Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

پھر تذکرہ انبیاء چونکہ سورت کے شروع میں حضرت آدم علیہ السلام کا قصہ بیان ہوا تھا پھر اس کے متعلقات بیان ہوئے اور اس کے متصل اور بیانات فرما کر اب پھر اور انبیاء علیہم السلام کے واقعات کے بیان کا آغاز ہوا اور پے در پے ان کے بیانات ہوئے سب سے پہلے حضرت نوح علیہ السلام کا ذکر ہوا کیونکہ آدم علیہ السلام کے بعد سب سے پہلے پیغمبر اہل زمین کی طرف آپ ہی آئے تھے ۔ آپ نوح بن ملک بن مقوشلخ بن اخنوخ ( یعنی ادریس علیہ السلام یہی پہلے وہ شخص ہیں جنہوں نے قلم سے لکھا ) بن برد بن مہلیل بن قنین بن یانشن بن شیث بن آدم علیہ السلام ۔ ائمہ نسب جیسے امام محمد بن اسحاق وغیرہ نے آپ کا نسب نامہ اسی طرح بیان فرمایا ہے ۔ امام صاحب فرماتے ہیں حضرت نوح جیسا کوئی اور نبی امت کی طرف سے ستایا نہیں گیا ۔ ہاں انبیاء قتل ضرور کئے گئے ۔ انہیں نوح اسی لئے کہا گیا کہ یہ اپنے نفس کا رونا بہت روتے تھے ۔ حضرت آدم اور حضرت نوح کے درمیان دس زمانے تھے جو اسلام پر گذرے تھے ۔ اصنام پرستی کا رواج اسی طرح شروع ہوا کہ جب اولیاء اللہ فوت ہوگئے تو ان کی قوم نے ان کی قبروں پر مسجدیں بنا لیں اور ان میں ان بزرگوں کی تصویریں بنا لیں تاکہ ان کا حال اور ان کی عبادت کا نقشہ سامنے رہے اور اپنے آپ کو ان جیسا بنانے کی کوشش کریں لیکن کچھ زمانے کے بعد ان تصویروں کے مجسمے بنا لئے کچھ اور زمانے کے بعد انہی بتوں کو پوجا کرنے لگے اور ان کے نام انہی اولیاء اللہ کے ناموں پر رکھ لئے ۔ ود ، سواع ، یغوث ، یعوق ، نسر وغیرہ ۔ جب بت پرستی کا رواج ہو گیا ، اللہ نے اپنے رسول حضرت نوح کو بھیجا آپ نے انہیں اللہ واحد کی عبادت کی تلقین کی اور کہا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں مجھے تو ڈر ہے کہ کہیں قیامت کے دن تمہیں عذاب نہ ہو ۔ قوم نوح کے بڑوں نے ، ان کے سرداروں نے اور ان کے چودھریوں نے حضرت نوح کو جواب دیا کہ تم تو بہک گئے ہو ہمیں اپنے باپ دادا کے دین سے ہٹا رہے ہو ۔ ہر بد شخص نیک لوگوں کو گمراہ سمجھا کرتا ہے ۔ قرآن میں ہے کہ جب یہ بدکار ان نیک کاروں کو دیکھتے ہیں کہتے ہیں کہ یہ تو بہکے ہوئے ہیں ۔ کہا کرتے تھے کہ اگر یہ دین اچھا ہوتا تو ان سے پہلے ہم نہ مان لیتے؟ یہ تو بات ہی غلط اور جھوٹ ہے ۔ حضرت نوح نبی علیہ السلام نے جواب دیا کہ میں بہکا ہوا نہیں ہوں بلکہ میں اللہ کا رسول ہوں تمہیں پیغام رب پہنچا رہا ہوں ۔ تمہارا خیر خواہ ہوں اور اللہ کی وہ باتیں جانتا ہوں جنہیں تم نہیں جانتے ۔ ہر رسول مبلغ ، فصیح ، بلیغ ، ناصح ، خیر خواہ اور عالم باللہ ہوتا ہے ۔ ان صفات میں اور کوئی ان کی ہمسری اور برابری نہیں کر سکتا ۔ صحیح مسلم شریف میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفے کے دن اپنے اصحاب سے فرمایا جبکہ وہ بہت بڑی تعداد میں بہت زیادہ تھے کہ اے لوگو تم میری بابت اللہ کے ہاں پوچھے جاؤ گے تو بتاؤ کیا جواب دو گے؟ سب نے کہا ہم کہیں گے کہ آپ نے تبلیغ کر دی تھی اور حق رسالت ادا کر دیا تھا اور پوری خیر خواہی کی تھی پس آپ نے اپنی انگلی آسمان کی طرف اٹھائی اور پھر نیچے زمین کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا یا اللہ تو گواہ رہ ، اے اللہ تو شاہد رہ ، یا اللہ تو گواہ رہ ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٦٣] سیدنا نوح (علیہ السلام) کی بعثت سے پہلے شرک کا آغاز کیسے ہوا تھا ؟ سیدنا آدم (علیہ السلام) کی وفات کے بعد مدتوں ان کی اولاد راہ ہدایت پر قائم رہی پھر آہستہ آہستہ ان میں بگاڑ پیدا ہونے لگا اور یہ پہلے بتلایا جا چکا ہے کہ فساد فی الارض کی بنیاد شرک پر ہی اٹھتی ہے۔ ابن عباس (رض) کی روایت کے مطابق اس شرک کا آغاز اس طرح ہوا کہ اس قوم میں سے وقتاً فوقتاً پانچ بزرگ اور صالح قسم کے لوگ وفات پا گئے جنہیں دیکھ کر ہی اللہ تعالیٰ کی یاد آنے لگتی تھی جب یہ بزرگ فوت ہوگئے تو عبادت گزار لوگوں نے ان کے خلا کو بری طرح محسوس کیا شیطان نے انہیں پٹی پڑھائی کہ اگر تم ان بزرگوں کے مجسمے بنا کر سامنے رکھ لو تو تمہیں مطلوبہ فائدہ ہوسکتا ہے تمہارا اللہ کی عبادت میں اسی طرح دل لگا کرے گا جس طرح ان کی موجودگی میں لگا کرتا تھا۔ سادہ لوح لوگ شیطان کے اس فریب میں آگئے اور انہوں نے ان پانچ بزرگوں کے مجسمے بنا کر مسجدوں میں اپنے سامنے رکھ لیے۔ یہ لوگ تو ان مجسموں کو دیکھ کر اللہ ہی کی عبادت کرتے رہے مگر بعد میں آنے والی نسلوں نے انہی مجسموں کی پرستش شروع کردی اور جب سیدنا نوح (علیہ السلام) مبعوث ہوئے تو ان کی قوم بری طرح ان پانچ بزرگوں، جن کے نام ود، سواع، یغوث، یعوق اور نسر سورة نوح میں مذکور ہیں کی پرستش میں پھنس چکی تھی۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر۔ تفسیر سورة نوح)- سیدنا نوح (علیہ السلام) کا مرکز تبلیغ :۔ نوح (علیہ السلام) کا مرکز دعوت عراق کا علاقہ تھا اور غالباً اس وقت دنیا کا صرف یہی علاقہ انسانوں سے آباد تھا اور ابتداًء دجلہ و فرات کا درمیانی علاقہ آپ کی تبلیغ کا مرکز بنا۔ ماسوائے سیدنا آدم (علیہ السلام) کے باقی تمام انبیاء کی دعوت کا آغاز شرک سے امتناع اور خالص اللہ کی پرستش سے ہوتا ہے اور ایک بگڑے ہوئے معاشرے کی اصلاح کا آغاز سیدنا نوح (علیہ السلام) نے بھی اسی دعوت سے کیا اور ساتھ ہی اس بات پر متنبہ کردیا کہ اگر تم شرک سے باز نہ آئے تو تم پر سخت قسم کا عذاب واقع ہوگا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰي قَوْمِهٖ : اوپر بیان فرمایا ہے کہ ہدایتِ الٰہی اور اس کی برکات سے فائدہ اٹھانے یا نہ اٹھانے میں لوگوں کی دو قسمیں ہیں، ایک پاکیزہ فطرت (طیب) جو ہدایتِ الٰہی اور اس کی برکات سے خود بھی فائدہ اٹھاتے ہیں اور ان کے علم و عمل سے دوسروں کو بھی فائدہ پہنچتا ہے، دوسرے وہ جو شرارت پسند اور بد فطرت ہوتے ہیں، یہ لوگ ہدایت کی بارش سے فائدہ اٹھانے کے بجائے الٹے جھاڑیاں اور کانٹے بن کر نکل آتے ہیں اور ان کے دلوں کی زمین چونکہ شور ہوتی ہے، اس لیے ان پر رحمت کی بارش اتنی فائدہ بخش نہیں ہوسکتی۔ اس کے بعد اب یہاں سے تاریخی شواہد کے طور پر پہلی قوموں کے واقعات بیان کر کے گویا تاریخی ثبوت پیش کیا ہے کہ ہمیشہ سے لوگ دو قسم کے چلے آئے ہیں۔ (کبیر) نوح (علیہ السلام) چونکہ سب سے پہلے نبی مرسل تھے جو مشرک قوم کی طرف بھیجے گئے، جیسا کہ حدیث شفاعت کبریٰ (بخاری : ٤٧١٢) اور بعض دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے انھی کا قصہ بیان فرمایا ہے۔ ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ (سورۂ نوح میں مذکور بت) ود، سواع، یغوث، یعوق اور نسر نیک لوگوں کے نام تھے، جب وہ فوت ہوگئے تو شیطان نے ان کے دلوں میں یہ بات ڈالی کہ ان کی مجالس میں، جن میں وہ بیٹھا کرتے تھے، ان کے مجسمے نصب کر دو اور ان کے نام پر ان کے نام رکھ دو ، یہاں تک کہ جب وہ نسل فوت ہوگئی اور علم مٹ گیا تو ان کی عبادت شروع ہوگئی۔ [ بخاری، التفسیر، باب : ( ودا ولا سواعا ولا یغوث و یعوق ) : ٤٩٢٠ ] تاریخ کی کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ قوم نوح عراق میں آباد تھی، ان کا زمانہ ٣٨٠٠ تا ٢٨٠٠ قبل مسیح ہے، مگر اس زمانے کی صحت کی کوئی دلیل نہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - ہم نے نوح (علیہ السلام) کو (پیغمبر بنا کر) ان کی قوم کی طرف بھیجا سو انہوں نے (اس قوم سے) فرمایا کہ اے میری قوم تم (صرف) اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا کوئی تمہارا معبود (ہونے کے قابل) نہیں (اور بتوں کی پرستش چھوڑ دو جن کا نام سورة نوح میں ہے وَد اور سواع اور یغوث اور یعوق اور نسر) مجھ کو تمہارے لئے (در صورت میرا کہنا نہ ماننے کے) ایک بڑے (سخت) دن کے عذاب کا اندیشہ ہے (کہ وہ یوم قیامت ہے یا یوم طوفان) ان کی قوم کے آبرودار لوگوں نے کہا کہ ہم تم کو صریح غلطی میں (مبتلا) دیکھتے ہیں (کہ توحید کی تعلیم کر رہے ہو اور عذاب کا ڈراوا دکھلا رہے ہو) انہوں نے (جواب میں) فرمایا کہ اے میری قوم مجھ میں تو ذرا بھی غلطی نہیں لیکن ( چونکہ) میں پروردگار عالم کا (بھیجا ہوا) رسول ہوں (انہوں نے مجھ کو توحید پہنچانے کا حکم کیا ہے اس لئے اپنا منصبی کام کرتا ہوں کہ) تم کو اپنے پروردگار کے پیغام (اور احکام) پہنچاتا ہوں (اور اس پہنچانے میں میری کوئی دنیوی غرض نہیں بلکہ محض) تمہاری خیر خواہی کرتا ہوں (کیونکہ توحید میں تمہارا ہی نفع ہے) اور (عذاب یوم عظیم سے جو تم کو تعجب ہوتا ہے تو تمہاری غلطی ہے کیونکہ) میں خدا کی طرف سے ان امور کی خبر رکھتا ہوں جن کی تم کو خبر نہیں (تو اللہ تعالیٰ نے مجھ کو بتلا دیا ہے کہ ایمان نہ لانے سے عذاب یوم عظیم واقع ہوگا) اور (تم کو جو میرے رسول ہونے پر بوجہ میرے بشر ہونے کے انکار ہے جیسا سورة مومنون میں تصریح ہے (آیت) ما ھذا الا بشر مثلکم یرید تا ملئکۃ الخ) کیا تم اس بات سے تعجب کرتے ہو کہ تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہارے پاس ایک ایسے شخص کی معرفت جو تمہاری ہی جنس کا (بشر) ہے کوئی نصیحت کی بات آگئی (وہ نصیحت کی بات یہی ہے جو مذکور ہوئی (آیت) يٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ الی قولہ انی اخاف) تاکہ وہ شخص تم کو (بحکم خداوندی عذاب سے) ڈراوے اور تاکہ تم (اس کے ڈرانے سے) ڈر جاؤ اور تاکہ (ڈرنے کی وجہ سے مخالفت چھوڑ دو جس سے) تم پر رحم کیا جائے سو (باوجود اس تمام تر فہائش کے) وہ لوگ ان کی تکذیب ہی کرتے رہے تو ہم نے نوح (علیہ السلام) کو اور جو لوگ ان کے ساتھ کشتی میں تھے (طوفان کے عذاب سے) بچا لیا اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا تھا ان کو ہم نے (طوفان میں) غرق کردیا بیشک وہ لوگ اندھے ہو رہے تھے (حق و باطل، نفع نقصان کچھ نہ سوجھتا تھا) ۔ - معارف و مسائل - سورة اعراف کے شروع سے یہاں تک اصول اسلام توحید، رسالت، آخرت کا مختلف عنوانات اور دلائل سے اثبات اور لوگوں کو اتباع کی ترغیب اور اس کی مخالفت پر وعید اور ترہیب اور اس کے ضمن میں شیطان کے گمراہ کن مکر و فریب وغیرہ کا بیان تھا اب آٹھویں رکوع سے تقریباً آخر سورت تک چند انبیاء (علیہم السلام) اور ان کی امتوں کا ذکر ہے جس میں تمام انبیاء (علیہم السلام) کا متفقہ طور پر اصول مذکورہ توحید، رسالت، آخرت کی طرف اپنی اپنی امتوں کو دعوت دینا اور ماننے والوں کے اجر وثواب اور نہ ماننے والوں پر طرح طرح کے عذاب اور ان کے انجام بد کا مفصل بیان تقریباً چودہ رکوع میں آیا ہے۔ جس کے ضمن میں سینکڑوں اصولی اور فروعی مسائل بھی آگئے ہیں، اور موجودہ اقوام کو پچھلی قوموں کے انجام سے عبرت حاصل کرنے کا موقع فراہم کیا گیا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے تسلی کا سامان ہوگیا کہ پہلے سب رسولوں کے ساتھ ایسے ہی معاملات ہوتے رہے ہیں۔ - آیات مذکورہ سورة اعراف کا آٹھواں رکوع پورا ہے، اس میں حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کی امت کے حالات و مقالات کا بیان ہے۔- سلسلہ انبیاء میں سب سے پہلے ہی اگرچہ آدم (علیہ السلام) ہیں، لیکن ان کے زمانہ میں کفر و ضلالت کا مقابلہ نہ تھا ان کی شریعت میں زیادہ تر احکام بھی زمین کی آباد کاری اور انسانی ضرورت کے متعلق تھے۔ کفر اور کافر کہیں موجود نہ تھے۔ کفر و شرک کا مقابلہ حضرت نوح (علیہ السلام) سے شروع ہوا۔ اور رسالت و شریعت کی حیثیت سے دنیا میں وہ سب سے پہلے رسول ہیں، اس کے علاوہ طوفان میں پوری دنیا غرق ہوجانے کے بعد جو لوگ باقی رہے وہ حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کے رفقاء سفینہ تھے انھیں سے نئی دنیا آباد ہوئی اسی لئے ان کو آدم اصغر کہا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قصص انبیاء کا آغاز بھی انہیں سے کیا گیا ہے جس میں ساڑھے نو سو برس کی طویل عمر میں ان کی پیغمبرانہ جدوجہد اور اس پر اکثر امت کی کجروی اور اس کے نتیجہ میں بجز تھوڑے سے مؤمنین کے باقی سب کا غرق ہونا بیان ہوا ہے، تفصیل اس کی یہ ہے۔- پہلی آیت میں رشاد ہے لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰي قَوْمِهٖ- نوح (علیہ السلام) آدم (علیہ السلام) کی آٹھویں پشت میں ہیں۔ مستدرک حاکم میں بروایت ابن عباس (رض) منقول ہے کہ آدم (علیہ السلام) اور نوح (علیہ السلام) کے درمیان دس قرن گزرے ہیں، اور یہی مضمون طبرانی نے بروایت ابی ذر (رض) علیہ وسلم سے نقل کیا ہے (تفسیر مظہری) قرن عام طور پر ایک سو سال کو کہا جاتا ہے اس لئے ان دونوں کے درمیان اس روایت کے مطابق ایک ہزار سال کا عرصہ ہوگیا، ابن جریر نے نقل کیا ہے کہ نوح (علیہ السلام) کی ولادت حضرت آدم (علیہ السلام) کی وفات سے آٹھ سو چھبیس سال بعد ہوئی ہے اور بتصریح قرآن ان کی عمر نو سو پچاس سال ہوئی، اور آدم (علیہ السلام) کی عمر کے متعلق ایک حدیث میں ہے کہ چالیس کم ایک ہزار سال ہے اس طرح آدم (علیہ السلام) کی پیدائش سے نوح (علیہ السلام) کی وفات تک کل دو ہزار آٹھ سو چھپن سال ہوجاتے ہیں (مظہری) نوح (علیہ السلام) کا اصلی نام شاکر اور بعض روایات میں سَکَن اور بعض میں عبدالغفار آیا ہے۔ - اس میں اختلاف ہے کہ ان کا زمانہ حضرت ادریس (علیہ السلام) سے پہلے ہے یا بعد میں اکثر صحابہ کا قول یہ ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) ادریس (علیہ السلام) سے پہلے ہیں (بحر محیط) - مستدرک حاکم میں بروایت ابن عباس (رض) منقول ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ نوح (علیہ السلام) کو چالیس سال کی عمر میں نبوت عطا ہوئی۔ اور طوفان کے بعد ساٹھ سال زندہ رہے۔ - آیت قرآن لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰي قَوْمِهٖ ، سے ثابت ہے کہ نوح (علیہ السلام) کی بعثت و نبوت صرف اپنی قوم کے لئے تھی ساری دنیا کے لئے عام نہ تھی اور ان کی قوم عراق میں آباد بظاہر مہذب مگر شرک میں مبتلا تھی۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو جو دعوت دی وہ یہ تھی (آیت) يٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَيْرُهٗ ۭ اِنِّىْٓ اَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيْمٍ یعنی اے میری قوم تم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔ مجھے تم پر ایک بڑے دن کے عذاب کا خطرہ ہے۔ اس کے پہلے جملہ میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف دعوت ہے جو اصل اصول ہے، دوسرے جملہ میں شرک و کفر سے پرہیز کرنے کی تلقین ہے جو اس قوم میں وباء کی طرح پھیل گیا تھا۔ تیسرے جملہ میں اس عذاب عظیم کے خطرہ سے مراد آخرت کا عذاب بھی ہوسکتا ہے اور دنیا میں طوفان کا عذاب بھی۔ (کبیر)

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِہٖٓ اِنَّا لَنَرٰىكَ فِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ۝ ٦٠- ملأ - المَلَأُ : جماعة يجتمعون علی رأي، فيملئون العیون رواء ومنظرا، والنّفوس بهاء وجلالا . قال تعالی: أَلَمْ تَرَ إِلَى الْمَلَإِ مِنْ بَنِي إِسْرائِيلَ [ البقرة 246] - ( م ل ء ) الملاء - ( م ل ء ) الملاء ۔ جماعت جو کسی امر پر مجتمع ہوتونظروں کو ظاہری حسن و جمال اور نفوس کو ہیبت و جلال سے بھردے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَلَمْ تَرَ إِلَى الْمَلَإِ مِنْ بَنِي إِسْرائِيلَ [ البقرة 246] نھلا تم نے بنی اسرائیل کی ایک جماعت کو نہیں دیکھا ۔ - ضل - الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] ويقال الضَّلَالُ لكلّ عدولٍ عن المنهج، عمدا کان أو سهوا، يسيرا کان أو كثيرا، فإنّ الطّريق المستقیم الذي هو المرتضی - صعب جدا، قال النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : «استقیموا ولن تُحْصُوا» - ( ض ل ل ) الضلال - ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔ اور ضلال کا لفظ ہر قسم کی گمراہی پر بولا جاتا ہے یعنی وہ گمراہی قصدا یا سہوا معمول ہو یا زیادہ کیونکہ طریق مستقیم ۔ جو پسندیدہ راہ ہے ۔۔ پر چلنا نہایت دشوار امر ہے ۔ جیسا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(11) استقیموا ولن تحصوا کہ استقامت اختیار کرو اور تم پورے طور پر اس کی نگہداشت نہیں کرسکوگے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٥٩۔ ٦٠۔ ٦١۔ ٦٢) حضرت نوح (علیہ السلام) نے کہا اللہ تعالیٰ کی توحید بیان کرو، اس کے سوا جن کو تم لوگ پکارتے ہو وہ کچھ نہیں، میں یہ بات اچھی طرح جانتا ہوں کہ اگر تم ایمان نہ لاتے تو تم پر بڑے دن کے عذاب کا خدشہ ہے۔ سردار کہنے لگے نوح (علیہ السلام) تم تو ایک صریح غلطی میں مبتلا ہو، حضرت نوح (علیہ السلام) نے فرمایا میں تمہیں اوامرو نواہی کی تبلیغ کرتا اور اللہ کے عذاب سے ڈراتا ہوں اور ایمان اور توبہ کی طرف بلاتا ہوں اگر تم ایمان نہ لائے تو تم پر عذاب نازل ہوگا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

اس رکوع سے التذکیر بِاَ یَّام اللّٰہ کے اس سلسلے کا آغاز ہو رہا ہے جسے قبل ازیں اس سورت کے مضامین کا عمود قرار دیا گیا ہے۔ یہاں اس سلسلے کا بہت بڑا حصہ انباء الرّسل پر مشتمل ہے۔ آگے بڑھنے سے پہلے اس اصطلاح کو اچھی طرح سمجھنا بہت ضروری ہے۔ قرآن مجید میں جہاں کہیں نبیوں کا ذکر آتا ہے تو اس کا مقصد ان کی سیرت کے روشن پہلوؤں مثلاً ان کا مقام ‘ تقویٰ اور استقامت وغیرہ کو نمایاں کرنا ہوتا ہے ‘ جبکہ رسولوں کا ذکر بالکل مختلف انداز میں آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جب بھی کوئی رسول ( علیہ السلام) آیا تو وہ کسی قوم کی طرف بھیجا گیا ‘ لہٰذا قرآن مجید میں رسول ( علیہ السلام) کے ذکر کے ساتھ لازماً متعلقہ قوم کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔ پھر رسول کی دعوت کے جواب میں اس قوم کے رویے اور ردِّ عمل کی تفصیل بھی بیان کی گئی ہے۔ چناچہ پہلی قسم کے واقعات کو قصص الانبیاء کہا جاسکتا ہے۔ اس کی مثال سورة یوسف ہے ‘ جس میں حضرت یوسف ( علیہ السلام) کے حالات بہت تفصیل سے بیان ہوئے ہیں ‘ مگر کہیں بھی آپ ( علیہ السلام) کی طرف سے اس نوعیت کے اعلان کا ذکر نہیں ملتا کہ لوگو مجھ پر ایمان لاؤ ‘ میری بات مانو ‘ ورنہ تم پر عذاب آئے گا اور نہ ہی ایسا کوئی اشارہ ملتا ہے کہ اس قوم نے آپ ( علیہ السلام) کی دعوت کو ردّ کردیا اور پھر ان پر عذاب آگیا اور انہیں ہلاک کردیا گیا۔ - دوسری قسم کے واقعات کے لیے انباء الرسل کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔ ( انباء جمع ہے نبأ کی ‘ جس کے معنی خبر کے ہیں ‘ یعنی رسولوں کی خبریں۔ ) اِن واقعات سے ایک اصول واضح ہوتا ہے کہ جب بھی کوئی رسول کسی قوم کی طرف آیا تو وہ اللہ کی عدالت بن کر آیا۔ جن لوگوں نے اس کی دعوت کو مان لیا وہ اہل ایمان ٹھہرے اور عافیت میں رہے ‘ جبکہ انکار کرنے والے ہلاک کردیے گئے۔ انباء الرسل کے سلسلے میں عام طور پر چھ رسولوں ( علیہ السلام) کے حالات قرآن مجید میں تکرار کے ساتھ آئے ہیں۔ اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ رسول صرف چھ ہیں ‘ بلکہ یہ چھ رسول ( علیہ السلام) وہ ہیں جن سے اہل عرب واقف تھے۔ یہ تمام رسول ( علیہ السلام) اسی جزیرہ نمائے عرب کے اندر آئے۔ یہ رسول ( علیہ السلام) جن علاقوں میں مبعوث ہوئے ان کے بارے میں جاننے کے لیے جزیرہ نمائے عرب ( ) کا نقشہ اپنے ذہن میں رکھیے۔ نیچے جنوب کی طرف سے اس کی چوڑائی کافی زیادہ ہے ‘ جبکہ یہ چوڑائی اوپر شمال کی طرف کم ہوتی جاتی ہے۔ اس جزیرہ نما علاقہ کے مشرقی جانب خلیج فارس ( ) ہے جب کہ مغربی جانب بحیرۂ احمر ( ) ہے جو شمال میں جاکر دو کھاڑیوں میں تقسیم ہوجاتا ہے۔ ان میں سے ایک (شمال مغرب کی طرف ) خلیج سویز ہے اور دوسری طرف (شمال مشرق کی جانب) خلیج عقبہ۔ خلیج عقبہ کے اوپر (شمال) والے کونے سے خلیج فارس کے شمالی کنارے کی طرف سیدھی لائن لگائیں تو نقشے پر ایک مثلث ( ) بن جاتی ہے ‘ جس کا قاعدہ ( ) نیچے جنوب میں یمن سے سلطنت عمان تک ہے اور اوپر والا کونہ شمال میں بحیرۂ مردار ( ) کے علاقے میں واقع ہے۔- موجودہ دنیا کے نقشے کے مطابق اس مثلث میں سعودی عرب کے علاوہ عراق اور شام کے ممالک بھی شامل ہیں۔ یہ مثلث اس علاقے پر محیط ہے جہاں عرب کی قدیم قومیں آباد تھیں اور یہی وہ قومیں تھیں جن کی طرف وہ چھ رسول مبعوث ہوئے تھے جن کا ذکر قرآن مجید میں بار بار آیا ہے۔ ان میں سے جو رسول سب سے پہلے آئے وہ حضرت نوح (علیہ السلام) تھے۔ آپ ( علیہ السلام) کے زمانے کے بارے میں یقینی طور پر تو کچھ نہیں کہا جاسکتا ‘ لیکن مختلف اندازوں کے مطابق آپ ( علیہ السلام) کا زمانہ حضرت آدم (علیہ السلام) سے کوئی دو ہزار سال بعد کا زمانہ بتایا جاتا ہے (واللہ اعلم) ۔ اس وقت تک کل نسل انسانی بس اسی علاقے میں آباد تھی۔ جب آپ ( علیہ السلام) کی قوم آپ ( علیہ السلام) کی دعوت پر ایمان نہ لائی تو پانی کے عذاب سے انہیں تباہ کردیا گیا۔ یہی وہ علاقہ ہے جہاں وہ تباہ کن سیلاب آیا تھا جو طوفان نوح سے موسوم ہے اور یہیں کوہ جودی میں ارارات کی وہ پہاڑی ہے جہاں حضرت نوح (علیہ السلام) کی کشتی لنگر انداز ہوئی تھی۔ پھر حضرت نوح (علیہ السلام) کے تین بیٹوں سے دوبارہ نسل انسانی چلی۔ آپ ( علیہ السلام) کا ایک بیٹا جس کا نام سام تھا ‘ اس کی نسل جنوب میں عراق کی طرف پھیلی۔ اس نسل سے جو قومیں وجود میں آئیں انہیں سامی قومیں کہا جاتا ہے۔ انہی قوموں میں ایک قوم عاد تھی ‘ جو جزیرہ نمائے عرب کے بالکل جنوب میں آباد تھی۔ آج کل یہ علاقہ بڑا خطرناک قسم کا ریگستان ہے ‘ لیکن اس زمانے میں قوم عاد کا مسکن یہ علاقہ بہت سر سبز و شاداب تھا۔ اس قوم کی طرف حضرت ہود (علیہ السلام) کو رسول بنا کر بھیجا گیا۔ آپ ( علیہ السلام) کی دعوت کو اس قوم نے رد کیا تو یہ بھی ہلاک کردی گئی۔ اس قوم کے بچے کھچے لوگ اور حضرت ہود (علیہ السلام) وہاں سے نقل مکانی کر کے مذکورہ مثلث کی مغربی سمت جزیرہ نمائے عرب کے شمال مشرقی کونے میں خلیج عقبہ سے نیچے مغربی ساحل کے علاقے میں جاآباد ہوئے۔ ان لوگوں کی نسل کو قوم ثمود کے نام سے جانا جاتا ہے۔ - قوم ثمود کی طرف حضرت صالح (علیہ السلام) کو بھیجا گیا۔ اس قوم نے بھی اپنے رسول ( علیہ السلام) کی دعوت کو رد کردیا ‘ جس پر انہیں بھی ہلاک کردیا گیا۔ یہ لوگ پہاڑوں کو تراش کر عالی شان عمارات بنانے میں ماہر تھے۔ پہاڑوں کے اندر کھدے ہوئے ان کے محلات اور بڑے بڑے ہال آج بھی موجود ہیں۔ قوم ثمود کے اس علاقے سے ذرا اوپر خلیج عقبہ کے داہنی طرف مدین کا علاقہ ہے جہاں وہ قوم آباد تھی جن کی طرف حضرت شعیب (علیہ السلام) کو بھیجا گیا۔ مدین کے علاقے سے تھوڑا آگے بحیرۂ مردار ( ) ہے ‘ جس کے ساحل پر سدوم اور عامورہ کے شہر آباد تھے۔ ان شہروں میں حضرت لوط (علیہ السلام) کو بھیجا گیا۔ بہرحال یہ ساری اقوام جن کا ذکر قرآن میں بار بار آیا ہے مذکورہ مثلث کے علاقے میں ہی آباد تھیں۔ صرف قوم فرعون اس مثلث سے باہر مصر میں آباد تھی جہاں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) مبعوث ہوئے۔ ان چھ رسولوں کے حالات پڑھنے سے پہلے ان کی قوموں کے علاقوں کا یہ نقشہ اچھی طرح ذہن نشین کرلیجئے۔ زمانی اعتبار سے حضرت نوح (علیہ السلام) سب سے پہلے رسول ہیں ‘ پھر حضرت ہود (علیہ السلام) ‘ پھر حضرت صالح (علیہ السلام) ‘ پھر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ۔ لیکن حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا ذکر قرآن میں انباء الرسل کے انداز میں نہیں بلکہ قصص الانبیاء کے طور پر آیا ہے۔ آپ ( علیہ السلام) کے بھتیجے حضرت لوط (علیہ السلام) کو سدوم اور عامورہ کی بستیوں کی طرف بھیجا گیا۔ - حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ایک بیٹے کا نام مدین تھا ‘ جن کی اولاد میں حضرت شعیب (علیہ السلام) کی بعثت ہوئی۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ہی کے بیٹے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) حجاز (مکہ) میں آباد ہوئے اور پھر حجاز میں ہی نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت ہوئی۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے دوسرے بیٹے حضرت اسحاق (علیہ السلام) تھے جن کو آپ ( علیہ السلام) نے فلسطین میں آباد کیا۔ حضرت اسحاق (علیہ السلام) کے بیٹے حضرت یعقوب (علیہ السلام) تھے جن سے بنی اسرائیل کی نسل چلی۔ قرآن حکیم میں جب ہم انبیاء و رسل کے تذکرے پڑھتے ہیں تو یہ ساری تفصیلات ذہن میں ہونی چاہئیں۔- آیت ٥٩ (لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰی قَوْمِہٖ فَقَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰہَ مَا لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗ ط اِنِّیْٓ اَخَافُ عَلَیْکُمْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ ) - یعنی مجھے اندیشہ ہے کہ اگر تم لوگ یونہی مشرکانہ افعال اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں کا ارتکاب کرتے رہو گے تو بہت بڑے عذاب میں پکڑے جاؤ گے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :47 اس تاریخی بیان کی ابتدا حضرت نوح علیہ السلام اور ان کی قوم سے کی گئی ہے ، کیونکہ قرآن کی رو سے جس صالح نظام ِ زندگی پر حضرت آدم علیہ السلام اپنی اولاد کو چھوڑ گئے تھے اس میں سب سے پہلا بگاڑ حضرت نوح علیہ السلام کے دور میں رونما ہوا اور اس کی اصلاح کے لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو مامور فرمایا ۔ قرآن کے ارشادات اور بائیبل کی تصریحات سے یہ بات متحقق ہو جاتی ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کی قوم اس سر زمین میں رہتی تھی جس کو آج ہم عراق کے نام سے جانتے ہیں ۔ بابل کے آثارِ قدیمہ میں بائیبل سے قدیم تر جو کتبات ملے ہیں ان سے ملے ہیں ان سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے ، ان میں تقریباً اسی قسم کا ایک قصہ مذکور ہے جس کا ذکر قرآن اور تورات میں بیان ہوا ہے اور اس کی جائے وقوع موصل کے نواح میں بتائی گئی ہے ۔ پھر جو روایات کُردستان اور آرمینیہ میں قدیم ترین زمانے سے نسلاً بعد نسلِ چلی آرہی ہیں ان سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ طوفان کے بعد حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی اسی علاقہ میں کسی مقام پر ٹھہری تھی ۔ موصل کے شمال میں جزیرہ ابنِ عمر کے آس پاس ، آرمینیہ کی سرحد پر کوہِ اراراط کے انواح میں نوح علیہ السلام کے مختلف آثار کی نشان دہی اب بھی کی جاتی ہے ، اور شہر نخچیوان کے باشندوں میں آج تک مشہور ہے کہ اس شہر کی نبا حضرت نوح علیہ السلام نے ڈالی تھی ۔ حضرت نوح علیہ السلام کے اس قصے سے ملتی جُلتی روایات یونان ، مصر ، ہندوستان اور چین کے قدیم لٹیریچر میں بھی ملتی ہیں اور اس کے علاوہ برما ، ملایا ، جزائر شرق الہند ، آسٹریلیا ، نیوگنی اور امریکہ و یورپ کے مختلف حصوں میں بھی ایسی ہی روایات قدیم زمانہ سے چلی آرہی ہیں ۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ قصہ اس عہد سے تعلق رکھتا ہے جبکہ پوری نسلِ آدم کسی ایک ہی خطہ زمین میں رہتی تھی اور پھر وہاں سے نکل کر دنیا کے مختلف حصوں میں پھیلی ۔ اسی وجہ سے تمام قومیں اپنی ابتدائی تاریخ میں ایک ہمہ گیر طوفان کی نشان دہی کرتی ہیں ، اگرچہ مرورِ ایام سے اس کی حقیقی تفصیلات انہوں نے فراموش کر دیں اور اصل واقعہ پر ہر ایک نے اپنے اپنے تخیل کے مطابق افسانوں کا ایک بھاری خول چڑھادیا ۔ سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :48 یہاں اور دوسرے مقامات پر حضرت نوح علیہ السلام اور ان کی قوم کا جو حال قرآن مجید میں بیان کیا گیا ہے اس سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ یہ قوم نہ تو اللہ کے وجود کی منکر تھی ، نہ اس سے ناواقف تھی ، نہ اسے اللہ کی عبادت سے انکار تھا ، بلکہ اصل گمراہی جس میں وہ مبتلا ہو گئی تھی ، شرک کی گمراہی تھی ۔ یعنی اس نے اللہ کے ساتھ دوسری ہستیوں کو خدائی میں شریک اور عبادت کے استحقاق میں حصہ دار قرار دے دیا تھا ۔ پھر اس بنیادی گمراہی سے بے شمار خرابیاں اس قوم میں رونما ہوگئیں ۔ جو خود ساختہ معبود خدائی میں شریک ٹھیرا لیے گئے تھے ان کی نمائندگی کرنے کے لیے قوم میں ایک خاص طبقہ پیدا ہوگیا جو تمام مذہبی سیاسی اور معاشی اقتدار کا مالک بن بیٹھا اور اس نے انسانوں میں اُونچ اور نیچ کی تقسیم پیدا کر دی ، اجتماعی زندگی کو ظلم و فساد سے بھر دیا اور اخلاقی فسق و فجور سے انسانیت کی جڑیں کھوکھلی کر دیں ۔ حضرت نوح علیہ السلام نے اس حالت کو بدلنے کے لیے ایک زمانہ دراز تک انتہائی صبر و حکمت کے ساتھ کوشش کی مگر عامتہ الناس کو ان لوگوں نے اپنے مکر کے جال میں ایسا پھانس رکھا تھا کہ اصلاح کی کوئی تدبیر کارگر نہ ہوئی ۔ آخرکار حضرت نوح علیہ السلام نے خدا سے دعا کی کہ ان کافروں میں سے ایک کو بھی زمین نہ چھوڑ ، کیونکہ اگر تو نے ان میں سے کسی کو بھی چھوڑ دیا تو یہ تیرے بندوں کو گمراہ کر یں گے اور ان کی نسل سے جو بھی پیدا ہوگا بدکار اور نمک حرام ہی پیدا ہو گا ۔ ( تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو سورہ ہود ، رکوع۳ ۔ سورہ شعراء رکوع٦ ۔ اور سورہ نوح مکمل ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

35: اسرائیلی روایات کے مطابق حضرت نوح (علیہ السلام) کی پیدائش اور حضرت آدم (علیہ السلام) کی وفات کے درمیان ایک ہزار سال سے کچھ زیادہ کا فاصلہ ہے لیکن محقق علماء نے ان روایات کو مستند نہیں سمجھا۔ حقیقی فاصلے کا یقینی علم حاصل کرنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ البتہ اتنی بات قرآن کریم سے واضح ہوتی ہے کہ اس طویل عرصے کے دوران بت پرستی کا رواج بہت بڑھ گیا تھا۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم نے بھی بہت سے بت بنا رکھتے تھے، جن کے نام سورۃ نوح میں مذکور ہیں۔ سورۃ عنکبوت (14:29) میں ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) نے ساڑھے نو سو سال تک اس قوم کو حق کی تبلیغ فرمائی۔ اور سمجھانے کا کوئی طریقہ نہیں چھوڑا۔ کچھ نیک بخت ساتھی جو زیادہ تر غریب طبقے سے تعلق رکھتے تھے، ان پر ایمان لائے، لیکن قوم کی اکثریت نے کفر ہی کا راستہ اختیار کیے رکھا۔ حضرت نوح (علیہ السلام) ان کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈراتے رہے، لیکن جب وہ نہ مانے، تو انہوں نے بد دعا دی۔ اور پھر انہیں ایک شدید طوفان میں غرق کردیا گیا۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کے واقعے اور ان کی قوم پر آنے والے طوفان کی سب سے زیادہ تفصیل سورۃ ہود (25:11 تا 49) اور سورۃ نوح (سورت نمبر 71) میں آئے گی۔ اس کے علاوہ سورۃ مومنون (23:23) سورۃ شعراء 105:26) اور سورۃ قمر (9:54) میں ان کا واقعہ اختصار سے بیان ہوا ہے دوسرے مقامات پر ان کا صرف حوالہ دیا گیا ہے۔