Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

تائید الٰہی کے بعد فتح و کامرانی ۔ اللہ تعالیٰ اپنے احسانات بیان فرماتا ہے کہ اس جنگ بدر میں جبکہ اپنی کمی اور کافروں کی زیادتی ، اپنی بےسرو سامانی اور کافروں کے پر شوکت سروسامان دیکھ کر مسلمانوں کے دل پر برا اثر پڑ رہا تھا پروردگار نے ان کے دلوں کے اطمینان کیلئے ان پر اونگھ ڈال دی جنگ احد میں بھی یہی حال ہوا تھا جیسے فرمان ہے آیت ( ثُمَّ اَنْزَلَ عَلَيْكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ الْغَمِّ اَمَنَةً نُّعَاسًا يَّغْشٰى طَاۗىِٕفَةً مِّنْكُمْ ۙ وَطَاۗىِٕفَةٌ قَدْ اَهَمَّتْھُمْ اَنْفُسُھُمْ يَظُنُّوْنَ بِاللّٰهِ غَيْرَ الْحَقِّ ظَنَّ الْجَاهِلِيَّةِ ۭ يَقُوْلُوْنَ ھَلْ لَّنَا مِنَ الْاَمْرِ مِنْ شَيْءٍ ۭ قُلْ اِنَّ الْاَمْرَ كُلَّهٗ لِلّٰهِ ۭ يُخْفُوْنَ فِيْٓ اَنْفُسِھِمْ مَّا لَا يُبْدُوْنَ لَكَ ۭ يَقُوْلُوْنَ لَوْ كَانَ لَنَا مِنَ الْاَمْرِ شَيْءٌ مَّا قُتِلْنَا ھٰهُنَا ۭقُلْ لَّوْ كُنْتُمْ فِيْ بُيُوْتِكُمْ لَبَرَزَ الَّذِيْنَ كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقَتْلُ اِلٰى مَضَاجِعِھِمْ ۚ وَلِيَبْتَلِيَ اللّٰهُ مَا فِيْ صُدُوْرِكُمْ وَلِيُمَحِّصَ مَا فِيْ قُلُوْبِكُمْ ۭ وَاللّٰهُ عَلِيْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ ١٥٤؁ ) 3-آل عمران:154 ) ، یعنی پورے غم و رنج کے بعد اللہ تعالیٰ نے تمہیں امن دیا جو اونگھ کی صورت میں تمہیں ڈھانکے ہوئے تھا ایک جماعت اسی میں مشغول تھی ۔ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں بھی ان لوگوں میں سے تھا جن پر احد والے دن اونگھ غالب آ گئی تھی اس وقت میں نیند میں جھوم رہا تھا میری تلوار میرے ہاتھ سے گر پڑتی تھی اور میں اٹھاتا تھا میں نے جب نظر ڈالی تو دیکھا کہ لوگ ڈھالیں سروں پر رکھے ہوئے نیند کے جھولے لے رہے ہیں ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ بدر والے دن ہمارے پورے لشکر میں گھوڑ سوار صرف ایک ہی حضرت مقداد تھے میں نے نگاہ بھر کر دیکھا کہ سارا لشکر نیند میں مست ہے صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جاگ رہے تھے آپ ایک درخت تلے نماز میں مشغول تھے روتے جاتے تھے اور نماز پڑھتے جاتے تھے صبح تک آپ اسی طرح مناجات میں مشغول رہے ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی للہ عنہ فرماتے ہیں کہ میدان جنگ میں اونگھ کا آنا اللہ کی طرف سے امن کا ملنا ہے اور نماز میں اونگھ کا آنا شیطانی حرکت ہے ، اونگھ صرف آنکھوں میں ہی ہوتی ہے اور نیند کا تعلق دل سے ہے ۔ یہ یاد رہے کہ اونگھ آنے کا مشہور واقعہ تو جنگ احد کا ہے لیکن اس آیت میں جو بدر کے واقعہ کے قصے کے بیان میں اونگھ کا اترنا موجود ہے پس سخت لڑائی کے وقت یہ واقعہ ہوا اور مومنوں کے دل اللہ کے عطا کردہ امن سے مطمئن ہوگئے یہ بھی مومنوں پر اللہ کا فضل و کرم اور اس کا لطف و رحم تھا سچ ہے سختی کے بعد آسانی ہے ۔ صحیح حدیث میں ہے کہ حضرت صدیق اکبر کے ساتھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک چھپر تلے دعا میں مشغول تھے جو حضور اونگھنے لگے ۔ تھوڑی دیر میں جاگے اور تبسم فرما کر حضرت صدیق اکبر سے فرمایا خوش ہو یہ ہیں جبرائیل علیہ السلام گرد آلود پھر آیت قرآنی ( سیھزم الجمع ویولون الدبر ) پڑھتے ہوئے جھونپڑی کے دروازے سے باہر تشریف لائے ۔ یعنی ابھی ابھی یہ لشکر شکست کھائے گا اور پیٹھ پھیر کر بھاگے گا ۔ دوسرا احسان اس جنگ کے موقعہ پر یہ ہوا کہ بارش برس گئی ابن عباس فرماتے ہیں کہ مشرکوں نے میدان بدر کے پانی پر قبضہ کر لیا تھا مسلمانوں کے اور پانی کے درمیان وہ حائل ہوگئے تھے مسلمان کمزوری کی حالت میں تھے شیطان نے ان کے دلوں میں وسوسہ ڈالنا شروع کیا کہ تم تو اپنے تئیں اللہ والے سمجھتے ہو اور اللہ کے رسول کو اپنے میں موجود مانتے ہو اور حالت یہ ہے کہ پانی تک تمہارے قبضہ میں نہیں مشرکین کے ہاتھ میں پانی ہے تم نماز بھی جنبی ہونے کی حالت میں پڑھ رہے ہو ایسے وقت آسمان سے مینہ برسنا شروع ہوا اور پانی کی ریل پیل ہو گئی ۔ مسلمانوں نے پانی پیا بھی ، پلایا بھی ، نہا دھو کر پاکی بھی حاصل کر لی اور پانی بھر بھی لیا اور شیطانی وسوسہ بھی زائل ہو گیا اور جو چکنی مٹی پانی کے راستے میں تھی دھل کر وہاں کی سخت زمین نکل آئی اور ریت جم گئی کہ اس پر آمد ورفت آسان ہو گئی اور فرشتوں کی امداد آسمان سے آ گئی پانچ سو فرشتے تو حضرت جبرائیل علیہ السلام کی ما تحتی میں اور پانچ سو حضرت میکائیل کی ما تحتی میں ۔ مشہور یہ ہے کہ آپ جب بدر کی طرف تشریف لے چلے تو سب سے پہلے جو پانی تھا وہاں ٹھہرے حضرت حباب بن منذر رضی اللہ عنہ نے آپ سے عرض کیا کہ اگر آپ کو اللہ کا حکم یہاں پڑاؤ کرنے کا ہوا تب تو خیر اور اگر جنگی مصلحت کے ساتھ پڑاؤ یہاں کیا ہو تو آپ اور آگے چلئے آخری پانی پر قبضہ کیجئے وہیں حوض بنا کر یہاں کے سب پانی وہاں جمع کرلیں تو پانی پر ہمارا قبضہ رہے گا اور دشمن پانی بغیر رہ جائے گا اور آپ نے یہی کیا بھی ۔ مغازی اموی میں ہے کہ اس رائے کے بعد جبرائیل کی موجودگی میں ایک فرشتے نے آ کر آپ کو سلام پہنچایا اور اللہ کا حکم بھی کہ یہی رائے ٹھیک ہے ۔ آپ نے اس وقت حضرت جبرائیل سے پوچھا کہ آپ انہیں جانتے ہیں؟ حضرت جبرائیل نے فرمایا میں آسمان کے تمام فرشتوں سے واقف نہیں ہوں ہاں ہیں یہ فرشتے شیطان نہیں ۔ سیرت ابن اسحاق میں ہے کہ مشرکین ڈھلوان کی طرف تھے اور مسلمان اونچائی کی طرف تھے بارش ہونے سے مسلمانوں کی طرف تو زمین دھل کر صاف ہو گئی اور پانی سے انہیں نفع پہنچا لیکن مشرکین کی طرف پانی کھڑا ہو گیا ۔ کیچڑ اور پھسلن ہو گئی کہ انہیں چلنا پھرنا دو بھر ہو گیا بارش اس سے پہلے ہوئی تھی غبار جم گیا تھا زمین سخت ہوگئی تھی دلوں میں خوشی پیدا ہوگئی تھی ثابت قدمی میسر ہو چکی تھی اب اونگھ آنے لگی اور مسلمان تازہ دم ہوگئے ۔ صبح لڑائی ہونے والی ہے رات کو ہلکی سی بارش ہو گئی ہم درختوں تلے جاچھپے حضور مسلمانوں کو جہاد کی رغبت دلاتے رہے ۔ یہ اس لئے کہ اللہ تمہیں پاک کر دے وضو بھی کر لو اور غسل بھی اس ظاہری پاکی کے ساتھ ہی باطنی پاکیزگی بھی حاصل ہوئی شیطانی وسوسے بھی دور ہوگئے دل مطمئن ہوگئے جیسے کہ جنتیوں کے بارے میں فرمان ہے کہ آیت ( عالیھم ثیاب سندس خضر الخ ) ، ان کے بدن پر نہیں اور موٹے ریشمی کپڑے ہوں گے اور انہیں چاندی کے کنکھن پہنائے جائیں گے اور انہیں ان کا رب پاک اور پاک کرنے والا شربت پلائے گا پس لباس اور زیور تو ظاہری زینت کی چیز ہوئی اور پاک کرنے والا پانی جس سے دلوں کی پاکیزگی اور حسد و بغض کی دوری ہو جائے ۔ یہ تھی باطنی زینت ۔ پھر فرماتا ہے کہ اس سے مقصود دلوں کی مضبوطی بھی تھی کہ صبرو برداشت پیدا ہو شجاعت و بہادری ہو دل بڑھ جائے ثابت قدمی ظاہر ہو جائے اور حملے میں استقامت پیدا ہو جائے واللہ اعلم ۔ پھر اپنی ایک باطنی نعمت کا اظہار فرما رہا ہے تاکہ مسلمان اس پر بھی اللہ کا شکر بجا لائیں کہ اللہ تعالیٰ تبارک و تقدس و تمجد نے فرشتوں کو حکم دیا کہ تم جاؤ مسلمانوں کی مدد و نصرت کرو ، ان کے ساتھ مل کر ہمارے دشمنوں کو نیچا دکھاؤ ۔ ان کی گنتی گھٹاؤ اور ہمارے دوستوں کی تعداد بڑھاؤ ۔ کہا گیا ہے کہ فرشتہ کسی مسلمان کے پاس آتا اور کہتا کہ مشرکوں میں عجیب بد دلی پھیلی ہوئی ہے ۔ وہ تو کہہ رہے ہیں کہ اگر مسلمانوں نے حملہ کر دیا تو ہمارے قدم نہیں ٹک سکتے ہم تو بھاگ کھڑے ہوں گے ۔ اب ہر ایک دوسرے سے کہتا دوسرا تیسرے سے پھر صحابہ کے دل بڑھ جاتے اور سمجھ لیتے کہ مشرکوں میں طاقت و قوت نہیں ۔ پھر فرماتا ہے کہ تم اے فرشتوں اس کام میں لگو ادھر میں مشرکوں کے دلوں میں مسلمانوں کی دھاک بٹھا دوں گا میں ان کے دلوں میں ذلت اور حقارت ڈال دوں گا میرے حکم کے نہ ماننے والوں کا میرے رسول کے منکروں کا یہی حال ہوتا ہے ۔ پھر تم ان کے سروں پر وار لگا کر دماغ نکال دو ، گردنوں پر تلوار مار کے سر اور دھڑ میں جدائی کردو ۔ ہاتھ پاؤں اور جوڑ جوڑ پور پور کو تاک تاک کر زخم لگاؤ ۔ پس گردنوں کے اوپر سے بعض کے نزدیک مراد تو سر ہیں اور بعض کے نزدیک خود گردن مراد ہے چنانچہ اور جگہ ہے آیت ( فضرب الرقاب ) گردنین مارو ۔ حضور فرماتے ہیں میں قدرتی عذابوں سے لوگوں کو ہلاک کرنے کیلئے نہیں بھیجا گیا بلکہ گردن مارنے اور قید کرنے کیلئے بھیجا گیا ہوں ۔ امام ابن جرید فرماتے ہیں کہ گردن پر اور سر پر وار کرنے کا استدلال اس سے ہو سکتا ہے ۔ مغازی اموی میں ہے کہ مقتولین بدر کے پاس سے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گذرے تو ایک شعر کا ابتدائی ٹکڑا آپ نے پڑھ دیا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے پورا شعر پڑھ دیا ۔ آپ کو نہ شعر یاد تھے نہ آپ کے لائق ۔ اس شعر کا مطلب یہی ہے کہ جو لوگ ظالم اور باغی تھے اور آج تک غلبے اور شوکت سے تھے آج ان کے سر ٹوٹے ہوئے اور ان کے دماغ بکھرے ہوئے ہیں ۔ کہتے ہیں کہ جو مشرک لوگ فرشتوں کے ہاتھ قتل ہوئے تھے انہیں مسلمان اس طرح پہچان لیتے تھے کہ ان کی گردنوں کے اوپر اور ہاتھ پیروں کے جوڑ ایسے زخم زدہ تھے جیسے آگ سے جلے ہونے کے نشانات ۔ بنان جمع ہے بنانتہ کی ۔ عربی شعروں میں بنانہ کا استعمال موجود ہے پس ہر جوڑ اور ہر حصے کو بنان کہتے ہیں ۔ اوزاعی کہتے ہیں منہ پر آنکھ پر آگ کے کوڑے برساؤ ہاں جب انہیں گرفتار کر لو پھر نہ مارنا ۔ ابو جہل ملعون نے کہا تھا کہ جہاں تک ہو سکے مسلمانوں کو زندہ گرفتار کر لو تاکہ ہم انہیں اس بات کا مزہ زیادہ دیر تک چکھائیں کہ وہ ہمارے دین کو برا کہتے تھے ، ہمارے دین سے ہٹ گئے تھے ، لات و عزی کی پرستش چھوڑ بیٹھے ٹھے ۔ پس اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں اور فرشتوں کو یہ حکم دیا ۔ چنانچہ جو ستر آدمی ان کافروں کے قتل ہوئے ان میں ایک یہ پاجی بھی تھا اور جو ستر آدمی قید ہوئے ان میں ایک عقبہ بن ابی معیط بھی تھا لعنہ اللہ تعالیٰ ، اس کو قید میں ہی قتل کیا گیا اور اس سمیت مقتولین مشرکین کی تعداد ستر ہی تھی ۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی مخالفت کا نتیجہ اور بدلہ یہ ہے ۔ شقاق ماخوذ ہے شق سے ۔ شق کہتے ہیں پھاڑنے چیرنے اور دو ٹکڑے کرنے کو ۔ پس ان لوگوں نے گویا شریعت ، ایمان اور فرماں برداری کو ایک طرف کیا اور دوسری جانب خود رہے ۔ لکڑی کے پھاڑنے کو بھی عرب یہی کہتے ہیں جبکہ لکڑی کے دو ٹکڑے کر دیں ۔ اللہ اور اس کے رسول کے خلاف چل کر کوئی بچ نہیں سکا ۔ کون ہے جو اللہ سے چھپ جائے؟ اور اس کے بےپناہ اور سخت عذابوں سے بچ جائے؟ نہ کوئی اس کے مقابلے کا نہ کسی کو اس کے عذابوں کی طاقت نہ اس سے کوئی بچ نکلے ۔ نہ اس کا غضب کوئی سہہ سکے ۔ وہ بلند و بالا وہ غالب اور انتقام والا ہے ۔ اس کے سوا کوئی معبود اور رب نہیں ۔ وہ اپنی ذات میں ، اپنی صفتوں میں یکتا اور لا شریک ہے ۔ اے کافرو دنیا کے یہ عذاب اٹھاؤ اور ابھی آخرت میں دوزخ کا عذاب باقی ہے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

11۔ 1 جنگ احد کی طرح جنگ بدر میں بھی اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر اونگھ طاری کردی جس سے ان کے دلوں کے بوجھ ہلکے ہوگئے اور اطمینان و سکون کی ایک خاص کیفیت ان پر طاری ہوگئی۔ 11۔ 2 تیسرا انعام یہ کیا کہ بارش نازل فرمادی جس سے ایک تو ریتلی زمین میں نقل و حرکت آسان ہوگئی دوسرے وضو و طہارت میں آسانی ہوگئی، تیسرے اس سے شیطانی وسوسوں کا ازالہ فرما دیا جو اہل ایمان کے دلوں میں ڈال رہا تھا کہ تم اللہ کے نیک بندے ہوتے ہوئے بھی پانی سے دور ہو، دوسرے جنابت کی حالت میں تم لڑوگے تو کیسے اللہ کی رحمت و نصرت تمہیں حاصل ہوگی ؟ تیسرے تم پیاسے ہو، جب کہ تمہارے دشمن سیراب ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔ 11۔ 3 یہ چوتھا انعام ہے جو دلوں اور قدموں کو مضبوط کرکے کیا گیا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اِذْ يُغَشِّيْكُمُ النُّعَاسَ اَمَنَةً مِّنْهُ : جنگ بدر میں فرشتوں کے ساتھ مدد کے علاوہ یہ دوسری مدد تھی۔ یہ اونگھ دو طرح سے آئی، ایک تو یہ کہ جس رات کی صبح کو لڑائی ہونے والی تھی صحابہ کرام (رض) خوب سوئے، حالانکہ دشمن کی فکر لگی ہوئی تھی مگر اللہ تعالیٰ نے ان پر نیند بھیج دی، تاکہ وہ تازہ دم ہوجائیں اور دشمن کا ڈٹ کر مقابلہ کریں۔ علی (رض) فرماتے ہیں : ” بدر کے دن مقداد (رض) کے سوا اور کسی کے پاس گھوڑا نہیں تھا، میں نے دیکھا کہ ہم میں سے ہر شخص سو رہا تھا مگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) درخت کے نیچے نماز پڑھتے رہے اور رو رو کر دعائیں کرتے رہے، حتیٰ کہ صبح ہوگئی۔ “ [ أحمد : ١؍١٢٥، ح : ١٠٢٣، قال شعیب أرنؤوط إسنادہ صحیح ] اس نیند کے ساتھ مسلمان تازہ دم ہوگئے۔ دوسرا یہ کہ لڑائی سے پہلے میدان میں آنے پر تمام مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ نے اونگھ طاری کردی، حتیٰ کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بھی۔- حافظ ابن کثیر (رض) فرماتے ہیں : ” لڑائی کے دوران میں اونگھ طاری ہونے کا واقعہ جنگ احد میں بھی پیش آیا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (ثُمَّ اَنْزَلَ عَلَيْكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ الْغَمِّ اَمَنَةً نُّعَاسًا يَّغْشٰى طَاۗىِٕفَةً مِّنْكُمْ ) [ آل عمران : ١٥٤ ] ” پھر اس غم کے بعد اس نے تم پر ایک امن نازل فرمایا، جو ایک اونگھ تھی، جو تم میں سے کچھ لوگوں پر چھا رہی تھی۔ “ یہاں مذکور آیت : (ۧاِذْ يُغَشِّيْكُمُ النُّعَاسَ ) میں یہ معاملہ بدر کے دن پیش آیا، جس سے مسلمانوں کے دلوں سے دشمن کا خوف ختم ہوگیا اور امن و اطمینان کی کیفیت پیدا ہوگئی۔ “ سبھی شرکاء پر ایک ہی وقت میں اونگھ طاری کرنا، جس سے وہ بےسدھ ہو کر سو بھی نہ جائیں، بلکہ دشمن کی حرکت پر فوراً متحرک ہوجائیں اور اس اونگھ کی برکت سے انھیں ہر قسم کے خطرے سے بےخوف کرکے امن عطا کرنا، یقیناً ایک عظیم معجزہ تھا۔ اہل علم فرماتے ہیں، لڑائی کے دوران میں اونگھ آنا اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت ہوتی ہے۔- وَيُنَزِّلُ عَلَيْكُمْ مِّنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً : یہ بھی اسی رات کا واقعہ ہے کہ رات کو بارش ہوگئی، جس سے ایک تو ریت جم گئی اور زمین پر پاؤں اچھی طرح جمنے لگے، جس سے فائدہ اٹھا کر مسلمان آگے بڑھے، نقل و حرکت آسان ہوگئی، دوسرے پانی کی کمی دور ہوگئی اور وضو اور طہارت کے لیے آسانی ہوگئی، جب کہ کفار کے پڑاؤ کی جگہ نیچی تھی، وہاں بارش کی وجہ سے کیچڑ ہوگئی اور پاؤں پھسلنے لگے۔ تیسرے مسلمانوں کے دلوں سے شیطان کی گندگی، یعنی گھبراہٹ، خوف، اللہ تعالیٰ سے بدگمانی اور مایوسی کی کیفیت دور ہوگئی اور صبح ہوئی تو وہ لڑنے کے لیے چاق چوبند تھے۔ بدر کے موقع پر یہ تیسرا انعام تھا جس سے کفار پر فتح یاب ہونے میں بڑی مدد ملی۔ (ابن کثیر)

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - اس وقت کو یاد کرو جب کہ اللہ تعالیٰ تم پر اونگ طاری کر رہا تھا اپنی طرف سے چین دینے کے لئے اور تم پر آسمان سے پانی برسا رہا تھا تاکہ اس پانی کے ذریعہ تم کو ( بےوضو یا بےغسل ہونے کی حالت سے) پاک کردے اور ( تاکہ اس کے ذریعہ) تم سے شیطانی وسوسہ کو دفع کردے اور ( تاکہ) تمہارے دلوں کو مضبوط کردے اور (تاکہ) تمہارے پاؤں جمادے ( یعنی تم ریگ میں نہ دھسو) اس وقت کو یاد کرو جب کہ آپ کا رب ( ان) فرشتوں کو ( جو امداد کے لئے نازل ہوئے تھے) حکم دیتا تھا کہ میں تمہارا ساتھی ہوں تو ایمان والوں کی ہمت بڑھاؤ میں ابھی کفار کے قلوب میں رعب ڈالے دیتا ہوں سو تم کفار کی گردنوں پر ( حربہ) مارو اور ان کے پور پور کو مارو۔ یہ اس بات کی سزا ہے کہ انہوں نے اللہ کی اور اس کے رسول کی مخالفت کی اور جو اللہ کی اور اس کے رسول کی مخالفت کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ ( اس کو سخت سزا دیتے ہیں ( خواہ دنیا میں کسی حکمت سے یا آخرت میں یا دونوں میں) سو ( بالفعل) یہ سزا چکھو اور جان رکھو کہ کافروں کے لئے جہنم کا عذاب مقرر ہی ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِذْ يُغَشِّيْكُمُ النُّعَاسَ اَمَنَۃً مِّنْہُ وَيُنَزِّلُ عَلَيْكُمْ مِّنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً لِّيُطَہِّرَكُمْ بِہٖ وَيُذْہِبَ عَنْكُمْ رِجْزَ الشَّيْطٰنِ وَلِيَرْبِطَ عَلٰي قُلُوْبِكُمْ وَيُثَبِّتَ بِہِ الْاَقْدَامَ۝ ١١ ۭ- غشي - غَشِيَهُ غِشَاوَةً وغِشَاءً : أتاه إتيان ما قد غَشِيَهُ ، أي : ستره . والْغِشَاوَةُ : ما يغطّى به الشیء، قال : وَجَعَلَ عَلى بَصَرِهِ غِشاوَةً [ الجاثية 23] - ( غ ش و ) غشیۃ غشاوۃ وغشاء - اس کے پاس اس چیز کی طرح آیا جو اسے چھپائے غشاوۃ ( اسم ) پر دہ جس سے کوئی چیز ڈھانپ دی جائے قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلَ عَلى بَصَرِهِ غِشاوَةً [ الجاثية 23] اور اس کی آنکھوں پر پر دہ ڈال دیا ۔ - نعس - النُّعَاسُ : النَّوْمُ القلیلُ. قال تعالی: إِذْ يُغَشِّيكُمُ النُّعاسَ أَمَنَةً [ الأنفال 11] ، نُعاساً [ آل عمران 154] وقیل : النُّعَاسُ هاهنا عبارةٌ عن السُّكُونِ والهُدُوِّ ، وإشارةٌ إلى قول النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : «طُوبَى لِكُلِّ عَبْدٍ نُوَمَةٍ» ( ن ع س ) النعاس کے معنی اونگھ یا ہلکی سی نیند کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ إِذْ يُغَشِّيكُمُ النُّعاسَ أَمَنَةً [ الأنفال 11] جب اس نے تمہیں نیند کی چادر اڑھادی ۔ نُعاساً [ آل عمران 154] تسلی ۔۔۔۔ یعنی نیند بعض نے کہا ہے کہ یہاں نعاس سے مراد سکون اور اطمینان ہے اور یہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قول مبارک کی طرف اشارہ ہے طوبیٰ لکل عبد نومۃ کہ ہر باسکون آدمی کے لئے خوش خبری ہے ۔- أمن - أصل الأَمْن : طمأنينة النفس وزوال الخوف، والأَمْنُ والأَمَانَةُ والأَمَانُ في الأصل مصادر، ويجعل الأمان تارة اسما للحالة التي يكون عليها الإنسان في الأمن، وتارة اسما لما يؤمن عليه الإنسان، نحو قوله تعالی: وَتَخُونُوا أَماناتِكُمْ [ الأنفال 27] ، أي : ما ائتمنتم عليه، - ( ا م ن ) الامن ۔ اصل میں امن کا معنی نفس کے مطمئن ہونا کے ہیں ۔ امن ، امانۃ اور امان یہ سب اصل میں مصدر ہیں اور امان کے معنی کبھی حالت امن کے آتے ہیں اور کبھی اس چیز کو کہا جاتا ہے جو کسی کے پاس بطور امانت رکھی جائے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ وَتَخُونُوا أَمَانَاتِكُمْ ( سورة الأَنْفال 27) یعنی وہ چیزیں جن پر تم امین مقرر کئے گئے ہو ان میں خیانت نہ کرو ۔ - نزل - النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] - ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا - سما - سَمَاءُ كلّ شيء : أعلاه، قال بعضهم : كلّ سماء بالإضافة إلى ما دونها فسماء، وبالإضافة إلى ما فوقها فأرض إلّا السّماء العلیا فإنها سماء بلا أرض، وحمل علی هذا قوله : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] ، - ( س م و ) سماء - ہر شے کے بالائی حصہ کو سماء کہا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے ( کہ یہ اسماء نسبیہ سے ہے ) کہ ہر سماء اپنے ماتحت کے لحاظ سے سماء ہے لیکن اپنے مافوق کے لحاظ سے ارض کہلاتا ہے ۔ بجز سماء علیا ( فلک الافلاک ) کے کہ وہ ہر لحاظ سے سماء ہی ہے اور کسی کے لئے ارض نہیں بنتا ۔ اور آیت : اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَماواتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ [ الطلاق 12] خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمنینیں ۔ کو اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔- ماء - قال تعالی: وَجَعَلْنا مِنَ الْماءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍ [ الأنبیاء 30] ، وقال : وَأَنْزَلْنا مِنَ السَّماءِ ماءً طَهُوراً [ الفرقان 48] ، ويقال مَاهُ بني فلان، وأصل ماء مَوَهٌ ، بدلالة قولهم في جمعه :- أَمْوَاهٌ ، ومِيَاهٌ. في تصغیره مُوَيْهٌ ، فحذف الهاء وقلب الواو،- ( م ی ہ ) الماء - کے معنی پانی کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا مِنَ الْماءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍ [ الأنبیاء 30] اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی سے بنائیں ۔ وَأَنْزَلْنا مِنَ السَّماءِ ماءً طَهُوراً [ الفرقان 48] پاک ( اور نتھرا ہوا پانی اور محاورہ ہے : ۔ ماء بنی فلان فلاں قبیلے کا پانی یعنی ان کی آبادی ماء اصل میں موہ ہے کیونکہ اس کی جمع امراۃ اور میاہ آتی ہے ۔ اور تصغیر مویۃ پھر ہا کو حزف کر کے واؤ کو الف سے تبدیل کرلیا گیا ہے - طهر - والطَّهَارَةُ ضربان :- طَهَارَةُ جسمٍ ، وطَهَارَةُ نفسٍ ، وحمل عليهما عامّة الآیات . يقال : طَهَّرْتُهُ فَطَهُرَ ، وتَطَهَّرَ ، وَاطَّهَّرَ فهو طَاهِرٌ ومُتَطَهِّرٌ. قال تعالی: وَإِنْ كُنْتُمْ جُنُباً فَاطَّهَّرُوا[ المائدة 6] ، أي : استعملوا الماء، أو ما يقوم مقامه، قال : وَلا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّى يَطْهُرْنَ فَإِذا تَطَهَّرْنَ [ البقرة 222] ،- ( ط ھ ر ) طھرت - طہارت دو قسم پر ہے - ۔ طہارت جسمانی اور طہارت قلبی اور قرآن پاک میں جہاں کہیں طہارت کا لفظ استعمال ہوا ہے وہاں بالعموم دونوں قسم کی طہارت مراد ہے کہا جاتا ہے : ۔ طھرتہ فطھروتطھر واطھر فھو طاھر ومتطھر - میں نے اسے پاک کیا چناچہ وہ پاک ہوگیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِنْ كُنْتُمْ جُنُباً فَاطَّهَّرُوا[ المائدة 6] اور اگر نہانے کی حاجت ہو تو نہاکر پاک ہوجایا کرو ۔ یعنی یا جو چیز اس کے قائم مقام ہو اس کے ذریعہ طہارت کرلیا کرو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَلا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّى يَطْهُرْنَ فَإِذا تَطَهَّرْنَ [ البقرة 222] اور جب تک پاک نہ ہوجائیں ان سے مقاربت نہ کرو ۔ - ذهب - الذَّهَبُ معروف، وربما قيل ذَهَبَةٌ ، ويستعمل ذلک في الأعيان والمعاني، قال اللہ تعالی: وَقالَ إِنِّي ذاهِبٌ إِلى رَبِّي[ الصافات 99] ،- ( ذ ھ ب ) الذھب - ذھب ( ف) بالشیء واذھبتہ لے جانا ۔ یہ اعیان ومعانی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : إِنِّي ذاهِبٌ إِلى رَبِّي[ الصافات 99] کہ میں اپنے پروردگار کی طرف جانے والا ہوں ۔ - رجز - أصل الرِّجْزِ : الاضطراب، ومنه قيل : رَجَزَ البعیرُ رَجَزاً ، فهو أَرْجَزُ ، وناقة رَجْزَاءُ : إذا تقارب خطوها واضطرب لضعف فيها، وشبّه الرّجز به لتقارب أجزائه وتصوّر رِجْزٍ في اللسان عند إنشاده، ويقال لنحوه من الشّعر أُرْجُوزَةٌ وأَرَاجِيزُ ، ورَجَزَ فلان وارْتَجَزَ إذا عمل ذلك، أو أنشد، وهو رَاجِزٌ ورَجَّازٌ ورِجَّازَةٌ. وقوله : عَذابٌ مِنْ رِجْزٍ أَلِيمٌ [ سبأ 5] ، فَالرِّجْزُ هاهنا کالزّلزلة، وقال تعالی: إِنَّا مُنْزِلُونَ عَلى أَهْلِ هذِهِ الْقَرْيَةِ رِجْزاً مِنَ السَّماءِ [ العنکبوت 34] ، وقوله : وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ [ المدثر 5] ، قيل : هو صنم، وقیل : هو كناية عن الذّنب، فسمّاه بالمآل کتسمية النّدى شحما . وقوله : وَيُنَزِّلُ عَلَيْكُمْ مِنَ السَّماءِ ماءً لِيُطَهِّرَكُمْ بِهِ وَيُذْهِبَ عَنْكُمْ رِجْزَ الشَّيْطانِ [ الأنفال 11] ، والشّيطان عبارة عن الشّهوة علی ما بيّن في بابه . وقیل : بل أراد برجز الشّيطان : ما يدعو إليه من الکفر والبهتان والفساد . والرِّجَازَةُ : کساء يجعل فيه أحجار فيعلّق علی أحد جانبي الهودج إذا مال وذلک لما يتصوّر فيه من حرکته، واضطرابه .- ( ر ج ز ) الرجز اس کے اصل معنی اضطراب کے ہیں اور اسی سے رجز البعیر ہے جس کے معنی ضعف کے سبب چلتے وقت اونٹ کی ٹانگوں کے کپکپائی اور چھوٹے چھوٹے قدم اٹھانے کے ہیں ایسے اونٹ کو ارجز اور ناقہ کو رجزاء کہا جاتا ہے اور شعر کے ایک بحر کا نام بھی رجز ہے جس میں شعر پڑھنے سے زبان میں اضطراب سا معلوم ہوتا ہے اور جو قصیدہ اس بحر میں کہا جائے اسے ارجوزۃ کہا جاتا ہے اس کی جمع اراجیز آتی ہے اور رجز فلان وارتجز کے معنی بحر رجز پر شعر بنانے يا ارجوه پڑہنے کے ہیں اور رجز گو شاعر کو راجز ، رجاز اور رجازۃ کہا جاتا ہے ۔ اور آیت : ۔ عَذابٌ مِنْ رِجْزٍ أَلِيمٌ [ سبأ 5]( ان کیلئے ) عذاب دردناک کی سزا ہے ۔ میں لفظ رجز زلزلہ کی طرح عذاب سے کنایہ ہے ۔ اور فرمایا : ۔ إِنَّا مُنْزِلُونَ عَلى أَهْلِ هذِهِ الْقَرْيَةِ رِجْزاً مِنَ السَّماءِ [ العنکبوت 34] ہم ان پر ایک آسمانی آفت نازل کرنے والے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ [ المدثر 5] اور نجاست سے الگ رہو ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ رجز سے بت مراد ہیں ۔ بعض نے اس سے ہر وہ عمل مراد لیا ہے جس کا نتیجہ عذاب ہو اور گناہ کو بھی مآل کے لحاظ سے عذاب کہا جاسکتا ہے جیسے ندی بمعنی شحم آجاتا ہے اور آیت : ۔ وَيُنَزِّلُ عَلَيْكُمْ مِنَ السَّماءِ ماءً لِيُطَهِّرَكُمْ بِهِ وَيُذْهِبَ عَنْكُمْ رِجْزَ الشَّيْطانِ [ الأنفال 11] اور آسمانوں سے تم پر پانی برسا رہا تھا تاکہ اس کے ذریعہ سے تم کو پاک کرے اور شیطانی گندگی کو تم سے دور کرے ۔ میں رجز الشیطان سے مراد خواہشات نفسانی ہیں جیسا کہ اس کے محل میں بیان کیا گیا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ اس سے کفر بہتان طرازی فساد انگیزی وغیرہا گناہ مراد ہیں جن کی کہ شیطان ترغیب دیتا ہے ۔ رجازۃ وہ کمبل جس میں پتھر وغیرہ باندھ کر اونٹ کے ہودہ کا توازن قائم رکھنے کیلئے ایک طرف باندھ دیتے ہیں اس میں بھی حرکت و اضطراب کے معنی ملحوظ ہیں ۔- شطن - الشَّيْطَانُ النون فيه أصليّة «3» ، وهو من : شَطَنَ أي : تباعد، ومنه : بئر شَطُونٌ ، وشَطَنَتِ الدّار، وغربة شَطُونٌ ، وقیل : بل النون فيه زائدة، من : شَاطَ يَشِيطُ : احترق غضبا، فَالشَّيْطَانُ مخلوق من النار کما دلّ عليه قوله تعالی: وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن 15]: الشّيطان اسم لكلّ عارم من الجنّ والإنس والحیوانات . قال تعالی: شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام 112] - ( ش ط ن ) الشیطان - اس میں نون اصلی ہے اور یہ شطن سے مشتق ہے جس کے معنی دور ہونیکے ہیں اور بئر شطون ( بہت گہرا کنوآں ) شطنت الدار ۔ گھر کا دور ہونا غربۃ شطون ( بطن سے دوری ) وغیرہ محاوارت اسی سے مشتق ہیں بعض نے کہا ہے کہ لفظ شیطان میں نون زائدہ ہے اور یہ شاط یشیط سے مشتق ہے جس کے معنی غصہ سے سوختہ ہوجانے کے ہیں ۔ اور شیطان کو بھی شیطان اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ آگ سے پیدا ہوا ہے جیسا کہ آیت : ۔ وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن 15] اور جنات کو آگ کے شعلہ سے پیدا کیا ۔ سے معلوم ہوتا ہے ۔ ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ شیطان ہر سر کش کو کہتے ہیں خواہ وہ جن وانس سے ہو یا دیگر حیوانات سے ۔ قرآن میں ہے : ۔ شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام 112] شیطان ( سیرت ) انسانوں اور جنوں کو - رَبْطُ- رَبْطُ الفرس : شدّه بالمکان للحفظ، ومنه : رِبَاطُ الخیل «3» ، وسمّي المکان الذي يخصّ بإقامة حفظة فيه : رباطا، والرِّبَاط مصدر رَبَطْتُ ورَابَطْتُ ، والمُرَابَطَة کالمحافظة، قال اللہ تعالی: وَمِنْ رِباطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ وَعَدُوَّكُمْ [ الأنفال 60] ، وقال : يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصابِرُوا وَرابِطُوا[ آل عمران 200] ، فالمرابطة ضربان : مرابطة في ثغور المسلمین، وهي کمرابطة النّفس البدن، فإنها كمن أقيم في ثغر وفوّض إليه مراعاته، فيحتاج أن يراعيه غير مخلّ به، وذلک کالمجاهدة وقد قال عليه السلام : «من الرِّبَاطِ انتظار الصّلاة بعد الصّلاة» «1» ، وفلان رَابِطُ الجأش : إذا قوي قلبه، وقوله تعالی: وَرَبَطْنا عَلى قُلُوبِهِمْ- [ الكهف 14] ، وقوله : لَوْلا أَنْ رَبَطْنا عَلى قَلْبِها [ القصص 10] ، وَلِيَرْبِطَ عَلى قُلُوبِكُمْ- [ الأنفال 11] ، فذلک إشارة إلى نحو قوله : هُوَ الَّذِي أَنْزَلَ السَّكِينَةَ فِي قُلُوبِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 4] ، وَأَيَّدَهُمْ بِرُوحٍ مِنْهُ [ المجادلة 22] ، فإنّه لم تکن أفئدتهم كما قال : وَأَفْئِدَتُهُمْ هَواءٌ [إبراهيم 43] ، وبنحو هذا النّظر قيل : فلان رابط الجأش .- ( ر ب ط )- ربط الفرس کے معنی گھوڑے کو کسی جگہ پر حفاظت کے لئے باندھ دینے کے ہیں اور اسی سے رباط الجیش ہے یعنی فوج کا کسی جگہ پر متعین کرنا اور وہ مقام جہاں حفاظتی دستے متعین رہتے ہوں اسے رباط کہا جاتا ہے ۔ اور ربطت ورابطت کا مصدر بھی رباط آتا ہے اور مرابطۃ کے معنی حفاظت کے ہیں ۔ چناچہ قران میں ہے : ۔ وَمِنْ رِباطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ وَعَدُوَّكُمْ [ الأنفال 60] اور گھوڑوں کے سرحدوں پر باندھے رکھنے سے جس سے تم اللہ کے دشمن اور اپنے دشمن کو مرعوب کرو ۔ يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصابِرُوا وَرابِطُوا[ آلعمران 200] ان تکلیفوں کو جو راہ خدا مین تم کو پیش آئیں ) برداشت کرو اور ایک دوسرے کو صبر کی ترغیب دو اور دشمن کے مقابلے کے لئے تیار رہو ۔ پس معلوم ہوا کہ مرابطۃ کی دو قسمیں ہیں ایک یہ کہ اسلامی سرحدوں پر دفاع کے لئے پہرہ دینا اور دوسرے نفس کو ناجائز خواہشات سے روکنا اور اس میں کوتاہی نہ کرنا جیسے مجاہدہ نفس کی صورت میں ہوتا ہے اور اس مجاہدہ نفس کا ثواب بھی جہاد فی سبیل اللہ کے برا بر ہے جیسا کہ آنحضرت نے فرمایا ہے «من الرِّبَاطِ انتظار الصّلاة بعد الصّلاة» کہ ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا بھی رباط ہے ۔ فلان رَابِطُ الجأش ۔ فلاں مضبوط دل ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ لَوْلا أَنْ رَبَطْنا عَلى قَلْبِها [ القصص 10] اگر ہم اس کے دل کو مضبوط نہ کئے رہتے ( تو عجب نہ تھا کہ وہ ہمارا معاملہ ظاہر کردیں ) ۔ وَلِيَرْبِطَ عَلى قُلُوبِكُمْ [ الأنفال 11] تاکہ تمہارے دلوں کی ڈھارس بندھائے ۔ اور اسی معنی کی طرف دوسرے مقام پر اشارہ فرمایا ہے ۔ هُوَ الَّذِي أَنْزَلَ السَّكِينَةَ فِي قُلُوبِ الْمُؤْمِنِينَ [ الفتح 4] وہ خدا ہی تو تھا جس نے مسلمانوں کے دلوں میں تحمل ڈالا اور اپنے فیضان غیبی سے ان کی تائید کی ۔ اور اپنے فیضان غیبی سے ان کی تائید کی ۔ کیونکہ ان کے دل ایسے نہیں تھے جیسے فرمایا : ۔ وَأَفْئِدَتُهُمْ هَواءٌ [إبراهيم 43] اور ان کے دل ( ہیں کہ ) ہوا ہوئے چلے جارہے ہیں ۔ اور اسی سے فلان رابط الجأش کا محاورہ ماخوذ ہے جس کے معنی مضبوط دل شخص کے ہیں ۔- ثبت - الثَّبَات ضدّ الزوال، يقال : ثَبَتَ يَثْبُتُ ثَبَاتاً ، قال اللہ تعالی: يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا [ الأنفال 45]- ( ث ب ت ) الثبات - یہ زوال کی ضد ہے اور ثبت ( ن ) ثباتا کے معنی ایک حالت پر جمے رہنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا [ الأنفال 45] مومنو جب ( کفار کی ) کسی جماعت سے تمہارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو ۔- قدم ( پاؤں)- القَدَمُ : قَدَمُ الرّجل، وجمعه أَقْدَامٌ ، قال تعالی: وَيُثَبِّتَ بِهِ الْأَقْدامَ [ الأنفال 11] ، وبه اعتبر التّقدم والتّأخّر، - ( ق د م ) القدم - انسان کا پاؤں جمع اقدام ۔ قرآن میں ہے : وَيُثَبِّتَ بِهِ الْأَقْدامَ [ الأنفال 11]- اس سے تمہارے پاؤں جمائے رکھے ۔ اسی سے تقدم کا لفظ لیا گیا ہے جو کہ تاخر کی ضد ہے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

دوران جنگ نیند - قول باری ہے اذیغشیکم العناس امنۃ منہ۔ اور وہ وقت جبکہ اللہ نے اپنی طرف سے غنودگی کی شکل میں تم پر اطمینان اور بےخوفی کی کیفیت طاری کردی تھی جب کیل کانٹے سے مسلح دشمن کو اپنے بالمقابل صف آرا دیکھ کر عام حالات میں نیند اڑجاتی ہے خاص طور پر جبکہ دشمن ا ن سے کئی گناہ تھا۔- بارش کے ذریعہ مدد - پھر فرمایا وینزل علیکم من السماء ماء لیطھرکم بہ۔ اور آسمان سے تمہارے اوپر پانی برسا رہا تھا تاکہ تمہیں پاک کرے) یعنی جنابت سے پاک کرے اس لئے کہ اسلامی لشکر میں کچھ افراد ایسے تھے جنہیں غسل جنابت کی ضرورت تھی۔ جنابت شیطان کی ڈالی ہوئی نجاست ہے اس لئے کہ اس کے وسوسے کی بنا پر یہ صورت پیش آتی ہے۔ قول باری ہے ولیربط علی قلوبکم۔ اور تاکہ تمہاری ہمت بندھا دے) یعنی مسلمانوں کے دلوں میں جو سکون اور اطمینان پیدا ہوگیا تھا اور اللہ کے وعدے پر انہوں نے جس طرح بھروسا کرلیا تھا اس کی بنا پر ان کی ہمت بندھ گئی تھی۔ قول باری ہے ویثبتہ بہ الاقدام۔ اور اس کے ذریعے سے تمہارے قدم جما دے) قدم جمانے کی بات میں دو احتمال ہیں، ایک تو یہ کہ صحت بصیرت، امن و اطمینان اور اللہ کے وعدے پر بھروسہ یہ تمام باتیں قدم جمانے کا موجب بن گئیں۔ دوم یہ کہ مسلمانوں کا پڑائو جس جگہ تھا وہ ریتلی اور نرم جگہ تھی اس میں قدم دھنس جاتے تھے۔ جب بارش ہوئی تو ریت کی تہہ جم گئی جس کی بنا پر انکے قدم سطح زمین پر ٹکنے لگے۔ تفسیر میں اس بات کی روایت کی گئی ہے۔ قول باری اذیوحی ربک الی الملئکۃ معکم۔ اور وہ وقت جبکہ تمہارا رب فرشتوں کو اشارہ کر رہا تھا کہ ” میں تمہارے ساتھ ہوں “۔ یعنی تمہاری مدد کروں گا فثبتوا الذین امنو۔ تم اہل ایمان کو ثابت قدم رکھو) اس میں دو صورتوں کا احتمال ہے ایک تو فرشتوں کی طرف سے یہ بات مسلمانوں کے دلوں میں ڈال دی گئی اور انہیں آگاہ کردیا گیا کہ اللہ تعالیٰ عنقریب ا ن کی مدد کرے گا۔ یہ چیز مسلمانوں کے قدم جمنے اور کافروں کے قدم اکھڑنے کا سبب بن گئی اور دوسرا احتمال یہ ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسلمانوں کو آگاہ کردیا تھا کہ اللہ تعالیٰ عنقریب آپ کی اور مسلمانوں کی مدد کرے گا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے اس بات کی اطلاع مسلمانوں کو ثابت قدم رہنے کی دعوت اور پکار بن گئی۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(١١) اور وہ وقت یاد کرو جب اللہ تعالیٰ تم پر اپنی جانب سے دشمن سے راحت دینے کے لیے اونگھ کو طاری کررہا تھا اور یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تم پر بڑا احسان تھا اور اس ذات نے آسمان سے پانی برسایا تاکہ تمہیں چھوٹی ناپاکی اور بڑی ناپاکی سے پاک کر دے۔- اور تمہارے دلوں سے شیطانی وسوسہ کو دور کردے اور اس کے لیے تمہارے دلوں کو مضبوط کردے اور بارش سے ریت پر تمہارے پاؤں کو جمادے یا یہ کہ بارش سے ریت کو جمادے تاکہ پیر اس پر جمنے لگیں ،

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ١١ (اِذْ یُغَشِّیْکُمُ النُّعَاسَ اَمَنَۃً مِّنْہُ وَیُنَزِّلُ عَلَیْکُمْ مِّنَ السَّمَآءِ مَآءً لِّیُطَہِّرَکُمْ بِہٖ ) - بدر کی رات تمام مسلمان بہت پر سکون نیند سوئے اور اسی رات غیر معمولی انداز میں بارش بھی ہوئی۔ مسلمانوں کی یہ پر سکون نیند اور بارش کا نزول گویا دو معجزے تھے ‘ جن کا ظہور مسلمانوں کی خاص مدد کے لیے عمل میں آیا۔ یہ معجزات اس انداز میں ظہور پذیر نہیں ہوئے تھے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے باقاعدہ ان کے بارے میں اعلان فرمایا ہو ‘ یا یہ کہ یہ بالکل خرق عادت واقعات ہوں ‘ بلکہ یہ معجزات اس انداز میں تھے کہ اس وقت ان دونوں واقعات سے مسلمانوں کو غیر معمولی طور پر مدد ملی ‘ اور اس لیے بھی کہ ایسی چیزیں محض اتفاقات سے ظہور پذیر نہیں ہوتیں۔ حقیقت میں غزوۂ بدر کا یہ معاملہ مسلمانوں کے لیے بہت سخت تھا ‘ جس کی وجہ سے ہر شخص کے لیے بظاہر فکرمندی ‘ تشویش اور اندیشہ ہائے دور دراز کی انتہا ہونی چاہیے تھی ‘ کہ کل جو کچھ ہونے جا رہا ہے اس میں میں زندہ بھی بچ پاؤں گا یا نہیں ؟ مگر عملی طور پر یہ معاملہ اس کے بالکل برعکس ہوا۔ مسلمان رات کو آرام و سکون کی نیند سوئے اور صبح بالکل تازہ دم اور چاق و چوبند ہو کر اٹھے۔ اسی طرح اس رات جو بارش ہوئی وہ بھی مسلمانوں کے لیے اللہ کی تائید و نصرت ثابت ہوئی۔ اس بارش سے دوسرے فوائد کے علاوہ مسلمانوں کو ایک یہ سہو لت بھی میسر آگئی کہ جن لوگوں کو غسل کی حاجت تھی انہیں غسل کا موقع مل گیا۔- (وَیُذْہِبَ عَنْکُمْ رِجْزَ الشَّیْطٰنِ وَلِیَرْبِطَ عَلٰی قُلُوْبِکُمْ وَیُثَبِّتَ بِہِ الْاَقْدَامَ ) ۔- اس بارش میں مسلمانوں کے لیے اطمینان قلوب کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ انہیں اس خشک صحرا کے اندر پانی کا وافر ذخیرہ مل گیا ‘ ورنہ لشکر قریش پہلے آکر پانی کے تالاب پر قبضہ کرچکا تھا اور مسلمان اس سے محروم ہوچکے تھے۔ بارش ہوئی تو نشیب کی بنا پر سارا پانی مسلمانوں کی طرف جمع ہوگیا ‘ جسے انہوں نے بند وغیرہ باندھ کر ذخیرہ کرلیا۔ بارش کی وجہ سے مٹی دب گئی ‘ ریت فرش کی طرح ہوگئی اور چلنے پھرنے میں سہولت ہوگئی۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَنْفَال حاشیہ نمبر :8 یہی تجربہ مسلمانوں کو اُحد کی جنگ میں پیش آیا جیسا کہ سورہ آل عمران آیت ١۵٤ میں گزر چکا ہے ۔ اور دونوں مواقع پر وجہ وہی ایک تھی کہ جو موقع شدت خوف اور گھبراہٹ کا تھا اس وقت اللہ نے مسلمانوں کے دلوں کو ایسے اطمینان سے بھر دیا کہ ان پر غنودگی طاری ہونے لگی ۔ سورة الْاَنْفَال حاشیہ نمبر :9 یہ اس رات کا واقعہ ہے جس کی صبح کو بدر کی لڑائی پیش آئی ۔ اس بارش کے تین فائدے ہوئے ۔ ایک یہ کہ مسلمانوں کو پانی کا کافی مقدار مل گئی اور انہوں نے فوراً حوض بنا بنا کر بارش کا پانی روک لیا ۔ دوسرے یہ کہ مسلمان چونکہ وادی کے بالائی حصے پر تھے اس لیے بارش کی وجہ سے ریت جم گئی اور زمین اتنی مضبوط ہو گئی کہ قدم اچھی طرح جم سکیں اور نقل و حرکت بآسانی ہو سکے ۔ تیسرے یہ کہ لشکر کفار نشیب کی جانب تھا اس لیے وہاں اس بارش کی بدولت کیچڑ ہو گئی اور پاؤں دھنسنے لگے ۔ شیطان کی ڈالی ہوئی نجاست سے مراد وہ ہراس اور گھبراہٹ کی کیفیت تھی جس میں مسلمان ابتداءً مبتلا تھے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

5: اتنے بڑے لشکر کے ساتھ تقریباً نہتے آدمیوں کا معرکہ پیش آنے والا ہو تو گھبراہٹ ایک طبعی امر ہے، اﷲ تعالیٰ نے اس گھبراہٹ کا علاج یہ فرمایا کہ صحابہ پر نیند طاری کردی، جس کی ایک تأثیر یہ ہوتی ہے کہ اس سے گھبراہٹ دور ہوجاتی ہے، چنانچہ وہ جنگ سے پہلی رات جی بھر کرسوئے جس سے تازہ دم ہوگئے۔ نیز جنگ کے دوران بھی ان پر وقفے وقفے سے اونگھ طاری ہوتی رہی، جس سے انہیں سکون ملتا رہا۔ 6: مسلمانوں کے لئے ایک بڑا مسئلہ یہ تھا کہ کفار نے بدر کے میدان میں پہلے پہنچ کر بہترین جگہ پر قبضہ کرلیا تھا جہاں پانی کافی تھا، اور زمین بھی سخت تھی۔ مسلمانوں کو جگہ ملی وہ ریتیلی جگہ تھی جس پر پاؤں جمتے نہیں تھے، اور نقل وحرکت میں دشواری پیش آتی تھی، اور وہاں پانی بھی نہیں تھا، تھوڑا بہت پانی ایک حوض بناکر اس میں جمع کیا گیا تھا جو جلدی ہی ختم ہونے لگا۔ اﷲ تعالیٰ نے دونوں مسئلوں کے حل کے لئے بارش برسادی جس سے ریت بھی جم گئی اور قدم بھی جمنے لگے، اور پانی کا بھی اچھا ذخیرہ جمع ہوگیا۔ 7: گندگی سے یہاں مراد وسوسے ہیں جو ایسے مواقع پر جب اتنے بڑے دُشمن کا مقابلہ ہو، آیا ہی کرتے ہیں۔