ہم نے اپنے رب اور مالک کی نافرمانی اختیار کی تو اس کی مخلوقات نے معنوی طور پر ہم سے نافرمانی شروع کردی - چوں از وگشتی ہمہ چیز از تو گشت - کہ ہمارے لئے حقیقی آرام و راحت مہیا نہیں کرتی، مولانا رومی رحمة اللہ علیہ نے خوب فرمایا ہے - خاک و باد و آب و آتش بندہ اند بامن وتو مردہ باحق زندہ اند - یعنی دنیا کی یہ سب چیزیں اگرچہ ظاہر میں بےجان و بےشعور نظر آتی ہیں، مگر حقیقت میں اتنا ادراک ان میں بھی ہے کہ مالک کے تابع فرمان کام کرتی ہیں۔- خلاصہ کلام یہ ہے کہ جب غور سے دیکھا جائے تو ہر گناہ اور خدا تعالیٰ سے غفلت اور اس کی ہر نافرمانی دنیا میں نہ صرف باطنی فساد پیدا کرتی ہے بلکہ ظاہری فساد بھی اس کا لازمی ثمرہ ہوتا ہے، اسی کو مولانا رومی رحمة اللہ علیہ نے فرمایا ہے - ابرنا یداز پئے منع زکوٰة وززنا افتد و بااندر جہات - اور یہ کوئی شاعرانہ تخیل نہیں، بلکہ وہ حقیقت ہے جس پر قرآن و حدیث ناطق ہے، لیکن سزا کا ہلکا سا نمونہ اس دنیا میں امراض، وباؤ ں، طوفانوں، سیلابوں کی صورت میں سامنے آتا رہتا ہے۔ - اس لئے (آیت) وَلَا تُفْسِدُوْا فِي الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِهَا کے مفہوم میں جیسے وہ جرائم اور گناہ داخل ہیں جن سے ظاہری طور پر دنیا میں فساد پیدا ہوتا ہے اسی طرح ہر نافرمانی اور خدا تعالیٰ سے غفلت و معصیت بھی اس میں شامل ہے، اسی لئے آیت مذکورہ میں اس کے بعد فرمایا وادْعُوْهُ خَوْفًا وَّطَمَعًا یعنی اللہ تعالیٰ کو پکارو خوف اور امید کے ساتھ، یعنی اس طرح کہ ایک طرف دعا کے ناقابل قبول ہونے کا خوف لگا ہو اور دوسری طرف اس کی رحمت سے پوری امید بھی لگی ہوئی ہو، اور یہی امید و بیم طریق استقامت میں روح انسانی کے دو بازو ہیں، جن سے وہ پرواز کرتی اور درجات عالیہ حاصل کرتی ہے۔ - اور ظاہر اس عبارت سے یہ ہے کہ امید وبیم دونوں مساوی درجہ میں ہونا چاہئے، اور بعض علماء نے فرمایا کہ مناسب یہ ہے کہ حیات اور تندرستی کے زمانہ میں خوف کو غالب رکھے، تاکہ اطاعت میں کوتاہی نہ ہو، اور جب موت کا وقت قریب آئے تو امید کو غالب رکھے، کیونکہ اب عمل کی طاقت رخصت ہوچکی ہے، امید رحمت ہی اس کا عمل رہ گیا ہے۔ (بحر محیط)- اور بعض محققین نے فرمایا کہ اصل مقصد دین کے صحیح راستہ پر قائم رہنا اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر مداومت کرنا ہے، اور مزاج و طبائع انسانوں کے مختلف ہوتے ہیں، کسی کو غلبہ خوف سے یہ مقام استقامت اور دوام اطاعت حاصل ہوتا ہے، کسی کو غلبہ محبت ورجا سے سو جس کو جس حالت سے اس مقصد میں مدد ملے اس کو حاصل کرنے کی فکر کرے۔ - خلاصہ یہ ہے کہ دعا کے دو آداب اس سے پہلی آیت میں بتلائے گئے، ایک عاجزی اور تضرع کے ساتھ ہونا، دوسرے خفیہ و آہستہ ہونا، یہ دونوں صفتیں انسان کے ظاہر جسد سے متعلق ہیں، کیونکہ تضرع سے مراد یہ ہے کہ اپنی ہیئت بوقت دعا عاجزانہ، فقیرانہ بنالے، متکبرانہ یا بےنیاز نہ ہو، اور خفیہ ہونے کا تعلق بھی منہ اور زبان سے ہے۔ - اس آیت میں دعا کے لئے دو آداب باطنی اور بتلائے گئے، جن کا تعلق انسان کے دل سے ہے وہ یہ کہ دعا کرنے والے کے دل میں اس کا خطرہ بھی ہونا چاہئے کہ شاید میری دعا قبول نہ ہو، اور امید بھی ہونی چاہئے کہ میری دعا قبول ہوسکتی ہے، کیونکہ اپنی خطاؤں اور گناہوں سے بےفکر ہوجانا بھی ایمان کے خلاف ہے، اور اللہ تعالیٰ کی رحمت واسعہ سے مایوس ہوجانا بھی کفر ہے، قبولیت دعا کی جب ہی توقع کی جاسکتی ہے جب کہ دونوں حالتوں کے درمیان درمیان رہے۔ - پھر آخر میں فرمایا اِنَّ رَحْمَتَ اللّٰهِ قَرِيْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِيْنَ ” یعنی اللہ تعالیٰ کی رحمت قریب ہے نیک عمل کرنے والوں سے “۔ اس میں اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ اگرچہ بوقت دعا خوف اور امید دونوں ہی حالتیں ہونی چاہیئں، لیکن ان دونوں حالتوں میں سے امید ہی کی جانب راجح ہے، کیونکہ رب العالمین اور رحیم الرحماء کے جو دو احسان میں نہ کوئی کمی ہے نہ بخل، وہ برے سے برے انسان بلکہ شیطان کی بھی دعا قبول کرسکتا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے قریب ہونے کے لئے محسن یعنی نیک عمل ہونا درکار ہے۔ - اسی لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ بعض آدمی لمبے لمبے سفر کرتے ہیں، اور اپنی ہیئت فقیرانہ بناتے ہیں، اور اللہ کے سامنے دعا کے لئے ہاتھ پھیلاتے ہیں، مگر ان کا کھانا بھی حرام ہے اور پینا بھی حرام ہے، اور لباس بھی حرام کا ہے، سو ایسے آدمی کی دعا کہاں قبول ہو سکتی ہے۔ (مسلم، ترمذی، عن ابی ہریرہ) - اور ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ بندہ کی دعا اس وقت تک قبول ہوتی رہتی ہے جب تک وہ کسی گناہ یا قطع رحمی کی دعا نہ کرے، اور جلد بازی نہ کرے، صحابہ کرام نے دریافت کیا، جلد بازی کا کیا مطلب ہے، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مطلب یہ ہے کہ یوں خیال کر بیٹھے کہ میں اتنے عرصہ سے دعا مانگ رہا ہوں اب تک قبول نہیں ہوئی، یہاں تک کہ مایوس ہو کر دعا چھوڑ دے (مسلم، ترمذی)- اور ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے جب دعا مانگو تو اس حالت میں مانگو کہ تمہیں اس کے قبول ہونے میں کوئی شک نہ ہو۔ - مراد یہ ہے کہ رحمت خدا وندی کی وسعت کو سامنے رکھ کر دل کو اس پر جماؤ کہ میری دعا ضرور قبول ہوگی، یہ اس کے منافی نہیں کہ اپنے گناہوں کے شامت کے سبب یہ خطرہ بھی محسوس کرے کہ شاید میرے گناہ دعاء کی قبولیت میں آڑے آجائیں۔ و صلی اللہ تعالیٰ علیٰ نبینا وسلم۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَہُوَالَّذِيْ يُرْسِلُ الرِّيٰحَ بُشْرًۢا بَيْنَ يَدَيْ رَحْمَتِہٖ۝ ٠ ۭ حَتّٰٓي اِذَآ اَقَلَّتْ سَحَابًا ثِقَالًا سُقْنٰہُ لِبَلَدٍ مَّيِّتٍ فَاَنْزَلْنَا بِہِ الْمَاۗءَ فَاَخْرَجْنَا بِہٖ مِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِ۝ ٠ ۭ كَذٰلِكَ نُخْرِجُ الْمَوْتٰى لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ۝ ٥٧- رسل ( ارسال)- والْإِرْسَالُ يقال في الإنسان، وفي الأشياء المحبوبة، والمکروهة، - ( ر س ل ) الرسل - الارسال ( افعال ) کے معنی بھیجنے کے ہیں اور اس کا اطلاق انسان پر بھی ہوتا ہے اور دوسری محبوب یا مکروہ چیزوں کے لئے بھی آتا ہے ۔- الرِّيحُ معروف،- وهي فيما قيل الهواء المتحرّك . وعامّة المواضع الّتي ذکر اللہ تعالیٰ فيها إرسال الرّيح بلفظ الواحد فعبارة عن العذاب، وكلّ موضع ذکر فيه بلفظ الجمع فعبارة عن الرّحمة، فمن الرِّيحِ : إِنَّا أَرْسَلْنا عَلَيْهِمْ رِيحاً صَرْصَراً [ القمر 19] ، فَأَرْسَلْنا عَلَيْهِمْ رِيحاً وَجُنُوداً [ الأحزاب 9] ، مَثَلِ رِيحٍ فِيها صِرٌّ [ آل عمران 117] ، اشْتَدَّتْ بِهِ الرِّيحُ [إبراهيم 18] . وقال في الجمع : وَأَرْسَلْنَا الرِّياحَ لَواقِحَ [ الحجر 22] ، أَنْ يُرْسِلَ الرِّياحَ مُبَشِّراتٍ [ الروم 46] ، يُرْسِلُ الرِّياحَ بُشْراً [ الأعراف 57] . وأمّا قوله :- يرسل الرّيح فتثیر سحابا «3» فالأظهر فيه الرّحمة، وقرئ بلفظ الجمع «4» ، وهو أصحّ.- وقد يستعار الرّيح للغلبة في قوله : وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ [ الأنفال 46] ، وقیل : أَرْوَحَ الماءُ :- تغيّرت ريحه، واختصّ ذلک بالنّتن . ورِيحَ الغدیرُ يَرَاحُ : أصابته الرِّيحُ ، وأَرَاحُوا : دخلوا في الرَّوَاحِ ، ودهن مُرَوَّحٌ: مطيّب الرّيح . وروي :«لم يَرَحْ رَائِحَةَ الجنّة» «5» أي : لم يجد ريحها، والمَرْوَحَةُ :- مهبّ الرّيح، والمِرْوَحَةُ : الآلة التي بها تستجلب الرّيح، والرَّائِحَةُ : تَرَوُّحُ هواء .- ورَاحَ فلان إلى أهله إمّا أنه أتاهم في السّرعة کالرّيح، أو أنّه استفاد برجوعه إليهم روحا من - المسرّة . والرَّاحةُ من الرَّوْح، ويقال : افعل ذلک في سراح ورَوَاحٍ ، أي : سهولة . والمُرَاوَحَةُ في العمل : أن يعمل هذا مرّة، وذلک مرّة، واستعیر الرَّوَاحُ للوقت الذي يراح الإنسان فيه من نصف النّهار، ومنه قيل : أَرَحْنَا إبلَنا، وأَرَحْتُ إليه حقّه مستعار من : أرحت الإبل، والْمُرَاحُ : حيث تُرَاحُ الإبل، وتَرَوَّحَ الشجر ورَاحَ يَراحُ : تفطّر . وتصوّر من الرّوح السّعة، فقیل : قصعة رَوْحَاءُ ، وقوله : لا تَيْأَسُوا مِنْ رَوْحِ اللَّهِ [يوسف 87] ، أي : من فرجه ورحمته، وذلک بعض الرّوح .- الریح کے معنی معروف ہیں - ۔ یعنی ہوا متحرک کو کہتے ہیں عام طور پر جن مواضع میں ( رسال الریح صیغہ مفرد کے ساتھ مذکور ہے وہاں عذاب مراد ہے اور جہاں کہیں لفظ جمع کے ساتھ مذکور ہے وہاں رحمت مراد ہے ۔ چناچہ ریح کے متعلق فرمایا : إِنَّا أَرْسَلْنا عَلَيْهِمْ رِيحاً صَرْصَراً [ القمر 19] ہم نے ان پر ایک زنانے کی اندھی چلائی ۔ فَأَرْسَلْنا عَلَيْهِمْ رِيحاً وَجُنُوداً [ الأحزاب 9] تو ہم نے ان پر آندھی چلائی ۔ مَثَلِ رِيحٍ فِيها صِرٌّ [ آل عمران 117] مثال اس ہوا کی ہے ۔ جس میں بڑی ٹھر بھی ہوا۔ اشْتَدَّتْ بِهِ الرِّيحُ [إبراهيم 18] اس کو سخت ہوا لے اڑی ۔ اور ریاح ( جمع کا لفظ ) کے متعلق فرمایا : وَأَرْسَلْنَا الرِّياحَ لَواقِحَ [ الحجر 22] اور ہم ہی ہوا کو چلاتے ہیں جو بادلوں کو پانی بار وار کرتی ہے ۔ أَنْ يُرْسِلَ الرِّياحَ مُبَشِّراتٍ [ الروم 46] کہ وہ ہواؤں کو اس غرض سے بھیجتا ہے کہ لوگوں کو بارش کی خوشخبری پہنچائیں ۔ يُرْسِلُ الرِّياحَ بُشْراً [ الأعراف 57] باران رحمت کے آگے آگے ہواؤں کو بھیجتا ہے تاکہ لوگوں کو مینہ کی آمد کی خوشخبری پہنچادیں ۔ اور آیت ير - سل الرّيح فتثیر سحابا «3»اور وہ قادرمطلق ہے جو ہواؤں کو بھیجتا ہے اور وہ ہوائیں بادلوں کو ان کی جگہ سے ابھارتی ہے ۔ میں بھی چونکہ معنی رحمت اغلب ہے اس لئے یہاں لفظ جمع کی قرات زیادہ صحیح ہے ۔ کبھی مجازا ریح بمعنی غلبہ بھی آجاتا ہے چناچہ فرمایا : وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ [ الأنفال 46] اور تمہاری وہوا اکھڑ جائے گی ۔ محاورہ : اروح الماء پانی متغیر ہوگیا خاص کر بدبو دار ہونے کے وقت بولتے ہیں ۔ ریح الغد یرییراح جوہڑ پر ہوا کا چلنا ۔ اور اراحوا کے معنی رواح یعنی شام کے وقت میں داخل ہونے کے ہیں اور خشبودار تیل کو دھن مروح کہا جاتا ہے ۔ ایک حدیث میں ہے ۔ ( 163) لم یرح راحئتہ الجنتہ کہ وہ جنت کی کو شبوتک نہیں پائے گا ۔ المروحبتہ ہوا چلنے کی سمت المروحتہ ( آلہ ) پنکھا ۔ الرئحتہ مہکنے والی خوشبو ۔ محاورہ ہے ۔ راح فلان الیٰ اھلہ ( 1) فلاں اپنئ اہل کیطرف ہوا کی طرح تیزی کے ساتھ گیا ۔ ۔ ( 2) اس نے اپنے اہل و عیال میں پہنچ کر راحت حاصل کی ۔ الرحتہ آرام ۔ یہ بھی روح سے موخوذ ہے ۔ مشہور محاورہ ہے ۔ افعل ذالک فی مراح وراح کہ آرام سے یہ کام کرو ۔- المراوحتہ - کے معنی ہیں دو کاموں کو باری باری کرنا ۔ اور استعارہ کے طور پر رواح سے دوپہر کو آرام کا وقت مراد لیا جاتا ہے اور اسی سے کہا جاتا ہے ۔ ارحنا ابلنا کہ ہم نے اونٹوں کو آرام دیا ( یعنی بازہ میں لے آئے ) اور پھر ارحت الابل سے بطور استعارہ کہا جاتا ہے ۔ کہ میں نے اس کا حق واپس لوٹا دیا اور مراح باڑے کو کہا جاتا ہے اور تروح الشجرہ وراح یراح کے معنی درخت کے شکوفہ دار ہونے اور نئے پتے نکالنے کے ہیں اور کبھی روح سے وسعت اور فراخی کے معنی بھی مراد لئے جاتے ہیں چناچہ کہا جاتا ہے ۔ قصعتہ روحاء فراخ پیالہ اور آیت کریمہ : لا تَيْأَسُوا مِنْ رَوْحِ اللَّهِ [يوسف 87] اور خدا کی رحمت سے مایوس نہ ہوجاؤ ۔ میں بھی وسعت رحمت مراد ہے جو لفظ روح سے مفہوم ہوتی ہے ۔- بشر - واستبشر :- إذا وجد ما يبشّره من الفرح، قال تعالی: وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ [ آل عمران 170] ، يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ [ آل عمران 171] ، وقال تعالی: وَجاءَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَسْتَبْشِرُونَ [ الحجر 67] . ويقال للخبر السارّ : البِشارة والبُشْرَى، قال تعالی: هُمُ الْبُشْرى فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَفِي الْآخِرَةِ [يونس 64] ، وقال تعالی: لا بُشْرى يَوْمَئِذٍ لِلْمُجْرِمِينَ [ الفرقان 22] ، وَلَمَّا جاءَتْ رُسُلُنا إِبْراهِيمَ بِالْبُشْرى [هود 69] ، يا بُشْرى هذا غُلامٌ [يوسف 19] ، وَما جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرى [ الأنفال 10] .- ( ب ش ر ) البشر - التبشیر - کے معنی ہیں اس قسم کی خبر سنانا جسے سن کر چہرہ شدت فرحت سے نمٹما اٹھے ۔ مگر ان کے معافی میں قدر سے فرق پایا جاتا ہے ۔ تبیشتر میں کثرت کے معنی ملحوظ ہوتے ہیں ۔ اور بشرتہ ( مجرد ) عام ہے جو اچھی وبری دونوں قسم کی خبر پر بولا جاتا ہے ۔ اور البشرتہ احمدتہ کی طرح لازم ومتعدی آتا ہے جیسے : بشرتہ فابشر ( یعنی وہ خوش ہوا : اور آیت کریمہ : إِنَّ اللهَ يُبَشِّرُكِ ( سورة آل عمران 45) کہ خدا تم کو اپنی طرف سے بشارت دیتا ہے میں ایک قرآت نیز فرمایا : لا تَوْجَلْ إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ عَلِيمٍ قالَ : أَبَشَّرْتُمُونِي عَلى أَنْ مَسَّنِيَ الْكِبَرُ فَبِمَ تُبَشِّرُونَ قالُوا : بَشَّرْناكَ بِالْحَقِّ [ الحجر 53- 54] مہمانوں نے کہا ڈریے نہیں ہم آپ کو ایک دانشمند بیٹے کی خوشخبری دیتے ہیں وہ بولے کہ جب بڑھاپے نے آپکڑا تو تم خوشخبری دینے لگے اب کا ہے کی خوشخبری دیتے ہو انہوں نے کہا کہ ہم آپ کو سچی خوشخبری دیتے ہیں ۔ فَبَشِّرْ عِبَادِ ( سورة الزمر 17) تو میرے بندوں کو بشارت سنادو ۔ فَبَشِّرْهُ بِمَغْفِرَةٍ وَأَجْرٍ كَرِيمٍ ( سورة يس 11) سو اس کو مغفرت کے بشارت سنادو استبشر کے معنی خوش ہونے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ [ آل عمران 170] اور جو لوگ ان کے پیچھے رہ گئے ( اور شہید ہوکر ) ان میں شامل ہیں ہوسکے ان کی نسبت خوشیاں منا رہے ہیں ۔ يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ [ آل عمران 171] اور خدا کے انعامات اور فضل سے خوش ہورہے ہیں ۔ وَجاءَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَسْتَبْشِرُونَ [ الحجر 67] اور اہل شہر ( لوط کے پاس ) خوش خوش ( دورے ) آئے ۔ اور خوش کن خبر کو بشارۃ اور بشرٰی کہا جاتا چناچہ فرمایا : هُمُ الْبُشْرى فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَفِي الْآخِرَةِ [يونس 64] ان کے لئے دنیا کی زندگی میں بھی بشارت ہے اور آخرت میں بھی ۔- لا بُشْرى يَوْمَئِذٍ لِلْمُجْرِمِينَ [ الفرقان 22] اس دن گنہگاروں کے لئے کوئی خوشی کی بات نہیں ہوگی ۔- وَلَمَّا جاءَتْ رُسُلُنا إِبْراهِيمَ بِالْبُشْرى [هود 69] اور جب ہمارے فرشتے ابراہیم کے پاس خوشخبری سے کرآئے ۔ يا بُشْرى هذا غُلامٌ [يوسف 19] زہے قسمت یہ تو حسین ) لڑکا ہے ۔ وَما جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرى [ الأنفال 10] اس مدد کو تو خدا نے تمہارے لئے رذریعہ بشارت ) بنایا - «بَيْن»يدي - و «بَيْن» يستعمل تارة اسما وتارة ظرفا، فمن قرأ : بينكم [ الأنعام 94] ، جعله اسما، ومن قرأ : بَيْنَكُمْ جعله ظرفا غير متمکن وترکه مفتوحا، فمن الظرف قوله : لا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ [ الحجرات 1] ويقال : هذا الشیء بين يديك، أي : متقدما لك، ويقال : هو بين يديك أي : قریب منك، وعلی هذا قوله : ثُمَّ لَآتِيَنَّهُمْ مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ [ الأعراف 17] ، ولَهُ ما بَيْنَ أَيْدِينا وَما خَلْفَنا [ مریم 64] ، وَجَعَلْنا مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ سَدًّا وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدًّا [يس 9] ، مُصَدِّقاً لِما بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْراةِ [ المائدة 46] - بین کا لفظ یا تو وہاں استعمال ہوتا ہے ۔ جہاں مسافت پائی جائے جیسے ( دو شہروں کے درمیان ) یا جہاں دو یا دو سے زیادہ چیزیں موجود ہوں جیسے اور واھد کی طرف مضاف ہونے کی صورت میں بین کو مکرر لانا ضروری ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَمِنْ بَيْنِنا وَبَيْنِكَ حِجابٌ [ فصلت 5] اور ہمارے اور تمہارے درمیان پردہ ہے فَاجْعَلْ بَيْنَنا وَبَيْنَكَ مَوْعِداً [ طه 58] ۔ تو ہمارے اور اپنے درمیان ایک وقت مقرر کرلو ۔ اور کہا جاتا ہے : یعنی یہ چیز تیرے قریب اور سامنے ہے ۔ اسی معنی میں فرمایا : ۔ ثُمَّ لَآتِيَنَّهُمْ مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ [ الأعراف 17] پھر ان کے آگے ( غرض ہر طرف سے ) آؤنگا ۔ ولَهُ ما بَيْنَ أَيْدِينا وَما خَلْفَنا [ مریم 64] جو کچھ ہمارے آگے ہے اور جو پیچھے ۔۔۔ سب اسی کا ہے ۔ وَجَعَلْنا مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ سَدًّا وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدًّا [يس 9] اور ہم نے ان کے آگے بھی دیوار بنادی ۔ اور ان کے پیچھے بھی ۔ مُصَدِّقاً لِما بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْراةِ [ المائدة 46] جو اپنے سے پہلے کی کتاب تورات کی تصدیق کرتے تھے ۔ - رحم - والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین .- ( ر ح م ) الرحم ۔- الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، - اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة 128] لوگو تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے )- قل - القِلَّةُ والکثرة يستعملان في الأعداد، كما أنّ العظم والصّغر يستعملان في الأجسام، ثم يستعار کلّ واحد من الکثرة والعظم، ومن القلّة والصّغر للآخر . وقوله تعالی: ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب 60] - ( ق ل ل ) القلۃ - والکثرۃ بلحاظ اصل وضع کے صفات عدد سے ہیں جیسا کہ عظم اور صغر صفات اجسام سے ہیں بعد کثرت وقلت اور عظم وصغڑ میں سے ہر ایک دوسرے کی جگہ بطور استعارہ استعمال ہونے لگا ہے اور آیت کریمہ ؛ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب 60] پھر وہاں تمہارے پڑوس میں نہیں رہ سکیں گے مگر تھوڑے دن ۔ میں قلیلا سے عرصہ قلیل مراد ہے ۔ - سحب - أصل السَّحْبِ : الجرّ کسحب الذّيل، والإنسان علی الوجه، ومنه : السَّحَابُ ، إمّا لجرّ الرّيح له، أو لجرّه الماء، أو لانجراره في مرّه، قال تعالی: يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلى وُجُوهِهِمْ [ القمر 48] ، وقال تعالی: يُسْحَبُونَ فِي الْحَمِيمِ [ غافر 71] ، وقیل : فلان يَتَسَحَّبُ علی فلان، کقولک : ينجرّ ، وذلک إذا تجرّأ عليه، والسَّحَابُ : الغیم فيها ماء أو لم يكن، ولهذا يقال : سحاب جهام «4» ، قال تعالی: أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يُزْجِي سَحاباً [ النور 43] ، حَتَّى إِذا أَقَلَّتْ سَحاباً [ الأعراف 57] ، وقال : وَيُنْشِئُ السَّحابَ الثِّقالَ [ الرعد 12] ، وقد يذكر لفظه ويراد به الظّلّ والظّلمة، علی طریق التّشبيه، قال تعالی: أَوْ كَظُلُماتٍ فِي بَحْرٍ لُجِّيٍّ يَغْشاهُ مَوْجٌ مِنْ فَوْقِهِ مَوْجٌ مِنْ فَوْقِهِ سَحابٌ ظُلُماتٌ بَعْضُها فَوْقَ بَعْضٍ [ النور 40] .- ( س ح ب ) السحب اس کے اصل معنی کھینچنے کے ہیں ۔ چناچہ دامن زمین پر گھسیٹ کر چلنے یا کسی انسان کو منہ کے بل گھسیٹنے پر سحب کا لفظ بولا جاتا ہے اسی سے بادل کو سحاب کہا جاتا ہے یا تو اس لئے کہ ہوا اسے کھینچ کرلے چلتی ہے اور یا اس بنا پر کہ وہ چلنے میں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گھسٹتا ہوا چل رہا ہے قرآن میں ہے :۔ يَوْمَ يُسْحَبُونَ فِي النَّارِ عَلى وُجُوهِهِمْ [ القمر 48] جس دن ان کو انکے منہ کے بل ( دوزخ کی ) آگ میں گھسیٹا جائیگا ۔ اور فرمایا : يُسْحَبُونَ فِي الْحَمِيمِ [ غافر 71] انہیں دوزخ میں کھینچا جائے گا ۔ محاورہ ہے :۔ فلان یتسحب علی فلان : کہ فلاں اس پر جرات کرتا ہے ۔ جیسا کہ یتجرء علیہ کہا جاتا ہے ۔ السحاب ۔ ابر کو کہتے ہیں خواہ وہ پانی سے پر ہو یا خالی اس لئے خالی بادل کو سحاب جھام کہا جاتا ہے قرآن میں ہے :۔ أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ يُزْجِي سَحاباً [ النور 43] کیا تو نے غور نہیں کیا کہ اللہ بادل کو چلاتا ہے ۔ حَتَّى إِذا أَقَلَّتْ سَحاباً [ الأعراف 57] حتی کہ جب وہ بھاری بادل کو اٹھا لاتی ہیں ۔ وَيُنْشِئُ السَّحابَ الثِّقالَ [ الرعد 12] اور وہ بھاری بادل اٹھاتا ہے ۔ اور کبھی لفظ سحاب بول کر بطور تشبیہ کے اس سے سایہ اور تاریکی مراد لی جاتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : أَوْ كَظُلُماتٍ فِي بَحْرٍ لُجِّيٍّ يَغْشاهُ مَوْجٌ مِنْ فَوْقِهِ مَوْجٌ مِنْ فَوْقِهِ سَحابٌ ظُلُماتٌ بَعْضُها فَوْقَ بَعْضٍ [ النور 40] یا ( ان کے اعمال کی مثال ) بڑے گہرے دریا کے اندورنی اندھیروں کی سی ہے کہ دریا کو لہر نے ڈھانپ رکھا ہے اور ( لہر بھی ایک نہیں بلکہ ) لہر کے اوپر لہر ان کے اوپر بادل ( کی تاریکی غرض اندھیرے ہیں ایک کے اوپر ایک ۔- ثقل - الثِّقْل والخفّة متقابلان، فکل ما يترجح علی - ما يوزن به أو يقدّر به يقال : هو ثَقِيل، وأصله في الأجسام ثم يقال في المعاني، نحو : أَثْقَلَه الغرم والوزر . قال اللہ تعالی: أَمْ تَسْئَلُهُمْ أَجْراً فَهُمْ مِنْ مَغْرَمٍ مُثْقَلُونَ [ الطور 40] ، والثقیل في الإنسان يستعمل تارة في الذم، وهو أكثر في التعارف، وتارة في المدح - ( ث ق ل ) الثقل - یہ خفۃ کی ضد ہے اور اس کے معنی بھاری اور انبار ہونا کے ہیں اور ہر وہ چیز جو وزن یا اندازہ میں دوسری پر بھاری ہو اسے ثقیل کہا جاتا ہے اصل ( وضع ) کے اعتبار سے تو یہ اجسام کے بھاری ہونے پر بولا جاتا ہے لیکن ( مجاز ) معانی کے متعلق بھی استعمال ہوتا ہے چناچہ کہا جاتا ہے : ۔ اسے تادان یا گناہ کے بوجھ نے دبالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَمْ تَسْئَلُهُمْ أَجْراً فَهُمْ مِنْ مَغْرَمٍ مُثْقَلُونَ [ الطور 40] اے پیغمبر ) کیا تم ان سے صلہ مانگتے ہو کہ ان پر تادان کا بوجھ پڑرہا ہے ، - اور عرف میں انسان کے متعلق ثقیل کا لفظ عام طور تو بطور مذمت کے استعمال ہوتا ہے اور کبھی بطور مدح بھی آجاتا ہے - سقی - السَّقْيُ والسُّقْيَا : أن يعطيه ما يشرب، والْإِسْقَاءُ :- أن يجعل له ذلک حتی يتناوله كيف شاء، فالإسقاء أبلغ من السّقي، لأن الإسقاء هو أن تجعل له ما يسقی منه ويشرب، تقول : أَسْقَيْتُهُ نهرا، قال تعالی: وَسَقاهُمْ رَبُّهُمْ شَراباً طَهُوراً- [ الإنسان 21] ، وقال : وَسُقُوا ماءً حَمِيماً [ محمد 15] - ( س ق ی ) السقی - والسقیا کے معنی پینے کی چیز دینے کے ہیں اور اسقاء کے معنی پینے کی چیز پیش کردینے کے ہیں تاکہ حسب منشا لے کر پی لے لہذا اسقاء ینسبت سقی کے زیادہ طبغ ہے کیونکہ اسقاء میں مایسقی منھ کے پیش کردینے کا مفہوم پایا جاتا ہے کہ پینے والا جس قد ر چاہے اس سے نوش فرمانے مثلا اسقیتہ نھرا کے معنی یہ ہوں ۔ گے کر میں نے اسے پانی کی نہر پر لے جاکر کھڑا کردیا چناچہ قرآن میں سقی کے متعلق فرمایا : ۔ وسقاھم وَسَقاهُمْ رَبُّهُمْ شَراباً طَهُوراً [ الإنسان 21] اور ان کا پروردگار ان کو نہایت پاکیزہ شراب پلائے گا ۔ وَسُقُوا ماءً حَمِيماً [ محمد 15] اور ان کو کھولتا ہوا پانی پلایا جائیگا ۔- بلد - البَلَد : المکان المحیط المحدود المتأثر باجتماع قطّانه وإقامتهم فيه، وجمعه : بِلَاد وبُلْدَان، قال عزّ وجلّ : لا أُقْسِمُ بِهذَا الْبَلَدِ [ البلد 1] ، قيل : يعني به مكة «1» . قال تعالی:- بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ [ سبأ 15] ، فَأَنْشَرْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ الزخرف 11] ، وقال عزّ وجلّ :- فَسُقْناهُ إِلى بَلَدٍ مَيِّتٍ [ الأعراف 57] ، رَبِّ اجْعَلْ هذا بَلَداً آمِناً [ البقرة 126] ، يعني : مكة و تخصیص ذلک في أحد الموضعین وتنکيره في الموضع الآخر له موضع غير هذا الکتاب «2» . وسمیت المفازة بلدا لکونها موطن الوحشیات، والمقبرة بلدا لکونها موطنا للأموات، والبَلْدَة منزل من منازل القمر، والبُلْدَة : البلجة ما بين الحاجبین تشبيها بالبلد لتمدّدها، وسمیت الکركرة بلدة لذلک، وربما استعیر ذلک لصدر الإنسان «1» ، ولاعتبار الأثر قيل : بجلده بَلَدٌ ، أي : أثر، وجمعه : أَبْلَاد، قال الشاعر :- وفي النّحور کلوم ذات أبلاد وأَبْلَدَ الرجل : صار ذا بلد، نحو : أنجد وأتهم «3» . وبَلِدَ : لزم البلد . ولمّا کان اللازم لموطنه كثيرا ما يتحيّر إذا حصل في غير موطنه قيل للمتحيّر : بَلُدَ في أمره وأَبْلَدَ وتَبَلَّدَ ، قال الشاعر : لا بدّ للمحزون أن يتبلّدا ولکثرة وجود البلادة فيمن کان جلف البدن قيل : رجل أبلد، عبارة عن عظیم الخلق، وقوله تعالی: وَالْبَلَدُ الطَّيِّبُ يَخْرُجُ نَباتُهُ بِإِذْنِ رَبِّهِ وَالَّذِي خَبُثَ لا يَخْرُجُ إِلَّا نَكِداً [ الأعراف 58] ، کنایتان عن النفوس الطاهرة والنجسة فيما قيل «5» .- ( ب ل د ) البلد شہر ) وہ مقام جس کی حد بندی کی گئی ہو اور وہاں لوگ آباد ۔ اس کی جمع بلاد اور بلدان آتی ہے اور آیت : ۔ لا أُقْسِمُ بِهذَا الْبَلَدِ [ البلد 1] سے مکہ مکرمہ مراد ہے دوسری جگہ فرمایا رَبِّ اجْعَلْ هذا بَلَداً آمِناً [ البقرة 126] کہ میرے پروردگار اس شہر کو ( لوگوں کے لئے ) امن کی جگہ بنادے ۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ [ سبأ 15] پاکیزہ شہر ہے ۔ فَأَنْشَرْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ الزخرف 11] پھر ہم نے اس سے شہر مردہ کو زندہ کردیا ۔ فَسُقْناهُ إِلى بَلَدٍ مَيِّتٍ [ الأعراف 57] پھر ہم ان کو ایک بےجان شہر کی طرف چلاتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ رَبِّ اجْعَلْ هذا بَلَداً آمِناً [ البقرة 126] پروردگار اس جگہ کو امن کا شہر بنا میں بھی مکہ مکرمہ مراد ہے لیکن ایک مقام پر اسے معرفہ اور دوسرے مقام پر نکرہ لانے میں جو لطافت اور نکتہ ملحوظ ہے اسے ہم دوسری کتاب میں بیان کرینگے اور بلد کے معنی بیابان اور قبرستان بھی آتے ہیں کیونکہ پہلاوحشی جانوروں دوسرا مردوں کا مسکن ہوتا ہی ۔ البلدۃ منازل قمر سے ایک منزل کا نام ہے اور تشبیہ کے طور پر ابرو کے درمیان کی جگہ اور اونٹ کے کے سینہ کو بھی بلدۃ کہا جاتا ہے ۔ کیونکہ یہ بھی شہر کی طرح محدود ہوتے ہیں اور بطور استعارہ انسان کے سینہ پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے اور اثر یعنی نشان کے معنی کے اعتبار سے بجلدہ بلد کا محاورہ استعمال ہوتا ہے یعنی اس کی کھال پر نشان ہے اس کی جمع ابلاد آتی ہے ۔ شاعر نے کہا ہے اور ان کے سینوں پر زخموں کے نشانات ہیں ۔ ابلد الرجل شہر میں چلاجانا جیسا کہ انجد اتھم کے معنی نجد اور تہمامہ میں چلے جانے کے ہیں ۔ بلد الرجل کے معنی شہر میں مقیم ہونے کے ہیں اور کسی مقام پر ہمیشہ رہنے والا اکثر اوقات دوسری جگہ میں جاکر متحیر ہوجاتا ہے اس لئے متجیر آدمی کے متعلق وغیرہ ہا کے محاورات استعمال ہوتے ہیں شاعر نے کہا ہے ( ع ) کہ اند وہ گیں لازما متحیر رہے گا ) ۔ اجد لوگ دام طور پر بلید یعنی کند ذہن ہوتے ہیں اس لئے ہر لئے جیم آدمی کو ابلد کہا جاتا ہے اور آیت کریمہ : وَالْبَلَدُ الطَّيِّبُ يَخْرُجُ نَباتُهُ بِإِذْنِ رَبِّهِ وَالَّذِي خَبُثَ لا يَخْرُجُ إِلَّا نَكِداً [ الأعراف 58]( جو زمین پاکیزہ دے ) اس میں سے سبزہ بھی پروردگار کے حکم سے ( نفیس ہی ) نکلتا ہے اور جو خراب ہے ۔ اس میں سے جو کچھ نکلتا ہے ناقص ہوتا ہے ) میں بلد کے طیب اور خبیث ہونے سے کنایہ نفوس کا طیب اور خبیث ہونا مراد ہے ۔- نزل - النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] - ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا - ثمر - الثَّمَرُ اسم لكلّ ما يتطعم من أحمال الشجر، الواحدة ثَمَرَة، والجمع : ثِمَار وثَمَرَات، کقوله تعالی: أَنْزَلَ مِنَ السَّماءِ ماءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَراتِ رِزْقاً لَكُمْ [ البقرة 22]- ( ث م ر ) الثمر - اصل میں درخت کے ان اجزاء کو کہتے ہیں جن کو کھایا جاسکے اس کا واحد ثمرۃ اور جمع ثمار وثمرات آتی ہے قرآن میں ہے :۔ أَنْزَلَ مِنَ السَّماءِ ماءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَراتِ رِزْقاً لَكُمْ [ البقرة 22] اور آسمان سے مبینہ پرسا کر تمہارے کھانے کے لئے انواع و اقسام کے میوے پیدا کیے ۔ - موت - أنواع الموت بحسب أنواع الحیاة :- فالأوّل : ما هو بإزاء القوَّة النامية الموجودة في الإنسان والحیوانات والنّبات - . نحو قوله تعالی:- يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم 19] ، وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق 11] .- الثاني : زوال القوّة الحاسَّة . قال : يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا - [ مریم 23] ، أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم 66] .- الثالث : زوال القوَّة العاقلة، وهي الجهالة .- نحو : أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] ، وإيّاه قصد بقوله : إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل 80] .- الرابع : الحزن المکدِّر للحیاة،- وإيّاه قصد بقوله : وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَ- بِمَيِّتٍ [إبراهيم 17] .- الخامس : المنامُ ،- فقیل : النّوم مَوْتٌ خفیف، والموت نوم ثقیل، وعلی هذا النحو سمّاهما اللہ تعالیٰ توفِّيا . فقال : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] - ( م و ت ) الموت - یہ حیات کی ضد ہے - لہذا حیات کی طرح موت کی بھی کئی قسمیں ہیں - ۔ اول قوت نامیہ - ( جو کہ انسان حیوانات اور نباتات ( سب میں پائی جاتی ہے ) کے زوال کو موت کہتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم 19] زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق 11] اور اس پانی سے ہم نے شہر مردہ یعنی زمین افتادہ کو زندہ کیا ۔- دوم حس و شعور کے زائل ہوجانے کو موت کہتے ہیں - ۔ چناچہ فرمایا ۔ يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا[ مریم 23] کاش میں اس سے پہلے مر چکتی ۔ أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم 66] کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا زندہ کر کے نکالا جاؤں گا ۔ - سوم ۔ قوت عاقلہ کا زائل ہوجانا اور اسی کا نام جہالت ہے - چناچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل 80] کچھ شک نہیں کہ تم مردوں کو بات نہیں سنا سکتے ۔- چہارم ۔ غم جو زندگی کے چشمہ صافی کو مکدر کردیتا ہے - چنانچہ آیت کریمہ : ۔ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم 17] اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی ۔ مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا ۔ میں موت سے یہی مین مراد ہیں ۔- پنجم ۔ موت بمعنی نیند ہوتا ہے - اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ النوم موت خفیف والموت نوم ثقیل کہ نیند کا نام ہے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو توفی سے تعبیر فرمایا ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام 60] اور وہی تو ہے جو ارت کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے - لعل - لَعَلَّ : طمع وإشفاق، وذکر بعض المفسّرين أنّ «لَعَلَّ» من اللہ واجب، وفسّر في كثير من المواضع ب «كي» ، وقالوا : إنّ الطّمع والإشفاق لا يصحّ علی اللہ تعالی، و «لعلّ» وإن کان طمعا فإن ذلك يقتضي في کلامهم تارة طمع المخاطب، وتارة طمع غيرهما . فقوله تعالیٰ فيما ذکر عن قوم فرعون : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء 40] - ( لعل ) لعل - ( حرف ) یہ طمع اور اشفاق ( دڑتے ہوئے چاہنے ) کے معنی ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے ۔ بعض مفسرین کا قول ہے کہ جب یہ لفظ اللہ تعالیٰ اپنے لئے استعمال کرے تو اس کے معنی میں قطیعت آجاتی ہے اس بنا پر بہت سی آیات میں لفظ کی سے اس کی تفسیر کی گئی ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ کے حق میں توقع اور اندیشے کے معنی صحیح نہیں ہیں ۔ اور گو لعل کے معنی توقع اور امید کے ہوتے ہیں مگر کبھی اس کا تعلق مخاطب سے ہوتا ہے اور کبھی متکلم سے اور کبھی ان دونوں کے علاوہ کسی تیسرے شخص سے ہوتا ہے ۔ لہذا آیت کریمہ : لَعَلَّنا نَتَّبِعُ السَّحَرَةَ [ الشعراء 40] تاکہ ہم ان جادو گروں کے پیرو ہوجائیں ۔ میں توقع کا تعلق قوم فرعون سے ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٥٦) اللہ کی نافرمانداری اور دین الہی کی دعوت کے بعد گناہ اور غیر اللہ کی عبادت مت کرو اور اللہ تعالیٰ سے اور اس کے عذاب سے ڈرتے رہو اور جنت کے امیدوار ہو، اس کی عبادت کرو، اللہ تعالیٰ جنت میں ایسے مومنوں سے جو قول وعمل کے اعتبار سے محسن ہوں قریب ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٥٦ (وَلاَ تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلاَحِہَا وَادْعُوْہُ خَوْفًا وَّطَمَعًا ط) - اللہ کو پکارنے ‘ اس سے دعا کرنے کے دو پہلو ( ) پہلے بتائے گئے کہ اللہ کو جب پکارو تو گڑگڑاتے ہوئے اور چپکے چپکے دل میں پکارو۔ اب اس ضمن میں مزید فرمایا گیا کہ اللہ کے ساتھ تمہارا معاملہ ہمیشہ بین الخوف والرجاء رہنا چاہیے۔ ایک طرف خوف کا احساس بھی ہو کہ اللہ پکڑ نہ لے ‘ کہیں سزا نہ دے دے ‘ اور دوسری طرف اس کی مغفرت اور رحمت کی قوی امید بھی دل میں ہو۔ لہٰذا فرمایا کہ اللہ سے دعا کرتے ہوئے تمہاری دلی اور روحانی کیفیت ان دونوں کے بین بین ہونی چاہیے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :44 زمین میں فساد برپا نہ کرو ، یعنی زمین کے انتظام کو خراب نہ کرو ۔ انسان کا خدا کی بندگی سے نکل کر اپنے نفس کی یا دوسروں کی بندگی اختیار کرنا اور خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنے اخلاق ، معاشرت اور تمدن کو ایسے اصول وقوانین پر قائم کرنا جو خدا کے سوا کسی اور کی رہنمائی سے ماخوذ ہوں ، یہی وہ بنیادی فساد ہے جس سے زمین کے انتظام میں خرابی کے بے شمار صورتیں رونما ہوتی ہیں اور اسی فساد کو روکنا قرآن کا مقصود ہے ۔ پھر اس کے قرآن اس حقیقت پر بھی متنبہ کرتا ہے کہ زمین کے انتظام میں اصل چیز فساد نہیں ہے جس پر صلاح عارض ہوئی ہو بلکہ اصل چیز صلاح ہے جس پر فساد محض انسان کی جہالت اور سرکشی سے عارض ہوتا رہا ہے ۔ بالفاظ دیگر یہاں انسان کی زندگی کی ابتدا جہالت و وحشت اور شرک و بغاوت اور اخلاقی بدنظمی سے نہیں ہوئی ہے جس کو دور کرنے کے لیے بعد میں بتدریج اصلاح کی گئی ہوں ، بلکہ فی الحقیقت انسانی زندگی کا آغاز صلاح سے ہوا ہے اور بعد میں اس درست نظام کو غلط کار انسان اپنی حماقتوں اور شرارتوں سے خراب کرتے رہے ہیں ۔ اسی فساد کو مٹانے اور نظام حیات کو از سرنو درست کردینے کے لیے اللہ تعالی وقتاً فوقتاً اپنے پیغمبر بھیجتا رہا ہے اور انہوں نے ہر زمانے میں انسان کو یہی دعوت دی ہے کہ زمین کا انتظام جس صلاح پر قائم کیا گیا تھا اس میں فساد برپا کرنے سے باز آؤ ۔ اس معاملہ میں قرآن کا نقطہ نظر ان لوگوں کے نقطہ نظر سے بالکل مختلف ہے جنہوں نے ارتقاء کا ایک غلط تصور لے کر یہ نظریہ قائم کیا ہے کہ انسان ظلمت سے نکل کر بتدریج روشنی میں آیا ہے اور اس کی زندگی بگاڑ اور اس کی زندگی بگاڑ سے شروع ہو کر رفتہ رفتہ بنی اور بنتی جارہی ہے ۔ اس کے برعکس قرآن کہتا ہے کہ خدا نے انسان کو پوری روشنی میں زمین پر بسایا تھا اور ایک صالح نظام سے اس کی زندگی کی ابتدا کی تھی ۔ پھر انسان خود شیطانی رہنمائی قبول کر کے بار بار تاریکی میں جاتا رہا اور اس صالح نظام کو بگاڑتا رہا اور خدا بار بار اپنے پیغمبر کو اس غرض کے لیے بھیجتا رہا کہ اسے تاریکی سے روشنی کی طرف آنے اور فساد سے باز رہنے کی دعوت دیں ۔ ( سورہ براۃ ، حاشیہ نمبر۲۳۰ ) سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :45 اس فقرے سے واضح ہو گیا کہ اوپر کے فقرے میں جس چیز کو فساد سے تعبیر کیا گیا ہے وہ دراصل یہی ہے کہ انسان خدا کے بجائے کسی اور کو اپنا ولی و سرپرست اور کارساز اور کارساز اور کار فرما قرار دے کر مدد کے لیے پکارے ۔ اور اصلاح اس کے سوا کسی دوسری چیز کا نام نہیں ہے کہ انسان کی اس پکار کا مرجع پھر سے محض اللہ کی ذات ہی ہو جائے ۔ خوف اور طمع کے ساتھ پکارنے کا مطلب یہ ہے کہ تمہیں خوف بھی ہو تو اللہ سے ہو اور تمہاری اُمیدیں بھی اگر کسی سے وابستہ ہوں تو صرف اللہ سے ہوں ۔ اللہ کو پکارو تو اس احساس کے ساتھ پکارو کہ تمہاری قسمت بالکلیہ اس کی نظر عنایت پر منحصر ہے ، فلاح و سعادت کو پہنچ سکتے ہو تو صرف اس کی مدد اور رہنمائی سے ، ورنہ جہاں تم اس کی اعانت سے محروم ہوئے پھر تمہارے لیے تباہی و نامرادی کے سوا کوئی دوسرا انجام نہیں ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

32: زمین پر اﷲ تعالیٰ نے جب اِنسان کو بھیجا تو شروع میں نافرمانی کا کوئی تصور نہیں تھا، اور اس طرح زمین کی اصلاح ہوچکی تھی۔ جن جن لوگوں نے بعد میں نافرمانی کے بیج بوئے انہوں نے زمین کی اصلاح کے بعد اس میں فساد مچایا۔ 33: یہاں دعا کا صیغہ اکثر مفسرین کے نزدیک عبادت کے لئے آیا ہے اسی لئے ہم نے اس کا ترجمہ عبادت سے کیا ہے۔ اور سچی عبادت کی شان اس آیت میں یہ بتائی گئی ہے کہ عبادت کرنے والے کے دل میں اپنی عبادت پر ناز ہونے کے بجائے یہ خوف ہونا چاہئے کہ نہ جانے میں عبادت کا حق ادا کرسکا یا نہیں۔ اور یہ اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں قبولیت کی مستحق ہے یا نہیں۔ دوسری طرف اسے اپنی عبادت کی کوتاہیوں سے مایوسی کے بجائے اﷲ تعالیٰ کی رحمت سے یہ امید بھی ہونی چاہئے کہ وہ اپنے فضل و کرم سے اسے قبول فرما ہی لے گا۔ یعنی اپنی کوتاہی کا خوف اور اﷲ تعالیٰ کی رحمت کی بنیاد پر امید، دونوں چیزوں کا امتزاج ہے جو کسی عبادت میں سچائی پیدا کرتا ہے۔