Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

74۔ 1 اس کا مطلب ہے کہ نرم زمین سے مٹی لے لے کر اینٹیں تیار کرتے ہو اور اینٹوں سے محل، جیسے آج بھی بھٹوں پر اسی طرح مٹی سے اینٹیں تیار کی جاتی ہیں۔ 74۔ 2 یہ ان کی قوت، صلاحیت اور مہارت فن کا اظہار ہے۔ 74۔ 3 یعنی ان نعمتوں پر اللہ کا شکر کرو اور اس کی اطاعت کا راستہ اختیار کرو، نہ کہ کفران نعمت اور معصیت کا ارتکاب کرکے فساد پھیلاؤ۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٧٨] قوم ثمود کے گھروں کی ساخت :۔ ان لوگوں کے قد و قامت بھی بہت بڑے اور عمریں بھی بہت لمبی ہوتی تھیں اور اگر وہ عام لکڑی کی چھت والے مکان بناتے تو بنانے والے کی زندگی ہی میں کئی بار بوسیدہ ہو کر گرپڑتے تھے۔ عام روایت کے مطابق اس دور میں ان کی عمریں تین سو سے چھ سو سال کے درمیان ہوتیں اور لکڑی کے مکان زیادہ سے زیادہ ایک سو سال چلتے پھر بوسیدہ اور کمزور ہو کر گرپڑتے تھے اس لیے وہ اپنے مکان پہاڑوں میں بناتے۔ اعلیٰ درجے کے سنگ تراش اور انجینئر تھے۔ پہاڑوں کو اندر سے تراش تراش کر مکان بنا لیتے جن میں کھڑکیاں دروازے سب کچھ موجود ہوتا تھا اور ان کی پائیداری کی وجہ سے ایک طویل عرصہ وہاں گزار سکتے تھے اور کسی ہموار زمین پر مکان بناتے تو وہ بھی اتنا مضبوط ہوتا جیسے کوئی محل کھڑا کردیا گیا ہو۔ - [٧٩] قوم ثمود کا فساد فی الارض :۔ جب ان لوگوں کی اکثریت اپنا مطلوبہ معجزہ دیکھ کر بھی ایمان نہ لائی تو صالح (علیہ السلام) نے انہیں اللہ کے احسانات یاد کرائے اور فرمایا : قوم عاد نے اللہ کی نافرمانی اور سرکشی کی تو ان کا حشر تم نے دیکھ لیا پھر اللہ نے تمہیں ان کا قائم مقام بنایا تمہیں قوت دی اور اتنی طاقت اور خوش حالی دی کہ تم رہنے کے لیے معمولی گھروں کے بجائے محل بنا کر رہتے ہو تو اللہ کے ان احسانات کا شکریہ ادا کرو اور فساد فی الارض کے موجب نہ بنو۔ یہاں فساد فی الارض سے مراد کفر و شرک کو اختیار کرنا، انبیاء کی دعوت ہدایت کو ازراہ تکبر ٹھکرا دینا۔ دعوت قبول کرنے والوں کا استہزاء اور ان پر سختیاں روا رکھنا، اور ان سے محاذ آرائی ہے اور ان سب باتوں کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ کہیں ان کی اپنی سرداریاں ختم نہ ہوجائیں۔ پھر اس قسم کے معاشرے میں یہ متکبر قسم کے بڑے لوگ غریبوں کا جس طرح استحاصل کرتے ہیں اور ان پر ظلم روا رکھتے ہیں وہ سب کو معلوم ہے اور یہ سب باتیں فساد فی الارض کے ضمن میں آتی ہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

تَتَّخِذُوْنَ مِنْ سُهُوْلِهَا قُصُوْرًا۔۔ : یعنی ہموار علاقہ ہو تو اینٹوں سے عالی شان محل بنا لیتے ہو اور پہاڑ ہوں تو انھیں کھود اور تراش کر سردی، گرمی اور طوفان سے محفوظ مکان بنا لیتے ہو۔- اٰلَاۗءَ ‘ یہ ” اِلًی “ کی جمع ہے جو اصل میں ” اِلَیٌ“ تھا، جیسے اَمْعَاءٌ ( انتڑیاں) ” مِعًی “ کی جمع ہے۔ ” ِ وَلَا تَعْثَوْا “ یہ ” عَثِیَ یَعْثَی “ (س ) سے نہی کا صیغہ ہے، اس کا معنی سخت فساد کرنا ہوتا ہے، ” مُفْسِدِيْنَ “ تاکید کے لیے حال ہے، اس لیے ترجمہ میں ” وَلَا تَعْثَوْا “ کا معنی ” دنگا نہ مچاؤ “ اور ” مُفْسِدِيْنَ “ کا معنی ” فساد کرتے ہوئے “ کیا ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

دوسری آیت میں اس وعدہ فراموش قوم کی خیر خواہی اور ان کو عذاب الٰہی سے بچانے کے لئے پھر ان کو اللہ تعالیٰ کے انعامات و احسانات یاد دلائے کہ اب بھی یہ لوگ اپنی سرکشی سے باز آجائیں فرمایا (آیت) وَاذْكُرُوْٓا اِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَاۗءَ مِنْۢ بَعْدِ عَادٍ وَّبَوَّاَكُمْ فِي الْاَرْضِ تَتَّخِذُوْنَ مِنْ سُهُوْلِهَا قُصُوْرًا وَّتَنْحِتُوْنَ الْجِبَالَ بُيُوْتًا ۚ اس میں خلفاء خلیفہ کی جمع ہے جس کے معنی ہیں قائمقام اور نائب اور قصود قصر کی جمع اونچی علیشان عمارت اور محل کو کہا جاتا ہے تنحتون، نحت سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں سنگ تراشی۔ جبال جبل کی جمع ہے بمعنی پہاڑ بیوتا بیت کی جمع ہے جو گھر کے کمرے کے لئے بولا جاتا ہے۔ معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کو یاد کرو کہ اس نے قوم عاد کو ہلاک کرکے ان کی جگہ تم کو بسایا۔ ان کی زمین اور مکانات تمہارے قبضہ میں دے دیئے اور تم کو یہ صنعت سکھلا دی کہ کھلی زمین میں بڑے بڑے محلات بنا لیتے ہو اور پہاڑوں کو تراش کر ان میں کمرے اور مکانات بنا لیتے ہو۔ آخر آیت میں فرمایا فاذْكُرُوْٓا اٰلَاۗءَ اللّٰهِ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْاَرْضِ مُفْسِدِيْنَ ، یعنی اللہ کی نعمتیں یاد کرو اور ان کا احسان مانو، اس کی اطاعت اختیار کرو اور زمین میں فساد پھیلاتے مت پھرو۔ - احکام و مسائل - آیات مذکورہ سے چند اصولی اور فروعی مسائل معلوم ہوئے۔- اول یہ کہ اصول عقائد میں تمام انبیاء (علیہم السلام) متفق ہیں اور ان کی شریعتیں متحد ہیں سب کی دعوت توحید کے ساتھ اللہ کی عبادت کرنا اور اس کی خلاف ورزی پر عذاب دنیا و آخرت سے ڈرانا ہے۔- دوسرے یہ کہ تمام پچھلی امتوں میں ہوتا بھی رہا ہے کہ قوموں کے بڑے دولت مند آبرو دار لوگوں نے ان کی دعوت کو قبول نہیں کیا اور اس کے نتیجہ میں دنیا میں بھی ہلاک و برباد ہوئے اور آخرت میں بھی مستحق عذاب ہوئے۔- تیسرے تفسیر قرطبی میں ہے کہ اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتیں دنیا میں کافروں پر بھی مبذول ہوتی ہیں۔ جیسا کہ قوم عاد وثمود پر اللہ تعالیٰ نے دولت و قوت کے دروازے کھول دئیے تھے۔- چوتھے تفسیر قرطبی ہی میں ہے کہ اس آیت سے معلوم ہوا کہ بڑے بڑے محلات اور عالیشان مکانات کی تعمیر بھی اللہ تعالیٰ کی نعمت ہیں اور ان کا بنانا جائز ہے۔- یہ دوسری بات ہے کہ انبیاء و اولیاء اللہ نے اس کو اس لئے پسند نہیں فرمایا کہ یہ چیزیں انسان کو غفلت میں ڈال دینے والی ہیں۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جو اونچی تعمیرات کے بارے میں ارشادات منقول ہیں وہ اسی انداز کے ہیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

قَالَ الْمَلَاُ الَّذِيْنَ اسْـتَكْبَرُوْا مِنْ قَوْمِہٖ لِلَّذِيْنَ اسْتُضْعِفُوْا لِمَنْ اٰمَنَ مِنْہُمْ اَتَعْلَمُوْنَ اَنَّ صٰلِحًا مُّرْسَلٌ مِّنْ رَّبِّہٖ۝ ٠ ۭ قَالُوْٓا اِنَّا بِمَآ اُرْسِلَ بِہٖ مُؤْمِنُوْنَ۝ ٧٥- ملأ - المَلَأُ : جماعة يجتمعون علی رأي، فيملئون العیون رواء ومنظرا، والنّفوس بهاء وجلالا . قال تعالی: أَلَمْ تَرَ إِلَى الْمَلَإِ مِنْ بَنِي إِسْرائِيلَ [ البقرة 246] - ( م ل ء ) الملاء - ( م ل ء ) الملاء ۔ جماعت جو کسی امر پر مجتمع ہوتونظروں کو ظاہری حسن و جمال اور نفوس کو ہیبت و جلال سے بھردے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَلَمْ تَرَ إِلَى الْمَلَإِ مِنْ بَنِي إِسْرائِيلَ [ البقرة 246] نھلا تم نے بنی اسرائیل کی ایک جماعت کو نہیں دیکھا ۔ - الاسْتِكْبارُ- والْكِبْرُ والتَّكَبُّرُ والِاسْتِكْبَارُ تتقارب، فالکبر الحالة التي يتخصّص بها الإنسان من إعجابه بنفسه، وذلک أن يرى الإنسان نفسه أكبر من غيره . وأعظم التّكبّر التّكبّر علی اللہ بالامتناع من قبول الحقّ والإذعان له بالعبادة .- والاسْتِكْبارُ يقال علی وجهين :- أحدهما :- أن يتحرّى الإنسان ويطلب أن يصير كبيرا، وذلک متی کان علی ما يجب، وفي المکان الذي يجب، وفي الوقت الذي يجب فمحمود .- والثاني :- أن يتشبّع فيظهر من نفسه ما ليس له، وهذا هو المذموم، وعلی هذا ما ورد في القرآن . وهو ما قال تعالی: أَبى وَاسْتَكْبَرَ- [ البقرة 34] .- ( ک ب ر ) کبیر - اور الکبر والتکبیر والا ستکبار کے معنی قریب قریب ایک ہی ہیں پس کہر وہ حالت ہے جس کے سبب سے انسان عجب میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔ اور عجب یہ ہے کہ انسان آپنے آپ کو دوسروں سے بڑا خیال کرے اور سب سے بڑا تکبر قبول حق سے انکار اور عبات سے انحراف کرکے اللہ تعالیٰ پر تکبر کرنا ہے ۔- الاستکبار ( اسعاے ل ) اس کا استعمال دوطرح پر ہوتا ہے ۔- ا یک یہ کہ انسان بڑا ببنے کا قصد کرے ۔ اور یہ بات اگر منشائے شریعت کے مطابق اور پر محمل ہو اور پھر ایسے موقع پر ہو ۔ جس پر تکبر کرنا انسان کو سزا وار ہے تو محمود ہے ۔ دوم یہ کہ انسان جھوٹ موٹ بڑائی کا ) اظہار کرے اور ایسے اوصاف کو اپنی طرف منسوب کرے جو اس میں موجود نہ ہوں ۔ یہ مذموم ہے ۔ اور قرآن میں یہی دوسرا معنی مراد ہے ؛فرمایا ؛ أَبى وَاسْتَكْبَرَ [ البقرة 34] مگر شیطان نے انکار کیا اور غرور میں آگیا۔ - اسْتَضْعَفْ- واسْتَضْعَفْتُهُ : وجدتُهُ ضَعِيفاً ، قال وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجالِ وَالنِّساءِ وَالْوِلْدانِ- [ النساء 75] ، قالُوا فِيمَ كُنْتُمْ قالُوا كُنَّا مُسْتَضْعَفِينَ فِي الْأَرْضِ [ النساء 97] ، إِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُونِي[ الأعراف 150] ، وقوبل بالاستکبار في قوله : قالَ الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا لِلَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا[ سبأ 33]- استضعفتہ ۔ میں نے اسے کمزور سمجھا حقیر جانا ۔ قران میں ہے : ۔ وَنُرِيدُ أَنْ نَمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا[ القصص 5] اور ہم چاہتے تھے کہ جنہیں ملک میں کمزور سمجھا گیا ہے ان پر احسان کریں : وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجالِ وَالنِّساءِ وَالْوِلْدانِ [ النساء 75] اور ان بےبس مردوں عورتوں اور بچوں قالوا فِيمَ كُنْتُمْ قالُوا كُنَّا مُسْتَضْعَفِينَ فِي الْأَرْضِ [ النساء 97] تو ان سے پوچھتے ہیں کہ تم کس حال میں تھے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم ملک میں عاجز اور ناتوان تھے ۔ إِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُونِي[ الأعراف 150] کہ لوگ تو مجھے کمزور سمجھتے تھے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ قالَ الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا لِلَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا[ سبأ 33] اور کمزور لوگ برے لوگوں سے کہیں گے ۔ میں استضاف استکبار کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے - أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٧٤) اور وہ وقت بھی یاد کرو جب قوم عاد کے ہلاک کرنے کے بعد ہم نے تمہیں زمین میں آباد کیا اور یہ لوگ گرمیوں کے لیے نرم زمین میں اور سردیوں کے لیے پہاڑوں پر مکانات بناتے تھے اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کو یاد کرکے اس پر ایمان لاؤ اور زمین میں غیر اللہ کی پرستش اور دیگر گناہ کے کاموں کو مت کرو۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٧٤ (وَاذْکُرُوْٓا اِذْ جَعَلَکُمْ خُلَفَآءَ مِنْم بَعْدِ عَادٍ وَّبَوَّاَکُمْ فِی الْاَرْضِ تَتَّخِذُوْنَ مِنْ سُہُوْلِہَا قُصُوْرًا وَّتَنْحِتُوْنَ الْجِبَالَ بُیُوْتًا ج) ۔ - میدانی علاقوں میں وہ عالی شان محلات تعمیر کرتے تھے اور پہاڑوں کو تراش کر بڑے خوبصورت گھر بناتے تھے۔ اب ان محلات کا تو کوئی نام و نشان اس علاقے میں موجود نہیں ‘ البتہ پہاڑوں سے تراش کر بنائے ہوئے گھروں کے کھنڈرات اس علاقے میں آج بھی موجود ہیں۔ قوم ثمود حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے پہلے گزری ہے اور قوم عاد اس سے بھی پہلے تھی۔ اس طرح قوم ثمود کا زمانہ آج سے تقریباً چھ ہزار سال پہلے کا ہے جبکہ قوم عاد کو گزرے تقریباً سات ہزار سال ہوچکے ہیں۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :59 ثمود کی یہ صنعت ویسی ہی تھی جیسی ہندوستان میں ایلورا ، ایجنٹہ اور بعض دوسرے مقامات پر پائی جاتی ہے ، یعنی وہ پہاڑوں کو تراش کر ان کے اندر بڑی بڑی عالی شان عمارتیں بناتے تھے ، جیسا کہ اوپر بیان ہوا ۔ مدائن صالح میں اب تک ان کی کچھ عمارتیں جوں کی توں موجود ہیں اور ان کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اس قوم نے انجینیری میں کتنی حیرت انگیز ترقی کی تھی ۔ سورة الْاَعْرَاف حاشیہ نمبر :60 یعنی عاد کے انجام سے سبق لو ۔ جس خدا کی قدرت نے اس مفسد قوم کو برباد کر کے تمہیں اس کی جگہ سر بلند کیا ، وہی خدا تمہیں برباد کر کے دوسروں کو تمہارا جانشین بنا سکتا ہے اگر تم بھی عاد کی طرح مفسد بن جاؤ ۔ ( تشریح کے لیے ملاحظہ ہو حاشیہ ۵۲ )

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani