45۔ 1 یعنی آپ کا کام صرف انذاز (ڈرانا) ہے، نہ کہ غیب کی خبریں دینا، جن میں قیامت کا علم بھی ہے جو اللہ نے کسی کو بھی نہیں دیا۔
انما انت منذرمن یخشھا : یعنی آپ کا کام اس کا وقت بتانا نہیں ہے بلکہ اس سے ڈرانا ہے اور اگرچہ آپ کا فریضہ تمام دنیا کو اس سے ڈرانا ہے مگر اس کا فائدہ صرف اس کو ہوگا جس کے دل میں اس کا خوف ہے اور وہ آپ کی تبلیغ سن کر تیاری کرے گا۔ جس کے دل میں قیامت پر ایمان اور اس کا خوف ہی نہیں اسے آپ کے ڈرانے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا، وہ اس کا وقت ہی پوچھتا رہ جائے گا۔
اِنَّمَآ اَنْتَ مُنْذِرُ مَنْ يَّخْشٰىہَا ٤٥ ۭ- نذر - وَالإِنْذارُ : إخبارٌ فيه تخویف، كما أنّ التّبشیر إخبار فيه سرور . قال تعالی: فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل 14]- والنَّذِيرُ :- المنذر، ويقع علی كلّ شيء فيه إنذار، إنسانا کان أو غيره . إِنِّي لَكُمْ نَذِيرٌ مُبِينٌ [ نوح 2] - ( ن ذ ر ) النذر - الا نذار کے معنی کسی خوفناک چیز سے آگاہ کرنے کے ہیں ۔ اور اس کے بالمقابل تبشیر کے معنی کسی اچھی بات کی خوشخبری سنا نیکے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَأَنْذَرْتُكُمْ ناراً تَلَظَّى[ اللیل 14] سو میں نے تم کو بھڑکتی آگ سے متنبہ کردیا ۔- النذ یر - کے معنی منذر یعنی ڈرانے والا ہیں ۔ اور اس کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس میں خوف پایا جائے خواہ وہ انسان ہو یا کوئی اور چیز چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُبِينٌ [ الأحقاف 9] اور میرا کام تو علانیہ ہدایت کرنا ہے ۔- خشی - الخَشْيَة : خوف يشوبه تعظیم، وأكثر ما يكون ذلک عن علم بما يخشی منه، ولذلک خصّ العلماء بها في قوله : إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28]- ( خ ش ی ) الخشیۃ - ۔ اس خوف کو کہتے ہیں جو کسی کی عظمت کی وجہ سے دل پر طاری ہوجائے ، یہ بات عام طور پر اس چیز کا علم ہونے سے ہوتی ہے جس سے انسان ڈرتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آیت کریمہ ؛۔ - إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر 28] اور خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ میں خشیت الہی کے ساتھ علماء کو خاص کیا ہے ۔
(٤٥۔ ٤٦) آپ تو صرف ایسے شخص کو ڈرانے والے ہیں جو اس سے ڈرتا ہو، جس روز قیامت کو دیکھ لیں گے تو ایسا معلوم ہوگا گو دنیا میں اور قبروں میں صرف ایک دن کے آخری حصہ میں یا اس کے اول حصہ میں رہے ہیں۔
آیت ٤٥ اِنَّمَآ اَنْتَ مُنْذِرُ مَنْ یَّخْشٰٹہَا ۔ ” آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو بس خبردار کرنے والے ہیں ‘ ہر اس شخص کو جو اس سے ڈرتا ہو۔ “- جو لوگ قیامت کے تصور سے ڈرتے ہوں یا جو اس کے ذکر سے ڈر جائیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انہیں خبردار کرتے رہیں ‘ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خبردار کرنے سے ایسے لوگوں کا خوف اور تقویٰ مزید بڑھے گا۔ ظاہر ہے جس شخص کی روح میں زندگی کی کوئی رمق موجود ہے اس کے دل میں قیامت کے ذکر سے ضرور خشیت پیدا ہوگی۔
سورة النّٰزِعٰت حاشیہ نمبر :23 اس کی تشریح بھی ہم تفسیر سورہ ملک حاشیہ 36 میں کر چکے ہیں ۔ رہا یہ ارشاد کہ تم ہر اس شخص کو خبردار کر دینے والے ہو جو اس کا خوف کرے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ خوف نہ کرنے والوں کو خبردار کرنا تمہارا کام نہیں ، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہارے خبردار کرنے کا فائدہ اسی کو پہنچے گا جو اس دن کے آنے کا خوف کرے ۔