Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

22۔ 1 اس بات کو قرآن کریم میں دوسرے مقام پر اس طرح بیان فرمایا ہے۔ (لَهُمْ قُلُوْبٌ لَّا يَفْقَهُوْنَ بِهَا ۡ وَلَهُمْ اَعْيُنٌ لَّا يُبْصِرُوْنَ بِهَا ۡ وَلَهُمْ اٰذَانٌ لَّا يَسْمَعُوْنَ بِهَا ۭاُولٰۗىِٕكَ كَالْاَنْعَامِ بَلْ هُمْ اَضَلُّ اُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْغٰفِلُوْنَ ) 7 ۔ الاعراف :179) ان کے دل ہیں، لیکن ان سے سمجھتے نہیں، ان کی آنکھیں ہیں، لیکن ان سے دیکھتے نہیں اور ان کے کان ہیں لیکن ان سے سنتے نہیں یہ چوپائے کی طرح ہیں، بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ۔ یہ لوگ (اللہ سے) بیخبر ہیں۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٢١] بدترین مخلوق کون ہیں ؟ اس آیت کا مضمون سورة اعراف کی آیت نمبر ١٧٩ میں گزر چکا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جب انسان اعضاء سے وہ کام لینا چھوڑ دے جس کے لیے وہ بنائے گئے ہیں تو پھر بالآخر وہ اعضاء اپنا کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ مثلاً آنکھیں اس لیے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی کائنات کو دیکھیں، کان اس لیے کہ وہ حق بات کو سنیں اور عقل اس لیے کہ وہ آنکھ اور کان کی بہم پہنچائی ہوئی معلومات میں غور و فکر کرے۔ اب جو شخص ان اعضاء سے کام نہ لیتے ہوئے انہیں بےکار بنا دیتا ہے تو ایسے لوگ جانوروں سے بھی بدتر ہیں۔ جنہوں نے اپنی خداداد صلاحیتوں کو برباد کردیا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اِنَّ شَرَّ الدَّوَاۗبِّ : ” الدَّوَاۗبِّ “ ” دَابَّۃٌ“ کی جمع ہے، ” دَبَّ یَدِبُّ (ض) “ زمین پر چلنا۔ انسان کو ” الدَّوَاۗبِّ “ میں اس لیے شمار کیا کہ کتب لغہ میں ہر جاندار کو دابہ کہہ لیتے ہیں۔ مصباح میں ہے ” دَابَّۃٌ“ زمین کا ہر جاندار، خواہ سمجھ رکھتا ہو یا نہ رکھتا ہو، یعنی کفار و منافقین جو کان سے اچھی بات نہ سنیں، زبان سے اچھی بات نہ نکالیں اور اللہ کی دی ہوئی عقل سے کام نہ لیں وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام جانوروں سے بدتر ہیں، کیونکہ جانور تو اپنے فطری تقاضوں کے مطابق زندگی بسر کرتے ہیں اور ان لوگوں کو عبادت کے لیے پیدا کیا گیا ہے، مگر یہ اس غرض کو بھی پورا نہیں کرتے۔ یہاں پہلے بہرے ہونے کا ذکر ہے، پھر گونگے ہونے کا، کیونکہ حق سن کر ہی اس کی تائید و تبلیغ زبان سے ہوتی ہے، پھر بےعقل ہونے کا، کیونکہ بعض بہرے اور گونگے عقل سے حق کو سمجھتے اور اسے قبول کرلیتے ہیں، مگر یہ لوگ تینوں چیزوں سے خالی ہیں۔ دیکھیے سورة اعراف (١٧٩) اور فرقان (٤٤) ۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

تیسری آیت میں ان لوگوں کی شدید مزمت ہے جو حق بات کو غور و تدبر کے ساتھ نہیں سنتے اور اس کو قبول نہیں کرتے۔ ایسے لوگوں کو قرآن کریم نے جانوروں سے بھی بدتر قرار دیا ہے۔ ارشاد فرمایا (آیت) اِنَّ شَرَّ الدَّوَاۗبِّ عِنْدَ اللّٰهِ الصُّمُّ الْبُكْمُ الَّذِيْنَ لَا يَعْقِلُوْنَ ۔- لفظ دواب دابہ کی جمع ہے اصل لغت کے اعتبار سے ہر زمین پر چلنے والے کو دابہ کہا جاتا ہے مگر عرف و محاورہ میں صرف چوپایہ جانوروں کو دابة کہتے ہیں۔ معنی آیت کے یہ ہوئے کہ سب سے بدترین چوپائے اللہ کے نزدیک وہ ہیں جو حق کو سننے سے بہرے اور اس کے قبول کرنے سے گونگے ہیں اور بہرے گونگے میں اگر کچھ عقل ہو تو وہ بھی اشاروں سے اپنے دل کی بات کہہ لیتا ہے اور دوسروں کی بات سمجھ لیتا ہے یہ لوگ بہرے گونگے ہونے کے ساتھ بےعقل بھی ہیں اور یہ ظاہر ہے جو بہرا گونگا عقل سے بھی خالی ہو اس کے سمجھنے سمجھانے کا کوئی راستہ نہیں۔ - اس آیت میں حق تعالیٰ نے یہ واضح کردیا کہ انسان کو جو احسن تقویم میں پیدا کیا گیا اور اشرف المخلوقات اور مخدوم کائنات بنایا گیا یہ سب انعامات صرف اطاعت حق میں مضمر اور منحصر ہیں جب انسان نے حق بات کے سننے سمجھنے اور ماننے سے اعراض کیا تو یہ سارے انعامات اس سے سلب ہوجاتے ہیں اور وہ جانوروں سے بھی بدتر ہوجاتا ہے۔- تفسیر روح البیان میں ہے کہ انسان اپنی اصل خلقت کے اعتبار سے سب جانوروں سے افضل و اعلی ہے اور فرشتوں سے کم درجہ رکھتا ہے۔ لیکن جب وہ اپنے سعی و عمل اور اطاعت حق میں جد و جہد کرتا ہے تو فرشتوں سے بھی اعلی و اشرف ہوجاتا ہے اور اگر اس نے اطاعت حق سے روگردانی کی تو پھر وہ اسفل سافلین میں جاتا ہے اور جانوروں سے بھی زیادہ بدتر ہوجاتا ہے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِنَّ شَرَّ الدَّوَاۗبِّ عِنْدَ اللہِ الصُّمُّ الْبُكْمُ الَّذِيْنَ لَا يَعْقِلُوْنَ۝ ٢٢- شر - الشَّرُّ : الذي يرغب عنه الكلّ ، كما أنّ الخیر هو الذي يرغب فيه الكلّ قال تعالی: شَرٌّ مَکاناً [يوسف 77] ، وإِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِنْدَ اللَّهِ الصُّمُ [ الأنفال 22] الشَّرُّ : الذي يرغب عنه الكلّ ، كما أنّ الخیر هو الذي يرغب فيه الكلّ قال تعالی: شَرٌّ مَکاناً [يوسف 77] - ( ش ر ر ) الشر وہ چیز ہے جس سے ہر ایک کراہت کرتا ہو جیسا کہ خیر اسے کہتے ہیں ۔ جو ہر ایک کو مرغوب ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ شَرٌّ مَکاناً [يوسف 77] کہ مکان کس کا برا ہے ۔ - دب - الدَّبُّ والدَّبِيبُ : مشي خفیف، ويستعمل ذلک في الحیوان، وفي الحشرات أكثر، ويستعمل في الشّراب ويستعمل في كلّ حيوان وإن اختصّت في التّعارف بالفرس : وَما مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّهِ رِزْقُها [هود 6] - ( د ب ب ) دب - الدب والدبیب ( ض ) کے معنی آہستہ آہستہ چلنے اور رینگنے کے ہیں ۔ یہ لفظ حیوانات اور زیادہ نر حشرات الارض کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور شراب اور مگر ( لغۃ ) ہر حیوان یعنی ذی حیات چیز کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ وَما مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّهِ رِزْقُها [هود 6] اور زمین پر چلنے پھرنے والا نہیں مگر اس کا رزق خدا کے ذمے ہے ۔- صمم - الصَّمَمُ : فقدانُ حاسّة السّمع، وبه يوصف من لا يُصغِي إلى الحقّ ولا يقبله . قال تعالی: صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ [ البقرة 18] ،- ( ص م م ) الصمم - کے معیم حاصہ سماعت ضائع ہوجانا کے ہیں ( مجاز) اس کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوتا ہے جو نہ تو حق کی آواز سنے اور نہ ہی اسے قبول کرے ( بلکہ اپنی مرضی کرتا چلا جائے ) قرآن میں ہے : صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ [ البقرة 18] بہرے ہیں گونگے ہیں اندھے ہیں ۔- بكم - قال عزّ وجلّ : صُمٌّ بُكْمٌ [ البقرة 18] ، جمع أَبْكَم، وهو الذي يولد أخرس، فكلّ أبكم أخرس، ولیس کل أخرس أبكم، قال تعالی: وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا رَجُلَيْنِ أَحَدُهُما أَبْكَمُ لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل 76] ، ويقال : بَكِمَ عنالکلام : إذا ضعف عنه لضعف عقله، فصار کالأبكم .- ( ب ک م ) الابکم - ۔ پیدائشی گونگا اور اخرس عام گونگے کو کہے ہیں لہذا ابکم عام اور اخرس خاص ہے قرآن میں ہے ۔- وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا رَجُلَيْنِ أَحَدُهُما أَبْكَمُ لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل 76] اور خدا ایک اور مثال بیان فرماتا ہے کہ دو آدمی ہیں ایک ان میں گونگا اور دوسرے کی ملک ( ہے دبے اختیار وناتوان ) کہ کسی چیز پر قدرت نہیں رکھتا ۔ اور ابکم کی جمع بکم آتی ہے چناچہ فرمایا : ۔ صُمٌّ بُكْمٌ [ البقرة 18] یہ بہرے ہیں گونگے ہیں اور جو شخص ضعف عقلی کے سبب گفتگو نہ کرسکے اور گونگے کی طرح چپ رہے تو اس کے متعلق بکم عن الکلام کہا جاتا ہے یعنی وہ کلام سے عاجز ہوگیا ۔- عقل - العَقْل يقال للقوّة المتهيّئة لقبول العلم، ويقال للعلم الذي يستفیده الإنسان بتلک القوّة عَقْلٌ ، وهذا العقل هو المعنيّ بقوله : وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت 43] ،- ( ع ق ل ) العقل - اس قوت کو کہتے ہیں جو قبول علم کے لئے تیار رہتی ہے اور وہ علم جو اس قوت کے ذریعہ حاصل کیا جاتا ہے ۔ اسے بھی عقل کہہ دیتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت 43] اور سے توا ہل دانش ہی سمجھتے ہیں

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٢٢) کہ بدترین خلقت واخلاق کے اعتبار سے وہ لوگ ہیں جو حق کی بات سننے اور کہنے سے بہرے اور گونگے ہیں اور حکم الہی اور توحید الہی کو بالکل نہیں سمجھتے ،

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٢٢ (اِنَّ شَرَّ الدَّوَآبِّ عِنْدَ اللّٰہِ الصُّمُّ الْبُکْمُ الَّذِیْنَ لاَ یَعْقِلُوْنَ ) - یہاں پر واضح طور پر منافقین کو بد ترین جانور قرار دیا گیا ہے ۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَنْفَال حاشیہ نمبر :17 یعنی جو حق سنتے ہیں نہ حق بولتے ہیں ۔ جن کے کان اور جن کے منہ حق کے لیے بہرے گونگے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

11: پچھلی آیت میں سننے سے مراد سمجھنا ہے، اور مطلب یہ ہے کہ کافر لوگ کانوں سے تو سننے کا دعوی کرتے ہیں، مگر سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے، اس لحاظ سے وہ جانوروں سے بھی بدتر ہیں، کیونکہ بے زبان جانور اگر کسی کی بات کو نہ سمجھیں تواتنی بری بات نہیں ہے، ان میں یہ صلاحیت پیدا ہی نہیں کی گئی، اور نہ ان سے یہ مطالبہ ہے، لیکن انسانوں میں تو سمجھنے کی صلاحیت پیدا کی گئی ہے، اور ان سے یہ مطالبہ بھی ہے کہ وہ سوچ سمجھ کر کوئی راستہ اپنائیں، اگر وہ سمجھنے کی کوشش نہ کریں توجانوروں سے بھی بدتر ہیں۔