23۔ 1 یعنی ان کے سماع کو نافع بناکر ان کو فہم صحیح عطا فرما دیتا، جس سے وہ حق کو قبول کرلیتے اور اسے اپنالیتے۔ لیکن چونکہ ان کے اندر خیر یعنی حق کی طلب ہی نہیں ہے، اس لئے وہ فہم صحیح سے محروم ہیں۔ 23۔ 2 پہلے سماع سے مراد سماع نافع ہے۔ اس دوسرے سماع سے مراد مطلق سماع ہے۔ یعنی اگر اللہ تعالیٰ انہیں حق بات سنوا بھی دے تو چونکہ ان کے اندر حق کی طلب ہی نہیں ہے، اس لئے وہ بدستور اس سے اعراض کریں گے۔
[٢٢] بالآخر ایسے لوگوں میں بھلائی کا جوہر موجود ہی نہیں رہتا اور اگر لوگ اپنے آپ میں کچھ ایسا جوہر موجود رہنے دیتے تو اللہ تعالیٰ انہیں سنا بھی دیتا۔ مگر ان کی موجودہ حالت یہ ہے کہ اگر انہیں اللہ تعالیٰ کی آیات سنا اور سمجھا بھی دی جائیں تو یہ ضدی اور معاند لوگ سمجھ کر بھی انہیں تسلیم و قبول کرنے پر تیار نہ ہوں گے۔
وَلَوْ عَلِمَ اللّٰهُ فِيْهِمْ خَيْرًا لَّاَسْمَعَهُمْ : یعنی اگر ان کے دل میں خیر یعنی حق کی طلب ہوتی تو اللہ تعالیٰ ان کے لیے سننے کو نافع بنا کر ایمان و عمل کی توفیق دے دیتا۔ پہلے ” لَّاَسْمَعَهُمْ “ (انھیں ضرور سنوا دیتا) سے مراد وہ سنانا ہے جو دل سے ہو اور فائدہ مند ہو اور ” لَّواَسْمَعَهُمْ “ (اور اگر وہ انھیں سنوا دیتا) سے مراد محض کانوں سے سنوانا ہے، یعنی اگر انھیں اسی حال میں کہ ان کے اندر کوئی بھلائی نہیں ہے، سنواتا تو یقیناً وہ منہ پھیر کر چل دیتے، یعنی ان لوگوں نے گناہوں کا ارتکاب کر کر کے اپنے اندر سے وہ استعداد ہی ختم کردی ہے جو ایمان اور راہ ہدایت کی پیروی کے لیے بیج کی حیثیت رکھتی ہے، پھر جب بیج ہی نہ ہو تو پھل کی امید کیا ہوسکتی ہے، چناچہ دوسری آیت میں فرمایا : (كَلَّا بَلْ ۫ رَانَ عَلٰي قُلُوْبِهِمْ مَّا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ ) [ المطففین : ١٤ ] ” خبردار رہو کہ ان کے برے اعمال ان کے دلوں پر زنگ بن کر چھا گئے ہیں۔ “
چوتھی آیت میں ارشاد ہے (آیت) وَلَوْ عَلِمَ اللّٰهُ فِيْهِمْ خَيْرًا لَّاَسْمَعَهُمْ ۭوَلَوْ اَسْمَعَهُمْ لَتَوَلَّوْا وَّهُمْ مُّعْرِضُوْنَ ، یعنی اگر اللہ تعالیٰ ان میں کوئی بھلائی دیکھتے تو ان کو اعتقاد کے ساتھ سننے کی توفیق بخش دیتے اور اگر ان کو بحالت موجودہ کہ ان میں طلب حق نہیں ہے حق بات سنا دیں تو وہ ضرور روگردانی کریں گے بےرخی کرتے ہوئے۔ - بھلائی سے مراد اس جگہ طلب حق ہے کہ طلب ہی کے ذریعہ تدبر اور فہم کے دروازے کھلتے ہیں اور اسی سے اعتقاد و عمل کی توفیق ہوتی ہے۔ اور جس میں طلب حق نہیں گویا اس میں کوئی بھلائی نہیں، معنی یہ ہیں کہ اگر ان میں کوئی بھلائی موجود ہوتی تو ظاہر ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے علم میں ہوتی جب اللہ تعالیٰ کے علم میں ان کے اندر کوئی بھلائی نہیں۔ تو معلوم ہوا کہ درحقیقت وہ ہر بھلائی سے محروم ہیں اور اس محرومی کی حالت میں اگر ان کو غور و تدبر اور اعتقاد حق کی دعوت دی جائے تو وہ ہرگز قبول نہ کریں گے بلکہ اس سے منہ پھیر کر بھاگیں گے۔ یعنی ان کی یہ روگردانی اس بنا پر نہ ہوگی کہ دین میں ان کو اعتراض کی بات نظر آگئی اس لئے نہیں مانا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے حق بات پر دھیان ہی نہیں دیا۔ - اس تقریر سے وہ منطقی شبہ بھی رفع ہوگیا جو اہل علم کے دلوں میں کھٹکتا ہے کہ یہ قیاس کی شکل اول ہے حد اوسط حذف کریں تو نتیجہ غلط نکل رہا ہے۔ جواب یہ ہے کہ درحقیقت یہاں حد اوسط مکرر نہیں کیونکہ پہلے لَّاَسْمَعَهُمْ کا مفہوم الگ ہے دوسرے اسمعھم کا الگ پہلے میں سماع قبول اور سماع نافع مراد ہے دوسرے میں خالی سماع۔
وَلَوْ عَلِمَ اللہُ فِيْہِمْ خَيْرًا لَّاَسْمَعَہُمْ ٠ ۭ وَلَوْ اَسْمَعَہُمْ لَتَوَلَّوْا وَّہُمْ مُّعْرِضُوْنَ ٢٣- علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا - خير - الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه :- الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] ،- ( خ ی ر ) الخیر - ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ - اور خیر دو قسم پر ہے - ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔- سمع - السَّمْعُ : قوّة في الأذن به يدرک الأصوات، وفعله يقال له السَّمْعُ أيضا، وقد سمع سمعا . ويعبّر تارة بالسمّع عن الأذن نحو : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة 7] ، وتارة عن فعله كَالسَّمَاعِ نحو : إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء 212] ، وقال تعالی: أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق 37] ، وتارة عن الفهم، وتارة عن الطاعة، تقول : اسْمَعْ ما أقول لك، ولم تسمع ما قلت، وتعني لم تفهم، قال تعالی: وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال 31] ، - ( س م ع ) السمع ۔ قوت سامعہ - ۔ کا ن میں ایک حاسہ کا نام ہے جس کے ذریعہ آوازوں کا اور اک ہوتا ہے اداس کے معنی سننا ( مصدر ) بھی آتے ہیں اور کبھی اس سے خود کان مراد لیا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة 7] خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ اور کبھی لفظ سماع کی طرح اس سے مصدر ی معنی مراد ہوتے ہیں ( یعنی سننا ) چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء 212] وہ ( آسمائی باتوں کے ) سننے ( کے مقامات ) سے الگ کردیئے گئے ہیں ۔ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق 37] یا دل سے متوجہ ہو کر سنتا ہے ۔ اور کبھی سمع کے معنی فہم و تدبر اور کبھی طاعت بھی آجاتے ہیں مثلا تم کہو ۔ اسمع ما اقول لک میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو لم تسمع ماقلت لک تم نے میری بات سمجھی نہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال 31] اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں ( یہ کلام ) ہم نے سن لیا ہے اگر چاہیں تو اسی طرح کا ( کلام ) ہم بھی کہدیں ۔ - اعرض - وإذا قيل : أَعْرَضَ عنّي، فمعناه : ولّى مُبدیا عَرْضَهُ. قال : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة 22] ، فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ- ( ع ر ض ) العرض - اعرض عنی اس نے مجھ سے روگردانی کی اعراض کیا ۔ قرآن میں ہے : ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْها [ السجدة 22] تو وہ ان سے منہ پھیرے ۔ فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ وَعِظْهُمْ [ النساء 63] تم ان سے اعراض بر تو اور نصیحت کرتے رہو ۔
(٢٣) اور اگر اللہ تعالیٰ بنی عبد دار وغیرہ میں کوئی خوبی دیکھتے تو انھیں ایمان کی دولت سے ضرور بہرہ ور فرماتے، اور اگر اس حالت میں ان کو ایمان کی توفیق دے دیں تو وہ ضرور اس سے روگردانی کرجائیں اور جھٹلانا شروع کردیں، اللہ تعالیٰ ان کی اس حالت کو بخوبی جانتے ہیں۔
آیت ٢٣ (وَلَوْ عَلِمَ اللّٰہُ فِیْہِمْ خَیْرًا لَّاَسْمَعَہُمْ ط) (وَلَوْ اَسْمَعَہُمْ لَتَوَلَّوْا وَّہُمْ مُّعْرِضُوْنَ ) - اگر اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے اندر کوئی صلاحیت پاتا تو ان کو سننے اور سمجھنے کی توفیق دے دیتا ‘ لیکن اگر انہیں بغیر صلاحیت کے تعمیل حکم میں جنگ کے لیے نکل آنے کی توفیق دے بھی دی جاتی تو یہ خطرے کا موقع دیکھتے ہی پیٹھ پھیر کر بھاگ کھڑے ہوتے۔ یہ خاص طور پر ان لوگوں کے لیے تنبیہہ ہے جو کفار کے لشکر کا سامنا کرنے میں پس و پیش کر رہے تھے۔
سورة الْاَنْفَال حاشیہ نمبر :18 یعنی جب ان لوگوں کے اندر خود حق پرستی اور حق کے لیے کام کرنے کا جذبہ نہیں ہے تو انہیں اگر تعمیل حکم میں جنگ کے لیے نکل آنے کی توفیق دے بھی دی جاتی تو یہ خطرے کا موقع دیکھتے ہی بے تکلف بھاگ نکلتے اور ان کی معیت تمہارے لیے مفید ثابت ہونے کے بجائے الٹی مضر ثابت ہوتی ۔
12: بھلائی سے یہاں مراد حق کی طلب اور جستجو ہے، اور جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا، سننے سے مراد سمجھنا ہے، اس طرح اس آیت میں یہ اہم نکتہ واضح کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ حق کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق اس کو دیتا ہے جس کے دل میں حق کی طلب ہو، اگر کسی میں حق کی طلب ہی نہ ہو اور وہ غفلت کی حالت میں اس طرح زندگی گزاررہا ہو کہ بس جو کچھ میں کررہا ہوں ٹھیک کررہا ہوں اور مجھے کسی سے کچھ سیکھنے کی ضرورت نہیں ہے تو اول تو وہ حق بات کو سمجھنے ہی محروم رہتا ہے، اور اگر سمجھ بھی جائے تو اس کا نوٹس ہی نہیں لیتا اور حق سے بدستور منہ موڑے رہتا ہے۔