Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

64۔ 1 یعنی حق سے حق کو دیکھتے تھے نہ اس کو اپنانے کے لئے تیار تھے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٦٧] انبیاء کے قصوں میں تکرار و اختصار کی وجہ :۔ نوح کا قصہ جس اختصار کے ساتھ یہاں بیان کیا گیا ہے اس سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان میں اور ان کی قوم میں جو سوال و جواب ہوئے وہ بس دو چار ملاقاتوں میں ہوگئے ہوں گے۔ حالانکہ نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو ساڑھے نو سو سال تبلیغ کی تھی۔ نوح (علیہ السلام) کا قصہ قرآن میں متعدد بار مذکور ہوا ہے اور ہر موقع پر کوئی نہ کوئی تفصیل مل جاتی ہے۔ یہ قرآن کا مخصوص انداز بیان ہے کہ جس مقام پر موضوع کی نسبت سے جتنا ذکر درکار تھا اتنا ہی بیان کردیا گیا کیونکہ قرآن کا مقصود محض قصہ گوئی نہیں بلکہ اس وقت جو بات انسانی ہدایت کے لیے اہم ہو صرف اتنی ہی بیان کی جاتی ہے مثلاً یہاں یہ موضوع جاری ہے کہ انبیاء کو ہمیشہ سے جھٹلایا جاتا رہا۔ جھٹلانے والے لوگ قوم کے سردار ہوتے ہیں جو اپنی ہٹ دھرمی پر اڑے رہتے ہیں بالآخر ان پر اللہ کا عذاب آتا ہے جو انہیں تباہ کر کے رکھ دیتا ہے اس لیے یہاں اتنا ہی ذکر کیا گیا اور جہاں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اور آپ کے صحابہ کرام (رض) کو مخالفین کے مظالم پر صبر کرنے کی تلقین مقصود تھی وہاں یہ بیان کیا گیا کہ نوح (علیہ السلام) نے تو ساڑھے نو سو سال تک صبر کیا تھا لہذا تمہیں بھی صبر کرنا چاہیے اور جہاں نوح کے نافرمان بیٹے کے غرق ہونے کا ذکر مقصود تھا نیز یہ کہ وہ کیوں غرق ہوا وہاں طوفان نوح (علیہ السلام) کی تفصیل بیان کی گئی تمام انبیاء (علیہ السلام) کے حالات کے متعلق قرآن میں آپ کو اسی انداز کا بیان ملے گا۔- [٦٨] قوم نوح کی غرقابی :۔ ساڑھے نو سو سال کی تبلیغ کے نتیجہ میں مٹھی بھر لوگ اور بعض اقوال کے مطابق صرف چالیس آدمی آپ پر ایمان لائے۔ جب نوح (علیہ السلام) باقی لوگوں کے ایمان لانے سے مایوس ہوگئے تو آپ نے ان کے حق میں بددعا کی کہ یا اللہ ان میں سے اب کسی کو بھی زندہ نہ چھوڑنا کیونکہ جس ہٹ دھرمی پر یہ اتر آئے ہیں، ان کی اولاد بھی اب فاسق و فاجر ہی بنے گی۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو کشتی تیار کرنے کا حکم دیا پھر جب سیلاب آنا شروع ہوا تو آپ نے اس سے ذرا پہلے اپنے پیروکاروں کو اس میں سوار کیا اور جانداروں کا ایک ایک جوڑا بٹھا لیا۔ پھر سیلاب اس وسیع پیمانے پر آیا جس سے یہ ساری کی ساری بدکار قوم ڈوب کر مرگئی۔ (نیز دیکھیے سورة ہود کی آیت نمبر ٤٤ کا حاشیہ )- [ ٦٩] اندھے اس لحاظ سے تھے کہ انہوں نے نہ حق و باطل میں تمیز کی نہ اپنے نفع کو سوچا بلکہ ایسے ہٹ دھرم واقع ہوئے تھے کہ اندھے ہو کر اپنی سرکشی اور رسول کی تکذیب اور بغاوت پر ڈٹے رہے مگر بت پرستی سے باز نہ آئے بلکہ ایک دوسرے کو تاکید کرتے تھے کہ دیکھو نوح (علیہ السلام) کے کہنے پر چل کر کہیں اپنے معبودوں کو چھوڑ نہ دینا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

فَاَنْجَيْنٰهُ وَالَّذِيْنَ مَعَهٗ ۔۔ : آخر مومنوں کو سفینے ( بحری جہاز) میں اللہ تعالیٰ نے نجات دی اور مخالفین طوفان سے ہلاک ہوگئے۔ اہل تاریخ کا کہنا ہے کہ طوفان نوح کا تخمینی سال ٣٢٠٠ قبل مسیح ہے۔ بیان کرتے ہیں کہ نوح (علیہ السلام) کا یہ سفینہ تین منزلہ تھا، طول ٣٠٠ ہاتھ، عرض ٥٠ ہاتھ اور اونچائی ٣٠ ہاتھ، لیکن ان باتوں کی کوئی دلیل نہیں۔ تورات کے بیان کے مطابق یہ جہاز تقریباً پانچ ماہ چلتا رہا، مگر ہمارے پاس اس کی تصدیق یا تکذیب کا کوئی ذریعہ نہیں۔ دنیا کے مختلف خطوں میں اور مختلف پہاڑوں پر ایک قدیم اور زبردست طوفان کے آثار اب بھی پائے جاتے ہیں۔ قصۂ نوح کی تفصیل سورة نوح اور سورة ہود وغیرہ میں ہے۔ ان کا اندھا پن یہ تھا کہ حق نہ دیکھتے تھے نہ قبول کرنے کے لیے تیار تھے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

ارشاد فرمایا،- (آیت) فَكَذَّبُوْهُ فَاَنْجَيْنٰهُ وَالَّذِيْنَ مَعَهٗ فِي الْفُلْكِ وَاَغْرَقْنَا الَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا ۭاِنَّهُمْ كَانُوْا قَوْمًا عَمِيْنَ یعنی نوح (علیہ السلام) کی ظالم قوم نے ان کی نصیحت و خیر خواہی کی کوئی پروا نہ کی اور برابر اپنی تکذیب پر جمع رہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہم نے نوح (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کو ایک کشتی میں سوار کرکے طوفان سے نجات دے دی اور جن لوگوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا تھا ان کو غرق کردیا۔ بیشک یہ لوگ اندھے ہو رہے تھے۔- حضرت نوح (علیہ السلام) کا قصہ اور ان کی قوم کی غرقابی اور کشتی والوں کی نجات کی پوری تفصیل سورة نوح اور سورة ہود میں آئے گی۔ اس جگہ بتقاضائے مقام اس کا خلاصہ بیان ہوا ہے۔ حضرت زید بن اسلم فرماتے ہیں کہ قوم نوح پر طوفان کا عذاب اس وقت آیا جب کہ وہ اپنی کثرت و قوت کے اعتبار سے بھرپور تھے۔ عراق کی زمین اور اس کے پہاڑ ان کی کثرت کے سبب تنگ ہو رہے تھے۔ اور ہمیشہ اللہ تعالیٰ کا یہی دستور رہا ہے کہ نافرمان لوگوں کو ڈھیل دیتے رہتے ہیں۔ عذاب اس وقت بھیجتے ہیں جب وہ اپنی کثرت، قوت اور دولت میں انتہاء کو پہنچ جائیں اور اس میں بدمست ہوجائیں (ابن کثیر)- حضرت نوح (علیہ السلام) کے ساتھ کشتی میں کتنے آدمی تھے اس میں روایات مختلف ہیں۔ ابن کثیر رحمة اللہ نے بروایت ابن ابی حاتم حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے نقل کیا ہے کہ اسی (80) آدمی تھے جن میں ایک کا نام جرُہم تھا یہ عربی زبان بولتا تھا (ابن کثیر)- بعض روایات میں یہ تفصیل بھی آئی ہے کہ اسی (80) کے عدد میں چالیس مرد اور چالیس عورتیں تھیں۔ طوفان کے بعد یہ سب حضرات موصل میں جس جگہ مقیم ہوئے اس بستی کا نام ثمانون مشہور ہوگیا۔- غرض اس جگہ نوح (علیہ السلام) کا مختصر قصہ بیان فرما کر ایک تو یہ بتلا دیا کہ تمام انبیاء قدیم کی دعوت اور اصول عقائد ایک ہی تھے۔ دوسرے یہ بتلا دیا کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں کی تائید و حمایت کس طرح حیرت انگیز طریقہ پر کرتے ہیں کہ پہاڑوں کی چوٹیوں پر چڑھ جانے والے طوفان میں بھی ان کی سلامتی کو کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔ تیسرے یہ واضح کردیا کہ انبیاء (علیہم السلام) کی تکذیب عذاب الٓہی کو دعوت دینا ہے جس طرح پچھلی امتیں تکذیب انبیاء کے سبب عذاب میں گرفتار ہوگئیں آج کے لوگوں کو بھی اس سے بےخوف نہیں ہونا چاہئے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاِلٰي عَادٍ اَخَاہُمْ ہُوْدًا۝ ٠ ۭ قَالَ يٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللہَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَيْرُہٗ۝ ٠ ۭ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ۝ ٦٥- إلى- إلى: حرف يحدّ به النهاية من الجوانب الست، - الیٰ ۔ حرف ( جر ) ہے اور جہات ستہ میں سے کسی جہت کی نہایتہ حدبیان کرنے کے لئے آتا ہے - أخ - أخ الأصل أخو، وهو : المشارک آخر في الولادة من الطرفین، أو من أحدهما أو من الرضاع . ويستعار في كل مشارک لغیره في القبیلة، أو في الدّين، أو في صنعة، أو في معاملة أو في مودّة، وفي غير ذلک من المناسبات . قوله تعالی: لا تَكُونُوا كَالَّذِينَ كَفَرُوا وَقالُوا لِإِخْوانِهِمْ [ آل عمران 156] ، أي : لمشارکيهم في الکفروقوله تعالی: أَخا عادٍ [ الأحقاف 21] ، سمّاه أخاً تنبيهاً علی إشفاقه عليهم شفقة الأخ علی أخيه، وعلی هذا قوله تعالی: وَإِلى ثَمُودَ أَخاهُمْ [ الأعراف 73] وَإِلى عادٍ أَخاهُمْ [ الأعراف 65] ، وَإِلى مَدْيَنَ أَخاهُمْ [ الأعراف 85] ، - ( اخ و ) اخ - ( بھائی ) اصل میں اخو ہے اور ہر وہ شخص جو کسی دوسرے شخص کا ولادت میں ماں باپ دونوں یا ان میں سے ایک کی طرف سے یا رضاعت میں شریک ہو وہ اس کا اخ کہلاتا ہے لیکن بطور استعارہ اس کا استعمال عام ہے اور ہر اس شخص کو جو قبیلہ دین و مذہب صنعت وحرفت دوستی یا کسی دیگر معاملہ میں دوسرے کا شریک ہو اسے اخ کہا جاتا ہے چناچہ آیت کریمہ :۔ لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ كَفَرُوا وَقَالُوا لِإِخْوَانِهِمْ ( سورة آل عمران 156) ان لوگوں جیسے نہ ہونا جو کفر کرتے ہیں اور اپنے مسلمان بھائیوں کی نسبت کہتے ہیں ۔ میں اخوان سے ان کے ہم مشرب لوگ مراد ہیں اور آیت کریمہ :۔ أَخَا عَادٍ ( سورة الأَحقاف 21) میں ہود (علیہ السلام) کو قوم عاد کا بھائی کہنے سے اس بات پر تنبیہ کرنا مقصود ہے کہ وہ ان پر بھائیوں کی طرح شفقت فرماتے تھے اسی معنی کے اعتبار سے فرمایا : ۔ وَإِلَى ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَالِحًا ( سورة هود 61) اور ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا ۔ وَإِلَى عَادٍ أَخَاهُمْ ( سورة هود 50) اور ہم نے عاد کی طرف ان کے بھائی ( ہود ) کو بھیجا ۔ وَإِلَى مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا ( سورة هود 84) اور مدین کی طرف ان کے بھائی ( شعیب ) کو بھیجا ۔- هود - الْهَوْدُ : الرّجوع برفق، ومنه : التَّهْوِيدُ ، وهومشي کالدّبيب، وصار الْهَوْدُ في التّعارف التّوبة .- قال تعالی: إِنَّا هُدْنا إِلَيْكَ [ الأعراف 156] أي : تبنا، وهُودٌ في الأصل جمع هَائِدٍ. أي : تائب وهو اسم نبيّ عليه السلام .- ( ھ و د ) الھود - کے معنی نر می کے ساتھ رجوع کرن ا کے ہیں اور اسی سے التھدید ( تفعیل ) ہے جسکے معنی رینگنے کے ہیں لیکن عرف میں ھو د بمعنی تو بۃ استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے . : إِنَّا هُدْنا إِلَيْكَ [ الأعراف 156] ھود اصل میں ھائد کی جمع ہے جس کے معنی تائب کے ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کے ایک پیغمبر کا نام ہے ۔- عبادت - العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] . والعِبَادَةُ ضربان :- عِبَادَةٌ بالتّسخیر، وهو كما ذکرناه في السّجود .- وعِبَادَةٌ بالاختیار، وهي لذوي النّطق، وهي المأمور بها في نحو قوله : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة 21] ، وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء 36] .- ( ع ب د ) العبودیۃ - کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ - عبادۃ دو قسم پر ہے - (1) عبادت بالتسخیر جسے ہم سجود کی بحث میں ذکر کرچکے ہیں (2) عبادت بالاختیار اس کا تعلق صرف ذوی العقول کے ساتھ ہے یعنی ذوی العقول کے علاوہ دوسری مخلوق اس کی مکلف نہیں آیت کریمہ : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة 21] اپنے پروردگار کی عبادت کرو ۔ وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء 36] اور خدا ہی کی عبادت کرو۔ میں اسی دوسری قسم کی عبادت کا حکم دیا گیا ہے ۔ - تقوي - والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] - التقویٰ- اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٦٤) انہوں نے (یعنی کافروں نے) حضرت نوح (علیہ السلام) کی تکفیر کی ہم نے سب کشتی والوں کو غرق اور عذاب سے نجات دی اور جنہوں نے ہماری کتاب اور ہمارے رسول نوح (علیہ السلام) کی تکذیب کی، ان کو غرق کردیا، یعنی پانی میں ڈبو دیا، بیشک وہ ہدایت سے بےبہرہ اور کافر تھے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٦٤ (فَکَذَّبُوْہُ فَاَنْجَیْنٰہُ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ فِی الْْفُلْکِ وَاَغْرَقْنَا الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا ط) (اِنَّہُمْ کَانُوْا قَوْماً عَمِیْنَ ) - یعنی وہ ایسی قوم تھی جس نے آنکھیں ہونے کے باوجود اللہ کی نشانیوں کو دیکھنے اور حق کو پہچاننے سے انکار کردیا۔ حضرت نوح (علیہ السلام) کے ساتھی اہل ایمان بہت ہی کم لوگ تھے۔ آپ ( علیہ السلام) نے ساڑھے نو سو برس تک اپنی قوم کو دعوت دی تھی اس کے باوجود بہت تھوڑے لوگ ایمان لائے تھے ‘ جو آپ ( علیہ السلام) کے ساتھ کشتی میں سیلاب سے محفوظ رہے۔ آپ ( علیہ السلام) کے تین بیٹوں میں سے حضرت سام کی اولاد میں سے عاد نام کے ایک سردار بڑے مشہور ہوئے اور پھر ان ہی کے نام پر قوم عاد وجود میں آئی۔ آگے اسی قوم کا تذکرہ ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :50 جو لوگ قرآن کے اندازِ بیان سے اچھی طرح واقف نہیں ہوتے وہ بسا اوقات اس شبہہ میں پڑ جاتے ہیں کہ شاید یہ سارا معاملہ بس ایک دو صحبتوں میں ختم ہو گیا ہوگا ۔ نبی اٹھا اور اس نے اپنا دعوٰی پیش کیا ، لوگوں نے اعتراضات کیے اور نبی نے ان کا جواب دیا ، لوگوں نے جھٹلایا اور اللہ نے عذاب بھیج دیا ۔ حالانکہ فی الحقیقت جن واقعات کو یہاں سمیٹ کر چند سطروں میں بیان کر دیا گیا ہے وہ ایک نہایت طویل مدّت میں پیش آئے تھے ۔ قرآن کا یہ مخصوص طرز بیان ہے کہ وہ قصہ گوئی محض قصہ گوئی کی خاطر نہیں کرتا بلکہ سبق آموزی کےلیے کرتا ہے ۔ اس لیے ہر جگہ تاریخی واقعات کے بیان میں وہ قصّے کے صرف ان اہم اجزاء کو پیش کرتا ہے جو اس کے مقصد و مدعا سے کوئی تعلق رکھتے ہیں ، باقی تمام تفصیلات کو نظر انداز کر دیتا ہے ۔ پھر اگر کسی قصہ کو مختلف مواقع پر مختلف اغراض کے لیے بیان کرتا ہے تو ہر جگہ مقصد کی مناسبت سے تفصیلات بھی مختلف طور پر پیش کرتا ہے ۔ مثلاً اسی قصّہ نوح علیہ السلام کو لیجیے ۔ یہاں اس کے بیان کا مقصد یہ بتانا ہے کہ پیغمبر کی دعوت کو جھٹلانے کا کیا انجام ہوتا ہے ۔ لہٰذا اس مقام پر یہ ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں تھی کہ پیغمبر کتنی طویل مدّت تک اپنی قوم کو دعوت دیتا رہا ۔ لیکن جہاں یہ قصّہ اس غرض کے لیے بیان ہوا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں کو صبر کی تلقین کی جائے وہاں خاص طور پر دعوت نوح علیہ السلام کی طویل مدّت کا ذکر کیا گیا ہے تاکہ آں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے رفقاء اپنی چند سال کی تبلیغی سعی و محنت کو نتیجہ خیز ہوتے نہ دیکھ کر بد دل نہ ہوں اور حضرت نوح علیہ السلام کے صبر کو دیکھیں جنہوں نے مدتہائے دراز تک نہایت دل شکن حالات میں دعوت حق کی خدمت انجام دی اور ذرا ہمّت نہ ہاری ۔ ملاحظہ ہو سورہ عنکبوت ، آیت١٤ ۔ اس موقع پر ایک اور شک بھی لوگوں کے دلوں میں کھٹکتا ہے جسے رفع کر دینا ضروری ہے ۔ جب ایک شخص قرآن میں بار بار ایسے واقعات پڑھتا ہے کہ فلاں قوم نے نبی کو جھٹلایا اور نبی نے اسے عذاب کی خبر دی اور اچانک اس پر عذاب آیا اور قوم تباہ ہوگئی ، تو اس کے دل میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس قسم کے واقعات اب کیوں نہیں پیش آتے ؟ اگر چہ قومیں گرتی بھی ہیں اور اُبھرتی بھی ہیں ، لیکن اس عروج و زوال کی نوعیت دوسری ہوتی ہے ۔ یہ تو نہیں ہوتا کہ ایک نوٹس کے بعد زلزلہ یا طوفان یا صاعقہ آئے اور قوم کی قوم کو تباہ کر کے رکھ دے ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ فی الحقیقت اخلاقی اور قانونی اعتبار سے اس قوم کا معاملہ جو کسی نبی کی براہ راست مخاطب ہو ، دوسری تمام قوموں کے معاملہ سے بالکل مختلف ہوتا ہے ۔ جس قوم میں نبی پیدا ہوا ہو اور وہ بلا واسطہ اس کو خود اسی کی زبان میں خدا کا پیغام پہنچائے اور اپنی شخصیت کے اندر اپنی صداقت کا زندہ نمونہ اس کے سامنے پیش کر دے ، اس پر خدا کی حجت پوری ہو جاتی ہے ، اس کے لیے معذرت کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی اور خدا کے فرستادہ کو دو بدو جھٹلا دینے کے بعد وہ اس کی مستحق ہو جاتی ہے کہ اس کا فیصلہ برسرِ موقع چکا دیا جائے ۔ یہ نوعیت معاملہ ان قوموں کے معاملہ سے بنیادی طور پر مختلف ہے جن کے پاس خدا کا پیغام براہ راست نہ آیا ہو بلکہ مختلف واسطوں سے پہنچا ہو ۔ پس اگر اب اس طرح کے واقعات پیش نہیں آتے جیسے انبیاء علیہم السلام کے زمانے میں پیش آئے ہیں تو اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں ، اس لیے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کا سلسلہ بند ہو چکا ہے ۔ البتہ تعجب کے قابل کوئی بات ہو سکتی تھی تو یہ کہ اب بھی کسی قوم پر اسی شان کا عذاب آتا جیسا انبیاء کو دُو بدو جھٹلانے والی قوموں پر آتا تھا ۔ مگر اس کے یہ معنی بھی نہیں ہیں کہ اب ان قوموں پر عذاب آنے بند ہو گئے ہیں جو خدا سے برگشتہ اور فکری و اخلاقی گمراہیوں میں سرگشتہ ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ اب بھی ایسی تمام قوموں پر عذاب آتے رہتے ہیں ۔ چھوٹے چھوٹے تنبیہی عذاب بھی اور بڑے بڑے فیصلہ کُن عذاب بھی ۔ لیکن کوئی نہیں جو انبیاء علیہم السلام اور کتب آسمانی کی طرح ان عذابوں کے اخلاقی معنی کی طرف انسان کو توجہ دلائے ۔ بلکہ اس کے برعکس ظاہر ہیں سائنس دانوں اور حقیقت سے ناواقف مورخین و فلاسفہ کا ایک کثیر گروہ نوعِ انسانی پر مسلط ہے جو اس قسم کے تمام واقعات کی توجہ طبعیاتی قوانین یا تاریخی اسباب سے کر کے اس کو بُھلاوے میں ڈالتا رہتا ہے اور اسے کبھی یہ سمجھنے کا موقع نہیں دیتا کہ اوپر کوئی خدا بھی موجود ہے جو غلط کار قوموں کو پہلے مختلف طریقوں سے ان کی غلط کاری پر متنبہ کرتا ہے اور جب وہ اس کی بھیجی ہوئی تنبیہات سے آنکھیں بند کر کے اپنی غلط روی پر اصرار کیے چلی جاتی ہیں تو آکر کار انہیں تباہی کے گڑھے میں پھینک دیتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

36: کشتی اور طوفان کا پورا واقعہ ان شاء اللہ سورۃ ہود میں آنے والا ہے۔