46۔ 1 یعنی دنیا میں پورا ایک دن بھی نہ رہے، دن کا پہلا حصہ یا دن کا آخری حصہ ہی صرف دنیا میں رہے ہیں یعنی دنیا کی زندگی، انہیں اتنی قلیل معلوم ہوگی۔
[٢٩] گزشتہ واقعات کے متعلق انسان کا تصور یہ ہوتا ہے کہ بیسیوں سال پہلے گزرے ہوئے واقعہ کے متعلق وہ کہتا ہے کہ یہ کل کی بات ہے۔ یہ اس عالم دنیا کا حال ہے جس میں لیل و نہار کی گردش اسے نظر آتی ہے اور ماہ و سال کا وہ حساب لگا سکتا ہے لیکن عالم برزخ میں تو یہ دن رات بھی نہیں ہوں گے جیسے اصحاب کہف پر تین سو سال گزرنے کے بعد وہ یہ فیصلہ نہ کرسکے تھے کہ وہ اس غار میں پورا دن سوئے رہے ہیں یا دن کا کچھ حصہ۔ بالکل یہی صورت حال قیامت کے دن لوگوں کو پیش آئے گی اور کافر قیامت کا دن دیکھ کر یہی سمجھیں گے کہ ان کی دنیا کی زندگی تو پورا ایک دن بھی نہ تھی۔ کاش یہ تھوڑی سی مدت ہم اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری میں ہی گزار کر یہاں آتے۔
کانھم یوم یرونھا…: یعنی وہ قیامت جسے یہ بہت دور سمجھ رہے ہیں جب آئے گی تو انہیں ایسے معلوم ہوگا جیسے وہ دنیا میں صرف دن کا پچھلا حصہ یا پہلا حصہ ہی رہے ہیں، پورا ایک دن بھی نہیں رہے۔ مثال سمجھنے کے لئے اپنی گزشتہ زندگی پر نظر ڈال کر دیکھ لیں۔
كَاَنَّہُمْ يَوْمَ يَرَوْنَہَا لَمْ يَلْبَثُوْٓا اِلَّا عَشِـيَّۃً اَوْ ضُحٰىہَا ٤٦ ۧ- رأى- والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس :- والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو :- لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] ،- والثاني : بالوهم والتّخيّل،- نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] .- والثالث : بالتّفكّر، - نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] .- والرابع : بالعقل،- وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] ،- ( ر ء ی ) رای - الرؤیتہ - کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور - قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں - ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا - جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔- ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا - جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔- (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا - جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے - ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا - جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ - «لَمْ»- وَ «لَمْ» نفي للماضي وإن کان يدخل علی الفعل المستقبل، ويدخل عليه ألف الاستفهام للتّقریر . نحو : أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينا وَلِيداً [ الشعراء 18] ، أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيماً فَآوی [ الضحی 6]- ( لم ( حرف ) لم ۔ کے بعد اگرچہ فعل مستقبل آتا ہے لیکن معنوی اعتبار سے وہ اسے ماضی منفی بنادیتا ہے ۔ اور اس پر ہمزہ استفہام تقریر کے لئے آنا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : أَلَمْ نُرَبِّكَ فِينا وَلِيداً [ الشعراء 18] کیا ہم نے لڑکپن میں تمہاری پرورش نہیں کی تھی ۔- لبث - لَبِثَ بالمکان : أقام به ملازما له . قال تعالی: فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ [ العنکبوت 14] ،- ( ل ب ث ) لبث بالمکان - کے معنی کسی مقام پر جم کر ٹھہرنے اور مستقل قیام کرنا کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ [ العنکبوت 14] تو وہ ان میں ۔ ہزار برس رہے ۔- عشا - العَشِيُّ من زوال الشمس إلى الصّباح . قال تعالی: إِلَّا عَشِيَّةً أَوْ ضُحاها[ النازعات 46] ، والعِشَاءُ : من صلاة المغرب إلى العتمة، والعِشَاءَانِ : المغرب والعتمة «1» ، والعَشَا : ظلمةٌ تعترض في العین، - ( ع ش ی ) العشی - زوال آفتاب سے لے کر طلوع فجر تک کا وقت قرآن میں ہے : ۔ إِلَّا عَشِيَّةً أَوْضُحاها[ النازعات 46] گویا ( دنیا میں صرف ایک شام یا صبح رہے تھے ۔- العشاء - ( ممدود ) مغرب سے عشا کے وقت تک اور مغرب اور عشا کی نمازوں کو العشاء ن کہا جاتا ہے اور العشا ( توندی تاریکی جو آنکھوں کے سامنے آجاتی ہے رجل اعثی جسے رتوندی کی بیمار ی ہو اس کی مؤنث عشراء آتی ہے ۔- ضحی - الضُّحَى: انبساطُ الشمس وامتداد النهار، وسمّي الوقت به . قال اللہ عزّ وجل : وَالشَّمْسِ وَضُحاها[ الشمس 1] ، إِلَّا عَشِيَّةً أَوْ ضُحاها [ النازعات 46] ، وَالضُّحى وَاللَّيْلِ [ الضحی 1- 2] ، وَأَخْرَجَ ضُحاها [ النازعات 29] ، وَأَنْ يُحْشَرَ النَّاسُ ضُحًى- [ طه 59] ، وضَحَى يَضْحَى: تَعَرَّضَ للشمس . قال : وَأَنَّكَ لا تَظْمَؤُا فِيها وَلا تَضْحى[ طه 119] ، أي : لك أن تتصوّن من حرّ الشمس، وتَضَحَّى: أَكَلَ ضُحًى، کقولک : تغدّى، والضَّحَاءُ والغداءُ لطعامهما، وضَاحِيَةُ كلِّ شيءٍ : ناحیتُهُ البارزةُ ، وقیل للسماء : الضَّوَاحِي ولیلة إِضْحِيَانَةٌ ، وضَحْيَاءُ : مُضيئةٌ إضاءةَ الضُّحَى.- والأُضْحِيَّةُ- جمعُها أَضَاحِي وقیل : ضَحِيَّةٌ وضَحَايَا، وأَضْحَاةٌ وأَضْحًى، وتسمیتها بذلک في الشّرع لقوله عليه السلام : «من ذبح قبل صلاتنا هذه فليُعِدْ»- ( ض ح و ) الضحی ٰ- ۔ کے اصل معنی دہوپ پھیل جانے اور دن چڑھ آنے کے ہیں پھر اس وقت کو بھی ضحی کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَالشَّمْسِ وَضُحاها[ الشمس 1] سورج کی قسم اور اس کی روشنی کی ۔ إِلَّا عَشِيَّةً أَوْ ضُحاها [ النازعات 46] ایک شام یا صبح وَالضُّحى وَاللَّيْلِ [ الضحی 1- 2] آفتاب کی روشنی کی قسم اور رات کی تاریکی کی جب چھاجائے ۔ وَأَخْرَجَ ضُحاها [ النازعات 29] اور اسکی روشنی نکالی ۔ وَأَنْ يُحْشَرَ النَّاسُ ضُحًى[ طه 59] اور یہ لوگ ( اس دن چاشت کے وقت اکٹھے ہوجائیں ۔ ضحی یضحیٰ شمسی یعنی دھوپ کے سامنے آنا ۔ قرآن میں ہے : وَأَنَّكَ لا تَظْمَؤُا فِيها وَلا تَضْحى[ طه 119] اور یہ کہ نہ پیاسے رہو اور نہ دھوپ کھاؤ۔ یعنی نہ دھوپ سے تکلیف اٹھاؤ گے ۔ تضحی ضحی کے وقت کھانا کھانا جیسے تغدیٰ ( دوپہر کا کھانا کھانا ) اور اس طعام کو جو ضحی اور دوپہر کے وقت کھایا جائے اسے ضحاء اور غداء کہا جاتا ہے ۔ اور ضاحیۃ کے معنی کسی چیز کی کھلی جانب کے ہیں اس لئے آسمان کو الضواحی کہا جاتا ہے لیلۃ اضحیانۃ وضحیاء روشن رات ( جس میں شروع سے آخر تک چاندنی رہے )- اضحیۃ - کی جمع اضاحی اور ضحیۃ کی ضحایا اور اضحاۃ کی جمع اضحیٰ آتی ہے اور ان سب کے معنی قربانی کے ہیں ( اور شرقا قربانی بھی چونکہ نماز عید کے بعد چاشت کے وقت دی جاتی ہے اس لئے اسے اضحیۃ کہاجاتا ہے حدیث میں ہے (9) من ذبح قبل صلوتنا ھذہ فلیعد کہ جس نے نما زعید سے پہلے قربانی کا جانور ذبح کردیا وہ دوبارہ قربانی دے ۔
آیت ٤٦ کَاَنَّہُمْ یَوْمَ یَرَوْنَہَا لَمْ یَلْبَثُوْٓا اِلَّا عَشِیَّۃً اَوْ ضُحٰٹہَا ۔ ” جس دن وہ اسے دیکھیں گے (انہیں یوں لگے گا ) گویا وہ نہیں رہے (دنیا میں) مگر ایک شام یا اس کی ایک صبح۔ “- قیامت کے دن انسان جب اپنی دنیوی زندگی کو یاد کرے گا تو اسے اپنی پوری زندگی ایسے نظر آئے گی جیسے وہ ایک دن کی بھی صرف چند گھڑیاں دنیا میں رہا تھا۔
سورة النّٰزِعٰت حاشیہ نمبر :24 یہ مضمون اس سے پہلے کئی جگہ قرآن میں بیان ہو چکا ہے اور ہم اس کی تشریح کر چکے ہیں ۔ ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد دوم ، یونس ، حاشیہ 53 ۔ بنی اسرائیل ، حاشیہ 56 ۔ جلد سوم ، طہٰ ، حاشیہ 80 ۔ المومنون ، حاشیہ 101 ۔ الروم ، حواشی 81 ۔ 82 ۔ جلد چہارم ۔ یسین ، حاشیہ 48 ۔ اس کے علاوہ یہ مضمون سورہ احقاف آیت35 میں بھی گزر چکا ہے جسکی تشریح ہم نے وہاں نہیں کی کیونکہ پہلے کئی جگہ تشریح ہو چکی تھی ۔
10: یعنی آخرت میں پہنچنے کے بعد دُنیا میں گذری ہوئی زندگی یا قبر کے عالمِ میں برزخ میں قیام کی مدّت بہت مختصر معلوم ہوگی۔