58۔ 1 علاوہ ازیں یہ تمثیل بھی ہوسکتی ہے۔ اَلْبَلَدُ الطَّیِّبُ سے مراد سریع الفہم اور اَلْبَلَدُ الطَّیِّبُ سے کند ذہن، وعظ و نصیحت قبول کرنے والا دل اور اس کے برعکس دل۔ قلب مومن یا قلب منافق یا پاکیزہ انسان اور ناپاک انسان مومن، پاکیزہ انسان اور وعظ و نصحت قبول کرنے والا دل بارش کو قبول کرنے والی زمین کی طرح، آیات الٰہی کو سن کر ایمان و عمل صالح میں مزید پختہ ہوتا ہے اور دوسرا دل اس کے برعکس زمین شور کی طرح ہے جو بارش کا پانی قبول ہی نہیں کرتی یا کرتی ہے تو برائے نام جس سے پیداوار بھی نکمی اور برائے نام ہوتی ہے۔ اسی کو ایک حدیث میں اس طرح بیان کیا گیا ہے۔ رسول اللہ نے بیان فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے علم ہدایت دے کر بھیجا ہے، اس کی مثال اس موسلا دھار بارش کی طرح ہے جو زمین پر برسی۔ اس کے جو حصے زرخیز تھے انہوں نے پانی کو اپنے اندر جذب کرکے چارہ اور گھاس خوب اگایا (یعنی بھرپور پیداوار دی) اور اس کے بعض حصے سخت تھے جنہوں نے پانی کو روک لیا (اندر جذب نہیں ہوا تاہم اس سے بھی لوگوں نے فائدہ اٹھایا، خود بھی پیا۔ کھیتوں کو بھی سیراب کیا اور کاشتکاری کی اور زمین کا کچھ حصہ بالکل چٹیل تھا، جس نے پانی روکا اور نہ کچھ کیا۔ پس یہ اس شخص کی مثال ہے جس نے اللہ کی دین میں سمجھ حاصل کی اور اللہ نے مجھے جس چیز کے ساتھ بھیجا اس سے اس نے نفع اٹھایا، پس خود بھی علم حاصل کیا اور دوسروں کو بھی سکھلایا اور مثال اس شخص کی بھی ہے جس نے کچھ نہیں سیکھا اور نہ وہ ہدایت ہی قبول کی جس کے ساتھ مجھے بھیجا گیا (صحیح بخاری)
[٦٢] معاشرے میں دو قسم کے لوگ :۔ سابقہ آیت میں مردہ زمین کے زندہ ہوجانے سے اخروی زندگی پر استدلال کیا گیا ہے اور اس آیت میں مختلف قسم کے لوگوں کے دلوں کی کیفیت کو زمین کے مختلف طبقات کے مانند قرار دے کر لوگوں کا حال بیان کیا جا رہا ہے یعنی جس طرح زمین کے بعض قطعات عمدہ زرخیز اور شاداب ہوتے ہیں اور بعض ردی ہوتے ہیں جن میں مفید نباتات کی بجائے جھاڑ جھنکار ہی پیدا ہوتا ہے حالانکہ ان سب پر بارش ایک ہی جیسی برستی ہے۔ اسی طرح لوگوں کی کیفیت ہے اور وحی الٰہی کی باران رحمت سے سلیم الفطرت لوگ تو خوب پھلتے پھولتے ہیں لیکن جن کے دلوں میں خبث بھرا ہوتا ہے۔ اس باران رحمت کے بعد ان کے اندر سے وہی خبث باطن جھاڑ جھنکار کی صورت اختیار کر کے باہر نکل آتا ہے اور انہیں اعتراضات اور استہزاء کے سوا کچھ سوجھتا ہی نہیں۔- اس مثال کے بعد اللہ تعالیٰ نے چند معروف انبیاء کی دعوت کا ذکر کر کے بتلایا کہ ان کی مخاطب قوم اسی طرح دو حصوں میں بٹ گئی ایک سلیم الفطرت لوگ تھے جو وحی الٰہی کی باران رحمت سے خوب برگ و بار لائے دوسرے خبیث سرشت والے، جن کے اندر کا کھوٹ اسی باران رحمت سے جھاڑ جھنکار کی صورت میں باہر نکل آیا۔ آخر کار اس خبیث عنصر کو اسی طرح چھانٹ کر پھینک دیا گیا جس طرح ایک مالی اپنے باغ سے جھاڑ جھنکار کو کاٹ کر پرے پھینک دیتا ہے۔
وَالْبَلَدُ الطَّيِّبُ يَخْرُجُ نَبَاتُهٗ ۔۔ : یہی مثال مومن اور کافر و منافق کے دل کی ہے، جیسا کہ تابعین سے مروی ہے۔ (شوکانی) ابو موسیٰ (رض) سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ نے مجھے جو علم و ہدایت دے کر بھیجا ہے اس کی مثال رحمت کی اس بارش کی ہے جو ایک زمین پر برسی، اس کے جو حصے زرخیز تھے انھوں نے پانی کو جذب کرلیا اور خوب گھاس اور چارا اگایا، بعض حصے سخت تھے، انھوں نے پانی کو روک لیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کے ساتھ لوگوں کو نفع دیا، چناچہ انھوں نے خود پیا اور پلایا اور کھیتوں کو سیراب کیا اور اس کا ایک حصہ ایک اور ٹکڑے پر برسا جو محض چٹیل میدان تھے، انھوں نے نہ پانی روکا اور نہ کوئی سبزہ اگایا، یہی مثال اس شخص کی ہے جس نے اللہ کے دین کو سمجھ کر اس سے دوسروں کو فائدہ پہنچایا اور اس شخص کی جس نے نہ اس کے ساتھ سر ہی اٹھایا ( نہ خود سمجھا) اور نہ اللہ کی وہ ہدایت قبول کی جو دے کر مجھے بھیجا گیا ہے۔ “ - [ بخاری، العلم، باب فضل من علم و علّم : ٧٩ ]- لِقَوْمٍ يَّشْكُرُوْنَ : اللہ تعالیٰ نے پچھلی آیت میں بارش کے ساتھ زمین کو زندہ کرنے کی مثال مردوں کو زندہ کرنے کے لیے بیان فرمائی، اس سے مقصود نصیحت حاصل کرنا ہے، اس لیے وہاں ” لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ “ فرمایا۔ اس آیت کا موضوع وحی الٰہی کا علم، اس پر عمل اور دعوت کا فائدہ اٹھانا ہے جس پر شکر لازم ٹھہرتا ہے، اس لیے یہاں ” لِقَوْمٍ يَّشْكُرُوْنَ “ فرمایا۔
دوسری آیت میں ارشاد ہے : (آیت) وَالْبَلَدُ الطَّيِّبُ يَخْرُجُ نَبَاتُهٗ بِاِذْنِ رَبِّهٖ ۚ وَالَّذِيْ خَبُثَ لَا يَخْرُجُ اِلَّا نَكِدًا، نَکِد کہتے ہیں اس چیز کو جو بےفائدہ بھی ہو اور پھر مقدار میں بھی قلیل ہو، معنی یہ ہیں کہ اگرچہ باران رحمت کا فیض ہر شہر ہر زمین پر یکساں ہوتا ہے، لیکن نتائج اور ثمرات کے اعتبار سے زمین کی دو قسمیں ہوتی ہیں، ایک عمدہ اور اچھی زمین جس میں نشوونما کی صلاحیت ہے، اس میں تو ہر طرح کے پھول پھل نکلتے ہیں اور فوائد حاصل ہوتے ہیں، دوسری وہ سخت یا کھاری زمین جس میں روئیدگی کی صلاحیت نہیں، اس میں اول تو کچھ پیدا ہی نہیں ہوتا، پھر اگر کچھ ہوا بھی تو وہ بہت کم مقدار میں ہوتا ہے، اور جتنا پیدا ہوتا ہے وہ بھی بیکار اور خراب ہوتا ہے۔- آخر آیت میں ارشاد فرمایا كَذٰلِكَ نُصَرِّفُ الْاٰيٰتِ لِقَوْمٍ يَّشْكُرُوْنَ ” یعنی ہم اپنے دلائل قدرت طرح طرح سے بیان کرتے ہیں، ان لوگوں کے لئے جو قدر کرنے والے ہیں “۔- اس میں اشارہ ہے کہ اگرچہ باران رحمت کے فیضان عام کی طرح ہدایت ربانی اور آیات بینات کا فیض بھی سب ہی انسانوں کے لئے عام ہے، مگر جس طرح ہر زمین بارش سے فائدہ نہیں اٹھاتی اسی طرح ہر انسان ہدایت ربانی سے نفع حاصل نہیں کرتا، بلکہ نفع صرف وہ لوگ حاصل کرتے ہیں جو شکر گزار اور قدر شناس ہیں۔
لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰي قَوْمِہٖ فَقَالَ يٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللہَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَيْرُہٗ ٠ ۭ اِنِّىْٓ اَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيْمٍ ٥٩- ( قَدْ )- : حرف يختصّ بالفعل، والنّحويّون يقولون : هو للتّوقّع . وحقیقته أنه إذا دخل علی فعل ماض فإنما يدخل علی كلّ فعل متجدّد، نحو قوله : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف 90] - وإذا دخل ( قَدْ ) علی المستقبَل من الفعل فذلک الفعل يكون في حالة دون حالة .- نحو : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور 63] ، أي : قد يتسلّلون أحيانا فيما علم اللہ .- و ( قَدْ ) و ( قط) يکونان اسما للفعل بمعنی حسب، يقال : قَدْنِي كذا، وقطني كذا، وحكي : قَدِي . وحكى الفرّاء : قَدْ زيدا، وجعل ذلک مقیسا علی ما سمع من قولهم : قدني وقدک، والصحیح أنّ ذلک لا يستعمل مع الظاهر، وإنما جاء عنهم في المضمر .- ( قد ) یہ حرف تحقیق ہے اور فعل کے ساتھ مخصوص ہے علماء نحو کے نزدیک یہ حرف توقع ہے اور اصل میں جب یہ فعل ماضی پر آئے تو تجدد اور حدوث کے معنی دیتا ہے جیسے فرمایا : قَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا [يوسف 90] خدا نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے اگر ، ، قد فعل مستقل پر داخل ہو تو تقلیل کا فائدہ دیتا ہے یعنی کبھی وہ فعل واقع ہوتا ہے اور کبھی واقع نہیں ہوتا اور آیت کریمہ : قَدْ يَعْلَمُ اللَّهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنْكُمْ لِواذاً [ النور 63] خدا کو یہ لوگ معلوم ہیں جو تم میں سے آنکھ بچا کر چل دیتے ہیں ۔ کی تقدیریوں ہے قد یتسللون احیانا فیما علم اللہ ( تو یہ بہت آیت بھی ماسبق کی طرح موؤل ہوگی اور قد کا تعلق تسلل کے ساتھ ہوگا ۔ قدوقط یہ دونوں اسم فعل بمعنی حسب کے آتے ہیں جیسے محاورہ ہے قد فی کذا اوقطنی کذا اور قدی ( بدون نون وقایہ ا کا محاورہ بھی حکایت کیا گیا ہے فراء نے قدنی اور قدک پر قیاس کرکے قدر زید ا بھی حکایت کیا ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ قد ( قسم فعل اسم ظاہر کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا بلکہ صرف اسم مضمر کے ساتھ آتا ہے ۔- نوح - نوح اسم نبيّ ، والنَّوْح : مصدر ناح أي : صاح بعویل، يقال : ناحت الحمامة نَوْحاً وأصل النَّوْح : اجتماع النّساء في المَنَاحَة، وهو من التّناوح . أي : التّقابل، يقال : جبلان يتناوحان، وریحان يتناوحان، وهذه الرّيح نَيْحَة تلك . أي : مقابلتها، والنَّوَائِح : النّساء، والمَنُوح : المجلس .- ( ن و ح ) نوح - ۔ یہ ایک نبی کا نام ہے دراصل یہ ناح ینوح کا مصدر ہے جس کے معنی بلند آواز کے ساتھ گریہ کرنے کے ہیں ۔ محاورہ ہے ناحت الحمامۃ نوحا فاختہ کا نوحہ کرنا نوح کے اصل معنی عورتوں کے ماتم کدہ میں جمع ہونے کے ہیں اور یہ تناوح سے مشتق ہے جس کے معنی ثقابل کے ہیں جیسے بجلان متنا وحان دو متقابل پہاڑ ۔ ریحان یتنا وحان وہ متقابل ہوائیں ۔ النوائع نوحہ گر عورتیں ۔ المنوح ۔ مجلس گریہ ۔- قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] - عبادت - العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] . والعِبَادَةُ ضربان :- عِبَادَةٌ بالتّسخیر، وهو كما ذکرناه في السّجود .- وعِبَادَةٌ بالاختیار، وهي لذوي النّطق، وهي المأمور بها في نحو قوله : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة 21] ، وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء 36] .- ( ع ب د ) العبودیۃ - کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ - عبادۃ دو قسم پر ہے - (1) عبادت بالتسخیر جسے ہم سجود کی بحث میں ذکر کرچکے ہیں (2) عبادت بالاختیار اس کا تعلق صرف ذوی العقول کے ساتھ ہے یعنی ذوی العقول کے علاوہ دوسری مخلوق اس کی مکلف نہیں آیت کریمہ : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة 21] اپنے پروردگار کی عبادت کرو ۔ وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء 36] اور خدا ہی کی عبادت کرو۔ میں اسی دوسری قسم کی عبادت کا حکم دیا گیا ہے ۔ - إله - جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة لاتخاذهم إياها معبودا . وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله»وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء 44] .- وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] - الٰہ - کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ - الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں - بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو - (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ : وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ - (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ - خوف - الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] - ( خ و ف ) الخوف ( س )- کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ - عذب - والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في - العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21]- واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر،- ( ع ذ ب )- العذاب - سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ - لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے - ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا
(٥٨) جو زمین بنجر نہیں ہوتی زرخیز ہوتی ہے اس میں اللہ کے حکم سے بغیر کسی مشکل کے خوب پیداوار ہوتی ہے اسی طرح خالص مومن احکام الہی خوش دلی کے ساتھ بجالاتا ہے اور جو جگہ خراب اور بنجر ہوتی ہے، وہاں پیداوار بہت مشکل سے اور کم ہوتی ہے اسی طرح منافق زبردستی اللہ تعالیٰ کے احکام کی کچھ بجا آوری کرتا ہے، ہم قرآن کریم میں مومنوں کے لیے منکروں اور ماننے والوں کی مثالیں بیان کرتے ہیں۔
آیت ٥٨ (وَالْبَلَدُ الطَّیِّبُ یَخْرُجُ نَبَاتُہٗ بِاِذْنِ رَبِّہٖج وَالَّذِیْ خَبُثَ لاَ یَخْرُجُ الاَّ نَکِدًا ط) ۔ - سرائیکی زبان میں ایک لفظ نکھد استعمال ہوتا ہے ‘ یہ اس عربی لفظ نَکِد سے ملتا جلتا ہے۔ یعنی بالکل ردی اور گھٹیا چیز۔- (کَذٰلِکَ نُصَرِّفُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّشْکُرُوْنَ ) - اللہ تعالیٰ اس قرآن کے ذریعے سے اپنی نشانیاں گوناگوں پہلوؤں سے نمایاں کرتا ہے تاکہ لوگ ان کو سمجھیں ‘ ان کو پہچانیں اور ان کی قدر کریں۔ یہ تصریف آیات اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان ہے بشرطیکہ اس کی قدر کرنے والے لوگ ہوں۔
سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :46 یہاں ایک لطیف مضمون ارشاد ہوا ہے جس پر متنبہ ہو جانا اصل مدعا کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے ۔ بارش اور اس کی برکتوں کے ذکر سے اس مقام پر خدا کی قدرت کا بیان اور حیات بعد الممات کا اثبات بھی مقصود ہے اور اس کے ساتھ ساتھ تمثیل کے پیرا یہ میں رسالت اور اس کی برکتوں کا اور اس کے ذریعہ سے خوب و زشت میں فرق اور خبیث و طیّب میں امتیاز نمایاں ہو جانے کا نقشہ دکھانا بھی پیش نظر ہے ۔ رسول کی آمد اور خدائی تعلیم و ہدایت کے نزول کو بارانی ہواؤں کے چلنے اور ابرِ رحمت کے چھا جانے اور امرت بھری بوندوں کے برسنے سے تشبیہ دی گئی ہے ۔ پھر بارش کے ذریدہ سے مردہ پڑی ہوئی زمین کےیکایک جی اُٹھنے اور اس کے بطن سے زندگی کے خزانے اُبل پڑنے کو اس حالت کے لیے بطور مثال پیش کیا گیا ہے جو نبی کی تعلیم و تربیت اور رہنمائی سے مردہ پڑی ہوئی انسانیت کے یکایک جاگ اُٹھنے اور اس کے سینے سے بھلائیوں کے خزانے اُبل پڑنے کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے اور پھر یہ بتا یا گیا ہے کہ جس طرح بارش کے نزول سے یہ ساری برکتیں صرف اسی زمین کو حاصل ہوتی ہیں جو حقیقت ذرخیز ہوتی ہے اور محض پانی نہ ملنے کی وجہ سےجس کی صلاحیتیں دبی رہتی ہیں ، اسی طرح رسالت کی ان برکتوں سے بھی صرف وہی انسان فائدہ اُٹھاتے ہیں جو حقیقت میں صالح ہوتے ہیں اور جن کی صلاحیتوں کو محض رہنمائی نہ ملنے کی وجہ سے نمایاں ہونے اور برسر کار آنے کا موقع نہیں ملتا ۔ رہے شرارت پسند اور خبیث انسان تو جس طرح شوریلی زمین بارانِ رحمت سے کوئی فائدہ نہیں اُٹھاتی بلکہ پانی پڑتے ہی اپنے پیٹ کے چھپے ہوئے زہر کو کانٹوں اور جھاڑیوں کی صورت میں اُگل دیتی ہے ، اسی طرح رسالت کے ظہور سے انہیں بھی کوئی نفع نہیں پہنچتا بلکہ اس کے برعکس ان کے اندر دبی ہوئی تمام خباثتیں اُبھر کر پوری طرف برسر کار آجاتی ہیں ۔ اسی تمثیل کو بعد کے کئی رکوعوں میں مسلسل تاریخی شواہد پیش کر کے واضح کیا گیا ہے کہ ہر زمانے میں نبی کی بعثت کے بعد انسانیت دو حِصّوں میں تقسیم ہوتی رہی ہے ۔ ایک طیّب حصہ جو فیضِ رسالت سے پھلا اور پھولا اور بہتر برگ و بار لایا ۔ دوسرا خبیث حصہ جس نے کسوٹی کے سامنے آتے ہی اپنی ساری کھوٹ نمایاں کر کے رکھ دی اور آخر کار اس کو ٹھیک اسی طرح چھانٹ کر پھینک دیا گیا جس طرح سنار چاندی سونے کے کھوٹ کو چھانٹ پھینکتا ہے ۔
34: اس میں ایک لطیف اشارہ اس طرف ہے کہ جس طرح اچھی زمین کی پیداوار بھی خوب ہوتی ہے اسی طرح جن لوگوں کے دل میں طلب کی پاکیزگی ہوتی ہے وہ اللہ تعالیٰ کے کلام سے خوب فائدہ اٹھاتے ہیں، اور جس طرح ایک خراب زمین پر بارش پڑنے کے باوجود اس سے کوئی فائدہ مند پیداوار حاصل نہیں ہوتی، اسی طرح جن لوگوں کے دل ضد اور عناد سے خراب ہوچکے ہیں ان کو اللہ تعالیٰ کے کلام سے بھی کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔