15۔ 1 یعنی وہ جہنم، یہ اس کی شدت حرارت کا بیان ہے۔
کلا انھا لظی :” کلا “ یعنی ایسا ہرگز نہیں ہوگا کہ وہ اپنے فدیے میں کسی اور کو عذاب کے حوالے کر کے بچ جائے، بلکہ وہ جہنم ایک شعلے مارنے والی آگ ہے۔” لظی “ ” لظی یلظی لظی “ (ع) آگ کا بھڑکنا، شعلے مارنا۔ مصدر بمعنی اسم فاعل برائے مبالغہ ہے۔
كَلَّا ۭ اِنَّهَا لَظٰى 15 ۙنَزَّاعَةً لِّلشَّوٰى، انا کی ضمیر نار کی طرف راجع ہے اور نطی کے معنے خالص شعلہ بغیر آمیزش کے اور شوی شواة کی جمع ہے جس کے معنی سر کی کھال کے بھی ہیں اور ہاتھوں پاؤں کی کھال کے بھی، یعنی جہنم کی آگ ایک سخت بھڑکنے والا شعلہ ہوگا جو دماغ کی یا ہاتھوں پاؤں کی کھال اتار دے گا۔- ښتَدْعُوْا مَنْ اَدْبَرَ وَتَوَلی، ۙوَجَمَعَ فَاَوْعٰى خود بلائے گی یہ آگ اس شخص کو جس نے حق سے پیٹھ موڑی اور رخ پھیرا اور مال جمع کیا پھر اس کو روک کر رکھا۔ مراد جمع کرنے سے وہ ہے کہ خلاف شرع ناجائز طریقوں سے جمع کرے اور روکنے سے مراد یہ ہے کہ مال پر عائد ہونے والے فرائض و واجبات ادا نہ کرے جیسا کہ احادیث صحیحہ سے ثابت ہے۔
كَلَّا ٠ ۭ اِنَّہَا لَظٰى ١٥ ۙ- كلا - كَلَّا : ردع وزجر وإبطال لقول القائل، وذلک نقیض «إي» في الإثبات . قال تعالی: أَفَرَأَيْتَ الَّذِي كَفَرَ إلى قوله كَلَّا[ مریم 77- 79] وقال تعالی: لَعَلِّي أَعْمَلُ صالِحاً فِيما تَرَكْتُ كَلَّا [ المؤمنون 100] إلى غير ذلک من الآیات، وقال : كَلَّا لَمَّا يَقْضِ ما أَمَرَهُ [ عبس 23] .- کلا یہ حرف روع اور زجر ہے اور ماقبل کلام کی نفی کے لئے آتا ہے اور یہ ای حرف ایجاب کی ضد ہے ۔ جیسا کہ قرآن میں ہے ۔ أَفَرَأَيْتَ الَّذِي كَفَرَ إلى قوله كَلَّا[ مریم 77- 79] بھلا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے ہماری آیتوں سے کفر کیا ۔ اور کہنے لگا اگر میں ازسر نو زندہ ہوا بھی تو یہی مال اور اولاد مجھے وہاں ملے گا کیا اس نے غیب کی خبر پالی ہے یا خدا کے یہاں ( سے ) عہد لے لیا ہے ہر گز نہیں ۔ لَعَلِّي أَعْمَلُ صالِحاً فِيما تَرَكْتُ كَلَّا [ المؤمنون 100] تاکہ میں اس میں جسے چھوڑ آیا ہوں نیک کام کروں ہرگز نہیں ۔ كَلَّا لَمَّا يَقْضِ ما أَمَرَهُ [ عبس 23] کچھ شک نہیں کہ خدا نے سے جو حکم دیا ۔ اس نے ابھی تک اس پر عمل نہیں کیا ۔ اور اس نوع کی اور بھی بہت آیات ہیں ۔- لظی - اللَّظَى: اللهب الخالص، وقد لَظِيَتِ النارُ وتَلَظَّتْ. قال تعالی: ناراً تَلَظَّى[ اللیل 14] أي : تَتَلَظَّى، ولَظَى غير مصروفة : اسم لجهنم . قال تعالی: إِنَّها لَظى[ المعارج 15] .- ( ل ظ ی ) لظیت النار وتلظت کے معنی آگ بھڑک اٹھنے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ ناراً تَلَظَّى[ اللیل 14] بھڑکتی آگ سے ، اور لظیٰ آگ کے شعلہ کو کہا جاتا ہے جس میں دھوئیں کی آمیزش نہ ہو یہ جہنم کا علم اور غیر منصرف ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّها لَظى[ المعارج 15] وہ بھڑکتی ہوئی آگ ہے ۔
آیت ١٥ کَلَّاط اِنَّہَا لَظٰی ۔ ” ہرگز نہیں اب تو یہ بھڑکتی ہوئی آگ ہی ہے۔ “- آج تم سے نہ تو کوئی فدیہ قبول کیا جائے گا ‘ اور نہ ہی کوئی تمہاری مدد کو آئے گا۔ آج جہنم کی اس شعلہ فشاں آگ کا سامنا تمہیں خود ہی کرنا ہوگا۔ جیسا کہ سورة مریم کی اس آیت میں واضح کیا گیا ہے : وَکُلُّہُمْ اٰتِیْہِ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ فَرْدًا ۔ ” اور قیامت کے دن سب کے سب آنے والے ہیں اس کے پاس اکیلے اکیلے۔ “