[١١] آیت نمبر ١٧ اور نمبر ١٨ میں انہیں دو بنیادی جرائم کا ذکر کیا گیا ہے۔ جو انسان کو جہنم کا مستحق بنا دیتے ہیں۔ اور ان جرائم کا ذکر سورة الحاقۃ کی آیت نمبر ٣٣ اور ٣٤ کے حاشیہ میں تفصیل سے گزر چکا ہے۔ ایسے ہی لوگوں کو جہنم اپنے ہاں بلا لے گی۔ اور ایک روایت کے مطابق جہنم سے ایک گردن نکلے گی جو جہنم کے مستحق لوگوں کو یوں چن چن کر اٹھا لے گی جیسے کوئی پرندہ زمین سے پڑا ہوا دانہ اٹھا لیتا ہے۔
(١) تدعوا من ادبر وتولی : یعنی جن لوگوں نے دنیا میں ایمان کی طرف بلائے جانے پر پیٹھ پھیرلی اور منہ موڑ لیا تھا اب جہنم انہیں اپنی طرف بلائے گی اور اس طرح نہیں بلائے گی کہ چاہیں تو جائیں اور چاہیں تو نہ جائیں۔- (٢) وجمع فاوعی :” اوعی “ ‘” وعائ “ برتن کو کہتے ہیں، یعنی برتن میں بند رکھا۔ پچھلی آیت اور اس آیت سے معلوم ہوا کہ کفار کے جہنم میں جانے کے دو بڑے اسباب ہیں، ایک ایمان نہ لانا بلکہ حق بات سن کر منہ پھیرلینا اور دوسرا شدید بخل۔ دیکھیے سورة حاقہ (٣٣، ٣٤) ۔- (٣) جہنم کا کلام کرنا ان آیات سے بھی ثابت ہوتا ہے اور سورة ق کی آیت (٣٠) :(وتقول ھل من مرید) سے بھی۔ ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(یخرج عنق من النار یوم القیامۃ لہ عینان تبصران واذنان تسمعان ولسان ینطق یقول انی وکلت بثلاثۃ بکل جبار عنید وبکل من دعا مع اللہ الھا آخر وبالمصورین) (ترمذی، صفۃ جھنم، باب ماجاء فی صفۃ النار : ٢٥٨٣ ، وصححہ الالبانی)” قیامت کے دن آگ سے ایک گردن نکلے گی جس کی دو آنکھیں ہوں گی جو دیکھتی ہوں گی اور دوکان ہوں گے جو سنتے ہوں گے اور ایک زبان ہوگی جو بولتی ہوگی۔ وہ کہے گی کہ مجھے تین (قسم کے آدمیوں) پر مقرر کیا گیا ہے، ہر جبار عنید پر اور ہر اس شخص پر جو اللہ کے ساتھ کسی اور کو معبود بنائے اور مصوروں پر۔ “ اسی طرح صحیح مسلم میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جنت اور دوزخ کی بحث کی حدیث سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے، اس لئے جہنم کے کلام کا انکار کرنا یا اس کی تاویل کرنا درست نہیں۔ قرآن مجید کے مطابق قیامت کے دن زمین میں بات کرے گی اور ہاتھ پاؤں اور چمڑے بھی گفتگو کریں گے، پھر جنت یا جہنم کے بولنے میں کیا تعجب ہے ؟
تَدْعُوْا مَنْ اَدْبَرَ وَتَوَلّٰى ١٧ ۙ- دعا - الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ، - ( د ع و ) الدعاء ( ن )- کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ - دبر ( پيٹھ)- دُبُرُ الشّيء : خلاف القُبُل وكنّي بهما عن، العضوین المخصوصین، ويقال : دُبْرٌ ودُبُرٌ ، وجمعه أَدْبَار، قال تعالی: وَمَنْ يُوَلِّهِمْ يَوْمَئِذٍدُبُرَهُ [ الأنفال 16] ، وقال : يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبارَهُمْ [ الأنفال 50] أي : قدّامهم وخلفهم، وقال : فَلا تُوَلُّوهُمُ الْأَدْبارَ [ الأنفال 15] ، وذلک نهي عن الانهزام، وقوله : وَأَدْبارَ السُّجُودِ [ ق 40] : أواخر الصلوات، وقرئ : وَإِدْبارَ النُّجُومِ ( وأَدْبَار النّجوم) فإدبار مصدر مجعول ظرفا،- ( د ب ر ) دبر ۔- بشت ، مقعد یہ قبل کی ضد ہے اور یہ دونوں لفظ بطور کنایہ جائے مخصوص کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں اور اس میں دبر ا اور دبر دولغات ہیں اس کی جمع ادبار آتی ہے قرآن میں ہے :َ وَمَنْ يُوَلِّهِمْ يَوْمَئِذٍدُبُرَهُ [ الأنفال 16] اور جو شخص جنگ کے روز ان سے پیٹھ پھیرے گا ۔ يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبارَهُمْ [ الأنفال 50] ان کے مونہوں اور پیٹھوں پر ( کوڑے و ہیتھوڑے وغیرہ ) مارتے ہیں ۔ فَلا تُوَلُّوهُمُ الْأَدْبارَ [ الأنفال 15] تو ان سے پیٹھ نہ پھیرنا ۔ یعنی ہزیمت خوردہ ہوکر مت بھاگو ۔ اور آیت کریمہ ؛۔ وَأَدْبارَ السُّجُودِ [ ق 40] اور نماز کے بعد ( بھی ) میں ادبار کے معنی نمازوں کے آخری حصے ( یا نمازوں کے بعد ) کے ہیں . وَإِدْبارَ النُّجُومِ«1»میں ایک قرات ادبارالنجوم بھی ہے ۔ اس صورت میں یہ مصدر بمعنی ظرف ہوگا یعنی ستاروں کے ڈوبنے کا وقت جیسا کہ مقدم الجام اور خفوق النجم میں ہے ۔ اور ادبار ( بفتح الحمزہ ) ہونے کی صورت میں جمع ہوگی ۔ - ولي - وإذا عدّي ب ( عن) لفظا أو تقدیرا اقتضی معنی الإعراض وترک قربه .- فمن الأوّل قوله :- وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة 51] ، وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة 56] . - ومن الثاني قوله :- فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران 63] ،- ( و ل ی ) الولاء والتوالی - اور جب بذریعہ عن کے متعدی ہو تو خواہ وہ عن لفظوں میں مذکورہ ہو ایا مقدرو اس کے معنی اعراض اور دور ہونا کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ تعد یہ بذاتہ کے متعلق فرمایا : ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة 51] اور جو شخص تم میں ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انہیں میں سے ہوگا ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة 56] اور جو شخص خدا اور اس کے پیغمبر سے دوستی کرے گا ۔ اور تعدیہ بعن کے متعلق فرمایا : ۔ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران 63] تو اگر یہ لوگ پھرجائیں تو خدا مفسدوں کو خوب جانتا ہے ۔
جہنم کی آگ ہر اس شخص کو پکار پکار کر اپنی طرف بلائے گی اور ڈھونڈ ڈھونڈ کر شکارکرے گی جس نے حق سے اعراض کیا تھا اور اللہ کے کلام کو پس ِپشت ڈال دیا تھا۔ دین کی دعوت اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مشن کو کبھی لائق اعتناء نہیں سمجھا تھا۔
4: یعنی جس جس نے دُنیا میں حق سے پیٹھ موڑی ہوگی اِسے وہ اپنے پاس بلا لے گی۔