تمام مظاہر قدرت اس کی شان کے مظہر ہیں اوپر بیان ہوا کہ زمین و آسمان کا خالق اللہ ہے ۔ سب پر قبضہ رکھنے والا ، حاکم ، تدبیر کرنے والا ، مطیع اور فرمانبردار رکھنے والا اللہ ہی ہے ۔ پھر دعائیں کرنے کا حکم دیا کیونکہ وہ ہر چیز پر قادر ہے ۔ اب یہاں بیان ہو رہا ہے کہ رزاق بھی وہی ہے اور قیامت کے دن مردوں کو زندہ کر دینے والا بھی وہی ہے ۔ پس فرمایا کہ بارش سے پہلے بھینی بھینی خوش گوار ہوائیں وہی چلاتا ہے ( بشرا ) کی دوسری قرأت مبشرات بھی ہے ۔ رحمت سے مراد یہاں بارش ہے جیسے فرمان ہے آیت ( وَهُوَ الَّذِيْ يُنَزِّلُ الْغَيْثَ مِنْۢ بَعْدِ مَا قَنَطُوْا وَيَنْشُرُ رَحْمَتَهٗ ۭ وَهُوَ الْوَلِيُّ الْحَمِيْدُ 28 ) 42- الشورى:28 ) وہ ہے جو لوگوں کی ناامیدی کے بعد بارش اتارتا ہے اور اپنی رحمت کی ریل پیل کر دیتا ہے وہ والی ہے اور قابل تعریف ۔ ایک اور آیت میں ہے رحمت رب کے آثار دیکھو کہ کس طرح مردہ زمین کو وہ جلا دیتا ہے وہی مردہ انسانوں کو زندہ کرنے والا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے ۔ بادل جو پانی کی وجہ سے بوجھل ہو رہے ہیں انہیں یہ ہوائیں اٹھالے چلتی ہیں یہ زمین سے بہت قریب ہوتے ہیں اور سیاہ ہوتے ہیں ۔ چنانچہ حضرت زید بن عمرو بن نفیل رحمہ اللہ کے شعروں میں ہے میں اس کا مطیع ہوں جس کے اطاعت گذار میٹھے اور صاف پانی کے بھرے ہوئے بادل ہیں اور جس کے تابع فرمان بھاری بوجھل پہاڑوں والی زمین ہے ۔ پھر ہم ان بادلوں کو مردہ زمین کی طرف لے چلتے ہیں جس میں کوئی سبزہ نہیں خشک اور بنجر ہے جیسے آیت ( وایتہ لھم الارض ) میں بیان ہوا ہے پھر اس سے پانی برسا کر اسی غیر آباد زمین کو سر سبز بنا دیتے ہیں ۔ اسی طرح ہم مردوں کو زندہ کر دیں گے حالانکہ وہ بوسیدہ ہڈیاں اور پھر ریزہ ریزہ ہو کر مٹی میں مل گئے ہوں گے ۔ قیامت کے دن ان پر اللہ عزوجل بارش برسائے گا چالیس دن تک برابر برستی رہے گی جس سے جسم قبروں میں اگنے لگیں گے جیسے دانہ زمین پر اگتا ہے ۔ یہ بیان قرآن کریم میں کئی جگہ ہے ۔ قیامت کی مثال بارش کی پیداوار سے دی جاتی ہے ۔ پھر فرمایا یہ تمہاری نصیحت کے لئے ہے ۔ اچھی زمین میں سے پیداوار عمدہ بھی نکلتی ہے اور جلدی بھی جیسے فرمان ہے آیت ( وانبتھا نباتا حسنا ) اور جو زمین خراب ہے جیسے سنگلاخ زمین شور زمین وغیرہ اس کی پیداوار بھی ویسی ہی ہوتی ہے ۔ یہی مثال مومن وکافر کی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جس علم و ہدایت کے ساتھ اللہ نے مجھے بھیجا ہے اس کی مثال ایسی ہے جیسے زمین پر بہت زیادہ بارش ہوئی زمین کے ایک صاف عمدہ ٹکڑے تھے ان پر بھی وہ پانی برسا لیکن نہ تو وہاں رکا نہ وہاں کچھ اگا ۔ یہی مثال اس کی ہے جس نے دین حق کی سمجھ پیدا کی اور میری بعثت سے اس نے فائدہ اٹھایا خود سیکھا اور دوسروں کو سکھایا اور ایسے بھی ہیں کہ انہوں نے سر ہی نہ اٹھایا اور اللہ کی وہ ہدایت ہی نہ لی جو میری معرفت بھیجی گئی ( مسلم و نسائی )
57۔ 1 اپنی الوہیت و ربوبیت کے اثبات میں اللہ تعالیٰ مزید دلائل بیان فرما کر پھر اس سے احیاء موتی کا اثبات فرما رہا ہے۔ بشرا بشیر کی جمع ہے، رحمۃ سے مراد یہاں مطر بارش ہے یعنی بارش سے پہلے وہ ٹھنڈی ہوائیں چلاتا ہے جو بارش کی نوید ہوتی ہیں۔ 157۔ 2 بھاری بادل سے مراد پانی سے بھرے ہوئے بادل ہیں۔ 57۔ 3 ہر قسم کے پھل، جو رنگوں میں، ذائقوں میں، خوشبوؤں میں اور شکل و صورت میں ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ 57۔ 4 جس طرح ہم پانی کے ذریعے مردہ زمین روئیدگی پیدا کردیتے ہیں اور وہ انواع و اقسام کے غلہ اور پھل پیدا کرتی ہے۔ اسی طرح قیامت والے دن تمام انسانوں کو، جو مٹی میں مل کر مٹی ہوچکے ہونگے ہم دوبارہ زندہ کریں گے اور پھر ان کا حساب لیں گے۔
[٦٠] خوف اور طمع سے پکارنے کا مطلب یہ ہے کہ اپنی تمام امیدیں اللہ سے وابستہ رکھے اور اس کی رحمت سے کبھی مایوس نہ ہو اور ڈرنا اس بات سے چاہیے کہ کسی غلطی یا تقصیر کی وجہ سے کہیں اللہ کی بارگاہ میں مردود ہی نہ جاؤں۔ دونوں پہلوؤں کو بہرحال ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ تاہم اللہ سے حسن ظن کا پہلو غالب رہنا چاہیے جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے :- جابر بن عبداللہ انصاری کہتے ہیں کہ آپ نے اپنی وفات سے تین دن پہلے فرمایا تم میں سے ہر شخص کو مرتے وقت اللہ سے حسن ظن رکھنا ضروری ہے۔ (مسلم۔ کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمھا باب الامر بحسن ظن باللہ تعالیٰ )- [٦١] مردہ زمین کی زندگی سے بعث بعد الموت پر استدلال :۔ اکثر دہریت پسندوں اور مشرکین مکہ کی دوسری زندگی کے انکار پر یہ دلیل ہوا کرتی کہ ہر چیز جو زمین میں چلی جاتی ہے مٹی میں مل کر مٹی ہوجاتی ہے پھر دوبارہ ہم کس طرح اٹھا کھڑے کیے جائیں گے اس آیت میں ایسے لوگوں کی دلیل کا رد پیش کیا جا رہا ہے مثلاً یہ کہ ہر چیز جو زمین میں چلی جائے وہ مٹی نہیں ہوجاتی بلکہ مناسب موقع اور احوال سے اس میں زندگی پیدا ہوجاتی ہے۔ اس کی ایک مثال تو غلے کا دانہ ہے جو زمین میں دبا دیا جاتا ہے اور جب اس کی مناسب آبیاری کی جاتی ہے اور موسم موافق ہوتا ہے تو اگ آتا ہے مٹی میں مل کر مٹی نہیں ہوجاتا اور دوسری مثال یہ ہے کہ ایک زمین مدتوں سے بےکار اور بنجر پڑی ہے اس پر باران رحمت کا نزول ہوتا ہے تو جس جس درخت کے بیج اس میں کسی وقت گرے تھے اس مردہ زمین سے ان پھلوں کے بیجوں سے ان کے درخت اگ آتے ہیں وہ پڑے ہوئے بیج اس طویل مدت میں مٹی میں مل کر مٹی نہیں ہوگئے اور اگر ہو بھی گئے تھے تو مناسب حالات ملنے پر اگ آئے۔ مردہ بیجوں میں زندگی پیدا ہوگئی اور مردہ زمین میں بھی بارش سے زندگی پیدا ہوگئی کہ اس سے مختلف قسم کے پھل اور طرح طرح کی نباتات پیدا ہونے لگیں اسی طرح انسانی جسم مٹی میں مل کر مٹی ہو بھی جائے تو بھی مناسب حالات ملنے پر اس میں زندگی کے آثار پیدا ہوجائیں گے اور انسان کی دوبارہ زندگی کے لیے مناسب وقت نفخہ ئصور ثانی ہے اور حدیث میں آتا ہے کہ انسان کا جسم مٹی میں مل کر مٹی بن جاتا ہے صرف اس کی ریڑھ کی ہڈی کی دم جسے عجب الذنب کہتے ہیں باقی رہے گی اور یہی ہڈی بیج کا کام دے گی۔ نیز حدیث میں آیا ہے کہ جب صور میں دوسری بار پھونکا جائے گا تو لوگ زمین سے اس طرح اگ آئیں گے جیسے بارش سے نباتات اگ آتی ہے اور یہی اس آیت کا مطلب ہے۔
وَهُوَ الَّذِيْ يُرْسِلُ الرِّيٰحَ بُشْرًۢا : ” بُشْرًۢا “ یہ ” بَشِیْرٌ“ کی جمع ہے، یہ وزن مذکر و مؤنث دونوں کے لیے آتا ہے، یعنی ” مُبَشِّرَاتٌ“ خوش خبری دینے والیاں۔ ” رَحْمَتِہٖ “ سے مراد یہاں بارش ہے۔ دیکھیے سورة شوریٰ (٢٨) اور سورة روم (٤٦) ” ثِقَالًا “ یہ ” ثَقِیْلٌ“ کی جمع ہے، یعنی پانی کی کثرت سے بھاری۔ ” لِبَلَدٍ مَّيِّتٍ “ مردہ شہر، یعنی جس زمین میں کوئی پودا نہیں اور نہ چرنے ہی کی کوئی چیز ہے۔ - كَذٰلِكَ نُخْرِجُ الْمَوْتٰى۔۔ : بارش کے ساتھ مردہ زمین کی زندگی کو آخرت میں مردوں کو زندہ کرنے کی دلیل کے طور پر پیش فرمایا ہے، یعنی جس ذات پاک نے مردہ زمین کو دم بھر میں زندہ کردیا وہ انسانوں کو بھی ان کے مرجانے کے بعد دوبارہ زندہ کرسکتی ہے۔ اس سے اللہ تعالیٰ کی عظمت و قدرت کا اندازہ ہوتا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ آسمان سے بارش نازل فرمائے گا جس سے لوگوں کے جسم اس طرح ( زمین سے) اگ پڑیں گے جس طرح سبزی اگتی ہے۔ “ - [ مسلم، الفتن و أشراط الساعۃ، باب ما بین النفختین : ٢٩٥٥، عن أبی ہریرہ (رض) ]
خلاصہ تفسیر - اور وہ (اللہ) ایسا ہے کہ اپنی باران رحمت سے پہلے ہواؤں کو بھیجتا ہے کہ وہ (بارش کی امید دلا کر دل کو) خوش کردیتی ہیں یہاں تک کہ جب وہ ہوائیں بھاری بادلوں کو اٹھا لیتی ہیں تو ہم اس بادل کو کسی خشک زمین کی طرف ہانک لے جاتے ہیں، پھر اس بادل سے پانی برساتے ہیں، پھر اس پانی سے ہر قسم کے پھل نکالتے ہیں، (جس سے اللہ تعالیٰ کی توحید اور قدرت مطلقہ مردوں کو زندہ کرنے کی ثابت ہوتی ہے، اس لئے فرمایا) یوں ہی (قیامت کے روز) ہم مردوں کو (زمین سے) نکال کھڑا کریں گے (یہ سب اس لئے سنایا) تاکہ تم سمجھو (اور قرآن اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہدایت اگرچہ سب کے لئے عام ہے مگر اس سے فائدہ اٹھانے والے کم لوگ ہوتے ہیں اس کی مثال اسی بارش سے سمجھ لو کہ بارش تو ہر زمین پر برستی ہے، مگر کھیتی اور درخت ہر جگہ نہیں پیدا ہوتے صرف ان زمینوں میں پیدا ہوتے ہیں جن میں صلاحیت ہے، اسی لئے فرمایا کہ) جو زمین ستھری ہوتی ہے اس کی پیداوار تو خدا کے حکم سے خوب نکلتی ہے اور جو خراب ہے اس کی پیداوار (اگر نکلی بھی تو) بہت کم نکلتی ہے اسی طرح ہم (ہمیشہ) دلائل کو طرح طرح سے بیان کرتے رہتے ہیں (مگر وہ سب) انہی لوگوں کیلئے (نافع ہوتے ہیں) جو ( ان کی) قدر کرتے ہیں۔- معارف و مسائل - سابقہ آیات میں حق تعالیٰ نے اپنی خاص خاص اور بڑی بڑی نعمتوں کا ذکر فرمایا ہے، جس میں آسمان زمین، رات دن، چاند سورج اور عام ستاروں کی پیدائش اور ان کا انسان کی ضرورت مہیا کرنے اور اس کی خدمت میں لگے رہنے کا تذکرہ کرکے اس پر تنبیہ فرمائی ہے کہ جب ہماری ساری ضروریات اور ساری راحتوں کا سامان کرنے والی ایک ذات پاک ہے، تو ہر حاجت و ضرورت میں ہمیں دعا و درخواست بھی اسی سے کرنا چاہئے، اور اسی کی طرف رجوع کرنے کو اپنے لئے کلید کامیابی سمجھنا چاہئے۔- مذکور الصدر آیات میں سے پہلی آیت میں بھی اسی قسم کی اہم اور بڑی نعمتوں کا ذکر ہے، جن پر انسان اور زمین کی کل مخلوقات کی حیات وبقاء کا مدار ہے، مثلاً بارش اور اس سے پیدا ہونے والے درخت اور کھیتیاں، ترکاریاں وغیرہ، فرق یہ ہے کہ پچھلی آیات میں نعمتوں کا ذکر تھا، جو عالم علوی سے متعلق ہیں، اور اس میں ان نعمتوں کا تذکرہ ہے جو عالم سفلی سے متعلق ہیں (بحر محیط)- اور دوسری آیت میں ایک خاص بات یہ بتلائی گئی ہے کہ ہماری یہ عظیم الشان نعمتیں اگرچہ زمین کے ہر حصہ پر عام ہیں، بارش جب برستی ہے تو دریا پر بھی برستی ہے پہاڑ پر بھی، بنجر اور خراب زمین اور عمدہ اور بہتر زمین سب پر یکساں برستی ہے، لیکن کھیتی، درخت، سبزی صرف اسی زمین میں پیدا ہوتی ہے جس میں اگانے کی صلاحیت ہے، پتھریلی اور ریتلی زمینیں اس بارش کے فیض سے مستفید نہیں ہوتیں۔- پہلی آیت سے یہ نتیجہ نکال کر بتلایا گیا کہ جو ذات پاک مردہ زمین میں نشوونما کی زندگی عطا فرما دیتی ہے، اس کے لئے یہ کیا مشکل ہے کہ جو انسان پہلے سے زندہ تھے پھر مرگئے، ان میں دوبارہ زندگی پیدا فرما دے، اسی نتیجہ کو اس آیت میں واضح طور پر بتلا دیا گیا، اور دوسری آیت سے یہ نتیجہ نکالا گیا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والی ہدایت، آسمانی کتابیں اور انبیاء (علیہم السلام) پھر ان کے نائب، علماء و مشائخ کی تعلیم و تربیت بھی بارش کی طرح ہر انسان کے لئے عام ہے، مگر جس باران رحمت سے ہر زمین فائدہ نہیں اٹھاتی، اسی طرح اس روحانی بارش کا فائدہ بھی صرف وہی لوگ حاصل کرتے ہیں جن میں یہ صلاحیت ہے، اور جن لوگوں کے قلوب پتھریلی یا ریتلی زمین کی طرح نشوونما کی قابلیت نہیں رکھتے وہ تمام واضح ہدایات اور آیات بینات کے باوجود اپنی گمراہی پر جمے رہتے ہیں۔ - اس نتیجہ کی طرف دوسری آیت کے آخری جملہ سے اشارہ فرمایا (آیت) كَذٰلِكَ نُصَرِّفُ الْاٰيٰتِ لِقَوْمٍ يَّشْكُرُوْنَ ، یعنی ہم اسی طرح اپنے دلائل کو طرح طرح سے بیان کرتے ہیں ان لوگوں کے لئے جو قدر کرتے ہیں، مطلب یہ ہے کہ اگرچہ فی الواقع یہ بیان تو سب ہی کے لئے تھا مگر نتیجہ کے طور پر مفید ہونا، انہی لوگوں کے لئے ثابت ہوا جن میں اس کی صلاحیت ہے، اور وہ اس کی قدر و منزلت پہچانتے ہیں، اس طرح مذکورہ دو آیتیں مبدا و معاد کے اہل مسائل پر مشتمل ہوگئیں، اب ان دونوں آیتوں کو تفصیل کے ساتھ سمجھنے کے لئے سنئے پہلی آیت میں ارشاد ہے (آیت) وَهُوَ الَّذِيْ يُرْسِلُ الرِّيٰحَ بُشْرًۢا بَيْنَ يَدَيْ رَحْمَتِهٖ ، اس میں ریاح ریح کی جمع ہے جس کے معنی ہیں ہوا، اور بشرا کے معنی بشارت اور خوش خبری، اور رحمت سے مراد باران رحمت ہے یعنی اللہ تعالیٰ ہی ہے جو بھیجتا ہے باران رحمت سے پہلے ہوائیں خوش خبری دینے کے لئے۔- مطلب یہ ہے کہ عام عادة اللہ یہ ہے کہ بارش سے پہلے ایسی ٹھنڈی ہوائیں بھیجتے ہیں جن سے خود بھی انسان کو راحت و بشاشت ہوتی ہے، اور وہ گویا آنے والی بارش کی خبر بھی پہلے دیدیتی ہیں، اس لیے یہ ہوائیں دو نعمتوں کا مجموعہ ہے، خود بھی انسان اور عام مخلوقات کے لئے نافع و مفید ہیں، اور بارش کے آنے سے پہلے بارش کی وجہ سے بند ہوجاتی ہیں، جب بارش کی اطلاع کچھ پہلے مل جائے تو وہ اپنا انتظام کرلیتا ہے، اس کے علاوہ خود اس کا وجود اور اس کا سامان بارش کا متحمل نہیں، وہ بارش کے آثار دیکھ کر اپنے سامان اور اپنی جان کی حفاظت کا سامان کرلیتا ہے۔- اس کے بعد فرمایا : حَتّٰى اِذَآ اَقَلَّتْ سَحَابًا ثِقَالًا کے معنی بادل اور ثقال ثقیل کی جمع ہے، جس کے معنی ہیں بھاری، یعنی جب وہ ہوائیں بھاری بادلوں کو اٹھا لیتی ہیں بھاری بادلوں سے مراد پانی سے بھرے ہوئے بادل ہیں، جو ہوا کے کاندھوں پر سوار ہو کر اوپر جاتے ہیں، اور اس طرح یہ ہزاروں من کا وزنی پانی ہوا پر سوار ہو کر اوپر پہنچ جاتا ہے، اور حیرت انگیز یہ بات ہے کہ نہ اس میں کوئی مشین کام کرتی ہے نہ کوئی انسان اس میں محنت کرتا ہے، جب اللہ تعالیٰ کا حکم ہوجاتا ہے تو خود بخود دریا سے بخارات (مان سون) اٹھنا شروع ہوجاتے ہیں، اور اوپر جاکر بادل بنتا ہے، اور یہ ہزاروں بلکہ لاکھوں گیلن پانی سے بھرا ہو جہاز خود بخود ہوا کے دوش پر سوار ہو کر آسمان کی طرف چڑھتا ہے۔ - اس کے بعد فرمایا : سُقْنٰهُ لِبَلَدٍ مَّيِّتٍ ، سَوق کے معنی کسی جانور کو ہانکنے اور چلانے کے ہیں، اور بَلَد کے معنی شہر اور بستی کے ہیں، میّت کے معنی مردہ۔- معنی یہ ہیں کہ ” جب ہواؤں نے بھاری بادلوں کو اٹھا لیا تو ہم نے ان بادلوں کو ہانک دیا، ایک مرے ہوئے شہر کی طرف “۔ مرے ہوئے شہر سے مراد وہ بستی ہے جو پانی نہ ہونے کے سبب ویران ہو رہی ہے، اور اس جگہ بجائے عام زمین کے خصوصیت سے شہر اور بستی کا ذکر کرنا اس لئے مناسب معلوم ہوا کہ اصل مقصد برق و باراں اور ان سے زمین کی سیرانی کا انسان کی ضروریات مہیا کرنا ہے جس کا مسکن شہر ہے، ورنہ جنگل کی سرسبزی خود کوئی مقصد نہیں۔- یہاں تک آیت مذکورہ کے مضمون سے چند اہم چیزیں ثابت ہوئیں، اول یہ کہ بارش بادلوں سے برستی ہے جیسا کہ مشاہدہ ہے، اس سے معلوم ہوا کہ جن آیات میں آسمان سے بارش برسنا مذکور ہے، وہاں بھی لفظ سماء سے بادل مراد ہے، اور یہ بھی کچھ بعید نہیں کہ کسی وقت دریائی مان سون کی بجائے براہ راست آسمان سے بادل پیدا ہوجائیں اور ان سے بارش ہوجائے۔- دوسرے یہ کہ بادلوں کا کسی خاص سمت اور خاص زمین کی طرف جانا یہ براہ راست حکم خداوندی سے متعلق ہے وہ جب چاہتے ہیں جہاں چاہتے ہیں جس قدر چاہتے ہیں بارش برسانے کا حکم دیدیتے ہیں، بادل فرمان الٓہی کی تعمیل کرتے ہیں۔ - اس کا مشاہدہ ہر جگہ اس طرح ہوتا رہتا ہے کہ بسا اوقات کسی شہر یا بستی پر بادل چھایا رہتا ہے، اور وہاں بارش کی ضرورت بھی ہوتی ہے لیکن وہ بادل یہاں ایک قطرہ پانی کا نہیں دیتا، بلکہ جس شہر یا بستی کا کوٹہ بحکم الٓہی مقرر ہوچکا ہے وہیں جاکر برستا ہے، کسی کی مجال نہیں کہ اس شہر کے علاوہ کسی اور جگہ اس بادل کا پانی حاصل کرلے۔- قدیم و جدید فلاسفہ نے مان سون اور ہواؤں کی حرکت کے لئے کچھ ضابطے اور اصول نکال رکھے ہیں، جن کے ذریعہ وہ بتلاتے ہیں کہ فلاں مان سون جو فلاں سمندر سے اٹھا ہے کس طرف جائے گا، کہاں جاکر برسے گا، کتنا پانی برسائے گا، عام ممالک میں موسمیات کے محکمے اسی قسم کی معلومات مہیا کرنے کے لئے قائم کئے جاتے ہیں، لیکن تجربہ شاہد ہے کہ محکمہ موسمیات کی دی ہوئی خبریں بکثرت غلط ہوجاتی ہیں، اور جب امر الٓہی ان کے خلاف ہوتا ہے تو ان کے سارے ضابطے قاعدے دھرے رہ جاتے ہیں، ہوائیں اور مان سون اپنا رخ ان کی دی ہوئی خبروں کے خلاف کسی دوسرے سمت کو پھیر لیتی ہیں، اور موسمیات کے محکمے دیکھتے رہ جاتے ہیں۔- اس کے علاوہ جو ضابطے قاعدے ہواؤں کی حرکت کے لئے فلاسفہ نے تجویز کئے ہیں وہ بھی کچھ اس کے منافی نہیں ہیں کہ بادلوں کا حمل و نقل فرمان الٓہی کے تابع ہے، کیونکہ عادت اللہ تعالیٰ کی اس عالم کے تمام کاروبار میں یہی ہے کہ حکم خداوندی اسباب طبیعہ کے پردوں میں ظاہر ہوتا ہے، ان اسباب طبیعہ سے انسان کوئی ضابطہ قاعدہ بنا لیتا ہے، ورنہ حقیقت وہی ہے جو حافظ شیرازی رحمة اللہ علیہ نے بتلائی ہے کہ - کار زلف تست مشک افشانی اماّ عاشقاں مصلحت راتہمتی برآ ہوئے چیں بستہ اند - اس کے بعد ارشاد فرمایا (آیت) فَاَنْزَلْنَا بِهِ الْمَاۗءَ فَاَخْرَجْنَا بِهٖ مِنْ كُلِّ الثَّمَرٰتِ یعنی ہم نے اس مردہ شہر میں پانی برسایا پھر اس پانی سے ہر قسم کے پھل پھول نکالے۔ - آخر آیت میں ارشاد فرمایا کذلک نخرج، ” یعنی ہم اسی طرح نکالیں گے مردوں کو قیامت کے روز، شاید تم سمجھو “۔ مطلب یہ ہے کہ جس طرح ہم نے مردہ زمین کو زندہ کیا اور اس میں سے درخت اور پھل پھول نکالے اسی طرح بروز قیامت مردوں کو دوبارہ زندہ کرکے نکال کھڑا کریں گے، اور یہ مثالیں ہم نے اس لئے بیان کی ہیں کہ تمہیں سوچنے اور غور کرنے کا موقع ملے۔- بروایت حضرت ابوہریرہ (رض) منقول ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ قیامت میں صور دو مرتبہ پھونکا جائے گا، پہلے صور پر تمام عالم فنا ہوجائے گا کوئی چیز زندہ باقی نہ رہے گی، اور دوسری صور پر پھر از سر نو نیا عالم پیدا ہوگا، اور سب مردے زندہ ہوجائیں گے، حدیث مذکور میں ہے کہ ان دونوں مرتبہ کے صور کے درمیان چالیس سال کا فاصلہ ہوگا، اور ان چالیس سال میں مسلسل بارش ہوتی رہے گی، اسی عرصہ میں ہر مردہ انسان اور جانور کے اجزاء بدن اس کے ساتھ جمع کرکے ہر ایک کا مکمل ڈھانچہ بن جائے گا، اور پھر دوسری مرتبہ صور پھونکنے کے وقت ان لاشوں کے اندر روح آجائے گی، اور زندہ ہو کر کھڑے ہوجائیں گے، اس روایت کا اکثر حصہ بخاری و مسلم میں موجود ہے، بعض اجزاء ابن ابی داؤد کی کتاب البعث سے لئے گئے ہیں۔
وَالْبَلَدُ الطَّيِّبُ يَخْرُجُ نَبَاتُہٗ بِـاِذْنِ رَبِّہٖ ٠ ۚ وَالَّذِيْ خَبُثَ لَا يَخْرُجُ اِلَّا نَكِدًا ٠ ۭ كَذٰلِكَ نُصَرِّفُ الْاٰيٰتِ لِقَوْمٍ يَّشْكُرُوْنَ ٥٨ ۧ- نبت - النَّبْتُ والنَّبَاتُ : ما يخرج من الأرض من النَّامِيات، سواء کان له ساق کا لشجر، أو لم يكن له ساق کالنَّجْم، لکن اختَصَّ في التَّعارُف بما لا ساق له، بل قد اختصَّ عند العامَّة بما يأكله الحیوان، وعلی هذا قوله تعالی: لِنُخْرِجَ بِهِ حَبًّا وَنَباتاً [ النبأ 15] ومتی اعتبرت الحقائق فإنّه يستعمل في كلّ نام، نباتا کان، أو حيوانا، أو إنسانا، والإِنْبَاتُ يستعمل في كلّ ذلك . قال تعالی: فَأَنْبَتْنا فِيها حَبًّا وَعِنَباً وَقَضْباً وَزَيْتُوناً وَنَخْلًا وَحَدائِقَ غُلْباً وَفاكِهَةً وَأَبًّا[ عبس 27- 31]- ( ن ب ت ) النبت والنبات - ۔ ہر وہ چیز جو زمین سے اگتی ہے ۔ اسے نبت یا نبات کہا جاتا ہے ۔ خواہ وہ تنہ دار ہو جیسے درخت ۔ یا بےتنہ جیسے جڑی بوٹیاں لیکن عرف میں خاص کر نبات اسے کہتے ہیں ہیں جس کے تنہ نہ ہو ۔ بلکہ عوام تو جانوروں کے چاراہ پر ہی نبات کا لفظ بولتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ لِنُخْرِجَ بِهِ حَبًّا وَنَباتاً [ النبأ 15] تاکہ اس سے اناج اور سبزہ پیدا کریں ۔ میں نبات سے مراد چارہ ہی ہے ۔ لیکن یہ اپانے حقیقی معنی کے اعتبار سے ہر پڑھنے والی چیز کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور بناتات حیوانات اور انسان سب پر بولاجاتا ہے ۔ اور انبات ( افعال ) کا لفظ سب چیزوں کے متعلق اسستعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ فَأَنْبَتْنا فِيها حَبًّا وَعِنَباً وَقَضْباً وَزَيْتُوناً وَنَخْلًا وَحَدائِقَ غُلْباً وَفاكِهَةً وَأَبًّا[ عبس 27- 31] پھر ہم ہی نے اس میں اناج اگایا ور انگور اور ترکاری اور زیتون اور کھجوریں اور گھنے گھے باغ ور میوے ور چارہ ۔ - خبث - الخُبْثُ والخَبِيثُ : ما يكره رداءة وخساسة، محسوسا کان أو معقولا، وأصله الرّديء الدّخلة الجاري مجری خَبَثِ الحدید، وذلک يتناول الباطل في الاعتقاد، والکذب في المقال، والقبیح في الفعال، قال عزّ وجلّ : وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبائِثَ [ الأعراف 157] ، أي : ما لا يوافق النّفس من المحظورات، وقوله تعالی: وَمَثَلُ كَلِمَةٍ خَبِيثَةٍ كَشَجَرَةٍ خَبِيثَةٍ [إبراهيم 26] ، فإشارة إلى كلّ كلمة قبیحة من کفر وکذب ونمیمة وغیر ذلك، وقال صلّى اللہ عليه وسلم : «المؤمن أطيب من عمله، والکافر أخبث من عمله» «1» ويقال : خبیث مُخْبِث، أي : فاعل الخبث .- ( خ ب ث )- المخبث والخبیث ۔ ہر وہ چیز جو دری اور خسیں ہونے کی وجہ سے بری معلوم ہو خواہ وہ چیز محسوسات سے ہو یا معقولات ( یعنی عقائد و خیالات ) سے تعلق رکھتی ہو اصل میں خبیث روی اور ناکارہ چیز کو کہتے ہیں جو بمنزلہ لو ہے کی میل کے ہو ۔ اس اعتبار سے یہ اعتقاد باطل کذب اور فعل - قبیح سب کو شامل ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبائِثَ [ الأعراف 157] اور ناپاک چیزوں کو ان پر حرام ٹھہراتے ہیں ۔ یعنی محظورات جو طبیعت کے ناموافق ہیں ۔ آیت :۔ وَمَثَلُ كَلِمَةٍ خَبِيثَةٍ كَشَجَرَةٍ خَبِيثَةٍ [إبراهيم 26] اور ناپاک بات کی مثال ناپاک درخت کی سی ہے ۔ میں کفر ، جھوٹ ، چغلی ہر قسم کی قبیح باتیں داخل ہیں حدیث میں ہے :۔ المومن اطیب من عملہ والکافر اخبث من عملہ ۔ کہ مومن اپنے عمل سے پاک اور کافر اپنے عمل سے ناپاک ہے ۔ اور خبیث ومخبث خبث کے مرتکب کو بھی کہا جاتا ہے ۔- نكد - النَكَدُ : كُلُّ شيءٍ خَرَجَ إلى طالبِهِ بتعسُّر، يقال : رَجُلٌ نَكَدٌ ونَكِدٌ ، ونَاقَةٌ نَكْدَاءُ : طَفِيفَةُ الدَّرِّ صَعْبَةُ الحَلْبِ. قال تعالی: وَالَّذِي خَبُثَ لا يَخْرُجُ إِلَّا نَكِداً [ الأعراف 58]- ( ن ک د ) النکد ہر وہ چیز جو صعوبت سے حاصل ہو اسی سے سخت خوکر جو سائل کو مشکل کچھ دینے پر راضی ہو ۔ نکد ونکدا کہا جاتا ہے اور کم دودھ والی اونٹنی کو جو بمشکل دو ہی جاسکے ناقۃ نکداء کہتے ہیں قرآن پاک میں ہے : ۔ وَالَّذِي خَبُثَ لا يَخْرُجُ إِلَّا نَكِداً [ الأعراف 58] اور جو خراب ہے اس میں سے جو کچھ نکلتا ہے ناقص ہوتا ہے ۔- شكر - الشُّكْرُ : تصوّر النّعمة وإظهارها، قيل : وهو مقلوب عن الکشر، أي : الکشف، ويضادّه الکفر، وهو : نسیان النّعمة وسترها۔ - والشُّكْرُ ثلاثة أضرب :- شُكْرُ القلب، وهو تصوّر النّعمة .- وشُكْرُ اللّسان، وهو الثّناء علی المنعم .- وشُكْرُ سائر الجوارح، وهو مکافأة النّعمة بقدر استحقاقه .- وقوله تعالی: اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ 13] ،- ( ش ک ر ) الشکر - کے معنی کسی نعمت کا تصور اور اس کے اظہار کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ کشر سے مقلوب ہے جس کے معنی کشف یعنی کھولنا کے ہیں ۔ شکر کی ضد کفر ہے ۔ جس کے معنی نعمت کو بھلا دینے اور اسے چھپا رکھنے کے ہیں - شکر تین قسم پر ہے - شکر قلبی یعنی نعمت کا تصور کرنا شکر لسانی یعنی زبان سے منعم کی تعریف کرنا شکر بالجوارح یعنی بقدر استحقاق نعمت کی مکافات کرنا ۔ اور آیت کریمہ : اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ 13] اسے داود کی آل میرا شکر کرو ۔
(٥٧) وہ بارش سے قبل ہوا کو خوشی کا باعث بنا کر بھیجتا ہے جب وہ ہوائیں ایسے بادلوں کو جو پانی سے وزنی ہوں اٹھالیتی ہیں، پھر ہم ایسی جگہ پر جہاں سبزہ نہیں ہوتا، اسے برسادیتے ہیں اور اس بارش کے ذریعے اس جگہ مختلف قسموں کے پھل اگاتے ہیں۔- جیسا کہ ہم چٹیل زمین میں سبزیاں اگاتے ہیں، اسی طرح ہم مردوں کو قبروں سے نکال کھڑا کریں گے تاکہ تم لوگ نصیحت حاصل کرو۔
آیت ٥٧ (وَہُوَ الَّذِیْ یُرْسِلُ الرِّیٰحَ بُشْرًام بَیْنَ یَدَیْ رَحْمَتِہٖ ط) ۔ - یعنی ابر رحمت سے پہلے ہواؤں کے ٹھنڈے جھونکے گویا بشارت دے رہے ہوتے ہیں کہ بارش آنے والی ہے۔ اس کیفیت کا صحیح ادراک کرنے کے لیے کسی ایسے خطے کا تصور کیجیے جہاں زمین مردہ اور بےآب وگیاہ پڑی ہے ‘ لوگ آسمان کی طرف نظریں لگائے بارش کے منتظر ہیں۔ اگر وقت پر بارش نہ ہوئی تو بیج اور محنت دونوں ضائع ہوجائیں گے۔ ایسے میں ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا کے جھونکے جب باران رحمت کی نوید سناتے ہیں تو وہاں کے باسیوں کے لیے اس سے بڑی بشارت اور کیا ہوگی۔- (حَتّٰیٓ اِذَآ اَقَلَّتْ سَحَابًا ثِقَالاً ) - یہ بادل کس قدر بھاری ہوتے ہوں گے ‘ ان کا وزن انسانی حساب و شمار میں آنا ممکن نہیں۔ اللہ کی قدرت اور اس کی حکمت کے سبب لاکھوں ٹن پانی کو ہوائیں روئی کے گالوں کی طرح اڑائے پھرتی ہیں۔- (سُقْنٰہُ لِبَلَدٍ مَّیِّتٍ ) تو ہم ہانک دیتے ہیں اس (بادل) کو ایک مردہ زمین کی طرف - ہوائیں ہمارے حکم سے اس بادل کو کسی بےآب وگیاہ وادی کی طرف لے جاتی ہیں اور باران رحمت اس وادی میں ایک نئی زندگی کی نوید ثابت ہوتی ہے۔- (فَاَنْزَلْنَا بِہِ الْمَآءَ فَاَخْرَجْنَا بِہٖ مِنْ کُلِّ الثَّمَرٰتِ ط) - بارش کے بعد وہ خشک اور مردہ زمین گھاس ‘ فصلوں اور پھلدار پودوں کی روئیدگی کی شکل میں اپنے خزانے اگل دیتی ہے ۔- (کَذٰلِکَ نُخْرِجُ الْموْتٰی لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ ) ۔ - دراصل بادلوں اور ہواؤں کے مظاہر کی تفصیل بیان کر کے ایک عام ذہن کو تشبیہہ کے ذریعے سے بعث بعد الموت کی حقیقت کی طرف متوجہ کرنا مقصود ہے۔ یعنی مردہ زمین کو دیکھو اس کے اندر زندگی کے کچھ بھی آثار باقی نہیں رہے تھے ‘ حشرات الارض اور پرندے تک وہاں نظر نہیں آتے تھے ‘ اس زمین کے باسی بھی مایوس ہوچکے تھے ‘ لیکن اس مردہ زمین پر جب بارش ہوئی تو یکا یک اس میں زندگی پھر سے عود کر آئی اور وہ دیکھتے ہی دیکھتے ع مگر اب زندگی ہی زندگی ہے موجزن ساقی کی مجسم تصویر بن گئی۔ بنجر زمین ہریالی کی سبز پوشاک پہن کر دلہن کی طرح سج گئی۔ حشرات الارض کا اژدہام پرندوں کی زمزمہ پردازیاں اس کے باسیوں کی رونقیں گویا بارش کے طفیل زندگی پوری چہل پہل کے ساتھ وہاں جلوہ گر ہوگئی۔ اس آسان تشبیہہ سے ایک عام ذہنی استعداد رکھنے والے انسان کو حیات بعد الموت کی کیفیت آسانی سے سمجھ میں آ جانی چاہیے کہ زمین کے اندر پڑے ہوئے مردے بھی گویا بیجوں کی مانند ہیں۔ جب اللہ کا حکم آئے گا ‘ یہ بھی نباتات کی مانند پھوٹ کر باہر نکل آئیں گے۔
33: یعنی جس طرح اللہ تعالیٰ ایک مردہ زمین میں جان ڈال دیتا ہے اسی طرح وہ مردہ انسانوں میں بھی جان ڈالنے پر قادر ہے، مردہ زمین کے زندہ ہونے کے واقعات تم روز مرہ دیکھتے ہو اور یہ بھی مانتے ہو کہ یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت سے ہوتا ہے اس سے تمہیں سبق لینا چاہئے کہ انسانوں کو دوبارہ زندگی دینے کو اللہ تعالیٰ کی قدرت سے باہر سمجھنا کتنی بڑی بے وقوفی ہے۔