Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

3۔ 1 یعنی مذکورہ قوتوں اور صلاحیتوں کے علاوہ ہم نے خود بھی انبیاء علیہ السلام، اپنی کتابوں اور داعیان حق کے ذریعے سے صحیح راستے کو بیان اور واضح کردیا ہے اب یہ اس کی مرضی ہے کہ اطاعت الہی کا راستہ اختیار کر کے شکر گزار بندہ بن جائے یا معصیت کا راستہ اختیار کر کے اس کا ناشکرا بن جائے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤] انسان کی ہدایت کے لیے کون کون سے ذرائع اللہ نے بنائے ہیں ؟:۔] راہ دکھانے کی بیشمار صورتیں ہیں۔ مثلاً :- ١۔ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو فطرت سلیمہ پر پیدا کیا ہے۔ جس کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اپنے خالق ومالک کا حق پہچانے۔ اسی چیز کو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں عہدالست سے تعبیر فرمایا ہے۔- ٢۔ ہر انسان میں برے اور بھلے کی تمیز رکھ دی گئی ہے یہی وجہ ہے کہ جب انسان کوئی برا کام کرتا ہے تو اس کا ضمیر اسے ملامت کرنے لگتا ہے۔- ٣۔ انسان جب مصائب میں گھر جاتا ہے تو غیر شعوری اور اضطراری طور پر اس کی نگاہیں اپنے خالق کی طرف اٹھ جاتی ہیں اور وہ فریاد کے لیے اسے پکارنے لگتا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ مشکلات میں اپنے خالق یا کسی ان دیکھی بالاتر قوت پر تکیہ کرنا انسان کی فطرت میں داخل ہے۔- ٤۔ کائنات میں اللہ تعالیٰ کی ہر سو بکھری ہوئی آیات پر غور کرنے سے بھی انسان کو ایک ایسی عظیم، مقتدر اور بالاتر ہستی کا قائل ہونا پڑتا ہے۔ جو اس کائنات کا نہایت مربوط نظم و نسق چلا رہی ہے اور انسان کو یہ یقین کرنا پڑتا ہے کہ خود اس ہستی کے دائرہ اقتدار سے کسی صورت باہر نہیں نکل سکتا۔ لہذا اس کی اطاعت کے بغیر اس کے لیے کوئی دوسرا چارہ کار نہیں۔- ٥۔ وہ کائنات میں یہ منظر بھی دیکھتا ہے کہ بعض ظالم زندگی بھر ظلم و جور کے طوفان اٹھانے کے بعد اس دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں اور انہیں کوئی سزا نہیں ملتی۔ اسی طرح بعض انسان ساری زندگی انسانیت کی خدمت میں گزار کر اور مصیبتیں سہہ سہہ کر دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں اور انہیں کوئی صلہ نہیں ملتا۔ حالانکہ یہ نظام کائنات انتہائی عدل اور توازن و تناسب پر قائم ہے جس سے وہ اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ انسان کو یقیناً ایک دوسری زندگی بھی مہیا کی جانی چاہیے جس میں عدل و انصاف کے تقاضے پورے کئے جاسکیں اور - ٦۔ ان سب ذرائع سے بڑھ کر اللہ نے انسان کی ہدایت کا یہ اہتمام فرمایا کہ انبیاء اور کتابیں ہر دور میں بھیج کر انسانوں پر اتمام حجت کردی۔ ان سب باتوں کے بعد انسان کو اس کے حال پر چھوڑ دیا کہ اب وہ اپنے اختیار کا صحیح استعمال کرکے اس کا فرمانبردار اور شکرگزار بندہ بننا چاہتا ہے یا دنیا کی دلکشی میں مست ہو کر اللہ کو بھول جاتا یا اس کی سرکشی کی راہ اختیار کرکے نمک حرام بن جاتا ہے۔- [٥] یہ دنیا نہ دارا لجزاء ہے نہ دارالعیش بلکہ دارالعمل ہے :۔ اس دنیا میں انسان کی تخلیق کا ٹھیک مقصد یہ ہے کہ یہ دنیا اس کے لیے دارالامتحان ہے۔ جہاں اس کی یہ آزمائش مقصود ہے کہ وہ اچھے یا برے کیسے اعمال بجا لاتا ہے ؟۔ یہ دنیا دارالجزاء نہیں ہے کہ ہر ظالم کو یہاں فوراً سزا مل جائے یا نیک آدمی کو اس کی نیکی کا فوری طور پر بدلہ مل جائے۔ یہ دارالعذاب بھی نہیں ہے۔ - خ رُہبان اہل تناسخ اور اشتراکی نظریات کی تردید :۔ جیسا کہ اہل طریقت، رہبان اور درویش قسم کے لوگوں کا خیال ہے کہ جسم کو عذاب دے دے کر روح کی ترقی کی منزلیں تلاش کرتے پھرتے ہیں۔ نیز یہ دنیا اہل تناسخ کے نظریہ کے مطابق دارالجزاء بھی نہیں ہے کہ انسان اگر اپنی پہلی جون (زندگی) میں گناہ کرتا رہا ہے تو اب اس کی روح کسی ناپاک جسم مثلاً کتے یا سور میں ڈال دی جائے گی یا اگر وہ پچھلی جون میں نیک اعمال بجا لاتا رہا ہے تو اس کی روح کسی مہاتما کے جسم میں ڈال دی جائے گی۔ نیز یہ دنیا دہریوں، آخرت کے منکروں اور دنیا داروں کے نظریہ کے مطابق دارالعیش یا تفریح گاہ بھی نہیں ہے کہ انسان یہاں جیسے جی چاہے زندگی گزار کر چلتا بنے اور اس کے اعمال پر اس سے کوئی بازپرس کرنے والا نہ ہو۔ نیز یہ دنیا جدلیاتی کشمکش کا میدان بھی نہیں ہے جیسا کہ ڈارون اور کارل مارکس کے پیروکار سمجھتے ہیں۔ بلکہ یہ دنیا انسان کے لیے دارالامتحان ہے۔ جہاں وہ جیسا بوئے گا آخرت میں ویسا ہی کاٹے گا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

(١) انا ھدینہ السبیل : یعنی ہم نے انسان کی آزمائش کرتے ہوئے اسے صرف سمع و بصر اور عقل کی نعمت عطا کرنے ہی پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ اسے صحیح اور غلط راستہ بتانے کا اہتمام بھی کیا ہے۔ نیکی و بدی کی یہ تمیز اس کی فطرت میں بھی رکھی ہے، جس کی وجہ سے اچھے کام اس کے لئے معروف صبح نے پہچانے) اور برے کام منکر (نہ پہچانے ہوئے) ہیں اور انبیاء (علیہ السلام) کے ذریعے سے بھی اسے نیکی و بدی کا راستہ بتایا ہے۔- (٢) اما شاکراً و اما کفوراً : سمع و بصر، عقل و فہم، فطرت انسانی اور انبیاء (علیہ السلام) کے ذریعے سے ملنے والی آسمانی رہنمائی کے بعد انسان کے لئے صحیح راستہ بالکل واضح ہوجاتا ہے۔ اب اس کی مرضی ہے کہ اسے راستے پر چل کر اس کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے والا بن جائے، یا وہ سیدھا ترک کر کے اس کی نعمتوں کی ناشکری اور کفر کرنے والا بن جائے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِنَّا ہَدَيْنٰہُ السَّبِيْلَ اِمَّا شَاكِرًا وَّاِمَّا كَفُوْرًا۝ ٣- هدى- الهداية دلالة بلطف،- وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه :- الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل،- والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى- [ طه 50] .- الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء،- وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا - [ الأنبیاء 73] .- الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی،- وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن 11] - الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ- بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43]. - ( ھ د ی ) الھدایتہ - کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔- انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے - ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے - اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی - ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت - کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ - ( 3 ) سوم بمعنی توفیق - خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔- ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا - مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف 43] میں فرمایا ۔- سبل - السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] - ( س ب ل ) السبیل - ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل 15] دریا اور راستے ۔- شكر - الشُّكْرُ : تصوّر النّعمة وإظهارها، قيل : وهو مقلوب عن الکشر، أي : الکشف، ويضادّه الکفر، وهو : نسیان النّعمة وسترها، ودابّة شکور : مظهرة بسمنها إسداء صاحبها إليها، وقیل : أصله من عين شكرى، أي :- ممتلئة، فَالشُّكْرُ علی هذا هو الامتلاء من ذکر المنعم عليه . - والشُّكْرُ ثلاثة أضرب :- شُكْرُ القلب، وهو تصوّر النّعمة .- وشُكْرُ اللّسان، وهو الثّناء علی المنعم .- وشُكْرُ سائر الجوارح، وهو مکافأة النّعمة بقدر استحقاقه .- وقوله تعالی: اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ 13] ،- ( ش ک ر ) الشکر - کے معنی کسی نعمت کا تصور اور اس کے اظہار کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ کشر سے مقلوب ہے جس کے معنی کشف یعنی کھولنا کے ہیں ۔ شکر کی ضد کفر ہے ۔ جس کے معنی نعمت کو بھلا دینے اور اسے چھپا رکھنے کے ہیں اور دابۃ شکور اس چوپائے کو کہتے ہیں جو اپنی فربہی سے یہ ظاہر کر رہا ہو کہ اس کے مالک نے اس کی خوب پرورش اور حفاظت کی ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ عین شکریٰ سے ماخوذ ہے جس کے معنی آنسووں سے بھرپور آنکھ کے ہیں اس لحاظ سے شکر کے معنی ہوں گے منعم کے ذکر سے بھرجانا ۔ - شکر تین قسم پر ہے - شکر قلبی یعنی نعمت کا تصور کرنا شکر لسانی یعنی زبان سے منعم کی تعریف کرنا شکر بالجوارح یعنی بقدر استحقاق نعمت کی مکانات کرنا ۔ اور آیت کریمہ : اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ 13] اسے داود کی آل میرا شکر کرو ۔- كفر ( ناشکري)- الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وكُفْرُ النّعمة وكُفْرَانُهَا : سترها بترک أداء شكرها، قال تعالی: فَلا كُفْرانَ لِسَعْيِهِ [ الأنبیاء 94] . وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] ، فَأَبى أَكْثَرُ النَّاسِ إِلَّا كُفُوراً [ الفرقان 50] ويقال منهما : كَفَرَ فهو كَافِرٌ. قال في الکفران : لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ وَمَنْ شَكَرَ فَإِنَّما يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل 40] ، وقال : وَاشْكُرُوا لِي وَلا تَكْفُرُونِ [ البقرة 152]- ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ کفر یا کفر ان نعمت کی ناشکری کر کے اسے چھپانے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَلا كُفْرانَ لِسَعْيِهِ [ الأنبیاء 94] ؂ تو اس کی کوشش رائگاں نہ جائے گی ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا فَأَبى أَكْثَرُ النَّاسِ إِلَّا كُفُوراً [ الفرقان 50] مگر اکثر لوگوں نے انکار کرنے کے سوا قبول نہ کیا ۔ اور فعل کفر فھوا کافر ہر دو معانی کے لئے آتا ہے ۔ چناچہ معنی کفران کے متعلق فرمایا : ۔- لِيَبْلُوَنِي أَأَشْكُرُ أَمْ أَكْفُرُ وَمَنْ شَكَرَ فَإِنَّما يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل 40] تاکہ مجھے آز مائے کر میں شکر کرتا ہوں یا کفران نعمت کرتا ہوم ۔ اور جو شکر کرتا ہے تو اپنے ہی فائدے کے لئے شکر کرتا ہے ۔ اور جو ناشکری کرتا ہے ۔ تو میرا پروردگار بےپروا اور کرم کر نیوالا ہے ۔ وَاشْكُرُوا لِي وَلا تَكْفُرُونِ [ البقرة 152] اور میرا احسان مانتے رہنا اور ناشکری نہ کرنا ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

ہم نے اس کو ایمان و کفر کا اور نیکی و برائی کا راستہ بتلا دیا یا تو وہ شکر گزار مومن ہوگیا یا ناشکرا کافر یا یہ مطلب ہے کہ ہم نے اس کو شکر گزاروں یا ناشکروں کا راستہ دکھلا دیا۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٣ اِنَّا ہَدَیْنٰـہُ السَّبِیْلَ ” ہم نے اس کو راہ سجھا دی “- اس سے مراد ” ایمان “ سے متعلق وہ شعور یا وہ ہدایت اور راہنمائی ہے جو ہر انسان کی فطرت کے اندر پیدائشی طور پر موجود ہے۔ یعنی انسان اندھا اور بہرہ پیدا نہیں ہوا ‘ بلکہ اللہ تعالیٰ نے اسے ظاہری اور باطنی طور پر بہترین صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ جسمانی حواس بھی دیے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ اسے روح کی بصیرت بھی عطا کی ہے۔ - اِمَّا شَاکِرًا وَّاِمَّا کَفُوْرًا ۔ ” اب چاہے تو وہ شکر گزار بن کر رہے ‘ چاہے ناشکرا ہوکر۔ “- اب ظاہر ہے جس انداز اور طریقے سے انسان زندگی گزارے گا ‘ اسی کے مطابق آخرت میں اس کو بدلہ دیا جائے گا۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الدَّهْر حاشیہ نمبر :5 یعنی ہم نے اسے محض علم و عقل کی قوتیں دے کر ہی نہیں چھوڑ دیا ، بلکہ ساتھ ساتھ اس کی رہنمائی بھی کی تاکہ اسے معلوم ہو جائے کہ شکر کا راستہ کونسا ہے اور کفر کاراستہ کونسا ، اور اس کے بعد جو راستہ بھی وہ اختیار کرے اس کا ذمہ دار وہ خود ہو ۔ سورہ بلد میں یہی مضمون ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے وھدینہ النجدین ۔ اور ہم نے اسے دونوں راستے ( یعنی خیر و شر کے راستے ) نمایاں کر کے بتا دیے ۔ اور سورہ شمس میں یہی بات اس طرح بیان کی گئی ہے و نفس و ما سوھا فالھمھا فجورھا و تقوھا ، اور قسم ہے ( انسان کے ) نفس کو اور اس ذات کی جس نے اسے ( تمام ظاہری و باطنی قوتوں کے ساتھ ) استوار کیا ، پھر اس کا فجور اور اس کا تقوی دونوں اس پر الہام کر دیے ۔ ان تمام تصریحات کو نگاہ میں رکھ کر دیکھا جائے اور ساتھ ساتھ قرآن مجید کے ان تفصیلی بیانات کو بھی نگاہ میں رکھا جائے جن میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالی نے انسان کی ہدایت کے لیے دنیا میں کیا کیا انتظامات کیے ہیں تو معلوم ہو جاتا ہے کہ اس آیت میں راستہ دکھانے سے مراد رہنمائی کی کوئی ایک ہی صورت نہیں ہے بلکہ بہت سی صورتیں ہیں جن کی کوئی حدو نہایت نہیں ہے ۔ مثال کے طور پر: ( 1 ) ہر انسان کو علم و عقل کی صلاحیتیں دینے کے ساتھ ایک اخلاقی حس بھی دی گئی ہے جس کی بدولت وہ فطری طور پر بھلائی اور برائی میں امتیاز کرتا ہے بعض افعال اور اوصاف کو برا جانتا ہے اگرچہ وہ خود ان میں مبتلا ہو ، اور بعض افعال و اوصاف کو اچھا جانتا ہے اگرچہ وہ خود ان سے اجتناب کر رہا ہو ۔ حتی کہ جن لوگوں نے اپنی اغراض و خواہشات کی خاطر ایسے فلسفے گھڑ لیے ہیں جن کی بنا پر بہت سی برائیوں کو انہوں نے اپنے لیے حلال کر لیا ہے ، ان کا حال بھی یہ ہے کہ و ہی برائیاں اگر کوئی دوسرا ان کے ساتھ کرے تو وہ اس پر چیخ اٹھتے ہیں اور اس وقت معلوم ہو جاتا ہے کہ اپنے جھوٹے فلسفوں کے باوجود حقیقت میں وہ ان کو برا ہی سمجھتے ہیں ۔ اسی طرح نیک اعمال و اوصاف کو خواہ کسی نے جہالت اور حماقت اور دقیانوسیت ہی قرار دے رکھا ہو ، لیکن جب کسی انسان سے خود اس کی ذات کو کسی نیک سلوک کا فائدہ پہنچتا ہے تو اس کی فطرت اسے قابل قدر سمجھنے پر مجبور ہو جاتی ہے ۔ ( 2 ) ہر انسان کے اندر اللہ تعالی نے ضمیر ( نفس لوامہ ) نام کی ایک چیز رکھ دی ہے جو اسے ہر اس موقع پر ٹوکتی ہے جب وہ کوئی برائی کرنے والا ہو یا کر رہا ہو یا کر چکا ہو ۔ اس ضمیر کو خواہ انسان کتنی ہی تھپکیاں دے کر سلائے ، اور اس کو بے حس بنانے کی چاہے کتنی ہی کوشش کر لے ، لیکن وہ اسے بالکل فنا کر دینے پر قادر نہیں ہے ۔ وہ دنیا میں ڈھیٹ بن کر اپنے آپ کو قطعی بے ضمیر ثابت کر سکتا ہے ، وہ حجتیں بگھار کر دنیا کو دھوکا دینے کی بھی ہر کوشش کر سکتا ہے ، وہ اپنے نفس کو بھی فریب دینے کے لیے اپنے افعال کے لیے بے شمار عذرات تراش سکتا ہے ، مگر اس کے باوجود اللہ نے اس کی فطرت میں جو محاسب بٹھا رکھا ہے وہ اتنا جاندار ہے کہ کسی برے انسان سے یہ بات چھپی نہیں رہتی کہ وہ حقیقت میں کیا ہے ۔ یہی بات ہے جو سورہ قیامہ میں فرمائی گئی ہے کہ انسان خود اپنے آپ کو خوب جانتا ہے خواہ وہ کتنی ہی معذرتیں پیش کرے ۔ ( آیت 15 ) ۔ ( 3 ) انسان کے اپنے وجود میں اور اس کے گرد و پیش زمین سے لے کر آسمان تک ساری کائنات میں ہر طرف ایسی بے شمار نشانیاں پھیلی ہوئی ہیں جو خبر دے رہی ہیں کہ یہ سب کچھ کسی خدا کے بغیر نہیں ہو سکتا ، نہ بہت سے خدا اس کارخانہ ہستی کے بنانے والے اور چلانے والے ہو سکتے ہیں ۔ اس طرح آفاق اور انفس کی یہی نشانیاں قیامت اور آخرت پر بھی صریح دلالت کر رہی ہیں ۔ انسان اگر ان سے آنکھیں بند کر لے ، یا اپنی عقل سے کام لے کر ان پر غور نہ کرے ، یا جن حقائق کی نشاندہی یہ کر رہی ہیں ان کو تسلیم کرنے سے جی چرائے تو یہ اس کا اپنا قصور ہے ۔ اللہ تعالی نے اپنی طرف سے تو حقیقت کی خبر دینے والے نشانات اس کے سامنے رکھ دینے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی ہے ۔ ( 4 ) انسان کی اپنی زندگی میں ، اس کی ہم عصر دنیا میں ، اور اس سے پہلے گزری ہوئی تاریخ کے تجربات میں بے شمار واقعات ایسے پیش آتے ہیں اور آتے رہے ہیں جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ ایک بالا تر حکومت اس پر اور ساری کائنات پر فرمانروائی کر رہی ہے ، جس کے آگے وہ بالکل بے بس ہے ، جس کی مشیت ہر چیز پر غالب ہے ، اور جس کی مدد کا وہ محتاج ہے ۔ یہ تجربات و مشاہدات صرف خارج ہی میں اس حقیقت کی خبر دینے والے نہیں ہیں ، بلکہ انسان کی اپنی فطرت میں بھی اس بالاتر حکومت کے وجود کی شہادت موجود ہے جس کی بنا پر بڑے سے بڑا دہریہ بھی برا وقت آنے پر خدا کے آگے دعا کے لیے ہاتھ پھیلا دیتا ہے ، اور سخت سے سخت مشرک بھی سارے جھوٹے خداؤں کو چھوڑ کر ایک خدا کو پکارنے لگتا ہے ۔ ( 5 ) انسان کی عقل اور اس کی فطرت قطعی طور پر حکم لگاتی ہے کہ جرم کی سزا اور عمدہ خدمات کا صلہ ملنا ضروری ہے ۔ اسی بنا پر تو دنیا کے ہر معاشرے میں عدالت کا نظام کسی نہ کسی صورت میں قائم کیا جاتا ہے اور جن خدمات کو قابل تحسین سمجھا جاتا ہے ان کا صلہ دینے کی بھی کوئی نہ کوئی شکل اختیار کی جاتی ہے ۔ یہ اس بات کا صریح ثبوت ہے کہ اخلاق اور قانون مکافات کے درمیان ایک ایسا لازمی تعلق ہے جس سے انکار کرنا انسان کے لیے ممکن نہیں ہے ۔ اب اگر یہ مسلم ہے کہ اس دنیا میں بے شمار جرائم ایسے ہیں جن کی پوری سزا تو درکنار سرے سے کوئی سزا ہی نہیں دی جا سکتی ، اور بے شمار خدمات بھی ایسی ہیں جن کا پورا صلہ تو کیا ، کوئی صلہ بھی خدمت کرنے والے کو نہیں مل سکتا ، تو آخرت کو ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے ، الا یہ کہ کوئی بے وقوف یہ فرض کر لے ، یا کوئی ہٹ دھرم یہ رائے قائم کرنے پر اصرار کرے کہ انصاف کا تصور رکھنے والا انسان ایک ایسی دنیا میں پیدا ہو گیا ہے جو بجائے خود انصاف کے تصور سے خالی ہے ۔ اور پھر اس سوال کا جواب اس کے ذمہ رہ جاتا ہے کہ ایسی دنیا میں پیدا ہونے والے انسان کے اندر یہ انصاف کا تصور آخر کہاں سے آگیا ؟ ( 6 ) ان تمام ذرائع رہنمائی کی مدد کے لیے اللہ تعالی نے انسان کی صریح اور واضح رہنمائی کے لیے دنیا میں انبیاء بھیجے اور کتابیں نازل کیں جن میں صاف صاف بتا دیا گیا کہ شکر کی راہ کون سی ہے اور کفر کی راہ کونسی اور ان دونوں راہوں پر چلنے کے نتائج کیا ہیں ۔ انبیاء اور کتابوں کی لائی ہوئی یہ تعلیمات ، بے شمار محسوس اور غیر محفوس طریقوں سے اتنے بڑے پیمانے پر ساری دنیا میں پھیلی ہیں کہ کوئی انسانی آبادی بھی خدا کے تصور ، آخرت کے تصور ، نیکی اور بدی کے فرق ، اور ان کے پیش کردہ اخلاقی اصولوں اور قانونی احکام سے ناواقف نہیں رہ گئی ہے ، خواہ اسے یہ معلوم ہو یا نہ ہو کہ یہ علم اسے انبیاء اور کتابوں کی لائی ہوئی تعلیمات ہی سے حاصل ہوا ہے ۔ آج جو لوگ انبیاء اور کتابوں کے منکر ہیں ، یا ان سے بالکل بے خبر ہیں ، وہ بھی ان بہت سی چیزوں کی پیروی کر رہے ہیں جو دراصل انہی کی تعلیمات سے چھن چھن کر ان تک پہنچی ہیں اور وہ نہیں جانتے کہ ان چیزوں کا اصل ماخذ کونسا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani