برائیوں سے نہ روکنا عذاب الٰہی کا سبب ہے ۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ڈرا رہا ہے کہ اس امتحان اور اس محنت اور فتنے کا خوف رکھو جو گنہگاروں بدکاروں پر ہی نہیں رہے گا بلکہ اس بلاء کی وبا عام ہوگی ۔ حضرت زبیر سے لوگوں نے کہا کہ اے ابو عبداللہ تمہیں کونسی چیز لائی ہے؟ تم نے مقتول خلیفہ کو دھوکہ دیا پھر اس کے خون کے بدلے کی جستجو میں تم آئے اس پر حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہم کے زمانے میں اس آیت ( واتقوا الخ ) ، کو پڑھتے تھے لیکن یہ خیال بھی نہ تھا کہ ہم ہی اس کے اہل ہیں یہاں تک کہ یہ واقعات رونما ہوئے اور روایت میں ہے کہ عہد نبوی میں ہی ہم اس آیت سے ڈرا دئے گئے تھے لیکن یہ خیال بھی نہ تھا کہ ہم ہی اس کے ساتھ مخصوص کر دیئے گئے ہیں ۔ سدی کہتے ہیں یہ آیت خاصتاً اہل بدر کے بارے میں اتری ہے کہ وہ جنگ جمل میں آپس میں خوب لڑے بھڑے ۔ ابن عباس فرماتے ہیں مراد اس سے خاص اصحاب رسول ہیں ۔ فرماتے ہیں اس آیت میں اللہ تعالیٰ مومنوں کو حکم فرما رہا کہ وہ آپس میں کسی خلاف شرع کام کو باقی اور جاری نہ رہنے دیں ۔ ورنہ اللہ کے عام عذاب میں سب پکڑ لئے جائیں گے ۔ یہ تفسیر نہایت عمدہ ہے مجاہد کہتے ہیں یہ حکم تمہارے لئے بھی ہے ۔ ابن مسعود فرماتے ہیں تم میں سے ہر شخص فتنے میں مشغول ہے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ تمہارے مال اور تمہاری اولادیں فتنہ ہیں پس تم میں سے جو بھی پناہ مانگے وہ اللہ تعالیٰ سے مانگے ہر گمراہ کن فتنے سے پناہ طلب کر لیا کرے ۔ صحیح بات یہی ہے کہ اس فرمان میں صحابہ اور غری صحابہ سب کو تنبیہ ہے گو خطاب انہی سے ہے اسی پر دلالت ان احادیث کی ہے جو فتنے سے ڈرانے کیلئے ہیں گو ان کے بیان میں ائمہ کرام کی مستقل تصانیف ہیں لیکن بعض مخصوص حدیثیں ہم یہاں بھی وارد کرتے ہیں اللہ ہماری مدد فرمائے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں خاص لوگوں کے گناہوں کی وجہ سے عام لوگوں کو اللہ عزوجل عذاب نہیں کرتا ہاں اگر وہ کوئی برائی دیکھیں اور اس کے مٹانے پر قادر ہوں پھر بھی اس خلاف شرع کام کو نہ روکیں تو اللہ تعالیٰ سب کو عذاب کرتا ہے ( مسند احمد ) اس کی اسناد میں ایک راوی مبہم ہے ۔ اور حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ یا تو تم اچھی باتوں کا حکم اور بری باتوں سے منع کرتے رہو گے یا اللہ تعالیٰ تم پر اپنے پاس سے کوئی عام عذاب نازل فرمائے گا ۔ ( مسند احمد ) حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فرمان ہے کہ ایک آدمی ایک بات زبان سے نکالتا تھا اور منافق ہو جاتا تھا لیکن اب تو تم ایک ہی مجلس میں نہایت بےپرواہی سے چار چار دفعہ ایسے کلمات اپنی زبان سے نکال دیا کرتے ہو واللہ یا تو تم نیک باتوں کا حکم بری باتوں سے روکو اور نیکیوں کی رغبت دلاؤ ورنہ اللہ تعالیٰ تم سب کو تہس نہس کر دے گا یا تم پر برے لوگوں کو مسلط کر دے گا پھر نیک لوگ دعائیں کریں گے لیکن وہ قبول نہ فرمائے گا ( مسند ) حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے خطبے میں اپنے کانوں کی طرف اپنی انگلیوں سے اشارہ کر کے فرمایا اللہ کی حدوں پر قائم رہنے والے ، ان میں واقع ہونے والے اور ان کے بارے میں سستی کرنے والوں کی مثال ان لوگوں کی سی ہے جو ایک کشتی میں سوار ہوئے کوئی نیچے تھا کوئی اوپر تھا ۔ نیچے والے پانی لینے کے لئے اوپر آتے تھے اوپر والوں کو تکلیف ہوتی تھی آخر انہوں نے کہا آؤ یہیں سے نیچے سے ہی کشتی کا ایک تختہ توڑ لیں حسب ضرورت پانی یہیں سے لے لیا کریں گے تاکہ نہ اوپر جانا پڑے نہ انہیں تکلیف پہنچے پس اگر اوپر والے ان کے کام اپنے ذمہ لے لیں اور انہیں کشی کے نیچے کا تختہ اکھاڑ نے سے روک دیں تو وہ بھی بچیں اور یہ بھی ورنہ وہ بھی ڈوبیں گے اور یہ بھی ( بخاری ) ایک اور حدیث میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جب میری امت میں گناہ ظاہر ہوں گے تو اللہ تعالیٰ اپنے عام عذاب آب پر بھیجے گا ۔ حضرت ام سلمہ نے دریافت کیا یا رسول اللہ ان میں تو نیک لوگ بھی ہوں گے آپ نے فرمایا کیوں نہیں؟ پوچھا پھر وہ لوگ کیا کریں گے؟ آپ نے فرمایا انہیں بھی وہی پہنچے گا جو اوروں کو پہنچا اور پھر انہیں اللہ کی مغفرت اور رضامندی ملے گی ( مسند احمد ) ایک اور حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جو لوگ برے کام کرنے لگیں اور ان میں کوئی ذی عزت ذی اثر شخص ہو اور وہ منع نہ کرے روکے نہیں تو ان سب کو اللہ کا عذاب ہوگا سزا میں سب شامل رہیں گے ( مسند و ابو داؤد وغیرہ ) اور روایت میں ہے کہ کرنے والے تھوڑے ہوں نہ کرنے والے زیادہ اور ذی اثر ہوں پھر بھی وہ اس بڑائی کو نہ روکیں تو اللہ ان سب کو اجتماعی سزا دے گا ۔ مسند کی اور روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا جب زمین والوں میں بدی ظاہر ہو جائے تو اللہ تعالیٰ ان پر اپنا عذاب اتارتا ہے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا کہ ان ہی میں اللہ کے اطاعت گذار بندے بھی ہوں گے آپ نے فرمایا عذاب عام ہوگا پھر وہ اللہ کی رحمت کی طرف لوٹ جائیں گے ۔
25۔ 1 اس سے مراد یا تو بندوں کا ایک دوسرے پر تسلط ہے جو بلا تخصیص، عام و خاص پر ظلم کرتے ہیں، یا وہ عام عذاب ہیں جو کثرت بارش یا سیلاب وغیرہ اراضی و سماوی آفات کی صورت میں آتے ہیں اور نیک اور بد سب ہی ان سے متاثر ہوتے ہیں۔ یا بعض احادیث میں امر بالمعروف و نہی ترک کی وجہ سے عذاب کی جو وعید بیان کی گئی ہے، مراد ہے۔
[٢٥] برائی کو روکنا ہر ایک پر واجب ہے :۔ اس آیت میں اجتماعی زندگی کے فتنہ سے بچاؤ اور نھی عن المنکر کے فریضہ کی اہمیت بیان کی گئی ہے۔ فرض کیجئے کہ کسی معاشرہ میں اللہ کے رسول کی نافرمانی یا کوئی برائی پیدا ہوتی ہے اور لوگ اس کا بروقت نوٹس نہیں لیتے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ برائی معاشرہ میں پھیل جاتی ہے تو اس برائی کی پاداش میں اللہ کی طرف سے جو عذاب آئے گا وہ سب لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ یہ ممکن نہ رہے گا کہ جو لوگ یہ برائی کا کام نہیں کرتے تھے وہ بچ جائیں۔ کیونکہ ان لوگوں کا جرم یہ ہوتا ہے کہ جب وہ برائی پیدا ہوئی یا بڑھنے لگی تھی تو اس وقت انہوں نے اسے روکنے میں غفلت کیوں کی تھی، اگر وہ روکتے تو سب لوگ عذاب سے بچ سکتے تھے۔
وَاتَّقُوْا فِتْنَةً لَّا تُصِيْبَنَّ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا : ” فِتْنَةً “ میں تنوین تعظیم کے لیے ہے، اس لیے ” عظیم فتنہ “ ترجمہ کیا گیا ہے۔ متعدد احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ جب کسی قوم میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکا فریضہ سرانجام نہ دیا جائے تو اللہ تعالیٰ اس پر ہمہ گیر عذاب بھیج دیتا ہے۔ (ابن کثیر) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم ضرور نیکی کا حکم دو گے اور برائی سے منع کرو گے، یا پھر اللہ تعالیٰ تم پر اپنا عذاب بھیج دے گا، پھر تم اس سے دعا کرو گے مگر وہ تمہاری دعا قبول نہیں کرے گا۔ “ [ أحمد : ٥؍ ٣٨٨، ٣٨٩، ح : ٢٣٣٠١، عن حذیفۃ بن یمان (رض) وحسنہ شعیب أرنؤوط ] اصحاب سبت یعنی ہفتے کے دن مچھلیاں پکڑنے والوں کا قصہ اس کی ایک مثال ہے۔ دیکھیے سورة اعراف (١٦٤ تا ١٦٧) ۔- وَاَنَّهٗٓ اِلَيْهِ تُحْشَرُوْنَ : مطلب یہ ہے کہ حکم کی بجا آوری میں کاہلی کرنے سے ایک تو دل ہٹتا ہے، دم بدم مشکل میں پڑتا ہے، دوسرے نیک لوگوں کے عمل میں سستی اختیار کرنے سے گنہگار بالکل ہی عمل چھوڑ بیٹھیں گے، تو رسم بد پھیلے گی، اس کا وبال سب پر پڑے گا۔
خلاصہ تفسیر - اور ( جس طرح تم پر اپنی اصلاح کے متعلق اطاعت واجب ہے اسی طرح یہ بھی اطاعت واجبہ میں داخل ہے کہ بقدر وسع دوسروں کی اصلاح میں بطریق امر بالمعروف و نہی عن المنکر بالید یا باللسان ترک اختلاط یا نفرت بالقلب جو کہ آخری درجہ ہے کوشش کرو ورنہ درصورت مداہنت ان منکرات کا وبال جیسا مرتکبین منکرات پر واقع ہوگا ایسا ہی کسی درجہ میں ان مداہنت کرنے والوں پر بھی واقع ہوگا جب یہ بات ہے تو) تم ایسے وبال سے بچو کہ جو خاص ان ہی لوگوں پر واقع نہ ہوگا جو تم میں ان گناہوں میں مرتکب ہوئے ہیں ( بلکہ ان گناہوں کو دیکھ کر جنہوں نے مداہنت کی ہے وہ بھی اس میں شریک ہوں گے اور اس سے بچنا یہی ہے کہ مداہنت مت کرو) اور یہ جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ سخت سزا دینے والے ہیں ( ان کی سزا سے خوف کرکے مداہنت سے بچو) اور ( اس غرض سے کہ نعمتوں کے یاد کرنے سے اطاعت منعم کا شوق ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو اور خاص کر) اس حالت کو یاد کرو جب کہ تم ( ایک وقت میں یعنی قبل ہجرت عدد میں بھی) قلیل تھے ( اور قوت کے اعتبار سے بھی) سرزمین ( مکہ) میں کمزور شمار کئے جاتے تھے ( اور غایت ضعف حالت میں) اللہ تعالیٰ نے تم کو ( مدینہ میں اطمینان سے) رہنے کو جگہ دی اور تم کو اپنی نصرت سے قوت دی ( سامان سے بھی اور مردم شماری کو زیادہ کرنے سے بھی جس سے قلت اور استضعاف اور خوف اختطاف سب زائل ہوگیا) اور ( صرف یہی نہیں کہ تمہاری مصیبت ہی کو دور کردیا ہو بلکہ اعلی درجہ کی خوشحالی بھی عطا فرمائی کہ دشمنوں پر تم کو غلبہ دے کر کثرت فتوحات سے) تم کو نفیس نفیس چیزیں عطا فرمائیں تاکہ تم ( ان نعمتوں کا) شکر کرو ( اور بڑا شکر یہ ہے کہ اطاعت کرو) اے ایمان والوں ( ہم مخالفت اور معصیت سے اس لئے ممانعت کرتے ہیں کہ اللہ اور رسول کے تم پر کچھ حقوق ہیں جن کا نفع تمہاری ہی طرف عائد ہوتا ہے اور معصیت سے ان حقوق میں خلل پڑتا ہے جس سے واقع میں تمہارے ہی نفع میں خلل پڑتا ہے جب یہ بات ہے تو) تم اللہ اور رسول کے حقوق میں خلل مت ڈالو اور ( باعتبار انجام کے اس مضمون کو اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ تم) اپنی قابل حفاظت چیزوں میں (کہ وہ تمہارے منافع ہیں جو اعمال پر مرتب ہوتے ہیں) خلل مت ڈالو اور تم تو ( اس کا مضر ہونا) جانتے ہو اور ( اکثر اوقات مال و اولاد کی محبت مخل اطاعت ہوجاتی ہے اس لئے تم کو آگاہ کیا جاتا ہے کہ) تم اس بات کو جان رکھو کہ تمہارے اموال اور تمہاری اولاد ایک امتحان کی چیز ہے ( کہ دیکھیں کون ان کی محبت کو ترجیح دیتا ہے اور کون اللہ تعالیٰ کی محبت کو ترجیح دیتا ہے سو تم اس کی محبت کو ترجیح مت دینا) اور ( اگر ان کے منافع کی طرف نظر جائے تو تم) اس بات کو بھی جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ کے پاس ( ان لوگوں کے لئے جو اللہ کی محبت کو ترجیح دیتے ہیں) بڑا بھاری اجر ( موجود) ہے ( کہ اس کے سامنے یہ فانی منفعتیں محض ہیچ ہیں) ۔- معارف ومسائل - قرآن کریم نے غزوہ بدر کی کچھ تفصیلات اور اس میں مسلمانوں پر اپنے انعامات کا ذکر فرمانے کے بعد اس سے حاصل شدہ نتائج اور پھر اس کے مناسب مسلمانوں کو کچھ پند و نصیحت کے ارشادات بیان فرمائے ہیں جن کا سلسلہ (آیت) يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِيْبُوْا لِلّٰهِ وَلِلرَّسُوْلِ سے شروع ہوا ہے۔ اسی سلسلہ کی یہ آیات ہیں جو اوپر لکھی گئی ہیں۔- ان میں سے پہلی آیت میں ایسے گناہ سے بچنے کی خاص طور پر ہدایت کی گئی ہے جس کا عذاب شدید صرف گناہ کرنے والوں پر محدود نہیں رہتا بلکہ ناکردہ گناہ لوگ بھی اس میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔- وہ گناہ کو نسا ہے اس میں علماء تفسیر کے متعدد اقوال ہیں۔ بعض حضرات نے فرمایا کہ یہ گناہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر یعنی لوگوں کو نیک کاموں کی ہدایت اور برے کاموں سے روکنے کی جد و جہد کا ترک کردینا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اس کا حکم دیا ہے کہ کسی جرم و گناہ کو اپنے ماحول میں قائم نہ رہنے دیں کیونکہ اگر انہوں نے ایسا نہ کیا یعنی جرم و گناہ دیکھتے ہوئے باوجود قدرت کے اس کو منع نہ کیا تو اللہ تعالیٰ ان سب پر اپنا عذاب عام کردیں گے جس سے نہ گناہگار بچیں گے نہ بےگناہ۔- اور بےگناہ سے مراد یہاں وہ لوگ ہیں جو اصل گناہ میں ان کے ساتھ شریک نہیں مگر امر بالمعروف کے ترک کردینے کے گناہگار وہ بھی ہیں اس لئے یہاں یہ شبہ نہیں ہونا چاہئے کہ ایک کے گناہ کا عذاب دوسرے پر ڈالنا بےانصافی اور قرآنی فیصلہ (آیت) اَلَّا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى کے خلاف ہے۔ کیونکہ یہاں گناہگار اپنے اصل گناہ کے وبال میں اور بےگناہ ترک امر بالمعروف کے گناہ میں پکڑے گئے کسی کا گناہ دوسرے پر نہیں ڈالا گیا۔ - امام بغوی نے شرح السنہ اور معالم میں بروایت حضرت عبداللہ بن مسعود و صدیقہ عائشہ (رض) یہ روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ کسی خاص جماعت کے گناہ کا عذاب عام لوگوں پر نہیں ڈالتے جب تک کہ ایسی صورت پیدا نہ ہوجائے کہ وہ اپنے ماحول میں گناہ ہوتا ہوا دیکھیں اور ان کو یہ قدرت بھی ہو کہ اس کو روک سکیں اس کے باوجود انہوں نے اس کو روکا نہیں تو اس وقت اللہ تعالیٰ کا عذاب ان سب کو گھیر لیتا ہے۔ - اور ترمذی ابوداؤد وغیرہ میں صحیح سند کے ساتھ منقول ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے اپنے ایک خطبہ میں فرمایا کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا کہ آپ نے فرمایا کہ جب لوگ کسی ظالم کو دیکھیں اور ظلم سے اس کا ہاتھ نہ روکیں تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سب پر اپنا عذاب عام کردیں۔ - صحیح بخاری میں حضرت نعمان بن بشیر (رض) کی روایت سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو لوگ اللہ تعالیٰ کی قانونی حدود توڑنے والے گناہگار ہیں اور جو لوگ ان کو دیکھ کر مدہنت کرنے والے ہیں، یعنی باوجود قدرت کے ان کو گناہ سے نہیں روکتے ان دونوں طبقوں کی مشال ایسی ہے جیسے کسی بحری جہاز کے دو طبقے ہوں اور نیچے کے طبقہ والے اوپر آکر اپنی ضرورت کے لئے پانی لیتے ہوں جس سے اوپر والے تکلیف محسوس کریں نیچے والے یہ دیکھ کر یہ صورت اختیار کریں کہ کشتی کے نچلے حصہ میں سوراخ کرکے اس سے اپنے لئے پانی حاصل کریں اور اوپر کے لوگ ان کی اس حرکت کو دیکھیں اور منع نہ کریں تو ظاہر ہے کہ پانی پوری کشتی میں بھر جائے گا اور جب نیچے والے غرق ہوں گے تو اوپر والے بھی ڈوبنے سے نہ بچیں گے۔- ان روایات کی بنا پر بہت سے حضرات مفسرین نے یہ قرار دیا کہ اس آیت میں فتنہ سے مراد یہی گناہ یعنی امر بالمعرف اور نہی عن المنکر کا ترک کردینا ہے۔- اور تفسیر مظہری میں ہے کہ اس گناہ سے مراد ترک جہاد کا گناہ ہے خصوصا اس وقت جبکہ امیر المومنین کی طرف سے جہاد کی دعوت عام مسلمانوں کو دے دی جائے اور سلامی شعائر کی حفاظت اس پر موقوف ہو کیونکہ اس وقت ترک جہاد کا وبال صرف تارکین جہاد پر نہیں بلکہ پورے مسلمانوں پر پڑتا ہے۔ کفار کے غلبہ کے سبب عورتیں بچے بوڑھے اور بہت سے بےگناہ مسلمان قتل و غارت کا شکار ہوجاتے ہیں، ان کے جان و مال خطرہ میں پڑجاتے ہیں۔ اس صورت میں عذاب سے مراد دنیوی مصائب اور تکلیفیں ہوں گی۔ - اور قرینہ اس تفسیر کا یہ ہے کہ پچلھی آیات میں بھی ترک جہاد کرنے والوں پر ملامت کی گئی ہے (آیت) وَاِنَّ فَرِيْقًا مِّنَ الْمُؤ ْمِنِيْنَ لَكٰرِهُوْنَ ۔ اور (آیت) يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا لَقِيْتُمُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا زَحْفًا فَلَا تُوَلُّوْهُمُ الْاَدْبَارَ ۔ وغیرہ آیات سابقہ اسی بیان میں آئی ہیں۔ - اور غزوہ احد میں جبکہ چند مسلمانوں کو لغزش ہوئی کہ گھاٹی کی حفاظت چھوڑ کر نیچے آگئے تو اس کی مصیبت صرف غلطی کرنے والوں پر نہیں بلکہ پورے مسلم لشکر پر پڑی یہاں تک کہ خود رسالت مآب (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس معرکہ میں زخم آیا۔
وَاتَّقُوْا فِتْنَۃً لَّا تُصِيْبَنَّ الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا مِنْكُمْ خَاۗصَّۃً ٠ ۚ وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللہَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ ٢٥- وقی - الوِقَايَةُ : حفظُ الشیءِ ممّا يؤذيه ويضرّه . يقال : وَقَيْتُ الشیءَ أَقِيهِ وِقَايَةً ووِقَاءً. قال تعالی: فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان 11] - ( و ق ی ) وقی ( ض )- وقایتہ ووقاء کے معنی کسی چیز کو مضر اور نقصان پہنچانے والی چیزوں سے بچانا کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان 11] تو خدا ان کو بچا لیگا ۔ - - فتن - أصل الفَتْنِ : إدخال الذّهب النار لتظهر جو دته من رداء ته، واستعمل في إدخال الإنسان النار . قال تعالی: يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات 13] - ( ف ت ن ) الفتن - دراصل فتن کے معنی سونے کو آگ میں گلانے کے ہیں تاکہ اس کا کھرا کھوٹا ہونا ہوجائے اس لحاظ سے کسی انسان کو آگ میں ڈالنے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات 13] جب ان کو آگ میں عذاب دیا جائے گا ۔ - ( صاب) مُصِيبَةُ- والمُصِيبَةُ أصلها في الرّمية، ثم اختصّت بالنّائبة نحو : أَوَلَمَّا أَصابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَيْها[ آل عمران 165] ، فَكَيْفَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌالنساء 62] ، وَما أَصابَكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران 166] ، وَما أَصابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِما كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ [ الشوری 30] ، وأصاب : جاء في الخیر والشّرّ. - مصیبۃ اصل میں تو اس تیر کو کہتے ہیں جو ٹھیک نشانہ پر جا کر بیٹھ جائے اس کے بعد عرف میں ہر حادثہ اور واقعہ کے ساتھ یہ لفظ مخصوص ہوگیا ہے قرآن پاک میں ہے : ۔ أَوَلَمَّا أَصابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَيْها[ آل عمران 165]( بھلا یہ ) کیا بات ہے کہ ) جب ( احد کے دن کفار کے ہاتھ سے ) تم پر مصیبت واقع ہوئی حالانکہ ( جنگ بدر میں ) اس سے دو چند مصیبت تمہارے ہاتھ سے انہیں پہنچ چکی تھی ۔ فَكَيْفَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ [ النساء 62] تو کیسی ( ندامت کی بات ہے کہ جب ان پر کوئی مصیبت واقع ہوتی ہے ۔ وَما أَصابَكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعانِ [ آل عمران 166] اور جو مصیبت تم پر دونوں جماعتوں کے مابین مقابلہ کے دن واقع ہوئی ۔ وَما أَصابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِما كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ [ الشوری 30] اور جو مصیبت تم پر واقع ہوتی ہے سو تمہارے اپنے اعمال سے ۔ اور اصاب ( افعال ) کا لفظ خیرو شر دونوں کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ - ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی سب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں - خص - التّخصیص والاختصاص والخصوصيّة والتّخصّص : تفرّد بعض الشیء بما لا يشارکه فيه الجملة، وذلک خلاف العموم، والتّعمّم، والتّعمیم، وخُصَّان الرّجل : من يختصّه بضرب من الکرامة، والْخاصَّةُ : ضدّ العامّة، قال تعالی: وَاتَّقُوا فِتْنَةً لا تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْكُمْ خَاصَّةً [ الأنفال 25] ، أي : بل تعمّكم، وقد خَصَّهُ بکذا يخصّه، واختصّه يختصّه، قال : يَخْتَصُّ بِرَحْمَتِهِ مَنْ يَشاءُ [ آل عمران 74] ، وخُصَاصُ البیت : فرجة، وعبّر عن الفقر الذي لم يسدّ بالخصاصة، كما عبّر عنه بالخلّة، قال : وَيُؤْثِرُونَ عَلى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كانَ بِهِمْ خَصاصَةٌ- [ الحشر 9] ، وإن شئت قلت من الخصاص، والخُصُّ : بيت من قصب أو شجر، وذلک لما يرى فيه من الخصاصة .- ( خ ص ص ) التخصیص والاختصاص والخصومیۃ والتخصیص کسی چیز کے بعض افرادکو دوسروں سے الگ کرکے ان کے ساتھ خصوصی برتاؤ کرنا یہ ۔ المعمو والتعمم والتعمیم کی ضد ہے ۔ خصان الرجل ۔ جن پر خصوصی نوازش کرتا ہو۔ الخاصۃ ۔ یہ عامۃ کی ضد ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَاتَّقُوا فِتْنَةً لا تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْكُمْ خَاصَّةً [ الأنفال 25] اور اس فتنے سے ڈر و وجو خصوصیت کے ساتھ انہیں لوگوں پر واقع نہ ہوگا جو تم میں گنہگار ہیں یعنی ) بلکہ سب پر واقع ہوگا ۔ خصہ بکذا واختصہ ۔ کسی کو کسی چیز کے ساتھ مختص کرنا ۔ قرآن میں ہے :۔ يَخْتَصُّ بِرَحْمَتِهِ مَنْ يَشاءُ [ آل عمران 74] جس کو چاہتا ہے اپنی رحمت سے خاص کرلیتا ہے ۔ خصاص البیت مکان میں شگاف کو کہتے ہیں ۔ اسی سے خصاصۃ اس فقر اور احتیاج کو کہتے ہیں جو ختم نہ ہوئی ہو ۔ اس قسم کے فقر کو خلۃ کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَيُؤْثِرُونَ عَلى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كانَ بِهِمْ خَصاصَةٌ [ الحشر 9] اور ان کو اپنی جانوں سے مقدم رکھتے ہیں خواہ ان کو خود احتیاج ہی ہو ۔ لہذا آپ اسے خصاص سے ماخوذ قرار دے سکتے ہیں ۔ الخص ۔ بانس یا لکڑی کا جھونپڑ اور اسے خص اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس میں جھرکے نظر آتے ہیں ۔- شدید - والشِّدَّةُ تستعمل في العقد، وفي البدن، وفي قوی النّفس، وفي العذاب، قال : وَكانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً [ فاطر 44] ، عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوى[ النجم 5] ، يعني : جبریل عليه السلام، - ( ش دد ) الشد - اور شدۃ کا لفظ عہد ، بدن قوائے نفس اور عذاب سب کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَكانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً [ فاطر 44] وہ ان سے قوت میں بہت زیادہ تھے ۔ عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوى[ النجم 5] ان کو نہایت قوت والے نے سکھایا ؛نہایت قوت والے سے حضرت جبریل (علیہ السلام) مراد ہیں - عُقُوبَةُ والمعاقبة والعِقَاب - والعُقُوبَةُ والمعاقبة والعِقَاب يختصّ بالعذاب، قال : فَحَقَّ عِقابِ [ ص 14] ، شَدِيدُ الْعِقابِ [ الحشر 4] ، وَإِنْ عاقَبْتُمْ فَعاقِبُوا بِمِثْلِ ما عُوقِبْتُمْ بِهِ [ النحل 126] ، وَمَنْ عاقَبَ بِمِثْلِ ما عُوقِبَ بِهِ [ الحج 60] .- اور عقاب عقوبتہ اور معاقبتہ عذاب کے ساتھ مخصوص ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ فَحَقَّ عِقابِ [ ص 14] تو میرا عذاب ان پر واقع ہوا ۔ شَدِيدُ الْعِقابِ [ الحشر 4] سخت عذاب کر نیوالا ۔ وَإِنْ عاقَبْتُمْ فَعاقِبُوا بِمِثْلِ ما عُوقِبْتُمْ بِهِ [ النحل 126] اگر تم ان کو تکلیف دینی چاہو تو اتنی ہی دو جتنی تکلیف تم کو ان سے پہنچی ہے ۔ وَمَنْ عاقَبَ بِمِثْلِ ما عُوقِبَ بِهِ [ الحج 60] جو شخص کسی کو اتنی ہی سزا کہ اس کو دی گئی ہے ۔- عُقُوبَةُ والمعاقبة والعِقَاب - والعُقُوبَةُ والمعاقبة والعِقَاب يختصّ بالعذاب، قال : فَحَقَّ عِقابِ [ ص 14] ، شَدِيدُ الْعِقابِ [ الحشر 4] ، وَإِنْ عاقَبْتُمْ فَعاقِبُوا بِمِثْلِ ما عُوقِبْتُمْ بِهِ [ النحل 126] ، وَمَنْ عاقَبَ بِمِثْلِ ما عُوقِبَ بِهِ [ الحج 60] .- اور عقاب عقوبتہ اور معاقبتہ عذاب کے ساتھ مخصوص ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ فَحَقَّ عِقابِ [ ص 14] تو میرا عذاب ان پر واقع ہوا ۔ شَدِيدُ الْعِقابِ [ الحشر 4] سخت عذاب کر نیوالا ۔ وَإِنْ عاقَبْتُمْ فَعاقِبُوا بِمِثْلِ ما عُوقِبْتُمْ بِهِ [ النحل 126] اگر تم ان کو تکلیف دینی چاہو تو اتنی ہی دو جتنی تکلیف تم کو ان سے پہنچی ہے ۔ وَمَنْ عاقَبَ بِمِثْلِ ما عُوقِبَ بِهِ [ الحج 60] جو شخص کسی کو اتنی ہی سزا کہ اس کو دی گئی ہے ۔
فتنہ کا مفہوم - قول باری ہے واتقوافتنۃ لاتصیبن الذین ظلموا منکم خاصۃ۔ اور بچو اس فتنے سے جس کی شامت مخصوص طور پر صرف ان ہی لوگوں تک محدود رہے گی جنہوں نے تم میں سے گناہ کیا ہو) الفتنۃ کی تفسیر میں کئی اقوال منقول ہیں۔ حضرت عبداللہ (رض) سے مروی ہے کہ اس کے معنی وہی ہیں جو اس آیت انما اموالکم والولادکم فتنۃ۔ تمہارے اموال اور تمہاری اولاد آزمائش ہیں) میں موجود لفظ فتنہ کے ہیں حسن کا قول ہے کہ فتنہ وبال اور آفت کو کہتے ہیں۔ ایک قول ہے کہ اس سے مراد عذاب ہے۔ ایک قول کے مطابق یہ اس شادمانی کا نام ہے جس کے تحت لوگ مست ہو کر ظلم ڈھانے پر اتر آتے ہیں۔ حضرت ابن عباس (رض) سے ان کا یہ قول مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ اپنے اندر کسی منکر اور خلاف شریعت کام کو جگہ نہ دیں ورنہ اللہ تعالیٰ ان پر ایسا عذاب نازل کرے گا جس کی لپیٹ میں تمام لوگ آجائیں گے۔ ان ہی معنوں میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کسی نے سوال کیا کیا ہم ہلاک کردیئے جائیں گے جبکہ ہمارے درمیان صالحین بھی ہوں گے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جواب میں فرمایا : ” ہاں جب برائی کی کثرت ہوجائے گی۔ “۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ بھی مروی ہے کہ جب کسی قوم کے اندر معاصی کا ارتکاب کیا جارہا ہو اور ارتکاب کرنے والوں کی اکثریت ہو لیکن وہ ان معاصی کو نہ روکیں تو اللہ تعالیٰ ان پر ایسا سخت عذاب نازل کرے گا جو اپنی لپیٹ میں سب کو لے لے گا “ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس آیت کے ذریعے اس عذاب سے ڈرایا ہے جو اپنی لپیٹ میں نافرمانوں اور فرمانبرداروں سب کو لے لے گا۔ اگر فرمانبردار ان معاصی کے آگے بند نہیں باندھیں گے۔ ایک قول ہے کہ فتنہ اس لحاظ سے عام ہوگا کہ خوشحالی و شادمانی اور اس کے تحت پیدا ہونے والی برائیاں جب کسی معاشرہ کو اپنے پنجے میں جکڑ لیں گی تو اس کا نقصان ہر شخص کو لاحق ہوگا اور ہر فرد اس سے متاثر ہوگا۔
(٢٥) اور تم لوگ ہر ایک مصیبت سے بچو جو کہ ظالم ومظلوم سب کو شامل ہوگی ،
آیت ٢٥ (وَاتَّقُوْا فِتْنَۃً لاَّ تُصِیْبَنَّ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْکُمْ خَآصَّۃً ج) - یہ بھی قانون خداوندی ہے اور اس سے پہلے بھی اس قانون کا حوالہ دیا جا چکا ہے۔ یہاں یہ نکتہ قابل غور ہے کہ کسی جرم کا براہ راست ارتکاب کرنا ہی صرف جرم نہیں ہے ‘ بلکہ کسی فرض کی عدم ادائیگی کا فعل بھی جرم کے زمرے میں آتا ہے۔ مثلاً ایک مسلمان ذاتی طور پر گناہوں سے بچ کر بھی رہتا ہے اور نیکی کے کاموں میں بھی حتی الوسع حصہ لیتا ہے۔ وہ صدقہ و خیرات بھی دیتا ہے اور نماز ‘ روزہ کا اہتمام بھی کرتا ہے۔ یہ سب کچھ تو وہ کرتا ہے مگر دوسری طرف اللہ اور اس کے دین کی نصرت ‘ اقامت دین کی جدوجہد اور اس جدوجہد میں اپنے مال اور اپنے وقت کی قربانی جیسے فرائض سے پہلو تہی کا رویہ اپنائے ہوئے ہے تو ایسا شخص بھی گویا مجرم ہے اور عذاب کی صورت میں وہ اس کی لپیٹ سے بچ نہیں پائے گا۔ اس لحاظ سے یہ دل دہلا دینے والی آیت ہے۔- (وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ ) ۔- اب اگلی آیت کو خصوصی طور پر پاکستان کے مسلمانوں کے حوالے سے پڑھیں۔
سورة الْاَنْفَال حاشیہ نمبر :20 س سے مراد وہ اجتماعی فتنے ہیں جو وبائے عام کی طرح ایسی شامت لاتے ہیں جس میں صرف گناہ کرنے والے ہی گرفتار نہیں ہوتے بلکہ وہ لوگ بھی مارے جاتے ہیں جو گناہ گار سوسائٹی میں رہنا گوارا کرتے رہے ہوں ۔ مثال کے طور پر اس کو یوں سمجھیے کہ جب تک کسی شہر میں گندگیاں کہیں کہیں انفرادی طور پر چند مقامات پر رہتی ہیں ۔ ان کا اثر محدود رہتا ہے اور ان سے وہ مخصوص افراد ہی متاثر ہوتے ہیں ۔ جنہوں نے اپنے جسم اور اپنے گھر کو گندگی سے آلودہ کر رکھا ہو ۔ لیکن جب وہاں گندگی عام ہو جاتی ہے اور کوئی گروہ بھی سارے شہر میں ایسا نہیں ہوتا جو اس خرابی کو روکنے اور صفائی کا انتظام کرنے کی سعی کرے تو پھر ہوا اور زمین اور پانی ہر چیز میں سمیت پھیل جاتی ہے اور اس کے نتیجہ میں جو وبا آتی ہے اس کی لپیٹ میں گندگی پھیلانے والے اور گندہ رہنے والے گندہ ماحول میں زندگی بسر کرنے والے سب ہی آجاتے ہیں ۔ اسی طرح اخلاقی نجاستوں کا حال بھی ہے کہ اگر وہ انفرادی طور پر بعض افراد میں موجود رہیں اور صالح سوسائٹی کے رعب سے دبی رہیں تو اسن کے نقصانات محدود رہتے ہیں ۔ لیکن جب سوسائٹی کا اجتماعی ضمیر کمزور ہو جاتا ہے ، جب اخلاقی برائیوں کو دبا کر رکھنے کی طاقت اس میں نہیں رہتی ، جب اس کے درمیان برے اور بے حیا اور بد اخلاق لوگ اپنے نفس کی گندگیوں کو اعلانیہ اچھا لنے اور پھیلانے لگتے ہیں ، اور جب اچھے لوگ بے عملی ( ) اختیار کرکے اپنی انفرادی اچھائی پر قانع اور اجتماعی برائیوں پر ساکت و صامت ہو جاتے ہیں ، تو مجموعی طور پر پوری سوسائٹی کی شامت آجاتی ہے اور وہ فتنہ عام برپا ہوتا ہے جس میں چنے کے ساتھ گھن بھی پس جاتا ہے ۔ پس اللہ تعالی ٰ کے ارشاد کا منشا یہ ہے کہ رسول جس اصلاح وہدایت کے کام کے لیے اٹھا ہے اور تمہیں جس خدمت میں ہاتھ بٹناے کے لیے بلا رہا ہے اسی میں درحقیقت شخصی و اجتماعی دونوں حیثیتوں سے تمہارے لیے زندگی ہے ۔ اگر اس میں سچے دل سے مخلصانہ حصہ نہ لو گے اور ان برائیوں کو جا سوسائٹی میں پھیلی ہوئی ہیں برداشت کرتے رہو گے تو وہ فتنہ عام برپا ہوگا جس کی آفت سب کو لپیٹ میں لے لے گی خواہ بہت سے افراد تمہارے درمیان ایسے موجود ہوں جو عملاً برائی کرنے اور برائی پھیلانے کے ذمہ دار نہ ہوں ، بلکہ اپنی ذاتی زندگی میں بھلائی ہی لیے ہوئے ہوں ۔ یہ وہی بات ہے جس کو سورہ اعراف آیات ١٦۳ ۔ ١٦٦ میں اصحاب السّبت کی تاریخی مثال پیش کرتے ہوئے بیان کیا جاچکا ہے اور یہی وہ نقطہ نظر ہے جسے اسلام کی اصلاحی جنگ کا بنیادی نظریہ کہا جا سکتا ہے ۔
15: اس آیت کریمہ میں ایک اور اہم حکم بیان فرمایا گیا ہے، اور وہ یہ کہ ایک مسلمان کی ذمہ داری صرف یہ نہیں ہے کہ وہ اپنی ذات کی حد تک شریعت پر عمل کرلے، اس کی ذمہ داری یہ بھی ہے کہ اگر معاشرے میں کوئی برائی پھیل رہی ہے تو اپنی طاقت کی حد تک اس کو روکنے کی کوشش کرے، اگر لوگ اپنے فریضے میں کوتاہی کریں اور اس برائی کا کوئی وبال آئے تو وہ وبال صرف ان لوگوں کی حد تک محدود نہیں رہے گا جو اس برائی میں براہ راست ملوث تھے ؛ بلکہ جو لوگ اس برائی کا خود تو ارتکاب نہیں کررہے تھے مگر دوسروں کو اس سے روکتے بھی نہیں تھے وہ بھی اس وبال کا شکار ہوں گے۔