نوح علیہ السلام پر کیا گزری؟ حضرت نوح علیہ السلام اپنی قوم سے فرما رہے ہیں کہ تم اس بات کو انوکھا اور تعجب والا نہ سمجھو کہ اللہ تعالیٰ اپنے لطف و کرم سے کسی انسان پر اپنی وحی نازل فرمائے اور اسے اپنی پیغمبری سے ممتاز کر دے تاکہ وہ تمہیں ہو شیار کر دے پھر تم شرک و کفر سے الگ ہو کر عذاب الٰہی سے نجات پا لو اور تم پر گونا گوں رحمتیں نازل ہوں ۔ حضرت نوح علیہ السلام کی ان دلیلوں اور وعظوں نے ان سنگدلوں پر کوئی اثر نہ کیا یہ انہیں جھٹلاتے رہے مخالفت سے باز نہ آئے ایمان قبول نہ کیا صرف چند لوگ سنور گئے ۔ پس ہم نے ان نیک لوگوں کو اپنے نبی کے ساتھ کشتی میں بٹھا کر طوفان سے نجات دی اور باقی لوگوں کو تہ آب غرق کر دیا ۔ جیسے سورۃ نوح میں فرمایا ہے کہ وہ اپنے گناہوں کے باعث غرق کر دیئے گئے پھر دوزخ میں ڈال دیئے گئے اور کوئی ایسا نہیں تھا جو ان کی کسی قسم کی مدد کرتا ۔ یہ لوگ حق سے آنکھیں بند کئے ہوئے تھے ، نابینا ہوگئے تھے ، راہ حق انہیں آخر تک سجھائی نہ دی ۔ پس اللہ نے اپنے نبی کو اپنے دوستوں کو نجات دی ۔ اپنے اور ان کے دشمنوں کو تہ آب برباد کر دیا ۔ جیسے اس کا وعدہ ہے کہ ہم اپنے رسولوں کی اور ایمانداروں کی ضرور مدد فرمایا کرتے ہیں ۔ دنیا میں ہی نہیں بلکہ آخرت میں بھی وہ ان کی امداد کرتا ہے ان پرہیز گاروں کیلئے ہی عافیت ہے ۔ انجام کار غالب اور مظفر و منصور یہی رہتے ہیں جیسے کہ نوح علیہ السلام آخر کار غالب رہے اور کفار ناکام و نامراد ہوئے ۔ یہ لوگ تنگ پکڑ میں آ گئے اور غارت کر دئے گئے ۔ صرف اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اسی آدمیوں نے نجات پائی ان ہی میں ایک صاحب جرہم نامی تھے جن کی زبان عربی تھی ۔ ابن ابی حاتم میں یہ روایت حضرت ابن عباس سے متصلاً مروی ہے ۔
63۔ 1 حضرت نوح (علیہ السلام) اور حضرت آدم (علیہ السلام) کے درمیان دس قرنوں یا دس پشتوں کا فاصلہ ہے، حضرت نوح (علیہ السلام) کے کچھ پہلے تک تمام لوگ اسلام پر قائم چلے آرہے تھے پھر سب سے پہلے توحید سے انحراف اس طرح آیا کہ اس قوم کے صالحین فوت ہوگئے تو ان کے عقیدت مندوں نے ان پر سجدہ گاہیں (عبادت خانے) قائم کردیں اور ان کی تصویریں بھی وہاں لٹکا دیں، مقصد ان کا یہ تھا کہ اس طرح ان کی یاد سے وہ بھی اللہ کا ذکر کریں گے اور ذکر الٰہی میں ان کی مشابہت اختیار کریں گے۔ جب کچھ وقت گزرا تو انہوں نے تصویروں کے مجسمے بنا دیئے اور پھر کچھ عرصہ گزرنے کے بعد یہ مجسمے بتوں کی شکل اختیار کر گئے اور ان کی پوجا پاٹ شروع ہوگئی اور قوم نوح کے یہ صالحین معبود بن گئے۔ ان حالات میں اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) کو ان میں نبی بنا کر بھیجا جنہوں نے ساڑھے نو سو سال تبلیغ کی۔ لیکن تھوڑے سے لوگوں کے سوا، کسی نے آپ کی تبلیغ کا اثر قبول نہیں کیا بالآخر اہل ایمان کے سوا سب کو غرق کردیا گیا۔ اس آیت میں بتلایا جارہا ہے کہ قوم نوح نے اس بات پر تعجب کا اظہار کیا کہ ان ہی میں کا ایک آدمی نبی بن کر آگیا جو انہیں اللہ کے عذاب سے ڈرا رہا ہے ؟ یعنی ان کے خیال میں نبوت کے لئے انسان موزوں نہیں۔
[٦٦] ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء کی دعوت کے جواب میں منکرین کی طرف سے ایک ہی جیسے اعتراضات کیے جاتے رہے ہیں ایسے ہی اعتراضات میں سے ایک یہ ہے کہ تم ہمارے ہی جیسے آدمی ہو کر اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیسے ہوسکتے ہو۔ اس مقام پر گو اس اعتراض کا جواب نہیں دیا گیا تاہم بہت سے مقامات پر اس اعتراض کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ انسانوں کی ہدایت کا اس کے سوا کوئی ذریعہ ممکن ہی نہیں کہ انہی میں سے ایک رسول مبعوث کیا جائے جو انہی کی زبان میں انہیں اللہ کا پیغام پہنچا سکے۔
اَوَعَجِبْتُمْ اَنْ جَاۗءَكُمْ ذِكْرٌ۔۔ : تمام کافر اقوام کا اعتراض یہی تھا کہ ہمیں میں سے ایک شخص یعنی کوئی انسان رسول کیسے ہوسکتا ہے ؟ جیسا کہ آج کل کے کئی کلمہ گو کہتے ہیں کہ جو نبی ہو وہ انسان کیسے ہوسکتا ہے ؟ دونوں کی اصل مشکل ایک ہی ہے۔ نوح (علیہ السلام) کا جواب یہ تھا کہ اس میں تعجب کی کیا بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تم میں سے ایک آدمی کے ذریعے سے تمہاری طرف نصیحت بھیجی، تاکہ وہ نمونہ بنے، تمہیں خبردار کرے اور تم اللہ سے ڈرو اور تم پر رحم ہوجائے۔ فرشتے یا کسی اور مخلوق کو بھیجنے سے یہ مقصد کبھی حاصل نہ ہوتا۔ - وَلِتَتَّقُوْا وَلَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ : اشارہ فرمایا کہ انبیاء کی دعوت قبول کرلینے سے دلوں میں تقویٰ پیدا ہوتا ہے اور یہی تقویٰ آخرت میں رحمت کا سبب بنے گا۔ (رازی)
اس کے جواب میں فرمایا (آیت) اَوَعَجِبْتُمْ اَنْ جَاۗءَكُمْ ذِكْرٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ عَلٰي رَجُلٍ مِّنْكُمْ لِيُنْذِرَكُمْ وَلِتَتَّقُوْا وَلَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ یعنی کیا تمہیں اس پر تعجب ہے کہ تمہارے رب کا پیغام تمہاری طرف ایک ایسے شخص کی معرفت آیا جو تمہاری ہی جنس کا ہے تاکہ وہ تمہیں ڈراوے اور تاکہ تم ڈرجاو اور تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ یعنی اس کے ڈرانے سے تم متنبہ ہو کر مخالفت چھوڑ دو جس کے نتیجہ میں تم پر رحمت نازل ہو۔ - مطلب یہ ہے کہ یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ بشر کو رسول بنایا جائے۔ اول تو حق تعالیٰ مختار مطلق ہیں جس کو چاہیں اپنی نبوت و رسالت عطا فرمائیں اس میں کسی کو چوں چرا کی مجال نہیں۔ اس کے علاوہ اصل معاملہ کرو تو واضح ہوجائے کہ عام انسانوں کی طرف رسالت و نبوت کا مقصد بشر ہی کے ذریعہ پورا ہوسکتا ہے فرشتوں سے یہ کام نہیں ہوسکتا۔- کیونکہ اصل مقصد رسالت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کامل اطاعت اور عبادت پر لوگوں کو قائم کردیا جائے اور اس کے احکام کی مخالفت سے بچایا جائے۔ اور یہ جب ہی ہوسکتا ہے کہ ان کی جنس بشر کا کوئی شخص نمونہ عمل بن کر ان کو دکھلائے کہ بشری تقاضوں اور خواہشوں کے ساتھ بھی احکام الٰہیہ کی اطاعت اور اس کی عبادت جمع ہو سکتی ہے۔ اگر فرشتے یہ دعوت لے کر آتے اور اپنی مثال لوگوں کے سامنے رکھتے تو سب لوگوں کا یہ عذر ظاہر تھا کہ فرشتے تو بشری خواہشات سے پاک ہیں نہ ان کو بھوک پیاس لگتی ہے نہ نیند آتی ہے نہ تھکان ہوتا ہے ان کی طرح ہم کیسے بن جائیں۔ لیکن جب اپنا ہی ایک ہم جنس بشر تمام بشری خواہشات اور خصوصیات رکھنے کے باوجود ان احکام الٰہیہ کی مکمل اطاعت کرکے دکھلائے تو ان کے لئے کوئی عذر نہیں رہ سکتا۔ - اسی بات کی طرف اشارہ کرنے کے لئے فرمایا لِيُنْذِرَكُمْ وَلِتَتَّقُوْا، مطلب یہ ہے کہ جس کے ڈرانے سے متاثر ہو کر لوگ ڈر جائیں وہ وہی ہوسکتا ہے جو ان کا ہم جنس اور ان کی طرح بشری خصوصیات کا جامع ہو۔ یہ شبہ اکثر امتوں کے کفار نے پیش کیا کہ کوئی بشر نبی اور رسول نہیں ہونا چاہئے اور قرآن نے سب کا یہی جواب دیا ہے۔ افسوس ہے کہ قرآن کی اتنی تصریحات کے باوجود آج بھی کچھ لوگ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بشریت کا انکار کرنے کی جرأت کرتے ہیں۔ مگر جاہل انسان اس حقیقت کو نہیں سمجھتا وہ کسی اپنے ہم جنس کی برتری کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے ہمعصر اولیاء اور علماء سے ان کی معاصرت کی بنا پر نفرت و حقارت کا برتاؤ جاہلوں کا ہمیشہ شیوہ رہا ہے۔- قوم نوح (علیہ السلام) کے دل خراش کلام کے جواب میں حضرت نوح (علیہ السلام) کا یہ مشفقانہ اور ناصحانہ رویہ بھی ان کی بےحس قوم پر اثر انداز نہ ہوا بلکہ اندھے بن کر جھٹلانے ہی میں لگے رہے۔ تو اللہ تعالیٰ نے ان پر طوفان کا عذاب بھیج دیا۔
فَكَذَّبُوْہُ فَاَنْجَيْنٰہُ وَالَّذِيْنَ مَعَہٗ فِي الْفُلْكِ وَاَغْرَقْنَا الَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا ٠ ۭ اِنَّہُمْ كَانُوْا قَوْمًا عَمِيْنَ ٦٤ ۧ- كذب - وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی:- إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] ،- ( ک ذ ب ) الکذب - قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے - نجو - أصل النَّجَاء : الانفصالُ من الشیء، ومنه : نَجَا فلان من فلان وأَنْجَيْتُهُ ونَجَّيْتُهُ. قال تعالی: وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا[ النمل 53]- ( ن ج و )- اصل میں نجاء کے معنی کسی چیز سے الگ ہونے کے ہیں ۔ اسی سے نجا فلان من فلان کا محاورہ ہے جس کے معنی نجات پانے کے ہیں اور انجیتہ ونجیتہ کے معنی نجات دینے کے چناچہ فرمایا : ۔ وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا[ النمل 53] اور جو لوگ ایمان لائے ان کو ہم نے نجات دی ۔- فلك - الْفُلْكُ : السّفينة، ويستعمل ذلک للواحد والجمع، وتقدیراهما مختلفان، فإنّ الفُلْكَ إن کان واحدا کان کبناء قفل، وإن کان جمعا فکبناء حمر .- قال تعالی: حَتَّى إِذا كُنْتُمْ فِي الْفُلْكِ [يونس 22] ، وَالْفُلْكِ الَّتِي تَجْرِي فِي الْبَحْرِ [ البقرة 164] ، وَتَرَى الْفُلْكَ فِيهِ مَواخِرَ [ فاطر 12] ، وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْفُلْكِ وَالْأَنْعامِ ما تَرْكَبُونَ [ الزخرف 12] . والفَلَكُ : مجری الکواكب، وتسمیته بذلک لکونه کالفلک، قال : وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [يس 40] . وفَلْكَةُ المِغْزَلِ ، ومنه اشتقّ : فَلَّكَ ثديُ المرأة «1» ، وفَلَكْتُ الجديَ : إذا جعلت في لسانه مثل فَلْكَةٍ يمنعه عن الرّضاع .- ( ف ل ک ) الفلک - کے معنی سفینہ یعنی کشتی کے ہیں اور یہ واحد جمع دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ لیکن دونوں میں اصل کے لحاظ سے اختلاف ہ فلک اگر مفرد کے لئے ہو تو یہ بروزن تفل ہوگا ۔ اور اگر بمعنی جمع ہو تو حمر کی طرح ہوگا ۔ قرآن میں ہے : حَتَّى إِذا كُنْتُمْ فِي الْفُلْكِ [يونس 22] یہاں تک کہ جب تم کشتیوں میں سوار ہوتے ہو۔ وَالْفُلْكِ الَّتِي تَجْرِي فِي الْبَحْرِ [ البقرة 164] اور کشتیوں ( اور جہازوں ) میں جو دریا میں ۔۔ رواں ہیں ۔ وَتَرَى الْفُلْكَ فِيهِ مَواخِرَ [ فاطر 12] اور تم دیکھتے ہو کہ کشتیاں دریا میں پانی کو پھاڑتی چلی جاتی ہیں ۔ وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْفُلْكِ وَالْأَنْعامِ ما تَرْكَبُونَ [ الزخرف 12] اور تمہارے لئے کشتیاں اور چار پائے بنائے جن پر تم سوار ہوتے ہو۔ اور فلک کے معنی ستاروں کا مدار ( مجرٰی) کے ہیں اور اس فلک یعنی کشتی نما ہونے کی وجہ سے فلک کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ [يس 40] سب اپنے اپنے مدار میں تیر رہے ہیں ۔ اور نلکتہ المغزل کے معنی چرخے کا دم کرہ کے ہیں اور اسی سے فلک ثدی المرءۃ کا محاورہ ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں عورت کی چھاتی کے دم کزہ طرح ابھر آنے کے ہیں اور فلقت الجدی کے معنی بکری کے بچے کی زبان پھاڑ کر اس میں پھر کی سی ڈال دینے کے ہیں ۔ تاکہ وہ اپنی ماں کے پستانوں سے دودھ نہ چوس سکے ۔- غرق - الغَرَقُ : الرّسوب في الماء وفي البلاء، وغَرِقَ فلان يَغْرَقُ غَرَقاً ، وأَغْرَقَهُ. قال تعالی: حَتَّى إِذا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ [يونس 90] ،- ( غ ر ق ) الغرق - پانی میں تہ نشین ہوجانا کسی مصیبت میں گرفتار ہوجانا ۔ غرق ( س) فلان یغرق غرق فلاں پانی میں ڈوب گیا ۔ قرآں میں ہے : حَتَّى إِذا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ [يونس 90] یہاں تک کہ جب اسے غرقابی نے آلیا ۔- عمی - العَمَى يقال في افتقاد البصر والبصیرة، ويقال في الأوّل : أَعْمَى، وفي الثاني : أَعْمَى وعَمٍ ، وعلی الأوّل قوله : أَنْ جاءَهُ الْأَعْمى[ عبس 2] ، وعلی الثاني ما ورد من ذمّ العَمَى في القرآن نحو قوله : صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ [ البقرة 18] - ( ع م ی ) العمی ٰ- یہ بصارت اور بصیرت دونوں قسم اندھے پن کے لئے بولا جاتا ہے لیکن جو شخص بصارت کا اندھا ہو اس کے لئے صرف اعمیٰ اور جو بصیرت کا اندھا ہو اس کے لئے اعمیٰ وعم دونوں کا استعمال ہوتا ہے اور آیت کریمہ : أَنْ جاءَهُ الْأَعْمى[ عبس 2] کہ ان کے پاس ایک نا بینا آیا ۔ میں الاعمیٰ سے مراد بصارت کا اندھا ہے مگر جہاں کہیں قرآن نے العمیٰ کی مذمت کی ہے وہاں دوسرے معنی یعنی بصیرت کا اندھا پن مراد لیا ہے جیسے فرمایا : صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ [ البقرة 18] یہ بہرے گونگے ہیں اندھے ہیں ۔ فَعَمُوا وَصَمُّوا[ المائدة 71] تو وہ اندھے اور بہرے ہوگئے ۔ بلکہ بصٰیرت کے اندھا پن کے مقابلہ میں بصارت کا اندھا پن ۔ قرآن کی نظر میں اندھا پن ہی نہیں ہے
(٦٣) بلکہ تمہیں اس سے تعجب ہورہا ہے کہ تمہارے جیسے انسان پر نبوت آگئی ہے کہ وہ تمہیں ڈرائے تاکہ تم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور غیر اللہ سے بچو، تاکہ اس کی وجہ سے تم پر رحم کیا جائے اور عذاب سے نجات ملے ،
سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :49 یہ معاملہ جو حضرت نوح علیہ السلام اور ان کی قوم کے درمیان پیش آیا تھا بعینہ ایسا ہی معاملہ مکہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی قوم کے درمیان پیش آرہا تھا ۔ جو پیغام حضرت نوح علیہ السلام کا تھا وہی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا ۔ جو شہبات اہل مکّہ کے سردار حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت میں ظاہر کیے تھے ۔ پھر ان کے جواب میں جو باتیں حضرت نوح علیہ السلام کہتے تھے بعینہ وہی باتیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی کہتے تھے آگے چل کر دوسرے انبیاء علیہم السلام اور ان کی قوموں کے جو قصے مسلسل بیان ہو رہے ہیں ان میں بھی یہی دکھایا گیا ہے کہ ہر نبی کی قوم کا رویّہ اہل مکہ کے رویّہ سے اور ہر نبی کی تقریر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تقریر سے ہُو بہُو مشابہ ہے ۔ اس سے قرآن اپنے مخاطبوں کو یہ سمجھانا چاہتا ہے کہ انسان کی گمراہی ہر زمانے میں بنیادی طور پر ایک ہی طرح کی رہی ہے ، اور خدا کے بھیجے ہوئے معلّموں کی دعوت بھی ہر عہد اور ہر سر زمین میں یکساں رہی ہے اور ٹھیک اسی طرح ان لوگوں کا انجام بھی ایک ہی جیسا ہوا ہے اور ہوگا جنہوں نے انبیاء کی دعوت سے منہ موڑا اور اپنی گمراہی پر اصرار کیا ۔