2۔ 1 ملے جلے مطلب، مرد اور عورت دونوں کے پانی کا ملنا پھر ان کا مختلف اطوار سے گزرنا ہے۔ پیدا کرنے کا مقصد انسان کی آزمائش ہے۔ 2۔ 2 یعنی اسے سماعت اور بصارت کی قوتیں عطا کیں، تاکہ وہ سب کچھ دیکھ سکے اور سن سکے اور اس کے بعد اطاعت یا انکاری دونوں راستوں میں کسی ایک کا انتخاب کرسکے۔
[٢] یعنی باپ کا نطفہ الگ تھا، ماں کا الگ، ان دونوں نطفوں کے ملاپ سے ماں کے رحم میں حمل قرار پایا۔ پھر ہم نے اس مخلوط نطفہ کو ایک ہی حالت میں پڑا نہیں رہنے دیا۔ ورنہ وہ وہیں گل سڑ جاتا۔ بلکہ ہم اس کو الٹتے پلٹتے رہے اور رحم مادر میں اس نطفہ کو کئی اطوار سے گزار کر اسے ایک جیتا جاگتا انسان بنادیا۔- [٣] انسان کی دوسرے جانداروں پر کیا فضیلت ہے ؟:۔ انسان کے علاوہ جتنی بھی جاندار مخلوق ہے۔ تقریباً سب ہی سنتے بھی ہیں اور دیکھتے بھی ہیں۔ لیکن سمیع اور بصیر نہیں ہیں۔ سمیع اور بصیر صرف انسان ہے۔ اور یہی چیزیں انسان کے لئے علم کے حصول کے سب سے بڑے ذرائع ہیں۔ انسان اشیاء کو دیکھ کر اور بعض آوازیں سن کر ان پر غور کرتا، ان میں قیاس اور استنباط کرتا پھر ان سے نتائج اخذ کرتا ہے۔ جبکہ دوسرے جاندار دیکھنے اور سننے کے باوجود ان میں سے کوئی کام بھی نہیں کرسکتے۔
(١) انا خلقنا الانسان من نطفۃ امشاج : یعنی انسان کی پیدائش صرف مرد یا صرف عورت کے نطفہ سے نہیں ہوئی بلکہ دونوں کے ملے جلے نطفہ سے ہوئی ہے، کیونکہ دونوں کے ملنے ہی سے حمل منعقد ہوتا ہے۔ ام سلیم (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :(ان ماء الرجل غلیظ ابیض وماء المراۃ رقیق اصفر فمن ابھما علا او سبق یکون من ہالشبہ) (مسلم، الحیض ، باب وجوب الغسل علی المراۃ…: ٣١١)” مرد کا پ انی سفید گاڑھا اور عورت کا پانی پتلا زرد ہوتا ہے، ان میں سے جو غلاب آجائے یا سبقت کر جائے اسی سے مشابہت ہوتی ہے۔ “- (٢) نبتلیہ : ہم اسے آزماتے ہیں، یعنی انسان کو پیدا کرنے کا مقصد اس کی آزمائش ہے کہ اچھے عمل کرتا ہے یا برے، جیسے فرمایا، (لیبلوکم ایکم احسن عملاً ) (الملک : ٢)”(اللہ تعالیٰ نے موت و حیات کو اس لئے پیدا فرمایا) تاکہ تمہاری آزمائش رکے کہ تم میں سے کون عمل میں بہتر ہے۔ “- (٣) فجعلنہ سمیعاً بصیراً :” ہم نے اسے سننے والا، دیکھنے والا بنایا “ اگرچہ جانور بھی سنتے اور دیکھتے ہیں مگر انہیں ” سمیع وبصیر “ نہیں کہاجاتا کیونکہ وہ عقل کی نعمت سے محروم ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو سننے اور دیکھنے کی ایسی قوتیں دی ہیں جن سے وہ اچھے برے میں تمیز کرسکتا ہے اور بہت دور تک سوچ سکتا ہے۔ گویا دوسرے جانور اس کے مقابل بہرے اور اندھے ہیں۔
اس کے بعد تخلیق انسانی کی ابتداء کا بیان اس طرح فرمایا اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَةٍ اَمْشَاج یعنی ہم نے پیدا کیا انسان کو ایک مخلوط نطفہ سے امشاج، مشج یا مشیج کی جمع ہے جس کے معنے مخلوط کے آتے ہیں بعض مفسرین سے نقل کیا ہے کہ امشاج سے مراد اخلاص اربعہ یعنی خن، بلغم، سودا، صفراء ہیں جن سے نطفہ مرکب ہوتا ہے۔- ہر انسان کی تخلیق میں دنیا بھر کے اجزاء اور ذرات کی شمولیت :۔- اور اگر غور کیا جائے تو یہ اخلاط اربعہ مذکورہ بھی اقسام غذا سے حاصل ہوتے ہیں اور ہر انسان کی غذا میں غور کیا جائے تو اس میں دور دراز نلکوں اور خطوں کے اجزاء آب و ہوا وغیرہ کے ذریعہ شامل ہوتے ہیں اس طرح ایک انسان کے موجودہ جسم کا تجزیہ اور تحلیل کی جائے تو معلوم ہوگا کہ وہ ایسے اجزاء اور ذرات کا مجموعہ ہے جو دنیا کے گوشہ گوشہ میں بکھرے ہوئے تھے۔ قدرت کے نظام عجیب نے حیرت انگیز طریقہ پر ان کو اس کے وجود میں سمویا ہے۔ اگر امشاج کا مطلب یہ لیا جائے تو اس جگہ لفظ امشاج کے ذکر سے منکرین قیامت کے سب سے بڑے شبہ کا ازالہ بھی ہوجائے گا کیونکہ ان خداناشناس لوگوں کے نزدیک قیامت قائم ہونے اور مردوں کے دوبارہ زندہ ہونے میں سب سے بڑا اشکال یہی ہے کہ انسان مر کر مٹی اور پھر ریزہ ریزہ ہو کر دنیا میں بکھر جاتا ہے ان کو دوبارہ جمع کرنا پھر ان میں روح ڈالنا ان کے نزدیک گویا ناممکن ہے۔- امشاج بمعنے اخلاط کی تفسیر میں ان کے اس شبہ کا ایک واضح جواب ہے کہ ابتدائی تخلیق انسانی میں بھی تو دنیا بھر کے اجزاء و ذرات شامل تھے جس کو یہ ابتدائی تخلیق مشکل نہ ہوئی اس کے لئے اس کا دوبارہ پیدا کرنا کیوں مشکل ہوگیا اور اس تفسیر پر لفظ امشاج کا اس جگہ اضافہ بھی ایک مستقل فائدہ کے لئے ہوسکتا ہے واللہ اعلم۔- نبتلیہ ابتلاء سے مشتق ہے جس کے معنی امتحان اور آزمائش کے ہیں یہ تخلیق انسانی کی غرض و حکمت کا بیان ہے کہ انسان کو اس شان کیساتھ پیدا کرنے کا مقصد اس کی آزمائش ہے جس کا بیان اگلی آیتوں میں آیا ہے کہ ہم نے انبیاء اور آسمانی کتابوں کے ذریعہ اس کو راستہ دکھلا دیا کہ یہ راستہ جنت کی طرف اور دوسرا دوزخ کی طرف جاتا ہے اور اسے اختیار دے دیا کہ ان میں سے جس کو چاہے اختیار کرے چناچہ ان میں دو گرو ہوگئے اِمَّا شَاكِرًا وَّاِمَّا كَفُوْرًا یعنی ایک گروہ ان لوگوں کا ہوا جنہوں نے اپنے پیدا کرنے والے اور نعمت دینے والے کو پہچان کر اس کا شکرادا کیا اور اس پر ایمان لایا دوسرا گروہ وہ ہوا جس نے اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کی اور کافر رہا۔ اس کے بعد ان دونوں گروہوں کی جزا اور انجام کا ذکر فرمایا کہ کافروں کے لئے زنجیریں اور طوق اور جہنم ہے اور ابرار یعنی ایمان و اطاعت کے پابند لوگوں کے لئے بڑی نعمتیں ہیں سب سے پہلے پینے کی چیزوں کا ذکر فرمایا کہ ان کو ایسا جام شراب دیا جائے گا جس میں کافور کی آمیزش ہوگی (يَشْرَبُوْنَ مِنْ كَاْسٍ كَانَ مِزَاجُهَا كَافُوْرًا) بعض مفسرین نے فرمایا کہ کافور جنت کے ایک چشمہ کا نام ہے اس شراب میں لذت و کیفیت بڑھانے کے لئے اس چشمہ کا پانی شامل کیا جائے گا اور کافور کے مشہور معنے لئے جاویں تو یہ ضروری نہیں کہ جنت کا کا فور بھی دنیا کے کافور کی طرح ہو کھانے پینے کے قابل نہ ہو اس کافور کی خصوصیات جدا ہوں۔
اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَۃٍ اَمْشَاجٍ ٠ ۤ ۖ نَّبْتَلِيْہِ فَجَعَلْنٰہُ سَمِيْعًۢا بَصِيْرًا ٢- خلق - الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] ، أي : أبدعهما، - ( خ ل ق ) الخلق - ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے - نطف - النُّطْفَةُ : الماءُ الصافي، ويُعَبَّرُ بها عن ماء الرَّجُل . قال تعالی: ثُمَّ جَعَلْناهُ نُطْفَةً فِي قَرارٍ مَكِينٍ- [ المؤمنون 13] ، وقال : مِنْ نُطْفَةٍ أَمْشاجٍ [ الإنسان 2] ، أَلَمْ يَكُ نُطْفَةً مِنْ مَنِيٍّ يُمْنى [ القیامة 37] ويُكَنَّى عن اللُّؤْلُؤَةِ بالنَّطَفَة، ومنه : صَبِيٌّ مُنَطَّفٌ: إذا کان في أُذُنِهِ لُؤْلُؤَةٌ ، والنَّطَفُ : اللُّؤْلُؤ . الواحدةُ : نُطْفَةٌ ، ولیلة نَطُوفٌ: يجيء فيها المطرُ حتی الصباح، والنَّاطِفُ : السائلُ من المائعات، ومنه : النَّاطِفُ المعروفُ ، وفلانٌ مَنْطِفُ المعروف، وفلان يَنْطِفُ بسُوء کذلک کقولک : يُنَدِّي به .- ( ن ط ف ) النطفۃ - ۔ ضمہ نون اصل میں تو آب صافی کو کہتے ہیں مگر اس سے مرد کی منی مراد لی جاتی ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ ثُمَّ جَعَلْناهُ نُطْفَةً فِي قَرارٍ مَكِينٍ [ المؤمنون 13] پھر اس کو ایک مضبوط اور محفوظ جگہ ہیں نطفہ بنا کر رکھا ۔ مِنْ نُطْفَةٍ أَمْشاجٍ [ الإنسان 2] نطفہ مخلوط سے أَلَمْ يَكُ نُطْفَةً مِنْ مَنِيٍّ يُمْنى [ القیامة 37] کیا وہ منی کا جور رحم میں ڈالی جاتی ہے ایک قطرہ نہ تھا ۔ اور کنایۃ کے طور پر موتی کو بھی نطمۃ کہا جاتا ہے اسی سے صبی منطف ہے یعنی وہ لڑکا جس نے کانوں میں موتی پہنے ہوئے ہوں ۔ النطف کے معنی ڈول کے ہیں اس کا واحد بھی نطفۃ ہی آتا ہے اور لیلۃ نطوف کے معنی بر سات کی رات کے ہیں جس میں صبح تک متواتر بارش ہوتی رہے ۔ الناطف سیال چیز کو کہتے ہیں اسی سے ناطف بمعنی شکر ینہ ہے اور فلان منطف المعروف کے معنی ہیں فلاں اچھی شہرت کا مالک ہے اور فلان ینطف بسوء کے معنی برائی کے ساتھ آلودہ ہونے کے ہیں جیسا کہ فلان یندی بہ کا محاورہ ہے ۔- مشج - قال تعالی: مِنْ نُطْفَةٍ أَمْشاجٍ نَبْتَلِيهِ [ الإنسان 2] . أي : أخلاط من الدّم، وذلک عبارة عمّا جعله اللہ تعالیٰ بالنّطفة من القوی المختلفة المشار إليها بقوله : وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسانَ مِنْ سُلالَةٍ إلى قوله خَلْقاً آخَرَ [ المؤمنون 12- 14]- ( م ش ج ) المشیح مخلوط ج امشاں قرآن میں ہے : ۔ مِنْ نُطْفَةٍ أَمْشاجٍ نَبْتَلِيهِ [ الإنسان 2] نطفہ مخلوط سے پیدا کیا تاکہ اسے آز مائیں ۔ یعنی خون کی مختلف خلطوں سے اور مختلف خلطوں سے مختلف قوی مراد ہیں جن کی طرف کہ آیت : ۔ وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسانَ مِنْ سُلالَةٍ إلى قوله خَلْقاً آخَرَ [ المؤمنون 12- 14] اور ہم نے انسان کو مٹی کے خلاصہ سے پیدا کیا ۔ میں اشارہ پایا جاتا ہے ۔- بلی - يقال : بَلِيَ الثوب بِلًى وبَلَاءً ، أي : خلق، ومنه قيل لمن سافر : بلو سفر وبلي سفر، أي :- أبلاه السفر، وبَلَوْتُهُ : اختبرته كأني أخلقته من کثرة اختباري له، وقرئ : هُنالِكَ تَبْلُوا كُلُّ نَفْسٍ ما أَسْلَفَتْ [يونس 30] ، أي : تعرف حقیقة ما عملت، ولذلک قيل : بلوت فلانا : إذا اختبرته، وسمّي الغم بلاءً من حيث إنه يبلي الجسم، قال تعالی: وَفِي ذلِكُمْ بَلاءٌ مِنْ رَبِّكُمْ عَظِيمٌ [ البقرة 49] - ( ب ل ی )- بلی الثوب ۔ بلی وبلاء کے معنی کپڑے کا بوسیدہ اور پرانا ہونے کے ہیں اسی سے بلاہ السفرہ ای ابلاہ ۔ کا تج اور ہ ہے ۔ یعنی سفر نے لا غر کردیا ہے اور بلو تہ کے معنی ہیں میں نے اسے آزمایا ۔ گویا کثرت آزمائش سے میں نے اسے کہنہ کردیا اور آیت کریمہ : هُنالِكَ تَبْلُوا كُلُّ نَفْسٍ ما أَسْلَفَتْ «3» [يونس 30] وہاں ہر شخص ( اپنے اعمال کی ) جو اس نے آگے بھیجے ہوں گے آزمائش کرلے گا ۔ میں ایک قرآت نبلوا ( بصیغہ جمع متکلم ) بھی ہے اور معنی یہ ہیں کہ وہاں ہم ہر نفس کے اعمال کی حقیقت کو پہنچان لیں گے اور اسی سے ابلیت فلان کے معنی کسی کا امتحان کرنا بھی آتے ہیں ۔ اور غم کو بلاء کہا جاتا ہے کیونکہ وہ جسم کو کھلا کر لاغر کردیتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ وَفِي ذلِكُمْ بَلاءٌ مِنْ رَبِّكُمْ عَظِيمٌ [ البقرة 49] اور اس میں تمہارے پروردگار کی طرف سے بڑی دسخت آزمائش تھی ۔- سمع - السَّمْعُ : قوّة في الأذن به يدرک الأصوات، وفعله يقال له السَّمْعُ أيضا، وقد سمع سمعا .- ويعبّر تارة بالسمّع عن الأذن نحو : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ- [ البقرة 7] ، وتارة عن فعله كَالسَّمَاعِ نحو : إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء 212] ، وقال تعالی: أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق 37] ، وتارة عن الفهم، وتارة عن الطاعة، تقول : اسْمَعْ ما أقول لك، ولم تسمع ما قلت، وتعني لم تفهم، قال تعالی: وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال 31] ، - ( س م ع ) السمع ۔ قوت سامعہ - ۔ کا ن میں ایک حاسہ کا نام ہے جس کے ذریعہ آوازوں کا اور اک ہوتا ہے اداس کے معنی سننا ( مصدر ) بھی آتے ہیں اور کبھی اس سے خود کان مراد لیا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة 7] خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ اور کبھی لفظ سماع کی طرح اس سے مصدر ی معنی مراد ہوتے ہیں ( یعنی سننا ) چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء 212] وہ ( آسمائی باتوں کے ) سننے ( کے مقامات ) سے الگ کردیئے گئے ہیں ۔ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق 37] یا دل سے متوجہ ہو کر سنتا ہے ۔ اور کبھی سمع کے معنی فہم و تدبر اور کبھی طاعت بھی آجاتے ہیں مثلا تم کہو ۔ اسمع ما اقول لک میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو لم تسمع ماقلت لک تم نے میری بات سمجھی نہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال 31] اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں ( یہ کلام ) ہم نے سن لیا ہے اگر چاہیں تو اسی طرح کا ( کلام ) ہم بھی کہدیں ۔ - بصر - البَصَر يقال للجارحة الناظرة، نحو قوله تعالی: كَلَمْحِ الْبَصَرِ [ النحل 77] ، ووَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب 10] - ( ب ص ر) البصر - کے معنی آنکھ کے ہیں جیسے فرمایا ؛کلمح البصر (54 ۔ 50) آنکھ کے جھپکنے کی طرح ۔- وَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب 10] اور جب آنگھیں پھر گئیں ۔ نیز قوت بینائی کو بصر کہہ لیتے ہیں اور دل کی بینائی پر بصرہ اور بصیرت دونوں لفظ بولے جاتے ہیں قرآن میں ہے :۔ فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق 22] اب ہم نے تجھ پر سے وہ اٹھا دیا تو آج تیری نگاہ تیز ہے ۔
اور ہم نے اولاد آدم کو حضرت آدم اور حوا سے پیدا کیا یا یہ کہ مختلف مخلوط نطفہ سے پیدا کیا، کیونکہ مرد کی منی سفید گاڑھی ہوتی ہے اور عورت کی منی زردی مائل اور پتلی ہوتی ہے اور بچہ دونوں کی منی سے پیدا ہوتا ہے اس طور پر کہ ہم سختی اور فراخی سے یا یہ کہ نیکی اور برائی کے ذریعے سے آزمائیں پھر ہم نے اس کو قوت سماعت عطا کی تاکہ حق و ہدایت کی بات سنے اور بینائی عطا کی تاکہ حق و ہدایت کو دیکھے۔
آیت ٢ اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَۃٍ اَمْشَاجٍ ” ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے ملے جلے نطفے سے “- موجودہ دور میں سائنس نے اس آیت کا مفہوم بہت اچھی طرح واضح کردیا ہے کہ مرد کی طرف سے اور ماں کی طرف سے ملتے ہیں تو وجود میں آتا ہے۔ لیکنظاہر ہے پندرہ سو سال پہلے صحرائے عرب کا ایک بدو تو لفظ ” اَمْشَاج “ کو اپنی سمجھ اور عقل کے مطابق ہی سمجھا ہوگا۔ گویا قرآن مجید کے اعجاز کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اس کے الفاظ کا مفہوم ہر زمانے کے ہر قسم کے انسانوں کے لیے قابل فہم رہا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان الفاظ کے معانی و مطالب میں نئی نئی جہتیں بھی دریافت ہوتی رہتی ہیں۔ - نَّـبْـتَلِیْہِ ” ہم اس کو الٹتے پلٹتے رہے “- یعنی رحم مادر میں ہم نے اس ” نُطْفَۃٍ اَمْشَاج “ کو مختلف مراحل سے گزارا۔ نطفہ سے اسے علقہ بنایا۔ علقہ کو مغضہ کی شکل میں تبدیل کیا اور پھر اس کے اعضاء درست کیے۔ ” نَـبْـتَلِیْہِ “ کا دوسرا مفہوم یہ بھی ہے ” تاکہ ہم اس کو آزمائیں “۔ یعنی ہم نے انسان کو امتحان اور آزمائش کے لیے پیدا کیا ہے۔- فَجَعَلْنٰـہُ سَمِیْعًام بَصِیْرًا ۔ ” پھر ہم نے اس کو بنا دیا سننے والا ‘ دیکھنے والا۔ “
سورة الدَّهْر حاشیہ نمبر :3 یہ ہے دنیا میں انسان ، اور انسان کے لیے دنیا کی اصل حیثیت ۔ وہ درختوں اور جانوروں کی طرح نہیں ہے کہ اس کا مقصد تخلیق یہیں پورا ہو جائے اور قانون فطرت کے مطابق ایک مدت تک اپنے حصے کا کام کر کے وہ یہیں مرکر فنا ہو جائے ۔ نیز یہ دنیا اس کے لیے نہ دار العذاب ہے ، جیسا کہ راہب سمجھتے ہیں ، نہ دار الجزا ہے جیسا کہ تناسخ کے قائلین سمجھتے ہیں ، نہ چراگاہ اور تفرگاہ ہے ، جیسا کہ مادہ پرست سمجھتے ہیں اور نہ رزم گاہ ، جیسا کہ ڈارون اور مارکس کے پیرو سمجھتے ہیں ، بلکہ دراصل یہ اس کے لیے ایک امتحان گاہ ہے ۔ وہ جس چیز کو عمر سمجھتا ہے حقیقت میں وہ امتحان کا وقت ہے جو اسے یہاں دیا گیا ہے ۔ دنیا میں جو قوتیں اور صلاحتیں بھی اس کو دی گئی ہیں ، جن چیزوں پر بھی اس کو تصرف کے مواقع دیے گئے ہیں ، جن حیثیتوں میں بھی وہ یہاں کام کر رہا ہے اور جو تعلقات بھی اس کے اور دوسرے انسانوں کے درمیان ہیں ، وہ سب اصل میں امتحان کے بے شمار پرچے ہیں ، اور زندگی کے آخری سانس تک اس امتحان کا سلسلہ جاری ہے ۔ نتیجہ اس کا دنیا میں نہیں نکلنا ہے بلکہ آخرت میں اس کے تمام پرچوں کو جانچ کر یہ فیصلہ ہونا ہے کہ وہ کامیاب ہوا ہے یا ناکام ۔ اور اس کی کامیابی و ناکامی کا سارا انحصار اس پر ہے کہ اس نے اپنے آپ کو کیا سمجھتے ہوئے یہاں کام کیا ، اور کس طرح امتحان کے وہ پرچے کیے جو اسے یہاں دیے گئے تھے ۔ اگر اس نے اپنے آپ کو بے خدایا بہت سے خداؤوں کا بندہ سمجھا ، اور سارے پرچے یہ سمجھتے ہوئے کیے کہ آخرت میں اسے اپنے خالق کے سامنے کوئی جوابدہی نہیں کرنی ہے ، تو اس کا سارا کارنامہ زندگی غلط ہو گیا اور ا گر اس نے اپنے آپ کو خدائے واحد کا بندہ سمجھ کر اس طریقے پر کام کیا جو خدا کی مرضی کے مطابق ہو اور آخرت کی جوابدہی کو پیش نظر رکھا تو وہ امتحان میں کامیاب ہو گیا ۔ ( یہ مضمون قرآن مجید میں اس کثرت کے ساتھ اور ر اتنی تفصیلات کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ ان سب مقامات کا حوالہ دینا یہاں مشکل ہے ۔ جو حضرات اسے پوری طرح سمجھنا چاہتے ہوں وہ تفہیم القرآن کی ہر جلد کے آخر میں فہرست موضوعات کے اندر لفظ آزمائش نکال کر وہ تمام مقامات دیکھ لیں جہاں قرآن میں مختلف پہلوؤں سے اس کی وضاحت کی گئی ہے ۔ قرآن کے سوا دنیا کی کوئی کتاب ایسی نہیں ہے جس میں یہ حقیقت اتنی وضاحت کے ساتھ بیان کی گئی ہو ) ۔ سورة الدَّهْر حاشیہ نمبر :4 اصل میں فرمایا گیا ہے ہم نے اسے سمیع و بصیر بنایا ۔ اس کا مفہوم صحیح طور پر ہوش گوش رکھنے والا بنایا سے ادا ہوتا ہے ، لیکن ہم نے ترجمے کی رعایت سے سمیع کے معنی سننے والا اور بصیر کے معنی دیکھنے والا کیے ہیں ۔ اگرچہ عربی زبان کے ان الفاظ کا لفظی ترجمہ یہی ہے مگر ہر عربی دان جانتا ہے کہ حیوان کے لیے سمیع اور بصیر کے الفاظ کبھی استعمال نہیں ہوتے ، حالانکہ وہ بھی سننے اور دیکھنے والا ہوتا ہے ۔ پس سننے اور دیکھنے سے مراد یہاں سماعت اور بینائی کی وہ قوتیں نہیں ہیں جو حیوانات کو بھی دی گئی ہیں ، بلکہ اس سے مراد وہ ذرائع ہیں جن سے انسان علم حاصل کرتا اور ر پھر اس سے نتائج اخذ کرتا ہے ۔ علاوہ بریں سماعت اور بصارت انسان کے ذرائع علم میں چونکہ سب سے زیادہ اہم ہیں اس لیے اختصار کے طور پر صرف انہی کا ذکر کیا گیا ہے ، ورنہ اصل مراد انسان کو وہ تمام حواس عطا کرنا ہے جن کے ذریعہ سے وہ معلومات حاصل کرتا ہے ۔ پھر انسان کو جو حواس دیے گئے ہیں وہ اپنی نوعیت میں ان حواس سے بالکل مختلف ہیں جو حیوانات کو دیئے گئے ہیں کیونکہ اس کے ہر حاسہ کے پیچھے ایک سوچنے والا دماغ موجود ہوتا ہے جو حواس کے ذریعہ سے آنے والی معلومات کو جمع کر کے اور ان کو ترتیب دے کر ان سے نتائج نکالتا ہے ، رائے قائم کرتا ہے اور پھر کچھ فیصلوں پر پہنچتا ہے جن پر اس کا رویہ زندگی مبنی ہوتا ہے ۔ لہذا یہ کہنے کے بعد کہ انسان کو پیدا کر کے ہم اس کا امتحان لینا چاہتے تھے یہ ارشاد فرمانا کہ اسی غرض کے لیے ہم نے اسے سمیع و بصیر بنایا ، دراصل یہ معنی رکھتا ہے کہ اللہ تعالی نے اسے علم اور عقل کی طاقتیں دیں تاکہ وہ ا متحان دینے کے قابل ہو سکے ۔ ظاہر ہے کہ اگر مقصود کلام یہ نہ ہو اور سمیع و بصیر بنانے کا مطلب محض سماعت و بینائی کی قوتیں رکھنے والا ہی ہو تو ایک اندھا اور بہرا آدمی تو پھر امتحان سے مستثنیٰ ہو جاتا ہے حالانکہ جب تک کوئی علم و عقل سے بالکل محروم نہ ہو ، امتحان سے اس کے مستثنیٰ ہونے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا ۔
1: یعنی مرد اور عورت کے ملے جلے اجزا سے پیدا کیا۔