Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[١٢] مترفین کا کردار :۔ معلوم ہوا کہ انبیاء کی دعوت کو جھٹلانے والے عموماً یہی کھاتے پیتے اور خوشحال لوگ ہی ہوا کرتے ہیں۔ انہیں ہی قرآن نے بعض دوسرے مقامات پر مترفین کے لفظ سے ذکر کیا ہے ان لوگوں کا چونکہ معاشرہ میں اپنا ایک حلقہ اثر اور مخصوص مقام ہوتا ہے اور نبی کی دعوت قبول کرنے سے انہیں یہ مقام چھن جانے کا خطرہ ہوتا ہے لہذا یہی لوگ انبیاء کی دعوت کی مخالفت میں سب سے پیش پیش ہوتے ہیں۔ یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایسے لوگوں کی مخالفت کی پروا نہ کیجئے۔ ان سے میں نمٹ لوں گا۔ مگر ابھی کچھ وقت انہیں مخالفت کرنے کا موقع دیا جائے گا جس میں کئی طرح کی مصلحتیں پوشیدہ ہیں۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

وذرنی والمکذبین…: یعنی جب تم نے مجھے اپنا وکیل بنا لیا اور اپنا سب کچھ میرے سپرد کردیا تو ان خوش حال جھٹلانے والوں کا معاملہ بھی مجھ پر چھوڑ دو جن کی نعمت و خوش حالی ایمان لانے کے بجائے ان کے انکار کا باعث بن گئی ہے، میں خود ان سے نمٹ لوں گا، آپ انہیں تھوڑی مہلت دیں۔ تھوڑی مہلت سے مراد دنیا میں تھوڑی مہلت ہے، جیسا کہ کفار مکہ کو جھٹلانے کی سزا جلد ہی میدان بدر میں مل گئی۔ اس کے علاوہ اگر زیادہ سے زیادہ مہلت بھی ہو تو دنیا میں زندہ رہنے تک ہے جو یقینا بالکل کم ہے، پھر اس کے بعد میں جانوں اور یہ جانیں، آپ ایک طرف ہوجائیں۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

یہی مفہوم ہے بعد کی آیت ذَرْنِيْ وَالْمُكَذِّبِيْنَ اُولِي النَّعْمَةِ وَمَهِّلْهُمْ قَلِيْلًا کا اس میں کفار مکذبین کو اولی النعمہ فرمایا ہے نعمت بفتح النون کے معنی تنعم یعنی عیش و عشرت اور مال واولاد کی بہتات کے ہیں اس میں اشارہ ہے کہ دنیا کے مال و اولاد اور ناز و نعمت میں مست ہوجانا اسی شخص سے ہوسکتا ہے جو آخرت کی تکذیب کرنے والا ہو۔ مومن کو بھ یہ چیزیں بسا اوقات نصیب ہوتی ہیں مگر وہ ان میں ایسا مست نہیں ہوتا اس لئے دنیا کے ہر عیش و راحت کے وقت بھی اس کا قلب فکر آخرت سے خالی نہیں ہوتا۔ خالص عیش و عشرت اور بالکل بےفکری اس دنیا میں کافروں اور آخرت کی تکذیب کرنے والوں ہی کا حصہ ہوسکتا ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

وَذَرْنِيْ وَالْمُكَذِّبِيْنَ اُولِي النَّعْمَۃِ وَمَہِلْہُمْ قَلِيْلًا۝ ١١- وذر - [يقال : فلان يَذَرُ الشیءَ. أي : يقذفه لقلّة اعتداده به ] ، ولم يستعمل ماضيه . قال تعالی:- قالُوا أَجِئْتَنا لِنَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ وَنَذَرَ ما کانَ يَعْبُدُ آباؤُنا[ الأعراف 70] ، وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] ، فَذَرْهُمْ وَما يَفْتَرُونَ [ الأنعام 112] ، وَذَرُوا ما بَقِيَ مِنَ الرِّبا[ البقرة 278] إلى أمثاله وتخصیصه في قوله : وَيَذَرُونَ أَزْواجاً [ البقرة 234] ، ولم يقل : يترکون ويخلّفون، فإنه يذكر فيما بعد هذا الکتاب إن شاء اللہ . [ والوَذَرَةُ : قطعة من اللّحم، وتسمیتها بذلک لقلة الاعتداد بها نحو قولهم فيما لا يعتدّ به : هو لحم علی وضم ] «1» .- ( و ذ ر ) یذر الشئی کے معنی کسی چیز کو قلت اعتداد کی وجہ سے پھینک دینے کے ہیں ( پھر صرف چھوڑ دینا کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ اس کا فعل ماضی استعمال نہیں ہوتا چناچہ فرمایا : ۔ قالُوا أَجِئْتَنا لِنَعْبُدَ اللَّهَ وَحْدَهُ وَنَذَرَ ما کانَ يَعْبُدُ آباؤُنا[ الأعراف 70] وہ کہنے لگے کیا تم ہمارے پاس اس لئے آئے ہو کہ ہم اکیلے خدا ہی کی عبادت کریں اور جن اور جن کو ہمارے باپ دادا پوجتے چلے آئے ہیں ان کو چھوڑ دیں ۔ ؟ ، وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف 127] اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ فَذَرْهُمْ وَما يَفْتَرُونَ [ الأنعام 112] تو ان کو چھوڑ دو کہ وہ جانیں اور انکا جھوٹ ۔ وَذَرُوا ما بَقِيَ مِنَ الرِّبا[ البقرة 278] تو جتنا سو د باقی رہ گیا ہے اس کو چھوڑ دو ۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سی آیات ہیں جن میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے اور آیت : ۔ وَيَذَرُونَ أَزْواجاً [ البقرة 234] اور عورتیں چھوڑ جائیں ۔ میں یترکون یا یخلفون کی بجائے یذرون کا صیغہ اختیار میں جو خوبی ہے وہ اس کے بعد دوسری کتاب میں بیان کریں گے ۔ الو ذرۃ : گوشت کی چھوٹی سی بوٹی کو کہتے ہیں اور قلت اعتناء کے سبب اسے اس نام سے پکارتے ہیں جیسا کہ حقیر شخص کے متعلق ھو لحم علیٰ وضمی ( یعنی وہ ذلیل ہے ) کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔- كذب - وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی:- إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] ،- ( ک ذ ب ) الکذب - قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے - نعم - النِّعْمَةُ : الحالةُ الحسنةُ ، وبِنَاء النِّعْمَة بِناء الحالةِ التي يكون عليها الإنسان کالجِلْسَة والرِّكْبَة، والنَّعْمَةُ : التَّنَعُّمُ ، وبِنَاؤُها بِنَاءُ المَرَّة من الفِعْلِ کا لضَّرْبَة والشَّتْمَة، والنِّعْمَةُ للجِنْسِ تقال للقلیلِ والکثيرِ. قال تعالی: وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل 18] - ( ن ع م ) النعمۃ - اچھی حالت کو کہتے ہیں ۔ اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو کسی حالت کے معنی کو ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے جیسے : ۔ جلسۃ ورکبۃ وغیرہ ذالک ۔ اور نعمۃ کے معنی تنعم یعنی آرام و آسائش کے ہیں اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو مرۃ ہے جو مرۃ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے : ۔ ضر بۃ وشتمۃ اور نعمۃ کا لفظ اسم جنس ہے جو قلیل وکثیر کیلئے استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل 18] اور اگر خدا کے احسان گننے لگو تو شمار نہ کرسکو ۔- مهل - المَهْل : التُّؤَدَةُ والسُّكونُ ، يقال : مَهَلَ في فعله، وعمل في مُهْلة، ويقال : مَهْلًا . نحو : رفقا، وقد مَهَّلْتُهُ : إذا قُلْتَ له مَهْلًا، وأَمْهَلْتُهُ : رَفَقْتُ به، قال : فَمَهِّلِ الْكافِرِينَ أَمْهِلْهُمْ رُوَيْداً- [ الطارق 17] والمُهْلُ : دُرْدِيُّ الزَّيْت، قال : كَالْمُهْلِ يَغْلِي فِي الْبُطُونِ [ الدخان 45] .- ( م ھ ل ) المھل - کے معنی حلم و سکون کے ہیں ۔ اور مھل فی فعلہ کے معنی ہیں اس نے سکون سے کام کیا اور مھلا کے معنی رفقا کے ہیں یعنی جلدی مت کرو ۔ مھلۃ کسی کو مھلا کہنا اور امھلتہ کے معنی کسی کے ساتھ نرمی سے پیش آنے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَمَهِّلِ الْكافِرِينَ أَمْهِلْهُمْ رُوَيْداً [ الطارق 17] تو تم کافروں کو مہلت دو پس روزی مہلت دو المھل تلچھت کو بھی کہتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ كَالْمُهْلِ يَغْلِي فِي الْبُطُونِ [ الدخان 45] جیسے پگھلا ہوا تانبا پیٹوں میں اس طرح ) کھولے گا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١ ١ وَذَرْنِیْ وَالْمُکَذِّبِیْنَ اُولِی النَّعْمَۃِ ” آپ مجھے اور ان جھٹلانے والوں کو چھوڑ دیں ‘ جو بڑی نعمتوں سے نوازے گئے ہیں “- ان کو مال و اولاد ‘ بڑی بڑی جائیدادیں اور طرح طرح کی دوسری نعمتیں بھی میں نے ہی عطا کی ہیں اور اب ان کی سرکشی کا مزہ بھی انہیں میں ہی چکھائوں گا ‘ لہٰذا ان کا معاملہ آپ مجھ پر چھوڑ دیں۔ نوٹ کیجیے ابتدائی دور کی ان سورتوں میں ذَرْنِیْ اور ذَرْھُمْ کے صیغے بار بار آرہے ہیں۔- وَمَہِّلْہُمْ قَلِیْلًا ۔ ” اور ابھی آپ انہیں تھوڑی سی مہلت دیں۔ “- قبل ازیں ہم سورة مریم میں اس سے ملتا جلتا یہ حکم بھی پڑھ چکے ہیں : فَلَا تَعْجَلْ عَلَیْہِمْط اِنَّمَا نَعُدُّ لَہُمْ عَدًّا ۔ ” تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے خلاف (فیصلے کے لیے ) جلدی نہ کیجیے۔ ہم ان کی پوری پوری گنتی کر رہے ہیں “۔ سورة الطارق کی اس آیت میں بھی بالکل یہی مضمون بیان ہوا ہے : فَمَہِّلِ الْکٰفِرِیْنَ اَمْہِلْہُمْ رُوَیْدًا ۔ ” تو آپ کافروں کو مہلت دیں ‘ بس تھوڑی سی مزید مہلت۔ “

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْمُزَّمِّل حاشیہ نمبر :12 ان الفاظ میں صاف اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ مکہ میں دراصل جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلا رہے تھے اور طرح طرح کے فریب دے کر اور تعصبات ابھار کر عوام کو آپ کی مخالفت پر آمادہ کر رہے تھے وہ قوم کے کھاتے پیتے ، پیٹ بھرے ، خوشحال لوگ تھے ، کیونکہ انہی کے مفاد پر اسلام کی اس دعوت اصلاح کی زد پڑ رہی تھی ۔ قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ یہ معاملہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے ساتھ خاص نہ تھا بلکہ ہمیشہ یہی گروہ اصلاح کی راہ روکنے کے لیے سنگ گراں بن کر کھڑا ہوتا رہا ہے ۔ مثال کے طور پر ملاحظہ ہو الاعراف ، آیات 60 ۔ 66 ۔ 75 ۔ 88 ۔ المومنون ، 33 ۔ سبا ، 34 ۔ 35 ۔ الزخرف ، 23 ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani