اہل ایمان پر اللہ کے احسانات مومنوں کو پروردگار عالم اپنے احسانات یاد دلا رہا ہے کہ ان کی گنتی اس نے بڑھا دی ، ان کی کمزوری کو زور سے بدل دیا ، ان کے خوف کو امن سے بدل دیا ، ان کی ناتوانی کو طاقت سے بدل دیا ، ان کی فقیری کو امیری سے بدل دیا ، انہوں نے جیسے جسیے اللہ کے فرمان کی بجا آوری کی ویسے ویسے یہ تری پا گئے ۔ مومن صحابہ مکہ کے قیام کی حالت میں تعداد میں بہت تھوڑے تھے ، چھپے پھرتے تھے ، بےقرار رہتے تھے ، ہر وقت دشمنوں کا خطرہ لگا رہتا تھا ، مجوسی ان کے دشمن تھے ، یہودی ان کی جان کے پیچھے ، بت پرست ان کے خون کے پیاسے ، نصرانی ان کی فکر میں ۔ دشمنوں کی یہ حالت تھی تو ان کی اپنی یہ حالت کہ تعداد میں انگلیوں پر گن لو ۔ بغیر طاقت شان شوکت مطلقاً نہیں ۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ انہیں مدینے کی طرف ہجرت کرنے کا حکم دیتا ہے یہ مان لیتے ہیں وہاں پہنچتے ہی اللہ ان کے قدم جما دیتا ہے وہاں مدینہ والوں کو ان کا ساتھی بلکہ پشت پناہ بنا دیتا ہے وہ ان کی مدد پر اور ساتھ دینے پر تیار ہو جاتے ہیں بدر والے دن اپنی جانیں ہتھیلیوں پر لئے نکل کھڑے ہوتے ہیں ، اپنے مال پانی کی طرح راہ حق میں بہاتے ہیں اور دوسرے موقعوں پر بھی نہ اطاعت چھوڑتے ہیں نہ ساتھ نہ سخاوت ۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ چاند کی طرح چمکنے لگتے ہیں اور سورج کی طرح دمکنے لگتے ہیں ۔ قتادہ بن دعامہ سدوسی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ عرب کے یہ لوگ سب سے زیادہ گرے ہوئے ، سب سے زیادہ تنگ حال ، سب سے زیادہ بھوکے ننگے ، سب سے زیادہ گمراہ اور بےدین و مذہب تھے ۔ جیتے تو ذلت کی حالت میں ، مرتے تو جہنمی ہو کر ، ہر ایک ان کے سر کچلتا لیکن یہ آپ میں الجھے رہتے ۔ واللہ روئے زمین پر ان سے زیادہ گمراہ کوئی نہ تھا ۔ اب یہ اسلام لائے اللہ کے رسول کے اطاعت گذار بنے تو ادھر سے ادھر تک شہروں بلکہ ملکوں پر ان کا قبضہ ہو گیا دنیا کی دولت ان کے قدموں پر بکھرنے لگی لوگوں کی گردنوں کے مالک اور دنیا کے بادشاہ بن گئے یاد رکھو یہ سب کچھ سچے دین اور اللہ کے رسول کی تعلیم پر عمل کے نتائج تھے پس تم اپنے پروردگار کے شکر میں لگے رہو اور اس کے بڑے بڑے احسان تم پر ہیں وہ شکر کو اور شکر کرنے والوں کو پسند فرماتا ہے سنو شکر گذار نعمتوں کی زیادتی میں ہی رہتے ۔
26۔ 1 اس میں مکی زندگی کے شدائد و خطرات کا بیان اور اس کے بعد مدنی زندگی میں مسلمان جس آرام و راحت اور آسودگی سے بفضل الٰہی ہمکنار ہوئے، اس کا تذکرہ ہے۔
[٢٦] اسلام کے ابتدائی دور میں مسلمانوں پر سختیاں :۔ اس آیت کی تشریح کے لیے درج ذیل حدیث ملاحظہ فرمائیے جس میں سیدنا ابوذر غفاری (رض) کے ایمان لانے کا ذکر ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوجائے گا کہ اسلام کے ابتدائی دور میں مسلمان کن مصائب اور حوصلہ شکن حالات سے دو چار تھے۔- سیدنا ابوذر غفاری (رض) کا اسلام لانا :۔ سیدنا ابوذر (رض) خود بیان کرتے ہیں کہ میں غفار قبیلے کا ایک شخص تھا مجھے خبر ملی کہ مکہ میں ایک شخص پیدا ہوا ہے جو اپنے تئیں پیغمبر کہتا ہے۔ میں نے اپنے بھائی (انیس) سے کہا کہ مکہ جا کر اس شخص سے ملو۔ بات چیت کرو اور اس کا حال مجھے آ کر بتلاؤ۔ وہ آپ سے مل کر واپس میرے پاس آیا اور کہا واللہ وہ اچھی بات کا حکم کرتا اور بری بات سے منع کرتا ہے۔ اس جواب سے میری تسلی نہ ہوئی اور خود مکہ آگیا۔ یہاں میں کسی کو پہچانتا نہیں تھا۔ نہ مجھے کسی سے آپ کا حال پوچھنا مناسب معلوم ہوا۔ میں زمزم کا پانی پیتا رہا اور مسجد میں بیٹھ رہا۔ سیدنا علی (رض) میرے سامنے سے گزرے اور پوچھا : تم مسافر معلوم ہوتے ہو۔ میں نے کہا : ہاں۔ آپ نے کہا۔ تو میرے گھر چلو۔ میں ان کے ساتھ روانہ ہوا۔ نہ انہوں نے مجھ سے کچھ پوچھا اور نہ ہی میں نے کوئی بات کی۔ صبح پھر میں مسجد میں آگیا۔ میرا مطلب یہ تھا کہ کسی سے نبی کے متعلق کچھ پوچھوں، مگر مجھے کوئی ایسا آدمی نہ ملا۔ دوسرے دن سیدنا علی (رض) پھر میرے پاس سے گزرے اور پوچھا تجھے ابھی تک کوئی ٹھکانہ نہیں ملا۔ میں نے کہا : نہیں۔ انہوں نے کہا تو میرے ساتھ چلو اور بتلاؤ تمہارا کیا کام ہے ؟ یہاں کیسے آئے ہو ؟ میں نے کہا : اگر تم کسی کو بتلاؤ نہیں تو میں آپ کو بتلاتا ہوں۔ سیدنا علی (رض) نے کہا ٹھیک ہے۔ تب میں نے انہیں اپنے بھائی کو بھیجنے کا واقعہ سنایا اور کہا کہ میں اس نبی کو ملنا چاہتا ہوں۔ سیدنا علی (رض) نے کہا : یہ تمہارے لیے بہت اچھا اتفاق ہوا کہ میں بھی اسی نبی کے پاس جا رہا ہوں، تم میرے پیچھے پیچھے چلے آؤ۔ جہاں میں داخل ہوا تم بھی داخل ہوجانا اور اگر کوئی خطرہ کی بات ہوئی تو میں دیوار کے ساتھ لگ کر کھڑا ہوجاؤں گا جیسے اپنا جوتا صاف کرنے لگا ہوں (اور ایک روایت میں ہے جیسے پیشاب کرنے لگا ہوں) تم وہاں سے آگے نکل جانا۔ اس طرح ہم ایک مکان میں داخل ہوئے۔ جہاں آپ موجود تھے۔ میں نے عرض کی کہ آپ مجھے اسلام سکھلائیے۔ پھر میں اسی وقت مسلمان ہوگیا تو آپ نے فرمایا : ابو ذر اپنے ایمان کو چھپائے رکھو اور اپنے وطن واپس لوٹ جاؤ۔ جب تمہیں ہمارے غلبہ کی خبر پہنچے تو چلے آنا۔ میں نے کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کی قسم میں اسلام کا کلمہ کافروں کے سامنے ببانگ دہل پکاروں گا۔ پھر میں مسجد میں آیا اور پکارا : قریشیو میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں۔ یہ سنتے ہی وہ کہنے لگے اٹھو اس بےدین کی خبر لو۔ پھر انہوں نے مجھے خوب مارا۔ سیدنا عباس (رض) نے مجھے دیکھ لیا اور آ کر مجھ پر جھک گئے اور کہا تمہاری خرابی تم ایک غفاری کو مار رہے ہو، جبکہ تمہارا تجارتی راستہ اسی قوم پر سے گزرتا ہے یہ سن کر انہوں نے مجھے چھوڑ دیا۔ دوسرے دن صبح پھر میں مسجد میں آگیا اور وہی کلمہ کہا جو کل کہا تھا قریشیوں نے پھر وہی بات کہی کہ اٹھو اور اس کی خبر لو۔ چناچہ مجھے مار پڑنے لگی۔ اتنے میں سیدنا عباس (رض) آن پہنچے، وہ مجھ پر جھک گئے اور وہی بات کہی جو کل کہی تھی تو انہوں نے مجھے چھوڑ دیا۔ (بخاری، کتاب المناقب، باب قصہ زمزم، نیز باب اسلام ابی ذر)- یعنی مکی زندگی میں مسلمانوں پر ایسا وقت بھی آیا جبکہ اپنے اسلام کو ظاہر کرنا بھی جان جوکھوں کا کام تھا۔ پھر مکی زندگی کے آخری دور تک مسلمانوں پر کفار کی طرف سے سختیوں میں کمی واقع نہیں ہوئی انہیں سختیوں سے تنگ آ کر مسلمانوں نے دو بار حبشہ کی طرف ہجرت کی تھی۔ بالآخر مسلمانوں کو مکہ چھوڑ کر مدینہ کی طرف ہجرت کرنا پڑی۔ یہاں آ کر مسلمان قریش مکہ کے مظالم سے کسی حد تک محفوظ ہوگئے۔ مگر مسلمانوں کی مخالفت عامہ میں اور بھی اضافہ ہوگیا۔ مکی دور میں مسلمانوں کے دشمن صرف کفار مکہ تھے۔ جب کہ مدینہ میں کفار مکہ کے علاوہ دوسرے عرب مشرک قبائل اور مدینہ کے یہودی بھی دشمن بن گئے تھے۔ اور صورت حال کچھ اس قسم کی پیدا ہوگئی تھی کہ مسلمان رات کو آرام سے سو بھی نہ سکتے تھے تاآنکہ پہرہ کا کوئی معقول بندوبست نہ کرلیں۔ اس آیت میں مسلمانوں کی اسی حالت کی طرف اشارہ ہے۔ پھر جب میدان بدر میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو عظیم فتح عطا فرمائی اور باطل کی کمر ٹوٹی تب جا کر مسلمانوں کو آزادی سے سانس لینا نصیب ہوا اور مسلمانوں کو بھی قریش مکہ کے ہمسر سمجھا جانے لگا۔ غزوہ بدر سے پہلے تک کفار مکہ کی یہی ذہنیت رہی کہ مسلمان ان کے مفرور قیدی ہیں۔ ان کی اس ذہنیت میں غزوہ بدر کے بعد ہی تبدیلی واقع ہوئی۔- [ ٢٧] یعنی مدینہ میں آزاد سلطنت عطا فرمائی۔ فتح بدر سے تمہاری پوزیشن خاصی مضبوط ہوگئی اور اموال غنائم سے تمہیں پاکیزہ رزق بھی دیا۔ اب تم دل سے، زبان سے اور عمل سے اللہ کا شکر ادا کرو اور عمل سے شکر کی صورت یہ ہے کہ ہر وقت اللہ تعالیٰ اور رسول کی اطاعت پر مستعد رہا کرو۔
وَاذْكُرُوْٓا اِذْ اَنْتُمْ قَلِيْلٌ: اس میں مکی زندگی میں مسلمانوں کی قلت تعداد، سختی اور خوف کا، پھر مدینہ میں ان کو اپنا گھر، امن و سکون اور راحت و آرام ملنے کا ذکر ہے۔ ” اور تمہیں پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا “ میں دوسری تمام پاکیزہ نعمتوں کے ساتھ غنیمت کے اموال کا حلال کرنا بھی شامل ہے، کیونکہ یہ پہلی امتوں کے لیے حلال نہیں تھے، بلکہ جلا دیے جاتے تھے۔
دوسری آیت میں بھی احکام الہیہ کی اطاعت کو آسان کرنے اور اس پر ترغیب دینے کے لئے مسلمانوں کو ان کی پچلھی خستہ حالی اور ضعف و کمزوری پھر اس کے بعد اپنے فضل و انعام سے حالات بدل کر ان کو قوت اور اطمینان عطا فرمانے کا ذکر ہے۔ ارشاد فرمایا :- (آیت) وَاذْكُرُوْٓا اِذْ اَنْتُمْ قَلِيْلٌ مُّسْتَضْعَفُوْنَ فِي الْاَرْضِ تَخَافُوْنَ اَنْ يَّتَخَطَّفَكُمُ النَّاسُ فَاٰوٰىكُمْ وَاَيَّدَكُمْ بِنَصْرِهٖ وَرَزَقَكُمْ مِّنَ الطَّيِّبٰتِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ ۔ یعنی اے مسلمانو اپنے اس حال کو یاد کرو جو قبل ہجرت مکہ معظمہ میں تھا کہ تعداد میں بھی کم تھے اور قوت میں بھی ہر وقت یہ خطرہ لگا ہوا تھا کہ دشمن ان کو نوچ کھسوٹ لیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو مدینہ میں بہترین ٹھکانا عطا فرمایا۔ اور نہ صرف ٹھکانا بلکہ اپنی تائید و نصرت سے ان کو قوت اور دشمنوں پر فتح اور اموال عظیمہ عطا فرما دیئے۔ آخر آیت میں فرمایا لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ ۔ یعنی تمہارے حالات کی اس کایا پلٹ اور انعامات الہیہ کا مقصد یہ ہے کہ تم شکر گزار بندے بنو۔ اور ظاہر ہے کہ شکر گزاری اس کے احکام کی اطاعت میں منحصر ہے۔
وَاذْكُرُوْٓا اِذْ اَنْتُمْ قَلِيْلٌ مُّسْتَضْعَفُوْنَ فِي الْاَرْضِ تَخَافُوْنَ اَنْ يَّتَخَطَّفَكُمُ النَّاسُ فَاٰوٰىكُمْ وَاَيَّدَكُمْ بِنَصْرِہٖ وَرَزَقَكُمْ مِّنَ الطَّيِّبٰتِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ ٢٦- قل - القِلَّةُ والکثرة يستعملان في الأعداد، كما أنّ العظم والصّغر يستعملان في الأجسام، ثم يستعار کلّ واحد من الکثرة والعظم، ومن القلّة والصّغر للآخر . وقوله تعالی: ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب 60] - ( ق ل ل ) القلۃ - والکثرۃ بلحاظ اصل وضع کے صفات عدد سے ہیں جیسا کہ عظم اور صغر صفات اجسام سے ہیں بعد کثرت وقلت اور عظم وصغڑ میں سے ہر ایک دوسرے کی جگہ بطور استعارہ استعمال ہونے لگا ہے اور آیت کریمہ ؛ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب 60] پھر وہاں تمہارے پڑوس میں نہیں رہ سکیں گے مگر تھوڑے دن ۔ میں قلیلا سے عرصہ قلیل مراد ہے ۔ - اسْتَضْعَفْ- واسْتَضْعَفْتُهُ : وجدتُهُ ضَعِيفاً ، قال وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجالِ وَالنِّساءِ وَالْوِلْدانِ- [ النساء 75] ، قالُوا فِيمَ كُنْتُمْ قالُوا كُنَّا مُسْتَضْعَفِينَ فِي الْأَرْضِ [ النساء 97] ، إِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُونِي[ الأعراف 150] ، وقوبل بالاستکبار في قوله : قالَ الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا لِلَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا[ سبأ 33]- استضعفتہ ۔ میں نے اسے کمزور سمجھا حقیر جانا ۔ قران میں ہے : ۔ وَنُرِيدُ أَنْ نَمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا[ القصص 5] اور ہم چاہتے تھے کہ جنہیں ملک میں کمزور سمجھا گیا ہے ان پر احسان کریں : وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجالِ وَالنِّساءِ وَالْوِلْدانِ [ النساء 75] اور ان بےبس مردوں عورتوں اور بچوں قالوا فِيمَ كُنْتُمْ قالُوا كُنَّا مُسْتَضْعَفِينَ فِي الْأَرْضِ [ النساء 97] تو ان سے پوچھتے ہیں کہ تم کس حال میں تھے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم ملک میں عاجز اور ناتوان تھے ۔ إِنَّ الْقَوْمَ اسْتَضْعَفُونِي[ الأعراف 150] کہ لوگ تو مجھے کمزور سمجھتے تھے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ قالَ الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا لِلَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا[ سبأ 33] اور کمزور لوگ برے لوگوں سے کہیں گے ۔ میں استضاف استکبار کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے - خوف - الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] - ( خ و ف ) الخوف ( س )- کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔ - خطف - الخَطْفُ والاختطاف : الاختلاس بالسّرعة، يقال : خَطِفَ يَخْطَفُ ، وخَطَفَ يَخْطِفُ «3» وقرئ بهما جمیعا قال : إِلَّا مَنْ خَطِفَ الْخَطْفَةَ وذلک وصف للشّياطین المسترقة للسّمع، قال تعالی: فَتَخْطَفُهُ الطَّيْرُ أَوْ تَهْوِي بِهِ الرِّيحُ [ الحج 31] ، يَكادُ الْبَرْقُ يَخْطَفُ أَبْصارَهُمْ [ البقرة 20] ، وقال : وَيُتَخَطَّفُ النَّاسُ مِنْ حَوْلِهِمْ [ العنکبوت 67] ، أي : يقتلون ويسلبون، والخُطَّاف : للطائر الذي كأنه يخطف شيئا في طيرانه، ولما يخرج به الدّلو، كأنه يختطفه . وجمعه خَطَاطِيف، وللحدیدة التي تدور عليها البکرة، وباز مُخْطِف : يختطف ما يصيده،- ( خ ط ف ) خطف یخطف خطفا واختطف اختطافا کے معنی کسی چیز کو سرعت سے اچک لینا کے ہیں ۔ یہ باب ( س ض ) دونوں سے آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ إِلَّا مَنْ خَطِفَ الْخَطْفَةَ«4» ہاں جو کوئی ( فرشتوں کی ) بات کو ) چوری سے جھپث لینا چاہتا ہے ۔ طا پر فتحہ اور کسرہ دونوں منقول ہیں اور اس سے مراد وہ شیاطین ہیں جو چوری چھپے ملا اعلیٰ کی گفتگو سنا کرتے تھے ۔ نیز فرمایا :۔ فَتَخْطَفُهُ الطَّيْرُ أَوْ تَهْوِي بِهِ الرِّيحُ [ الحج 31] پھر اس کو پرندے اچک لے جائیں یا ہوا کسی دور جگہ اڑا کر پھینک دے ۔ يَكادُ الْبَرْقُ يَخْطَفُ أَبْصارَهُمْ [ البقرة 20] قریب ہے کہ بجلی ( کی چمک ) ان کی آنکھوں ( کی بصارت ) کو اچک لے جائے ۔ وَيُتَخَطَّفُ النَّاسُ مِنْ حَوْلِهِمْ [ العنکبوت 67] اور لوگ ان کے گرد نواح سے اچک لئے جاتے ہیں ۔ یعنی ان کے گرد ونواح میں قتل و غارت کا سلسلہ جاری ہے ۔ الخاف ۔ ( 1) ابابیل کی قسم کا ایک پرندہ جو پرواز کرنے میں کسی چیز کو جپٹ لیتا ہے ۔ ( 2) آہن کج جس کے ذریعے کنوئیں سے ڈول نکالا جاتا ہے گویا وہ ڈول کو اچک کر باہر لے آتا ہے ۔ ( 3) وہ لوہا جس پر کنوئیں کی چرغی گھومتی ہے ۔ ج خطاطیف باز مخطف ۔ باز جو اپنے شکار پر جھٹپتا ہے ۔ الخطیف ۔ تیز رفتاری ۔ الخطف الحشاو مختطفتہ ۔ مرد باریک شکم جس کے وبلاپن کی وجہ سے ایسا معلوم ہو کہ اس کی انتٹریاں اچک لی گئی ہیں ۔- أوى- المَأْوَى مصدر أَوَى يَأْوِي أَوِيّاً ومَأْوًى، تقول : أوى إلى كذا : انضمّ إليه يأوي أويّا ومأوى، وآوَاهُ غيره يُؤْوِيهِ إِيوَاءً. قال عزّ وجلّ : إِذْ أَوَى الْفِتْيَةُ إِلَى الْكَهْفِ [ الكهف 10] ، وقال : سَآوِي إِلى جَبَلٍ [هود 43] - ( ا و ی ) الماویٰ ۔- ( یہ اوی ٰ ( ض) اویا و ماوی کا مصدر ہے ( جس کے معنی کسی جگہ پر نزول کرنے یا پناہ حاصل کرنا کے ہیں اور اویٰ الیٰ کذا ۔ کے معنی ہیں کسی کے ساتھ مل جانا اور منضم ہوجانا اور آواہ ( افعال ) ایواء کے معنی ہیں کسی کو جگہ دینا قرآن میں ہے إِذْ أَوَى الْفِتْيَةُ إِلَى الْكَهْفِ ( سورة الكهف 10) جب وہ اس غار میں جار ہے قَالَ سَآوِي إِلَى جَبَلٍ ( سورة هود 43) اس نے کہا کہ میں ( ابھی ) پہاڑ سے جا لگوں گا ۔ - ايد ( قوة)- قال اللہ عزّ وجل : أَيَّدْتُكَ بِرُوحِ الْقُدُسِ [ المائدة 110] فعّلت من الأيد، أي : القوة الشدیدة . وقال تعالی: وَاللَّهُ يُؤَيِّدُ بِنَصْرِهِ مَنْ يَشاءُ [ آل عمران 13] أي : يكثر تأييده، ويقال : إِدْتُهُ أَئِيدُهُ أَيْداً نحو : بعته أبيعه بيعا، وأيّدته علی التکثير . قال عزّ وجلّ : وَالسَّماءَ بَنَيْناها بِأَيْدٍ [ الذاریات 47] ، ويقال : له أيد، ومنه قيل للأمر العظیم مؤيد . وإِيَاد الشیء : ما يقيه، وقرئ : (أَأْيَدْتُكَ ) وهو أفعلت من ذلك . قال الزجاج رحمه اللہ : يجوز أن يكون فاعلت، نحو : عاونت، وقوله عزّ وجل : وَلا يَؤُدُهُ حِفْظُهُما[ البقرة 255] أي : لا يثقله، وأصله من الأود، آد يؤود أودا وإيادا : إذا أثقله، نحو : قال يقول قولا، وفي الحکاية عن نفسک : أدت مثل : قلت، فتحقیق آده : عوّجه من ثقله في ممرِّه .- ( ای د ) الاید ( اسم ) سخت قوت اس سے اید ( تفعیل ) ہے جس کے معنی تقویت دنیا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ أَيَّدْتُكَ بِرُوحِ الْقُدُسِ [ المائدة 110] ہم نے تمہیں روح قدس سے تقویت دی وَاللَّهُ يُؤَيِّدُ بِنَصْرِهِ مَنْ يَشاءُ [ آل عمران 13] یعنی جسے چاہتا ہے اپنی نصرت سے بہت زیادہ تقویت بخشتا ہے ادتہ ( ض) ائیدہ ایدا جیسے بعتہ ابیعہ بیعا ( تقویت دینا) اور اس سے ایدتہ ( تفعیل) تکثیر کے لئے آتا ہے قرآن میں ہے وَالسَّماءَ بَنَيْناها بِأَيْدٍ [ الذاریات 47] اور ہم نے آسمان کو بڑی قوت سے بنایا اور اید میں ایک لغت آد بھی ہے اور ۔ اسی سے امر عظیم کو مؤید کہا جاتا ہے اور جو چیز دوسری کو سہارا دے اور بچائے اسے ایاد الشئی کہا جاتا ہے ایک قرات میں ایدتک ہے جو افعلت ( افعال ) سے ہے اور ایاد الشئ کے محاورہ سے ماخوذ ہے زجاج (رح) فرماتے ہیں کہ یہ فاعلت ( صفاعلہ ) مثل عادنت سے بھی ہوسکتا ہے ۔- رزق - الرِّزْقُ يقال للعطاء الجاري تارة، دنیويّا کان أم أخرويّا، وللنّصيب تارة، ولما يصل إلى الجوف ويتغذّى به تارة ، يقال : أعطی السّلطان رِزْقَ الجند، ورُزِقْتُ علما، قال : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون 10] ، أي : من المال والجاه والعلم، - ( ر ز ق) الرزق - وہ عطیہ جو جاری ہو خواہ دنیوی ہو یا اخروی اور رزق بمعنی نصیبہ بھی آجاتا ہے ۔ اور کبھی اس چیز کو بھی رزق کہاجاتا ہے جو پیٹ میں پہنچ کر غذا بنتی ہے ۔ کہاجاتا ہے ۔ اعطی السلطان رزق الجنود بادشاہ نے فوج کو راشن دیا ۔ رزقت علما ۔ مجھے علم عطا ہوا ۔ قرآن میں ہے : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون 10] یعنی جو کچھ مال وجاہ اور علم ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے صرف کرو - طيب - يقال : طَابَ الشیءُ يَطِيبُ طَيْباً ، فهو طَيِّبٌ. قال تعالی: فَانْكِحُوا ما طاب لَكُمْ [ النساء 3] ، فَإِنْ طِبْنَ لَكُمْ [ النساء 4] ، وأصل الطَّيِّبِ : ما تستلذّه الحواسّ ، وما تستلذّه النّفس، والطّعامُ الطَّيِّبُ في الشّرع : ما کان متناولا من حيث ما يجوز، ومن المکان الّذي يجوز فإنّه متی کان کذلک کان طَيِّباً عاجلا وآجلا لا يستوخم، وإلّا فإنّه۔ وإن کان طَيِّباً عاجلا۔ لم يَطِبْ آجلا، وعلی ذلک قوله : كُلُوا مِنْ طَيِّباتِ ما رَزَقْناكُمْ [ البقرة 172] - ( ط ی ب ) طاب ( ض )- الشئی یطیب طیبا فھم طیب ( کے معنی کسی چیز کے پاکیزہ اور حلال ہونے کے ہیں ) قرآن میں ہے : : فَانْكِحُوا ما طاب لَكُمْ [ النساء 3] تو ان کے سوا عورتیں تم کو پسند ہوں ان سے نکاح کرلو ۔ ، فَإِنْ طِبْنَ لَكُمْ [ النساء 4] ہاں اگر وہ اپنی خوشی سے تم کو چھوڑدیں ۔ اصل میں طیب اسے کہا جاتا ہے جس سے انسان کے حواس بھی لذت یاب ہوں اور نفس بھی اور شریعت کی رو سے الطعام الطیب اس کھانے کو کہا جائے گا جو جائز طریق سے حاصل کیا جائے اور جائز جگہ سے جائز انداز کے مطابق لیا جائے کیونکہ جو غذا اس طرح حاصل کی جائے وہ دنیا اور آخرت دونوں میں خوشگوار ثابت ہوگی ورنہ دنیا کی خوشگوار چیزیں آخرت میں نقصان وہ ثابت ہونگی اسی بنا پر قرآن طیب چیزوں کے کھانے کا حکم دیتا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ كُلُوا مِنْ طَيِّباتِ ما رَزَقْناكُمْ [ البقرة 172] جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تمہیں عطا فرمائی ہیں اور ان کو کھاؤ ۔- شكر - الشُّكْرُ : تصوّر النّعمة وإظهارها، قيل : وهو مقلوب عن الکشر، أي : الکشف، ويضادّه الکفر، وهو : نسیان النّعمة وسترها۔ - والشُّكْرُ ثلاثة أضرب :- شُكْرُ القلب، وهو تصوّر النّعمة .- وشُكْرُ اللّسان، وهو الثّناء علی المنعم .- وشُكْرُ سائر الجوارح، وهو مکافأة النّعمة بقدر استحقاقه .- وقوله تعالی: اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ 13] ،- ( ش ک ر ) الشکر - کے معنی کسی نعمت کا تصور اور اس کے اظہار کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ کشر سے مقلوب ہے جس کے معنی کشف یعنی کھولنا کے ہیں ۔ شکر کی ضد کفر ہے ۔ جس کے معنی نعمت کو بھلا دینے اور اسے چھپا رکھنے کے ہیں - شکر تین قسم پر ہے - شکر قلبی یعنی نعمت کا تصور کرنا شکر لسانی یعنی زبان سے منعم کی تعریف کرنا شکر بالجوارح یعنی بقدر استحقاق نعمت کی مکافات کرنا ۔ اور آیت کریمہ : اعْمَلُوا آلَ داوُدَ شُكْراً [ سبأ 13] اسے داود کی آل میرا شکر کرو ۔
(٢٦) اور اگر اے مہاجرین کی جماعت اس وقت کو بھی یاد رکھو جب تم تعداد میں کم تھے اور کمزور سمجھے جاتے تھے۔ سرزمین مکہ میں اس اندیشہ میں رہتے تھے کہ مکہ والے تمہیں لوٹ نہ لیں یا تمہیں قیدی نہ بنالیں تو ہم نے تم لوگوں کو مدینہ منورہ میں جگہ دی اور بدر کے روز تمہاری مدد کی اور اپنی مدد سے تمہیں قوت دی اور تمہیں مال غنیمت عطا فرمایا تاکہ بدر کے روز جو تمہیں نصرت اور غنیمت حاصل ہوئی اس نعمت خداوندی پر اس کا شکر کرو۔
آیت ٢٦ (وَاذْکُرُوْٓا اِذْ اَنْتُمْ قَلِیْلٌ مُّسْتَضْعَفُوْنَ فِی الْاَرْضِ ) (تَخَافُوْنَ اَنْ یَّتَخَطَّفَکُمُ النَّاسُ ) - یہ آیت خاص طور پر مسلمانان پاکستان پر بھی منطبق ہوتی ہے۔ برصغیر میں مسلمان اقلیت میں تھے ‘ ہندوؤں کی اکثریت کے مقابلے میں انہیں خوف تھا کہ وہ اپنے حقوق کا تحفظ کرنے میں کمزور ہیں۔ اپنے جان و مال کو درپیش خطرات کے علاوہ انہیں یہ اندیشہ بھی تھا کہ اکثریت کے ہاتھوں ان کا معاشی ‘ سماجی ‘ سیاسی ‘ لسانی ‘ مذہبی وغیرہ ہر اعتبار سے استحاصل ہوگا۔
سورة الْاَنْفَال حاشیہ نمبر :21 یہاں شکر گزاری کا لفظ غور کے قابل ہے ۔ اوپر کے سلسلہ تقریر کو نظر میں رکھا جائے تو صاف ظاہر ہو جاتا ہے کہ اس موقع پر شکر گزاری کا مفہوم صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ لوگ اللہ کے اس احسان کو مانیں کہ اس نے اس کمزوری کی حالت سے انہیں نکالا اور مکہ کی پر خطر زندگی سے بچا کر امن کی جگہ لے آیا جہاں طیبات رزق میسر ہو رہے ہیں ، بلکہ اس کے ساتھ یہ بات بھی اسی شکر گزاری کے مفہوم میں داخل ہے کہ مسلمان اس خدا کی اور اس کے رسول کی اطاعت کریں جس نے یہ احسانات ان پر کیے ہیں ، اور رسول کے مشن میں اخلاص و جاں نثاری کے ساتھ کام کریں ، اور اس کام میں جو خطرات و مہالک اور مصائب پیش آئیں ان کا مردانہ وار مقابلہ اسی خدا کے بھروسے پر کرتے چلے جائیں جس نے اس سے پہلے ان کو خطرات سے بعافیت نکالا ہے ، اور یقین رکھیں کہ جب وہ خدا کا کام اخلاص کے ساتھ کریں گے تو خدا ضرور ان کا وکیل و کفیل ہوگا ۔ پس شکر گزاری محض اعترافی نوعیت ہی کی مطلوب نہیں ہے بلکہ عملی نوعیت کی بھی مطلوب ہے ۔ احسان کا اعتراف کرنے کے باوجود محسن کی رضا جوئی کے لیے سعی نہ کرنا اور اس کی خدمت میں مخلص نہ ہونا اور اس کے بارے میں یہ شک رکھنا کہ نہ معلوم آئندہ بھی وہ احسان کریگا یا نہیں ، ہرگز شکر گزاری نہیں ہے بلکہ اُلٹی ناشکری ہے ۔