ثمود کی قوم اور اس کا عبرت ناک انجام علمائے نسب نے بیان کیا ہے کہ ثمود بن عامر بن ارم بن سام بن نوح ۔ یہ بھائی تھا جد بس بن عامر کا ۔ اسی طرح قبیلہ طسم یہ سب خالص عرب تھے ۔ حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام سے پہلے ثمودی عادیوں کے بعد ہوئے ہیں ان کے شہر حجاز اور شام کے درمیان وادی القری اور اس کے اردگرد مشہور ہیں ۔ سنہ ٩ھ میں تبوک جاتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی اجاڑ بستیوں میں سے گذرے تھے ۔ مسند احمد میں ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم تبوک کے میدان میں اترے لوگوں نے ثمودیوں کے گھروں کے پاس ڈیرے ڈالے اور انہی کے کنوؤں کے پانی سے آٹے گوندھے ہانڈیاں چڑھائیں تو آپ نے حکم دیا کہ سب ہانڈیاں الٹ دی جائیں اور گندھے ہوئے آٹے اونٹوں کو کھلا دیئے جائیں ۔ پھر فرمایا یہاں سے کوچ کرو اور اس کنوئیں کے پاس ٹھہرو جس سے حضرت صالح کی اونٹنی پانی پیتی تھی اور فرمایا آئندہ عذاب والی بستیوں میں پڑاؤ نہ کیا کرو ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اسی عذاب کے شکار تم بھی بن جاؤ ۔ ایک روایت میں ہے کہ ان کی بستیوں سے روتے اور ڈرتے ہوئے گذرو کہ مبادا وہی عذاب تم پر آ جائیں جو ان پر آئے تھے ۔ اور روایت میں ہے کہ غزوہ تبوک میں لوگ بہ عجلت ہجر کے لوگوں کے گھروں کی طرف لپکے ۔ آپ نے اسی وقت یہ آواز بلند کرنے کہا حدیث ( الصلوۃ جامعتہ ) جب لوگ جمع ہوگئے تو آپ نے فرمایا کہ ان لوگوں کے گھروں میں کیوں گھسے جا رہے ہو جن پر غضب الٰہی نازل ہوا ۔ راوی حدیث ابو کبشہ فرماتے ہیں رسول اللہ کے ہاتھ میں ایک نیزہ تھا ۔ میں نے یہ سن کر عرض کی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم تو صرف تعجب کے طور پر انہیں دیکھنے چلے گئے تھے آپ نے فرمایا میں تمہیں اس سے بھی تعجب خیز چیز بتا رہا ہوں تم میں سے ہی ایک شخص ہے جو تمہیں وہ چیز بتا رہا ہے جو گذر چکیں اور وہ خبریں دے رہا ہے جو تمہارے سامنے ہیں اور جو تمہارے بعد ہونے والی ہیں پس تم ٹھیک ٹھاک رہو اور سیدھے چلے جاؤ تمہیں عذاب کرتے ہوئے بھی اللہ تعالیٰ کو کوئی پرواہ نہیں یاد رکھو ایسے لوگ آئیں گے جو اپنی جانوں سے کسی چیز کو دفع نہ کر سکیں گے ۔ حضرت ابو کبشہ کا نام عمر بن سعد ہے اور کہا گیا ہے کہ عامر بن سعد ہے واللہ اعلم ۔ ایک روایت میں ہے کہ ہجر کی بستی کے پاس آتے ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا معجزے نہ طلب کرو دیکھو قوم صالح نے معجزہ طلب کیا جو ظاہر ہوا یعنی اونٹنی جو اس راستے سے آتی تھی اور اس راستے سے جاتی تھی لیکن ان لوگوں نے اپنے رب کے حکم سے سرتاب کی اور اونٹنی کی کوچیں کاٹ دیں ایک دن اونٹنی ان کا پانی پیتی تھی اور ایک دن یہ سب اس کا دودھ پیتے تھے اس اونٹنی کو مار ڈالنے پر ان پر ایک چیخ آئی اور یہ جتنے بھی تھے سب کے سب ڈھیر ہوگئے ۔ بجز اس ایک شخص کے جو حرم شریف میں تھا لوگوں نے پوچھا اس کا نام کیا تھا ؟ فرمایا ابو غال یہ بھی جب حد حرم سے باہر آیا تو اسے بھی وہی عذاب ہوا ۔ یہ حدیث صحاح ستہ میں تو نہیں لیکن ہے مسلم شریف کی شرط پر ۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ ثمودی قبیلے کی طرف سے ان کے بھائی حضرت صالح علیہ السلام کو نبی بنا کر بھیجا گیا ۔ تمام نبیوں کی طرح آپ نے بھی اپنی امت کو سب سے پہلے توحید الٰہی سکھائی کہ فقط اس کی عبادت کریں اس کے سوا اور کوئی لائق عبادت نہیں ۔ اللہ کا فرمان ہے جتنے بھی رسول آئے سب کی طرف یہی وحی کی جاتی رہی کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں ، صرف میری ہی عبادت کرو اور ارشاد ہے ہم نے ہر امت میں رسول بھیجے کہ اللہ ہی کی عبادت کرو اور اس کے سوا اوروں کی عبادت سے بچو ۔ حضرت صالح فرماتے ہیں لوگوں تمہارے پاس دلیل الٰہی آچکی جس میں میری سچائی ظاہر ہے ۔ ان لوگوں نے حضرت صالح سے یہ معجزہ طلب کیا تھا کہ ایک سنگلاخ چٹان جو ان کی بستی کے ایک کنارے پڑی تھی جس کا نام کاتبہ تھا اس سے آپ ایک اونٹنی نکلایں جو گابھن ہو ( دودھ دینے والی اونٹنی جو دس ماہ کی حاملہ ہو ) حضرت صالح نے ان سے فرمایا کہ اگر ایسا ہو جائے تو تم ایمان قبول کر لوگے؟ انہوں نے پختہ وعدے کئے اور مضبوط عہد و پیمان کئے ۔ حضرت صالح علیہ السلام نے نماز پڑھی دعا کی ان سب کے دیکھتے ہی چٹان نے ہلنا شروع کیا اور چٹخ گئی اس کے بیچ سے ایک اونٹنی نمودار ہوئی ۔ اسے دیکھتے ہی ان کے سردار جندع بن عمرو نے تو اسلام قبول کر لیا اور اس کے ساتھیوں نے بھی ۔ باقی جو اور سردار تھے وہ ایمان لانے کیلئے تیار تھے مگر ذواب بن عمرو بن لبید نے اور حباب نے جو بتوں کا مجاور تھا اور رباب بن ہمر بن جلمس وغیرہ نے انہیں روک دیا ۔ حضرت جندع کا بھتیجا شہاب نامی تھا یہ ثمودیوں کا بڑا عالم فاضل اور شریف شخص تھا اس نے بھی ایمان لانے کا ارادہ کر لیا تھا لیکن انہی بدبختوں نے اسے بھی روکا جس پر ایک مومن ثمودی مہوش بن غنمہ نے کہا کہ آل عمرو نے شہاب کو دین حق کی دعوت دی قریب تھا کہ وہ مشرف باسلام ہو جائے اور اگر ہو جاتا تو اس کی عزت سیوا ہو جاتی مگر بد بختوں نے اسے روک دیا اور نیکی سے ہٹا کر بدی پر لگا دیا ۔ اس حاملہ اونٹنی کو اس وقت بچہ ہوا ایک مدت تک دونوں ان میں رہے ۔ ایک دن اونٹنی ان کا پانی پیتی ۔ اس دن اس قدر دودھ دیتی کہ یہ لوگ اپنے سب برتن بھر لیتے جیسے قرآن میں ہے آیت ( وَنَبِّئْهُمْ اَنَّ الْمَاۗءَ قِسْمَةٌۢ بَيْنَهُمْ ۚ كُلُّ شِرْبٍ مُّحْتَضَرٌ 28 ) 54- القمر:28 ) ، اور آیت میں ہے ( قَالَ هٰذِهٖ نَاقَةٌ لَّهَا شِرْبٌ وَّلَكُمْ شِرْبُ يَوْمٍ مَّعْلُوْمٍ ١٥٥ۚ ) 26- الشعراء:155 ) یہ ہے اونٹنی اس کے اور تمہارے پانی پینے کے دن تقسیم شدہ اور مقررہ ہیں ۔ یہ اونٹنی ثمودیوں کی بستی حجر کے اردگرد چرتی چگتی تھی ایک راہ جاتی دوسری راہ آتی یہ بہت ہی موٹی تازی اور ہیبت والی اونٹنی تھی جس راہ سے گذرتی سب جانور ادھر ادھر ہو جاتے ۔ کچھ زمانہ گذرنے کے بعد ان اوباشوں نے ارادہ کیا کہ اس کو مار ڈالیں تاکہ ہر دن ان کے جانور برابر پانی پی سکیں ان اوباشوں کے ارادوں پر سب نے اتفاق کیا یہاں تک کہ عورتوں اور بچوں نے بھی ان کی ہاں میں ہاں ملائی اور انہیں شہ دی کہ ہاں اس پاپ کو کاٹ دو ۔ اس اونٹنی کو مار ڈالو ۔ چنانچہ قرآن کریم میں ہے آیت ( فَكَذَّبُوْهُ فَعَقَرُوْهَا ۱ فَدَمْدَمَ عَلَيْهِمْ رَبُّهُمْ بِذَنْۢبِهِمْ فَسَوّٰىهَا 14۽ ) 91- الشمس:14 ) ، قوم صالح نے اپنے نبی کو جھٹلایا اور اونٹنی کی کوچیں کاٹ کر اسے مار ڈالا تو ان کے پروردگار نے ان کے گناہوں کے بدلے ان پر ہلاکت نازل فرمائی اور ان سب کو یکساں کر دیا ۔ ایک اور آیت میں ہے کہ ہم نے ثمودیوں کو اونٹنی دی جو ان کے لئے پوری سمجھ بوجھ کی چیز تھی لیکن انہوں نے اس پر ظلم کیا یہاں بھی فرمایا کہ انہوں نے اس اونٹنی کو مار ڈالا ۔ پس اس فعل کی اسناد سارے ہی قبیلے کی طرف ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ چھوٹے بڑے سب اس امر پر متفق تھے ۔ امام ابن جریر وغیرہ کا فرمان ہے کہ اس کے قتل کی وجہ یہ ہوئی کہ عنیزہ بنت عنم بن مجلز جو ایک بڑھیا کافرہ تھی اور حضرت صالح سے بڑی دشمنی رکھتی تھی اس کی لڑکیاں بہت خوبصورت تھیں اور تھی بھی یہ عورت مالدار ۔ اس کے خاوند کا نام ذواب بن عمرو تھا جو ثمودیوں کا ایک سردار تھا یہ بھی کافر تھا ۔ اسی طرح ایک اور عورت تھی جس کا نام صدقہ بنت محیا بن زہیر بن مختار تھا ۔ یہ بھی حسن کے علاوہ مال اور حسب نسب میں بڑھی ہوئی تھی اس کے خاوند مسلمان ہوگئے تھے رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔ اس سرکش عورت نے ان کو چھوڑ دیا ۔ اب یہ دونوں عورتیں لوگوں کو اکساتی تھیں کہ کوئی آمادہ ہو جائے اور حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی کو قتل کر دے ، صدقہ نامی عورت نے ایک شخص حباب کو بلایا اور اس سے کہا کہ میں تیرے گھر آ جاؤں گی اگر تو اس اونٹنی کو قتل کر دے لیکن اس نے انکار کر دیا ، اس پر اس نے مصدع بن مہرج بن محیا کو بلایا جو اس کے چچا کا لڑکا تھا اور اسے بھی اسی بات پر آمادہ کیا ۔ یہ خبیث اس کے حسن و جمال کا مفتوں تھا اس برائی پر آمادہ ہو گیا ۔ ادھر عنیزہ نے قدار بن سالف بن جذع کو بلا کر اس سے کہا کہ میری ان خوبصورت نوجوان لڑکیوں میں سے جسے تو پسند کرے اسے میں تجھے دے دو گی اسی شرط پر کہ تو اس اونٹنی کی کوچیں کاٹ ڈال ۔ یہ خبیث بھی آمادہ ہو گیا یہ تھا بھی زنا کاری کا بچہ ، سالف کی اولاد میں نہ تھا ، جیسان نامی ایک شخص سے اس کی بدکار ماں نے زنا کاری کی تھی اسی سے یہ پیدا ہوا تھا اب دونوں چلے اور اہل ثمود اور دوسرے شریروں کو بھی اس پر آمادہ کیا چنانچہ سات شخص اور بھی اس پر آمادہ ہوگئے اور یہ نو فسادی شخص اس بد ارادے پر تل گئے جیسے قران کریم میں ہے آیت ( وَكَانَ فِي الْمَدِيْنَةِ تِسْعَةُ رَهْطٍ يُّفْسِدُوْنَ فِي الْاَرْضِ وَلَا يُصْلِحُوْنَ 48 ) 27- النمل:48 ) اس شہر میں نو شخص تھے جن میں اصلاح کا مادہ ہی نہ تھا سراسر فسادی ہی تھے ۔ چونکہ یہ لوگ قوم کے سردار تھے ان کے کہنے سننے سے تمام کفار بھی اس پر راضی ہوگئے اور اونٹنی کے واپس آنے کا راستے میں یہ دونوں شریر اپنی اپنی کمین گاہوں میں بیٹھ گئے جب اونٹنی نکلی تو پہلے مصدع نے اسے تیر مارا جو اس کی ران کی ہڈی میں پیوت ہو گیا اسی وقت عنیزہ نے اپنی خوبصورت لڑکی کو کھلے منہ قدار کے پاس بھیجا اس نے کہا قدار کیا دیکھتے ہو اٹھو اور اس کا کام تمام کر دو ۔ یہ اس کا منہ دیکھتے ہی دوڑا اور اس کے دونوں پچھلے پاؤں کاٹ دیئے اونٹنی چکرا کر گری اور ایک آواز نکلالی جس سے اس کا بچہ ہوشیار ہو گیا اور اس راستے کو چھوڑ کر پہاڑی پر چلا گیا یہاں قدار نے اونٹنی کا گلا کاٹ دیا اور وہ مر گئی اس کا بچہ پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ گیا اور تین مربتہ بلبلایا ۔ حسن بصری فرماتے ہیں اس نے اللہ کے سامنے اپنی ماں کے قتل کی فریاد کی پھر جس چٹان سے نکلا تھا اسی میں سما گیا ۔ یہ روایت بھی ہے کہ اسے بھی اس کی ماں کے ساتھ ہی ذبح کر دیا گیا تھا ۔ واللہ اعلم ۔ حضرت صالح علیہ السلام کو جب یہ خبر پہنچی تو آپ گھبرائے ہوئے موقعہ پر پہنچے دیکھا کہ اونٹنی بےجان پڑی ہے آپ کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے اور فرمایا بس اب تین دن میں تم ہلاک کر دیئے جاؤ گے ، ہوا بھی یہی ۔ بدھ کے دن ان لوگوں نے اونٹنی کو قتل کیا تھا اور چونکہ کوئی عذاب نہ آیا اس لئے اترا گئے اور ان مفسدوں نے ارادہ کر لیا کہ آج شام کو صالح کو بھی مار ڈالو اگر واقعی ہم ہلاک ہونے والے ہی ہیں تو پھر یہ کیوں بچا رہے؟ اور اگر ہم پر عذاب نہیں آتا تو بھی آؤ روز روز کے اس جھنجھٹ سے پاک ہو جائیں ۔ چنانچہ قرآن کریم کا بیان ہے کہ ان لوگوں نے مل کر مشورہ کیا اور پھر قسمیں کھا کر اقرار کیا کہ رات کو صالح کے گھر پر چھاپہ مارو اور اسے اور اس کے گھرانے کو تہ تیغ کرو اور صاف انکار کر دو کہ ہمیں کیا خبر کہ کس نے مارا ؟ اللہ تعالیٰ فرماتے ہے ان کے اس مکر کے مقابل ہم نے بھی مکر کیا اور یہ ہمارے مکر سے بالکل بےخبر رہے اب انجام دیکھ لو کہ کیا ہوا ؟ رات کو یہ اپنی بد نیتی سے حضرت صالح کے گھر کی طرف چلے آپ کا گھر پہاڑی کی بلندی پر تھا ابھی یہ اوپر چڑھ ہی رہے تھے جو اوپر سے ایک چٹان پتھر کی لڑھکتی ہوئی آئی اور سب کو ہی پیس ڈالا ۔ ان کا تو یہ حشر ہوا ادھر جمعرات کے دن تمام ثمودیوں کے چہرے زرد پڑ گئے جمعہ کے دن ان کے چہرے آگ جیسے سرخ ہوگئے اور ہفتے کے دن جو مہلت کا آخری دن تھا ان کے منہ سیاہ ہوگئے تین دن جب گذر گئے تو چوتھا دن اتوار صبح ہی صبح سورج کے روشن ہوتے ہی اوپر آسمان سے سخت کڑاکا ہوا جس کی ہولناک دہشت انگیز چنگھاڑنے ان کے کلیجے پھاڑ دیئے ساتھ ہی نیچے سے زبردست زلزلہ آیا ایک ہی ساعت میں ایک ساتھ ہی ان سب کا ڈھیر ہو گیا ، مردوں سے مکانات ، بازار ، گلی ، کوچے بھر گئے ۔ مرد ، عورت ، بچے ، بوڑھے اول سے آخر تک سارے کے سارے تباہ ہوگئے شان رب دیکھئے کہ اس واقعہ کی خبر دنیا کو پہنچانے کے لئے ایک کافرہ عورت بچا دی گئی ، یہ بھی بڑی خبیثہ تھی حضرت صالح علیہ السلام کی عداوت کی آگ سے بھری ہوئی تھی اسکی دونوں ٹانگیں نہیں تھیں لیکن ادھر عذاب آیا ادھر اس کے پاؤں کھل گئے اپنی بستی سے سرپٹ بھاگی اور تیز دوڑتی ہوئی دوسرے شہر میں پہنچی اور وہاں جا کر ان سب کے سامنے سارا واقعہ بیان کر ہی چکنے کے بعد ان سے پانی مانگا ۔ ابھی پوری پیاس بھی نہ بجھی تھی کہ عذاب الٰہی آ پڑا اور وہیں ڈھیر ہو کر رہ گئی ۔ ہاں ابو دغال نامی ایک شخص اور بچ گیا تھا یہ یہاں نہ تھا حرم کی پاک زمین میں تھا لیکن کچھ دنوں کے بعد جب یہ اپنے کسی کام کی غرض سے حد حرم سے باہر آیا اسی وقت آسمان سے پتھر آیا اور اسے بھی جہنم واصل کیا ثمودیوں میں سے سوائے حضرت صالح اور انکے مومن صحابہ کے اور کوئی بھی نہ بچا ، ابو رغال کا واقعہ اس سے پہلے حدیث سے بیان ہو چکا ہے قبیلہ ثقیف جو طائف میں ہے مذکور ہے کہ یہ اسی کی نسل سے ہیں ۔ عبدالرزاق میں ہے کہ اس کی قبر کے پاس سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب گذرے تو فرمایا جانتے ہو یہ کس کی قبر ہے؟ لوگوں نے جواب دیا کہ اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے ۔ آپ نے فرمایا یہ ابو دغال کی قبر ہے ۔ یہ ایک ثمودی شخص تھا اپنی قوم کے عذاب کے وقت یہ حرم میں تھا اس وجہ سے عذاب الٰہی سے بچ رہا لیکن حرم شریف سے نکلا تو اسی وقت اپنی قوم کے عذاب سے یہ بھی ہلاک ہوا اور یہیں دفن کیا گیا اور اس کے ساتھ اس کی سونے کی لکڑی بھی دفنا دی گئی ۔ چنانچہ لوگوں نے اس گڑھے کو کھود کر اس میں سے وہ لکڑی نکال لی اور حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا تھا ثقیف قبیلہ اسی کی اولاد ہے ۔ ایک مرسل حدیث میں بھی یہ ذکر موجود ہے ، یہ بھی ہے کہ آپ نے فرمایا تھا اس کے ساتھ سونے کی شاخ دفن کر دی گئی تھی یہی نشان اس کی قبر کا ہے اگر تم اسے کھودو تو وہ شاخ ضرور نکل آئے گی چنانچہ بعض لوگوں نے اسے کھودا اور وہ شاخ نکال لی ۔ ابو داؤد میں بھی یہ روایت ہے اور حسن عزیز ہے لیکن میں کہتا ہوں اس حدیث کے وصل کا صرف ایک طریقہ بحیر بن ابی بحیر کا ہے اور یہ صرف اسی حدیث کے ساتھ معروف ہے اور بقول حضرت امام یحییٰ بن معین سوائے اسماعیل بن ابی امیہ کے اسے اس سے اور کسی نے روایت نہیں کیا احتمال ہے کہ کہیں اس حدیث کے مرفوع کرنے میں خطاء نہ ہو یہ عبداللہ بن عمرو ہی کا قول ہو اور پھر اس صورت میں یہ بھی ممکنات سے ہے کہ انہوں نے اسے ان دو دفتروں سے لے لیا ہو جو انہیں جنگ یرموک میں ملے تھے ۔ میرے استاد شیخ ابو الحجاج اس روایت کو پہلے تو حسن عزیز کہتے تھے لیکن جب میں نے ان کے سامنے یہ حجت پیش کی تو آپ نے فرمایا بیشک ان امور کا اس میں احتمال ہے ۔ واللہ اعلم ۔
73۔ 1 یہ ثمود، حجاز اور شام کے درمیان وادی القریٰ میں رہائش پذیر تھے 9 ہجری میں تبوک جاتے ہوئے رسول اللہ اور آپ کے صحابہ کا ان کے مساکن اور وادی سے گزر ہوا، جس پر آپ نے صحابہ سے فرمایا کہ معذب قوموں کے علاقے سے گزرو تو روتے ہوئے، یعنی عذاب الٰہی سے پناہ مانگتے ہوئے گزرو (صحیح بخاری) ان کی طرف حضرت صالح (علیہ السلام) نبی بنا کر بھیجے گئے۔ یہ عاد کے بعد کا واقعہ ہے۔ انہوں نے اپنے پیغمبر سے مطالبہ کیا کہ پتھر کی چٹان سے ایک اونٹنی نکال کر دکھا، جسے ہم نکلتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھیں۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے ان سے عہد لیا کہ اس کے بعد اگر ایمان نہ لائے تو وہ ہلاک کردیئے جائیں گے۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے ان کے مطالبے پر اونٹنی ظاہر فرما دی۔ اس اونٹنی کے متعلق انہیں تاکید کردی گئی کہ اسے بری نیت سے کوئی ہاتھ نہ لگائے ورنہ عذاب الٰہی کی گرفت میں آجاؤ گے۔ لیکن ان ظالموں نے اس اونٹنی کو بھی قتل کر ڈالا، جس کے تین دن بعد انہیں چنگھاڑ (صَیْحَۃ، سخت چیخ اور رَجْفَۃ، زلزلہ) کے عذاب سے ہلاک کردیا گیا، جس سے وہ اپنے گھروں میں اوندھے کے اوندھے پڑے رہ گئے۔
[٧٧] سیدنا صالح (علیہ السلام) کا مرکز تبلیغ اور قوم ثمود :۔ قوم ثمود کا علاقہ حجاز اور شام کے درمیان واقع تھا انہیں قرآن کریم نے اصحاب الحجر بھی کہا ہے حجر ان کے ایک بارونق شہر کا نام تھا جو مدینہ سے تبوک کے راستے پر واقع ہے چناچہ جب آپ غزوہ تبوک سے واپس آئے تو مقام حجر پر اترے۔ کچھ صحابہ رضوان اللہ علہیم اجمعین نے جلدی سے وہاں کے کسی کنوئیں سے پانی لے کر آٹا گوندھ لیا تھا آپ نے اس گوندھے ہوئے آٹے کو پھینک دینے یا اونٹوں کو کھلا دینے کا حکم دیا اور جو پانی مشکوں میں بھرا گیا تھا اسے بہا دینے کا حکم دیا۔ پھر آپ نے صحابہ (رض) کو وہ کنواں دکھلایا جہاں سے صالح (علیہ السلام) کی اونٹنی پانی پیا کرتی تھی۔ آپ نے فرمایا اگر پانی لینا ہے تو اس کنوئیں سے لے کر استعمال کرو پھر آپ نے جلد از جلد وہاں سے کوچ کرنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ گنہگاروں کی بستیوں میں نہ جایا کرو مگر روتے ہوئے، اللہ سے ڈرتے ہوئے اور استغفار کرتے ہوئے جاؤ کہیں ایسا نہ ہو کہ جو عذاب ان پر آیا تھا کہیں تم پر بھی آن پڑے یہ کہہ کر آپ نے کجاوے ہی پر اپنا منہ چادر سے ڈھانک لیا۔ (بخاری۔ کتاب بدالانبیاء۔ باب قول اللہ والی ثمودا خاہم صالحا )- یہ قوم بھی بت پرستی میں مبتلا تھی صالح (علیہ السلام) نے کہا : لوگو ایک اللہ کے سوا تمہارا کوئی نہ حاجت روا ہے اور نہ مشکل کشا۔ لہذا تمہیں صرف اسی کی عبادت کرنا چاہیے اور اسی سے فریاد کرنا چاہیے اور میں تمہیں تمہارے پروردگار کا رسول ہونے کی حیثیت سے یہ پیغام دے رہا ہوں۔- اللہ کی اونٹنی اور اس کے اوصاف :۔ انہوں نے کہا کہ اپنی نبوت کی صداقت پر کوئی حسی معجزہ ہمیں دکھلا دو تب ہم تمہاری بات تسلیم کرلیں گے آپ نے پوچھا کیسا معجزہ چاہتے ہو ؟ انہوں نے کہا کہ اس پہاڑ سے ایک حاملہ اونٹنی برآمد ہو پھر وہ ہمارے سامنے بچہ جنے تو ہم سمجھیں گے کہ واقعی تم اللہ کے رسول ہو اور تم پر ایمان لے آئیں گے۔ سیدنا صالح (علیہ السلام) نے اللہ سے دعا کی تو پہاڑ پھٹا جس سے ایک بہت بڑے قد و قامت کی اونٹنی برآمد ہوئی جس نے ان کے سامنے بچہ جنا اس وقت صالح (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے کہا کہ اس اونٹنی کو آزادانہ چلنے پھرنے دو کیونکہ یہ تمہارا مطلوبہ معجزہ اور اللہ کی نشانی ہے جہاں سے چاہے چرتی پھرے اور جہاں سے چاہے پانی پئے اب صورت حال یہ تھی کہ ایک تو اس علاقہ میں پہلے ہی پانی کی قلت تھی دوسرے یہ قد آور اور بہت بڑے ڈیل ڈول کی اونٹنی ایک دن میں اتنا پانی پی جاتی تھی جتنا ان کے سارے جانور پیتے تھے۔ اس لیے سیدنا صالح (علیہ السلام) نے کہا کہ باری مقرر کرلو اس کنوئیں سے ایک دن تمہارے جانور پانی پیا کریں اور ایک دن یہ اونٹنی (جسے اللہ نے دوسرے مقام پر ناقتہ اللہ یعنی اللہ کی اونٹنی کہا ہے) پانی پیا کرے گی اور ساتھ ہی یہ بھی تنبیہ کردی کہ اگر تم نے اس اونٹنی سے کوئی برا سلوک کیا تو اللہ تعالیٰ کا سخت عذاب تم پر ٹوٹ پڑے گا۔
وَاِلٰي ثَمُوْدَ : ثمود کا شمار بھی عرب کی قدیم ترین قوموں میں ہوتا ہے، عاد کے بعد سب سے مشہور قوم یہی ہے، اسی بنا پر بعض نے اسے ” عاد ثانیہ “ بھی لکھ دیا ہے۔ ان کا مسکن شمال مغربی عرب کا وہ علاقہ تھا جو آج بھی ” الحجر “ کے نام سے معروف ہے۔ دیکھیے سورة حجر (٨٠) (ابن کثیر) بعض علماء کا کہنا ہے کہ ان کے علاقے میں پانی کی کمی کی وجہ سے ان کا نام ثمود پڑا، کیونکہ ” ثمد “ قلیل پانی کو کہتے ہیں۔ مدینہ اور تبوک کے درمیان شام کو جانے والی شاہراہ پر ایک شہر مدائن صالح کے نام سے مشہور ہے، یہی قوم ثمود کا صدر مقام تھا۔ سورة شعراء (١٤٦ تا ١٤٩) میں اللہ تعالیٰ نے ان کی تعمیری اور زرعی مہارت کا ذکر فرمایا ہے۔ وہاں اب بھی اچھی خاصی تعداد میں وہ عمارتیں پائی جاتی ہیں جو ثمود نے پہاڑوں کو تراش کر بنائی تھیں اور ان کے ارد گرد بڑا وسیع میدان ہے جہاں وہ کھیتی باڑی کرتے تھے۔ عبداللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب تبوک کے پاس رکے تو آپ صحابہ کے ساتھ حجر میں ثمود کے گھروں کے پاس ٹھہرے، لوگوں نے ان کنوؤں سے پانی پیا جہاں سے ثمود پیتے تھے، اسی پانی کے ساتھ آٹا بھی گوندھا اور ہانڈیاں بھی پکا لیں، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دیا تو انھوں نے ہانڈیاں گرا دیں اور آٹا اونٹوں کو کھلا دیا، پھر آپ وہاں سے روانہ ہوئے اور اس کنویں کے پاس پڑاؤ ڈالا جس سے ( صالح (علیہ السلام) کی ) اونٹنی پانی پیتی تھی۔ آپ نے ان لوگوں کے گھروں میں جانے سے منع فرما دیا جن پر عذاب نازل ہوا تھا اور فرمایا : ” میں ڈرتا ہوں کہ کہیں تم پر بھی وہ عذاب نہ آجائے جو ان پر نازل ہوا تھا، اس لیے ان کے گھروں میں نہ جاؤ۔ “ [ أحمد : ٢؍١١٧، ح :- ٥٩٨٩۔ مسلم : ٢٩٨٠ ] - وہ کنواں اب بھی موجود ہے، مگر خشک ہوچکا ہے۔ ( ابن کثیر) جابر (رض) سے مروی ایک لمبی حدیث ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب حجر میں اترے تو خطبہ دیا، فرمایا : ” لوگو اپنے نبی سے آیات (معجزات) طلب مت کیا کرو، دیکھو صالح (علیہ السلام) کی قوم نے اپنے نبی سے سوال کیا کہ ان کے لیے اونٹنی بھیجے تو وہ اس پہاڑی درے سے آتی اور ان کا پانی پیتی جس دن اس کے پینے کی باری ہوتی اور وہ اس کا دودھ اتنا حاصل کرتے جتنا پانی سے سیراب ہوتے تھے۔ “ [ مستدرک حاکم : ٢؍٣٤٠، ح ٣٣٠٤۔ صححہ الحاکم ووافقہ الذہبی ] بعض سیاحت ناموں میں مذکور ہے کہ جس پہاڑی سے وہ اونٹنی بطور معجزہ بر آمد ہوئی تھی اس میں اب تک شگاف موجود ہے۔ ابن کثیر نے اس چٹان کا نام ” الکاتبہ “ لکھا ہے۔ (البدایہ) مگر ہزاروں برس گزرنے کے بعد کسی پختہ دلیل کے بغیر کسی شگاف کو اونٹنی بر آمد ہونے کی جگہ قرار دینا اندھیرے میں تیر چلانے سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ - اَخَاهُمْ صٰلِحًا ۘ: حافظ بغوی (رض) نے ان کا نسب نامہ یوں بیان کیا ہے، صالح بن عبید بن آسف بن ماشح بن عبید بن حاذر بن ثمود۔ (بغوی) اس سے آگے مزید بیان کیا جاتا ہے، عاثر بن ارم بن سام بن نوح۔ ثمود کے دو بھائی اور تھے جن کے نام پر طسم اور جدیس دو قبیلے مشہور ہیں۔ (ابن کثیر) مگر اس زمانے کے انساب کا درست ہونا یقینی نہیں، کیونکہ اس کا کوئی معتبر ذریعہ ہمارے پاس نہیں۔ بعض نے لکھا ہے کہ جزیرہ نمائے سینا کے مشرقی کنارے پر صالح (علیہ السلام) کی قبر موجود ہے جو آج بھی زیارت گاہ خلائق ہے اور اسی جزیرے میں جبل موسیٰ کے قریب صالح (علیہ السلام) کی اونٹنی کا نقش قدم معروف ہے، مگر جیسا کہ میں نے آیت (٦٥) میں ملا علی قاری سے نقل کیا ہے کہ ہمارے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سوا کسی نبی کی قبر معلوم نہیں اور نقش قدم بنانے میں تو دیر ہی نہیں لگتی، ہاں کوئی پختہ ذریعۂ علم ہو تو الگ بات ہے اور وہ یہاں موجود نہیں۔ - ۭهٰذِهٖ نَاقَةُ اللّٰهِ : سورة شعراء (١٤٨ تا ١٥٩) میں مذکور ہے کہ صالح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو اللہ تعالیٰ کی توحید اور اپنی رسالت و اطاعت کی اور فساد فی الارض سے بچنے کی دعوت دی تو انھوں نے آپ کو جادو زدہ اور اپنے جیسا انسان کہہ کر جھٹلا دیا، انھیں نبی تسلیم کرنے کے لیے کوئی معجزہ پیش کرنے کا مطالبہ کیا۔ صالح (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے ایک اونٹنی بھیج دی جو عجیب معجزہ تھی کہ ایک دن وہ ان کا سارا پانی پیتی اور دوسرے دن ان کی اور ان کے جانوروں کی باری ہوتی۔ قرآن و حدیث میں یہ تفصیل نہیں کہ وہ اونٹنی کیسے نمودار ہوئی، مگر تواریخ و تفاسیر میں ہے کہ پہاڑی چٹان پھٹی اور اس میں سے وہ اونٹنی برآمد ہوئی۔ صالح (علیہ السلام) نے انھیں آگاہ کیا کہ اگر تم نے اس اونٹنی کو کوئی نقصان پہنچایا تو تمہیں بہت بڑا اور دردناک عذاب پکڑ لے گا، پھر ان کے ٩ بدمعاشوں نے صالح (علیہ السلام) اور ان کے اہل خانہ کو شب خون مار کر شہید کرنے کا منصوبہ بنایا، جس کی تفصیل سورة نمل (٤٨ تا ٥٣) میں ہے۔ آخر کار انھوں نے اونٹنی کو کاٹ ہی ڈالا، پھر ان پر عذاب آگیا جس کی تفصیل اس مقام پر اور سورة ہود، شعراء، نمل اور شمس وغیرہ میں مذکور ہے اور اپنے اپنے مقام پر آرہی ہے۔ ” نَاقَةُ اللّٰهِ “ اگرچہ تمام اونٹنیاں بلکہ ساری کائنات ہی اللہ مالک الملک کی ہے، مگر اس اونٹنی کو خاص طور پر ” اللہ کی اونٹنی “ قرار دے کر اس کی عظمت اور معجزانہ شان کی طرف اشارہ فرمایا ہے، جیسے تمام گھر اللہ کی ملکیت ہونے کے باوجود ” بیت اللہ “ اسی کو کہا ہے جو مکہ میں ہے۔- وَلَا تَمَسُّوْهَا بِسُوْۗءٍ فَيَاْخُذَكُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ : یعنی اگر اسے ستاؤ گے یا زخمی کرو گے تو اللہ تعالیٰ کا عذاب تم پر نازل ہوجائے گا۔
خلاصہ تفسیر - اور ہم نے قوم ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح (علیہ السلام) کو (پیغمبر بنا کر) بھیجا انہوں نے (اپنی قوم سے) فرمایا اے میری قوم تم (صرف) اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اس کے سوا کوئی تمہارا معبود (ہونے کے قابل) نہیں (انہوں نے ایک خاص معجزہ کی درخواست کی کہ اس پتھر میں سے ایک اونٹنی پیدا ہو تو ہم ایمان لائیں چناچہ آپ کی دعا سے ایسا ہی ہوا کہ وہ پتھر پھٹا اور اس کے اندر سے ایک بڑی اونٹنی نکلی۔ رواہ محمد اسحق۔ آپ نے فرمایا کہ) تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے ایک واضح دلیل (میرے رسول ہونے کی) آچکی ہے (آگے اس کا بیان ہے) یہ اونٹنی ہے اللہ کی جو تمہارے لئے دلیل (بنا کر ظاہر کی گئی) ہے (اور اسی لئے اللہ کی اونٹنی کہلائی کہ اللہ کی دلیل ہے) سو (علاوہ اس کے کہ میری رسالت پر دلیل ہے خواہ اس کے بھی کچھ حقوق ہیں منجملہ ان کے یہ ہے کہ) اس کو چھوڑ دو کہ اللہ کی زمین میں (گھاس چارہ) کھاتی پھرا کرے (اسی طرح اپنی باری کے دن پانی پیتی رہے جیسا دوسری آیت میں ہے) اور اس کو برائی (اور تکلیف دہی) کے ساتھ ہاتھ بھی مت لگانا کبھی تم کو دردناک عذاب آپکڑے اور (اے قوم) تم یہ حالت یاد کرو (اور یاد کرکے احسان مانو اور اطاعت کرو) کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو (قوم) عاد کے بعد (روئے زمین پر) آباد کیا اور تم کو زمین پر رہنے کو (دلخواہ) ٹھکانا دیا کہ نرم زمین پر (بھی بڑے بڑے) محل بناتے ہو اور پہاڑوں کو تراش تراش کر ان میں (بھی) گھر بناتے ہو سو خدا تعالیٰ کی (ان) نعمتوں کو (اور دوسری نعمتوں کو بھی) یاد کرو (اور کفر و شرک کے ذریعہ) زمین میں فساد مت پھیلاؤ (یعنی ایمان لے آؤ مگر باوجود اس قدر فہمائش کے کچھ غرباء ایمان لائے اور ان میں اور رئیسوں میں یہ گفتگو ہوئی یعنی) ان کی قوم میں جو متکبر سردار تھے انہوں نے غریب لوگوں سے جو کہ ان میں سے ایمان لے آئے تھے پوچھا کہ کیا تم کو اس بات کا یقین ہے کہ صالح (علیہ السلام) اپنے رب کی طرف سے (پیغمبر بنا کر) بھیجے ہوئے (آئے) ہیں انہوں نے (جواب میں) کہا کہ بیشک ہم تو اس (حکم) پر پورا یقین رکھتے ہیں جو ان کو دے کر بھیجا گیا ہے وہ متکبر لوگ کہنے لگے کہ تم جس چیز پر یقین لائے ہوئے ہو ہم تو اس کے منکر ہیں۔ - معارف و مسائل - ان آیات میں حضرت صالح (علیہ السلام) اور ان کی قوم ثمود کے حالات کا تذکرہ ہے جیسے اس سے پہلے قوم نوح اور قوم ہود (علیہ السلام) کا ذکر آچکا ہے اور سورة اعراف کے آخر تک بھی انبیاء سابقین اور ان کی قوموں کے احوال انبیاء کی دعوت حق پر ان کے کفر و انکار کے انجام بد کا بیان ہے۔ - آیات مذکورہ میں سے پہلی آیت میں ارشاد فرمایا (آیت) وَاِلٰي ثَمُوْدَ اَخَاهُمْ صٰلِحًا، اس سے پہلے قوم عاد کے تذکرہ میں بیان ہوچکا ہے کہ عاد وثمود ایک ہی دادا کی اولاد میں دو شخصوں کا نام ہے ان کی اولاد بھی ان کے نام سے موسوم ہو کردو قومیں بن گئیں ایک قوم عاد دوسری قوم ثمود کہلاتی ہے۔ عرب کے شمال مغرب میں بستے تھے اور ان کے بڑے شہر کا نام حجر تھا جس کو اب عموماً مدائن صالح کہا جاتا ہے۔ قوم عاد کی طرح قوم ثمود بھی دولت مند، قوی اور بہادر قوم اور سنگ تراشی اور فن تعمیر میں ماہر تھی کھلی زمین پر پڑے پڑے محلات بنانے کے علاوہ پہاڑوں کو کھود کر ان میں طرح طرح کی عمارتیں بناتے تھے۔ ارض القرآن میں مولانا سید سلیمان صاحب رحمة اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ ان کی تعمیری یادگاریں اب تک باقی ہیں ان پر اِرَمِی اور ثمودی خط میں کتبے منقوش ہیں۔- دنیا کی دولت و ثروت کا نتیجہ عموماً یہی ہوتا ہے کہ ایسے لوگ خدا و آخرت سے غافل ہو کر غلط راستوں پر پڑجاتے ہیں، قوم ثمود کا بھی یہی حال ہوا۔ - حالانکہ ان سے پہلے قوم نوح (علیہ السلام) کے عذاب کے واقعات کا تذکرہ ابھی تک دنیا میں موجود تھا اور پھر ان کے بھائی قوم عاد کی ہلاکت کے واقعات تو تازہ ہی تھے۔ مگر دولت و قوت کے نشہ کا خاصہ ہی یہ ہے کہ ابھی ایک شخص کی بنیاد منہدم ہوتی ہے دوسرا اس کی خاک کے ڈھیر پر اپنی تعمیر کھڑی کرلیتا ہے اور پہلے کے واقعات کو بھول جاتا ہے۔ قوم عاد کی تباہی اور ہلاکت کے بعد قوم ثمود ان کے مکانات اور زمینوں کی وارث بنی اور انھیں مقامات پر اپنے عشرت کدے تیار کئے جن میں ان کے بھائی ہلاک ہوچکے تھے اور ٹھیک وہ ہی اعمال و افعال شروع کردیئے جو قوم عاد نے کئے تھے کہ خدا و آخرت سے غافل ہو کر شرک و بت پرستی میں لگ گئے اللہ تعالیٰ نے اپنی عادت مستمرہ کے مطابق ان کی ہدایت کے لئے حضرت صالح (علیہ السلام) کو رسول بنا کر بھیجا۔ صالح (علیہ السلام) نسب و وطن کے اعتبار سے قوم ثمود ہی کے ایک فرد تھے۔ کیونکہ یہ بھی سام کی اولاد میں سے تھے اسی لئے قرآن کریم میں ان کو قوم ثمود کا بھائی فرمایا ہے اخاھم صلحا، صالح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو جو دعوت دی وہ وہی دعوت ہے جو آدم (علیہ السلام) سے لے کر اس وقت تک سب انبیاء (علیہم السلام) دیتے چلے آئے ہیں جیسا کہ قرآن کریم میں ہے (آیت) ولقد بعثنا فی کل امة تا الطاغوت، یعنی ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا کہ وہ لوگوں کو یہ ہدایت کرے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور بت پرستی سے بچو۔ عام انبیاء سابقین کی طرح صالح (علیہ السلام) نے بھی قوم سے یہی فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کو اپنا رب اور خالق ومالک سمجھو اس کے سوا کوئی معبود بنانے کے لائق نہیں۔ فرمایا (آیت) يٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَيْرُهٗ- اس کے ساتھ ہی یہ بھی فرمایا قَدْ جَاۗءَتْكُمْ بَيِّنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ یعنی اب تو ایک کھلا ہوا نشان بھی تمہارے پروردگار کی طرف سے تمہارے پاس آپہنچا ہے۔ اس نشان سے مراد ایک عجیب و غریب ناقہ ہے جس کا اجمالی ذکر اس آیت میں بھی ہے اور قرآن کریم کی مختلف سورتوں میں اس کی مزید تفصیلات مذکور ہیں۔ واقعہ اس ناقہ کا یہ تھا کہ حضرت صالح (علیہ السلام) نے اپنی جوانی کے زمانہ سے اپنی قوم کو دعوت توحید شروع کی اور برابر اس میں لگے رہے یہاں تک کہ بڑھاپہ کے آثار شروع ہوگئے۔ صالح (علیہ السلام) کے بار بار اصرار سے تنگ ہو کر ان کی قوم نے یہ قرار دیا کہ ان سے کوئی ایسا مطالبہ کرو جس کو یہ پورا نہ کرسکیں اور ہم ان کی مخالفت میں سرخرو ہوجائیں۔ مطالبہ یہ کیا کہ اگر آپ واقعی اللہ کے رسول ہیں تو ہماری فلاں پہاڑی جس کا نام کاتبہ تھا اس کے اندر سے ایک ایسی اونٹنی نکال دیجئے جو دس مہینہ کی گابھن ہو اور قوی و تندرست ہو۔ - صالح (علیہ السلام) نے اول ان سے عہد لیا کہ اگر میں تمہارا یہ مطالبہ پورا کرا دوں تو تم سب مجھ پر اور میری دعوت پر ایمان لے آؤ گے۔ جب سب نے معاہدہ کرلیا تو صالح (علیہ السلام) نے دو رکعت نماز پڑھ کر اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ آپ کے لئے تو کوئی کام دشوار نہیں ان کا مطالبہ پورا فرما دیں۔ دعا کرتے ہی پہاڑی کے اندر جنبش پیدا ہوئی اور اس کی ایک بڑی چٹان پھٹ کر اس میں سے ایک اونٹنی اسی طرح کی نکل آئی جیسا مطالبہ کیا تھا۔ - صالح (علیہ السلام) کا یہ کھلا ہوا حیرت انگیز معجزہ دیکھ کر ان میں سے کچھ لوگ تو مسلمان ہوگئے۔ اور باقی تمام قوم نے بھی ارادہ کرلیا کہ ایمان لے آئیں۔ مگر قوم کے چند سردار جو بتوں کے خاص پجاری اور بت پرستی کے امام تھے انھوں نے ان کو بہکا کر اسلام قبول کرنے سے روک دیا۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے جب دیکھا کہ قوم نے عہد شکنی کی اور خطرہ ہوا کہ ان پر کوئی عذاب آجائے تو پیغمبرانہ شفقت کی بنا پر ان کو یہ نصیحت فرمائی کہ اس اونٹنی کی حفاظت کرو، اس کو کوئی تکلیف نہ پہنچاؤ تو شاید تم عذاب سے محفوظ رہو ورنہ فوراً تم پر عذاب آجائے گا یہی مضمون آیت مذکورہ کے ان جملوں میں ارشاد ہوا ہے (آیت) ۭهٰذِهٖ نَاقَةُ اللّٰهِ لَكُمْ اٰيَةً فَذَرُوْهَا تَاْكُلْ فِيْٓ اَرْضِ اللّٰهِ وَلَا تَمَسُّوْهَا بِسُوْۗءٍ فَيَاْخُذَكُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ، یعنی یہ اونٹنی ہے اللہ کی جو تمہارے لئے دلیل ہے سو اس کو چھوڑ دو کہ اللہ کی زمین میں کھاتی پھرا کرے۔ اور اس کو برائی کے ساتھ ہاتھ نہ لگانا ورنہ تم کو عذاب الیم آپکڑے گا اس ناقہ کو ناقۃ اللہ اس لئے کہا گیا کہ اللہ کی قدرت کاملہ کی دلیل اور صالح (علیہ السلام) کے معجزہ کے طور پر حیرت انگیز طریق سے پیدا ہوئی۔ جیسے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو روح اللہ فرمایا گیا کہ ان کی پیدائش بھی معجزانہ انداز سے ہوئی تھی۔ تَاْكُلْ فِيْٓ اَرْضِ اللّٰهِ میں اس کی طرف اشارہ ہے کہ اس ناقہ کے کھانے پینے میں تمہاری ملک اور تمہارے گھر سے کچھ نہیں جاتا زمین اللہ کی ہے اس کی پیداوار کا پیدا کرنے والا وہی ہے اس کی اونٹنی کو اس کی زمین میں آزاد چھوڑ دو کہ عام چراگاہوں میں کھاتی رہے۔ - قوم ثمود جس کنوئیں سے پانی پیتے پلاتے تھے اسی سے یہ اونٹنی بھی پانی پیتی تھی مگر یہ عجیب الخلقة اونٹنی جب پانی پیتی تو پورے کنوئیں کا پانی ختم کردیتی تھی۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے باذن ربانی یہ فیصلہ فرما دیا تھا کہ ایک دن یہ اونٹنی پانی پیے گی اور دوسرے دن قوم کے سب لوگ پانی لیں گے اور جس روز یہ اونٹنی پانی پیے گی تو دوسروں کو پانی کے بجائے اونٹنی کا دودھ اتنی مقدار میں مل جاتا تھا کہ وہ اپنے سارے برتن اس سے بھر لیتے تھے۔ قرآن میں دوسری جگہ اس تقسیم کا ذکر اس طرح آیا ہے (آیت) ونبئھم ان الماء قسمۃ بینھم کل شرب محتضر، یعنی صالح (علیہ السلام) آپ اپنی قوم کو بتلا دیں کہ کنوئیں کا پانی ان کے اور ناقہ اللہ کے درمیان تقسیم ہوگا ایک دن اونٹنی کا اور دوسرے دن پوری قوم کا اور اس تقسیم پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرشتوں کی نگرانی مسلط ہوگی کہ کوئی اس کے خلاف نہ کرسکے۔ اور ایک دوسری آیت میں ہے (آیت) ھذہ ناقة لہاشرب ولکم شرب یوم معلوم، یعنی یہ اللہ کی اونٹنی ہے ایک دن پانی کا حق اس کا اور دوسرے دن کا پانی تمہارے لئے معین و مقرر ہے۔
وَاذْكُرُوْٓا اِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَاۗءَ مِنْۢ بَعْدِ عَادٍ وَّبَوَّاَكُمْ فِي الْاَرْضِ تَتَّخِذُوْنَ مِنْ سُہُوْلِہَا قُصُوْرًا وَّتَنْحِتُوْنَ الْجِبَالَ بُيُوْتًا ٠ ۚ فَاذْكُرُوْٓا اٰلَاۗءَ اللہِ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْاَرْضِ مُفْسِدِيْنَ ٧٤- خلف - والخِلافةُ النّيابة عن الغیر إمّا لغیبة المنوب عنه، وإمّا لموته، وإمّا لعجزه، وإمّا لتشریف المستخلف . وعلی هذا الوجه الأخير استخلف اللہ أولیاء ه في الأرض، قال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَكُمْ خَلائِفَ فِي الْأَرْضِ [ فاطر 39] ،- ( خ ل ف ) خلف ( پیچھے )- الخلافۃ کے معنی دوسرے کا نائب بننے کے ہیں ۔ خواہ وہ نیابت اس کی غیر حاضری کی وجہ سے ہو یا موت کے سبب ہو اور ریا اس کے عجز کے سبب سے ہوا دریا محض نائب کو شرف بخشے کی غرض سے ہو اس آخری معنی کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے اپنے اولیاء کو زمین میں خلافت بخشی ۔ ہے چناچہ فرمایا :۔ وَهُوَ الَّذِي جَعَلَكُمْ خَلائِفَ الْأَرْضِ [ الأنعام 165] اور وہی تو ہے جس نے زمین میں تم کو اپنا نائب بنایا ۔- بَوءَ- أصل البَوَاء : مساواة الأجزاء في المکان، خلاف النّبو الذي هو منافاة الأجزاء . يقال : مکان بَوَاء : إذا لم يكن نابیا بنازله، وبَوَّأْتُ له مکانا : سوّيته فَتَبَوَّأَ ، وبَاءَ فلان بدم فلان يَبُوءُ به أي : ساواه، قال تعالی: وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ أَنْ تَبَوَّءا لِقَوْمِكُما بِمِصْرَ بُيُوتاً [يونس 87] ، وَلَقَدْ بَوَّأْنا بَنِي إِسْرائِيلَ مُبَوَّأَ صِدْقٍ [يونس 93] - ( ب و ء ) البواء - ۔ کے اصل معنی کسی جگہ کے اجزا کا مساوی ( اور سازگار موافق) ہونے کے ہیں ۔ یہ نبوۃ کی ضد ہے جس کے معنی اجزاء کی ناہمواری ( ناسازگاری ) کے ہیں ۔ لہذا مکان بواء اس مقام کے کہتے ہیں ۔ جو اس جگہ پر اترنے والے کے ساز گار اور موافق ہو ۔ بوات لہ مکانا میں نے اس کے لئے جگہ کو ہموار اور درست کیا اور تبوات اس کا مطاوع ہے جس کے معنی کسی جگہ ٹھہرلے کے ہیں قرآن میں ہے ؛۔ وَأَوْحَيْنَا إِلَى مُوسَى وَأَخِيهِ أَنْ تَبَوَّآ لِقَوْمِكُمَا ( سورة يونس 87) اور ہم نے موسیٰ اور اس گے بھائی کی طرف دحی بھیجی کہ اپنے لوگوں کے لئے مصر میں گھر بناؤ ۔ - أخذ ( افتعال، مفاعله)- والاتّخاذ افتعال منه، ويعدّى إلى مفعولین ويجري مجری الجعل نحو قوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصاری أَوْلِياءَ [ المائدة 51] ، أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِياءَ [ الشوری 9] ، فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا [ المؤمنون 110] ، أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ : اتَّخِذُونِي وَأُمِّي إِلهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ [ المائدة 116] ، وقوله تعالی: وَلَوْ يُؤاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ [ النحل 61] فتخصیص لفظ المؤاخذة تنبيه علی معنی المجازاة والمقابلة لما أخذوه من النعم فلم يقابلوه بالشکر - ( اخ ذ) الاخذ - الاتخاذ ( افتعال ) ہے اور یہ دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوکر جعل کے جاری مجری ہوتا ہے جیسے فرمایا :۔ لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ ( سورة المائدة 51) یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ۔ وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ ( سورة الزمر 3) جن لوگوں نے اس کے سوا اور دوست بنائے ۔ فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا ( سورة المؤمنون 110) تو تم نے اس تمسخر بنالیا ۔ أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ ( سورة المائدة 116) کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو معبود بنا لو ۔ اور آیت کریمہ : وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ ( سورة النحل 61) میں صیغہ مفاعلہ لاکر معنی مجازات اور مقابلہ پر تنبیہ کی ہے جو انعامات خدا کی طرف سے انہیں ملے ان کے مقابلہ میں انہوں نے شکر گذاری سے کام نہیں لیا ۔- سهل - السَّهْلُ : ضدّ الحزن، وجمعه سُهُولٌ ، قال تعالی: تَتَّخِذُونَ مِنْ سُهُولِها قُصُوراً [ الأعراف 74] ، وأَسْهَلَ : حصل في السَّهْلِ ، ورجل سَهْلِيٌّ منسوب إلى السّهل، ونهر سَهْلٌ ، ورجل سَهْلُ الخلق، وحزن الخلق، وسُهَيْلٌ نجم .- ( س ھ ل ) السھل کے معنی نرم زمین کے ہیں اس کی جمع سھول آتی ہے اور یہ حزن کی ضد ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : تَتَّخِذُونَ مِنْ سُهُولِها قُصُوراً [ الأعراف 74]( کہ ) نرم زمین سے ( مٹی لے کر ) جھل تعمیر کرتے ہو ۔ اور اسھل کے معنی نرم زمین میں جانے کے ہیں اور رجل سھلی کے معنی میدانی علاقہ کا رہنے والا آدمی کے ہیں نھر سھل جوئے ریگ ناک اور نرم خوآدمی کو رجل سھل الخلق کہا جاتا ہے ۔ ( اس کی ضد ) حزن الخلق ہے اور سھیل ایک ستارے کا نام ہے ۔- قصر - القِصَرُ : خلاف الطّول، وهما من الأسماء المتضایفة التي تعتبر بغیرها، وقَصَرْتُ كذا :- جعلته قَصِيراً ، والتَّقْصِيرُ : اسم للتّضجیع، وقَصَرْتُ كذا : ضممت بعضه إلى بعض، ومنه سمّي الْقَصْرُ ، وجمعه : قُصُورٌ. قال تعالی: وَقَصْرٍ مَشِيدٍ [ الحج 45] ، وَيَجْعَلْ لَكَ قُصُوراً [ الفرقان 10] ، إِنَّها تَرْمِي بِشَرَرٍ كَالْقَصْرِ [ المرسلات 32] ، وقیل : الْقَصْرُ أصول الشّجر، الواحدة قَصْرَةٌ ، مثل : جمرة وجمر، وتشبيهها بالقصر کتشبيه ذلک في قوله : كأنّه جمالات صفر [ المرسلات 33] ، وقَصَرْتُه جعلته : في قصر، ومنه قوله تعالی:- حُورٌ مَقْصُوراتٌ فِي الْخِيامِ [ الرحمن 72] ، وقَصَرَ الصلاةَ : جعلها قَصِيرَةً بترک بعض أركانها ترخیصا . قال : فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُناحٌ أَنْ تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلاةِ [ النساء 101] وقَصَرْتُ اللّقحة علی فرسي : حبست درّها عليه، وقَصَرَ السّهمِ عن الهدف، أي : لم يبلغه، وامرأة قاصِرَةُ الطَّرْفِ : لا تمدّ طرفها إلى ما لا يجوز . قال تعالی: فِيهِنَّ قاصِراتُ الطَّرْفِ [ الرحمن 56] . وقَصَّرَ شعره : جزّ بعضه، قال : مُحَلِّقِينَ رُؤُسَكُمْ وَمُقَصِّرِينَ [ الفتح 27] ، وقَصَّرَ في كذا، أي : توانی، وقَصَّرَ عنه لم : ينله، وأَقْصَرَ عنه : كفّ مع القدرة عليه، واقْتَصَرَ علی كذا : اکتفی بالشیء الْقَصِيرِ منه، أي : القلیل، وأَقْصَرَتِ الشاة : أسنّت حتی قَصَرَ أطراف أسنانها، وأَقْصَرَتِ المرأة : ولدت أولادا قِصَاراً ، والتِّقْصَارُ : قلادة قَصِيرَةٌ ، والْقَوْصَرَةُ معروفة «1» .- ( ق ص ر ) القصر یہ طول کی ضد ہے اور یہ دونوں اسمائے نسبتی سے ہیں جو ایک دوسرے پر قیاس کے ذریعہ سمجھے جاتے ہیں ۔ قصرت کذا کے معنی کسی چیز کو کوتاہ کرنے کے ۔ ہیں اور تقصیر کے معنی اور سستی کے ہیں اور قصرت کذا کے معنی سکیٹر نے اور کسی چیز کے بعض اجزاء کو بعض کے ساتھ ملانا کے بھی آتے ہیں ۔ اسی سے قصر بمعنی محل ہے اس کی جمع قصور آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَقَصْرٍ مَشِيدٍ [ الحج 45] اور بہت سے محل : ۔ وَيَجْعَلْ لَكَ قُصُوراً [ الفرقان 10] نیز تمہارے لئے محل بنادے گا ۔ إِنَّها تَرْمِي بِشَرَرٍ كَالْقَصْرِ [ المرسلات 32] اس سے آگ کی اتنی ( بڑی بڑی ) چنگاریاں اٹھتی ہیں ۔ جیسے محل ۔ بعض نے کہا ہے کہ قصر جمع ہے اور اس کے معنی درخت کی جڑوں کے ہیں ۔ اس کا واحد قصرۃ ہے جیسے جمرۃ وجمر اور ان شراروں کو قصر کے ساتھ تشبیہ دینا ایسے ہی ہے جیسا کہ دوسری آیت میں ان کا ۔ كأنّه جمالات صفر [ المرسلات 33] گویا زور درنگ کے اونٹ ہیں ۔ کہا ہے کہ اور قصرتہ کے معنی محل میں داخل کرنے کے ہیں اور اسی سے ارشاد الہٰی ہے ۔ حُورٌ مَقْصُوراتٌ فِي الْخِيامِ [ الرحمن 72] وہ حوریں ہیں جو خیموں میں ستور ہیں ۔- قصرالصلٰوۃ - بموجب رخصت شرعی کے نماز کے بعض ارکان کو ترک کرکے اسے کم کرکے پڑھنا ۔ قرآن پاک میں ہے : فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُناحٌ أَنْ تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلاةِ [ النساء 101] تو تم پر کچھ گناہ نہیں کہ نماز کو کم کر کے پڑھو ۔ قصرت اللقحتہ علٰی فرسی اونٹنی کا دودھ اپنی گھوڑی کے لئے مخصوص کردیا قصرالسھم عن الھدف ۔ تیر کا نشانے تک نہ پہنچنا ۔ امراءۃ قاصرۃ الطرف وہ عورت ناجائز نظر اٹھا کے نہ دیکھے ۔ قرآن پاک میں ہے : فِيهِنَّ قاصِراتُ الطَّرْفِ [ الرحمن 56] ان میں نیچی نگاہ والی عورتیں ۔ قصری شعرہ بال کتروانا قرآن پاک میں ہے : مُحَلِّقِينَ رُؤُسَكُمْ وَمُقَصِّرِينَ [ الفتح 27] اپنے سر منڈاوا کر اور بال کتروا کر ۔ قصرفی کذا : کسی کام میں سستی کرنا قصر عنہ کسی کام کے کرنے سے عاجز ہونا ۔ اقصرت عنہ ۔ باوجود قدرت کے کسی کام کرنے سے باز رہنا ۔ اقتصر علیٰ کذا تھوڑی چپز پر صبر کرنا ۔ اقتصرت الشاۃ بوڑھا ہونے کی وجہ سے بکری کے دانتوں کا کوتاہ ہوجانا ۔ اقصرت المرءۃ چھوٹی قد اولاد جننا تقصار چھوٹا سا رہا ۔ القوصرہ کھجور ڈالنے زنبیل جو کھجور پتوں یا نرکل کی بنئی ہوئی ہوتی ہے ۔- نحت - نَحَتَ الخَشَبَ والحَجَرَ ونحوهما من الأجسام الصَّلْبَة . قال تعالی: وَتَنْحِتُونَ مِنَ الْجِبالِ بُيُوتاً فارِهِينَ [ الشعراء 149] والنُّحَاتَةُ : ما يسقط من المَنْحُوتِ ، والنَّحِيتَة : الطّبيعة التي نُحِتَ عليها الإنسان کما أنّ الغریزة ما غُرِزَ عليها الإنسانُ- ( ن ح ت )- نحت ( ض ) کے معنی لکڑی پتھر یا اس قسم کی سخت چیزوں کو تراشنے کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَتَنْحِتُونَ مِنَ الْجِبالِ بُيُوتاً فارِهِينَ [ الشعراء 149] اور تکلیف سے پہاڑوں میں تراش تراش کر گھر بناتے ہو ۔ نحاتۃ تراشہ ۔ وہ ریزے جو کاٹنے سے گریں اور انسانی فطرت کو اس لحاظ سے کہ انسان کی ساخت اس کے مطابق بنائی گئی ہے نحیتہ کہا جاتا ہے اور اس لحاظ سئ کہ وہ انسان کے اندر پیوست کی گئی ہے غریزہ کہلاتی ہے ۔- جبل - الجَبَل جمعه : أَجْبَال وجِبَال، وقال عزّ وجل :- أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ مِهاداً وَالْجِبالَ أَوْتاداً [ النبأ 6- 7] - ( ج ب ل )- قرآن میں ہے : ۔ أَلَمْ نَجْعَلِ الْأَرْضَ مِهاداً وَالْجِبالَ أَوْتاداً [ النبأ 6- 7] کیا ہم نے زمین کو بچھونا نہیں بنایا " ۔ اور پہاڑوں کو ( اس کی میخیں ) نہیں ٹھہرایا ؟- بيت - أصل البیت : مأوى الإنسان باللیل، قال عزّ وجلّ : فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خاوِيَةً بِما ظَلَمُوا [ النمل 52] ، - ( ب ی ت ) البیت - اصل میں بیت کے معنی انسان کے رات کے ٹھکانہ کے ہیں ۔ کیونکہ بات کا لفظ رات کو کسی جگہ اقامت کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ فَتِلْكَ بُيُوتُهُمْ خاوِيَةً بِما ظَلَمُوا [ النمل 52] یہ ان کے گھر ان کے ظلم کے سبب خالی پڑے ہیں ۔ - آلاء ( نعمت)- فَاذْكُرُوا آلاءَ اللَّهِ [ الأعراف 69] أي : نعمه، الواحد : ألًا وإِلًى، نحو أناً وإنًى لواحد الآناء . وقال بعضهم في قوله تعالی: وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ ناضِرَةٌ إِلى رَبِّها ناظِرَةٌ [ القیامة 22- 23] :- إنّ معناه : إلى نعمة ربها منتظرة، وفي هذا تعسف من حيث البلاغة- اور آیت کریمہ :۔ فَاذْكُرُوا آلَاءَ اللهِ ( سورة الأَعراف 69 - 74) پس خدا کی نعمتوں کو یا دکر و ۔ میں الاء کا واحد الی والی ہے جس طرح کہ اناء کا واحد اناو انی آتا ہے بعض نے آیت کریمہ وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَاضِرَةٌ (22) إِلَى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ (23) ( سورة القیامة 22 - 23) کے معنی الی نعمۃ ربھا منتظرۃ کئے ہیں یعنی اپنے پروردگار کی نعمت کے منتظر ہونگے لیکن بلاغت قرآن کی رد سے یہ سراسرتعسف ہے - آلائ - جمع ہے اس کا واحد الی ہے اس کا معنی ہے النعم نعمتیں ( لسان العرب) ۔- امام راغب لکھتے ہیں :۔ الاء کا واحد الی والی ہے جس طرح اناء کا واحد انا وانی ؤتا ہے ( مفردات) نیز راغب نے بھی الاء کا ترجمہ نعمتیں کیا ہے۔ آیت واذکروا الاء اللہ (7:74) کا ترجمہ کیا ہے : پس خدا کی نعمتوں کو یاد کرو۔ - المنجد میں الا لی الالی الالی ( جمع الائ) بمعنی نعمت، مہربانی، فضل لکھا ہے۔ - اصل میں لفظ الاء استعمال ہوا ہے جسے آگے کی آیتوں میں بار بار دہرایا گیا ہے اور ہم نے مختلف مقامات پر اس کا مفہوم مختلف الفاظ سے ادا کیا ہے۔ اس لئے آغاز میں ہی یہ سمجھ لینا چاہئے کہ اس لفظ میں کتنی وسعت ہے اور اس میں کیا کیا مفہومات شامل ہیں۔ الاء کے معنی اہل لغت اور اہل تفسیر نے بالعموم نعمتوں کے بیان کئے ہیں تمام مترجمین نے بھی یہی اس کا ترجمہ کیا ہے اور یہی معنی حضرت ابن عباس (رض) حضرت قتادہ اور حضرت حسن بصری (رح) سے منقول ہیں۔ سب سے بڑی دلیل اس معنی کے صحیح ہونے کی یہ ہے کہ خود نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جنوں کے اس قول کو نقل فرمایا ہے کہ وہ اس آیت کو سن کر بار بار لابشی من نعمک ربنا نکذب کہتے تھے۔ - لہٰذا زمانہ حال کے محققین کی اس رائے سے ہمیں اتفاق نہیں ہے کہ الاء نعمتوں کے معنی میں سے ہوتا ہی نہیں۔- دوسرے معنی - اس لفظ کے قدرت اور عجائب قدرت یا کمالات قدرت ہیں ابن جریر طبری نے ابن زید کا قول نقل کیا ہے کہ : فبای الاء ربکما کے معنی ہیں فبای قدرۃ اللہ۔ ابن جریر نے خود بھی آیات 37، 38 کی تفسیر میں الاء کو قدرت کے معنی میں لیا ہے امام رازی نے بھی آیات 14، 15، 16 کی تفسیر میں لکھا ہے : یہ آیات بیان نعمت کے لئے نہیں بلکہ بیان قدرت کے لئے ہیں۔ اور آیات 22 ۔ 23 کی تفسیر میں وہ فرماتے ہیں یہ اللہ تعالیٰ کے عجائب قدرت کے بیان میں ہے نہ کہ نعمتوں کے بیان میں ۔- اس کے تیسرے معنی - ہیں : خوبیاں۔ اوصاف حمیدہ اور کمالات و فضائل ۔ اس معنی کو اہل لغت اور اہل تفسیر نے بیان نہیں کیا ہے مگر اشعار عرب میں یہ لفظ کثرت سے اس معنی میں استعمال ہوا ہے۔ نابغہ کہتا ہے :۔ ہم الملوک وابناء الملوک لہم ۔ فضل علی الناس فی الا الاء النعم۔ ( وہ بادشاہ اور شہزادے ہیں۔ ان کو لوگوں پر اپنی خوبیوں اور نعمتوں میں فضیلت حاصل ہے) ۔- مہلہل اپنے بھائی کلیب کے مرثیہ میں کہتا ہے :۔- الحزم والعزم کان من طبائعہ : ما کل الائہ یاقوم احصیہا حزم اور عزم اس کے اوصاف میں سے تھے ۔ لوگو میں اس کی ساری خوبیاں بیان نہیں کر رہا ہوں۔ فضالہ بن زید العدوانی غریبی کی برائیاں بیان کرتے ہوئے کہتا ہے :۔ غریب اچھا کام بھی کرے تو برا بنتا ہے اور وتحمد الاء البخیل المدرہم مالدار بخیل کے کمالات کی تعریف کی جاتی ہے۔ اجدع ھمدانی اپنے گھوڑے کمیت کی تعریف میں کہتا ہے کہ : ورضیت الاء الکمیت فمن یبع۔ فرسا فلیس جو ادنا بمباع ( مجھے کمیت کے عمدہ اوصاف پسند ہیں اگر کوئی شخص کسی گھوڑے کو بیچتا ہے تو بیچے ہمارا گھوڑا بکنے والا نہیں ہے۔- ( بحوالہ انوار البیان)- عثی - العَيْثُ والعِثِيُّ يتقاربان، نحو : جَذَبَ وجَبَذَ ، إلّا أنّ العَيْثَ أكثر ما يقال في الفساد الذي يدرک حسّا، والعِثِيَّ فيما يدرک حکما . يقال : عَثِيَ يَعْثَى عِثِيّاً «4» ، وعلی هذا : وَلا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ [ البقرة 60] ، وعَثَا يَعْثُو عُثُوّاً ، والأَعْثَى: لونٌ إلى السّواد، وقیل للأحمق الثّقيل : أَعْثَى.- ( ع ث ی ) العثي - والعثی سخت فساد پیدا کرنا ) بھی جذاب اور جیذ کی طرح تقریبا ہم معنی ہی میں لیکن عیث کا لفظ زیادہ تر فساد حسی کے لئے بولا جاتا ہے اور العثی کا حکمی یعنی ذہنی اور فسکر ی فساد کے لئے آتا ہے کہا جاتا ہے ۔ عثی یعثی عثیا چناچہ اسی سے قرآن میں ہے ولا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ [ البقرة 60] اور ملک میں فساد اور انتشار پیدا نہ کرو ۔ اور عثا یعثوا عثوا باب نصر سے ) بھی آتا ہے اور الاعلٰی سیاہی مائل اور سست نیز احمق آدمی کو بھی اعثی کہا جاتا ہے ۔
(٧٣) اور قوم ثمود کی طرف ہم نے انھی میں سے نبی بھیجا اور کہا گیا ہے کہ حضرت صالح (علیہ السلام) ان کے نسبی بھائی تھے، دینی بھائی نہیں تھے، انہوں نے فرمایا توحید خداوندی کے قائل ہوجاؤ اور جس اللہ پر میں تمہیں ایمان لانے کا حکم دیتا ہوں، اس کے علاوہ اور کوئی عبادت کے لائق نہیں، تمہارے پروردگار کی طرف سے میرے رسول ہونے پر یہ اونٹنی ایک واضح دلیل بھی موجود ہے اس اونٹنی کو چھوڑ دو کہ یہ چرتی رہے اور اس کے پیر مت کاٹنا، کیوں کہ ایسا کرنے کے بعد تمہیں عذاب الہی آگھیرے گا۔
آیت ٧٣ (وَاِلٰی ثَمُوْدَ اَخَاہُمْ صٰلِحًا ٧ ) - حضرت ہود (علیہ السلام) اور ان کے اہل ایمان ساتھی جزیرہ نمائے عرب کے جنوبی علاقے سے ہجرت کر کے شمال مغربی کونے میں جا آباد ہوئے۔ یہ حجر کا علاقہ کہلاتا ہے۔ یہاں ان کی نسل آگے بڑھی اور پھر غالباً ’ ثمود ‘ نامی کسی بڑی شخصیت کی وجہ سے اس قوم کا یہ نام مشہور ہوا۔ - (قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰہَ مَا لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗط قَدْ جَآءَ تْکُمْ بَیِّنَۃٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ ط) ۔ - حضرت صالح (علیہ السلام) نے بھی اپنی قوم کو وہی دعوت دی جو اس سے پہلے حضرت نوح اور حضرت ہود (علیہ السلام) اپنی اپنی قوموں کو دے چکے تھے۔ یہاں بَیِّنَۃ سے مراد وہ اونٹنی ہے جو ان کے مطالبے پر معجزانہ طور پر چٹان سے نکلی تھی۔ یہاں یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ حضرت نوح اور حضرت ہود (علیہ السلام) کے بارے میں کسی معجزے کا ذکر قرآن میں نہیں ہے۔ معجزے کا ذکر سب سے پہلے حضرت صالح (علیہ السلام) کے بارے میں آتا ہے۔- (ہٰذِہٖ نَاقَۃُ اللّٰہِ لَکُمْ اٰیَۃً فَذَرُوْہَا تَاْکُلْ فِیْٓ اَرْضِ اللّٰہِ وَلاَ تَمَسُّوْہَا بِسُوْٓءٍ فَیَاْخُذَکُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ - یہ اونٹنی تمہارے مطالبے پر تمہاری نگاہوں کے سامنے ایک چٹان سے برآمد ہوئی ہے۔ اب اسے کوئی نقصان پہنچانے کی کوشش نہ کرنا ‘ ورنہ اللہ کا عذاب تمہیں آلے گا۔
سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :57 یہ عرب کی قدیم ترین اقوام میں سے دوسری قوم ہے جو عاد کے بعد سب سے زیادہ مشہور و معروف ہے ۔ نزول قرآن سے پہلے اس کے قصّے اہل عرب میں زباں زد عام تھے ۔ زمانہ جاہلیت کے اشعار اور خطبوں میں بکثرت اس کا ذکر ملتا ہے ۔ اسیریا کے کتبات اور یونان ، اسکندریہ اور روم کے قدیم مورخین اور جغرافیہ نویس بھی اس کا ذکر کرتے ہیں ۔ مسیح علیہ السلام کی پیدائش سے کچھ عرصہ پہلے تک اس قوم کے کچھ بقایا موجود تھے ، چنانچہ رومی مورخین کا بیان ہے کہ یہ لوگ رومن افواج میں بھرتی ہوئے اور نبطیوں کے خلاف لڑے جن سے ان کی دشمنی تھی ۔ اس قوم کا مسکن شمالی مغربی عرب کا وہ علاقہ تھا جو آج بھی اَلحَجِر کے نام سے موسوم ہے ۔ موجودہ زمانہ میں مدینہ اور تبوک کے درمیان حجاز ریلوے پر ایک اسٹیشن پڑتا ہے جسے مدائنِ صالح کہتے ہیں ۔ یہی ثمود کا صدر مقام تھا اور قدیم زمانہ میں حجر کہلاتا تھا ۔ اب تک وہاں ہزاروں ایکڑ کے رقبے میں وہ سنگین عمارتیں موجود ہیں جن کو ثمود کے لوگوں نے پہاڑوں میں تراش تراش کر بنایا تھا اور اس شہر خموشاں کو دیکھ کر اندازہ کیا جاتا ہے کہ کسی وقت اس شہر کی آبادی چار پانچ لاکھ سے کم نہ ہوگی ۔ نزول قرآن کے زمانے میں حجاز کے تجارتی قافلے ان آثار قدیمہ کے درمیان سے گزرا کرتے تھے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ تبوک کے موقع پر جب ادھر سے گزرے تو آپ نے مسلمانوں کو یہ آثارِ عبرت دکھائے اور وہ سبق دیا جو آثار قدیمہ سے ہر صاحب بصیرت انسان کو حاصل کرنا چاہیے ۔ ایک جگہ آپ نے ایک کنویں کی نشان دہی کر کے بتایا کہ یہی وہ کنواں ہے جس سے حضرت صالح کی اونٹنی پانی پیتی تھی اور مسلمانوں کو ہدایت کی کہ صرف اسی کنویں سے پانی لینا ، باقی کنووں کا پانی نہ پینا ۔ ایک پہاڑی درے کو دکھا کر آپ نے بتایا کہ اسی درے سے وہ اُونٹنی پانی پینے کے لیے آتی تھی ۔ چنانچہ وہ مقام آج بھی فَجُّ الناقہ کے نام سے مشہور ہے ۔ ان کے کھنڈروں میں جو مسلمان سیر کرتے پھر رہے تھے ان کو آپ نے جمع کیا اور ان کے سامنے ایک خطبہ دیا جس میں ثمود کے انجام پر عبرت دلائی اور فرمایا کہ یہ اس قوم کا علاقہ ہے جس پر خدا کا عذاب نازل ہوا تھا ، لہٰذا یہاں سے جلدی گزر جاؤ ، یہ سیرگاہ نہیں ہے بلکہ رونے کا مقام ہے ۔ سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :58 ظاہر عبارت سے محسوس ہوتا ہے کہ پہلے فقرے میں اللہ کی جس کھلی دلیل کا ذکر فرمایا گیا ہے اس سے مراد یہی اُونٹنی ہے جسے اس دوسرے فقرے میں”نشانی“ کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ سورہ شعراء آیات۵٤ تا ١۵۸ میں تصریح ہے کہ ثمود والوں نے خود ایک ایسی نشانی کا حضرت صالح سے مطالبہ کیا تھا جو ان کے مامور من اللہ ہونے پر کھلی دلیل ہو ، اور اسی جواب میں حضرت صالح نے اونٹنی کو پیش کیا تھا ۔ اس سے یہ بات تو قطعی طور پر ثابت ہوجاتی ہے کہ اُونٹنی کا ظہور معجزے کے طور پر ہوا تھا اور یہ اسی نوعیت کے معجزات میں سے تھا جو بعض انبیاء نے اپنی نبوت کے ثبوت میں منکرین کے مطالبہ پر پیش کیے ہیں ۔ نیز یہ بات بھی اس اونٹنی کی معجزانہ پیدائش پر دلیل ہے کہ حضرت صالح نے اسے پیش کرکے منکرین کو دھمکی دی کہ بس اب اس اونٹنی کی جان کے ساتھ تمہاری زندگی معلق ہے ۔ یہ آزادانہ تمہاری زمینوں میں چرتی پھرے گی ۔ ایک دن یہ اکیلی پانی پئیے گی اور دوسرے دن پوری قوم کے جانور پئیں گے ۔ اور اگر تم نے اسے پاتھ لگایا تو یکایک تم پر خدا کا عذاب ٹوٹ پڑے گا ۔ ظاہر ہے کہ اس شان کے ساتھ وہی چیز پیش کی جاسکتی تھی جس کا غیر معمولی ہونا لوگوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہو ۔ پھر یہ بات کہ ایک کافی مدّت تک یہ لوگ اس کے آزادانہ چرنے پھرنے کو اور اس بات کو کہ اک دن تنہا وہ پانی پیئے اور دوسرے دن ان سب کے جانور پئیں ، بادل ناخواستہ برداشت کرتے رہے اور آخر بڑے مشوروں اور سازشوں کے بعد انہوں نے اسے قتل کیا ، درآں حالیکہ حضرت صالح کے پاس کوئی طاقت نہ تھی جس کا انہیں کوئی خوف ہوتا ، اس حقیقت پر مزید دلیل ہے کہ وہ لوگ اس اُونٹنی سے خوف زدہ تھے اور جانتے تھے کہ اس کے پیچھے ضرور کوئی زور ہے جس کے بل پر وہ ہمارے درمیان دندناتی پھرتی ہے ۔ مگر قرآن اس امر کی کوئی تصریح نہیں کرتا کہ یہ اُونٹنی کیسی تھی اور کس طرح وجود میں آئی ۔ کسی حدیث صحیح میں بھی اس کے معجزے کے طور پر پیدا ہونے کی کیفیت بیان نہیں کی گئی ہے ۔ اس لیے ان روایات کو تسلیم کرنا کچھ ضروری نہیں جو مفسرین نے اس کی کیفیت پیدائش کے متعلق نقل کی ہیں ۔ لیکن یہ بات کہ وہ کسی نہ کسی طور پر معجزے کی حیثیت رکھتی تھی ، قرآن سے ثابت ہے ۔
39: ثمود بھی قوم عاد ہی کی نسل سے پیدا ہوئی تھی اور ظاہر یہ ہے کہ حضرت ہود (علیہ السلام) اور ان کے مومن ساتھی جو عذاب سے بچ گئے تھے یہ ان کی اولاد تھی اور ثمود ان کے دادا کا نام تھا، اسی لئے ان کو عاد ثانیہ بھی کہا جاتا ہے، یہ قوم عرب اور شام کے درمیان اس علاقے میں آباد تھی جس کو اس وقت حجر کہا جاتا تھا اور آج کل اسے مدائن صالح کہتے ہیں، اور آج بھی ان کے گھروں اور محلات کے کھنڈر موجود ہیں اور پہاڑوں سے تراشی ہوئی عمارتوں کے آثار جن کا ذکر آیت ٧٤ میں ہے آج بھی وہاں دیکھے جاسکتے ہیں، عرب مشرکین جب تجارتی سفر پر شام جاتے تو یہ کھنڈر ایک نشان عبرت کے طور پر ان کے راستے میں پڑتے تھے اور قرآن کریم نے کئی مقامات پر انہیں اس کی طرف توجہ دلائی ہے، اس قوم میں بھی رفتہ رفتہ بت پرستی کی بیماری پیدا ہوگئی تھی، اور اس کے نتیجے میں بہت سی عملی خرابیاں پھیل گئی تھیں، حضرت صالح (علیہ السلام) اسی قوم کے ایک فرد تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے ان کو راہ راست دکھانے کے لئے پیغمبر بناکر بھیجا، لیکن یہاں بھی وہی صورت پیش آئی کہ قوم کی اکثریت نے ان کی بات نہیں مانی، حضرت صالح (علیہ السلام) نے جوانی سے بڑھاپے تک مسلسل ان کو تبلیغ جاری رکھی، آخر کا ان لوگوں نے یہ مطالبہ کیا کہ اگر آپ ہمارے سامنے کے پہاڑ سے کوئی اونٹنی نکال کر دکھادیں گے تو ہم ایمان لے آئیں گے، حضرت صالح (علیہ السلام) نے دعا فرمائی اور اللہ تعالیٰ نے پہاڑ سے اونٹنی بھی نکال کر دکھادی، اس پر کچھ لوگ تو ایمان لے آئے، مگر بڑے بڑے سردار اپنے عہدسے پھر گئے اور نہ صرف یہ کہ اپنی ضد پر اڑے رہے ؛ بلکہ جو دوسرے لوگ ایمان لانے کا ارادہ کررہے تھے انہیں بھی روک دیا، حضرت صالح (علیہ السلام) کو اندیشہ ہوا کہ ان کی عہد شکنی کی وجہ سے ان پر اللہ کا عذاب آجائے گا، اس لئے انہوں نے فرمایا کے کم از کم اللہ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی اس اونٹنی کو تم آزاد چھوڑے رکھو، اور اسے کوئی تکلیف نہ پہنچاؤ، اور اونٹنی کو چونکہ پورے کنویں کا پانی درکار ہوتا تھا، اس لئے اس کی باری مقرر کردی کہ ایک دن اونٹنی کنویں کا پانی پیئے گی اور دوسرے دن آبادی کے لوگ پانی لیں گے، لیکن ہوا یہ کہ قوم کے کچھ لوگوں نے اونٹنی کو مارڈالنے کا ارادہ کیا اور آخر کار ایک شخص نے جس کا نام قذار تھا اس کو قتل کرڈالا، اس موقع پر حضرت صالح (علیہ السلام) نے انہیں متنبہ کیا کہ اب ان کی زندگی کے صرف تین دن باقی رہ گئے ہیں، جس کے بعد وہ عذاب سے ہلاک کردئے جائیں گے، بعض روایات میں ہے کہ انہوں نے یہ بھی بتادیا تھا کہ ان تین دنوں میں سے ہر دن ان کے چہروں کا رنگ بدل جائے گا یعنی پہلے دن رنگ پیلا، دوسرے دن سرخ اور تیسرے دن کالا ہوجائے گا، اس کے باوجود اس ضدی قوم نے توبہ اور استغفار کرنے کے بجائے خود حضرت صالح (علیہ السلام) کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا، جس کا ذکر قرآن کریم نے سورۃ نمل میں فرمایا ہے ؛ لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں راستے ہی میں ہلاک کردیا اور ان کا منصوبہ دھرہ رہ گیا، آخر کار تین دن اسی طرح گزرے جیسے حضرت صالح (علیہ السلام) نے فرمایا تھا اسی حالت میں شدید زلزلہ آیا اور آسمان سے ایک ہیبت ناک چیخ کی آواز نے ان سب کو ہلاک کرڈالا۔ حضرت صالح (علیہ السلام) اور ان کی قوم کا تفصیلی ذکر سورۃ ہود (61:11) سورۃ شعراء (141:126) سورۃ نمل (45:27) اور سورۃ قمر (23:54) میں آیا ہے۔ نیز سورۃ حجر، سورۃ ذاریات، سورۃ نجم سورۃ الحاقہ اور سورۃ شمس میں بھی ان کے مختصر حوالے آئے ہیں۔