10۔ 1 یعنی فرشتوں کا نزول تو صرف خوشخبری اور تمہارے دلوں کے اطمینان کے لئے تھا ورنہ اصل مدد تو اللہ کی طرف سے تھی جو فرشتوں کے بغیر بھی تمہاری مدد کرسکتا تھا تاہم اس سے یہ سمجھنا بھی صحیح نہیں کہ فرشتوں نے عملاً جنگ میں حصہ نہیں لیا احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جنگ میں فرشتوں نے عملی حصہ لیا اور کئی کافروں کو انہوں نے تہ تیغ کیا (صحیح بخاری) ۔
[١٢] فرشتوں کی اطلاع ثابت قدم رکھنے کے لئے :۔ یعنی اگر اللہ چاہتا تو فرشتوں کے بغیر بھی تمہاری مدد کرسکتا اور تمہیں کامیابی سے ہمکنار کرسکتا تھا، اور اگر فرشتے بھیج کر مدد کی تو بھی اسی کی مدد تھی۔ تمہیں پہلے مطلع کرنے کا مقصد صرف یہ تھا کہ تم کہیں اپنے سے تین گنا کافروں کا مسلح لشکر دیکھ کر حوصلہ نہ چھوڑ بیٹھو، یہ اطلاع فقط تمہارا حوصلہ بڑھانے اور تمہیں ثابت قدم رکھنے کی وجہ سے دی گئی تھی۔
وَمَا جَعَلَهُ اللّٰهُ اِلَّا بُشْرٰي : آیت کے ان الفاظ سے بعض لوگوں کو یہ غلط فہمی ہوئی کہ فرشتوں نے خود لڑنے میں کوئی حصہ نہیں لیا، بلکہ اللہ تعالیٰ نے انھیں مسلمانوں کی مدد کے لیے محض اس لیے بھیجا تھا کہ ان کے حوصلے بلند ہوں اور انھیں اطمینان رہے کہ ان کی مدد کے لیے فرشتے موجود ہیں، لیکن یہ خیال صحیح نہیں۔ صحیح مسلم میں ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ اس دوران میں کہ ایک مسلمان مشرکین میں سے ایک آدمی کے پیچھے دوڑ رہا تھا کہ اس نے کوڑا مارنے کی ضرب کی آواز سنی اور ایک سوار کی آواز سنی جو کہہ رہا تھا حیزوم آگے بڑھو۔ اس نے اس مشرک کو دیکھا کہ وہ چت گرگیا ہے، دیکھا تو اس کی ناک پر نشان تھا، چہرہ پھٹ گیا تھا، جس طرح کوڑا مارنے سے ہوتا ہے اور وہ ساری جگہ سبز ہوگئی تھی۔ وہ انصاری آیا اور اس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ بات بیان کی، تو آپ نے فرمایا : ” تم نے سچ کہا، یہ تیسرے آسمان کی مدد میں سے تھا۔ “ [ مسلم، الجھاد، باب الامداد بالملائکۃ فی غزوۃ بدر۔۔ : ١٧٦٣ ] بدر کے بعد بھی اللہ تعالیٰ نے کئی جنگوں میں فرشتوں کے ساتھ مسلمانوں کی مدد فرمائی۔ میں نے بہت سے قابل اعتماد لوگوں سے سنا کہ متحدہ ہندوستان میں حافظ عبداللہ روپڑی (رض) کے حکم پر مسلمانوں نے عید الاضحی کے دن گائیں ذبح کیں، تو ہندوؤں اور سکھوں نے مسلمانوں پر حملہ کردیا، مسلمانوں نے تھوڑی تعداد میں ہونے کے باوجود مقابلہ کیا تو کفار کثیر تعداد میں قتل ہوئے اور بھاگ گئے۔ جب مقدمہ چلا تو جنگ میں شریک مسلمان اور کافر پیش ہوئے، کفار کو شناخت کے لیے کہا گیا تو انھوں نے کہا، ہم سے تو وہ لوگ لڑے ہیں جو سفید لباس میں ملبوس گھوڑوں پر سوار تھے، حالانکہ مسلمانوں میں سے کوئی بھی اس حالت میں نہ تھا۔ کشمیر میں کفار کے خلاف کار روائیوں کے دوران بھی فرشتوں کی مدد کے کئی واقعات پیش آئے ہیں جو مجلہ الدعوۃ اور غزوہ کے مختلف شماروں میں شائع ہوئے ہیں۔ شاعر نے سچ کہا ہے - فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو - اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی - وَمَا النَّصْرُ اِلَّامِنْ عِنْدِ اللّٰهِ : یعنی یہ نہ سمجھو کہ تمہیں جو فتح نصیب ہوئی ہے وہ ان فرشتوں کی وجہ سے ہوئی ہے، بلکہ حقیقت میں مدد اللہ کی طرف سے ہے، وہ چاہتا تو فرشتوں کے بغیر ہی تمہیں فتح عطا کردیتا، مگر جہاد کو دین کا حصہ بنانے سے تمہارے ایمان کا امتحان، تمہارے ہاتھوں کافروں کو ذلیل اور تم میں سے کچھ لوگوں کو شہادت سے سرفراز کرنا مقصود ہے۔ پہلی امتوں میں سے جو امت اپنے پیغمبر کو جھٹلاتی اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی نہ کسی طرح کا عذاب نازل ہوجاتا، پانی میں غرق کرنا، خوف ناک چیخ، زلزلہ، پتھروں کی بارش اور شکلیں مسخ کردینا وغیرہ۔ نوح (علیہ السلام) کی قوم کے غرق ہونے سے لے کر فرعون کے غرق ہونے تک یہی سلسلہ قائم رہا۔ آخر کار جب موسیٰ (علیہ السلام) پر تورات نازل ہوئی تو جہاد شروع ہوا اور اس کے بعد یہی طریقہ جاری ہے، اب اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے ہاتھوں کفار کو عذاب دینا چاہتا ہے، فرمایا : (قَاتِلُوْهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللّٰهُ بِاَيْدِيْكُمْ وَيُخْزِهِمْ ) [ التوبۃ : ١٤، ١٥ ] ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے جہاد کے چھ فائدے بیان فرمائے ہیں، تفصیل کے لیے سورة توبہ میں ان آیات کی تفسیر دیکھیے۔ اگرچہ موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد بھی آسمان سے عذاب کے بعض واقعات پیش آئے، جیسے اصحاب الفیل کا واقعہ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پیش گوئی کے مطابق آپ کی امت میں شراب، زنا، ریشم اور باجوں گاجوں کو حلال کرلینے والوں پر زمین میں دھنس جانے اور بندر اور خنزیر بنا دیے جانے کے عذاب آئیں گے۔ [ بخاری، الأشربۃ، باب ما جاء فیمن یستحل الخمر۔۔ : ٥٥٩٠، عن أبی مالک الأشعری ] مگر وہ عبرت کے لیے ہوں گے اور جزوی، یعنی کہیں کہیں ہوں گے۔ کفار کو کفر سے روکنے اور ان کی سرکشی ختم کرکے انھیں اسلام کے زیر نگیں لانے کی ذمہ داری اب جہاد کے ذریعے سے مسلمانوں ہی پر ہے، جس میں یقیناً اللہ تعالیٰ کی مدد بھی شامل ہوگی۔
چوتھی آیت میں بھی یہی مضمون ارشاد فرمایا (آیت) وَمَا جَعَلَهُ اللّٰهُ اِلَّا بُشْرٰي وَلِتَطْمَىِٕنَّ بِهٖ قُلُوْبُكُمْ ، یعنی اللہ تعالیٰ نے یہ صرف اس لئے کیا کہ تمہیں بشارت ہو اور تاکہ تمہارے دل اس سے مطمئن ہوجائیں۔ - غزوہ بدر میں جو اللہ تعالیٰ کے فرشتے امداد کے لئے بیھجے گئے ان کی تعداد اس جگہ ایک ہزار مذکور ہے اور سورة آل عمران میں تین ہزار اور پانچ ہزار ذکر کی گئی ہے۔ اس کا سبب دراصل تین مخلتف وعدے ہیں جو مختلف حالات میں کئے گئے ہیں۔ پہلا وعدہ ایک ہزار فرشتوں کا ہوا جس کا سبب رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعا اور عام مسلمانوں کی فریاد تھی۔ دوسرا وعدہ جو تین ہزار فرشتوں کا سورة آل عمران میں پہلے مذکور ہے وہ اس وقت کیا گیا جب مسلمانوں کو یہ خبر ملی کہ قریشی لشکر کے لئے اور کمک آرہی ہے۔ روح المعانی میں ابن ابی شیبہ اور ابن المنذر وغیرہ سے بروایت شعبی منقول ہے کہ مسمانوں کو بدر کے دن یہ خبر پہنچی کہ کرز بن جابر محاربی مشرکین کی امداد کے لئے کمک لے کر آرہا ہے۔ اس خبر سے مسلمانوں میں اضطراب پیدا ہوا۔ اس پر آل عمران کی (آیت) اَلَنْ يَّكْفِيَكُمْ اَنْ يُّمِدَّكُمْ رَبُّكُمْ بِثَلٰثَةِ اٰلٰفٍ مِّنَ الْمَلٰۗىِٕكَةِ مُنْزَلِيْنَ ، نازل ہوئی جس میں تین ہزار فرشتے امداد کے لئے آسمان سے نازل کرنے کا وعدہ ذکر کیا گیا۔ اور تیسرا وعدہ پانچ ہزار کا اس شرط کے ساتھ مشروط تھا کہ اگر فریق مخالف نے یکبارگی حملہ کردیا تو پانچ ہزار فرشتوں کی مدد بھیج دی جائے گی وہ آل عمران کی آیت مذکورہ کے بعد کی آیت میں اس طرح مذکور ہے (آیت) بَلٰٓى ۙاِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا وَيَاْتُوْكُمْ مِّنْ فَوْرِھِمْ ھٰذَا يُمْدِدْكُمْ رَبُّكُمْ بِخَمْسَةِ اٰلٰفٍ مِّنَ الْمَلٰۗىِٕكَةِ مُسَوِّمِيْنَ ، یعنی اگر تم ثابت قدم رہے اور تقوی پر قائم رہے اور مقابل لشکر یکبارگی تم پر ٹوٹ پڑا تو تمہارا رب تمہاری امداد پانچ ہزرا فرشتوں سے کرے گا جو خاص نشان یعنی خاص وردی میں ہوگے۔ - بعض حضرات مفسرین نے فرمایا کہ اس وعدہ میں تین شرطیں تھیں ایک ثابت قدمی دوسرے تقوی تیسرے مخالف فریق کا یکبارگی حملہ۔ پہلی دو شرطیں تو صحابہ کرام میں موجود تھیں اور اس میدان میں اول سے آخر تک ان میں کہیں فرق نہیں آیا مگر تیسری شرط یکبارگی ہلہ کی واقع نہیں ہوئی اس لئے پانچ ہزار ملائکہ کے لشکر کی نوبت نہیں آئی۔- اس لئے معاملہ ایک ہزار اور تین ہزار میں دائر رہا۔ جس میں یہ بھی احتمال ہے کہ تین ہزار سے مراد یہ ہو کہ ایک ہزار جو پہلے بھیجے گئے ان کے ساتھ مزید دو ہزار شامل کرکے تین ہزار کردیئے گئے اور یہ بھی احتمال ہے کہ یہ تین ہزار اس پہلے ہزار کے علاوہ ہوں۔ - یہاں یہ بات بھی قابل نظر ہے کہ ان تین آیتوں میں ملائکہ کی تین جماعتوں کے بھیجنے کا وعدہ ہے اور ہر جماعت کے ساتھ ایک خاص صفت کا ذکر ہے۔ سورة انفال کی آیت جس میں ایک ہزار کا وعدہ ہے اس میں تو ان ملائکہ کی صفت میں مُرْدِفِيْنَ فرمایا ہے جس کے معنی ہیں پیچھے لگانے والے اس میں شاید اس طرف پہلے ہی اشارہ کردیا گیا کہ ان فرشتوں کے پیچھے دوسرے بھی آنے والے ہیں۔ اور سورة آل عمران کی پہلی آیت میں ملائکہ کی صفت مُنْزَلِيْنَ ارشاد فرمائی۔ یعنی یہ فرشتے آسمان سے اتارے جائیں گے اس میں اشارہ خاص اہمیت کی طرف ہے کہ زمین میں جو فرشتے پہلے سے موجود ہیں ان سے کام لینے کے بجائے خاص اہتمام کے ساتھ یہ فرشتے آسمان سے اسی کام کے لئے بھیجے جائیں گے اور آل عمران کی دوسری آیت جس میں پانچ ہزار کا ذکر ہے اس میں ملائکہ کی صفت مُسَوِّمِيْنَ ارشاد فرمائی ہے کہ وہ ایک خاص لباس اور علامت کے ساتھ ہوں گے۔ جیسا کہ روایات حدیث میں ہے کہ بدر میں نازل ہونے والے فرشتوں کے عمامے سفید اور غزوہ حنین میں مدد کے لئے آنے والے فرشتوں کے عمامے سرخ تھے۔- آخرت آیت میں ارشاد فرمایا (آیت) وَمَا النَّصْرُ اِلَّامِنْ عِنْدِ اللّٰهِ ۭاِنَّ اللّٰهَ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ، اس میں مسلمانوں کو تنبیہ فرمادی کہ جو مدد بھی کہیں سے ملتی ہے خواہ ظاہری صورت سے ہو یا مخفی انداز سے سب اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہے اسی کے قبضہ میں ہے فرشتوں کی مدد بھی اسی کے تابع فرمان ہے اس لئے تمہاری نظر صرف اسی ذات وحدہ لا شریک لہ کی طرف رہنی چاہئے کیونکہ وہ قدرت والا حکمت والا ہے۔
وَمَا جَعَلَہُ اللہُ اِلَّا بُشْرٰي وَلِتَطْمَىِٕنَّ بِہٖ قُلُوْبُكُمْ ٠ ۚ وَمَا النَّصْرُ اِلَّا مِنْ عِنْدِ اللہِ ٠ ۭ اِنَّ اللہَ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ ١٠ ۧ- جعل - جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها،- ( ج ع ل ) جعل ( ف )- یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔- بشر - واستبشر :- إذا وجد ما يبشّره من الفرح، قال تعالی: وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ [ آل عمران 170] ، يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ [ آل عمران 171] ، وقال تعالی: وَجاءَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَسْتَبْشِرُونَ [ الحجر 67] . ويقال للخبر السارّ : البِشارة والبُشْرَى، قال تعالی: هُمُ الْبُشْرى فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَفِي الْآخِرَةِ [يونس 64] ، وقال تعالی: لا بُشْرى يَوْمَئِذٍ لِلْمُجْرِمِينَ [ الفرقان 22] ، وَلَمَّا جاءَتْ رُسُلُنا إِبْراهِيمَ بِالْبُشْرى [هود 69] ، يا بُشْرى هذا غُلامٌ [يوسف 19] ، وَما جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرى [ الأنفال 10] .- ( ب ش ر ) البشر - التبشیر - کے معنی ہیں اس قسم کی خبر سنانا جسے سن کر چہرہ شدت فرحت سے نمٹما اٹھے ۔ مگر ان کے معافی میں قدر سے فرق پایا جاتا ہے ۔ تبیشتر میں کثرت کے معنی ملحوظ ہوتے ہیں ۔ اور بشرتہ ( مجرد ) عام ہے جو اچھی وبری دونوں قسم کی خبر پر بولا جاتا ہے ۔ اور البشرتہ احمدتہ کی طرح لازم ومتعدی آتا ہے جیسے : بشرتہ فابشر ( یعنی وہ خوش ہوا : اور آیت کریمہ : إِنَّ اللهَ يُبَشِّرُكِ ( سورة آل عمران 45) کہ خدا تم کو اپنی طرف سے بشارت دیتا ہے میں ایک قرآت نیز فرمایا : لا تَوْجَلْ إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلامٍ عَلِيمٍ قالَ : أَبَشَّرْتُمُونِي عَلى أَنْ مَسَّنِيَ الْكِبَرُ فَبِمَ تُبَشِّرُونَ قالُوا : بَشَّرْناكَ بِالْحَقِّ [ الحجر 53- 54] مہمانوں نے کہا ڈریے نہیں ہم آپ کو ایک دانشمند بیٹے کی خوشخبری دیتے ہیں وہ بولے کہ جب بڑھاپے نے آپکڑا تو تم خوشخبری دینے لگے اب کا ہے کی خوشخبری دیتے ہو انہوں نے کہا کہ ہم آپ کو سچی خوشخبری دیتے ہیں ۔ فَبَشِّرْ عِبَادِ ( سورة الزمر 17) تو میرے بندوں کو بشارت سنادو ۔ فَبَشِّرْهُ بِمَغْفِرَةٍ وَأَجْرٍ كَرِيمٍ ( سورة يس 11) سو اس کو مغفرت کے بشارت سنادو استبشر کے معنی خوش ہونے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ [ آل عمران 170] اور جو لوگ ان کے پیچھے رہ گئے ( اور شہید ہوکر ) ان میں شامل ہیں ہوسکے ان کی نسبت خوشیاں منا رہے ہیں ۔ يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ [ آل عمران 171] اور خدا کے انعامات اور فضل سے خوش ہورہے ہیں ۔ وَجاءَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ يَسْتَبْشِرُونَ [ الحجر 67] اور اہل شہر ( لوط کے پاس ) خوش خوش ( دورے ) آئے ۔ اور خوش کن خبر کو بشارۃ اور بشرٰی کہا جاتا چناچہ فرمایا : هُمُ الْبُشْرى فِي الْحَياةِ الدُّنْيا وَفِي الْآخِرَةِ [يونس 64] ان کے لئے دنیا کی زندگی میں بھی بشارت ہے اور آخرت میں بھی ۔- لا بُشْرى يَوْمَئِذٍ لِلْمُجْرِمِينَ [ الفرقان 22] اس دن گنہگاروں کے لئے کوئی خوشی کی بات نہیں ہوگی ۔- وَلَمَّا جاءَتْ رُسُلُنا إِبْراهِيمَ بِالْبُشْرى [هود 69] اور جب ہمارے فرشتے ابراہیم کے پاس خوشخبری سے کرآئے ۔ يا بُشْرى هذا غُلامٌ [يوسف 19] زہے قسمت یہ تو حسین ) لڑکا ہے ۔ وَما جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرى [ الأنفال 10] اس مدد کو تو خدا نے تمہارے لئے رذریعہ بشارت ) بنایا - طمن - الطُّمَأْنِينَةُ والاطْمِئْنَانُ : السّكونُ بعد الانزعاج . قال تعالی: وَلِتَطْمَئِنَّ بِهِ قُلُوبُكُمْ [ الأنفال 10] ، وَلكِنْ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِي[ البقرة 260] ، يا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ [ الفجر 27] ، وهي أن لا تصیر أمّارة بالسّوء، وقال تعالی: أَلا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ [ الرعد 28] ، تنبيها أنّ بمعرفته تعالیٰ والإکثار من عبادته يکتسب اطْمِئْنَانَ النّفسِ المسئول بقوله : وَلكِنْ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِي 106] - ( ط م ن ) الطمانینۃ - والاطمینان کے معنی ہیں خلجان کے بعد نفس کا سکون پذیر ہونا قرآن میں ہے : ۔ - وَلِتَطْمَئِنَّ بِهِ قُلُوبُكُمْ [ الأنفال 10] یعنی اسلئے کہ تمہارے دلوں کو اس سے تسلی حاصل ہو ۔ - وَلكِنْ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِي[ البقرة 260] لیکن ( میں دیکھنا ) اس لئے چاہتا ہوں کہ میرا دل اطمینان کامل حاصل کرلے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ يا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ [ الفجر 27] میں نفسی مطمئنہ سے مردا وہ نفس ہے جسے برائی کی طرف کیس طور بھی رغبت نہ ہو اور آیت کریمہ : ۔ أَلا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ [ الرعد 28] سن رکھو کہ خدا کی یاد سے دل آرام پاتے ہیں ۔ میں اس امر تنبیہ کی گئی ہے کہ معرفت الہیٰ اور کثرت عبادت سے ہی قلبی عبادت سے ہی قلبہ سکون حاصل ہوتا ہے ۔ جس کی تسکین کا کہ آیت وَلكِنْ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِي[ البقرة 260] میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے سوال کیا تھا ۔- نصر - النَّصْرُ والنُّصْرَةُ : العَوْنُ. قال تعالی: نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ- [ الصف 13] وَما لَهُمْ فِي الْأَرْضِ مِنْ وَلِيٍّ وَلا نَصِيرٍ- [ التوبة 74] ، وَكَفى بِاللَّهِ وَلِيًّا وَكَفى بِاللَّهِ نَصِيراً- [ النساء 45] ، ما لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلا نَصِيرٍ [ التوبة 116]- ( ن ص ر ) النصر والنصر - کے معنی کسی کی مدد کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف 13] خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح عنقریب ہوگی - إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ [ النصر 1] جب اللہ کی مدد آپہنچی - عزیز - ، وَالعَزيزُ : الذي يقهر ولا يقهر . قال تعالی: إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت 26] ، يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف 88] - ( ع ز ز ) العزیز - العزیز وہ ہے جو غالب ہو اور مغلوب نہ ہو قرآن ، میں ہے : ۔ إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت 26] بیشک وہ غالب حکمت والا ہے ۔ يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف 88] اے عزیز میں اور ہمارے اہل و عیال کو بڑی تکلیف ہورہی ہے ۔ اعزہ ( افعال ) کے معنی کسی کو عزت بخشے کے ہیں ۔ ) - حكيم - فإذا قيل في اللہ تعالی: هو حَكِيم فمعناه بخلاف معناه إذا وصف به غيره، ومن هذا الوجه قال اللہ تعالی: أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] ، وإذا وصف به القرآن فلتضمنه الحکمة، نحو : الر تِلْكَ آياتُ الْكِتابِ الْحَكِيمِ [يونس 1] ، وعلی ذلک قال : وَلَقَدْ جاءَهُمْ مِنَ الْأَنْباءِ ما فِيهِ مُزْدَجَرٌ حِكْمَةٌ بالِغَةٌ [ القمر 4- 5] ، وقیل : معنی الحکيم المحکم «3» ، نحو : أُحْكِمَتْ آياتُهُ [هود 1] ، وکلاهما صحیح، فإنه محکم ومفید للحکم، ففيه المعنیان جمیعا، والحکم أعمّ من الحکمة، فكلّ حكمة حكم، ولیس کل حکم حكمة، فإنّ الحکم أن يقضی بشیء علی شيء، فيقول : هو كذا أو ليس بکذا، قال صلّى اللہ عليه وسلم : «إنّ من الشّعر - لحكمة» أي : قضية صادقة- لہذا جب اللہ تعالے کے متعلق حکیم کا لفظ بولاجاتا ہے تو اس سے وہ معنی مراد نہیں ہوتے جو کسی انسان کے حکیم ہونے کے ہوتے ہیں اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق فرمایا ہے ۔ أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین 8] کیا سب سے بڑا حاکم نہیں ہے ؟ اور قرآن پاک کو حکیم یا تو اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ حکمت کی باتوں پر مشتمل ہے جیسے فرمایا ۔ الر تِلْكَ آياتُ الْكِتابِ الْحَكِيمِ [يونس 1] یہ بڑی دانائی کی کتان کی آیئیں ہیں ۔ نیز فرمایا : وَلَقَدْ جاءَهُمْ مِنَ الْأَنْباءِ ما فِيهِ مُزْدَجَرٌ حِكْمَةٌ بالِغَةٌ [ القمر 4- 5] اور ان کو ایسے حالات ( سابقین پہنچ چکے ہیں جن میں عبرت ہے اور کامل دانائی ) کی کتاب بھی ۔ اور بعض نے کہا ہے کہ قرآن پاک کے وصف میں حکیم بمعنی محکم ہوتا ہے جیسے فرمایا :، أُحْكِمَتْ آياتُهُ [هود 1] ا حکمت ایا تہ جس کی آیتہ ( جس کی آیتیں مستحکم ہیں ۔ اور یہ دونوں قول صحیح ہیں کیونکہ قرآن پاک کی آیات محکم بھی ہیں اور ان میں پراز حکمت احکام بھی ہیں لہذا ان ہر دو معافی کے لحاظ سے قرآن محکم سے ۔ حکم کا لفظ حکمۃ سے عام ہے ہر حکمت کو حکم کہہ سکتے ہیں ۔ لیکن ہر حکم حکمت نہیں ہوسکتا ۔ کیونکہ حکم کے معنی کسی چیز کے متعلق فیصلہ کرنے کے ہوتے ہیں کہ وہ یوں ہے یا یوں نہیں ہے ۔ آنحضرت نے فرمایا کہ بعض اشعار مبنی برحکمت ہوتے ہیں جیسا کہ کبید نے کہا ہے ( ویل ) کہ خدائے تعالیٰ کا تقوی ہی بہترین توشہ ہے
(١٠) اور یہ امداد محض اس حکمت سے تھی کہ تمہیں خطبہ سے بشارت ہو اور واقعہ فرشتوں کی ایہ امداد اس ذات کی طرف سے تھی جو اپنے دشمنوں کو سزا دینے میں زبردست ہے اور حکمت والا ہے کہ ان کے لیے قتل اور شکست کا فیصلہ کیا اور تمہارے لیے غنیمت اور مدد کا فیصلہ۔
آیت ١٠ (وَمَا جَعَلَہُ اللّٰہُ الاَّ بُشْرٰی وَلِتَطْمَءِنَّ بِہٖ قُلُوْبُکُمْ ط) (وَمَا النَّصْرُ الاَّ مِنْ عِنْدِ اللّٰہِط اِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ ) - اللہ تعالیٰ تو کُنْ فَیَکُوْن کی شان کے ساتھ جو چاہے کر دے۔ وہ فرشتوں کو بھیجے بغیر بھی تمہاری مدد کرسکتا تھا ‘ لیکن انسانی ذہن کا چونکہ سوچنے کا اپنا ایک انداز ہے ‘ اس لیے اس نے تمہارے دلوں کی تسکین اور تسلی کے لیے نہ صرف ایک ہزار فرشتے بھیجے بلکہ تمہیں ان کی آمد کی اطلاع بھی دے دی کہ خاطر جمع رکھو ‘ ہم تمہاری مدد کے لیے فرشتے بھیج رہے ہیں۔ واضح رہے کہ اللہ کے وعدے کے مطابق میدان بدر میں فرشتے اترے ضرور ہیں لیکن انہوں نے عملی طور پر لڑائی میں حصہ نہیں لیا۔ عملی طور پر جنگ کفار کے ایک ہزار اور مسلمانوں کے تین سو تیرہ افراد کے درمیان ہوئی اور قوت ایمانی سے سرشار مسلمان اس بےجگری اور بےخوفی سے لڑے کہ ایک ہزار پر غالب آگئے۔
4:: یعنی اﷲ تعالیٰ کو مددکرنے کے لئے فرشتے بھیجنے کی حقیقت میں ضرورت نہیں تھی، نہ فرشتوں میں کوئی ذاتی طاقت ہے کہ وہ مدد کرسکیں، مدد تو اﷲ تعالیٰ براہ راست بھی کرسکتا تھا، لیکن یہ اِنسان کی فطرت ہے کہ جس چیز کے اسباب سامنے ہوں، اس پر اسے زیادہ اطمینان اور خوشی حاصل ہوتی ہے۔ اس لئے یہ وعدہ کیا گیا تھا۔ اس آیت نے یہ سبق دیا ہے کہ کسی کام کے جو اسباب بھی اختیار کئے جائیں، ایک مؤمن کو یہ بات ہر آن سامنے رکھنی چاہئے کہ یہ اسباب اﷲ تعالیٰ ہی کے پیدا کئے ہوئے ہیں، اور ان میں تأثیر اسی کے حکم سے پیدا ہوتی ہے، لہٰذا بھروسہ اسباب پر نہیں، بلکہ اسی کے فضل وکرم پر کرنا چاہئے۔