Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

ہود علیہ السلام اور ان کا رویہ فرماتا ہے کہ جیسے قوم نوح کی طرف حضرت نوح کو ہم نے بھیجا تھا قوم عاد کی طرف حضرت ہود علیہ السلام کو ہم نے نبی بنا کر بھیجا یہ لوگ عاد بن ارم بن عوص بن سام بن نوح کی اولاد تھے ۔ یہ عاد اولیٰ ہیں ۔ یہ جنگل میں ستونوں میں رہتے تھے ۔ فرمان ہے آیت ( الم تر کف فعل ربک بعاد ارم ذات العماد التی لم یخلق مثلھا فی البلاد ) یعنی کیا تو نے نہیں دیکھا کہ عاد ارم کے ساتھ تیرے رب نے کیا کیا ؟ جو بلند قامت تھے دوسرے شہروں میں جن کی مانند لوگ پیدا ہی نہیں کئے گئے ۔ یہ لوگ بڑے قوی طاقتور اور لانبے چوڑے قد کے تھے جیسے فرمان ہے کہ عادیوں نے زمین میں ناحق تکبر کیا اور نعرہ لگایا کہ ہم سے زیادہ قوی کون ہے؟ کیا انہیں اتنی بھی تمیز نہیں کہ ان کا پیدا کرنے والا یقینا ان سے زیادہ طاقت والا ہے ۔ وہ ہماری آیتوں سے انکار کر بیٹھے ان کے شہر یمن میں احقاف تھے ، یہ ریتلے پہاڑ تھے ۔ حضرت علی نے حضرت موت کے ایک شخص سے کہا کہ تو نے ایک سرخ ٹیلہ دیکھا ہو گا جس میں سرخ رنگ کی راکھ جیسی مٹی ہے اس کے آس پاس پیلو اور بیری کے درخت بکثرت ہیں وہ ٹیلہ فلاں جگہ حضر موت میں ہے اس نے کہا امیر المومنین آپ تو اس طرح کے نشان بتا رہے ہیں گویا آپ نے بچشم خود دیکھا ہے آپ نے فرمایا نہیں دیکھا تو نہیں لیکن ہاں مجھ تک حدیث پہنچی ہے کہ وہیں حضرت ہود علیہ السلام کی قبر ہے ۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ان لوگوں کی بستیاں یمن میں تھیں اسی لئے ان کے پیغمبر وہیں مدفون ہیں آپ ان سب میں شریف قبیلے کے تھے اس لئے کہ انبیاء ہمیشہ حسب نسب کے اعتبار سے عالی خاندان میں ہی ہوتے رہے ہیں لیکن آپ کی قوم جس طرح جسمانی طور سے سخت اور زوردار تھی اسی طرح دلوں کے اعتبار سے بھی بہت سخت تھی جب اپنے نبی کی زبانی اللہ کی عبادت اور تقویٰ کی نصیحت سنی تو لوگوں کو بھاری اکثریت اور ان کے سردار اور بڑے بول اٹھے کہ تو تو پاگل ہو گیا ہے ہمیں اپنے بتوں کی ان خوبصورت تصویروں کی عبادت سے ہٹا کر اللہ واحد کی عبادت کی طرف بلا رہا ہے ۔ یہی تعجب قریش کو ہوا تھا ۔ انہوں نے کہا تھا کہ اس نے سارے معبودوں کو عبادت سے ہٹا کر ایک کی عبادت کی طرف بلا رہا ہے ۔ یہی تعجب قریش کو ہوا تھا ۔ انہوں نے کہا تھا کہ اس نے سارے معبودوں کو عبادت سے ہٹا کر ایک کی عبادت کی دعوت کیوں دی ؟ حضرت ہود نے انہیں جواب دیا کہ مجھ میں تو بیوقوفی کی بفضلہ کوئی بات نہیں ۔ میں تو تمہیں کلام اللہ پہنچا رہا ہوں تمہاری خیر خواہی کرتا ہوں اور امانت داری سے حق رسالت ادا کر رہا ہوں ۔ یہی وہ صفتیں ہیں جو تمام رسولوں میں یکساں ہوتی ہیں یعنی پیغام حق پہنچانا ، لوگوں کی بھلائی چاہنا اور امانتداری کا نمونہ بننا ۔ تم میری رسالت پر تعجب نہ کرو بلکہ اللہ کا شکر بجا لاؤ کہ اس نے تم میں سے ایک فرد کو اپنا پیغمبر بنایا کہ وہ تمہیں عذاب الٰہی سے ڈراوے ۔ تمہیں رب کے اس احسان کو بھی فراموش نہ کرنا چاہئے کہ اس نے تمہیں ہلاک ہونے والوں کے بقایا میں سے بنایا ۔ تمہیں باقی رکھا اتنا ہی نہیں بلکہ تمہیں قوی ہیکل ، مضبوط اور طاقتور کر دیا ۔ یہی نعمت حضرت طالوت پر تھی کہ انہیں جسمانی اور علمی کشادگی دی گئی تھی ۔ تم اللہ کی نعمتوں کو یاد رکھو تاکہ نجات حاصل کر سکو ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

65۔ 1 یہ قوم عاد، عاد اولیٰ ہے جن کی رہائش یمن میں ریتلے پہاڑوں پر تھی اور اپنی قوت و طاقت میں بےمثال تھی۔ ان کی طرف حضرت ہود علیہ السلام، جو اسی قوم کے ایک فرد تھے نبی بن کر آئے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٧٠] سیدنا ہود کا مرکز تبلیغ :۔ طوفان نوح کے بعد بھی ایک مدت سیدنا نوح (علیہ السلام) زندہ رہے پھر اس طوفان کے تقریباً چھ سو سال بعد سیدنا ہود (علیہ السلام) کو قوم عاد کی طرف بھیجا گیا یہ سام کی اولاد میں سے تھے جو عاد عرب کی قدیم ترین قوم تھی، جس کے افسانے عرب میں زبان زد عام تھے اس قوم کو عاد اولیٰ بھی کہا جاتا ہے اس کی شان و شوکت بھی ضرب المثل تھی اور دنیا سے اس کا نام و نشان تک مٹ جانا بھی ضرب المثل بن گیا تھا۔ اسی شہرت کی وجہ سے عربی زبان میں ہر قدیم چیز کے لیے عادی کا لفظ بولا جاتا ہے۔ آثار قدیمہ کو عادیات کہتے ہیں اور جس زمین کے مالک باقی نہ رہے ہوں یا مدت سے بنجر پڑی ہو اسے عادی الارض کہا جاتا ہے۔ اس قوم کا اصل مسکن احقاف کا علاقہ تھا جو حجاز، یمن اور یمامہ کے درمیان الربع الخالی کے جنوب مغرب میں واقع ہے یہیں سے پھیل کر ان لوگوں نے یمن کے مغربی سواحل اور عمان اور حضرموت سے عراق تک اپنی طاقت کا سکہ رواں کردیا تھا۔ یہ قوم بڑی قد آور، مضبوط اور سرکش تھی۔ رہنے کے لیے زمین دوز شہروں کے شہر بسا رکھے تھے اور بت پرستی میں بری طرح پھنسے ہوئے تھے۔ سیدنا ہود (علیہ السلام) نے انہیں بت پرستی سے منع کیا اور سمجھایا کہ یہ بت نہ کسی کا کچھ بگاڑ سکتے ہیں اور نہ سنوار سکتے ہیں لہذا صرف ایک اللہ کی عبادت کرو جو ہر چیز کا خالق ومالک ہے اور ہر قسم کے اختیارات و تصرفات صرف اسی کے قبضہ ئقدرت میں ہیں۔ لہذا انہیں اپنی اس غلط روش سے پرہیز کرنا چاہیے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَاِلٰي عَادٍ اَخَاهُمْ هُوْدًا ۭ: عاد عرب کی ایک قدیم ترین قوم تھی جو جنوبی عرب میں آباد تھی۔ قرآن کے بیان کے مطابق ان کا مسکن ” احقاف “ کا علاقہ تھا جو حجاز، یمن اور عمان کے درمیان واقع ہے اور اب ” ربع خالی “ کے نام سے مشہور ہے۔ یمن کا شہر حضر موت ان کا پایۂ تخت تھا۔ ان کا نسب یوں بیان کیا جاتا ہے، عاد بن عوض بن ارم بن سام بن نوح۔ ( ابن کثیر) مگر اس کی صحت اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔ ہود (علیہ السلام) کی قوم عاد قرآن میں عاد ارم یا عاد اولیٰ کے نام سے مذکور ہے۔ حضر موت کے نزدیک ایک مقام پر ہود (علیہ السلام) کی قبر بتائی جاتی ہے۔ ( المنار) مگر ملا علی قاری نے الموضوعات میں لکھا ہے کہ انبیاء میں سے ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ میں سے ابوبکر اور عمر (رض) کی قبروں کے سوا کسی نبی یا صحابی کی قبر کا کوئی صحیح علم نہیں ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اور ہم نے قوم عاد کی طرف ان کے (برادری یا وطن کے) بھائی (حضرت) ہود (علیہ السلام) کو (پیغمبر بنا کر) بھیجا انہوں نے (اپنی قوم سے) فرمایا اے میری قوم تم (صرف) اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا کوئی تمہارا معبود (ہونے کے قابل) نہیں (اور بت پرستی چھوڑ دو جیسا آگے وَنَذَرَ مَا كَانَ يَعْبُدُ اٰبَاۗؤ ُ نَا سے معلوم ہوتا ہے) سو کیا تم (ایسے بڑے جرم عظیم یعنی شرک کے مرتکب ہو کر عذاب الٰہی سے) نہیں ڈرتے ان کی قوم میں جو آبرودار لوگ کافر تھے انہوں نے (جواب میں) کہا کہ ہم تم کو کم عقلی میں (مبتلا) دیکھتے ہیں (کہ توحید کی تعلیم کر رہے ہو اور عذاب سے ڈرا رہے ہو) اور ہم بیشک تم کو جھوٹے لوگوں میں سے سمجھتے ہیں (یعنی نعوذ باللہ نہ تو توحید صحیح مسئلہ ہے اور نہ عذاب کا آنا صحیح ہے) انہوں نے فرمایا کہ اے میری قوم مجھ میں ذرا بھی کم عقل نہیں لیکن (چونکہ) میں پروردگار عالم کا بھیجا ہوا پیغمبر ہوں (انہوں نے مجھ کو تعلیم توحید اور انذار عذاب کا حکم کیا ہے اس لئے اپنا منصبی کام کرتا ہوں کہ) تم کو اپنے پروردگار کے پیغام (اور احکام) پہنچاتا ہوں اور میں تمہارا خیر خواہ امانت دار ہوں (کیونکہ توحید و ایمان میں تمہارا ہی نفع ہے) اور (تم جو میرے بشر ہونے سے میری نبوت کا انکار کرتے ہو جیسا سورة ابراہیم میں بعد ذکر قوم نوح و عاد وثمود کے ہے (آیت) قالوا ان انتم الا بشر مثلنا اور سورة فصلت میں بعد ذکر عاد وثمود کے ہے (آیت) قالوا لوشاء ربنا لا نزل ملئکة الخ تو) کیا تم اس بات سے تعجب کرتے ہو کہ تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہارے پاس ایک ایسے شخص کی معرفت جو تمہاری ہی جنس کا (بشر) ہے کوئی نصیحت کی بات آگئی (وہ نصیحت کی بات وہی ہے جو مذکور ہوئی (آیت) يٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَيْرُهٗ ۭ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ ) تاکہ وہ شخص تم کو (عذاب الٰہی سے) ڈراوے (یعنی یہ تو کوئی تعجب کی بات نہیں کیا بشریت و نبوت میں منافاة ہے اوپر افلا تتقون میں ترہیب تھی آگے ترغیب ہے) اور (اے قوم) تم یہ حالت یاد کرو (اور یاد کرکے احسان مانو اور اطاعت کرو) کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو قوم نوح کے بعد (روئے زمین پر) آباد کیا اور ڈیل ڈول میں تم کو پھیلاؤ (بھی) زیادہ دیا سو خدا تعالیٰ کی (ان) نعمتوں کو یاد کرو (اور یاد کرکے احسان مانو اور اطاعت کرو) تاکہ تم کو (ہر طرح کی) فلاح ہو وہ لوگ کہنے لگے کہ کیا (خوب) آپ ہمارے پاس اس واسطے آئے ہیں کہ ہم صرف اللہ ہی کی عبادت کیا کریں اور جن (بتوں) کو ہمارے باپ دادا پوجتے تھے ہم ان (کی عبادت) کو چھوڑ دیں (یعنی ہم ایسا نہ کریں گے) اور ہم کو (نہ ماننے پر) جس عذاب کی دھمکی دیتے ہو (جیسا افلا تتقون سے معلوم ہوتا ہے) اس (عذاب) کو ہمارے پاس منگوا دو اگر تم سچے ہو انہوں نے فرمایا کہ (تمہاری سرکشی کی جب یہ حالت ہے تو) بس اب تم پر خدا کی طرف سے عذاب اور غضب آیا ہی چاہتا ہے (پس عذاب کے شبہ کا جواب تو اس وقت معلوم ہوجائے گا اور باقی توحید پر جو شبہ ہے کہ ان بتوں کو معبود کہتے ہو جن کا نام تو تم نے معبود رکھ لیا ہے، لیکن واقع میں ان کے معبود ہونے کی کوئی دلیل ہی نہیں تو) کیا تم مجھ سے ایسے (بےحقیقت) ناموں کے باب میں جھگڑتے ہو (یعنی وہ مسمیات بمنزلہ بعض اسماء کے ہیں) جن کو تم نے اور تمہارے باپ دادوں نے (آپ ہی) ٹھہرا لیا ہے (لیکن) ان کے معبود ہونے کی خدا تعالیٰ نے کوئی دلیل (نقلی و عقلی) نہیں بھیجی (یعنی جدال میں مدعی کے ذمہ دلیل ہے اور مقابل کی دلیل کا جواب بھی، سو تم نہ دلیل قائم کرسکتے ہو نہ میری دلیل کا جواب دے سکتے ہو پھر جدال کا کیا معنی) سو تم (اب جدال ختم کرو اور عذاب الٰہی کے) منتظر رہو میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کر رہا ہوں غرض (عذاب آیا اور) ہم نے ان کو اور ان کے ساتھیوں کو (یعنی مؤمنین کو) اپنی رحمت (وکرم) سے (اس عذاب سے) بچا لیا اور ان لوگوں کی جڑ (تک) کاٹ دی (یعنی بالکل ہلاک کردیا) جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا تھا اور وہ (بوجہ غایت قساوت کے) ایمان لانے والے نہ تھے (یعنی اگر ہلاک بھی نہ ہوتے جب بھی ایمان نہ لاتے اس لئے ہم نے بمقتضائے اس وقت کی حکمت کے خاتمہ ہی کردیا)- معارف و مسائل - عاد اور ثمود کی مختصر تاریخ - عاد اصل میں ایک شخص کا نام ہے جو نوح (علیہ السلام) کی پانچویں نسل اور ان کے بیٹے سام کی اولاد میں ہے۔ پھر اس شخص کی اولاد اور پوری قوم عاد کے نام سے مشہور ہوگئی۔ قرآن کریم میں عاد کی ساتھ کہیں لفظ عاد اولیٰ اور کہیں ارم ذات العماد بھی آیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ قوم عاد کو ارم بھی کہا جاتا ہے۔ اور عاد اولیٰ کے مقابلہ میں کوئی عاد ثانیہ بھی ہے، اس کی تحقیق میں مفسرین اور مؤ رخین کے اقوال مختلف ہیں۔ زیادہ مشہور یہ ہے کہ عاد کے دادا کا نام اِرَم ہے اس کے ایک بیٹے یعنی عوص کی اولاد میں عاد ہے یہ عاد اولیٰ کہلاتا ہے اور دوسرے بیٹے جثو کا بیٹا ثمود ہے یہ عادثانی کہلاتا ہے۔ اس تحقیق کا حاصل یہ ہے کہ عاد اور ثمود دونوں ارم کی دو شاخیں ہیں۔ ایک شاخ کو عاد اولیٰ اور دوسری کو ثمود یا عاد ثانیہ بھی کہا جاتا ہے اور لفظ اِرَم عاد وثمود دونوں کے لئے مشترک ہے۔ - اور بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ قوم عاد پر جس وقت عذاب آیا تو ان کا ایک وفد مکہ معظمہ گیا ہوا تھا وہ عذاب سے محفوظ رہا اس کو عاد اخری کہتے ہیں (بیان القرآن)- اور ھود (علیہ السلام) ایک نبی کا نام ہے یہ بھی نوح (علیہ السلام) کی پانچویں نسل اور سام کی اولاد میں ہیں قوم عاد اور حضرت ہود (علیہ السلام) کا نسب نامہ چوتھی پشت میں سام پر جمع ہوجاتا ہے اس لئے ہود (علیہ السلام) عاد کے نسبی بھائی ہیں اس لئے اخاہم ھوداً فرمایا گیا۔- قوم عاد کے تیرہ خاندان تھے۔ عمان سے لے کر حضرموت اور یمن تک ان کی بستاں تھیں۔ ان کی زمینیں بڑی سرسبز و شاداب تھیں۔ ہر قسم کے باغات تھے۔ رہنے کے لئے بڑے بڑے شاندار محلات بناتے تھے۔ بڑے قد آور قوی الجثہ آدمی تھے آیات مذکورہ میں وَّزَادَكُمْ فِي الْخَلْقِ بَصْۜطَةً کا یہی مطلب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا کی ساری ہی نعمتوں کے دروازے ان پر کھول دئیے تھے۔ مگر ان کی کج فہمی نے انھیں نعمتوں کو ان کے لئے وبال جان بنادیا۔ اپنی قوت و شوکت کے نشہ میں بدمست ہو کر (آیت) من اشد منا قوة کی ڈینگ مارنے لگے۔ - اور رب العالمین جس کی نعمتوں کی بارش ان پر ہو رہی تھی اس کو چھوڑ کر بت پرستی میں مبتلا ہوگئے۔ - حضرت ہود (علیہ السلام) کا نسب نامہ اور بعض حالات - اللہ تعالیٰ نے ان کی ہدایت کے لئے ہود (علیہ السلام) کو پیغمبر بنا کر بھیجا۔ جو خود انھیں کے خاندان سے تھے۔ اور ابولبرکات جونی جو انساب عرب کے بڑے ماہر مشہور ہیں انہوں نے لکھا ہے کہ ہود (علیہ السلام) کے بیٹے یعرب بن قحطان ہیں جو یمن میں جاکر آباد ہوئے اور یمنی اقوام انھیں کی نسل ہیں۔ اور عربی زبان کی ابتداء انھیں سے ہوئی اور یعرب کی مناسبت سے ہی زبان کا نام عربی اور اس کے بولنے والوں کو عرب کہا گیا۔ (بحر محیط) - مگر صحیح یہ ہے کہ عربی زبان تو عہد نوح (علیہ السلام) سے جاری تھی کشتی نوح (علیہ السلام) کے ایک رفیق جرہم تھے جو عربی زبان بولتے تھے (بحر محیط) اور یہی جرہم ہیں جن سے مکہ معظمہ کی آبادی شروع ہوئی، ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ یمن میں عربی زبان کی ابتدا یعرب بن قحطان سے ہوئی اور ابو البرکات کی تحقیق کا یہی مطلب ہو۔ - حضرت ہود (علیہ السلام) نے قوم عاد کو بت پرستی چھوڑ کر توحید اختیار کرنے اور ظلم و جور چھوڑ کر عدل و انصاف اختیار کرنے کی تلقین فرمائی، مگر یہ لوگ اپنی دولت و قوت کے نشہ میں سرشار تھے۔ بات نہ مانی جس کے نتیجہ میں ان پر پہلا عذاب تو یہ آیا کہ تین سال تک مسلسل بارش بند ہوگئی۔ ان کی زمینیں خشک ریگستانی صحرا بن گئی باغات جل گئے۔ مگر اس پر بھی یہ لوگ شرک و بت پرستی سے باز نہ آئے تو آٹھ دن اور سات راتوں تک ان پر شدید قسم کی آندھی کا عذاب مسلط ہوا جس نے ان کے رہے سہے باغات اور محلات کو زمین پر بچھا دیا ان کے آدمی اور جانور ہوا میں اڑتے اور پھر سر کے بل آکر گرتے تھے۔ اس طرح یہ قوم عاد پوری کی پوری ہلاک کردی گئی۔ آیات مذکورہ میں جو ارشاد ہے (آیت) وَقَطَعْنَا دَابِرَ الَّذِيْنَ كَذَّبُوْا، یعنی ہم نے جھٹلانے والوں کی نسل قطع کردی اس کا مطلب بعض حضرات نے یہی قرار دیا ہے کہ اس وقت جو لوگ موجود تھے وہ سب فنا کردیئے گئے۔ اور بعض حضرات نے اس لفظ کے یہ معنی قرار دیئے ہیں کہ آئندہ کے لئے بھی قوم عاد کی نسل اللہ تعالیٰ نے منقطع کردی۔ - حضرت ہود (علیہ السلام) کی بات نہ ماننے اور کفر و شرک میں مبتلا رہنے پر جب ان کی قوم پر عذاب آیا تو ہود (علیہ السلام) اور ان کے رفقاء نے ایک حَظِیرہ (گھیر) میں پناہ لی۔ یہ عجیب بات تھی کہ اس طوفانی ہوا سے بڑے بڑے محلات تو مہندم ہو رہے تھے مگر اس گھیر میں ہوا نہایت معتدل ہو کر داخل ہوتی تھی۔ ہود (علیہ السلام) کے سب رفقاء عین نزول عذاب کے وقت بھی اسی جگہ مطمئن بیٹھے رہے ان کو کسی قسم کی تکلیف نہیں ہوئی۔ قوم کے ہلاک ہوجانے کے بعد مکہ معظمہ میں منتقل ہوگئے اور پھر یہیں وفات پائی (بحر محیط) - قوم عاد کا عذاب ہوا کے طوفان کی صورت میں آنا قرآن مجید میں صراحةً مذکور اور منصوص ہے اور سورة مؤ منون میں قصہ نوح (علیہ السلام) ذکر کرنے کے بعد جو ارشاد ہوا ہے (آیت) ثم انشانا من بعدھم قرنا آخرین، یعنی پھر ہم نے ان کے بعد ایک اور جماعت پیدا کی، ظاہر یہ ہے کہ اس جماعت سے مراد قوم عاد ہے۔ پھر اس جماعت کے اعمال و اقوال بیان فرمانے کے بعد ارشاد فرمایا (آیت) فاخذتھم الصیحة بالحق، یعنی پکڑ لیا ان کو ایک سخت آواز نے۔ اس ارشاد قرآنی کی بنا پر بعض حضرات مفسرین نے فرمایا کہ قوم عاد پر سخت قسم کی ہیبت ناک آواز کا عذاب مسلط ہوا تھا مگر ان دونوں باتوں میں کوئی تعارض نہیں ہوسکتا ہے کہ سخت آواز بھی ہوئی ہو اور ہوا کا طوفان بھی۔ - یہ مختصر واقعہ ہے قوم عاد اور حضرت ہود (علیہ السلام) کا اس کی تفصیل قرآنی الفاظ کے ساتھ یہ ہے۔- پہلی (آیت) میں وَاِلٰي عَادٍ اَخَاهُمْ هُوْدًا ۭقَالَ يٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَيْرُهٗ ۭ اَفَلَا تَتَّقُوْنَ ، یعنی ہم نے قوم عاد کی طرف ان کے بھائی ہود (علیہ السلام) کو ہدایت کے لئے بھیجا تو انہوں نے فرمایا۔ اے میری قوم تم صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اس کے سوا کوئی تمہارا معبود نہیں ہے کیا تم ڈرتے نہیں۔ - قوم عاد سے پہلے قوم نوح (علیہ السلام) کا عذاب عظیم ابھی تک لوگوں کے ذہنوں سے غائب نہ ہوا تھا اس لئے حضرت ہود (علیہ السلام) کو عذاب کی شدت و عظمت بیان کرنے کی ضرورت نہ تھی صرف اتنا فرمانا کافی سمجھا کہ کیا تم اللہ کے عذاب سے ڈرتے نہیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قَالَ الْمَلَاُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَوْمِہٖٓ اِنَّا لَنَرٰىكَ فِيْ سَفَاہَۃٍ وَّاِنَّا لَنَظُنُّكَ مِنَ الْكٰذِبِيْنَ۝ ٦٦- كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] - رأى- والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس :- والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو :- لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] ،- والثاني : بالوهم والتّخيّل،- نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] .- والثالث : بالتّفكّر، - نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] .- والرابع : بالعقل،- وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] ،- ( ر ء ی ) رای - الرؤیتہ - کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور - قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں - ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا - جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔- ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا - جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔- (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا - جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے - ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا - جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ - سفه - السَّفَهُ : خفّة في البدن، ومنه قيل : زمام سَفِيهٌ: كثير الاضطراب، وثوب سَفِيهٌ: ردیء النّسج، واستعمل في خفّة النّفس لنقصان العقل، وفي الأمور الدّنيويّة، والأخرويّة، فقیل : سَفِهَ نَفْسَهُ [ البقرة 130] ، وأصله سَفِهَتْ نفسه، فصرف عنه الفعل نحو : بَطِرَتْ مَعِيشَتَها [ القصص 58] ، قال في السَّفَهِ الدّنيويّ : وَلا تُؤْتُوا السُّفَهاءَ أَمْوالَكُمُ [ النساء 5] ، وقال في الأخرويّ : وَأَنَّهُ كانَ يَقُولُ سَفِيهُنا عَلَى اللَّهِ شَطَطاً [ الجن 4] ، فهذا من السّفه في الدّين، وقال : أَنُؤْمِنُ كَما آمَنَ السُّفَهاءُ أَلا إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهاءُ [ البقرة 13] ، فنبّه أنهم هم السّفهاء في تسمية المؤمنین سفهاء، وعلی ذلک قوله : سَيَقُولُ السُّفَهاءُ مِنَ النَّاسِ ما وَلَّاهُمْ عَنْ قِبْلَتِهِمُ الَّتِي كانُوا عَلَيْها [ البقرة 142] - ( س ف ہ ) السفۃ اس کے اصل معنی جسمانی ہلکا پن کے ہیں اسی سے بہت زیادہ مضطرب رہنے والی مہار کو زمام سفیہ کہا جاتا ہے اور ثوب سفیہ کے معنی ردی کپڑے کے ہیں ۔ پھر اسی سے یہ لفظ نقصان عقل کے سبب خفت نفس کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ چناچہ محاورہ ہے سفہ نفسہ جو اصل میں سفہ نفسہ ہے پھر اس سے فعل کے نسبت قطع کر کے بطور تمیز کے اسے منصوب کردیا ہے جیسے بطرت معشیتہ کہ یہ اصل میں بطرت معیشتہ ہے ۔ اور سفہ کا استعمال امور دنیوی اور اخروی دونوں کے متعلق ہوتا ہے چناچہ امور دنیوی میں سفاہت کے متعلق فرمایا : ۔ وَلا تُؤْتُوا السُّفَهاءَ أَمْوالَكُمُ [ النساء 5] اور بےعقلوں کو ان کا مال ۔۔۔۔۔۔ مت دو ۔ اور سفاہت اخروی کے متعلق فرمایا : ۔ وَأَنَّهُ كانَ يَقُولُ سَفِيهُنا عَلَى اللَّهِ شَطَطاً [ الجن 4] اور یہ کہ ہم میں سے بعض بیوقوف خدا کے بارے میں جھوٹ افتراء کرتے ہیں ۔ یہاں سفاہت دینی مراد ہے جس کا تعلق آخرت سے ہے اور آیت کریمہ : ۔ أَنُؤْمِنُ كَما آمَنَ السُّفَهاءُ أَلا إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهاءُ [ البقرة 13] تو کہتے ہیں بھلا جس طرح بیوقوف ایمان لے آئے ہیں اسی طرح ہم بھی ایمان لے آئیں : ۔ میں ان سفیہ کہہ کر متنبہ کیا ہے کہ ان کا مؤمنین کو سفھآء کہنا بنا بر حماقت ہے اور خود ان کی نادانی کی دلیل ہے ۔ اسی معنی میں فرمایا : ۔ سَيَقُولُ السُّفَهاءُ مِنَ النَّاسِ ما وَلَّاهُمْ عَنْ قِبْلَتِهِمُ الَّتِي كانُوا عَلَيْها [ البقرة 142] احمق لوگ کہیں گے کہ مسلمان جس قبلہ پر ( پہلے چلے آتے تھے ) اب اس سے کیوں منہ پھیر بیٹھے ۔- ظن - والظَّنُّ في كثير من الأمور مذموم، ولذلک قال تعالی: وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس 36] ، وَإِنَّ الظَّنَ [ النجم 28] ، وَأَنَّهُمْ ظَنُّوا كَما ظَنَنْتُمْ [ الجن 7] ،- ( ظ ن ن ) الظن - اور ظن چونکہ عام طور پر برا ہوتا ہے اس لئے اس کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا : وَما يَتَّبِعُ أَكْثَرُهُمْ إِلَّا ظَنًّا[يونس 36] اور ان میں کے اکثر صرف ظن کی پیروی کرتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٦٥) اور قوم عاد کی طرف ہم نے ان کے بھائی کو نبی بنا کر بھیجا تاکہ اللہ تعالیٰ کی توحید کے قائل ہوجاؤ اور جن ماسوا اللہ چیزوں کو پکارتے ہو ان کی عبادت سے ڈرو اور باز آؤ۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

(قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰہَ مَا لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗ ط اَفَلاَ تَتَّقُوْنَ ) - حضرت ہود (علیہ السلام) نے بھی اپنی قوم کو وہی پیغام دیا جو حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو دیا تھا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :51 یہ عرب کی قدیم ترین قوم تھی جس کے افسانے اہل عرب میں زبان زدعام تھے ۔ بچہ بچہ ان کے نام سے واقف تھا ۔ ان کی شوکت و حشمت ضرب المثل تھی ۔ پھر دنیا سے ان کا نام و نشان تک مٹ جانا بھی ضرب المثل ہو کر رہ گیا تھا ۔ اسی شہرت کی وجہ سے عربی زبان میں ہر قدیم چیز کے لیے عادی کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ آثار قدیمہ کو عادیّات کہتے ہیں ۔ جس زمین کے مالک باقی نہ رہے ہوں اور جو آباد کار نہ ہونے کی وجہ سے اُفتادہ پڑی ہوئی ہو اسے عادیُّ الارض کہا جاتا ہے ۔ قدیم عربی شاعری میں ہم کو بڑی کثرت سے اس قوم کا ذکر ملتا ہے ۔ عرب کے ماہرینِ انساب بھی اپنے ملک کی معدوم شدہ قوموں میں سب سے پہلے اسی قوم کا نام لیتے ہیں ۔ حدیث میں آتا ہے کہ ایک دفعہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بنی ذُہل بن شیَبان کے ایک صاحب آئے جو عاد کے علاقہ کے رہنے والے تھے اور انہوں نے وہ قصے حضور کو سنائے جو اس قوم کے متعلق قدیم زمانوں سے ان کے علاقہ کے لوگوں میں نقل ہوتے چلے آرہے تھے ۔ قرآن کی رو سے اس قوم کا اصل مسکن اَحقاف کا علاقہ تھا جو حجاز ، یمن اور یمامہ کے درمیان الرَّبع الخالی کے جنوب مغرب میں واقع ہے ۔ یہیں سے پھیل کر ان لوگوں نے یمن کے مغربی سواحل اور عُمان و حضرموت سے عراق تک اپنی طاقت کا سکّہ رواں کردیا تھا ۔ تاریخی حیثیت سے اس قوم کے آثار دنیا سے تقریباً ناپید ہو چکے ہیں ، لیکن جنوبی عرب میں کہیں کہیں کچھ پرنے کھنڈر موجود ہیں جنہیں عاد کی طرف نسبت دی جاتی ہے حضر موت میں ایک مقام پر حضرت ہود علیہ السلام کی قبر بھی مشہور ہے ۔ ١۸۳۷ میں ایک انگریز بحری افسر ( . ) کو حِصنِ غُراب میں ایک پُرانا کتبہ ملا تھا جس میں حضرت ہود علیہ السلام کا ذکر موجود ہے اور عبارت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ ان لوگوں کی تحریر ہے جو شریعت ہود کے پیرو تھے ۔ ( مزید تشریح کےلیے ملاحظہ ہو الاحقاف حاشیہ ۲۵ )

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

37: قوم عاد عربوں کی ابتدائی نسل کی ایک قوم تھی جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے کم از کم دو ہزار سال پہلے یمن کے علاقے حضرموت کے آس پاس آباد تھی، یہ لوگ اپنی جسمانی طاقت اور پتھروں کو تراشنے کے ہنر میں مشہور تھے، رفتہ رفتہ انہوں نے بت بناکر ان کی پوجا شروع کردی اور اپنی طاقت کے گھمنڈ میں مبتلا ہوگئے، حضرت ہود (علیہ السلام) ان کے پاس پیغمبر بناکر بھیجے گئے اور انہوں نے اپنی قوم کو بڑی دردمندی سے سمجھانے کی کوشش کی اور انہیں توحید کی تعلیم دے کر اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بننے کی تعلیم دی مگر کچھ نیک طبع لوگوں کے سوا باقی لوگوں نے ان کا کہنا نہیں مانا، پہلے ان کو قحط میں مبتلا کیا گیا اور حضرت ہود (علیہ السلام) نے انہیں یاد دلایا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک تنبیہ ہے، اگر اب بھی تم اپنی بد اعمالیوں سے باز آجاؤ تو اللہ تعالیٰ تم پر رحمت کی بارشیں برسادے گا ؛ لیکن اس قوم پر کچھ بھی اثر نہیں ہوا، اور وہ اپنے کفر وشرک میں بڑھتی چلی گئی، آخر کار ان پر ایک تیز وتند آندھی کا عذاب بھیجا گیا جو آٹھ دن تک متواتر جاری رہا، یہاں تک کہ یہ ساری قوم ہلاک ہوگئی۔ اس قوم کا واقعہ موجودہ سورت کے علاوہ سورۃ ہود (50:11 تا 89) سورۃ مومنون (32:23) سورۃ شعراء (124:26) سورۃ حم السجدہ (15:41) سورۃ احقاف (21:46) سورۃ قمر (18:54) سورۃ الحاقہ (6:69) اور سورۃ فجر (6:89) میں آیا ہے۔ ان کے مختلف واقعات کی تفصیل ان شاء اللہ ان سورتوں میں آئے گی۔