اے انسان اپنے فرائض پہچان اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ اس نے انسان کو پیدا کیا حالانکہ اس سے پہلے ہوا پانی حقارت اور ضعف کی وجہ سے ایسی چیز نہ تھا کہ ذکر کیا جائے ، اسے مرد و عورت کے ملے جلے پانی سے پیدا کیا اور عجب عجب تبدیلیوں کے بعد یہ موجودہ شکل و صورت اور ہئیت پر آیا ، اسے ہم آزما رہے ہیں ، جیسے اور جگہ ہے آیت ( لِيَبْلُوَكُمْ اَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا ۭوَهُوَ الْعَزِيْزُ الْغَفُوْرُ Ąۙ ) 67- الملك:2 ) تاکہ وہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے اچھے عمل کرنے والا کون ہے؟ پس اس نے تمہیں کان اور آنکھیں عطا فرمائیں تاکہ اطاعت اور معصیت میں تمیز کر سکو ۔ ہم نے اسے راہ دکھا دی خوب واضح اور صاف کر کے اپنا سیدھا راستہ اس پر کھول دیا ، جیسے اور جگہ ہے آیت ( وَاَمَّا ثَمُوْدُ فَهَدَيْنٰهُمْ فَاسْتَــحَبُّوا الْعَمٰى عَلَي الْهُدٰى فَاَخَذَتْهُمْ صٰعِقَةُ الْعَذَابِ الْهُوْنِ بِمَا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ 17ۚ ) 41- فصلت:17 ) یعنی ثمودیوں کو ہم نے ہدایت کی لیکن انہوں نے اندھے پن کو ہدایت پر ترجیح دی اور جگہ ہے آیت ( وَهَدَيْنٰهُ النَّجْدَيْنِ 10ۚ ) 90- البلد:10 ) ہم نے انسان کو دونوں راہیں دکھا دیں ، یعنی بھلائی برائی کی ، اس آیت کی تفسیر میں مجاہد ابو صالح ضحاک اور سدی سے مروی ہے کہ اسے ہم نے راہ دکھائی یعنی ماں کے پیٹ سے باہر آنے کی ، لیکن یہ قول غریب ہے اور صحیح قول پہلا ہی ہے اور جمہور سے یہی منقول ہے شاکراً اور کفوراً کا نصب حال کی وجہ سے ذوالحال لا کی ضمیر ہے جو آیت ( اِنَّا هَدَيْنٰهُ السَّبِيْلَ اِمَّا شَاكِرًا وَّاِمَّا كَفُوْرًا Ǽ ) 76- الإنسان:3 ) میں ہے ، یعنی وہ اس حالت میں یا تو شقی ہے یا سعید ہے ، جیسے صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ ہر شخص صبح کے وقت اپنے نفس کی خریدوفروخت کرتا ہے یا تو اسے ہلاک کر دیتا ہے یا آزاد کرا لیتا ہے ، مسند احمد میں ہے کہ حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے آپ نے فرمایا اللہ تجھے بیوقوفوں کی سرداری سے بچائے حضرت کعب نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ کیا ہے؟ فرمایا وہ میرے بعد کے سردار ہوں گے جو میری سنتوں پر نہ عمل کریں گے نہ میرے طریقوں پر چلیں گے پس جو لوگ ان کی جھوٹ کی تصدیق کریں اور ان کے ظلم کی امداد کریں وہ نہ میرے ہیں اور نہ میں ان کا ہوں یاد رکھو وہ میرے حوض کوثر پر بھی نہیں آ سکتے اور جو ان کے جھوٹ کو سچا نہ کرے اور ان کے ظلموں میں ان کا مددگار نہ بنے وہ میرا ہے اور میں اس کا ہوں یہ لوگ میرے حوض کوثر پر مجھے ملیں گے اے کعب روزہ ڈھال ہے اور صدقہ خطاؤں کو مٹا دیتا ہے اور نماز قرب اللہ کا سبب ہے یا فرمایا کہ دلیل نجات ہے ۔ اے کعب وہ گوشت پوست جنت میں نہیں جا سکتا وہ حرام سے پلا ہو وہ تو جہنم میں ہی جانے کے قابل ہے ، اے کعب لوگ ہر صبح اپنے نفس کی خرید و فروخت کرتے ہیں کوئی تو اسے آزاد کرا لیتا ہے اور کوئی ہلاک کر گذرتا ہے ، سورہ روم کی آیت ( فِطْرَتَ اللّٰهِ الَّتِيْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا ۭ لَا تَبْدِيْلَ لِخَلْقِ اللّٰهِ ۭ ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْـقَيِّمُ ڎ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ 30ڎ ) 30- الروم:30 ) کی تفسیر میں حضرت جابر کی روایت سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بھی گذر چکا ہے کہ ہر بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے یہاں تک کہ زبان چلنے لگتی ہے پھر یا تو شکر گذار بنتا ہے یا ناشکرا ، مسند احمد کی اور حدیث میں ہے کہ جو نکلنے والا نکلتا ہے اس کے دروازے پر دو جھنڈے ہوتے ہیں ایک فرشتے کے ہاتھ میں دوسرا شیطان کے ہاتھ میں پس اگر وہ اس کام کے لئے نکلا جو اللہ کی مرضی کا ہے تو فرشتہ اپنا جھنڈا لئے ہوئے اس کے ساتھ ہو لیتا ہے اور یہ واپسی تک فرشتے کے جھنڈے تلے ہی رہتا ہے اور اگر اللہ کی ناراضگی کے کام کے لئے نکلا ہے تو شیطان اپنا جھنڈا لگائے اس کے ساتھ ہو لیتا ہے اور واپسی تک یہ شیطانی جھنڈے تلے رہتا ہے ۔
1۔ 1 یعنی انسان اول حضرت آدم ہیں اور حِیْن (ایک وقت) سے مراد، روح پھونکے جانے سے پہلے کا زمانہ ہے، جو چالیس سال ہے اور اکثر مفسرین کے نزدیک الانسان کا لفظ بطور جنس کے استعمال ہوا ہے اور حِیْن، سے مراد حمل یعنی رحم مادر کی مدت ہے جس میں وہ قابل ذکر چیز نہیں ہوتا۔ اس میں گویا انسان کو متنبہ کیا گیا ہے کہ وہ ایک پیکر حسن و جمال کی صورت میں جب باہر آتا ہے تو رب کے سامنے اکڑتا اور اتراتا ہے، اسے اپنی حیثیت یاد رکھنی چاہیے کہ میں تو وہی ہوں جب میں عالم نیست میں تھا، تو مجھے کون جانتا تھا۔
[١] دہر کا لغوی مفہوم دہر اللہ کی ذات ہے :۔ دھر بمعنی زمانہ کائنات، مدت عالم، جب سے کائنات شروع ہوئی اس وقت سے لے کر اس کے اختتام تک کا وقت (مفردات) اور ابن الفارس کہتے ہیں کہ دھر میں غلبہ اور قہر کا مفہوم پایا جاتا ہے اور دہر کا یہ عالم اس لیے ہے کہ وہ ہر چیز پر اضطراراً گزرتا اور اس پر غالب آتا ہے۔ (مقائیس اللغۃ) اور دہر کا تعلق مشیئت الٰہی سے ہے۔ چناچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : لا تسبوا الدھر فان اللہ ھوالدھر یعنی دہر کو برا بھلا نہ کہہ کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی دہر ہے۔ (بخاری۔ کتاب الادب۔ باب لا تسبوا الدھر) اور دہری وہ شخص ہے جو کائنات کی تخلیق کا قائل نہیں بلکہ اسے ابدالاباد سے شمار کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اس کائنات کا کوئی صانع نہیں بس یہ آپ سے آپ اتفاقات کے نتیجہ میں وجود میں آگئی تھی۔ اس آیت میں یہ بتایا جارہا ہے کہ انسان پر ایسا وقت بھی گزر چکا ہے جبکہ بنی نوع انسان کی ابھی تخلیق ہی نہ ہوئی تھی۔ اور اس کا نام و نشان تک صفحہ ہستی پر موجود نہ تھا۔ پھر کتنے ہی دور اور طور طے کرنے کے بعد یہ نطفہ کی شکل میں آیا۔ اور اس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جب انسان نطفہ کی حالت میں تھا تو اس کی موجودہ شرافت و کرامت کے مقابلہ میں اس کی وہ حالت اس قابل ہی نہیں تھی کہ اسے زبان پر لایا جائے۔
(١) ھل اتی علی الانسان…:” ھل “ (کیا) پوچھنے کے لئے آتا ہے۔ یہ پوچھنا کبھی تو کوئی خبر معلوم کرنے کے لئے ہوتا ہے، جیسے ” ھل فی الدار زید “” کیا گھر میں زید ہے ؟ “ اللہ تعالیٰ کو اس کی ضرورت ہی نہیں۔ کبھی یہ سوال کسی بات کی نفی کے لئے ہوتا ہے، جیسے :” وھل یستطیع ذلک احد “” بھلا یہ کام کوئی کرسکتا ہے ؟ “ یعنی کوئی نہیں کرسکتا۔ عربی میں سے نفی کے علاوہ حجد بھی کہتے ہیں۔ بعض اوقات یہ پوچھنا بات منوانے کیلئے ہوتا ہے، اسے عربی میں تقریر کہتے ہیں، جیسے آپ نے کسی کو کچھ دیا ہو یا اس کی عزت کی ہو تو اسے کہیں ” ھل اعطیتک “ ” کیا میں نے تمہیں دیا ؟ “ اور ” ھل اکرمتک “ ” کیا میں نے تمہاری عزت کی ؟ “ اس وقت یہ ” ھل ‘ بمعنی ” قد “ ہوتا ہے، یقینی یقینا میں نے تمہیں دیا اور یقینا میں نے تمہاری عزت کی۔ اس آیت میں ” ھل “ اسی آخری معنی کے لئے آیا ہے۔ بہت سے مفسرین نے اس کا ترجمہ ” یقینا “ یا ” تحقیق “ کیا ہے، لیکن ” ھل “ کا معنی اپنی اصل پر (کیا) ہو تب بھی مراد یہی ہے کہ یقینا اس پر ایسا وقت گزرا ہے۔- (٢) بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ انہیں مرنے کے بعد دوبارہ زندہ نہیں کیا جائے گا، ان کے خیال میں یہ ممکن ہی نہیں کہ انسان کے خاک ہوجانے کے بعد اسے دوبارہ پیدا کیا جاسکے۔ یہاں ایسے لوگوں کو قائل کرنے کے لئے سوال ہے کہ کیا انسان پر زمانے میں سے کوئی ایسا وقت گزرا ہے جب وہ کوئی ایسی چیز ہی نہ تھا جس کا ذکر ہوتا ہو ؟ صاف ظاہر ہے کہ ان کاج واب یہ ہوگا کہ یقیناً انسان پر ایسا وقت گزرا ہے۔ تو جب اللہ تعالیٰ نے اسے اس وقت بنا لیاجب یہ کچھ بھی نہ تھا بلکہ کہیں اس کا ذکر بھی نہ تھا تو پیدا کرنے کے بعد دوبارہ وہ کیوں نہیں بنا سکتا ؟ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :(ویقول الانسانء اذا مامت لسوف اخرج حیاً اولایذکر الانسان انا خل قنہ من قبل ولم یک شیئاً ) (مریم : ٦٦، ٦٨)” اور انسان کہتا ہے کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا مجھے زندہ کر کے (قبر سے ) نکالا جائے گا ؟ کیا اسے یاد نہیں کہ ہم نے اس سے پہلے اسے پیدا کیا جب وہ کوئی چیز ہی نہ تھا۔ “- (٣)” الانسان “ سے مراد یہاں صرف آدم (علیہ السلام) نہیں بلکہ نسل انسانی ہے، کیونکہ آیت میں انسان کے نطفہ یدا ہونے کا ذکر ہے۔
خلاصہ تفسیر - بیشک انسان پر زمانے میں ایک ایسا وقت بھی آچکا ہے جس میں وہ کوئی چیز قابل تذکرہ نہ تھا (یعنی انسان نہ تھا بلکہ نطفہ تھا اور اس سے قبل غذا اور اس سے پہلے عناصر کا جز تھا) ہم نے اس کو مخلوط نطفہ سے پیدا کیا (یعنی مرد اور عورت دونوں کے نطفے سے کیونکہ عورت کی منی بھی اندر ہی اندر عورت کے رحم میں گرتی ہے۔ پھر کبھی فم رحم سے خارج ہو کر ضائع ہوجاتی ہے اور کبھی اندر رہ جاتی ہے اور مخلوط کے معنی یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ وہ اجزاء مختلفہ سے مرتکب ہے چناچہ ترکیب منی کی اجزاء مختلفہ سے ظاہر ہے غرض ہم نے اس کو ایسے نطفہ سے پیدا کیا) اس طور پر کہ ہم اس کو مکلف بنائیں تو (اسی واسطے) ہم نے اس کو سنتا دیکھتا (سمجھتا) بنایا (اور چونکہ محاورہ میں سمیع وبصیرا استعمالاً مخصوص ہے عاقل کے ساتھ اسلئے عقل دینے کی جو کہ مدار ہے مکلف ہونے کا تصریح نہیں فرمائی گئی مگر مراد وہ بھی ہے۔ مطلب یہ کہ ہم نے ایسی ہیئات وصفات کے ساتھ پیدا کیا کہ اس میں احکام شرعیہ کا مکلف بننے کی قابلیت ہو، اس کے بعد جب مکلف ہونے کا وقت آگیا تو) ہم نے اس کو ( بھلائی برائی پر مطلع کرکے) راستہ بتلایا (یعنی احکام کا مخاطب بنایا پھر) یا تو وہ شکر گزار (اور مومن) ہوگیا یا ناشکر ( اور کافر) ہوگیا (یعنی جس رستہ پر چلنے کو اس کو کہا تھا جو اس پر چلا وہ مومن ہوگیا جو بالکل نہ چلا کافر ہوگیا۔ آگے فریقین کی جزا کا ذکر ہے کہ) ہم نے کافروں کے لئے زنجیریں اور طوق اور آتش سوزاں تیار کر رکھی ہے (اور) جو نیک (لوگ) ہیں وہ ایسے جام شراب سے (شرابیں) پیویں گے۔ جس میں کافور کی آمیزش ہوگی یعنی ایسے چشمے سے (پیویں گے) جس سے خدا کے خاص بندے پئیں گے (اور) جس کو وہ ( خاص بندے جہاں چاہیں گے) بہا کرلے جائیں گے (اور یہ بہشتیوں کی ایک کرامت ہوگی کہ انہار جنت ان کے تابع ہوں گی جیسا کہ درمنثور میں ابن شوذب سے مروی ہے کہ جنتیوں کے ہاتھ میں سونے کی چھڑیاں ہوں گی اور وہ چھڑیوں سے جس طرف اشارہ کردینگے نہریں اسی طرف چلنے لگیں گی۔ اور یہ کافور دنیا کا کافور نہیں ہے بلکہ جنت کا کافور ہے جو سپیدی اور خنکی اور تفریح وتقویت دل و دماغ میں اس کا مشارک ہے شراب میں خاص کیفیات حاصل کرنے کے لئے عادت ہے بعض مناسب چیزوں کے ملانے کے پس وہاں اس جام میں کافور ملایا جاوے گا اور وہ جام شراب ایسے چشمے سے بھرا جاوے گا جس سے مقرب بندے پیویں گے تو ظاہر ہے کہ وہ اعلیٰ درجہ کا ہوگا سو اس سے ابرار کی بشارت میں تقویت ہوگئی اور اگر ابرار وعباد اللہ کا مصداق ایک ہو تو دو جگہ بیان کرنے سے جدا جدا مقصود ہے ایک جگہ اس کی آمیزش بتلانا ہے دوسری جگہ اس کا کثیر ومسخر ہونا کہ اسباب عیش کی کثرت اور تابع طبیعت ہونا لذت عیش کو بڑھا دیتا ہے۔ آگے ان ابرار کی صفات مذکور ہیں کہ) وہ لوگ واجبات کو پورا کرتے ہیں اور ( ادا بھی کرتے ہیں خلوص سے کیونکہ وہ) ایسے دن سے ڈرتے ہیں جس کی سختی عام ہوگی ( یعنی کم وبیش سب پر اس کی سختی کا اثر ہوگا مراد قیامت کا دن ہے الامن شاء اللہ تعالیٰ ) اور ( وہ لوگ ایسے مخلص ہیں کہ عبادات مالیہ میں بھی جس میں غالباً اخلاص کم ہوتا ہے کمال درجہ کا اخلاص رکھتے ہیں چنانچہ) وہ لوگ (محض) خدا کی محبت سے غربت اور یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں (قیدی اگر مظلوم ہے کہ ظلما پید کرلیا گیا تب تو اس کی اعانت کا مستحسن ہونا ظاہر ہے اور اگر ظالم ہے کہ ظلم کی سزا میں قید ہوا ہے تو شدت حاجت کے وقت اس کا اطعام بھی مستحسن ہے اور وہ لوگ کھانا کھلا کر زبان سے یا دل سے یوں کہتے ہیں کہ) ہم تم کو محض خدا کی رضا مندی کیلئے کھانا کھلاتے ہیں نہ ہم تم سے (اسکا عملی) بدلہ چاہیں اور نہ ( اس کا قولی) شکریہ (چاہیں اور ہم خدا کی رضا مندی کے لئے اس واسطے تم کو کھانا کھلاتے ہیں کہ) ہم اپنے رب کی طرف سے ایک سخت اور تلخ دن کا اندیشہ رکھتے ہیں ( تو امید رکھتے ہیں کہ ان مخلصانہ اعمال کی بدولت اس دن کی تلخی اور سختی سے محفوظ رہیں اور اس سے معلوم ہوا کہ خوف آخرت سے کوئی کام کرنا اخلاص اور اتبغا مرضاة اللہ کے منافی نہیں) سو اللہ تعالیٰ ان کو (اس اطاعت و اخلاص کی برکت سے) اس دن کی سختی سے محفوظ رکھے گا اور ان کی تازگی اور خوشی عطا فرما دے گا (یعنی چہروں پر تازگی اور قلوب میں خوشی دے گا) اور ان کی پختگی (یعنی استقامت فی الدین) کے بدلہ میں ان کو جنت اور ریشمی لباس دے گا اس حالت میں کہ وہ وہاں (جنت میں) مسہریوں پر (آرام وعزت سے) تکیہ لگائے ہوں گے (اور) نہ وہاں تپش (اور گرمی) پاویں گے اور نہ جاڑا (بلکہ فرحت بخش معتدل موسم ہوگا) اور یہ حالت ہوگی کہ (وہاں کے یعنی جنت کے) درختوں کے سائے ان (بہشتیوں) پر جھکے ہوں گے (یعنی قریب ہوں گے اور سایہ اسباب تنعم سے ہے۔ جنت میں آفتاب ماہتاب نہیں ہوں گے تو پھر سایہ کا کیا مطلب ہے ہوسکتا ہے کہ دوسرے اجسام نورانیہ کی روشنی سے سایہ مقصود ہو، اور فائدہ سایہ کا غالباً یہ ہے کہ حالات بدلتے رہیں، ایک حال کتنے بھی آرام ولذت کا ہو آخر کار اس سے طبیعت اکتا ہی جاتی ہے) اور ان کے میوے ان کے اختیار میں ہوں گے (کہ ہر وقت ہر طرح بلا مشقت لے سکیں گے) اور ان کے پاس (کھانے پینے کی چیزیں پہنچانے کے لئے) چاندی کے برتن لائے جاویں گے اور آبخورے جو شیشے کے ہوں گے ( اور) وہ شیشے چاندی کے ہوں گے جن کو بھرنے والوں نے مناسب انداز سے بھرا ہوگا (یعنی اس میں مشروب ایسے انداز سے بھرا ہوگا کہ نہ اس وقت کی خواہش میں کمی رہے اور نہ اس سے بچے کہ دونوں میں بےلطفی ہوتی ہے اور چاندی کے شیشے کے یہ معنی کہ سفیدی تو چاندی جیسی ہوگی اور شفافی شیشہ جیسی اور دنیا کی چاندی میں آرپار نظر نہیں آتا اور شیشے میں یہاں ایسی سفیدی نہیں ہوتی پس یہ ایک عجیب چیز ہوگی) اور وہاں ان کو (علاوہ جام شراب مذکورہ بالا کے جس میں کافور کی آمیزش تھی اور بھی) ایسا جام شراب پلایا جاوے گا جس میں سونٹھ کی آمیزش ہوگی (کہ انتعاش حرارت غریزی اور منہ کا مزہ بدلنے کے لئے شراب میں اس کو بھی ملاتے تھے یعنی ایسے چشمے سے جو وہاں ہوگا ( ان کو پلایا جاوے گا) جس کا نام (وہاں) سلسبیل (مشہور) ہوگا (مجموعہ مقام بالا اور مقام ہذا سے معلوم ہوتا ہے کہ چشمہ مذکورہ بالا کی شراب میں آمیزش کافور کی ہوگی اور اس چشمہ مذکورہ مابعد کی شراب میں آمیزش زنجیل کی ہوگی واللہ اعلم باسرارہ) اور ان کے پاس (یہ چیزیں لے کر) ایسے لڑکے آمدورفت کریں گے جو ہمیشہ لڑکے ہی رہیں گے ( اور وہ اسقدر حسین ہیں کہ) اے مخاطب اگر تو ان کو (چلتے پھرتے) دیکھے تو یوں سمجھے کہ موتی ہیں جو بکھر گئے ہیں (موتی سے تو تشبیہ صفائی اور اشراق میں اور بکھرے ہوئے کا وصف ان کے چلنے پھرنے کے لحاظ سے جیسے بکھرے موتی منتشر ہو کر کوئی ادھر جارہا ہے کوئی ادھر جارہا ہے اور یہ اعلیٰ درجہ کی تشبیہ ہے) اور (ان مذکورہ اسباب تنعم میں انحصار نہیں بلکہ وہاں اور بھی ہر سامان اس افراط اور رفعت کیساتھ ہوگا کہ) اے مخاطب اگر تو اس جگہ کو دیکھے تو تجھ کو بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھلائی دے ( اور) ان جنتیوں پر باریک ریشم کے سبز کپڑے ہوں گے اور دبیز ریشم کے کپڑے ہوں گے ( کیونکہ ہر لباس میں جدا لطف ہے) اور ان کو چاندی کے کنگن پہنائے جاویں گے ( اس سورت میں تین جگہ چاندی کے سامان کا ذکر آیا ہے اور دوسری آیات میں سونے کا مگر دونوں میں تعارض نہیں کیونکہ دونوں طرح کا سامان ہوگا اور حکمت اس کی وہی تفنن اور تغیر طبائع وتنعمات کا ہے اور یہ شبہ کہ مردوں کو زیور معیوب ہے اسلئے مندفع ہے کہ ہر مقام کا مقتضاد جدا ہے یہاں عیب ہونا وہاں عیب ہونے کو مستلزم نہیں) اور ان کا رب (جو ان کو شراب پینے کو دے گا جس کا اوپر ذکر آیا ہے تو مثل شراب دنیا کے ناپاک اور مزیل عقل وموجب خمار نہ ہوگی بلکہ اللہ تعای) ان کو پاکیزہ شراب پینے کو دے گا ( جس میں نجاست نہ ہوگی اور نہ کدورت وہذا کقولہ تعالیٰ لا یصدعون عنھا ولا ینزفون اور تین جگہ جو سورت میں ذکر شراب کا آیا ہے ہر جگہ غرض جدا ہے جیسا تقریر ترجمہ سے واضح ہے پھر اول میں یشربوں ہے دوسری جگہ یسقون جو زیارت اکرام اور اعزاز پر دلالت کرتا ہے۔ تیسری جگہ سقھم ربھم میں نہایت ہی تشریف و تکریم ہے پس تکرار کا شائبہ نہ رہا اور ان سب نعمتوں کو دے کر اہل جنت سے مسرت روحانی بڑھانے کے لئے کہا جاوے گا کہ) یہ تمارا صلہ ہے اور تمہاری کوشش (جو دنیا میں کیا کرتے تھے) مقبول ہوئی (آگے فریقین کی جزا کافر کا ذکر کرنے کے بعد بطور تفریح معنوی کے آپ کو تسلی دینے کا بیان ہے۔ یعنی ان مخالفین کی سزا آپ نے سن لی، پس آپ ان کی مخالفت سے غم نہ کیئجے اور اپنی عبادت اور دعوت و اصلاح کے کام میں لگے رہیئے کے علاوہ اطاعت ہونے کے اس میں قلب کی بھی تو تقویت ہے اور بیان اس اطاعت کا یہ ہے کہ) ہم نے آپ پر قرآن تھوڑا تھوڑا کرکے اتارا ہے ( تاکہ تھوڑا تھوڑا لوگوں کو پہنچاتے رہیں اور انکو اس سے فائدہ اٹھاے میں آسانی ہو جیسا کہ سورة اسرا کے آخر میں ہے وقرانا فرقنہ الخ) سو آپ اپنے پروردگار کے حکم پر (کہ اس میں تبلیغ بھی داخل ہے) مستقل رہئے اور ان میں سے کسی فاسق یا کافر کے کہنے میں نہ آئیے (یعنی جو تبلیغ سے منع کرتے ہیں کمافی الدر المنثور من سورة الکافرین، اس کی موافقت نہ کیجئے، مقصود اس سے اظہار اہتمام شان ہے ورنہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ان کی موافقت کرنے کا کوئی احتمام ہی نہیں تھا یہ تو عبادت متعدیہ کا امر ہوا) اور (آگے عبادت لازمہ کا امر ہے یعنی) اپنے پروردگار کا صبح وشام نام لیا کیئجے اور کسی قدر رات کے حصے میں بھی اس کو سجدہ کیا کیجئے (یعنی نماز فرض پڑھا کیجئے) اور رات کے بڑے حصے میں اس کی تسبیح (و تقدیس) کیا کجیئے (مراد) اس سے تہجد ہے علاوہ فرائض کے اور آگے تقویت تسلی کے لئے ایک اور مضومن ہے جس میں کفار کی مذمت بھی ہے یعنی ان لوگوں کی مخالفت کی اصل وجہ آپ کے ساتھ یہ ہے کہ) یہ لوگ دنیا سے محبت رکھتے ہیں اور اپنے آگے (آنیوالے) ایک بھاری دن کو چھوڑ بیٹھے ہیں ( پس حب دنیا نے اندھا کر رکھا ہے اسلئے حق کہنے سے بعض رکھتے ہیں اور یوم ثقیل کا ذکر سنکر چونکہ احتمال ان کے انکار کا تھا اسلئے آگے اس یوم ثقیل کے استبعاد کو دفع فرماتے ہیں یعنی) ہم ہی نے ان کو پیدا کیا اور ہم ہی نے ان کے جوڑ بند مضبوط کئے اور (نیز) جب ہم چاہیں ان ہی جیسے لوگ ان کی جگہ بدل دیں ( اور امر اول تو مشاہد ہے اور دوسرا امر ادنی تنبیہ سے معلوم ہوسکتا ہے پس دونوں امروں سے قدرت الٰہیہ ظاہر ہے پھر مردوں کو دوبارہ زندہ کرنے ہی میں کون بات زیادہ دشوار ہے کہ اس پر قدرت نہ ہو، آگے ان تمام مضامین سابقہ پر بطور تفریح کے فرماتے ہیں کہ) یہ (سب جو مذکور ہوا کافی) نصیحت ہے سو جو شخص چاہے اپنے رب کی طرف راستہ اختیار کرلے ( وقد مرفی المزمل) اور (قرآن کے تذکرہ ہونے میں اس سے شبہ نہ کیا جاوے کے بعض کو اس سے ہدایت نہیں ہوتی، بات یہ ہے کہ قرآن فی نفسہ تذکرہ اور ہدایت کافی ہے لیکن) بدون خدا کے چاہے تم لوگ کوئی بات چاہ نہیں سکتے ( اور بعض لوگوں کے لئے خدا کے نہ چاہنے میں بعضی حکمتیں ہوتی ہیں کیونکہ) خدا تعالیٰ بڑا علم والا اور حکمت والا ہے وہ جس کو چاہے اپنی رحمت میں داخل کرلیتا ہے اور (جسکو چاہئے کفر میں مبتلا رکھتا ہے پھر) ظالموں کے لئے اس نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔- معارف ومسائل - سورة دہر کا نام سورة انسان اور سورة الابرار بھی ہے (روح) اسمیں تخلیق انسانی کی ابتدا و انتہا و اعمال پر جزا وسزا قیامت اور جنت دوزخ کے خاص حالات نہایت بلیغ اور موثر انداز میں بیان ہوئے ہیں۔- هَلْ اَتٰى عَلَي الْاِنْسَانِ حِيْنٌ مِّنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْـــًٔا مَّذْكُوْرًا - حرف ہل دراصل استفہام کے لئے آتا ہے اور بعض اوقات کسی بدیہی اور کھلی ہوئی چیز کی بصورت استفہام اس لئے تعبیر کیا جاسکتا ہے اس کا واضح ہونا اور موکد ہوجائے کہ جس سے پوچھو گے یہی جواب دے گا، دوسرا احتمام ہی نہیں جیسے کوئی شخص نصب النہار کے وقت کسی سے کہے کہ کیا یہ دن نہیں ہے اس کی صورت میں تو استفہام کی ہے مگر درحقیقت اسکے انتہائی واضح ہونے کا بیان ہے۔ اسی لئے ایسے مواقع میں بعض حضرات نے فرمایا کہ اس جگہ حرف ھل بمعنے قد ہے جو تحقیق واقع کے لئے بولا جاتا ہے۔ بہر دو صورت مطلب آیت کا یہ ہے انسان پر ایک زمانہ دراز ایسا گزار ہے کہ دنیا میں کہیں اس کا نام ونشان یہاں تک کہ ذکر و تذکرہ تک نہ تھا۔ لفظ حین تنوین کے ساتھ ذکر کرنے سے اس وقت اور زمانے کی درازی کی طرف اشارہ ہے اور اس آیت میں یہ زمانہ دراز انسان پر گزرنا بیان فرمایا ہے جس میں اس کا فی الجملہ کسی نہ کسی طرح کا وجود ہونا لازمی ہے عدم محض کے زمانے کو تو انسان پر گزرنا نہیں کہا جاسکتا اس لئے اکثر حضرات مفسرین نے فرمایا کہ اس زمانے دراز سے جو انسان پر گزرا وہ زمانہ مراد ہے جو قرار حمل کے بعد سے پیدائش تک کا وقت ہے جو عادة نو مہینے ہوتے ہیں کہ اس میں انسان کی تخلیق پر جتنے دور گزرتے ہیں نفطہ سے لے کر جسم اور اعضا اور پھر اس میں روح حیات آنے تک وہ سب شامل ہیں۔ اس پورے زمانے میں اگرچہ اس کا وجود ایک طرح قائم ہوچکا ہے مگر نہ کوئی جانتا ہے کہ لڑکا ہے یا لڑکی نہ کوئی اس کا نام ہے نہ کسی کو اس کی شکل و صورت معلوم ہے اس لئے اس کا کہیں ذکر و تذکرہ تک نہیں ہے اور اگر اس کو وسیع ترمعنے دیئے جائیں تو تخلیق انسانی کی ابتدا جس طرح نطفہ سے سمجھی گئی ہے وہ نطفہ بھی جس غذا سے پیدا ہوا وہ غذا اور غذا سے پہلے اس غذا کا مادہ کسی نہ کسی صورت سے دنیا میں تھا اگر اس زمانے کو بھی شامل رکیں تو یہ زمانہ درازہزاروں سال کا ہوسکتا ہے۔ بہرحال حق تعالیٰ نے اس آیت میں انسان کو ایک ایسے امر کی طرف توجہ دلائی کہ اس میں ذرا بھی شعور ہوا اور کچھ بھی غور کرے تو اس کو اپنی حقیقت کے انکشاف کے ساتھ اپنے پیدا کرنے والے اور بنانے والے کے وجود اور علم وقدرت پر مکمل ایمان و یقین کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا۔ اگر ایک ستر برس کا انسان اس کا مراقبہ کرے اور اس پر غور کرے کہا اب سے اکہتر سال پہلے اس کا کہیں نام و نشان نہیں تھا اور نہ اس کا کسی عنوان سے کوئی ذکر کرسکتا تھا۔ ماں باپ اور دادا دادی کے دل میں بھی اس کے مخصوص وجود کا کوئی خطرہ تک نہ تھا گو مطلق بچہ کا تصور ہو۔ اس وقت کیا چیز اس کی ایجادو تخلیق کی داعی ہوئی اور کس مخیر العقول قدرت نے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ذرات کو اس کے وجود میں سمو کر اس کو ایک ہوشیار دانا، سمیع وبصیر انسان بنادیا تو وہ بےساختہ یہ کہنے پر مجبور ہوگا۔ مانبودیم و تقاضا مانبود ٭لطف تو ناگفتہ مامی شنود
ہَلْ اَتٰى عَلَي الْاِنْسَانِ حِيْنٌ مِّنَ الدَّہْرِ لَمْ يَكُنْ شَـيْــــًٔا مَّذْكُوْرًا ١- هَلْ- : حرف استخبار، إما علی سبیل الاستفهام، وذلک لا يكون من اللہ عزّ وجلّ : قال تعالی: قُلْ هَلْ عِنْدَكُمْ مِنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوهُ لَنا[ الأنعام 148] وإمّا علی التّقریر تنبيها، أو تبكيتا، أو نفیا . نحو : هَلْ تُحِسُّ مِنْهُمْ مِنْ أَحَدٍ أَوْ تَسْمَعُ لَهُمْ رِكْزاً [ مریم 98] . وقوله :- هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا[ مریم 65] ، فَارْجِعِ الْبَصَرَ هَلْ تَرى مِنْ فُطُورٍ [ الملک 3] كلّ ذلک تنبيه علی النّفي . وقوله تعالی: هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ يَأْتِيَهُمُ اللَّهُ فِي ظُلَلٍ مِنَ الْغَمامِ وَالْمَلائِكَةُ- [ البقرة 210] ، لْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ تَأْتِيَهُمُ الْمَلائِكَةُ [ النحل 33] ، هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا السَّاعَةَ [ الزخرف 66] ، هَلْ يُجْزَوْنَ إِلَّا ما کانوا يَعْمَلُونَ [ سبأ 33] ، هَلْ هذا إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ [ الأنبیاء 3] قيل : ذلک تنبيه علی قدرة الله، و تخویف من سطوته .- ( ھل ) ھل یہ حرف استخبار اور کبھی استفہام کے لئے آتا ہے ۔ جیسے قرآن پاک میں ہے : هَلْ عِنْدَكُمْ مِنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوهُ لَنا[ الأنعام 148] کہدو کہ تمہارے پاس کوئی سند ہے اگر ہے تو اسے ہمارے سامنے نکالو ۔ اور کبھی تنبیہ تبکیت یا نفی کے لئے چناچہ آیات : ۔ هَلْ تُحِسُّ مِنْهُمْ مِنْ أَحَدٍ أَوْ تَسْمَعُ لَهُمْ رِكْزاً [ مریم 98] بھلا تم ان میں سے کسی کو دیکھتے ہو یار کہیں ان کی بھنکسنتے ہو ۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا[ مریم 65] بھلا ئم اس کا کوئی ہم نام جانتے ہو ۔ فَارْجِعِ الْبَصَرَ هَلْ تَرى مِنْ فُطُورٍ [ الملک 3] ذرا آنکھ اٹھا کر دیکھو کیا تجھے ( آسمان میں ) کوئی شگاف نظر آتا ہے ۔ میں نفی کے معنی پائے جاتے ہیں ۔ اور آیات : ۔ هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ يَأْتِيَهُمُ اللَّهُ فِي ظُلَلٍ مِنَ الْغَمامِ وَالْمَلائِكَةُ [ البقرة 210] کیا یہ لوگ اسی بات کے منتظر ہیں کہ ان پر خدا کا عذاب ) بادل کے سائبانوں میں نازل ہو اور فرشتے بھی اتر آئیں ۔ ھلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا أَنْ تَأْتِيَهُمُ الْمَلائِكَةُ [ النحل 33] یہ اس کے سوا اور کسی بات کے منتظر ہیں کہ ان کے پاس فرشتے آئیں ۔ هَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا السَّاعَةَ [ الزخرف 66] یہ صرف اس بات کے منتظر ہیں کہ قیامت هَلْ يُجْزَوْنَ إِلَّا ما کانوا يَعْمَلُونَ [ سبأ 33] یہ جیسے عمل کرتے ہیں ویسا ہی ان کو بدلہ ملے گا ۔ هَلْ هذا إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ [ الأنبیاء 3] یہ شخص کچھ بھی ) نہیں ہے مگر تمہارے جیسا آدمی ہے ۔ میں اللہ تعالیٰ کی قدرت پر تنبیہ اور اس کی سطوت سے تخو یف کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے ۔- أتى- الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه : أَتِيّ وأَتَاوِيّ وبه شبّه الغریب فقیل : أتاويّ والإتيان يقال للمجیء بالذات وبالأمر وبالتدبیر، ويقال في الخیر وفي الشر وفي الأعيان والأعراض، نحو قوله تعالی: إِنْ أَتاكُمْ عَذابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام 40] ، وقوله تعالی: أَتى أَمْرُ اللَّهِ [ النحل 1] ، وقوله : فَأَتَى اللَّهُ بُنْيانَهُمْ مِنَ الْقَواعِدِ [ النحل 26] ، أي : بالأمر والتدبیر، نحو : وَجاءَ رَبُّكَ [ الفجر 22] ، وعلی هذا النحو قول الشاعرأتيت المروءة من بابها فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل 37] ، وقوله : لا يَأْتُونَ الصَّلاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسالی [ التوبة 54] ، أي : لا يتعاطون، وقوله : يَأْتِينَ الْفاحِشَةَ [ النساء 15] ، وفي قراءة عبد اللہ : ( تأتي الفاحشة) فاستعمال الإتيان منها کاستعمال المجیء في قوله : لَقَدْ جِئْتِ شَيْئاً فَرِيًّا [ مریم 27] . يقال : أتيته وأتوته ويقال للسقاء إذا مخض وجاء زبده : قد جاء أتوه، وتحقیقه : جاء ما من شأنه أن يأتي منه، فهو مصدر في معنی الفاعل . وهذه أرض کثيرة الإتاء أي : الرّيع، وقوله تعالی: مَأْتِيًّا[ مریم 61] مفعول من أتيته . قال بعضهم معناه : آتیا، فجعل المفعول فاعلًا، ولیس کذلک بل يقال : أتيت الأمر وأتاني الأمر، ويقال : أتيته بکذا وآتیته كذا . قال تعالی: وَأُتُوا بِهِ مُتَشابِهاً [ البقرة 25] ، وقال : فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لا قِبَلَ لَهُمْ بِها [ النمل 37] ، وقال : وَآتَيْناهُمْ مُلْكاً عَظِيماً [ النساء 54] .[ وكلّ موضع ذکر في وصف الکتاب «آتینا» فهو أبلغ من کلّ موضع ذکر فيه «أوتوا» ، لأنّ «أوتوا» قد يقال إذا أوتي من لم يكن منه قبول، وآتیناهم يقال فيمن کان منه قبول ] وقوله تعالی: آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ [ الكهف 96] وقرأه حمزة موصولة أي : جيئوني . والإِيتاء : الإعطاء، [ وخصّ دفع الصدقة في القرآن بالإيتاء ] نحو : وَأَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ [ البقرة 277] ، وَإِقامَ الصَّلاةِ وَإِيتاءَ الزَّكاةِ [ الأنبیاء 73] ، ووَ لا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئاً [ البقرة 229] ، ووَ لَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمالِ [ البقرة 247] .- ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے اور اس سے بطور تشبیہ مسافر کو اتاوی کہہ دیتے ہیں ۔ الغرض اتیان کے معنی " آنا " ہیں خواہ کوئی بذاتہ آئے یا اس کا حکم پہنچے یا اس کا نظم ونسق وہاں جاری ہو یہ لفظ خیرو شر اور اعیان و اعراض سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : إِنْ أَتَاكُمْ عَذَابُ اللَّهِ أَوْ أَتَتْكُمُ السَّاعَةُ [ الأنعام : 40] اگر تم پر خدا کا عذاب آجائے یا قیامت آموجود ہو أَتَى أَمْرُ اللَّهِ [ النحل : 1] خد اکا حکم ( یعنی عذاب گویا ) آہی پہنچا۔ اور آیت کریمہ فَأَتَى اللَّهُ بُنْيَانَهُمْ مِنَ الْقَوَاعِدِ [ النحل : 26] میں اللہ کے آنے سے اس کے حکم کا عملا نفوذ مراد ہے جس طرح کہ آیت وَجَاءَ رَبُّكَ [ الفجر : 22] میں ہے اور شاعر نے کہا ہے ۔ (5) " اتیت المروءۃ من بابھا تو جو انمروی میں اس کے دروازہ سے داخل ہوا اور آیت کریمہ ۔ وَلَا يَأْتُونَ الصَّلَاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسَالَى [ التوبة : 54] میں یاتون بمعنی یتعاطون ہے یعنی مشغول ہونا اور آیت کریمہ ۔ يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ [ النساء : 15] میں الفاحشہ ( بدکاری ) کے متعلق اتیان کا لفظ ایسے ہی استعمال ہوا ہے جس طرح کہ آیت کریمہ ۔ لَقَدْ جِئْتِ شَيْئًا فَرِيًّا [ مریم : 27] فری کے متعلق مجئی کا لفظ استعمال ہوا ہے ( یعنی دونوں جگہ ارتکاب کے معنی ہیں ) اور آیت ( مذکورہ ) میں ایک قرات تاتی الفاحشۃ دونوں طرح آتا ہے ۔ چناچہ ( دودھ کے ، مشکیزہ کو بلونے سے جو اس پر مکھن آجاتا ہے اسے اتوۃ کہا جاتا ہے لیکن اصل میں اتوۃ اس آنے والی چیز کو کہتے ہیں جو کسی دوسری چیز سے حاصل ہوکر آئے لہذا یہ مصدر بمعنی فاعل ہے ۔ ارض کثیرۃ الاباء ۔ زرخیز زمین جس میں بکثرت پیداوار ہو اور آیت کریمہ : إِنَّهُ كَانَ وَعْدُهُ مَأْتِيًّا [ مریم : 61] بیشک اس کا وعدہ آیا ہوا ہے ) میں ماتیا ( فعل ) اتیتہ سے اسم مفعول کا صیغہ ہے بعض علماء کا خیال ہے کہ یہاں ماتیا بمعنی آتیا ہے ( یعنی مفعول بمعنی فاعل ) ہے مگر یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ محاورہ میں اتیت الامر واتانی الامر دونوں طرح بولا جاتا ہے اتیتہ بکذا واتیتہ کذا ۔ کے معنی کوئی چیز لانا یا دینا کے ہیں قرآن میں ہے ۔ وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا [ البقرة : 25] اور ان کو ایک دوسرے کے ہم شکل میوے دیئے جائیں گے ۔ فَلَنَأْتِيَنَّهُمْ بِجُنُودٍ لَا قِبَلَ لَهُمْ بِهَا [ النمل : 37] ہم ان پر ایسے لشکر سے حملہ کریں گے جس سے مقابلہ کی ان میں سکت نہیں ہوگی ۔ مُلْكًا عَظِيمًا [ النساء : 54] اور سلطنت عظیم بھی بخشی تھی ۔ جن مواضع میں کتاب الہی کے متعلق آتینا ( صیغہ معروف متکلم ) استعمال ہوا ہے وہ اوتوا ( صیغہ مجہول غائب ) سے ابلغ ہے ( کیونکہ ) اوتوا کا لفظ کبھی ایسے موقع پر استعمال ہوتا ہے ۔ جب دوسری طرف سے قبولیت نہ ہو مگر آتینا کا صیغہ اس موقع پر استعمال ہوتا ہے جب دوسری طرف سے قبولیت بھی پائی جائے اور آیت کریمہ آتُونِي زُبَرَ الْحَدِيدِ [ الكهف : 96] تو تم لوہے کہ بڑے بڑے ٹکڑے لاؤ ۔ میں ہمزہ نے الف موصولہ ( ائتونی ) کے ساتھ پڑھا ہے جس کے معنی جیئونی کے ہیں ۔ الایتاء ( افعال ) اس کے معنی اعطاء یعنی دینا اور بخشنا ہے ہیں ۔ قرآن بالخصوص صدقات کے دینے پر یہ لفظ استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا :۔ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ [ البقرة : 277] اور نماز پڑہیں اور زکوۃ دیں وَإِقَامَ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءَ الزَّكَاةِ [ الأنبیاء : 73] اور نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم بھیجا وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ ( سورة البقرة 229) اور یہ جائز نہیں ہے کہ جو مہر تم ان کو دے چکو اس میں سے کچھ واپس لے لو وَلَمْ يُؤْتَ سَعَةً مِنَ الْمَالِ [ البقرة : 247] اور اسے مال کی فراخی نہیں دی گئی - إنس - الإنس : خلاف الجن، والأنس : خلاف النفور، والإنسيّ منسوب إلى الإنس يقال ذلک لمن کثر أنسه، ولكلّ ما يؤنس به، ولهذا قيل :إنسيّ الدابة للجانب الذي يلي الراکب وإنسيّ القوس : للجانب الذي يقبل علی الرامي . والإنسيّ من کل شيء : ما يلي الإنسان، والوحشيّ : ما يلي الجانب الآخر له . وجمع الإنس أَناسيُّ ، قال اللہ تعالی: وَأَناسِيَّ كَثِيراً [ الفرقان 49] . وقیل ابن إنسک للنفس وقوله عزّ وجل : فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْداً [ النساء 6] أي : أبصرتم أنسا بهم، وآنَسْتُ ناراً [ طه 10] ، وقوله : حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا[ النور 27] أي : تجدوا إيناسا . والإِنسان قيل : سمّي بذلک لأنه خلق خلقة لا قوام له إلا بإنس بعضهم ببعض، ولهذا قيل : الإنسان مدنيّ بالطبع، من حيث لا قوام لبعضهم إلا ببعض، ولا يمكنه أن يقوم بجمیع أسبابه، وقیل : سمّي بذلک لأنه يأنس بكلّ ما يألفه وقیل : هو إفعلان، وأصله : إنسیان، سمّي بذلک لأنه عهد اللہ إليه فنسي .- ( ان س ) الانس - یہ جن کی ضد ہے اور انس ( بضمہ الہمزہ ) نفور کی ضد ہے اور انسی ۔ انس کی طرف منسوب ہے اور انسی اسے کہا جاتا ہے ۔ جو بہت زیادہ مانوس ہو اور ہر وہ چیز جس سے انس کیا جائے اسے بھی انسی کہدیتے ہیں اور جانور یا کمان کی وہ جانب جو سوار یا کمانچی کی طرف ہو اسے انسی کہا جاتا ہے اور اس کے بالمقابل دوسری جانب کو وحشی کہتے ہیں انس کی جمع اناسی ہے قرآن میں ہے :۔ وَأَنَاسِيَّ كَثِيرًا ( سورة الفرقان 49) بہت سے ( چوریاں ) اور آدمیوں کو ۔ اور نفس انسانی کو ابن انسک کہا جاتا ہے ۔ انس ( افعال ) کے معنی کسی چیز سے انس پانا یا دیکھتا ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ فَإِنْ آنَسْتُمْ مِنْهُمْ رُشْدًا ( سورة النساء 6) اگر ان میں عقل کی پختگی دیکھو ۔ انست نارا (27 ۔ 7) میں نے آگ دیکھی ۔ اور آیت کریمہ :۔ حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا ( سورة النور 27) کا مطلب یہ ہے کہ جب تک تم ان سے اجازت لے کر انس پیدا نہ کرلو ۔ الانسان ۔ انسان چونکہ فطرۃ ہی کچھ اس قسم کا واقع ہوا ہے کہ اس کی زندگی کا مزاج باہم انس اور میل جول کے بغیر نہیں بن سکتا اس لئے اسے انسان کے نام سے موسوم کیا گیا ہے اسی بنا پر یہ کہا گیا ہے کہ انسان طبعی طور پر متمدن واقع ہوا ہے ۔ کیونکہ وہ آپس میں بیل جوں کے بغیر نہیں رہ سکتا اور نہ ہی اکیلا ضروریات زندگی کا انتظام کرسکتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ اسے جس چیز سے محبت ہوتی ہے اسی سے مانوس ہوجاتا ہے ۔ اس لئے اسے انسان کہا جاتا ہے ۔ بعض کا قول ہے کہ انسان اصل میں انسیان پر وزن افعلان ہے اور ( انسان ) چونکہ اپنے عہد کو بھول گیا تھا اس لئے اسے انسان کہا گیا ہے ۔- حين - الحین : وقت بلوغ الشیء وحصوله، وهو مبهم المعنی ويتخصّص بالمضاف إليه، نحو قوله تعالی: وَلاتَ حِينَ مَناصٍ [ ص 3] - ( ح ی ن ) الحین - ۔ اس وقت کو کہتے ہیں جس میں کوئی چیز پہنچے اور حاصل ہو ۔ یہ ظرف مبہم ہے اور اس کی تعین ہمیشہ مضاف الیہ سے ہوتی ہے جیسے فرمایا : ۔ وَلاتَ حِينَ مَناصٍ [ ص 3] اور وہ رہائی کا وقت نہ تھا ۔ - دهر - الدّهر في الأصل : اسم لمدّة العالم من مبدأ وجوده إلى انقضائه، وعلی ذلک قوله تعالی:- هَلْ أَتى عَلَى الْإِنْسانِ حِينٌ مِنَ الدَّهْرِ [ الدهر 1] ، ثمّ يعبّر به عن کلّ مدّة كثيرة، وهو خلاف الزمان، فإنّ الزّمان يقع علی المدّة القلیلة والکثيرة، ودَهْرُ فلان : مدّة حياته، واستعیر للعادة الباقية مدّة الحیاة، فقیل : ما دهري بکذا، ويقال : دَهَرَ فلانا نائبة دَهْراً ، أي : نزلت به، حكاه ( الخلیل) فالدّهر هاهنا مصدر، وقیل : دَهْدَرَهُ دَهْدَرَةً ، ودَهْرٌ دَاهِرٌ ودَهِيرٌ. وقوله عليه الصلاة والسلام : «لا تسبّوا الدّهر فإنّ اللہ هو الدّهر» قد قيل معناه : إنّ اللہ فاعل ما يضاف إلى الدّهر من الخیر والشّرّ والمسرّة والمساءة، فإذا سببتم الذي تعتقدون أنه فاعل ذلک فقد سببتموه تعالیٰ عن ذلک وقال بعضهم : الدّهر الثاني في الخبر غير الدّهر الأوّل، وإنما هو مصدر بمعنی الفاعل، ومعناه : أنّ اللہ هو الدّاهر، أي : المصرّف المدبّر المفیض لما يحدث، والأول أظهر وقوله تعالیٰ إخبارا عن مشرکي العرب : ما هِيَ إِلَّا حَياتُنَا الدُّنْيا نَمُوتُ وَنَحْيا وَما يُهْلِكُنا إِلَّا الدَّهْرُ [ الجاثية 24] ، قيل : عني به الزمان .- ( د ھ ر ) الدھر ( زمانہ ) اصل میں مدت عالم کو کہتے ہیں یعنی ابتدا آفرینش سے لے کر اس کے اختتام تک کا عرصہ ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ هَلْ أَتى عَلَى الْإِنْسانِ حِينٌ مِنَ الدَّهْرِ [ الدهر 1] بیشک انسان پر زمانے میں ایک ایسا وقت بھی آچکا ہے ۔ میں الدھر سے یہی معنی مراد ہیں پھر ( مجاز ) اس سے ہر طویل مدت مراد لی جاتی ہے برخلف لفظ زمان ، ، کے یہ مدت قبیلہ اور کثیرہ دونوں پر بولا جاتا ہے ۔ اور دھرفلان کے معنی اس کی مدت حیاۃ کے ہیں اور جو عادت زندگی پھر باقی رہے اس پر بھی استعارہ کدھر کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ مثلا کہاجاتا ہے ۔ مادھری بکذا میں اس کا عادی نہیں ہوں ۔ اور خلیل (رح) نے حکایت کی ہے : ۔ یعنی فلاں پر مصیبت نازل ہوگئی تو یہاں دھر کا لفظ مصدر ہے اور بعض نے دھدرۃ دھرۃ بھی کہا ہے دھرداھر ودھیر زمانہ بےانتہا وقت ایک حدیث میں ہے کہ زمانہ کو برا مت کہو کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی زمانہ ہی بعض نے اللہ تعالیٰ کے دھر ہونے کے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ جو خیر وشر اور خوشی وناخوشی زمانہ کی طرف منسوب ہوتی ہے اس کا فاعل حقیقی چونکہ اللہ تعالیٰ ہی ہے لہذا جب تم زمانہ کو برا بھلا کہو گے جو تمہارے اعتقاد کے مطابق فاعل ہے ۔ تو گویا اللہ تبارک وتعالٰی کو گالیاں دے رہے ہو ۔ اور بعض نے کہا کہ حدیث میں دھر ثانی دھر اول کا غیر ہے اور یہ مصدر بمعنی فاعل ہے یعنی اور معنی یہ ہیں کہ ہر قسم کا تصرف وتدبیر اور جو کچھ رونما ہوتا ہے اس کا فیضان اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہے مگر معنی اول ظہرو انسب ہے ۔ اور قرآن پاک نے مشرکین عرب کے قول کی حکایت کرتے ہوئے فرمایا : ۔ هِيَ إِلَّا حَياتُنَا الدُّنْيا نَمُوتُ وَنَحْيا وَما يُهْلِكُنا إِلَّا الدَّهْرُ [ الجاثية 24] کہ ہماری زندگی تو صرف دنیا ہی کی ہے کہ ( یہیں ) مرتے اور جیتے ہیں اور یہ صرف زمانہ ہی ہے جو ہمیں ہلاک کردیتا ہے ۔ اس کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ یاہں دھو سے مراد زمانہ ہی ہے ۔- شيء - الشَّيْءُ قيل : هو الذي يصحّ أن يعلم ويخبر عنه، وعند کثير من المتکلّمين هو اسم مشترک المعنی إذ استعمل في اللہ وفي غيره، ويقع علی الموجود والمعدوم .- ( ش ی ء ) الشئی - بعض کے نزدیک شی وہ ہوتی ہے جس کا علم ہوسکے اور اس کے متعلق خبر دی جاسکے اور اس کے متعلق خبر دی جا سکے اور اکثر متکلمین کے نزدیک یہ اسم مشترکہ ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے ماسواپر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور موجود ات اور معدہ سب کو شے کہہ دیتے ہیں ،- مَذْكُوراً- وقوله هَلْ أَتى عَلَى الْإِنْسانِ حِينٌ مِنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْئاً مَذْكُوراً [ الدهر 1] ، أي : لم يكن شيئا موجودا بذاته، وإن کان موجودا في علم اللہ تعالی.
آدم پر چالیس سال کا ایک ایسا وقت بھی آچکا ہے جبکہ ان کا پتلا بنا ہوا تھا کہ ان کو کسی چیز کی خبر نہ تھی اور کس غرض سے وہ بنائے گئے اس کی خبر اللہ تعالیٰ کے علاوہ اور کسی کو نہ تھی۔
آیت ١ ہَلْ اَتٰی عَلَی الْاِنْسَانِ حِیْنٌ مِّنَ الدَّہْرِ لَمْ یَکُنْ شَیْئًا مَّذْکُوْرًا ۔ ” کیا انسان پر اس زمانے میں ایک ایسا وقت بھی گزرا ہے جبکہ وہ کوئی قابل ذکر شے نہ تھا ؟ “- ” دَہْر “ سے مراد وہ لامتناہی زمانہ ہے جس کی نہ ابتدا انسان کو معلوم ہے نہ انتہا ‘ جبکہ ” حِیْن “ سے مراد وہ خاص وقت ہے جو اس لامتناہی زمانے کے اندر کبھی پیش آیا ہو - - چناچہ ” دَہْر “ دراصل وقت کا وہ سمندر ہے جس کے اندر سے کائنات میں رونما ہونے والے ہر قسم کے واقعات و حادثات جنم لیتے ہیں۔ وقت کے اسی سمندر میں سے ہم انسان بھی نکلے ہیں۔ ع ” قلزمِ ہستی سے تو ابھرا ہے مانند ِحباب “ (اقبال) ۔ چناچہ اس قلزم ہستی کے اندر ہر انسان پر ایک وقت ایسا بھی آیا ہے جب اس کا وجود حقیر پانی کی ایک ایسی بوند کی شکل میں تھا جس کا ذکر کرنا اور نام لینا بھی کوئی پسند نہیں کرتا۔
سورة الدَّهْر حاشیہ نمبر :1 پہلا فقرہ ہے ھل اتی علی الانسان ۔ اکثر مفسرین و مترجمین نے یہاں ھل کو قد کے معنی میں لیا ہے ۔ اور وہ اس کے معنی یہ لیتے ہیں کہ بے شک یا بلا شبہ انسان پر ایسا ایک وقت آیا ہے ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ لفظ ھل عربی زبان میں کیا کے معنی ہی میں استعمال ہوتا ہے ، اور اس سے مقصود ہر حال میں سوال ہی نہیں ہوتا بلکہ مختلف مواقع پر یہ بظاہر سوالیہ لفظ مختلف معنوں میں بولا جاتا ہے ۔ مثلاً کبھی تو ہم یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ فلاں واقعہ پیش آیا ہے یا نہیں اور کسی سے پوچھتے ہیں کیا یہ واقعہ پیش آیا ہے؟ کبھی ہمارا مقصود سوال کرنا نہیں ہوتا بلکہ کسی بات کا انکار کرنا ہوتا ہے اور یہ انکار ہم اس انداز میں کرتے ہیں کہ کیا یہ کام کوئی اور بھی کر سکتا ہے؟ کبھی ہم ایک شخص سے کسی بات کا اقرار کرانا چاہتے ہیں اور اس غرض کے لیے اس سے پوچھتے ہیں کہ کیا میں نے تمہاری رقم ادا کر دی ہے ؟ اور کبھی ہمارا مقصود محض اقرار ہی کرانا نہیں ہوتا بلکہ سوال ہم اس غرض کے لیے کرتے ہیں کہ مخاطب کے ذہن کو ایک اور بات سوچنے پر مجبور کر دیں جو لازماً اس کے اقرار سے بطور نتیجہ پیدا ہوتی ہے ۔ مثلاً ہم کسی سے پوچھتے ہیں کیا میں نے تمہارے ساتھ کوئی برائی کی ہے؟ اس سے مقصود صرف یہی نہیں ہوتا کہ وہ اس بات کا اقرار کرے کہ آپ نے اس کے ساتھ کوئی برائی نہیں کی ہے ، بلکہ اسے یہ سوچنے پر مجبور کرنا بھی مقصود ہوتا ہے کہ جس نے میرے ساتھ کوئی برائی نہیں کی ہے اس کے ساتھ میں برائی کرنے میں کہاں تک حق بجانب ہوں ۔ آیت زیر بحث میں سوالیہ فقرہ دراصل اسی آخری معنی میں ارشاد ہوا ہے ۔ اس سے مقصود انسان سے صرف یہی اقرار کرانا نہیں ہے کہ فی الواقع اس پر ایک وقت ایسا گزرا ہے ، بلکہ اسے یہ سوچنے پر مجبور کرنا بھی ہے کہ جس خدا نے اس کی تخلیق کا آغاز ایسی حقیر سی حالت سے کر کے اسے پورا انسان بنا کھڑا کیا وہ آخر اسے دوبارہ پیدا کرنے سے کیوں عاجز ہو گا ؟ دوسرا فقرہ ہے حین من الدھر ۔ دھر سے مراد وہ لامتناہی زمانہ ہے جس کی نہ ابتدا انسان کو معلوم ہے نہ انتہا ، اور حین سے مراد وہ خاص وقت ہے جو اس لا متناہی زمانے کے اندر کبھی پیش آیا ہو ۔ کلام کا مدعا یہ ہے کہ اس لا متناہی زمانے کے اندر ایک طویل مدت تو ایسی گزری ہے جب سرے سے نوع انسانی ہی موجود نہ تھی ۔ پھر اس میں ایک وقت ایسا آیا جب انسان نام کی ایک نوع کا آغاز کیا گیا ۔ اور اسی زمانے کے اندر ہر شخص پر ایک ایسا وقت آیا ہے جب اسے عدم سے وجود میں لانے کی ابتدا کی گئی ۔ تیسرا فقرہ ہے لم یکن شیئا مذکوراً ، یعنی اس وقت وہ کوئی قابل ذکر چیز نہ تھا ۔ اس کا ایک حصہ باپ کے نطفے میں ایک خورد بینی کیڑے کی شکل میں اور دوسرا حصہ ماں کے نطفے میں ایک خورد بینی بیضے کی شکل میں موجود تھا ۔ مدتہائے دراز تک تو انسان یہ بھی نہیں جانتا تھا کہ دراصل وہ اس کیڑے اور بیضے کے ملنے سے وجود میں آتا ہے ۔ اب طاقتور خورد بینوں سے ان دونوں کو دیکھ تو لیا گیا ہے لیکن اب بھی کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ کتنا انسان باپ کے اس کیڑے میں اور کتنا ماں کے اس بیضے میں موجود ہوتاہے ۔ پھر استقرار حمل کے وقت ان دونوں کے ملنے سے جو ابتدائی خلیہ ( ) وجود میں آتاہے وہ ایک ایسا ذرہ بے مقدار ہوتا ہے کہ بہت طاقتور خورد بین ہی سے نظر آ سکتا ہے کہ اس حقیر سی ابتداء سے نشوو نما پا کر کوئی انسان اگر بنے گا بھی تو وہ کس قد و قامت ، کس شکل و صورت ، کس قابلیت اور شخصیت کا انسان ہو گا ۔ یہی مطلب ہے اس ارشاد کا کہ اس وقت وہ کوئی قابل ذکر چیز نہ تھا اگرچہ انسان ہونے کی حیثیت سے اس کے و جود کا آغاز ہو گیا تھا ۔ سورة الدَّهْر حاشیہ نمبر :2 ایک مخلوط نطفے سے مراد یہ ہے کہ انسان کی پیدائش مرد اور عورت کے دو الگ الگ نطفوں سے نہیں ہوئی بلکہ دونوں نطفے مل کر جب ایک ہو گئے تب اس مرکب نطفے سے انسان پیدا ہوا ۔