Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حوصلہ افزائی اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے نبی کو کفار کی طعن آمیز باتوں پر صبر کرنے کی ہدایت کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ ان کے حال پر بغیر ڈانٹ ڈپٹ کے ہی چھوڑ دے ، میں خد ان سے نمٹ لوں گا ۔ میرے غضب اور غصے کے وقت دیکھ لوں گا کہ کیسے یہ لوگ نجات پاتے ہیں ۔ ہاں ان کے مالدار خوش حال لوگوں کو جو بےفکر ہیں اور تجھے ستانے کے لئے باتیں بنا رہے ہیں جن پر دوہرے حقوق ہیں مال کے اور جان کے اور یہ ان میں سے ایک بھی ادا نہیں کرتے تو ان سے بےتعلق ہو جا پھر دیکھ کہ میں ان کے ساتھ کیا کرتا ہوں تھوڑی دیر دنیا میں تو چاہے یہ فائدہ اٹھا لیں گے مگر انجام کار عذابوں میں پھنسیں گے اور عذاب بھی کونسے؟ سخت قید و بند کے ، بدترین بھڑکتی ہوئی نہ بجھنے والی اور نہ کم ہونے والی آگ کے اور ایسا کھانا جو حلق میں جا کر اٹک جائے نہ نگل سکیں نہ اگل سکیں اور بھی طرح طرح کے المناک عذاب ہوں گے ، پھر وہ وقت بھی ہو گاجب زمینوں میں اور پہاڑوں پر زلزلہ طاری ہو گا سخت اور بڑی چٹانوں والے پہاڑ آپس میں ٹکرا ٹکرا کر چور چور ہو گئے ہوں گے جیسے بھربھری ریت کے بکھرے ہوئے ذرے ہوں جنہیں ہوا ادھر سے ادھر لے جائے گی اور نام و نشان تک مٹا دے گی اور زمین ایک چٹیل صاف میدان کی طرح رہ جائے گی جس میں کہیں اونچ نیچ نظر نہ آئے گی ، پھر فرماتا ہے اے لوگو اور خصوصاً اے کافرو ہم نے تم پر گواہی دینے والا اپنا سچا رسول تم میں بھیج دیا ہے جیسے کہ فرعون کے پاس بھی ہم نے اپنے احکام کے پہنچا دینے کے لئے اپنے ایک رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا تھا ، اس نے جب اس رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نہ مانی تو تم جانتے ہو کہ ہم نے اسے بری طرح برباد کیا اور سختی سے پکڑ لیا ، اسی طرح یاد رکھو اگر اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تم نے بھی نہ مانی تو تمہاری خیر نہیں اللہ کے عذاب تم پر بھی اتر آئیں گے اور نیست و نابود کر دیئے جاؤ گے کیونکہ یہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم رسولوں کے سردار ہیں ان کے جھٹلانے کا وبال بھی اور وبالوں سے بڑا ہے ۔ اس کے بعد کی آیت کے دو معنی ہیں ایک تو یہ کہ اگر تم نے کفر کیا تو بتاؤ تو سہی کہ اس دن کے عذابوں سے کیسے نجات حاصل کرو گے؟ جس دن کی ہیبت خوف اور ڈربچوں کو بوڑھا کر دے گا اور دوسرے معنی یہ کہ اگر تم نے اتنے بڑے ہولناک دن کا بھی کفر کیا اور اس کے بھی منکر رہے تو تمہیں تقویٰ اور اللہ کا ڈر کیسے حاصل ہو گا ؟ گو یہ دونوں معنی یہ کہ اگر تم نے اتنے بڑے ہولناک دن کا بھی کفر کیا اور اس کے بھی منکر رہے تو تمہیں تقویٰ اور اللہ کا ڈر کیسے حاصل ہو گا ؟ گو یہ دونوں معنی نہایت عمدہ ہیں لیکن اول اولیٰ ہیں واللہ اعلم ۔ طبرانی میں ہے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی اور فرمایا یہ قیامت کا دن ہے جس دن اللہ تعالیٰ حضرت آدم علیہ السلام سے فرمائے گا اٹھو اور اپنی اولاد میں سے دوزخیوں کو الگ الگ کردہ پوچھیں گے اے اللہ کتنی تعداد میں سے کتنے؟ حکم ہو گا ہر ہزار میں سے نو سو ننانوے یہ سنتے ہی مسلمانوں کے تو ہوش اڑ گئے اور گھبرا گئے ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کے چہرے دیکھ کر سمجھ گئے اور بطور تشفی کے فرمایا سنو بنو آدم بہت سے ہیں یاجوج ماجوج بھی اولاد آدم میں سے ہیں جن میں سے ہر ایک نسلی تسلسل میں خاص اپنی صلبی اولاد ایک ایک ہزار چھوڑ کر جاتا ہے پس ان میں اور ان حبشیوں میں مل کر دوزخمیوں کی یہ تعداد ہو جائے گی اور جنت تمہارے لئے اور تم جنت کے لئے ہو جاؤ گے ، یہ حدیث غریب ہے اور سورہ حج کی تفسیر کے شروع میں اس جیسی احادیث کا تذکرہ گذر چکا ہے اس دن کی ہیبت اور دہشت کے مارے آسمان بھی پھٹ جائے گا ، بعض نے ضمیر کا مرجع اللہ کی طرف کیا ہے لیکن یہ قوی نہیں اس لئے کہ یہاں ذکر ہی نہیں ، اس دن کا وعدہ یقینا سچ ہے اور ہو کر ہی رہے گا اس دن کے آنے میں کوئی شک نہیں ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١١] اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان سے قطع تعلق کر لیجیے۔ بلکہ یہ ہے کہ جہاں تک ان کے طعن وتشنیع، طنز و تمسخر اور تلخ کلامی کا تعلق ہے۔ تو ان کی یہ باتیں برداشت کیجئے اور انہیں کچھ جواب نہ دیجئے اور جہاں تک ان کی ہدایت اور خیر خواہی کا تعلق ہے تو ایسا کوئی موقع آپ کو فروگذاشت نہ کرنا چاہیے۔ بلکہ ایسے موقع کی جستجو میں رہنا چاہئے اور ہر وقت ان کا بھلا ہی سوچنا چاہیے۔ اور انہیں اللہ کی طرف دعوت دیتے رہنا چاہیے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

واصبر علی مایقولون…: یعنی ایک اللہ کو اپنا سہارا بنانے، ان کے معبودوں کو یکسر چھوڑنے اور اس عمل کی دعوت و تبلیغ پر یہ آپ کو جو کچھ بھی کہیں آپ صبر کریں، خواہ یہ آپ کو جھوٹا کہیں یا دیوانہ یا کاہن یا شاعر ، یا محمد کے بجائے مذمم کہیں، غرض کچھ بھی کہیں یا جو بھی بہتان باندھیں آپ صبر کریں، انتقا کے چکر میں نہ پڑیں، نہ ا ن کی بدسلوکی کا شکوہ کریں۔ خوبصورت طریقے سے الگ ہوجانے کا مطلب یہ ہے کہ لڑ جھگڑ کر اور بدزبانی کر کے نہیں بلکہ نہایت حسن سلوک، صبر اور شرافت کے ساتھ ان سے کنارہ کش ہوجائیں۔ تیسری یہ کہ ظاہری کنارہ کشی کے باوجود ان کی خیر خواہی و ہمدردی اور ہدایت و رہنمائی میں کسی قسم کی کمی نہ کریں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

(آیت) وَاصْبِرْ عَلٰي مَا يَقُوْلُوْنَ وَاهْجُرْهُمْ هَجْرًا جَمِيْلًا، بقول امام کرخی یہ چھٹا حکم ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیا گیا ہے یعنی لوگوں کی ایذاؤں اور گالیوں پر صبر جمیل، یہ مقامات سلوک میں سب سے اعلیٰ مقام ہے کہ دشمنوں کی جفا و ایذا پر صبر کیا جائے یعنی یہ حضرات جن لوگوں کی خیر خواہی اور ہمدردی میں اپنی ساری قوت و توانائی اور ساری عمر خرچ کرتے ہیں انہیں کی طرف سے اس کی جزاء میں گالیاں، ایذائیں، طرح طرح کے جور و ستم ان کے مقابلے میں آتے ہیں ان پر صبر جمیل کرنا یعنی انتقام کا ارادہ بھی نہ کرنا یہ وہ اعلیٰ مقام ہے جو اصطلاح صوفیہ میں فناء کامل کے بغیر نصیب نہیں ہوتا۔- وَاهْجُرْهُمْ هَجْرًا جَمِيْلًا ہجر بفتح الہاء کے لفظی معنے کسی چیز کو رنج و ملال و بیزاری کیساتھ چھوڑنے کے آتے ہیں۔ معنے یہ ہوئے کہ تکذیب کرنے والے کفار جو کچھ آپ کو ایذا کے کلمات کہتے ہیں آپ اس کا انتقام تو ان سے نہ لیں مگر ان سے تعلقات بھی نہ رکھیں۔ مگر ترک تعلق کے وقت انسان کی طبعی عادت یہ ہے کہ جس سے تعلق چھوڑا جائے اس کا شکوہ شکایت اور اس کو برا بھلا کہتا ہے اس لئے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کفار کے ہجر یعنی ترک تعلق کا جو حکم دیا گیا تو ساتھ ہجراً جمیلا کی قید لگا دی گئی کہ آپ کے منصب عالی اور خلق عظیم کا تقاضا یہ ہے کہ جن کفار سے ترک تعلق کریں زبان بھی ان کو برا کہنے سے محفوظ رکھیں۔- بعض حضرات مفسرین نے فرمایا ہے کہ آیات جہاد و قتال جو بعد میں نازل ہوئیں ان سے اس آیت کا حکم منسوخ ہوگیا، لیکن غور کیا جائے تو منسوخ کہنے کی ضرورت نہیں، کیونکہ آیات مذکورہ میں کفار کی ایذاؤں پر صبر اور ہجر کی تلقین ہے یہ زجر اور سزا و قتال کے منافی نہیں، اس آیت کا حکم ہر وقت ہر حال میں ہی اور قتال و جہاد میں جو زجر و سزا ہے اس کا حکم خاص خاص اوقات میں ہے اور اسلامی قتال و جہاد درحقیقت کوئی اتنقام یا اپنا غصہ نکالنا نہیں، جو صبر اور ہجر جمیل کے منافی ہو بلکہ خلاص حکم خداوندی کی تعمیل ہے جسطرح صبر اور ہجر جمیل عام حالات میں اس کی تعمیل ہے یہاں تک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کفار کی ایذاؤں پر صبر اور ترک انتقام کی تلقین تھی آگے آپ کی تسلی کے لئے ان کفار پر جو عتاب آخرت میں آنے والا ہے اس کا بیان ہے مقصد یہ ہے ان کی چند روزہ چیرہ دستی اور ظلم و جور سے آپ ملول نہ ہوں ان کو تو اللہ تعالیٰ سخت عذاب میں پکڑنے والا ہے ہاں حکمت ربانی کے تقاضے سے کچھ مہلت دے رکھی ہی اس میں آپ جلدی کی فکر نہ فرما دیں

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَاصْبِرْ عَلٰي مَا يَقُوْلُوْنَ وَاہْجُرْہُمْ ہَجْرًا جَمِيْلًا۝ ١٠- صبر - الصَّبْرُ : الإمساک في ضيق، والصَّبْرُ : حبس النّفس علی ما يقتضيه العقل والشرع، أو عمّا يقتضیان حبسها عنه، وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب 35] ، وسمّي الصّوم صبرا لکونه کالنّوع له، وقال عليه السلام :«صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر»- ( ص ب ر ) الصبر - کے معنی ہیں کسی کو تنگی کی حالت میں روک رکھنا ۔ لہذا الصبر کے معنی ہوئے عقل و شریعت دونوں یا ان میں سے کسی ایک کے تقاضا کے مطابق اپنے آپ کو روک رکھنا ۔ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِراتِ [ الأحزاب 35] صبر کرنے والے مرو اور صبر کرنے والی عورتیں اور روزہ کو صبر کہا گیا ہے کیونکہ یہ بھی ضبط نفس کی ایک قسم ہے چناچہ آنحضرت نے فرمایا «صيام شهر الصَّبْرِ وثلاثة أيّام في كلّ شهر يذهب وحر الصّدر»- ماه رمضان اور ہر ماہ میں تین روزے سینہ سے بغض کو نکال ڈالتے ہیں - هجر - الهَجْرُ والهِجْرَان : مفارقة الإنسان غيره، إمّا بالبدن، أو باللّسان، أو بالقلب . قال تعالی:- وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضاجِعِ [ النساء 34] كناية عن عدم قربهنّ ، وقوله تعالی: إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هذَا الْقُرْآنَ مَهْجُوراً [ الفرقان 30] فهذا هَجْر بالقلب، أو بالقلب واللّسان . وقوله :- وَاهْجُرْهُمْ هَجْراً جَمِيلًا [ المزمل 10] يحتمل الثلاثة، ومدعوّ إلى أن يتحرّى أيّ الثلاثة إن أمكنه مع تحرّي المجاملة، وکذا قوله تعالی: وَاهْجُرْنِي مَلِيًّا [ مریم 46] ، وقوله تعالی:- وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ [ المدثر 5] ، فحثّ علی المفارقة بالوجوه كلّها . والمُهاجرَةُ في الأصل :- مصارمة الغیر ومتارکته، من قوله عزّ وجلّ : وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا[ الأنفال 74] ، وقوله : لِلْفُقَراءِ الْمُهاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيارِهِمْ وَأَمْوالِهِمْ [ الحشر 8] ، وقوله :- وَمَنْ يَخْرُجْ مِنْ بَيْتِهِ مُهاجِراً إِلَى اللَّهِ [ النساء 100] ، فَلا تَتَّخِذُوا مِنْهُمْ أَوْلِياءَ حَتَّى يُهاجِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ النساء 89] فالظاهر منه الخروج من دار الکفر إلى دار الإيمان کمن هاجر من مكّة إلى المدینة، وقیل : مقتضی ذلك هجران الشّهوات والأخلاق الذّميمة والخطایا وترکها ورفضها، وقوله : إِنِّي مُهاجِرٌ إِلى رَبِّي [ العنکبوت 26] أي : تارک لقومي وذاهب إليه . وقوله : أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّهِ واسِعَةً فَتُهاجِرُوا فِيها [ النساء 97] ، وکذا المجاهدة تقتضي مع العدی مجاهدة النّفس کما روي في الخبر : «رجعتم من الجهاد الأصغر إلى الجهاد الأكبر» وهو مجاهدة النّفس . وروي :- (هاجروا ولا تهجّروا) أي : کونوا من المهاجرین، ولا تتشبّهوا بهم في القول دون الفعل، والهُجْرُ : الکلام القبیح المهجور لقبحه .- وفي الحدیث : «ولا تقولوا هُجْراً» وأَهْجَرَ فلان : إذا أتى بهجر من الکلام عن قصد،- ( ھ ج ر ) الھجر - والھجران کے معنی ایک انسان کے دوسرے سے جدا ہونے کے ہیں عام اس سے کہ یہ جدائی بدنی ہو یا زبان سے ہو یا دل سے چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضاجِعِ [ النساء 34] پھر ان کے ساتھ سونا ترک کر دو ۔ میں مفا رقت بدنی مراد ہے اور کنایتا ان سے مجامعت ترک کردینے کا حکم دیا ہے اور آیت : ۔ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هذَا الْقُرْآنَ مَهْجُوراً [ الفرقان 30] کہ میری قوم نے اس قران کو چھوڑ رکھا تھا ۔ میں دل یا دل اور زبان دونوں کے ذریعہ جدا ہونا مراد ہے یعنی نہ تو انہوں نے اس کی تلاوت کی اور نہ ہی اس کی تعلیمات کی طرف دھیان دیا اور آیت : ۔ وَاهْجُرْهُمْ هَجْراً جَمِيلًا [ المزمل 10] اور وضع داری کے ساتھ ان سے الگ تھلگ رہو ۔ میں تینوں طرح الگ رہنے کا حکم دیا گیا ہے لیکن ساتھ ہی جملا کی قید لگا کر اس طرف اشارہ کردیا ہے کہ حسن سلوک اور مجاملت کیس صورت میں بھی ترک نہ ہونے پائے ۔ اس طرح آیت وَاهْجُرْنِي مَلِيًّا [ مریم 46] اور تو ہمیشہ کے لئے مجھ سے دور ہوجا ۔ میں بھی ترک بوجوہ ثلا ثہ مراد ہے اور آیت : ۔ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ [ المدثر 5] اور ناپاکی سے دور رہو ۔ میں بھی ہر لحاظ سے رجز کو ترک کردینے کی ترغیب ہے ۔ المھاجر رۃ کے اصل معنی تو ایک دوسرے سے کٹ جانے اور چھوڑ دینے کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا[ الأنفال 74] خدا کے لئے وطن چھوڑ گئے اور ۃ کفار سے ) جنگ کرتے رہے ۔ اور آیات قرآنیہ : ۔ لِلْفُقَراءِ الْمُهاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيارِهِمْ وَأَمْوالِهِمْ [ الحشر 8] فے کے مال میں محتاج مہاجرین کا ( بھی ) حق ہے ۔ جو کافروں کے ظلم سے ) اپنے گھر اور مال سے بید خل کردیئے گئے ۔ وَمَنْ يَخْرُجْ مِنْ بَيْتِهِ مُهاجِراً إِلَى اللَّهِ [ النساء 100] اور جو شخص خدا اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کر کے گھر سے نکل جائے ۔ فَلا تَتَّخِذُوا مِنْهُمْ أَوْلِياءَ حَتَّى يُهاجِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ النساء 89] تو جب تک یہ لوگ خدا کی راہ میں ( یعنی خدا کے لئے ) ہجرت نہ کر آئیں ان میں سے کسی کو بھی اپنا دوست نہ بنانا ۔ میں مہاجرت کے ظاہر معنی تو دار الکفر سے نکل کر وادلاسلام کی طرف چلے آنے کے ہیں جیسا کہ صحابہ کرام نے مکہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی تھی لیکن بعض نے کہا ہے کہ ہجرت کا حقیقی اقتضاء یہ ہے کہ انسان شہوات نفسانی اخلاق ذمیمہ اور دیگر گناہوں کو کلیۃ تر ک کردے اور آیت : ۔ إِنِّي مُهاجِرٌ إِلى رَبِّي [ العنکبوت 26] اور ابراہیم نے کہا کہ میں تو دیس چھوڑ کر اپنے پروردگاع کی طرف ( جہاں کہیں اس کو منظور ہوگا نکل جاؤ نگا ۔ کے معنی یہ ہیں کہ میں اپنی قوم کو خیر باد کہ کر اللہ تعالیٰ کی طرف چلا جاؤں گا ۔ اور فرمایا : ۔ أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّهِ واسِعَةً فَتُهاجِرُوا فِيها [ النساء 97] کیا اللہ تعالیٰ کی ( اتنی لمبی چوڑی ) زمین اس قدر گنجائش نہیں رکھتی تھی کہ تم اس میں کسی طرف کو ہجرت کر کے چلے جاتے ۔ ہاں جس طرح ظاہری ہجرت کا قتضا یہ ہے کہ انسان خواہشات نفسانی کو خیر باد کہہ دے اسی طرح دشمنوں کے ساتھ جہاد کرنے میں بھی مجاہدۃ بالنفس کے معنی پائے جاتے ہیں چناچہ ایک حدیث میں مروی ہے آنحضرت نے ایک جہاد سے واپسی کے موقع پر صحابہ کرام سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا : ۔ کہ تم جہاد اصغر سے جہاد اکبر کیطرف لوٹ رہے ہو یعنی دشمن کے ساتھ جہاد کے بعد اب نفس کے ساتھ جہاد کرنا ہے، وفي الحدیث : «ولا تقولوا هُجْراً»- جمیل - الجَمَال : الحسن الکثير، وذلک ضربان :- أحدهما : جمال يخصّ الإنسان في نفسه أو بدنه أو فعله .- والثاني : ما يوصل منه إلى غيره . وعلی هذا الوجه ما روي عنه صلّى اللہ عليه وسلم : «إنّ اللہ جمیل يحبّ الجمال» «2» تنبيها أنّه منه تفیض الخیرات الکثيرة، فيحبّ من يختص بذلک . وقال تعالی: وَلَكُمْ فِيها جَمالٌ حِينَ تُرِيحُونَ [ النحل 6] ، ويقال : جَمِيلٌ وجَمَال علی التکثير . قال اللہ تعالی: فَصَبْرٌ جَمِيلٌ [يوسف 83]- ( ج م ل ) الجمال - کے معنی حسن کثیر کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے ۔- (1) وہ خوبی جو خاص طور پر بدن یا نفس یا عمل میں پائی جاتی ہے ۔ (2) وہ خوبی جو دوسرے تک پہنچنے کا ذریعہ بنتی ہے اسی معنی میں مروی ہے کہ آنحضرت نے فرمایا (66) ان اللہ جمیل يحب الجمال ۔ کہ اللہ جمیل ہے اور جمال کو محبوب رکھتا ہے ۔ یعنی اللہ تعالیٰ سے خیرات کثیرہ کا فیضان ہوتا ہے لہذا جو اس صفت کے ساتھ متصف ہوگا ۔ وہی اللہ تعالیٰ کو محبوب ہوگا ۔ اور قرآن میں ہے :۔ - وَلَكُمْ فِيها جَمالٌ حِينَ تُرِيحُونَ [ النحل 6] اور جب شام کو انہیں جنگل سے لاتے ہو ۔۔ تو ان سے تمہاری عزت و شان ہے ۔ اور جمیل و جمال وجمال مبالغہ کے صیغے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔- فَصَبْرٌ جَمِيلٌ [يوسف 83] اچھا صلہ ( کہ وہی ) خوب ( ہے )

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١٠۔ ١١) اور کافروں کی سب و شتم اور جھٹلانے پر صبر کرو اور ان سے بغیر جھگڑے کے خوبی کے ساتھ علیحدہ ہوجاؤ اور مجھے اور اس قرآن حکیم کو جھٹلانے والوں کو مال و دولت میں رہنے والوں کو چھوڑ اور ان کو غزوہ بدر تک اور مہلت دو ۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١٠ وَاصْبِرْ عَلٰی مَا یَقُوْلُوْنَ ” اور جو کچھ یہ لوگ کہہ رہے ہیں اس پر صبر کیجیے “- وَاہْجُرْہُمْ ہَجْرًا جَمِیْلًا ۔ ” اور ان کو چھوڑ دیجیے بڑی خوبصورتی سے کنارہ کشی کرتے ہوئے ۔ “- یہ لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے شاعر ‘ جادوگر اور مجنون جیسے نام رکھتے ہیں۔ یہ صورت حال آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے بلاشبہ نہایت تکلیف دہ ہے ‘ لیکن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان لوگوں کی باتوں پر صبر کریں اور خوبصورت انداز میں ان کو چھوڑ کر الگ ہوجائیں۔ سورة الفرقان میں اللہ کے نیک بندوں کی ایک صفت یہ بھی بیان کی گئی ہے : وَاِذَا خَاطَبَہُمُ الْجٰہِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا ۔ کہ جب جاہل لوگ ان سے مخاطب ہوتے ہیں تو وہ ان کو سلام کر کے گزر جاتے ہیں۔ - دعوت و تبلیغ کے مشن کو جاری رکھنے کے لیے اس حکمت عملی کو اپنانا بہت ضروری ہے۔ ظاہر ہے انسان کے حالات ہمیشہ ایک سے نہیں رہتے ۔ ہوسکتا ہے آج جن لوگوں کو آپ کی دعوت سے چڑ ہے کل انہیں آپ کی یہی باتیں اچھی لگنے لگیں۔ اس لیے لوگوں سے دوبارہ بات کرنے کا راستہ کھلا رکھنا ضروری ہے۔ یہ آیات نبوت کے بالکل ابتدائی دور میں نازل ہوئی تھیں ۔ اگلے بارہ سال کے دوران مکہ کے حالات نے ابھی کئی نشیب و فراز دیکھنے تھے ۔ اس لیے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہدایت دی جا رہی ہے کہ اہل مکہ کی اوچھی حرکتوں کی وجہ سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کو نظرانداز تو کریں ‘ لیکن تعلقات میں اس قدر تلخی نہ آنے دیں کہ دوبارہ انہیں دعوت دینا ممکن نہ رہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْمُزَّمِّل حاشیہ نمبر :11 الگ ہو جاؤ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان سے مقاطعہ کر کے اپنی تبلیغ بند کر دو ، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے منہ نہ لگو ، ان کی بیہودگیوں کو بالکل نظر انداز کر دو ، اور انکی کسی بد تمیزی کا جواب نہ دو ۔ پھر یہ احتراز بھی کسی غم اور غصے اور جھنجھلاہٹ کے ساتھ نہ ہو ، بلکہ اس طرح کا احتراز ہو جس طرح ایک شریف آدمی کسی بازاری آدمی کی گالی سن کر اسے نظر انداز کر دیتا ہے اور دل پر میل تک نہیں آنے دیتا ۔ اس سے یہ غلط فہمی نہ ہونی چاہیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طرز عمل کچھ اس سے مختلف تھا اس لیے اللہ تعالی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ہدایت فرمائی ۔ اصل میں تو آپ پہلے ہی سے اسی طریقے پر عمل فرما رہے تھے ، لیکن قرآن میں یہ ہدایت اس لیے دی گئی کہ کفار کو بتا دیا جائے کہ تم جو حرکتیں کر رہے ہو ان کا جواب نہ دینے کی وجہ کمزوری نہیں ہے بلکہ اللہ نے ایسی باتوں کے جواب میں اپنے رسول کو یہی شریفانہ طریقہ اختیار کرنے کی تعلیم دی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

7: مکی زندگی میں ہمیشہ حکم یہی دیا گیا ہے کہ کافروں کی تکلیف دہ باتوں پر صبرو کرو، اور ان سے لڑائی ٹھاننے کے بجائے خوبصورتی سے علیحدگی اِختیار کرلو۔