Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

72۔ 1 اس قوم پر باد تند کا عذاب آیا جو سات راتیں اور آٹھ دن مسلسل جاری رہا جس نے ہر چیز کو تہس نہس کر کے رکھ دیا اور یہ قوم عاد کے لوگ، جنہیں اپنی قوت پر بڑا ناز تھا، ان کے لاشے کھجور کے کٹے ہوئے تنوں کی طرح زمین پر پڑے نظر آتے تھے (دیکھئے سورة الحاقہ 6۔ 8 سورة ھود۔ 53۔ 56 سورة احقاف 42۔ 25 آیات)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٧٦] قوم عاد پر ٹھنڈی آندھی کا عذاب :۔ جب اس قوم کی سرکشی انتہا کو پہنچ گئی اور حضرت ھود (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے عذاب کا چیلنج دے دیا تو ان پر تیز آندھی کا عذاب آیا جس میں شدید ٹھنڈک تھی۔ یہ آندھی ان کے زمین دوز گھروں میں گھس گئی اور مسلسل آٹھ دن اور سات راتیں چلتی رہی اور اس نے اس قوم کے ایک ایک فرد کو ان کے اپنے گھروں ہی کے اندر ہلاک کر ڈالا اور وہ تن و توش رکھنے والی اور اپنی قوت و طاقت پر گھمنڈ کرنے والی قوم اپنے گھروں میں یوں گری پڑی تھی جیسے کھجوروں کے کھوکھلے تنے ہوں۔ اس طرح اس قوم کا نام و نشان ہی صفحہ ہستی سے مٹا ڈالا گیا رہے وہ چند لوگ جو سیدنا ہود (علیہ السلام) پر ایمان لائے تھے تو سیدنا ہود (علیہ السلام) کو بذریعہ وحی ایسے عذاب کی آمد سے پہلے ہی مطلع کردیا گیا تھا۔ وہ اپنے پیروکاروں کے ساتھ ایک احاطہ میں محصور ہوگئے تھے اور یہ احاطہ آندھی کی زد سے باہر تھا لہذا یہ لوگ محفوظ و مامون رہے اور قوم ثمود بھی انہی کی نسل سے پیدا ہوئی جسے عاد ثانیہ بھی کہتے ہیں اور آگے اسی قوم کا ذکر آ رہا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وَقَطَعْنَا دَابِرَ الَّذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِنَا۔۔ : اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں دوسرے مقامات پر ان کے تباہ کیے جانے کی کیفیت تفصیل سے بیان فرمائی ہے، مثلاً سورة قمر (١٨ تا ٢٠) ، سورة ذاریات (٤١، ٤٢) اور سورة حاقہ (٦ تا ٨) میں مذکور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر طوفان خیز آندھی چلائی جو مسلسل سات راتیں اور آٹھ دن چلتی رہی، وہ آندھی اس قدر تند و تیز تھی کہ جس چیز پر سے گزرتی اسے چورا کر ڈالتی، حتیٰ کہ اس نے انھیں پٹخ پٹخ کر ہلاک کر ڈالا، ان کی لاشیں اس طرح دکھائی دیتیں جیسے کھجور کے کھوکھلے تنے ہیں۔ قرآن نے یہاں اور دوسرے مقامات پر بھی تصریح فرمائی ہے کہ عاد اولیٰ کا نام و نشان تک باقی نہ چھوڑا، فرمایا : (فَهَلْ تَرٰى لَهُمْ مِّنْۢ بَاقِيَةٍ ) [ الحاقۃ : ٨ ] ” تو کیا تو ان میں سے کوئی بھی باقی رہنے والا دیکھتا ہے۔ “ عرب مؤرخین نے بھی بالاتفاق ان کو عرب بائدہ (ہلاک ہوجانے والوں) میں شمار کیا ہے۔ صرف ہود (علیہ السلام) اور ان کے متبعین اس عذاب سے محفوظ رہے اور بقول بعض ان کی نسل ” عاد ثانیہ “ کے نام سے مشہور ہے۔ بعض آثار قدیمہ سے ان کے متعلق معلومات بھی ملتی ہیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

آخری آیت میں ارشاد فرمایا کہ ہود (علیہ السلام) کی ساری جدوجہد اور عاد قوم کی سرکشی کا آخری انجام یہ ہوا کہ ہم نے ہود (علیہ السلام) کو اور ان لوگوں کو جو ان پر ایمان لائے تھے عذاب سے محفوظ رکھا اور جھٹلانے والوں کی جڑ کاٹ دی اور وہ ایمان لانے والے نہ تھے۔ - اس قصہ میں غافل انسانوں کے لئے خدا کی یاد اور اطاعت میں لگ جانے کی ہدایت اور خلاف ورزی کرنے والوں کے لئے سامان عبرت اور مبلغین و مصلحین کے لئے پیغمبرانہ طریقہ تبلیغ و اصلاح کی تعلیم ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاِلٰي ثَمُوْدَ اَخَاہُمْ صٰلِحًا۝ ٠ ۘ قَالَ يٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللہَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَيْرُہٗ۝ ٠ ۭ قَدْ جَاۗءَتْكُمْ بَيِّنَۃٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ۝ ٠ ۭ ہٰذِہٖ نَاقَۃُ اللہِ لَكُمْ اٰيَۃً فَذَرُوْہَا تَاْكُلْ فِيْٓ اَرْضِ اللہِ وَلَا تَمَسُّوْہَا بِسُوْۗءٍ فَيَاْخُذَكُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ۝ ٧٣- ثمد - ثَمُود قيل : هو أعجمي، وقیل : هو عربيّ ، وترک صرفه لکونه اسم قبیلة، أو أرض، ومن صرفه جعله اسم حيّ أو أب، لأنه يذكر فعول من الثَّمَد، وهو الماء القلیل الذي لا مادّة له، ومنه قيل : فلان مَثْمُود، ثَمَدَتْهُ النساء أي : قطعن مادّة مائه لکثرة غشیانه لهنّ ، - ( ث م د ) ثمود - ( حضرت صالح کی قوم کا نام ) بعض اسے معرب بتاتے ہیں اور قوم کا علم ہونے کی ہوجہ سے غیر منصرف ہے اور بعض کے نزدیک عربی ہے اور ثمد سے مشتق سے ( بروزن فعول ) اور ثمد ( بارش) کے تھوڑے سے پانی کو کہتے ہیں جو جاری نہ ہو ۔ اسی سے رجل مثمود کا محاورہ ہے یعنی وہ آدمی جس میں عورتوں سے کثرت جماع کے سبب مادہ منویہ باقی نہ رہے - صَالِحٌ عليه السلام - وصَالِحٌ: اسم للنّبيّ عليه السلام . قال تعالی: يا صالِحُ قَدْ كُنْتَ فِينا مَرْجُوًّا [هود 62] .- عبادت - العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] . والعِبَادَةُ ضربان :- عِبَادَةٌ بالتّسخیر، وهو كما ذکرناه في السّجود .- وعِبَادَةٌ بالاختیار، وهي لذوي النّطق، وهي المأمور بها في نحو قوله : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة 21] ، وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء 36] .- ( ع ب د ) العبودیۃ - کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ - عبادۃ دو قسم پر ہے - (1) عبادت بالتسخیر جسے ہم سجود کی بحث میں ذکر کرچکے ہیں (2) عبادت بالاختیار اس کا تعلق صرف ذوی العقول کے ساتھ ہے یعنی ذوی العقول کے علاوہ دوسری مخلوق اس کی مکلف نہیں آیت کریمہ : اعْبُدُوا رَبَّكُمُ [ البقرة 21] اپنے پروردگار کی عبادت کرو ۔ وَاعْبُدُوا اللَّهَ [ النساء 36] اور خدا ہی کی عبادت کرو۔ میں اسی دوسری قسم کی عبادت کا حکم دیا گیا ہے ۔ - الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . - ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ - - بَيِّنَة- والبَيِّنَة : الدلالة الواضحة عقلية کانت أو محسوسة، وسمي الشاهدان بيّنة لقوله عليه السلام : «البيّنة علی المدّعي والیمین علی من أنكر» «وقال سبحانه : أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود 17] ، وقال : لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال 42] ، جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم 9] .- ( ب ی ن ) البَيِّنَة- کے معنی واضح دلیل کے ہیں ۔ خواہ وہ دلالت عقلیہ ہو یا محسوسۃ اور شاھدان ( دو گواہ ) کو بھی بینۃ کہا جاتا ہے جیسا کہ آنحضرت نے فرمایا ہے : کہ مدعی پر گواہ لانا ہے اور مدعا علیہ پر حلف ۔ قرآن میں ہے أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود 17] بھلا جو لوگ اپنے پروردگار کی طرف سے دلیل ( روشن رکھتے ہیں ۔ لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال 42] تاکہ جو مرے بصیرت پر ( یعنی یقین جان کر ) مرے اور جو جیتا رہے وہ بھی بصیرت پر ) یعنی حق پہچان کر ) جیتا رہے ۔ جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم 9] ان کے پاس ان کے پیغمبر نشانیاں کے کر آئے ۔ - وذر - [يقال : فلان يَذَرُ الشیءَ. أي : يقذفه لقلّة اعتداده به ] ، ولم يستعمل ماضيه . قال تعالی:- قالُوا أَجِئْتَنا لِنَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ وَنَذَرَ ما کانَ يَعْبُدُ آباؤُنا[ الأعراف 70] ، وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] ، فَذَرْهُمْ وَما يَفْتَرُونَ [ الأنعام 112] ، وَذَرُوا ما بَقِيَ مِنَ الرِّبا[ البقرة 278] إلى أمثاله وتخصیصه في قوله : وَيَذَرُونَ أَزْواجاً [ البقرة 234] ، ولم يقل : يترکون ويخلّفون، فإنه يذكر فيما بعد هذا الکتاب إن شاء اللہ . [ والوَذَرَةُ : قطعة من اللّحم، وتسمیتها بذلک لقلة الاعتداد بها نحو قولهم فيما لا يعتدّ به : هو لحم علی وضم ] - ( و ذ ر ) یذر الشئی کے معنی کسی چیز کو قلت اعتداد کی وجہ سے پھینک دینے کے ہیں ( پھر صرف چھوڑ دینا کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ اس کا فعل ماضی استعمال نہیں ہوتا چناچہ فرمایا : ۔ قالُوا أَجِئْتَنا لِنَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ وَنَذَرَ ما کانَ يَعْبُدُ آباؤُنا[ الأعراف 70] وہ کہنے لگے کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ ہم اکیلے خدا ہی کی عبادت کریں اور جن اور جن کو ہمارے باپ دادا پوجتے چلے آئے ہیں ان کو چھوڑ دیں ۔ ؟ ، وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ فَذَرْهُمْ وَما يَفْتَرُونَ [ الأنعام 112] تو ان کو چھوڑ دو کہ وہ جانیں اور انکا جھوٹ ۔ وَذَرُوا ما بَقِيَ مِنَ الرِّبا[ البقرة 278] تو جتنا سو د باقی رہ گیا ہے اس کو چھوڑ دو ۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سی آیات ہیں جن میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے اور آیت : ۔ وَيَذَرُونَ أَزْواجاً [ البقرة 234] اور عورتیں چھوڑ جائیں ۔ میں یترکون یا یخلفون کی بجائے یذرون کا صیغہ اختیار میں جو خوبی ہے وہ اس کے بعد دوسری کتاب میں بیان کریں گے ۔ الو ذرۃ : گوشت کی چھوٹی سی بوٹی کو کہتے ہیں اور قلت اعتناء کے سبب اسے اس نام سے پکارتے ہیں جیسا کہ حقیر شخص کے متعلق ھو لحم علیٰ وضمی ( یعنی وہ ذلیل ہے ) کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔- أكل - الأَكْل : تناول المطعم، وعلی طریق التشبيه قيل : أكلت النار الحطب، والأُكْل لما يؤكل، بضم الکاف وسکونه، قال تعالی: أُكُلُها دائِمٌ [ الرعد 35] - ( ا ک ل ) الاکل - کے معنی کھانا تناول کرنے کے ہیں اور مجازا اکلت النار الحطب کا محاورہ بھی استعمال ہوتا ہے یعنی آگ نے ایندھن کو جلا ڈالا۔ اور جو چیز بھی کھائی جائے اسے اکل بضم کاف و سکونا ) کہا جاتا ہے ارشاد ہے أُكُلُهَا دَائِمٌ ( سورة الرعد 35) اسکے پھل ہمیشہ قائم رہنے والے ہیں ۔- مسس - المسّ کاللّمس لکن اللّمس قد يقال لطلب الشیء وإن لم يوجد - والمسّ يقال في كلّ ما ينال الإنسان من أذى. نحو قوله : وَقالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّاماً مَعْدُودَةً [ البقرة 80] ،- ( م س س ) المس کے - معنی چھونا کے ہیں اور لمس کے ہم معنی ہیں لیکن گاہے لمس کیس چیز کی تلاش - کرنے کو بھی کہتے ہیں اور اس میں یہ ضروری نہیں کہ وہ چیز مل جل بھی جائے ۔- اور مس کا لفظ ہر اس تکلیف کے لئے بول دیا جاتا ہے جو انسان تو پہنچے ۔ جیسے فرمایا : ۔ وَقالُوا لَنْ تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَيَّاماً مَعْدُودَةً [ البقرة 80] اور کہتے ہیں کہ دوزخ کی آگ ہمیں ۔۔ چھوہی نہیں سکے گی - ويقال : سَاءَنِي كذا، وسُؤْتَنِي، وأَسَأْتَ إلى فلان، قال : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک 27] ، وقال : لِيَسُوؤُا وُجُوهَكُمْ [ الإسراء 7] - ساء - اور ساءنی کذا وسؤتنی کہاجاتا ہے ۔ اور اسات الی ٰ فلان ( بصلہ الی ٰ ) بولتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : سِيئَتْ وُجُوهُ الَّذِينَ كَفَرُوا[ الملک 27] تو کافروں کے منہ برے ہوجائیں گے ۔ لِيَسُوؤُا وُجُوهَكُمْ [ الإسراء 7] تاکہ تمہارے چہروں کو بگاڑیں ۔ - أخذ - الأَخْذُ : حوز الشیء وتحصیله، وذلک تارةً بالتناول نحو : مَعاذَ اللَّهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنا مَتاعَنا عِنْدَهُ [يوسف 79] ، وتارةً بالقهر نحو قوله تعالی: لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ [ البقرة 255] - ( اخ ذ) الاخذ - ۔ کے معنی ہیں کسی چیز کو حاصل کرلینا جمع کرلینا اور احاطہ میں لے لینا اور یہ حصول کبھی کسی چیز کو پکڑلینے کی صورت میں ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ مَعَاذَ اللهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَهُ ( سورة يوسف 79) خدا پناہ میں رکھے کہ جس شخص کے پاس ہم نے اپنی چیز پائی ہے اس کے سو اہم کسی اور پکڑ لیں اور کبھی غلبہ اور قہر کی صورت میں جیسے فرمایا :۔ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ ( سورة البقرة 255) نہ اس پر اونگھ غالب آسکتی اور نہ ہ نیند ۔ محاورہ ہے ۔- ألم - الأَلَمُ الوجع الشدید، يقال : أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قال تعالی: فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَما تَأْلَمُونَ [ النساء 104] ، وقد آلمت فلانا، و عذاب أليم، أي : مؤلم . وقوله : لَمْ يَأْتِكُمْ [ الأنعام 130] فهو ألف الاستفهام، وقد دخل علی «لم» .- ( ا ل م ) الالم - کے معنی سخت درد کے ہیں کہا جاتا ہے الم یالم ( س) أَلَمَ يَأْلَمُ أَلَماً فهو آلِمٌ. قرآن میں ہے :۔ فَإِنَّهُمْ يَأْلَمُونَ كَمَا تَأْلَمُونَ ( سورة النساء 104) تو جس طرح تم شدید درد پاتے ہو اسی طرح وہ بھی شدید درد پاتے ہیں ۔ اٰلمت فلانا میں نے فلاں کو سخت تکلیف پہنچائی ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ( سورة البقرة 10 - 174) میں الیم بمعنی مؤلم ہے یعنی دردناک ۔ دکھ دینے والا ۔ اور آیت :۔ اَلَم یَاتِکُم (64 ۔ 5) کیا تم کو ۔۔ نہیں پہنچی ۔ میں الف استفہام کا ہے جو لم پر داخل ہوا ہے ( یعنی اس مادہ سے نہیں ہے )

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٧٢) چناچہ ہم نے حضرت ہود (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کو بچا لیا اور ان لوگوں کو جنہوں نے ہماری کتاب اور ہمارے رسول ہود (علیہ السلام) کی تکذیب کی تھی ہلاک کردیا اور جن لوگوں کو ہم نے ہلاک کیا وہ سب کے سب منکر اور انکار کرنے والے تھے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٧٢ (فَاَنْجَیْنٰہُ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ بِرَحْمَۃٍ مِّنَّا وَقَطَعْنَا دَابِرَ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا) (وَمَا کَانُوْا مُؤْمِنِیْنَ ) - سات دن اور آٹھ راتوں تک ایک تیز آندھی مسلسل ان پر چلتی رہی اور انہیں پٹخ پٹخ کر گراتی رہی ‘ اسی آندھی کی وجہ سے وہ سب ہلاک ہوگئے۔ جب بھی کسی قوم پر عذاب استیصال کا فیصلہ ہوجاتا ہے تو اللہ کے رسول ( علیہ السلام) اور اہل ایمان کو وہاں سے ہجرت کا حکم آجاتا ہے۔ چناچہ آندھی کے اس عذاب سے پہلے حضرت ہود (علیہ السلام) اور آپ ( علیہ السلام) کے ساتھی وہاں سے ہجرت کر کے چلے گئے تھے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :56 جڑ کاٹ دی ، یعنی ان کا استیصال کر دیا اور ان کا نام و نشان تک دنیا میں باقی نہ چھوڑا ۔ یہ بات خود اہل عرب کی تاریخی روایات سے بھی ثابت ہے ، اور موجودہ اثری اکتشافات بھی اس پر شہادت دیتے ہیں کہ عاد اولیٰ بالکل تباہ ہوگئے اور ان کی یادگاریں تک دنیا سے مٹ گئیں ۔ چنانچہ مورخین عرب انہیں عرب کی اُممِ بائدہ ( معدوم اقوام ) میں شمار کرتے ہیں ۔ پھر یہ بات بھی عرب کے تاریخی مسلّمات میں سے ہے کہ عاد کا صرف وہ حصہ باقی رہا جو حضرت ہود کا پیرو تھا ۔ انہی بقایائے عاد کا نام تاریخ میں عاد ثانیہ ہے اور حِصنِ غُراب کا وہ کتبہ جس کا ہم ابھی ابھی ذکر کر چکے ہیں انہی کی یادگاروں میں سے ہے ۔ اس کتبہ میں ( جسے تقریباً ١۸ سو برس قبل مسیح کی تحریر سمجھا جاتا ہے ) ماہرین آثار نے جو عبارت پڑھی ہے اس کے چند جملے یہ ہیں: ۔ ”ہم نے ایک طویل زمانہ اس قلعہ میں اس شان سے گزارا ہے کہ ہماری زندگی تنگی و بد حالی سے دور تھی ، ہماری نہریں دریا کے پانی سے لبریز رہتی تھیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ہمارے حکمران ایسے بادشاہ تھے جو برے خیالات سے پاک اور اہل شر و فساد پر سخت تھے ، وہ ہم پر ہود کی شریعت کے مطابق حکومت کرتے تھے اور عمدہ فیصلے ایک کتاب میں درج کر لیے جاتے تھے ، اور ہم معجزات اور موت کے بعد دوبارہ اُٹھائے جانے پر ایمان رکھتے تھے ۔ “ یہ عبارت آج بھی قرآن کے اس بیان کی تصدیق کر رہی ہے کہ عاد کی قدیم عظمت و شوکت اور خوشحالی کے وارث آخر کار وہی لوگ ہوئے جو حضرت ہود پر ایمان لائے تھے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani