سب سے پہلا غزوہ بدر بنیاد لا الہ الا اللہ مسند احمد میں ہے کہ بدر والے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کی طرف نظر ڈالی وہ تین سو سے کچھ اوپر تھے پھر مشرکین کو دیکھا ان کی تعدد ایک ہزار سے زیادہ تھی ۔ اسی وقت آپ قبلہ کی طرف متوجہ ہوئے چادر اوڑھے ہوئے تھے اور تہبند باندھے ہوئے تھے آپ نے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنا شروع کی کہ الٰہی جو تیرا وعدہ ہے اسے اب پورا فرما الٰہی جو وعدہ تو نے مجھ سے کیا ہے وہی کر اے اللہ اہل اسلام کی یہ تھوڑی سی جماعت اگر ہلاک ہو جائے گی تو پھر کبھی بھی تیری توحید کے ساتھ زمین پر عبادت نہ ہوگی یونہی آپ دعا اور فریاد میں لگے رہے یہاں تک کہ چادر مبارک کندھوں پر سے اتر گئی اسی وقت حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ آگے بڑھے آپ کی چادر اٹھا کر آپ کے جسم مبارک پر ڈال کر ( پیچھے سے آپ کو اپنی باہوں میں لے کر ) کو آپ کو وہاں سے ہٹانے لگے اور عرض کرنے لگے کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اب بس کیجئے آپ نے اپنے رب سے جی بھر کر دعا مانگ لی وہ اپنے وعدے کو ضرور پورا کرے گا اسی وقت یہ آیت اتری ۔ اس کے بعد مشرک اور مسلمان آپس میں لڑائی میں گتھم گتھا ہوگئے اللہ تعالیٰ نے مشرکوں کو شکست دی ان میں سے ستر شخص تو قتل ہوئے اور ستر قید ہوئے حضور نے ان قیدی کفار کے بارے میں حضرت ابو بکر حضرت عمر حضرت علی رضی اللہ عنہم سے مشورہ کیا ۔ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے تو فرمایا رسول اللہ آخر یہ ہمارے کنبے برادری کے خویش و اقارب ہیں ۔ آپ ان سے فدیہ لے کر چھوڑ دیجئے مال ہمیں کام آئے گا اور کیا عجب کہ اللہ تعالیٰ کل انہیں ہدایت دے دے اور یہ ہمارے قوت و بازو بن جائیں ۔ اب آپ نے حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا ۔ آپ نے فرمایا میری رائے تو اس بارے میں حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کی رائے کے خلاف ہے میرے نزدیک تو ان میں سے فلاں جو میرا قریشی رشتہ دار ہے مجھے سونپ دیجئے کہ میں اس کی گردن ماروں اور عقیل کو حضرت علی کے سپرد کیجئے کہ وہ اس کا کام تمام کریں اور حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے سپرد ان کا فلاں بھائی کیجئے کہ وہ اسے صاف کر دیں ۔ ہم چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے سامنے یہ ظاہر کر دیں کہ ہمارے دل ان مشرکوں کی محبت سے خالی ہیں ، اللہ رب العزت کے نام پر انہیں چھوڑ چکے ہیں اور رشتہ داریاں ان سے توڑ چکے ہیں ۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ لوگ سرداران کفر ہیں اور کافروں کے گروہ ہیں ۔ انہیں زندہ چھوڑنا مناسب نہیں ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو بکر رضی اللہ عنہ کا مشورہ قبول کیا اور حضرت عمر کی بات کی طرف مائل نہ ہوئے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ دوسرے دن صبح ہی سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ آپ اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ رو رہے ہیں ۔ میں نے پوچھا کہ آخر اس رونے کا کیا سبب ہے؟ اگر کوئی ایسا ہی باعث ہو تو میں بھی ساتھ دوں ورنہ تکلف سے ہی رونے لگوں کیونکہ آپ دونوں بزرگوں کو روتا دیکھتا ہوں ۔ آپ نے فرمایا یہ رونا بوجہ اس عذاب کے ہے جو تیرے ساتھیوں پر فدیہ لے لینے کے باعث پیش ہوا ۔ آپ نے اپنے پاس کے ایک درخت کی طرف اشارہ کر کے فرمایا دیکھو اللہ کا عذاب اس درخت تک پہنچ چکا ہے اسی کا بیان آیت ( مَا كَانَ لِنَبِيٍّ اَنْ يَّكُوْنَ لَهٗٓ اَسْرٰي حَتّٰي يُثْخِنَ فِي الْاَرْضِ ۭتُرِيْدُوْنَ عَرَضَ الدُّنْيَا ڰ وَاللّٰهُ يُرِيْدُ الْاٰخِرَةَ ۭوَاللّٰهُ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ 67 ) 8- الانفال:67 ) سے ( فَكُلُوْا مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلٰلًا طَيِّبًا ڮ وَّاتَّقُوا اللّٰهَ ۭاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ 69ۧ ) 8- الانفال:69 ) تک ہے ـ پس اللہ تعالیٰ نے مال غنیمت حلال فرمایا پھر اگلے سال جنگ احد کے موقعہ پر فدیہ لینے کے بدلے ان کی سزا طے ہوئی ستر مسلمان صحابہ شہید ہوئے لشکر اسلام میں بھگدڑ مچ گئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کے چار دانت شہید ہوئے آپ کے سر پر جو خود تھا وہ ٹوٹ گیا چہرہ خون آلودہ ہو گیا ۔ پس یہ آیت اتری ( اَوَلَمَّآ اَصَابَتْكُمْ مُّصِيْبَةٌ قَدْ اَصَبْتُمْ مِّثْلَيْھَا ۙ قُلْتُمْ اَنّٰى هٰذَا ۭ قُلْ ھُوَ مِنْ عِنْدِ اَنْفُسِكُمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ ١٦٥ ) 3-آل عمران:165 ) ، یعنی جب تمہیں مصیبت پہنچی تو کہنے لگے کہ یہ کہاں سے آ گئی؟ جواب دے کہ یہ خود تمہاری اپنی طرف سے ہے ۔ تم اس سے پہلے اس سے دگنی راحت بھی تو پا چکے ہو یقین مانو کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے مطلب یہ ہے کہ یہ فدیہ لینے کا بدل ہے یہ حدیث مسلم شریف وغیرہ میں بھی ہے ۔ ابن عباس وغیرہ کا فرمان ہے کہ یہ آیت انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کے بارے میں ہے اور روایت میں ہے کہ جب حضور نے دعا میں اپنا پورا مبالغہ کیا تو حضرت عمر نے کہا یا رسول اللہ اب مناجات ختم کیجئے اللہ کی قسم اللہ تعالیٰ نے جو وعدہ آپ سے کیا ہے وہ اسے ضرور پورا کرے گا ۔ اس آیت کی تفسیر میں صحیح بخاری شریف میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت مقداد بن اسود نے ایک ایسا کام کیا کہ اگر میں کرتا تو مجھے اپنے اور تمام اعمال سے زیادہ پسندیدہ ہوتا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب مشرکوں پر بد دعا کر رہے تھے تو آپ آئے اور کہنے لگے ہم آپ سے وہ نہیں کہیں گے جو قوم موسیٰ نے کہا تھا کہ خود اپنے رب کو ساتھ لے کر جا اور لڑ بھڑ لو بلکہ ہم جو کہتے ہیں وہ کر کے بھی دکھائیں گے چلئے ہم آپ کے دائیں بائیں برابر کفار سے جہاد کریں گے آگے پیچھے بھی ہم ہی ہم نظر آئیں گے میں نے دیکھا کہ ان کے اس قول سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہوگئے اور آپ کا چہرہ مبارک چمکنے لگا ۔ ایک اور روایت میں ہے کہ اس دعا کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ کہتے ہوئے تشریف لائے کہ عنقریب مشرکین شکست کھائیں گے اور پیٹھ دکھائیں گے ( نسائی وغیرہ ) ارشاد ہوا کہ ایک ہزار فرشتوں سے تمہاری امداد کی جائے گی جو برابر ایک دوسرے کے پیچھے سلسلہ وار آئیں گے اور تمہاری مدد کریں گے ایک کے بعد ایک آتا رہے گا ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام ایک ہزار فرشتوں کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لشکر کے دائیں حصے میں آئے تھے جس پر کمان حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی تھی اور بائیں حصے پر حضرت میکائیل علیہ السلام ایک ہزار فرشتوں کی فوج کے ساتھ اترے تھے ۔ اس طرف میری کمان تھی ایک قرأت میں مردفین بھی ہے ۔ مشہور یہ ہے کہ ان دونوں فرشتوں کے ساتھ پانچ پانچ سو فرشتے تھے جو بطور امداد آسمان سے بحکم الٰحی اترے تھے ۔ حضرت ابن عباس کا بیان ہے کہ ایک مسلمان ایک کافر پر حملہ کرنے کیلئے اس کا تعاقت کر رہا تھا کہ اچانک ایک کوڑا مانگنے کی آواز اور ساتھ ہی ایک گھوڑ سوار کی آواز آئی کہ اے خیروم آگے بڑھ وہیں دیکھا کہ وہ مشرک چت گرا ہوا ہے اس کا منہ کوڑے کے لگنے سے بگڑ گیا ہے اور ہڈیاں پسلیاں چور چور ہو گئی ہیں اس انصاری صحابی نے حضور سے یہ واقعہ بیان کیا تو آپ نے فرمایا تو سچا ہے یہ تیری آسمانی مدد تھی پس اس دن ستر کافر قتل ہوئے اور ستر قید ہوئے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے باب باندھا ہے کہ بدر والے دن فرشتوں کا اترنا پھر حدیث لائے ہیں کہ جبرائیل علیہ السلام حضور کے پاس آئے اور پوچھا کہ بدری صحابہ کا درجہ آپ میں کیسا سمجھا جاتا ہے؟ آپ نے فرمایا اور مسلمانوں سے بہت افضل ۔ حضرت جبرائیل نے فرمایا اس طرح بدر میں آنے والے فرشتے بھی اور فرشتوں میں افضل گنے جاتے ہیں ۔ بخاری اور مسلم میں ہے کہ جب حضرت عمر نے حضرت حاطب بن ابو بلتعہ رضی اللہ عنہ کے قتل کا مشورہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا تو آپ نے فرمایا وہ تو بدری صحابی ہیں تم نہیں جانتے اللہ تعالیٰ نے بدریوں پر نظر ڈالی اور فرمایا تم جو چاہے کرو میں نے تمہیں بخش دیا ۔ پھر فرماتا ہے کہ فرشتوں کا بھیجنا اور تمہیں اس کی خوشخبری دینا صرف تمہاری خوشی اور اطمینان دل کے لئے تھا ورنہ اللہ تعالیٰ ان کو بھیجے بغیر بھی اس پر قادر ہے جس کی جاہے مدد کرے اور اسے غالب کر دے ۔ بغیر نصرت پروردگار کے کوئی فتح پا نہیں سکتا اللہ ہی کی طرف سے مدد ہوتی ہے جیسے فرمان ہے آیت ( فَاِذَا لَقِيْتُمُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فَضَرْبَ الرِّقَابِ ۭ حَتّىٰٓ اِذَآ اَثْخَنْتُمُوْهُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ ڎ فَاِمَّا مَنًّـۢا بَعْدُ وَاِمَّا فِدَاۗءً حَتّٰى تَضَعَ الْحَرْبُ اَوْزَارَهَاڃ ذٰ۩لِكَ ړ وَلَوْ يَشَاۗءُ اللّٰهُ لَانْتَـصَرَ مِنْهُمْ وَلٰكِنْ لِّيَبْلُوَا۟ بَعْضَكُمْ بِبَعْـضٍ ۭ وَالَّذِيْنَ قُتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ فَلَنْ يُّضِلَّ اَعْمَالَهُمْ Ć ) 47-محمد:4 ) ، کافروں سے جب میدان ہو تو گردن مارنا ہے جب اس میں کامیابی ہو جائے تو پھر قید کرنا ہے ۔ اس کے بعد یا احسان کے طور پر چھوڑ دینا یا فدیہ لے لینا ہے یہاں تک کہ لڑائی موقوف ہو جائے یہ ظاہری صورت ہے اگر رب چاہے تو آپ ہی ان سے بدلے لے لے لیکن وہ ایک سے ایک کو آزما رہا ہے اللہ کی راہ میں شہید ہونے والوں کے اعمال اکارت نہیں جائیں گے ۔ انہیں اللہ تعالیٰ راہ رکھائے گا اور انہیں خوشحال کر دے گا اور جان پہچان کی جنت میں لے جائے گا اور آیت میں ہے ( وَتِلْكَ الْاَيَّامُ نُدَاوِلُھَا بَيْنَ النَّاسِ ۚ وَلِيَعْلَمَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَيَتَّخِذَ مِنْكُمْ شُهَدَاۗءَ ۭ وَاللّٰهُ لَا يُحِبُّ الظّٰلِمِيْنَ ١٤٠ۙ ) 3-آل عمران:140 ) یہ دن ہم لوگوں میں گھماتے رہتے ہیں تاکہ اللہ تعالیٰ جانچ لے اور شہیدوں کو الگ کر لے ظالموں سے اللہ ناخوش رہتا ہے اس میں ایمانداروں کا امتیاز ہو جاتا ہے اور یہ کفار کے مٹانے کی صورت ہے ۔ جہاد کا شرعی فلسفہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ مشرکوں کو موحدوں کے ہاتھوں سزا دیتا ہے ۔ اس سے پہلے عام آسمانی عذابوں سے وہ ہلاک کر دیئے جاتے تھے جیسے قوم نوح پر طوفان آیا ، عاد والے آندھی میں تباہ ہوئے ، ثمودی چیخ سے غارت کر دیئے گئے ، قوم لوط پر پتھر بھی برسے ، زمین میں بھی دھنسائے گئے اور ان کی بستیاں الٹ دی گئیں ، قوم شعیب پر ابر کا عذاب آیا ۔ پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں دشمنان دین مع فرعون اور اس کی قوم اور اس کے لشکروں کے ڈبو دیئے گئے ۔ اللہ نے توراۃ اتاری اور اس کے بعد سے اللہ کا حکم جاری ہو گیا جیسے فرمان ہے آیت ( وَلَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ مِنْۢ بَعْدِ مَآ اَهْلَكْنَا الْقُرُوْنَ الْاُوْلٰى بَصَاۗىِٕرَ لِلنَّاسِ وَهُدًى وَّرَحْمَةً لَّعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُوْنَ 43 ) 28- القصص:43 ) پہلی بستیوں کو ہلاک کرنے کے بعد ہم نے موسیٰ کو کتاب دی جو سوچنے سمجھنے کی بات تھی ۔ پھر سے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے ہاتھوں کافروں کو سزا دینا شروع کر دیا تاکہ مسلمانوں کے دل صاف ہو جائیں اور کافروں کی ذلت اور بڑھ جائے جیسے اس امت کو اللہ جل شانہ کا حکم ہے آیت ( قَاتِلُوْهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللّٰهُ بِاَيْدِيْكُمْ وَيُخْزِهِمْ وَيَنْصُرْكُمْ عَلَيْهِمْ وَيَشْفِ صُدُوْرَ قَوْمٍ مُّؤْمِنِيْنَ 14ۙ ) 9- التوبہ:14 ) ، اے مومنو ان سے جہاد کرو اللہ انہیں تمھارے ہاتھوں سزا دے گا انہیں ذلیل کرے گا اور تمہیں ان پر مدد عطا فرما کر مومنوں کے سینے صاف کر دے گا ۔ اسی میدان بدر میں گھمنڈ و نخوت کے پتلوں کا ، کفر کے سرداروں کا ان مسلمانوں کے ہاتھ قتل ہونا جن پر ہمیشہ ان کی نظریں ذلت و حقارت کے ساتھ پڑتی رہیں کچھ کم نہ تھا ۔ ابو جہل اگر اپنے گھر میں اللہ کے کسی عذاب سے ہلاک ہو جاتا تو اس میں وہ شان نہ تھی جو معرکہ قتال میں مسلمانوں کے ہاتھوں ٹکڑے ہونے میں ہے ۔ جیسے کہ ابو لہب کی موت اسی طرح کی واقع ہوئی تھی کہ اللہ کے عذاب میں ایسا سڑا کہ موت کے بعد کسی نے نہ تو اسے نہلایا نہ دفنایا بلکہ دور سے پانی ڈال کر لوگوں نے پتھر پھینکنے شروع کئے اور انہیں میں وہ دب گیا ۔ اللہ عزت والا ہے پھر اس کا رسول اور ایماندار ۔ دنیا آخرت میں عزت اور بھلائی ان ہی کے حصے کی چیز ہے جیسے ارشاد ہے ہے آیت ( اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُوْمُ الْاَشْهَادُ 51ۙ ) 40-غافر:51 ) ، ہم ضرور بضرور اپنے رسولوں کی ، ایماندار بندوں کی اس جہان میں اور اس جہان میں مدد فرمائیں گے ۔ اللہ حکیم ہے گو وہ قادر تھا کہ بغیر تمہارے لڑے بھڑے کفار کو ملیامیٹ کر دے لیکن اس میں بھی اس کی حکمت ہے جو وہ تمہارے ہاتھوں انہیں ڈھیر کر رہا ہے ۔
9۔ 1 اس جنگ میں مسلمانوں کی تعداد 313 تھی جب کہ کافر اس سے تین گنا (یعنی ہزار کے قریب تھے پھر مسلمانوں نہتے اور بےسروسامان تھے جب کے کافروں کے پاس اسلحے کی بھی فروانی تھی ان حالات میں مسلمانوں کا سہارا صرف اللہ کی ذات ہی تھی جس سے وہ گڑ گڑا کر مدد کی فریادیں کر رہے تھے خود نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الگ ایک خیمے میں نہایت الحاح وزاری سے مصروف دعا تھے (صحیح بخاری) چناچہ اللہ تعالیٰ نے دعائیں قبول کیں اور ایک ہزار فرشتے ایک دوسرے کے پیچھے مسلسل لگاتار مسلمانوں کی مدد کے لئے آگئے۔
[١٠] عریش میں آپ کی دعا :۔ جب بدر کے مقام پر دونوں لشکروں نے آمنے سامنے ڈیرہ ڈال لیا اور آپ نے دیکھا کہ مسلمان کافروں کے مقابلہ میں تہائی سے بھی کم ہیں، نہتے بھی ہیں اور سامان رسد بھی موجود نہیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے لیے ایک خیمہ نصب کرنے کا حکم دیا، جسے عریش کہتے ہیں۔ اس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ساری رات اللہ کے حضور دعاؤں اور آہ وزاری میں گزاردی، جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے۔- سیدنا عمر (رض) فرماتے ہیں کہ بدر کے دن جب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مشرکین پر نظر ڈالی تو وہ ایک ہزار تھے اور مسلمان ٣١٩ تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قبلہ رو ہو کر دونوں ہاتھ پھیلا دیئے۔ پھر اپنے رب سے فریاد کرنے لگے آپ نے اس طرح دعا کی : اے اللہ تو نے جو وعدہ کیا ہے اسے پورا کر۔ اے اللہ اگر مسلمانوں کی اس جماعت کو تو نے ہلاک کردیا تو پھر زمین پر تیری عبادت نہ ہوگی۔ آپ کافی دیر قبلہ رو ہو کر ہاتھ پھیلائے رہے۔ یہاں تک کہ چادر آپ کے کندھوں سے گرگئی۔ اتنے میں سیدنا ابوبکر صدیق (رض) آئے۔ انہوں نے چادر اٹھا کر آپ کے کندھوں پر ڈالی۔ پھر پیچھے سے آپ کے ساتھ چمٹ گئے اور کہا : اے اللہ کے نبی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے رب سے آہ وزاری کرنے میں حد کردی۔ بیشک اللہ آپ سے اپنا وعدہ پورا کرے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (مسلم، کتاب الجہاد، باب الامداد بالملائکۃ فی غزوۃ بدر )- [ ١١] فرشتوں کا نزول :۔ سیدنا ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ ایک مسلمان ایک کافر کے پیچھے دوڑ رہا تھا کہ اسے اوپر سے ایک کوڑے کی آواز آئی اور سوار کی بھی آواز آئی، وہ سوار کہہ رہا تھا کہ حیزوم (غالباً اس کے گھوڑے کا نام تھا) آگے بڑھ۔ اتنے میں اس مسلمان نے دیکھا کہ وہ کافر اس کے سامنے چت پڑا ہے۔ اس کی ناک پر نشان تھا اور اس کا سر پھٹ گیا تھا۔ گویا کسی نے اسے کوڑا مارا ہے۔ پھر اس کا سارا جسم سبز ہوگیا۔ وہ انصاری حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور سارا ماجرا بیان کیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم سچ کہتے ہو۔ یہ فرشتے تیسرے آسمان سے مدد کے لیے آئے تھے۔ (مسلم، کتاب الجہاد، باب الامداد بالملائکۃ فی غزوۃ بدر )- ٢۔ سیدنا ابن عباس (رض) کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : یہ جبریل امین ہیں اپنے گھوڑے کا سر تھامے ہوئے اور ان پر لڑائی کے ہتھیار ہیں۔ (بخاری، کتاب المغازی، باب شھود الملائکۃ بدرا)- انہی سے روایت ہے کہ مسلمانوں نے ستر کافروں کو قتل کیا اور ستر کو قید کیا۔ (مسلم، کتاب الجہاد، باب الامداد بالملائکۃ فی غزوۃ بدر) نیز دیکھئے سورة آل عمران آیت ١٢٥)
اِذْ تَسْتَغِيْثُوْنَ رَبَّكُمْ : اپنی تعداد، تیاری، اسلحہ کی کے تین گنا سے زیادہ اور ہر قسم کے اسلحے سے لیس ہونے کی وجہ سے سب مسلمان ہی اپنے پروردگار سے مدد کے لیے فریاد کر رہے تھے۔ خصوصاً رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو نہایت عجز اور الحاح کے ساتھ دعا فرما رہے تھے۔ عمر بن خطاب (رض) فرماتے ہیں کہ جب بدر کا دن ہوا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مشرکین کی طرف دیکھا، وہ ایک ہزار تھے اور آپ کے ساتھی تین سو انیس آدمی تھے، تو اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قبلے کی طرف رخ کرکے ہاتھ پھیلا دیے اور اپنے رب سے بلند آواز سے فریاد کرنے لگے : ” اے اللہ تو نے مجھ سے جو وعدہ کیا ہے وہ مجھ سے پورا کر، اے اللہ تو نے مجھ سے جو وعدہ کیا ہے وہ مجھ سے پورا کر۔ اے اللہ اگر اہل اسلام کی یہ جماعت ہلاک ہوگئی تو پھر زمین میں تیری عبادت نہیں کی جائے گی۔ “ آپ اپنے رب سے بلند آواز سے فریاد کرتے رہے اور ہاتھ پھیلائے ہوئے دعا کرتے رہے، یہاں تک کہ آپ کی چادر کندھوں سے گرگئی تو ابوبکر (رض) آپ کے پاس آئے، آپ کی چادر پکڑی، اسے آپ کے کندھوں پر ڈالا، پھر پیچھے سے آپ سے چمٹ گئے اور کہا : ” اے اللہ کے نبی آپ کا اپنے رب کو قسم دینا آپ کے لیے کافی ہے، کیونکہ یقیناً وہ آپ سے کیا ہوا وعدہ پورا کرے گا۔ “ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری : (اِذْ تَسْتَغِيْثُوْنَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ ) پھر اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے ساتھ آپ کی مدد فرمائی۔ [ مسلم، الجہاد، باب الإمداد بالملائکۃ فی غزوۃ بدر۔۔ : ١٧٦٣ ] ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ ابوبکر (رض) کے کہنے کے بعد آپ یہ کہتے ہوئے نکلے : (سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ ) [ القمر : ٤٥ ] ” یہ جماعت شکست کھائے گی اور یہ لوگ پیٹھیں پھیر کر بھاگیں گے۔ “ [ بخاری، المغازی، باب قول اللہ تعالیٰ : ( إذ تستغیثون ربکم۔۔ ) : ٣٩٥٣ ]- اَنِّىْ مُمِدُّكُمْ بِاَلْفٍ مِّنَ الْمَلٰۗىِٕكَةِ مُرْدِفِيْنَ : ایک دوسرے کے پیچھے، یعنی پے در پے آنے والے ہیں۔ چناچہ بدر میں فرشتے نازل ہوئے، جیسا کہ صحیح بخاری میں ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بدر کے دن فرمایا : ” یہ جبریل ہیں، اپنے گھوڑے کے سر (لگام) کو پکڑے ہوئے ہیں، لڑائی کے ہتھیار پہنے ہوئے ہیں۔ “ [ بخاری، المغازی، باب شہود الملائکۃ بدراً : ٣٩٩٥ ] یہاں ایک ہزار فرشتے اترنے کے وعدے کا ذکر ہے جو واقعی اترے۔ رفاعہ بن رافع قرظی بدری (رض) سے روایت ہے کہ جبریل (علیہ السلام) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے، پوچھا : ” تم اہل بدر کو اپنے میں کیسا شمار کرتے ہو ؟ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” مسلمانوں کے سب سے بہتر لوگ۔ “ یا اس کے ہم معنی کوئی بات کہی۔ (جبریل (علیہ السلام) نے) فرمایا : ” اسی طرح وہ فرشتے بھی (افضل) ہیں جو بدر میں شریک ہوئے تھے۔ “ [ بخاری، المغازی، باب شہود الملائکۃ بدرًا : ٣٩٩٢ ] سورة آل عمران میں تین ہزار اور پانچ ہزار فرشتوں کے وعدے کا ذکر ہے، تطبیق کے لیے دیکھیے آل عمران (١٢٤، ١٢٥) ۔
تیسری اور چوتھی آیتوں میں اس واقعہ کا بیان ہے جو مصلح فوج سے مقابلہ ٹھن جانے کے بعد پیش آیا کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب یہ دیکھا کہ آپ کے رفقاء صرف تین سو تیرہ اور وہ بھی اکثر غیر مصلح ہیں اور مقابلہ پر تقریبا ایک ہزار جوانوں کا مصلح لشکر ہے تو اللہ جل شانہ کی بارگاہ میں نصرت و امداد کی دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے۔ آپ دعا مانگتے تھے اور صحابہ کرام آپ کے ساتھ آمین کہتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن عباس نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعا کے یہ کلمات نقل فرمائے ہیں :- یا اللہ مجھ سے جو وعدہ آپ نے فرمایا ہے اس کو جلد پورا فرمادے۔ یا اللہ اگر یہ تھوڑی سی جماعت مسلمین فنا ہوگئی تو پھر زمین میں کوئی تیری عبادت کرنے والا باقی نہ رہے گا ( کیونکہ ساری زمین کفر و شرک سے بھری ہوئی ہے یہی چند مسلمان ہیں جو صحیح عبادت بجالا تے ہیں ) ۔- آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) برابر اسی طرح الحاح وزاری کے ساتھ دعا میں مشغول رہے یہاں تک کہ آپ کے شانوں سے چادر بھی سرک گئی، حضرت ابوبکر صدیق نے آگے بڑھ کر چادر اوڑھائی اور عرض کیا یا رسول اللہ آپ زیادہ فکر نہ کریں اللہ تعالیٰ آپ کی دعا ضرور قبول فرمائیں گے اور اپنا وعدہ پورا فرمائیں گے۔ - آیت میں اِذْ تَسْتَغِيْثُوْنَ رَبَّكُمْ کے الفاظ سے یہی واقعہ مراد ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ وہ وقت یاد رکھنے کے قابل ہے جب تم اپنے رب سے استغاثہ کر رہے تھے اور مدد طلب کر رہے تھے یہ استغاثہ اگرچہ دراصل رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے ہوا تھا مگر تمام صحابہ آمین کہہ رہے تھے اس لئے پوری جماعت کی طرف منسوب کیا گیا۔ اس کے بعد اس دعا کی قبولیت کا بیان اس طرح فرمایا (آیت) فَاسْتَجَابَ لَكُمْ اَنِّىْ مُمِدُّكُمْ بِاَلْفٍ مِّنَ الْمَلٰۗىِٕكَةِ مُرْدِفِيْنَ ، یعنی اللہ تعالیٰ نے تمہاری فریاد سن لی اور فرمایا کہ ایک ہزار فرشتوں سے تمہاری امداد کروں گا جو یکے بعد دیگرے قطار کی صورت میں آنے والے ہوں گے۔- فرشتوں کو اللہ تعالیٰ نے جو بےنظیر قوت و طاقت عطا فرمائی ہے اس کا اندازہ اس واقعہ سے ہوسکتا ہے جو قوم لوط (علیہ السلام) کی زمین کا تختہ الٹنے کے وقت پیش آیا کہ جبریل امین نے ایک پر کے ذریعہ یہ تختہ الٹ دیا۔ اسی بےمثال طاقت والے فرشتوں کی اتنی بڑی تعداد مقابلہ میں بھیجنے کی ضرورت نہیں تھی ایک بھی کافی تھا۔ مگر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی فطرت سے واقف ہیں کہ وہ تعداد سے بھی متاثر ہوتے ہیں اس لئے مقابل فریق کی تعداد کے مطابق فرشتوں کی تعداد بھیجنے کا وعدہ فرمایا تاکہ ان کے قلوب پوری طرح مطمئن ہوجائیں۔
اِذْ تَسْتَغِيْثُوْنَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ اَنِّىْ مُمِدُّكُمْ بِاَلْفٍ مِّنَ الْمَلٰۗىِٕكَۃِ مُرْدِفِيْنَ ٩- غوث ( استغاث)- الغَوْثُ يقال في النّصرة، والغَيْثُ في المطر، واسْتَغَثْتُهُ : طلبت الغوث أو الغیث، فَأَغَاثَنِي من الغوث، وغَاثَنِي من الغیث، وغَوَّثت من الغوث، قال تعالی: إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ- [ الأنفال 9] ، وقال : فَاسْتَغاثَهُ الَّذِي مِنْ شِيعَتِهِ عَلَى الَّذِي مِنْ عَدُوِّهِ [ القصص 15] ، وقوله : وَإِنْ يَسْتَغِيثُوا يُغاثُوا بِماءٍ كَالْمُهْلِ [ الكهف 29] ، فإنّه يصحّ أن يكون من الغیث، ويصحّ أن يكون من الغوث، وکذا يُغَاثُوا، يصحّ فيه المعنیان . والغيْثُ : المطر في قوله : كَمَثَلِ غَيْثٍ أَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَباتُهُ [ الحدید 20] ، قال الشاعر : سمعت النّاس ينتجعون غيثا ... فقلت لصیدح انتجعي بلالا - ( غ و ث)- الغوث کے معنی مدد اور الغیث کے معنی بارش کے ہیں اور استغثتہ ض ( استفعال ) کے معنی کسی کو مدد کے لیے پکارنے یا اللہ تعالیٰ سے بارش طلب کرنا آتے ہیں جب کہ اس معنی مدد طلب کرنا ہو تو اس کا مطاوع اغاثنی آئیگا مگر جب اس کے معنی بارش طلب کرنا ہو تو اس کا مطاوع غاثنی آتا ہے اور غوثت میں نے اس کی مدد کی یہ بھی غوث سے مشتق ہے جس کے معنی مدد ہیں قرآن پاک میں ہے :إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ [ الأنفال 9] جب تم اپنے پروردگار سے فریاد کرتے تھے ۔ فَاسْتَغاثَهُ الَّذِي مِنْ شِيعَتِهِ عَلَى الَّذِي مِنْ عَدُوِّهِ [ القصص 15] تو جو شخص ان کی قوم میں سے تھا اس نے دوسرے شخص کے مقابلے میں جو موسیٰ کے دشمنوں میں سے تھا ، موسیٰ سے مدد طلب کی ۔ اور آیت کر یمہ ؛وَإِنْ يَسْتَغِيثُوا يُغاثُوا بِماءٍ كَالْمُهْلِ [ الكهف 29] اور اگر فریاد کریں گے تو ایسے کھولتے ہوئے پانی سے ان کی دادرسی کی جائے گی جو پگھلے ہوئے تانبے کی طرح گرم ہوگا ۔ میں یستغیثوا غوث ( مدد ما نگنا) سے بھی ہوسکتا ہے ۔ اور غیث ( پانی مانگنا ) سے بھی اسی طرح یغاثوا ( فعل مجہول ) کے بھی دونوں معنی ہوسکتے ہیں ( پہلی صورت میں یہ اغاث یعنی ( باب افعال ) سے ہوگا دوسری صورت میں غاث ، یغیث سے اور آیت کریمہ : كَمَثَلِ غَيْثٍ أَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَباتُهُ [ الحدید 20] جیسے بارش کہ اس سے کھیتی اگتی اور کسانوں کو کھیتی بھلی لگتی ہے ۔ میں غیث کے معنی بارش ہیں چناچہ کو شاعر نے کہا ہے ۔ (332) سمعت الناس ینتجعون غیثا فقلت لصیدح انتجعی بلالا میں نے سنا ہے کہ لوگ بارش کے مواضع تلاش کرتے ہیں تو میں نے اپنی اونٹنی صیدح سے کہا تم بلال کی تلاش کرو ۔- استجاب - والاستجابة قيل : هي الإجابة، وحقیقتها هي التحري للجواب والتهيؤ له، لکن عبّر به عن الإجابة لقلة انفکاکها منها، قال تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ [ الأنفال 24]- ( ج و ب ) الجوب - الاستاأبتہ بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی اجابتہ ( افعال ) کے ہے اصل میں اس کے معنی جواب کے لئے تحری کرنے اور اس کے لئے تیار ہونے کے ہیں لیکن اسے اجابتہ سے تعبیر کرلیتے ہیں کیونکہ یہ دونوں ایک دوسرے سے الگ نہیں ہوتے ۔ قرآن میں ہے : اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ [ الأنفال 24] کہ خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو ۔ - مد - أصل المَدّ : الجرّ ، ومنه : المُدّة للوقت الممتدّ ، ومِدَّةُ الجرحِ ، ومَدَّ النّهرُ ، ومَدَّهُ نهرٌ آخر، ومَدَدْتُ عيني إلى كذا . قال تعالی: وَلا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ الآية [ طه 131] . ومَدَدْتُهُ في غيّه، ومَدَدْتُ الإبلَ : سقیتها المَدِيدَ ، وهو بزر ودقیق يخلطان بماء، وأَمْدَدْتُ الجیشَ بِمَدَدٍ ، والإنسانَ بطعامٍ. قال تعالی: أَلَمْ تَرَ إِلى رَبِّكَ كَيْفَ مَدَّ الظِّلَ [ الفرقان 45] . وأكثر ما جاء الإمْدَادُ في المحبوب والمدُّ في المکروه نحو : وَأَمْدَدْناهُمْ بِفاكِهَةٍ وَلَحْمٍ مِمَّا يَشْتَهُونَ [ الطور 22] أَيَحْسَبُونَ أَنَّما نُمِدُّهُمْ بِهِ مِنْ مالٍ وَبَنِينَ [ المؤمنون 55] ، وَيُمْدِدْكُمْ بِأَمْوالٍ وَبَنِينَ [ نوح 12] ، يُمْدِدْكُمْ رَبُّكُمْ بِخَمْسَةِ آلافٍ الآية [ آل عمران 125] ، أَتُمِدُّونَنِ بِمالٍ- [ النمل 36] ، وَنَمُدُّ لَهُ مِنَ الْعَذابِ مَدًّا[ مریم 79] ، وَيَمُدُّهُمْ فِي طُغْيانِهِمْ يَعْمَهُونَ- [ البقرة 15] ، وَإِخْوانُهُمْ يَمُدُّونَهُمْ فِي الغَيِ [ الأعراف 202] ، وَالْبَحْرُ يَمُدُّهُ مِنْ بَعْدِهِ سَبْعَةُ أَبْحُرٍ [ لقمان 27] فمن قولهم : مَدَّهُ نهرٌ آخرُ ، ولیس هو مما ذکرناه من الإمدادِ والمدِّ المحبوبِ والمکروهِ ، وإنما هو من قولهم : مَدَدْتُ الدّواةَ أَمُدُّهَا «1» ، وقوله : وَلَوْ جِئْنا بِمِثْلِهِ مَدَداً [ الكهف 109] والمُدُّ من المکاييل معروف .- ( م د د ) المد - کے اصل معنی ( لمبائی میں ) کهينچنا اور بڑھانے کے ہیں اسی سے عرصہ دراز کو مدۃ کہتے ہیں اور مدۃ الجرح کے معنی زخم کا گندہ مواد کے ہیں ۔ مد النھر در کا چڑھاؤ ۔ مدہ نھر اخر ۔ دوسرا دریا اس کا معاون بن گیا ۔ قرآن میں ہے : أَلَمْ تَرَ إِلى رَبِّكَ كَيْفَ مَدَّ الظِّلَ [ الفرقان 45] تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارا رب سائے کو کس طرح دراز کرک پھیلا دیتا ہے ۔ مددت عینی الی کذا کسی کیطرف حریصانہ ۔۔ اور للچائی ہوئی نظروں سے دیکھنا ۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَلا تَمُدَّنَّ عَيْنَيْكَ الآية [ طه 131] تم ۔۔ للچائی نظروں سے نہ دیکھنا ۔ مددتہ فی غیہ ۔ گمراہی پر مہلت دینا اور فورا گرفت نہ کرنا ۔ مددت الابل اونٹ کو مدید پلایا ۔ اور مدید اس بیج اور آٹے کو کہتے ہیں جو پانی میں بھگو کر باہم ملا دیا گیا ہو امددت الجیش بمدد کا مددینا ۔ کمک بھیجنا۔ امددت الانسان بطعام کسی کی طعام ( غلہ ) سے مددکرنا قرآن پاک میں عموما امد ( افعال) اچھی چیز کے لئے اور مد ( ثلاثی مجرد ) بری چیز کے لئے ) استعمال ہوا ہے چناچہ فرمایا : وَأَمْدَدْناهُمْ بِفاكِهَةٍ وَلَحْمٍ مِمَّا يَشْتَهُونَ [ الطور 22] اور جس طرح کے میوے اور گوشت کو ان کا جی چاہے گا ہم ان کو عطا کریں گے ۔ أَيَحْسَبُونَ أَنَّما نُمِدُّهُمْ بِهِ مِنْ مالٍ وَبَنِينَ [ المؤمنون 55] کیا یہ لوگ خیا کرتے ہیں ک ہم جو دنیا میں ان کو مال اور بیٹوں سے مدد دیتے ہیں ۔ وَيُمْدِدْكُمْ بِأَمْوالٍ وَبَنِينَ [ نوح 12] اور مال اور بیٹوں سے تمہاری مدد فرمائے گا ۔ يُمْدِدْكُمْ رَبُّكُمْ بِخَمْسَةِ آلافٍ الآية [ آل عمران 125] تمہارا پروردگار پانچ ہزار فرشتے تمہاری مدد کو بھیجے گا ۔ أَتُمِدُّونَنِ بِمالٍ [ النمل 36] کیا تم مجھے مال سے مدد دینا چاہتے ہو ۔ وَنَمُدُّ لَهُ مِنَ الْعَذابِ مَدًّا[ مریم 79] اور اس کے لئے آراستہ عذاب بڑھاتے جاتے ہیں ۔ وَيَمُدُّهُمْ فِي طُغْيانِهِمْ يَعْمَهُونَ [ البقرة 15] اور انہیں مہلت دیئے جاتا ہے کہ شرارت اور سرکشی میں پڑے بہک رہے ہیں ۔ وَإِخْوانُهُمْ يَمُدُّونَهُمْ فِي الغَيِ [ الأعراف 202] اور ان ( کفار) کے بھائی انہیں گمراہی میں کھینچے جاتے ہیں لیکن آیت کریمہ : وَالْبَحْرُ يَمُدُّهُ مِنْ بَعْدِهِ سَبْعَةُ أَبْحُرٍ [ لقمان 27] اور سمندر ( کا تمام پانی ) روشنائی ہو اور مہار ت سمندر اور ( روشنائی ہوجائیں ) میں یمددہ کا صیغہ مدہ نھرا اخر کے محاورہ سے ماخوذ ہے اور یہ امداد یا مد سے نہیں ہے جو کسی محبوب یا مکروہ وہ چیز کے متعلق استعمال ہوتے ہیں بلکہ یہ مددت الداواۃ امد ھا کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی دوات میں روشنائی ڈالنا کے ہیں اسی طرح آیت کریمہ : وَلَوْ جِئْنا بِمِثْلِهِ مَدَداً [ الكهف 109] اگرچہ ہم دیسا اور سمندر اس کی مددکو لائیں ۔ میں مداد یعنی روشنائی کے معنی مراد ہیں ۔ المد۔ غلہ ناپنے کا ایک مشہور پیمانہ ۔ ۔- أَلْفُ (هزار)- : العدد المخصوص، وسمّي بذلک لکون الأعداد فيه مؤتلفة، فإنّ الأعداد أربعة : آحاد وعشرات ومئات وألوف، فإذا بلغت الألف فقد ائتلفت، وما بعده يكون مکررا . قال بعضهم : الألف من ذلك، لأنه مبدأ النظام، وقیل : آلَفْتُ الدراهم، أي : بلغت بها الألف، نحو ماءیت، وآلفت «1» هي نحو أمأت .- الالف - ۔ ایک خاص عدد ( ہزار ) کا نام ہے اور اسے الف اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس میں اعدار کے تمام اقسام جمع ہوجاتے ہیں کیونکہ اعداد کی چار قسمیں ہیں ۔ اکائی ، دہائی ، سینکڑہ ، ہزار تو الف میں یہ سب اعداد جمع ہوجاتے ہیں اس کے بعد جو عدد بھی ہو مکرر آتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ الف حروف تہجی بھی اسی سے ہے کیونکہ وہ میرا نظام بنتا ہے ۔ الفت الدراھم میں نے درہموں کو ہزار کردیا جسطرح مائیت کے معنی ہیں میں نے انہیں سو کر دیا ۔ الفت وہ ہزار کو پہنچ گئے جیسے امات سو تک پہنچ گئے - ملك ( فرشته)- وأما المَلَكُ فالنحویون جعلوه من لفظ الملائكة، وجعل المیم فيه زائدة . وقال بعض المحقّقين : هو من المِلك، قال : والمتولّي من الملائكة شيئا من السّياسات يقال له : ملک بالفتح، ومن البشر يقال له : ملک بالکسر، فكلّ مَلَكٍ ملائكة ولیس کلّ ملائكة ملکاقال : وَالْمَلَكُ عَلى أَرْجائِها [ الحاقة 17] ، عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبابِلَ [ البقرة 102] - ( م ل ک ) الملک - الملک علمائے نحو اس لفظ کو ملا ئکۃ سے ماخوذ مانتے ہیں اور اس کی میم کو زائد بناتے ہیں لیکن بعض محقیقن نے اسے ملک سے مشتق مانا ہے اور کہا ہے کہ جو فرشتہ کائنات کا انتظام کرتا ہے اسے فتحہ لام کے ساتھ ملک کہا جاتا ہے اور انسان کو ملک ہیں معلوم ہوا کہ ملک تو ملا ئکۃ میں ہے لیکن کل ملا ئکۃ ملک نہیں ہو بلکہ ملک کا لفظ فرشتوں پر بولا جاتا ہے کی طرف کہ آیات ۔ وَالْمَلَكُ عَلى أَرْجائِها [ الحاقة 17] اور فرشتے اس کے کناروں پر اتر آئیں گے ۔ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبابِلَ [ البقرة 102] اور ان باتوں کے بھی پیچھے لگ گئے جو دو فرشتوں پر اتری تھیں ۔- ردف - الرِّدْفُ : التابع، ورِدْفُ المرأة : عجیزتها، والتَّرَادُفُ : التتابع، والرَّادِفُ : المتأخّر، والمُرْدِفُ : المتقدّم الذي أَرْدَفَ غيره، قال تعالی: فَاسْتَجابَ لَكُمْ أَنِّي مُمِدُّكُمْ بِأَلْفٍ مِنَ الْمَلائِكَةِ مُرْدِفِينَ- [ الأنفال 9] ، قال أبو عبیدة : مردفین : جائين بعد «1» ، فجعل رَدِفَ وأَرْدَفَ بمعنی واحد، وأنشدإذا الجوزاء أَرْدَفَتِ الثّري وقال غيره : معناه مردفین ملائكة أخری، فعلی هذا يکونون ممدّين بألفین من الملائكة، وقیل : عنی بِالْمُرْدِفِينَ المتقدّمين للعسکر يلقون في قلوب العدی الرّعب . وقرئ مُرْدِفِين أي : أُرْدِفَ كلّ إنسان ملکا، ( ومُرَدَّفِينَ ) يعني مُرْتَدِفِينَ ، فأدغم التاء في الدّال، وطرح حركة التاء علی الدّال . وقد قال في سورة آل عمران :- أَلَنْ يَكْفِيَكُمْ أَنْ يُمِدَّكُمْ رَبُّكُمْ بِثَلاثَةِ آلافٍ مِنَ الْمَلائِكَةِ مُنْزَلِينَ بَلى إِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا وَيَأْتُوكُمْ مِنْ فَوْرِهِمْ هذا يُمْدِدْكُمْ رَبُّكُمْ بِخَمْسَةِ آلافٍ مِنَ الْمَلائِكَةِ مُسَوِّمِينَ. وأَرْدَفْتُهُ : حملته علی رِدْفِ الفرس، والرِّدَافُ : مرکب الرّدف، ودابّة لا تُرَادَفُ ولا تُرْدَفُ وجاء واحد فأردفه آخر . وأَرْدَافُ الملوکِ : الذین يخلفونهم .- ( ر د ف) الردف تابع یعنی ہر وہ چیز جو دوسرے کے پیچھے ہو اور ردف المرءۃ کے معنی عورت کے سرین کے ہیں ۔ الترادف یکے بعد دیگرے آنا ۔ ایک دوسرے کی پیروی کرنا ۔ الرادف ۔ متاخر یعنی پچھلا ۔ المردف اگلا جس نے اپنے پیچھے کسی کو سوار کیا ہو ۔ قرآن میں ہے : فَاسْتَجابَ لَكُمْ أَنِّي مُمِدُّكُمْ بِأَلْفٍ مِنَالْمَلائِكَةِ مُرْدِفِينَ [ الأنفال 9] سو اس نے تمہاری سن لی ( اور فرمایا ) کہ ہم لگاتار ایک ہزار فرشتوں کے ساتھ تمہاری مدد کریں گے ۔ ابو عبیدہ کے نزدیک ردف واردف یعنی مجرد اور مزید فیہ ایک ہی معنی میں آتے ہیں اس لئے انہوں نے مردفین کا معنی بعد میں آنے والے کیا ہے ۔ اور یہ شاید پیش کیا ہے ۔ (179) " اذا الجوزاء اردفت الثریا " جب ثریا کے پیچھے جوزاء ستار نگل آیا ۔ مگر ابو عبیدہ کے علاوہ دوسرے علماء نے مردفین کے معنی یہ کئے ہیں کہ " دوسرے فرشتوں کو پیچھے لانے والے " تو اس لحاظ سے گویا دو ہزار فرشتوں کے ساتھ مسلمانوں کی مدد کی گئی تھی ۔ بعض نے کہا ہے مردفین سے مراد وہ فرشتے ہیں ۔ جو اسلامی لشکر کے آگے چلتے تھے تاکہ کفار کے دلوں میں مسلمانوں کا رعب ڈال دیں ۔ اور ایک قرات میں مردفین فتح دال کے ساتھ ہے یعنی ہر ایک مسلمان فوجی کے پیچھے اس کی مدد کے لئے ایک فرشتہ متعین تھا ۔ ایک اور قرآت میں مردفین بتشدید دال ہے جو دراصل مردفین باب افتعال سے ہے ۔ صرفی قاعدہ کے مطابق تاء کو دال میں ادغام کر کے اس کی حرکت دال کو دے دی گئی ہے ۔ سورة آل عمران میں ہے : أَلَنْ يَكْفِيَكُمْ أَنْ يُمِدَّكُمْ رَبُّكُمْ بِثَلاثَةِ آلافٍ مِنَ الْمَلائِكَةِ مُنْزَلِينَ بَلى إِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا وَيَأْتُوكُمْ مِنْ فَوْرِهِمْ هذا يُمْدِدْكُمْ رَبُّكُمْ بِخَمْسَةِ آلافٍ مِنَ الْمَلائِكَةِ مُسَوِّمِينَ. کیا تم کو اتنا کافی نہیں کہ تمہارا رب ( آسمان سے ) تین ہزار فرشتے بھیج کر تمہاری مدد فرمائے ( ضرور کافی ہے ) بلکہ اگر تم ثابت قدم رہو ( اور خدا اور رسول کی نافرمانی سے ) بچو اور دشمن ( ابھی ) اسی دم تم پر چڑھ آئیں تم تمہارا رب پانچ ہزار فرشتوں سے تمہاری مدد کرے گا جو بڑی سج دھج سے آموجود ہوں گے ۔ وأَرْدَفْتُهُ : میں نے اسے اپنے پیچھے سوار کیا ۔ والرِّدَافُ : سواری پر ردلف کے بیٹھنے کی جگہ ۔ ودابّة لا تُرَادَفُ ولا تُرْدَفُ : سواری جو ردیف کو سوار نہ ہونے دے ۔ وجاء واحد فأردفه آخر : ایک کے بعد دوسرا آیا ۔ وأَرْدَافُ الملوکِ : بادشاہو
فرشتوں کے ذریعہ مدد - قول باری ہے فاستجاب لکم انی ممدکم بالف من الملائکۃ مردفین وما جعلہ اللہ الا بشری ولتطمین بہ قلوبکم۔ جواب میں اس نے فرمایا کہ میں تمہاری مدد کے لئے پے در پے ایک ہزار فرشتے بھیج رہا ہوں۔ یہ بات اللہ نے تمہیں صرف اس لئے بتادی کہ تمہیں خوشخبری ہو اور تمہارے دل مطمئن ہوجائیں) یہ تمام باتیں واقعاتی طور پر اسی طرح پیش آئیں جس طرح آیت میں بتائی گئی تھیں اور اس طرح یہ باتیں مسلمانوں کے دلوں میں طمانیت کا ذریعہ بن گئیں۔
(٩) بدر کے روز جب تم لوگ مدد کے لیے دعا کررہے تھے، پھر تمہاری پکار سن لی گئی کہ ایک ہزار فرشتوں سے میں تمہاری مدد کروں گا جو سلسلہ وار چلے آئیں گے۔- شان نزول : (آیت) ” اذ تستغیثون ربکم فاستجاب “۔ (الخ)- حضرت امام ترمذی (رح) نے حضرت عمر فاروق (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مشرکین مکہ کو دیکھا تو وہ ایک ہزار تھے اور آپ کی جماعت کے لوگ تین سو تیرہ تھے، چناچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قبلہ رخ ہوئے اور ہاتھ اٹھا کر اپنے پروردگار سے دعا کرنے لگے کہ یا الہ العالمین جو آپ نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے اس کو پورا کر، یا الہ العالمین مسلمانوں کی اگر یہ جماعت ہلاک ہوجائے گی تو پھر زمین پر تیری عبادت نہیں کی جائے گی، آپ قبلہ کی طرف منہ کیے ہوئے اپنے ہاتھوں کو دراز کیے ہوئے اپنے پروردگار سے دعا کرتے رہے، یہاں تک کہ آپ کی چادر مبارک گرگئی، حضرت ابوبکر صدیق (رض) حاضر ہوئے اور انہوں نے آپ کی چادر مبارک اٹھا کر آپ کے کندھوں پر ڈالی پھر آپ کو پیچھے کی طرف سے چمٹ گئے۔- اور عرض کرنے لگے، اے اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پروردگار سے آپ کی آہ وزاری بہت ہوگئی وہ ضرور اس چیز کو پورا کرے گا جس کا اس نے آپ سے وعدہ کر رکھا ہے تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی، چناچہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی فرشتوں کے ذریعے سے مدد فرمائی۔
آیت ٩ (اِذْ تَسْتَغِیْثُوْنَ رَبَّکُمْ فَاسْتَجَابَ لَکُمْ اَنِّیْ مُمِدُّکُمْ بِاَلْفٍ مِّنَ الْمَلآءِکَۃِ مُرْدِفِیْنَ ) - قریش کے ایک ہزار کے لشکر کے مقابلے میں تمہاری مدد کے لیے ایک ہزار فرشتے آسمانوں سے قطار در قطار اتریں گے۔