دل رب کی انگلیوں میں ہیں صحیح بخاری شریف میں ہے استجیبوا معنی میں اجیبوا کے ہے لما بحییکم معنی بما بصلحکم کے ہے یعنی اللہ اور اس کا رسول تمہیں جب آواز دے تم جواب دو اور مان لو کیونکہ اس کے فرمان کے ماننے میں ہی تمہاری مصلحت ہے ۔ حضرت ابو سعید بن معلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نماز میں تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس سے گذرے ۔ مجھے آواز دی ، میں آپ کے پاس نہ آیا ۔ جب نماز پڑھ چکا تو حاضر خدمت ہو ا ۔ آپ نے فرمایا تجھے کس نے روکا تھا کہ تو میرے پاس چلا آئے ؟ کیا اللہ تعالیٰ نے نہیں فرمایا کہ اے ایمان والو اللہ اور اللہ کا رسول تمہیں جب آواز دیں تم قبول کر لیا کرو کیونکہ اسی میں تمہاری زندگی ہے ۔ سنیں اس مسجد سے نکلنے سے پہلے ہی میں تمہیں قرآن کی سب سے بڑی سورت سکھاؤں گا ۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد سے جانے کا ارادہ کیا تو میں نے آپ کو آپ کا وعدہ یاد دلایا اور روایت میں ہے کہ یہ واقعہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کا ہے اور آپ نے وہ سورت فاتحہ بتلائی اور فرمایا سات آیتیں دوہرائی ہوئی یہی ہیں ۔ اس حدیث کا پورا پورا بیان سورہ فاتحہ کی تفسیر میں گذر چکا ہے ۔ زندگی ، آخرت میں جات ، عذاب سے بچاؤ اور چھٹکارا قرآن کی تعلیم ، حق کو تسلیم کرنے اور اسلام لانے اور جہاد میں ہے ۔ ان ہی چیزوں کا حکم اللہ اور اس کے رسول نے دیا ہے ۔ اللہ انسان اور اس کے دل میں حائل ہے ۔ یعنی مومن میں اور کفر میں کافر میں اور ایمان میں ۔ یہ معنی ایک مرفوع حدیث میں بھی ہیں لیکن ٹھیک یہی ہے کہ یہ قول ابن عباس کا ہے مرفوع حدیث نہیں ۔ مجاہد کہتے ہیں یعنی اسے اس حال میں چھوڑنا ہے کہ وہ کسی چیز کو سمجھتا نہیں ۔ سدی کہتے ہیں اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے بغیر نہ ایمان لا سکے نہ کفر کر سکے ۔ قتادہ کہتے ہیں یہ آیت مثل آیت ( وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيْدِ 16 ) 50-ق:16 ) کے ہے یعنی بندے کی رگ جان سے بھی زیادہ نزدیک ہم ہیں ۔ اس آیت کے مناسب حدیثیں بھی ہیں ۔ مسند احمد میں ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اکثر فرمایا کرتے تھے کہ اے دلوں کے پھیرنے والے میرے دل کو اپنے دین پر ثابت رکھ تو ہم نے عرض کی یارسول اللہ ہم آپ پر اور آپ پر اتری ہوئی وحی پر ایمان لا چکے ہیں کیا پھر بھی آپ کو ہماری نسبت خطرہ ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں اللہ کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان دل ہیں وہ جس طرح چاہتا ہے ان کا تغیر و تبدل کرتا رہتا ہے ۔ ترمذی میں بھی یہ روایت کتاب القدر میں موجود ہے ۔ مسند احمد میں ہے کہ حضور یہ دعا پڑھا کرتے تھے دعا ( با مقلب القلوب ثبت قلبی علی دینک ) اے دلوں کے پھیر نے والے میرے دل کو اپنے دین پر مضبوطی سے قائم رکھ ۔ مسند احمد میں ہے آپ فرماتے ہیں ہر دل اللہ تعالیٰ رب العالمیں کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان ہے جب سیدھا کرنا چاہتا ہے کر دیتا ہے اور جب ٹیڑھا کرنا چاہتا ہے کر دیتا ہے ، آپ کی دعا تھی کہ اے مقلب القلوب اللہ میرا دل اپنے دین پر ثابت قدم رکھ ، فرماتے ہیں میزان رب رحمان کے ہاتھ میں ہے ، جھکاتا ہے اور اونچی کرتا ہے ، مسند کی اور حدیث میں ہے کہ آپ کی اس دعا کو اکثر سن کر حضرت مائی عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے آپ سے پوچھا کہ بکثرت اس دعا کے کرنے کی کیا وجہ ہے؟ آپ نے فرمایا انسان کا دل اللہ کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان ہے جب چاہتا ہے ٹیڑھا کر دیتا ہے اور جب چاہتا ہے سیدھا کر دیتا ہے ۔ مسند احمد میں ہے کہ آپ کی اس دعا کو بکثرت سن کر حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے آپ سے پوچھا کہ کیا دل پلٹ جاتے ہیں؟ آپ نے یہی جواب دیا ۔ ہم اللہ تعالیٰ سے جو ہمارا پروردگار ہے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہدایت کے بعد ہمارے دل ٹیڑھے نہ کر دے اور ہمیں اپنے پاس سے رحمت و نعمت عطا فرمائے وہ بڑی ہی بخشش کرنے والا اور بہت انعاموں والا یہ ۔ حضرت ام سلمہ کہتی ہیں میں نے حضور سے پھر درخواست کی کہ کیا آپ مجھے میرے لئے بھی کوئی دعا سکھائیں گے؟ آپ نے فرمایا ہاں یہ دعا مانگا کرو دعا ( اللھم رب النبی محمد اغفرلی ذنبی و اذھب غیظ قلبی و اجرنی من مضلات الفتن ما احییتنی ) یعنی اے اللہ اسے محمد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پروردگار میرے گناہ معاف فرما میرے دل کی سختی دور کر دے مجھے گمراہ کرنے والے فتنوں سے بجا لے جب تک بھی تو مجھے زندہ رکھ ۔ مسند احمد میں ہے کہ تمام انسانوں کے دل ایک ہی دل کی طرح اللہ کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان ہیں ۔ جس طرح چاہتا ہے انہیں الٹ پلٹ کرتا رہتا ہے پھر آپ نے دعا کی کہ اے دلوں کے پھیر نے والے اللہ ہمارے دلوں کو اپنی اطاعت کی طرف پھیر لے ۔
24۔ 1 لِمَا یُحْیِیْکُمْ ایسی چیزوں کی طرف جس سے تمہیں زندگی ملے۔ بعض نے اس سے جہاد مراد لیا ہے کہ اس میں تمہاری زندگی کا سروسامان ہے۔ بعض نے قرآن کے اوامرو نواہی اور احکام شرعیہ مراد لئے ہیں، جن میں جہاد بھی آجاتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ صرف اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات مانو، اور اس پر عمل کرو، اسی میں تمہاری زندگی ہے۔ 24۔ 2 یعنی موت وارد کرکے، جس کا مزہ ہر نفس کو چکھنا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ قبل اس کے کہ تمہیں موت آجائے، اللہ اور رسول کی بات مان لو اور اس پر عمل کرو۔ بعض نے کہا کہ اللہ تعالیٰ انسان کے دل کے جس طرح قریب ہے اس میں اسے بطور تمثیل بیان کیا گیا ہے اور مطلب یہ ہے کہ وہ دلوں کے بھیدوں کو جانتا ہے۔ اس سے کوئی چیز مخفی نہیں۔ امام ابن جریر نے اس کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ اپنے بندوں کے دلوں پر پورا اختیار رکھتا ہے اور جب چاہتا ان کے اور انکے دلوں کے درمیان حائل ہوجاتا ہے۔ حتی کہ انسان اسکی مشیت کے بغیر کسی چیز کو پا نہیں سکتا۔ بعض نے اسے جنگ بدر سے متعلق قراردیا ہے کہ مسلمان دشمن کی کثرت سے خوف زدہ تھے تو اللہ تعالیٰ نے دلوں کے درمیان حائل ہو کر مسلمانوں کے دلوں میں موجود خوف کو امن سے بدل دیا۔ امام شوکانی فرماتے ہیں کہ آیت کے یہ سارے ہی مفہوم مراد ہوسکتے ہیں (فتح القدیر) امام ابن جریر کے بیان کردہ مفہوم کی تائید ان احادیث سے ہوتی ہے جن میں دین پر ثابت قدمی کی دعائیں کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ مثلا ایک حدیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ بنی آدم کے دل ایک دل کی طرح رحمان کی دو انگلیوں کے درمیان ہیں انہیں جس طرح چاہتا ہے پھیرتا رہتا ہے۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ دعا پڑھی۔ اللہم مصرف القلوب صرف قلوبنا الی طاعتک۔ اے دلوں کے پھیرنے والے ہمارے دلوں کو اپنی اطاعت کی طرف پھیردے۔ بعض روایات میں ثبت قلبی علی دینک کے الفاظ ہیں۔
[٢٣] اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ کی زندگی بخش دعوت :۔ یعنی اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دعوتی پیغام ایسا ہے جس سے تمہیں دنیا میں بھی عزت و اطمینان کی زندگی نصیب ہوگی اور آخرت میں بھی نعمتوں سے بھرپور ابدی زندگی حاصل ہوگی، اس کے مفہوم کو پوری طرح سمجھنے کے لیے یہ ذہن میں رکھئے کہ یہ سورت غزوہ بدر کے بعد نازل ہوئی۔ جب کہ مسلمانوں کی ایک ریاست قائم ہوچکی تھی اور وہ آزادانہ زندگی گزار رہے تھے اور غزوہ بدر میں فتح نے انہیں ایک مساوی قوم کا درجہ دے دیا تھا اور وہ آپس میں نہایت پیار، محبت اور بھائی بھائی بن کر رہ رہے تھے۔ اب اس کے مقابلہ میں دور جاہلیت کے معاشرہ کو سامنے لائیے جب کہ لوگ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے مدینہ میں جنگ بعاث نے اور مکہ میں حرب فجار نے گھروں کے گھروں کا صفایا کردیا تھا۔ قبائلی جنگیں کسی طرح ختم ہونے کو نہ آتی تھیں اور تم لوگ ان سے جان چھڑانے کی کوشش کرتے تھے۔ ہر طرف لوٹ مار کا بازار گرم تھا اور شراب کے دور چلتے تھے۔ کسی کی جان، مال اور عزت محفوظ نہیں رہی تھی اور لوگوں پر ان کا جینا حرام ہوچکا تھا۔ پھر اللہ اور اس کے رسول نے تمہیں وہ تعلیم دی کہ تمہاری زندگی کا رخ ہی موڑ دیا اور اب تم امن چین سے زندگی گزار رہے ہو۔ لہذا تمہیں فوراً اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنا چاہیے اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بلانے پر فوراً حاضر ہوجانا چاہیے۔ کیونکہ اسی میں تمہاری زندگی کا راز مضمر ہے۔- اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انسان خواہ کتنے ہی ضروری کام مثلاً فریضہ نماز میں بھی مشغول ہو تو اسے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بلانے پر نماز چھوڑ کر فوراً حاضر ہونا چاہیے۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے۔- رسول کے بلانے پر فورا حاضر ہونا :۔ ابو سعیدبن معلی (رض) کہتے ہیں کہ میں نماز پڑھ رہا تھا۔ آپ میرے سامنے سے گزرے اور مجھے بلایا۔ میں نماز پڑھ کر حاضر ہوا تو مجھے فرمایا : تم میرے بلانے پر فوراً کیوں نہ آئے ؟ کیا تم نے اللہ کا یہ فرمان نہیں سنا ( يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِيْبُوْا لِلّٰهِ وَلِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيْكُمْ 24) 8 ۔ الانفال :24) پھر آپ نے فرمایا : میں جانے سے پہلے تمہیں قرآن کی بڑی سورت بتلاؤں گا۔ جب آپ جانے لگے تو میں نے آپ کو یہ بات یاد دلائی تو آپ نے فرمایا وہ سورت (اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ ) الفاتحه "1) ہے۔ اس میں سات آیتیں ہیں جو (ہر نماز میں) مکرر پڑھی جاتی ہیں۔ (بخاری، کتاب التفسیر)- اور حدیث جریج سے علماء نے یہ مسئلہ مستنبط کیا ہے کہ والدین میں سے کسی ایک کے بلانے پر انسان کو نفلی نماز توڑ کر فوراً حاضر ہوجانا چاہیے۔- [ ٢٤] اللہ کے آدمی اور اس کے دل کے درمیان حائل ہونے کا مطلب دل کو شیطانی وساوس سے بچانے کی کوشش :۔ یعنی اللہ تعالیٰ انسان کے دل کے اتنا قریب ہے کہ وہ اس کے راز، ارادوں اور نیت تک کو جانتا ہے اور یہ دل ہی خیر و شر کا منبع ہے۔ لہذا مسلمان کو اللہ کے رسول کی اطاعت میں دیر نہ کرنی چاہیے۔ ورنہ ممکن ہے کہ بعد میں کوئی اور خیال پیدا ہوجائے اور اللہ تعالیٰ کا تو قانون ہی یہ ہے کہ انسان جیسا ارادہ یا نیت کرتا ہے۔ اللہ اس کے دل کو اسی طرح کی راہیں سجھانے لگتا ہے لہذا حتی الامکان دل کو شیطانی وساوس کی آماجگاہ بننے سے بچانا چاہیے اور اس کی واحد صورت یہ ہے کہ بلاتاخیر اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی جائے۔- چنانچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اکثر یہ دعا مانگا کرتے تھے۔ اللّٰھُمَّ ثَبِّتْ قُلُوْبُنَا عَلٰی دِیْنِکَ یا الفاظ یہ ہوتے تھے۔ یا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قُلُوْبُنَا عَلٰی دِیْنِکَ
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِيْبُوْا لِلّٰهِ وَلِلرَّسُوْلِ :” اَجَابَ یُجِیْبُ “ کا معنی قبول کرنا ہے اور ” اسْتَجِيْبُوْا “ باب استفعال ” اِسْتَجَابَ یَسْتَجِیْبُ “ سے ہے، جس میں عموماً طلب ہوتی ہے، یہاں طلب کا معنی نہیں ہوسکتا، لہٰذا سین اور تاء کے اضافے سے معنی میں زیادتی مراد ہوگی، اس لیے ” خوشی سے قبول کرو “ ترجمہ کیا گیا ہے، یعنی اللہ اور اس کے رسول کی دعوت پر خوشی سے لبیک کہنا تم پر لازم ہے۔- اِذَا دَعَاكُمْ : ” جب وہ تمہیں دعوت دے “ کا مطلب یہ ہے کہ فوراً قبول کرو، دیر نہ کرو۔ ابی بن کعب (رض) نماز پڑھ رہے تھے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انھیں بلایا، وہ نماز پوری کرکے آئے تو آپ نے یہ آیت پڑھ کر فرمایا : ” تم نے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان نہیں سنا ؟ “ انھوں نے کہا : ” آئندہ میں ان شاء اللہ ایسا نہیں کروں گا۔ “ [ ترمذی، فضائل القرآن، باب ما جاء فی فضل فاتحۃ الکتاب : ٢٨٧٥ ] صحیح بخاری میں اس آیت کی تفسیر میں ابوسعید بن معلی (رض) کو نماز پڑھتے ہوئے بلانا اور اسی وقت نہ آنے پر یہی تلقین فرمانا موجود ہے۔ [ بخاری، التفسیر، باب : ( یأیھا الذین اٰمنوا استجیبوا۔۔ ) : ٤٦٤٧ ]- لِمَا يُحْيِيْكُمْ : ” اس چیز کے لیے جو تمہیں زندگی بخشتی ہے “ اس سے متعلق علمائے سلف کے مختلف اقوال ہیں، بعض نے اسلام و ایمان اور بعض نے قرآن، لیکن اکثر نے اس سے جہاد مراد لیا ہے، کیونکہ جہاد دنیا اور آخرت میں زندگی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے، خصوصاً اس لیے کہ شروع سورت سے یہی بات چلی آرہی ہے، آیت : (اَلَمْ تَرَ اِلَى الَّذِيْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِيَارِھِمْ وَھُمْ اُلُوْفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ )[ البقرۃ : ٢٤٣ ] سے مراد بھی جہاد کی ترغیب ہے۔ ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا آپ فرما رہے تھے : ” جب تم عینہ (حیلے سے سود کی ایک قسم) کے ساتھ بیع کرو گے اور بیلوں کی دمیں پکڑ لو گے اور کاشت کاری پر خوش ہوجاؤ گے اور جہاد کو چھوڑ دو گے تو اللہ تعالیٰ تم پر ایسی بڑی ذلت مسلط کرے گا جسے دور نہیں کرے گا، حتیٰ کہ تم اپنے دین (جہاد) کی طرف لوٹ آؤ۔ “ [ أبوداوٗد، البیوع، باب فی النہی عن العینۃ : ٣٤٦٢۔ السلسۃ الصحیحۃ : ١١ ] - وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ يَحُوْلُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهٖ : یعنی حق واضح ہوجانے کے بعد بھی اگر کوئی اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حکم نہ مانے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسان کو یہ سزا ملتی ہے کہ وہ انسان اور اس کے دل کے درمیان حائل ہوجاتا ہے اور اس کے بعد اسے اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعوت پر لبیک کہنے کی توفیق نہیں ملتی، جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (فَلَمَّا زَاغُوْٓا اَزَاغ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ ) [ الصف : ٥ ] ” جب وہ خود ٹیڑھے ہوگئے تو اللہ نے ان کے دلوں کو ٹیڑھا کردیا۔ “ آیت کے یہ معنی ابن عباس (رض) اور جمہو رمفسرین نے بیان فرمائے ہیں۔ سورة انعام کی آیت (١٠٩، ١١٠) میں بھی یہی بات بیان ہوئی ہے، جنگ تبوک میں کعب بن مالک (رض) فوری طور پر نہ نکل سکے تو بعد میں جانے کی توفیق ہی نہیں ملی، یہ الگ بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے صدق اور انابت کی وجہ سے انھیں توبہ کی توفیق دی اور قرآن میں ان کا ذکر خیر فرمایا۔ شاہ عبد القادر (رض) اس آیت کی تشریح یہ فرماتے ہیں : ” حکم بجا لانے میں دیر نہ کرو، شاید اس وقت دل ایسا نہ رہے، دل اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ “ (موضح) بعض مفسرین نے اس کی تفسیر یہ فرمائی کہ اللہ کے حائل ہونے سے مراد موت ہے، یعنی موت آنے سے پہلے اطاعت بجا لاؤ، اس کے بعد (وَاَنَّهٗٓ اِلَيْهِ تُحْشَرُوْنَ ) (اور جان لو کہ یہ یقینی حقیقت ہے کہ تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے) کے جملے سے بھی اس معنی کی تائید ہوتی ہے۔ اصل یہ ہے کہ دونوں معنی ہی مراد ہوسکتے ہیں اور ان کا آپس میں کوئی تضاد نہیں۔
پانچویں آیت میں پھر اہل ایمان کو خطاب کرکے اللہ اور رسول کے احکام کی تعمیل و اطاعت کا حکم ایک خاص انداز سے دیا گیا کہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمہیں جس چیز کی دعوت دیتے ہیں اس میں اللہ اور رسول کا اپنا کوئی فائدہ مضمر نہیں بلکہ سب احکام تمہارے ہی فائدہ کیلئے دیئے گئے ہیں ارشاد فرمایا (آیت) اسْتَجِيْبُوْا لِلّٰهِ وَلِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيْكُمْ ، یعنی بات مانو اللہ کی اور رسول کی جب کہ رسول تم کو ایسی چیز کی طرف بلائے جو تمہارے لئے زندگی بخش ہے۔- وہ حیات جس کا ذکر اس آیت میں ہے کیا ہے اس میں کئی احتمال ہیں اس لئے علماء تفسیر نے مختلف قول اختیار کئے ہیں۔ سدی نے کہا کہ وہ حیات بخش چیز ایمان ہے کیونکہ کافر مردہ ہے۔ قتادہ نے فرمایا کہ وہ قرآن ہے جس میں دنیا و آخرت کی زندگی اور فلاح مضمر ہے۔ مجاہد نے فرمایا کہ وہ حق ہے۔ ابن اسحاق نے فرمایا کہ مراد اس سے جہاد ہے جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو عزت بخشی۔ اور یہ سب احتمالات اپنی اپنی جگہ صحیح ہیں ان میں کوئی تضاد نہیں اور مراد یہ ہے کہ ایمان یا قرآن یا اتباع حق وغیرہ ایسی چیزیں ہیں جن سے انسان کا دل زندہ ہوتا ہے اور دل کی زندگی یہ ہے کہ بندہ اور اللہ تعالیٰ کے درمیان جو غفلت و شہوت وغیرہ کے حجابات حائل ہیں وہ راہ سے ہٹ جائیں اور حجابات کی ظلمت دور ہو کر نور معرفت دل میں جگہ کرلے۔ - ترمذی اور نسائی نے بروایت حضرت ابوہریرہ نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک روز ابی بن کعب کو بلایا۔ ابی بن کعب نماز پڑھ رہے تھے جلدی جلدی نماز پوری کرکے حاضر ہوئے، آپ نے فرمایا کہ میرے پکارنے پر آنے میں دیر کیوں لگائی۔ ابی بن کعب نے عرض کیا کہ میں نماز میں تھا۔ آپ نے فرمایا کہ کیا تم نے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد نہیں سنا (آیت) اسْتَجِيْبُوْا لِلّٰهِ وَلِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ ۔ ابی بن کعب نے عرض کیا کہ آئندہ اس کی اطاعت کروں گا اگر بحالت نماز بھی آپ بلائیں گے فورا حاضر ہوجاؤں گا۔ - اس حدیث کی بنا پر بعض فقہاء نے فرمایا کہ حکم رسول کی اطاعت سے نماز میں جو کام بھی کریں اس سے نماز میں خلل نہیں ہوتا، اور بعض نے فرمایا کہ اگرچہ خلاف نماز افعال سے نماز قطع ہوجائے گی اور اس کی بعد میں قضا کرنا پڑے گی لیکن کرنا یہی چاہئے کہ جب رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی کو بلائیں اور وہ نماز میں بھی ہو تو نماز کو قطع کرکے تعمیل حکم کرے۔- یہ صورت تو صرف رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مخصوص ہے لیکن دوسرے ایسے کام جن میں تاخیر کرنے سے کسی شدید نقصان کا خطرہ ہو اس وقت بھی نماز قطع کردینا اور پھر قضا کرلینا چاہئے، جیسے کوئی نمازی یہ دیکھے کہ نابینا آدمی کنویں یا گڑھے کے قریب پہنچ کر گرا چاہتا ہے تو فورا نماز توڑ کر اس کو بچانا چاہئے۔- آخر آیت میں ارشاد فرمایا (آیت) وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰهَ يَحُوْلُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهٖ ، یعنی یہ بات سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ آڑ بن جایا کرتا ہے آدمی کے اور اس کے قلب کے درمیان۔ اس جملہ کے دو معنی ہوسکتے ہیں اور دونوں میں عظیم حکمت و موعظت پائی جاتی ہے جو ہر انسان کو ہر وقت یاد رکھنی چاہئے۔- ایک معنی تو یہ ہوسکتے ہیں کہ جب کسی نیک کام کے کرنے یا گناہ سے بچنے کا موقع آئے تو اس کو فورا کر گزرو۔ دیر نہ کرو اور اس فرصت وقت کو غنیمت سمجھو کیونکہ بعض اوقات آدمی کے ارادہ کے درمیان قضاء الہی حائل ہوجاتی ہے وہ اپنے ارادہ میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔ کوئی بیماری پیش آجائے یا موت آجائے یا کوئی ایسا مشغلہ پیش آجائے کہ اس کام کی فرصت نہ ملے۔ اس لئے انسان کو چاہئے کہ فرصت عمر اور فرصت وقت کو غنیمت سمجھ کر آج کا کام کل پر نہ ڈالے کیونکہ معلوم نہیں کل کیا ہونا ہے - من نمی گویم زیان کن یا بفکر سود باش ای زفرصت بیخبر در ہرچہ باشی زود باش - اور دوسرا مطلب اس جملہ کا یہ ہوسکتا ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ کا اپنے بندہ سے نہایت قریب ہونا بتلایا گیا جیسے دوسری آیت میں وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيْدِ ، میں اللہ تعالیٰ کا انسان کی رگ گردن سے بھی زیادہ قریب ہونے کا بیان ہے۔- مطلب یہ ہے کہ انسان کا قلب ہر وقت حق تعالیٰ کے خاص تصرف میں ہے جب وہ کسی بندے کی برائیوں سے حفاظت کرنا چاہتے ہیں تو اس کے قلب اور گناہوں کے درمیان آڑ کردیتے ہیں اور جب کسی کی بدبختی مقدر ہوتی ہے تو اس کے دل اور نیک کاموں کے درمیان آڑ کردی جاتی ہے اسی لئے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی دعاؤں میں اکثر یہ دعا کیا کرتے تھے یا مقلب القلوب ثبت قلبی علی دینک، یعنی اے دلوں کے پلٹنے والے میرے دل کو اپنے دین پر ثابت اور قائم رکھئے۔- حاصل اس کا بھی وہی ہے کہ اللہ اور رسول کے احکام کی تعمیل میں دیر نہ لگاؤ اور فرصت وقت کو غنیمت جان کر فورا کر گزرو معلوم نہیں کہ پھر دل میں نیکی کا یہ جذبہ اور امنگ باقی رہتی ہے یا نہیں۔
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِيْبُوْا لِلہِ وَلِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيْكُمْ ٠ ۚ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ يَحُوْلُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِہٖ وَاَنَّہٗٓ اِلَيْہِ تُحْشَــرُوْنَ ٢٤- استجاب - والاستجابة قيل : هي الإجابة، وحقیقتها هي التحري للجواب والتهيؤ له، لکن عبّر به عن الإجابة لقلة انفکاکها منها، قال تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ [ الأنفال 24]- ( ج و ب ) الجوب - الاستاأبتہ بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی اجابتہ ( افعال ) کے ہے اصل میں اس کے معنی جواب کے لئے تحری کرنے اور اس کے لئے تیار ہونے کے ہیں لیکن اسے اجابتہ سے تعبیر کرلیتے ہیں کیونکہ یہ دونوں ایک دوسرے سے الگ نہیں ہوتے ۔ قرآن میں ہے : اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ [ الأنفال 24] کہ خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو ۔ - إذا - إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له - ( اذ ا ) اذ ا - ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔- اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔- (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی)- (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ)- (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔- مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔- (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) - (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن)- (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی)- حيى- الحیاة تستعمل علی أوجه :- الأوّل : للقوّة النّامية الموجودة في النّبات والحیوان، ومنه قيل : نبات حَيٌّ ، قال عزّ وجلّ : اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید 17] ، - الثانية : للقوّة الحسّاسة، وبه سمّي الحیوان حيوانا،- قال عزّ وجلّ : وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر 22] ،- الثالثة : للقوّة العاملة العاقلة، کقوله تعالی:- أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] - والرابعة : عبارة عن ارتفاع الغمّ ،- وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] ، أي : هم متلذّذون، لما روي في الأخبار الکثيرة في أرواح الشّهداء - والخامسة : الحیاة الأخرويّة الأبديّة،- وذلک يتوصّل إليه بالحیاة التي هي العقل والعلم، قال اللہ تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال 24] - والسادسة : الحیاة التي يوصف بها الباري،- فإنه إذا قيل فيه تعالی: هو حيّ ، فمعناه : لا يصحّ عليه الموت، ولیس ذلک إلّا لله عزّ وجلّ.- ( ح ی ی ) الحیاۃ )- زندگی ، جینا یہ اصل میں - حیی ( س ) یحییٰ کا مصدر ہے ) کا استعمال مختلف وجوہ پر ہوتا ہے ۔- ( 1) قوت نامیہ جو حیوانات اور نباتات دونوں میں پائی جاتی ہے - ۔ اسی معنی کے لحاظ سے نوبت کو حیہ یعنی زندہ کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید 17] جان رکھو کہ خدا ہی زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ - ۔ ( 2 ) دوم حیاۃ کے معنی قوت احساس کے آتے ہیں - اور اسی قوت کی بناء پر حیوان کو حیوان کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر 22] اور زندے اور مردے برابر ہوسکتے ہیں ۔ - ( 3 ) قوت عاملہ کا عطا کرنا مراد ہوتا ہے - چنانچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔- ( 4 ) غم کا دور ہونا مراد ہوتا ہے - ۔ اس معنی میں شاعر نے کہا ہے ( خفیف ) جو شخص مرکر راحت کی نیند سوگیا وہ درحقیقت مردہ نہیں ہے حقیقتا مردے بنے ہوئے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھنا وہ مرے ہوئے نہیں ہیں بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہیں ۔ میں شہداء کو اسی معنی میں احیاء یعنی زندے کہا ہے کیونکہ وہ لذت و راحت میں ہیں جیسا کہ ارواح شہداء کے متعلق بہت سی احادیث مروی ہیں ۔ - ( 5 ) حیات سے آخرت کی دائمی زندگی مراد ہوتی ہے - ۔ جو کہ علم کی زندگی کے ذریعے حاصل ہوسکتی ہے : قرآن میں ہے : ۔ اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال 24] خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو جب کہ رسول خدا تمہیں ایسے کام کے لئے بلاتے ہیں جو تم کو زندگی ( جادواں ) بخشتا ہے۔- ( 6 ) وہ حیات جس سے صرف ذات باری تعالیٰ متصف ہوتی ہے - ۔ چناچہ جب اللہ تعالیٰ کی صفت میں حی کہا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ ذات اقدس ہوئی ہے جس کے متعلق موت کا تصور بھی نہیں ہوسکتا ۔ پھر دنیا اور آخرت کے لحاظ بھی زندگی دو قسم پر ہے یعنی حیات دنیا اور حیات آخرت چناچہ فرمایا : ۔ فَأَمَّا مَنْ طَغى وَآثَرَ الْحَياةَ الدُّنْيا [ النازعات 38] تو جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو مقدم سمجھنا ۔- حول - أصل الحَوْل تغيّر الشیء وانفصاله عن غيره، وباعتبار التّغيّر قيل : حَالَ الشیء يَحُولُ حُؤُولًا، واستحال : تهيّأ لأن يحول، وباعتبار الانفصال قيل : حَالَ بيني وبینک کذا، وقوله تعالی: وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ [ الأنفال 24] - ( ح ول ) الحوال - ( ن ) دراصل اس کے معنی کسی چیز کے متغیر ہونے اور دوسری چیزوں سے الگ ہونا کے ہیں ۔ معنی تغییر کے اعتبار سے حال الشئی یحول حوولا کا محاورہ استعمال ہوتا ہے جس کے معنی کی شے کے متغیر ہونیکے ہیں ۔ اور استحال کے معنی تغیر پذیر ہونے کے لئے مستعد ہونے کے اور معنی انفصال کے اعتبار سے حال بینی وبینک کذا کا محاورہ استعمال ہوتا ہے ۔ یعنی میرے اور اس کے درمیان فلاں چیز حائل ہوگئی ۔ اور آیت کریمہ :۔ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ [ الأنفال 24] اور جان رکھو کہ خدا آدمی اسکے دل کے درمیان حائل ہوجاتا ہے ۔- حشر - الحَشْرُ : إخراج الجماعة عن مقرّهم وإزعاجهم عنه إلى الحرب ونحوها، وروي :- «النّساء لا يُحْشَرن» أي : لا يخرجن إلى الغزو، ويقال ذلک في الإنسان وفي غيره، يقال :- حَشَرَتِ السنة مال بني فلان، أي : أزالته عنهم، ولا يقال الحشر إلا في الجماعة، قال اللہ تعالی: وَابْعَثْ فِي الْمَدائِنِ حاشِرِينَ [ الشعراء 36] وَحَشَرْناهُمْ فَلَمْ نُغادِرْ مِنْهُمْ أَحَداً [ الكهف 47] ، وسمي يوم القیامة يوم الحشر کما سمّي يوم البعث والنشر، ورجل حَشْرُ الأذنین، أي : في أذنيه انتشار وحدّة .- ( ح ش ر ) الحشر ( ن )- ( ح ش ر ) الحشر ( ن ) کے معنی لوگوں کو ان کے ٹھکانہ سے مجبور کرکے نکال کر لڑائی وغیرہ کی طرف لے جانے کے ہیں ۔ ایک روایت میں ہے (83) النساء لایحضرون کہ عورتوں کو جنگ کے لئے نہ نکلا جائے اور انسان اور غیر انسان سب کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ کہا جاتا ہے ۔ حشرت النسۃ مال بنی فلان یعنی قحط سالی نے مال کو ان سے زائل کردیا اور حشر کا لفظ صرف جماعت کے متعلق بولا جاتا ہے قرآن میں ہے : وَابْعَثْ فِي الْمَدائِنِ حاشِرِينَ [ الشعراء 36] اور شہروں میں ہر کار سے بھیج دیجئے ۔ اور قیامت کے دن کو یوم الحشر بھی کہا جاتا ہے جیسا ک اسے یوم البعث اور یوم النشور کے ناموں سے موسوم کیا گیا ہے لطیف اور باریک کانوں والا ۔
(٢٤) اے جماعت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کہنے کو بجا لایا کرو، جب کہ وہ تمہاری عزت و شرافت اور قتال سے زندگی بخش چیز کی طرف تمہیں بلایا کریں۔- اے مسلمانوں کی جماعت اللہ تعالیٰ مومن اور اس کے قلب کے درمیان محافظ بن جاتا ہے، اس طرح کہ قلب مومن کو ایمان کے اوپر محفوظ رکھتا ہے کہ اس سے کفر سرزد نہیں ہوتا، اور کافر کے دل کو کفر ہی پر قائم رکھتا ہے کہ اسے ایمان کی دولت نصیب ہی نہیں ہوتی اور بیشک روز قیامت تم سب کو اللہ ہی کے پاس جمع ہونا ہے وہ تمہارے اعمال کا تمہیں بدلہ دے گا۔
آیت ٢٤ (یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰہِ وَلِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاکُمْ لِمَا یُحْیِیْکُمْ ج) ۔- تم جنگ کے لیے جاتے ہوئے سمجھ رہے ہو کہ یہ موت کا گھاٹ ہے ‘ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جہاد فی سبیل اللہ تو اصل اور ابدی زندگی کا دروازہ ہے۔ جیسا کہ سورة البقرۃ میں شہداء کے بارے میں فرمایا گیا : (وَلاَ تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتٌط بَلْ اَحْیَآءٌ وَّلٰکِنْ لاَّ تَشْعُرُوْنَ ) ۔ چناچہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جس چیز کی طرف تمہیں بلا رہے ہیں ‘ حقیقی زندگی وہی ہے۔ اس کے مقابلے میں اس دعوت سے اعراض کر کے زندگی بسر کرنا گویا حیوانوں کی سی زندگی ہے ‘ جس کے بارے میں ہم سورة الاعراف میں پڑھ چکے ہیں : (اُولٰٓءِکَ کَالْاَنْعَامِ بَلْ ہُمْ اَضَلُّ ط) (الاعراف : ١٧٩) ۔- (وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ یَحُوْلُ بَیْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِہٖ ) اور جان رکھو کہ اللہ بندے اور اس کے دل کے درمیان حائل ہوجایا کرتا ہے - یعنی اگر اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی پکار سنی اَن سنی کردی جائے اور ان کے احکامات سے بےنیازی کو وطیرہ بنا لیا جائے تو اللہ تعالیٰ خود ایسے بندے اور ہدایت کے درمیان آڑ بن جاتا ہے ‘ جس سے آئندہ وہ ہدایت کی ہر بات سننے اور سمجھنے سے معذور ہوجاتا ہے۔ اسی مضمون کو سورة البقرۃ کی آیت ٧ میں اس طرح بیان کیا گیا ہے : (خَتَمَ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوْبِہِمْ وَعَلٰی سَمْعِہِمْ ط) کہ ان کے دلوں اور ان کی سماعت پر اللہ نے مہر کردی ہے۔ جبکہ سورة الانعام کی آیت ١١٠ میں اس اصول کو سخت ترین الفاظ میں اس طرح واضح کیا گیا ہے : (وَنُقَلِّبُ اَفْءِدَتَہُمْ وَاَبْصَارَہُمْ کَمَا لَمْ یُؤْمِنُوْا بِہٖٓ اَوَّلَ مَرَّۃٍ ) یعنی حق کے پوری طرح واضح ہو کر سامنے آجانے پر بھی جو لوگ فوری طور پر اسے مانتے نہیں اور اس سے پہلوتہی کرتے ہیں تو ایسے لوگوں کے دل الٹ دیے جاتے ہیں اور ان کی بصارت پلٹ دی جاتی ہے۔ چناچہ یہ بہت حساس اور خوف کھانے والا معاملہ ہے۔ دین کا کوئی مطالبہ کسی کے سامنے آئے ‘ اللہ کا کوئی حکم اس تک پہنچ جائے اور اس کا دل اس پر گواہی بھی دے دے کہ ہاں یہ بات درست ہے ‘ پھر اگر وہ اس سے اعراض کرے گا ‘ کنی کترائے گا ‘ تو اس کی سزا اسے اس دنیا میں یوں بھی مل سکتی ہے کہ حق کو پہچاننے کی صلاحیت ہی اس سے سلب کرلی جاتی ہے ‘ دل اور سماعت پر مہر لگ جاتی ہے ‘ آنکھوں پر پردے پڑجاتے ہیں ‘ ہدایت اور اس کے درمیان آڑ کردی جاتی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی سنت اور اس کا اٹل قانون ہے۔
سورة الْاَنْفَال حاشیہ نمبر :19 نفاق کی روش سے انسان کو بچانے کے لیے اگر کوئی سب سے زیادہ موثر تدبیر ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ وہ عقیدے انسان کے ذہن نشین ہوجائیں ۔ ایک یہ کہ معاملہ اس خدا کے ساتھ ہے جو دلوں کے حال تک جانتا ہے اور ایسا رازدان ہے کہ آدمی اپنے دل میں جو نیتیں ، جو خواہشیں ، جو اغراض و مقاصد اور جو خیالات چھپا کر رکھتا ہے وہ بھی اس پر عیاں ہیں ۔ دوسرے یہ کہ جانا بہرحال خدا کے سامنے ہے ۔ اس سے بچ کر کہیں بھاگ نہیں سکتے ۔ یہ وہ عقیدے ہیں کہ جتنے زیادہ پختہ ہوں گے اتنا ہی انسان نفاق سے دور رہے گا ۔ اسی لیے منافقت کے خلاف وعظ و نصیحت کے سلسلہ میں قرآن ان دو عقیدوں کا ذکر بار بار کرتا ہے ۔
13: اس مختصر جملے میں بڑی عظیم حقیقت بیان فرمائی گئی ہے۔ اول تو اسلام کی دعوت اور اس کے احکام ایسے ہیں کہ اگر ان پر تمام اِنسان پوری طرح عمل کرنے لگیں تواسی دُنیا میں وہ پر سکون زندگی کی ضمانت دیتے ہیں۔ عبادات کے علاوہ جو روحانی سکون کا بہترین ذریعہ ہیں، اسلام کے تمام معاشرتی، معاشی اور سیاسی احکام دُنیا کو نہایت خوشگوار زندگی فراہم کرسکتے ہیں، دوسری طرف زندگی تو اصل میں آخرت کی ابدی زندگی ہے، اور اس کی خوشگواری تمام تر اسلامی احکام کی پیروی پر موقوف ہے۔ لہٰذا اگر کسی کو اسلام کا کوئی حکم مشکل بھی محسوس ہو تو اسے یہ سوچنا چاہئے کہ میری خوشگوار زندگی کا دارومدار اس پر ہے، جس طرح اِنسان زندگی کے خاطر بڑے سے بڑے اور مشکل آپریشن کو منظور کرلیتا ہے، اسی طری شریعت کا ہر وہ حکم جس میں محنت یا مشقت معلوم ہوتی ہو، یا نفسانی خواہشات کی قربانی دینی پڑتی ہو، اس کو بھی خندہ پیشانی سے منظور کرنا چاہئے، کیونکہ اس کی حقیقی زندگی کا دارومدار اس پر ہے۔ 14: اس کا مطلب یہ ہے کہ جس شخص کے دل میں حق کی طلب ہوتی ہے، اگر اس کے دل میں کبھی گناہ کا تقاضا پیدا ہو، اور وہ طالب حق کی طرح اﷲ تعالیٰ سے رجوع کرکے اس سے مدد مانگے تو اﷲ تعالیٰ اس کے اور گناہ کے درمیان آڑ بن جاتے ہیں، اور وہ گناہ کے ارتکاب سے محفوظ رہتا ہے، اور اگر کبھی غلطی ہو بھی جائے تو اسے توبہ کی توفیق ہوجاتی ہے۔ اسی طرح اگر کسی کے دل میں حق کی طلب نہ ہو، اور وہ اﷲ تعالیٰ کی طرف رجوع نہ کرتا ہو تو اگر کبھی اس کے دل میں نیک خیال آبھی جائے اور وہ اسے ٹلا تا چلا جائے تو اسے نیکی کی توفیق نہیں ملتی، کچھ نہ کچھ اسباب ایسے پیدا ہوجاتے ہیں کہ اس کے دل میں جو خیال آیا تھا، وہ کمزور پڑجاتا ہے، اس پر عمل کا موقع نہیں ملتا۔ اسی لئے بزرگوں نے فرمایا ہے کہ جس کسی نیکی کا خیال آئے تو اسے فوراً کر گذرنا چاہئے، ٹلانا خطرناک ہے۔