66۔ 1 یہ کم عقلی ان کے نزدیک یہ تھی کہ بتوں کو چھوڑ کر، جن کی عبادت ان کے آباواجداد سے ہوتی آرہی تھی۔ اللہ واحد کی عبادت کی طرف دعوت دی جا رہی ہے۔
[٧١] زیادہ خداؤں کی ضرورت کا نظریہ اور سیدنا ھود پر کم عقلی کا الزام :۔ مشرکین کسی بھی قوم یا کسی بھی مقام سے تعلق رکھتے ہوں وہ عموماً اللہ تعالیٰ اور اس کی فرمانروائی کو بھی دنیا کے کسی بادشاہ اور اس کی حکمرانی کی طرح خیال کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ جیسے بادشاہ اکیلا اپنی مملکت پر فرمانروائی نہیں کرسکتا بلکہ اس نے اپنے بہت سے مددگار و معاون افسر اپنے ماتحت رکھے ہوتے ہیں جنہیں وہ کچھ اختیارات بھی تفویض کرتا ہے اور ان کی مدد ہی سے حکومت کرتا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے بھی بعض ہستیوں کو بعض چیزوں کے اختیارات تفویض کر رکھے ہیں جن کی مدد سے وہ کائنات کی فرمانروائی کر رہا ہے، گویا وہ اللہ تعالیٰ کو بھی ایک عام انسان کی طرح خیال کرتے ہیں جو اپنی بادشاہی کے انتظام اور اسے چلانے کے لیے دوسروں کا محتاج ہوتا ہے اور بعض ملکوں کے مشرکین یہ ممد و معاون ہستیاں فرشتوں کو قرار دیتے ہیں۔ بعض دیوی دیوتاؤں کو بعض سیاروں کی ارواح کو اور بعض اولیاء اللہ کو۔ ان کی سمجھ میں یہ آ ہی نہیں سکتا کہ اللہ اکیلا بھی ساری کائنات کا انتظام چلا سکتا ہے۔ اس لیے جب ہود (علیہ السلام) نے انہیں سمجھایا کہ اللہ اکیلا ہی تمہارے سارے کے سارے کام سنوار سکتا ہے اسے کسی معاون کی ضرورت نہیں تو انہوں نے جواب میں کہا کہ دو ہی باتیں ہیں یا تو تم کم عقل ہو جسے یہ موٹی سی بات بھی سمجھ میں نہیں آرہی یا پھر تم جھوٹے ہو۔
اِنَّا لَنَرٰكَ فِيْ سَفَاهَةٍ : ان کے نزدیک آباء کی تقلید میں شرک کرنا اور دوسری خرافات اختیار کرنا عین عقل مندی اور اس کی مخالفت بےوقوفی تھی۔
دوسری (آیت) میں ہے قال الْمَلَاُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَوْمِهٖٓ اِنَّا لَنَرٰكَ فِيْ سَفَاهَةٍ وَّاِنَّا لَنَظُنُّكَ مِنَ الْكٰذِبِيْنَ ، یعنی قوم کے سرداروں نے کہا کہ ہم آپ کو بےوقوفی میں مبتلا پاتے ہیں اور ہمارا گمان یہ ہے کہ آپ جھوٹ بولنے والوں میں سے ہیں۔ - یہ تقریباً ایسا ہی معارضہ ہے جیسا حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم نے ان سے کیا تھا صرف بعض الفاظ کا فرق ہے۔
قَالَ يٰقَوْمِ لَيْسَ بِيْ سَفَاہَۃٌ وَّلٰكِـنِّيْ رَسُوْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِيْنَ ٦٧- رسل - أصل الرِّسْلِ : الانبعاث علی التّؤدة وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ومن الأنبیاء قوله : وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران 144]- ( ر س ل ) الرسل - الرسل ۔ اصل میں اس کے معنی آہستہ اور نرمی کے ساتھ چل پڑنے کے ہیں۔ اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ اور کبھی اس سے مراد انبیا (علیہ السلام) ہوتے ہیں جیسے فرماٰیا وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران 144] اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے بڑھ کر اور کیا کہ ایک رسول ہے اور بس - عالَمُ- والعالَمُ : اسم للفلک وما يحويه من الجواهر والأعراض، وهو في الأصل اسم لما يعلم به کالطابع والخاتم لما يطبع به ويختم به، وجعل بناؤه علی هذه الصّيغة لکونه کا لآلة، والعَالَمُ آلة في الدّلالة علی صانعه، ولهذا أحالنا تعالیٰ عليه في معرفة وحدانيّته، فقال : أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 185] ، وأمّا جمعه فلأنّ من کلّ نوع من هذه قد يسمّى عالما، فيقال : عالم الإنسان، وعالم الماء، وعالم النّار، وأيضا قد روي : (إنّ لله بضعة عشر ألف عالم) «1» ، وأمّا جمعه جمع السّلامة فلکون النّاس في جملتهم، والإنسان إذا شارک غيره في اللّفظ غلب حكمه، - العالم فلک الافلاک اور جن جواہر واعراض پر حاوی ہے سب کو العالم کہا جاتا ہے دراصل یہ فاعل کے وزن - پر ہے جو اسم آلہ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے طابع بہ ۔ مایطبع بہ خاتم مایختم بہ وغیرہ اسی طرح عالم بھی ہے جس کے معنی ہیں ماعلم بہ یعنی وہ چیز جس کے ذریعہ کسی شے کا علم حاصل کیا جائے اور کائنات کے ذریعہ بھی چونکہ خدا کا علم حاصل ہوتا ہے اس لئے جملہ کائنات العالم کہلاتی ہے یہی وجہ ہے کہ قرآن نے ذات باری تعالیٰ کی وحدانیت کی معرفت کے سلسلہ میں کائنات پر غور کرنے کا حکم دیا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف 185] کیا انہوں نے اسمان اور زمین گی بادشاہت پر غور نہیں کیا ۔ اور العالم کی جمع ( العالمون ) اس لئے بناتے ہیں کہ کائنات کی ہر نوع اپنی جگہ ایک مستقلی عالم عالم کی حیثیت رکھتی ہے مثلا عالم الاانسان؛عالم الماء وعالمالناروغیرہ نیز ایک روایت میں ہے ۔ ان اللہ بضعتہ عشر الف عالم کہ اللہ تعالیٰ نے دس ہزار سے کچھ اوپر عالم پیدا کئے ہیں باقی رہا یہ سوال کہ ( واؤنون کے ساتھ ) اسے جمع سلامت کے وزن پر کیوں لایا گیا ہے ( جو ذدی العقول کے ساتھ مختص ہے ) تو اس کا جواب یہ ہے کہ عالم میں چونکہ انسان بھی شامل ہیں اس لئے اس کی جمع جمع سلامت لائی گئی ہے کیونکہ جب کسی لفظ میں انسان کے ساتھ دوسری مخلوق بھی شامل ہو تو تغلیبا اس کی جمع واؤنون کے ساتھ بنالیتے ہیں
(٦٦) قوم کے سردار کہنے لگے ہود (علیہ السلام) ہم تمہیں کم عقل اور تمہیں اپنی باتوں میں جھوٹا سمجھتے ہیں۔
آیت ٦٦ (قَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ قَوْمِہٖٓ اِنَّا لَنَرٰٹکَ فِیْ سَفَاہَۃٍ وَّاِنَّا لَنَظُنُّکَ مِنَ الْکٰذِبِیْنَ ) - یعنی تم جھوٹا دعویٰ کر رہے ہو ‘ تم پر کوئی وحی وغیرہ نہیں آتی ۔