12۔ 1 یہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے ذریعے سے اور خاص اپنی طرف سے جس جس طریقے سے مسلمانوں کی بدر میں مدد فرمائی اس کا بیان ہے۔ 12۔ 1 بَنَانِ ۔ ہاتھوں اور پیروں کے پور۔ یعنی ان کی انگلیوں کے اطراف (کنارے) یہ اطراف کاٹ دیئے جائیں تو ظاہر ہے کہ وہ معزور ہوجائیں گے۔ اسطرح وہ ہاتھوں سے تلوار چلانے کے اور پیروں سے بھاگنے کے قابل نہیں رہیں گے۔
[١٣] مسلمانوں کی قدرتی وسائل سے امداد :۔ اب یہاں سے ان قدرتی اسباب کا ذکر شروع ہوتا ہے جو بالآخر مسلمانوں کی فتح کا سبب بنے تھے اور یہ اسباب چار تھے۔ بالفاظ دیگر اس جنگ میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی چار طرح سے مدد فرمائی تھی اور اس ذکر سے اس طرف بھی اشارہ کرنا مقصود ہے کہ جب اس جنگ میں فتح کے قدرتی اسباب کا بہت زیادہ عمل دخل ہے تو پھر تم مال غنیمت پر تنازعہ اور قبضہ کیسے کرسکتے ہو۔ یہ تو محض اللہ کی مدد سے تمہیں میسر آیا ہے۔ لہذا یہ مال اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ہی ہونا چاہیے۔ اللہ کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جیسے چاہے اسے تقسیم کرے گا۔- ہوا یہ تھا کہ میدان بدر میں مسلمانوں کے پہنچنے سے پہلے کافر پہنچ کر ایک پکی زمین پر اپنا پڑاؤ ڈال چکے تھے اور جو جگہ مسلمانوں کو پڑاؤ کے لیے میسر آئی ریتلی تھی۔ بلندی پر واقع تھی اور وہاں پانی نام کو نہ تھا اس کے بجائے گرد و غبار اڑ رہا تھا۔ مسلمانون کو ایک تو پیاس نے ستایا ہوا تھا، دوسرے وضو اور طہارت کے لیے بھی پانی نہیں مل رہا تھا۔ تیسرے سامنے کافروں کے مسلح لشکر جرار کو دیکھ کر سخت گھبراہٹ میں مبتلا تھے اور شیطان طرح طرح کے وسوسے ان کے دلوں میں ڈال رہا تھا کہ تمہیں خوراک تو درکنار پینے کو پانی بھی میسر نہیں پھر بھلا تم اتنے بڑے لشکر کا مقابلہ کیسے کرسکو گے ؟- اس حال میں اللہ کی مدد یوں مسلمانوں کے شامل حال ہوئی کہ رات کو زور سے بارش ہوئی جس کے تین فائدے ہوئے (١) مسلمانوں نے بڑے بڑے حوض بنا کر پانی جمع کرلیا۔ انہیں پینے اور نہانے دھونے کے لیے پانی میسر آگیا (٢) نیچے سے ریت جم گئی، جہاں پہلے قدم پھسلتے جاتے تھے وہاں جمنے شروع ہوگئے اس طرح وہ سب شیطانی وساوس دور ہوگئے جو شیطان مسلمانوں کے دلوں میں ڈال رہا تھا۔ (٣) یہی پانی کا ریلا جب بہہ کر کفار کے لشکر کی طرف گیا تو وہاں کیچڑ اور پھسلن پیدا ہوگئی۔ یہ اللہ تعالیٰ کی مدد کی پہلی صورت تھی۔- دوسری صورت یہ تھی کہ جنگ کی ابتداء میں ہی اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر غنودگی طاری کردی، جس کا اثر یہ ہوا کہ ایک تو بدن سے تھکاوٹ دور ہوگئی۔ دوسرے کافروں کی جو ہیبت ذہنوں پر سوار تھی وہ دور ہوگئی۔ تازہ دم اور تازہ دماغ ہونے کی وجہ سے ان میں چستی پیدا ہوگئی۔ چناچہ جب آپ خود ساری رات عریش میں اللہ تعالیٰ کے حضور فریاد اور آہ وزاری کرنے کے بعد سیدنا ابوبکر صدیق (رض) کی درخواست پر باہر نکلے تو اس وقت غنودگی کی کیفیت طاری ہوگئی اور جب اس حالت سے سنبھلے تو آپ کے چہرے پر مسکراہٹ تھی اور آپ یہ آیت تلاوت فرما رہے تھے :۔- ( سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ 45) 54 ۔ القمر :45) (بخاری، کتاب الجہاد باب ماقیل فی درع النبی) پھر آپ نے بڑے بڑے کافروں کے قتل ہوجانے کی خبر دی اور ان کے قتل کی جگہیں بھی صحابہ کرام (رض) کو دکھلادیں۔- تیسری صورت یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے میدان بدر میں مسلمانوں کی مدد کے لیے فرشتوں کا لشکر بھیج دیا جیسا کہ اوپر کے حاشیہ میں درج شدہ احادیث سے واضح ہوتا ہے۔ صحابہ (رض) کہتے ہیں کہ جن کافروں کی موت فرشتوں کے ہاتھوں واقع ہوتی ہم اس لاش کو پوری طرح پہچان لیتے تھے۔ فرشتوں کی آمد سے جہاں مسلمانوں کے دلوں کو ثبات وقرار حاصل ہوا وہاں کافر سخت بددل اور مرعوب ہوگئے اور چوتھی صورت کا ذکر آگے آ رہا ہے۔
اِذْ يُوْحِيْ رَبُّكَ اِلَى الْمَلٰۗىِٕكَةِ اَنِّىْ مَعَكُمْ : اس سے معلوم ہوا کہ فرشتے بھی اپنے طور پر کچھ نہیں کرسکتے۔- سَاُلْقِيْ فِيْ قُلُوْبِ الَّذِيْنَ كَفَرُوا الرُّعْبَ : یہ چوتھا انعام ہے جو میدان بدر ہی میں نہیں بلکہ تمام جنگوں میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور امت مسلمہ کو عطا ہوا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” مجھے پانچ چیزیں دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں دی گئیں۔ “ ان میں سے ایک یہ بیان فرمائی : ” مجھے ایک مہینے کی مسافت پر رعب کے ذریعے سے مدد دی گئی۔ “ [ بخاری، التیمم، بابٌ : ٣٣٥ ] اس کا باعث اللہ تعالیٰ نے دوسری آیات میں کفار کا مشرک ہونا بیان فرمایا۔ دیکھیے سورة آل عمران (١٥١) ۔- فَاضْرِبُوْا فَوْقَ الْاَعْنَاقِ : گردنوں پر مارو، تاکہ ان کے ناپاک جسموں سے زمین پاک ہو اور ہاتھوں اور پاؤں کے ہر ہر پور پر ضرب لگاؤ، تاکہ وہ ہاتھوں سے لڑ نہ سکیں اور پاؤں سے بھاگ نہ سکیں۔
معارف ومسائل - شروع سورة انفال سے اللہ تعالیٰ کے ان انعامات کا بیان ہو رہا ہے جو اس کے فرمانبردار بندوں پر مبزول ہوئے۔ غزوہ بدر کے واقعات بھی اسی سلسلہ کی کڑیاں ہیں۔ غزوہ بدر میں جو انعامات حق تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوئے ان میں سے پہلا انعام تو خود اس جہاد کے لئے مسلمانوں کو نکالنا ہے جس کا بیان (آیت) كَمَآ اَخْرَجَكَ رَبُّكَ میں ہوا ہے، دوسرا انعام فرشتوں کی مدد کا وعدہ ہے جس کا ذکر (آیت) اِذْ يَعِدُكُمُ اللّٰهُ میں آیا ہے۔ تیسرا انعام دعا کی قبولیت اور مدد کا وعدہ پوا کرنا ہے جس کا ذکر (آیت) اِذْ تَسْتَغِيْثُوْنَ رَبَّكُمْ ، میں ہوا ہے۔ مذکور الصدر آیات میں سے پہلی آیت میں چوتھے انعام کا تذکرہ ہے جس میں مسلمانوں کے لئے دو نعمتوں کا ذکر ہے ایک سب پر نیند غالب آکر پریشانی اور تکان کا دور ہوجانا دوسرے بارش کے ذریعہ ان کے لئے پانی مہیا فرمانا اور میدان جنگ کو ان کے لئے ہموار اور دشمن کے لئے دلدل بنادینا۔ - تفصیل اس واقعہ کی یہ ہے کہ جس وقت کفر و اسلام کا یہ پہلا معرکہ ٹھن گیا تو کفار مکہ کا لشکر پہلے پہنچ کر ایک ایسے مقام پر پڑاؤ ڈال چکا تھا جو اونچائی پر تھا۔ پانی اس کے قریب تھا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام اس جگہ پہنچے تو وادی کے نچلے حصہ میں جگہ ملی۔ قرآن کریم نے اس میدان جنگ کا نقشہ اسی سورت کی بیالیسویں آیت میں اس طرح کھینچا ہے (آیت) اِذْ اَنْتُمْ بالْعُدْوَةِ الدُّنْيَا وَهُمْ بالْعُدْوَةِ الْقُصْوٰي، جس کا مفصل بیان بعد میں آئے گا۔ - جس جگہ پہنچ کر رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اول قیام فرمایا۔ اس مقام کے واقف کار حضرت حباب بن منذر نے اس کو جنگی اعتبار سے نامناسب سمجھ کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ جو مقام آپ نے اختیار فرمایا ہے یہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہے جس میں ہمیں کوئی اختیار نہیں یا محض رائے اور مصلحت کے پیش نظر اختیار فرمایا گیا ہے۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ نہیں یہ کوئی حکم خداوندی نہیں، اس میں تغیر و تبدل کیا جاسکتا ہے، تب حضرت حباب بن منذر نے عرض کیا کہ پھر تو بہتر ہے کہ اس مقام سے آگے بڑھ کر مکی سرداروں کے لشکر کے قریب ایک پانی کا مقام ہے اس پر قبضہ کیا جائے وہاں ہمیں پانی افراط کے ساتھ مل جائے گا۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کا مشورہ قبول فرمایا اور وہاں جاکر پانی پر قبضہ کیا ایک حوض پانی کے لئے بنا کر اس میں پانی کا ذخیرہ جمع فرمایا۔- اس سے مطمئن ہونے کے بعد حضرت سعد بن معاذ نے عرض کیا یا رسول اللہ ہمارا خیال یہ ہے کہ ہم آپ کے لئے ایک سایہ بان کسی محفوظ جگہ میں بنادیں جہاں آپ مقیم رہیں اور آپ کی سواریاں بھی آپ کے پاس رہیں۔ - منشاء اس کا یہ ہے کہ ہم دشمن کے مقابلہ میں جہاد کریں گے اگر اللہ تعالیٰ نے ہمیں فتح نصیب فرمائی تو یہی مقصد ہے اور اگر خدانخواستہ کوئی دوسری صورت ہو تو آپ اپنی سواری پر سوار ہو کر ان صحابہ کرام کے ساتھ جاملیں جو مدینہ طیبہ میں رہ گئے ہیں کیونکہ میرا گمان یہ ہے کہ وہ لوگ بھی جانثاری اور آپ سے محبت میں ہم سے کم نہیں اور اگر ان کو آپ کے نکلنے کے وقت یہ خیال ہوتا کہ آپ کا اس مصلح لشکر سے مقابلہ ہوگا تو ان میں سے کوئی بھی پیچھے نہ رہتا، آپ مدینہ میں پہنچ جائیں گے تو وہ آپ کے رفیق کار رہیں گے۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی اس جانبازانہ پیش کش پر دعائیں دیں۔ اور ایک مختصر سا سایہ بان آپ کے لئے بنادیا گیا جس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صدیق اکبر کے سوا کوئی نہ تھا۔ حضرت معاذ دروازہ پر حفاظت کے لئے تلوار لئے کھڑے تھے۔- معرکہ کی پہلی رات تھی۔ تین سو تیرہ بےسامان لوگوں کا مقابلہ اپنے سے تین گنی تعداد یعنی ایک ہزار مصلح فوج سے تھا۔ میدان جنگ کا بھی اچھا مقام ان کے قبضہ میں آچکا تھا۔ نچلا حصہ وہ بھی سخت ریتیلا جس میں چلنا دشوار مسلمانوں کے ہاتھ آیا تھا۔ طبعی پریشانی اور فکر سب کو تھی، بعض لوگوں کے دل میں شیطان نے یہ وساوس بھی ڈالنے شروع کئے کہ تم لوگ اپنے آپ کو حق پر کہتے ہو اور اس وقت بھی بجائے آرام کرنے کے نماز تہجد وغیرہ میں مشغول ہو مگر حال یہ ہے کہ دشمن ہر حیثیت سے تم پر غالب اور تم سے بڑھا ہوا ہے۔ ان حالات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر ایک خاص قسم کی نیند مسلط فرمادی جس نے ہر مسلمان کو خواہ اس کا ارادہ سونے کا تھا یا نہیں جبرا سلادیا۔ - حافظ حدیث ابو یعلی نے نقل کیا ہے کہ حضرت علی مرتضی نے فرمایا کہ غزوہ بدر کی اس رات میں ہم میں سے کوئی باقی نہیں رہا جو سو نہ گیا ہو۔ صرف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمام رات بیدار رہ کر صبح تک نماز تہجد میں مشغول رہے۔- اور ابن کثیر نے بحوالہ صحیح نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس رات میں جب کہ اپنے عریش یعنی سائبان میں نماز تہجد میں مشغول تھے آپ کو بھی کسی قدر اونگھ آگئی مگر فورا ہی ہنستے ہوئے بیدار ہو کر فرمایا۔ اے ابوبکر خوشخبری سنو یہ جبرئیل (علیہ السلام) ٹیلہ کے قریب کھڑے ہیں اور یہ کہہ کر آپ سائبان سے باہر یہ آیت پڑھتے ہوئے تشریف لے گئے (آیت) سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ ، یعنی عنقریب دشمن کی جماعت ہار جائے گی اور پیٹھ پھیر کر بھاگے گی۔ بعض روایات میں ہے کہ آپ نے باہر نکل کر مخلتف جگہوں کی طرف اشارہ کرکے فرمایا کہ یہ ابو جہل کی قتل گاہ ہے یہ فلاں کی یہ فلاں کی۔ اور پھر ٹھیک اسی طرح واقعات پیش آئے ( تفسیر مظہری)- اور جیسا غزوہ بدر میں تکان اور پریشانی دور کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے تمام صحابہ کرام پر خاص قسم کی نیند مسلط فرمائی اسی طرح غزوہ احد میں بھی اسی طرح کا واقعہ ہوا۔ - سفیان ثوری (رح) نے بروایت حضرت عبداللہ بن مسعود نقل کیا ہے کہ جنگ کی حالت میں نیند اللہ تعالیٰ کی طرف سے امن و اطمینان کی نشانی ہوتی ہے۔ اور نماز میں نیند شیطان کی طرف سے ہوتی ہے۔ (ابن کثیر) - دوسری نعمت مسلمانوں کو اس رات میں یہ ملی کہ بارش ہوگئی جس نے میدان جنگ کا نقشہ بالکل پلٹ دیا، قریشی لشکر نے جس جگہ پر قبضہ کیا تھا وہاں تو بارش بہت تیز آئی اور میدان میں دلدل ہو کر چلنا مشکل ہوگیا۔ اور جس جگہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام مقیم تھے یہاں ریت کی وجہ سے چلنا مشکل تھا یہاں بارش ہلکی ہوئی جس نے تمام ریتے کو جما کر میدان کو نہایت ہموار خوشگوار بنادیا۔ - آیت مذکورہ میں انھیں دو نعمتوں کا ذکر ہے نیند اور بارش جس نے میدان کارزار کا نقشہ پلٹ کر وہ شیطانی وساوس دھو ڈالے جو بعض کمزور لوگوں کو ستا رہے تھے کہ ہم حق پر ہونے کے باوجود مقہور و مغلوب نظر آتے ہیں اور دشمن باطل پر ہونے کے باوجود قوت و شوکت اور اطمینان کی حالت میں ہے۔- آیت مذکورہ میں فرمایا کہ اس وقت کو یاد کرو جب کہ اللہ تعالیٰ تم پر اونگھ طاری کر رہا تھا چین دینے کے لئے اور تم پر پانی برسا رہا تھا تاکہ اس پانی سے تم کو پاک کر دے۔ اور تم سے شیطانی وسوسہ کو دفع کر دے اور تمہارے دلوں کو مضبوط کردے اور تمہارے پاؤں جمادے۔- دوسری آیت میں پانچویں انعام کا ذکر ہے جو اس غزوہ بدر کے میدان کارزار میں مسلمانوں پر مبذول ہوا۔ وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے جو فرشتے مسلمانوں کی امداد کے لئے بھیجے تھے ان کو خطاب کرکے فرمایا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں تم ایمان والوں کی ہمت بڑھاؤ میں ابھی کفار کے دلوں میں رعب ڈالے دیتا ہوں، سو تم کفار کی گردنوں پر حربہ مارو اور ان کے پور پور کو مارو۔ - اس میں فرشتوں کو دو کام سپرد کئے گئے ایک یہ کہ مسلمانوں کی ہمت بڑھائیں یہ اس طرح بھی ہوسکتا ہے کہ فرشتے میدان میں آکر ان کی جماعت کو بڑھائیں اور ان کے ساتھ مل کر قتال میں حصہ لیں اور اس طرح بھی کہ اپنے تصرف سے مسلمانوں کے دلوں کو مضبوط کردیں اور ان میں قوت پیدا کردیں۔ دوسرا کام یہ بھی ان کے سپرد ہوا کہ فرشتے خود بھی قتال میں حصہ لیں اور کفار پر حملہ آور ہوں۔ اس آیت سے ظاہر یہی ہے کہ فرشتوں نے دونوں کام انجام دیئے، مسلمانوں کے دلوں میں تصرف کرکے ہمت و قوت بھی بڑھائی اور قتال میں بھی حصہ لیا۔ اور اس کی تائید چند روایات حدیث سے بھی ہوتی ہے جو تفسیر درمنثور اور مظہری میں تفصیل کے ساتھ بیان کی گئی ہیں اور قتال ملائکہ کی عینی شہادتیں صحابہ کرام سے نقل کی ہیں۔ - تیسری آیت میں یہ ارشاد فرمایا کہ اس معرکہ کفر و اسلام میں جو کچھ ہوا اس کا سبب یہ تھا کہ ان کفار نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مخالفت کی اور جو اللہ و رسول کی مخالفت کرتا ہے اس کے لئے اللہ تعالیٰ کا عذاب شدید اور سخت ہوا کرتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ غزوہ بدر میں ایک طرف تو مسلمانوں پر انعامات نازل ہوئے۔ فتح و نصرت ان کو حاصل ہوئی۔ دوسری طرف کفار پر مسلمانوں کے ہاتھوں سے عذاب نازل فرما کر ان کی بدکرداریوں کی تھوڑی سی سزادے دی گئی۔ اور اس سے زیادہ بھاری سزا آخرت میں ہونے والی ہے جس کو چوتھی آیت میں بیان فرمایا (آیت) ذٰلِكُمْ فَذُوْقُوْهُ وَاَنَّ لِلْكٰفِرِيْنَ عَذَاب النَّارِ ۔ - یعنی یہ ہمارا تھوڑ سا عذاب ہے اس کو چکھو اور سمجھ لو کہ اس کے بعد کافروں کے لئے جہنم کا عذاب آنے والا ہے جو نہایت شدید و مدید اور ناقابل قیاس ہے۔
اِذْ يُوْحِيْ رَبُّكَ اِلَى الْمَلٰۗىِٕكَۃِ اَنِّىْ مَعَكُمْ فَثَبِّتُوا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ٠ ۭ سَاُلْقِيْ فِيْ قُلُوْبِ الَّذِيْنَ كَفَرُوا الرُّعْبَ فَاضْرِبُوْا فَوْقَ الْاَعْنَاقِ وَاضْرِبُوْا مِنْہُمْ كُلَّ بَنَانٍ ١٢ ۭ- وحی - أصل الوحي : الإشارة السّريعة، ولتضمّن السّرعة قيل : أمر وَحْيٌ ، وذلک يكون بالکلام علی سبیل الرّمز والتّعریض، وقد يكون بصوت مجرّد عن التّركيب، وبإشارة ببعض الجوارح، وبالکتابة، وقد حمل علی ذلک قوله تعالیٰ عن زكريّا : فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم 11] وقوله : وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس 87] فوحيه إلى موسیٰ بوساطة جبریل، ووحيه تعالیٰ إلى هرون بوساطة جبریل وموسی،- ( و ح ی ) الوحی - کے اصل معنی جلدی سے اشارہ کرنا کے ہیں ۔ اور اس کے معنی سرعت کو متضمن ہو نیکی وجہ سے ہر تیز رفتار معاملہ کو امر وحی کہا جاتا ہے اور یہ وحی کبھی رمزوتعریض کے طور پر بذریعہ کلام کے ہوتی ہے اور کبھی صوت مجرد کی صورت میں ہوتی ہے یعنی اس میں ترکیب الفاظ نہیں ہوتی اور کبھی بذیعہ جوارح کے اور کبھی بذریعہ کتابت کے اس بنا پر آیت : ۔ فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم 11] پھر وہ عبادت کے حجرے سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے تو ان سے اشارے سے کہا کہ صبح وشام خدا کو یاد کرتے رہو ۔- اور آیت : ۔ وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس 87] اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی کی طرف وحی بھیجی میں موسیٰ اور ان کے بھائی کی طرف یکساں قسم کی وحی بھیجنا مراد نہیں ہے بلکہ موسیٰ علیہ اسلام کی طر وحی تو حضرت جبریل کی وسا طت سے آتی تھی مگر ہارون (علیہ السلام) کی طرف حضرت موسیٰ اور جبریل (علیہ السلام) دونوں کی وساطت سے وحی کی جاتی ہے - فرشته - الملائكة، ومَلَك أصله : مألك، وقیل : هو مقلوب عن ملأك، والمَأْلَك والمَأْلَكَة والأَلُوك : الرسالة، ومنه : أَلَكَنِي إليه، أي : أبلغه رسالتي، والملائكة تقع علی الواحد والجمع . قال تعالی: اللَّهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلائِكَةِ رُسُلًا [ الحج 75] . قال الخلیل : المَأْلُكة : الرسالة، لأنها تؤلک في الفم، من قولهم : فرس يَأْلُكُ اللّجام أي : يعلك .- ( ا ل ک ) الملئکۃ ( فرشتے ) اور ملک اصل میں مالک ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ ملاک سے معلوب ہے اور مالک وما لکۃ والوک کے معنی رسالت یعنی پیغام کے ہیں اسی سے لکنی کا محاورہ ہے جس کے معنی ہیں اسے میرا پیغام پہنچادو ، ، ۔ الملائکۃ کا لفظ ( اسم جنس ہے اور ) واحد و جمع دونوں پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ اللهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلَائِكَةِ رُسُلًا ( سورة الحج 75) خدا فرشتوں میں سے پیغام پہنچانے والے منتخب کرلیتا ہے ۔ خلیل نے کہا ہے کہ مالکۃ کے معنی ہیں پیغام اور اسے ) مالکۃ اس لئے کہتے ہیں کہ وہ بھی منہ میں چبایا جاتا ہے اور یہ فرس یالک اللجام کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں گھوڑے کا منہ میں لگام کو چبانا ۔- لقی( افعال)- والإِلْقَاءُ : طرح الشیء حيث تلقاه، أي : تراه، ثم صار في التّعارف اسما لكلّ طرح . قال : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه 87] ، قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ- [ الأعراف 115] ،- ( ل ق ی ) لقیہ ( س)- الالقآء ( افعال) کے معنی کسی چیز کو اس طرح ڈال دیناکے ہیں کہ وہ دوسرے کو سمانے نظر آئے پھر عرف میں مطلق کس چیز کو پھینک دینے پر القاء کا لفظ بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَكَذلِكَ أَلْقَى السَّامِرِيُ [ طه 87] اور اسی طرح سامری نے ڈال دیا ۔ قالُوا يا مُوسی إِمَّا أَنْ تُلْقِيَ وَإِمَّا أَنْ نَكُونَ نَحْنُ الْمُلْقِينَ [ الأعراف 115] تو جادو گروں نے کہا کہ موسیٰ یا تو تم جادو کی چیز ڈالو یا ہم ڈالتے ہیں ۔ موسیٰ نے کہا تم ہی ڈالو۔ - قلب - قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] .- ( ق ل ب ) قلب - الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔ - رعب - الرُّعْبُ : الانقطاع من امتلاء الخوف، يقال : رَعَبْتُهُ فَرَعَبَ رُعْباً ، فهو رَعِبٌ ، والتِّرْعَابَةُ :- الفروق . قال تعالی: وَقَذَفَ فِي قُلُوبِهِمُ الرُّعْبَ [ الأحزاب 26] ، وقال : سَنُلْقِي فِي قُلُوبِ الَّذِينَ كَفَرُوا الرُّعْبَ [ آل عمران 151] ، وَلَمُلِئْتَ مِنْهُمْ رُعْباً [ الكهف 18] ، ولتصوّر الامتلاء منه قيل : رَعَبْتُ الحوص : ملأته، وسیل رَاعِبٌ: يملأ الوادي،- ( ر ع ب ) الرعب - ۔ اس کے اصل معنی خوف سے بھر کر کٹ جانے کے ہیں کہا جاتا ہے : ۔ رعبتہ فرعب رعبا ۔ میں نے اسے خوف زدہ کیا تو وہ خوف زدہ ہوگیا ۔ اور خوف زدہ شخص کو رعب کہا جاتا ہے ۔ الترعابۃ ( صیغہ صفت ) بہت زیادہ ڈر پوک ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَقَذَفَ فِي قُلُوبِهِمُ الرُّعْبَ [ الأحزاب 26] ہم عنقریب تمہاری ہیبت کافروں کے دلوں میں بیٹھا دیں گے ۔ وَلَمُلِئْتَ مِنْهُمْ رُعْباً [ الكهف 18] اور ان کی ( صورت حال سے ) تجھ میں ایک دہشت سما جائے پھر کبھی یہ صرف بھرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جیسے رعبت الحوض میں نے حوض کو پانی سے پر کردیا ۔ سیل راعب : سیلاب جو وادی کو پر کر دے ۔ اور جاریۃ رعبوبۃ کے معنی جوانی سے بھرپور اور نازک اندام دو شیزہ کے ہیں اس کی جمع رعابیب آتی ہے ۔- ضرب - الضَّرْبُ : إيقاعُ شيءٍ علی شيء، ولتصوّر اختلاف الضّرب خولف بين تفاسیرها، كَضَرْبِ الشیءِ بالید، والعصا، والسّيف ونحوها، قال : فَاضْرِبُوا فَوْقَ الْأَعْناقِ وَاضْرِبُوا مِنْهُمْ كُلَّ بَنانٍ- [ الأنفال 12] ، فَضَرْبَ الرِّقابِ [ محمد 4] ، فَقُلْنا اضْرِبُوهُ بِبَعْضِها[ البقرة 73] ، أَنِ اضْرِبْ بِعَصاكَ الْحَجَرَ [ الأعراف 160] ، فَراغَ عَلَيْهِمْ ضَرْباً بِالْيَمِينِ [ الصافات 93] ، يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ [ محمد 27] ، وضَرْبُ الأرضِ بالمطر، وضَرْبُ الدّراهمِ ، اعتبارا بِضَرْبِ المطرقةِ ، وقیل له : الطّبع، اعتبارا بتأثير السّمة فيه، وبذلک شبّه السّجيّة، وقیل لها : الضَّرِيبَةُ والطَّبِيعَةُ. والضَّرْبُ في الأَرْضِ : الذّهاب فيها وضَرْبُهَا بالأرجلِ. قال تعالی: وَإِذا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ [ النساء 101] ، وَقالُوا لِإِخْوانِهِمْ إِذا ضَرَبُوا فِي الْأَرْضِ [ آل عمران 156] ، وقال : لا يَسْتَطِيعُونَ ضَرْباً فِي الْأَرْضِ [ البقرة 273] ، ومنه : فَاضْرِبْ لَهُمْ طَرِيقاً فِي الْبَحْرِ- [ طه 77] ، وضَرَبَ الفحلُ الناقةَ تشبيها بالضَّرْبِ بالمطرقة، کقولک : طَرَقَهَا، تشبيها بالطّرق بالمطرقة، وضَرَبَ الخیمةَ بضرب أوتادها بالمطرقة، وتشبيها بالخیمة قال : ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ [ آل عمران 112] ، أي : التحفتهم الذّلّة التحاف الخیمة بمن ضُرِبَتْ عليه، وعلی هذا : وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الْمَسْكَنَةُ [ آل عمران 112] ، ومنه استعیر : فَضَرَبْنا عَلَى آذانِهِمْ فِي الْكَهْفِ سِنِينَ عَدَداً [ الكهف 11] ، وقوله : فَضُرِبَ بَيْنَهُمْ بِسُورٍ [ الحدید 13] ، وضَرْبُ العودِ ، والناي، والبوق يكون بالأنفاس، وضَرْبُ اللَّبِنِ بعضِهِ علی بعض بالخلط، وضَرْبُ المَثلِ هو من ضَرْبِ الدّراهمِ ، وهو ذکر شيء أثره يظهر في غيره . قال تعالی: ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا [ الزمر 29] ، وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلًا[ الكهف 32] ، ضَرَبَ لَكُمْ مَثَلًا مِنْ أَنْفُسِكُمْ [ الروم 28] ، وَلَقَدْ ضَرَبْنا لِلنَّاسِ [ الروم 58] ، وَلَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْيَمَ مَثَلًا - [ الزخرف 57] ، ما ضَرَبُوهُ لَكَ إِلَّا جَدَلًا[ الزخرف 58] ، وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلَ الْحَياةِ الدُّنْيا - [ الكهف 45] ، أَفَنَضْرِبُ عَنْكُمُ الذِّكْرَ صَفْحاً [ الزخرف 5] .- والمُضَارَبَةُ : ضَرْبٌ من الشَّرِكَةِ. والمُضَرَّبَةُ :- ما أُكْثِرَ ضربُهُ بالخیاطة . والتَّضْرِيبُ : التّحریضُ ، كأنه حثّ علی الضَّرْبِ الذي هو بعد في الأرض، والاضْطِرَابُ : كثرةُ الذّهاب في الجهات من الضّرب في الأرض، واسْتِضَرابُ الناقةِ : استدعاء ضرب الفحل إيّاها .- ( ض ر ب ) الضرب - کے معنی ایک چیز کو دوسری چیز پر واقع کرنا یعنی مارنا کے ہیں اور مختلف اعتبارات سے یہ لفظ بہت سے معانی میں استعمال ہوتا ہے (1) ہاتھ لاٹھی تلوار وغیرہ سے مارنا ۔ قرآن میں ہے : فَاضْرِبُوا فَوْقَ الْأَعْناقِ وَاضْرِبُوا مِنْهُمْ كُلَّ بَنانٍ [ الأنفال 12] ان کے سر مارکراڑا دو اور ان کا پور پور مارکر توڑدو ۔ فَضَرْبَ الرِّقابِ [ محمد 4] تو انکی گردنین اڑا دو ۔ فَقُلْنا اضْرِبُوهُ بِبَعْضِها[ البقرة 73] تو ہم نے کہا کہ اس بیل کا سا ٹکڑا مقتول کو مارو أَنِ اضْرِبْ بِعَصاكَ الْحَجَرَ [ الأعراف 160] اپنی لاٹھی پتھر پر مارو ۔ فَراغَ عَلَيْهِمْ ضَرْباً بِالْيَمِينِ [ الصافات 93] پھر ان کو داہنے ہاتھ سے مارنا اور توڑنا شروع کیا ۔ يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ [ محمد 27] ان کے مونہوں ۔۔۔۔ پر مارتے ہیں ۔ اور ضرب الارض بالمطر کے معنی بارش پر سنے کے ہیں ۔ اور ضرب الدراھم ( دراہم کو ڈھالنا ) کا محاورہ الضرب بالمطرقۃ کی مناسبت سے استعمال ہوتا ہے ۔ اور نکسال کے سکہ میں اثر کرنے کے مناسبت سے طبع الدرھم کہاجاتا ہے اور تشبیہ کے طور پر انسان کی عادت کو ضریبۃ اور طبیعۃ بھی کہہ دیتے ہیں ۔ ضرب فی الارض کے معنی سفر کرنے کے ہیں ۔ کیونکہ انسان پیدل چلتے وقت زمین پر پاؤں رکھتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَإِذا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ [ النساء 101] اور جب سفر کو جاؤ ۔ وَقالُوا لِإِخْوانِهِمْ إِذا ضَرَبُوا فِي الْأَرْضِ [ آل عمران 156] اور ان کے مسلمان بھائی جب خدا کی راہ میں سفر کریں ۔۔۔۔ تو ان کی نسبت کہتے ہیں ۔ لا يَسْتَطِيعُونَ ضَرْباً فِي الْأَرْضِ [ البقرة 273] اور ملک میں کسی طرف جانے کی طاقت نہیں رکھتے ۔ اور یہی معنی آیت : فَاضْرِبْ لَهُمْ طَرِيقاً فِي الْبَحْرِ [ طه 77] کے ہیں یعنی انہیں سمندر میں ( خشک راستے سے لے جاؤ ۔ ضرب الفحل ناقۃ ( نرکا مادہ سے جفتی کرنا ) یہ محاورہ ضرب بالمطرقۃ ( ہتھوڑے سے کوٹنا) کی مناسبت سے طرق الفحل الناقۃ کا محاورہ بولا جاتا ہے ۔ ضرب الخیمۃ خیمہ لگانا کیونکہ خیمہ لگانے کیلئے میخوں کو زمین میں ہتھوڑے سے ٹھونکاجاتا ہے اور خیمہ کی مناسبت سے آیت : ۔ ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ [ آل عمران 112] اور آخر کار ذلت ۔۔۔۔۔۔ ان سے چمٹا دی گئی۔ میں ذلۃ کے متعلق ضرب کا لفظاستعمال ہوا ہے جس کے معنی کہ ذلت نے انہیں اس طرح اپنی لپیٹ میں لے لیا جیسا کہ کیس شخص پر خیمہ لگا ہوا ہوتا ہے اور یہی معنی آیت : ۔ وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الْمَسْكَنَةُ [ آل عمران 112] اور ناداری ان سے لپٹ رہی ہے ۔ کے ہیں اور آیت : ۔ فَضَرَبْنا عَلَى آذانِهِمْ فِي الْكَهْفِ سِنِينَ عَدَداً [ الكهف 11] تو ہم نے غارکئی سال تک ان کے کانوں پر نیند کا پردہ ڈالے ( یعنی ان کو سلائے ) رکھا ۔ نیز آیت کر یمہ : ۔ فَضُرِبَ بَيْنَهُمْ بِسُورٍ [ الحدید 13] پھر ان کے بیچ میں ایک دیوار کھڑی کردی جائیگی ۔ میں ضرب کا لفظ ضرب الخیمۃ کے محاورہ سے مستعار ہے ۔ ضرب العود والنای والبوق عود اور نے بجان یا نر سنگھے میں پھونکنا ۔ ضرب اللبن : اینٹیں چننا، ایک اینٹ کو دوسری پر لگانا ضرب المثل کا محاورہ ضرب الدراھم ماخوذ ہے اور اس کے معنی ہیں : کسی بات کو اس طرح بیان کرنا کہ اس سے دوسری بات کی وضاحت ہو ۔ قرآن میں ہے ۔ ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا [ الزمر 29] خدا ایک مثال بیان فرماتا ہے ۔ وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلًا[ الكهف 32] اور ان سے ۔۔۔۔۔۔۔ قصہ بیان کرو ۔ ضَرَبَ لَكُمْ مَثَلًا مِنْ أَنْفُسِكُمْ [ الروم 28] وہ تمہارے لئے تمہارے ہی حال کی ایک مثال بیان فرماتا ہے ۔ وَلَقَدْ ضَرَبْنا لِلنَّاسِ [ الروم 58] اور ہم نے ۔۔۔۔۔۔۔ ہر طرح مثال بیان کردی ہے ۔ وَلَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْيَمَ مَثَلًا[ الزخرف 57] اور جب مریم (علیہ السلام) کے بیٹے ( عیسٰی کا حال بیان کیا گیا ۔ ما ضَرَبُوهُ لَكَ إِلَّا جَدَلًا[ الزخرف 58] انہوں نے عیسٰی کی جو مثال بیان کی ہے تو صرف جھگڑنے کو وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلَ الْحَياةِ الدُّنْيا[ الكهف 45] اور ان سے دنیا کی زندگی کی مثال بھی بیان کردو ۔ أَفَنَضْرِبُ عَنْكُمُ الذِّكْرَ صَفْحاً [ الزخرف 5] بھلا ( اس لئے کہ تم حد سے نکلے ہوے لوگ ہو ) ہم تم کو نصیحت کرنے سے باز رہیں گے ۔ المضاربۃ ایک قسم کی تجارتی شرکت ( جس میں ایک شخص کا سرمایہ اور دوسرے کی محنت ہوتی ہے اور نفع میں دونوں شریک ہوتے ہیں ) المضربۃ ( دلائی رضائی ) جس پر بہت سی سلائی کی گئی ہو ۔ التضریب اکسانا گویا اسے زمین میں سفر کی ترغیب دی جاتی ہے ۔ الا ضطراب کثرت سے آنا جانا حرکت کرنا یہ معنی ضرب الارض سے ماخوذ ہیں ۔ استضرب الناقۃ سانڈھے نے ناقہ پر جفتی کھانے کی خواہش کی ۔- فوق - فَوْقُ يستعمل في المکان، والزمان، والجسم، والعدد، والمنزلة،- وذلک أضرب :- الأول : باعتبار العلوّ.- نحو : وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة 63] ، مِنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ [ الزمر 16] ، وَجَعَلَ فِيها رَواسِيَ مِنْ فَوْقِها [ فصلت 10] ، ويقابله تحت . قال : قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ [ الأنعام 65] - الثاني : باعتبار الصّعود والحدور - . نحو قوله :إِذْ جاؤُكُمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ [ الأحزاب 10] .- الثالث : يقال في العدد .- نحو قوله : فَإِنْ كُنَّ نِساءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ [ النساء 11] .- الرابع : في الکبر والصّغر - مَثَلًا ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة 26] .- الخامس : باعتبار الفضیلة الدّنيويّة .- نحو : وَرَفَعْنا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجاتٍ [ الزخرف 32] ، أو الأخرويّة : وَالَّذِينَ اتَّقَوْا فَوْقَهُمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ البقرة 212] ، فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا [ آل عمران 55] .- السادس : باعتبار القهر والغلبة .- نحو قوله : وَهُوَ الْقاهِرُ فَوْقَ عِبادِهِ [ الأنعام 18] ، وقوله عن فرعون : وَإِنَّا فَوْقَهُمْ قاهِرُونَ [ الأعراف 127] - ( ف و ق ) فوق - یہ مکان ازمان جسم عدد اور مرتبہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے - اور کئی معنوں میں بولا جاتا ہے - اوپر جیسے فرمایا ۔ وَرَفَعْنا فَوْقَكُمُ الطُّورَ [ البقرة 63] اور کوہ طور کو تم پر اٹھا کھڑا کیا ۔ مِنْ فَوْقِهِمْ ظُلَلٌ مِنَ النَّارِ [ الزمر 16] کے اوپر تو آگ کے سائبان ہوں گے ۔ وَجَعَلَ فِيها رَواسِيَ مِنْ فَوْقِها [ فصلت 10] اور اسی نے زمین میں اس کے پہاڑ بنائے ۔ اس کی ضد تحت ہے جس کے معنی نیچے کے ہیں چناچہ فرمایا ۔ قُلْ هُوَ الْقادِرُ عَلى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذاباً مِنْ فَوْقِكُمْ أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ [ الأنعام 65] کہ وہ اس پر بھی قدرت رکھتا ہے کہ تم پر اوپر کی طرف سے یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے عذاب بھیجے - ۔ 2 صعود یعنی بلند ی کی جانب کے معنی میں - اس کی ضدا سفل ہے جس کے معنی پستی کی جانب کے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ إِذْ جاؤُكُمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَمِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ [ الأحزاب 10] جب وہ تمہارے اوپر اور نیچے کی جانب سے تم پر چڑھ آئے - ۔ 3 کسی عدد پر زیادتی کے معنی - ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے جیسے فرمایا : ۔ فَإِنْ كُنَّ نِساءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ [ النساء 11] اگر اولاد صرف لڑکیاں ہی ہوں ( یعنی دو یا ) دو سے زیادہ - ۔ 4 جسمانیت کے لحاظ سے بڑا یا چھوٹا ہونے کے معنی - دیتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : مَثَلًا ما بَعُوضَةً فَما فَوْقَها[ البقرة 26] مچھر یا اس سے بڑھ کر کسی چیز مثلا مکھی ۔ مکڑی کی مثال بیان فرمائے ۔- 5 بلحاظ فضیلت دنیوی کے استعمال ہوتا ہے - جیسے فرمایا ۔ وَرَفَعْنا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجاتٍ [ الزخرف 32] اور ایک دوسرے پر درجے بلند کئے ۔ اور کبھی فضلیت اخروی کے لحاظ سے آتا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اتَّقَوْا فَوْقَهُمْ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ البقرة 212] لیکن جو پرہیز گار ہیں وہ قیامت کے دن ان پر پر فائق ہوں گے ۔ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا [ آل عمران 55] کافروں پر فائق ۔- 6 فوقیت معنی غلبہ اور تسلط - کے جیسے فرمایا : ۔ وَهُوَ الْقاهِرُ فَوْقَ عِبادِهِ [ الأنعام 18] اور وہ اپنے بندوں پر غالب ہے ۔ وَإِنَّا فَوْقَهُمْ قاهِرُونَ [ الأعراف 127] فرعون سے اور بےشبہ ہم ان پر غالب ہیں ۔ - عنق - العُنُقُ : الجارحة، وجمعه أَعْنَاقٌ. قال تعالی: وَكُلَّ إِنسانٍ أَلْزَمْناهُ طائِرَهُ فِي عُنُقِهِ- ( ع ن ق ) العنق - ۔ گردن جمع اعناق ۔ قرآن میں ہے : وَكُلَّ إِنسانٍ أَلْزَمْناهُ طائِرَهُ فِي عُنُقِهِ [ الإسراء اور ہم نے پر انسان کے اعمال کو ( یہ صورت کتاب ) اس کے گلے میں لٹکا دیا ہے ۔ - بنَانه - البَنَان : الأصابع، قيل : سمّيت بذلک لأنّ بها صلاح الأحوال التي يمكن للإنسان أن يبنّ بها، يريد : أن يقيم بها، ويقال : أَبَنَّ بالمکان يُبِنُّ ولذلک خصّ في قوله تعالی: بَلى قادِرِينَ عَلى أَنْ نُسَوِّيَ بَنانَهُ [ القیامة 4] ، وقوله تعالی: وَاضْرِبُوا مِنْهُمْ كُلَّ بَنانٍ [ الأنفال 12] ، خصّه لأجل أنهم بها تقاتل وتدافع، والبَنَّة : الرائحة التي تبنّ بما تعلق به .- ( ب ن ن ) البنان ( واحد بنانۃ ) کے معنی انگلیاں ریا ن کے اطراف کے ہیں یہ ابن بالمکان کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی کسی جگہ اقامت پزیر ہونے کے ہیں اور چونکہ کسی جگہ اقامت کیلئے ضروریات زندگی کی اصلاح بھی انگلیوں سے ہوتی ہے اس لئے ان کو بنان کہا جاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آیت کریمہ : بَلَى قَادِرِينَ عَلَى أَنْ نُسَوِّيَ بَنَانَهُ ( سورة القیامة 4) ضرور کریں گے ( اور ) ہم اس بات پر قادر ہیں کہ اس کی پورا پورا درست کریں ۔ میں انگلیوں کی درستگی پر اپنی قدرت کا اظہار کیا ہے اسی طرح آیت : وَاضْرِبُوا مِنْهُمْ كُلَّ بَنَانٍ ( سورة الأَنْفال 12) اور ان کا پور پور مار ( کر توڑ ) دو ۔ میں خاص کر ان کے پور پور کاٹ ڈالتے کا حکم دیا گیا ہے ۔ کیونکہ یہ مدافعت اور مقاتلہ کا واحد ذریعہ ہیں ۔ البنتہ بو اچھی یا بری ۔ کیونکہ اس میں کسی چیز کے ساتھ لازم ہونے کی وجہ سے ٹھر نے کے معنی پائے جاتے ہیں ۔
(١٢) اور جب آپ کے پروردگار نے ان امداد کے فرشتوں کو وحی کی، یا حکم دیا کہ میں تمہارا ساتھی ہوں کہ لڑائی میں مومنوں کی مدد کرو فتح کی بشارت دے کر ان کی ہمت بڑھاؤں، میں ان کفار کے دلوں میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام (رض) کا رعب ڈالے دیتا ہوں۔
آیت ١٢ (اِذْ یُوْحِیْ رَبُّکَ اِلَی الْمَلآءِکَۃِ اَنِّیْ مَعَکُمْ فَثَبِّتُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ط) ۔- وہی ایک ہزار فرشتے جن کا ذکر پہلے گزر چکا ہے ‘ انہیں میدان جنگ میں مسلمانوں کے شانہ بشانہ رہنے کی ہدایت کا تذکرہ ہے۔- (سَاُلْقِیْ فِیْ قُلُوْبِ الَّذِیْنَ کَفَرُوا الرُّعْبَ فَاضْرِبُوْا فَوْقَ الْاَعْنَاقِ وَاضْرِبُوْا مِنْہُمْ کُلَّ بَنَانٍ ) - اللہ تعالیٰ نے کفار کو بھر پور مقابلے کے دوران دہشت زدہ کردیا تھا اور جب کوئی شخص اپنے حریف کے مقابلے میں دہشت زدہ ہوجائے تو اس کے اندر قوت مدافعت نہیں رہتی۔ پھر وہ گویا حملہ آور کے رحم وکرم پر ہوتا ہے ‘ وہ جدھر سے چاہے اسے چوٹ لگائے ‘ جدھر سے چاہے اسے مارے۔
سورة الْاَنْفَال حاشیہ نمبر :10 جو اصولی باتیں ہم کو قرآن کے ذریعہ سے معلوم ہیں ان کی بنا پر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ فرشتوں سے قتال میں یہ کام نہیں لیا گیا ہوگا یہ وہ خود حرب و ضرب کا کام کریں ، بلکہ شاید اس کی صورت یہ ہوگی کہ کفار پر جو ضرب مسلمان لگائیں وہ فرشتوں کی مدد سے ٹھیک بیٹھے اور کاری لگے ۔ واللہ اعلم بالصواب ۔