فتنے کے اختتام تک جہاد جاری رکھو کافروں سے کہدے کہ اگر وہ اپنے کفر سے اور ضد سے باز آ جائین ، اسلام اور اطاعت قبول کر لین ، رب کی طرف جھک جائیں تو ان سے جو ہو چکا ہے سب معاف کر دیا جائے گا ، کفر بھی ، خطا بھی گناہ بھی ۔ حدیث میں ہے جو شخص اسلام لا کر نیکیاں کرے وہ اپنے جاہلیت کے اعمال پر پکڑا نہ جائے گا اور اسلام میں بھی پھر برائیاں کرے تو الگی پجھلی تمام خطاؤں پر اس کی پکڑ ہو گی اور حدیث میں ہے اسلام سے پہلے کے سب گناہ معاف ہیں توبہ بھی اپنے سے پہلے کے گناہ کو مٹا دیتی ہے ۔ پھر فرماتا ہے کہ اگر یہ نہ مانین اور اپنے کفر پر قائم رہیں تو وہ اگلوں کی ہالت دیکھ لیں کہ ہم نے انہیں ان کے کفر کی وجہ سے کیسا غارت کیا ؟ ابھی بدری کفار کا حشر بھی ان کے سامنے ہے ۔ جب تک فتنہ باقی ہے تم جنگ جاری رکھو ۔ ایک شخص نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ آیت ( وَاِنْ طَاۗىِٕفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَيْنَهُمَا ۚ فَاِنْۢ بَغَتْ اِحْدٰىهُمَا عَلَي الْاُخْرٰى فَقَاتِلُوا الَّتِيْ تَبْغِيْ حَتّٰى تَفِيْۗءَ اِلٰٓى اَمْرِ اللّٰهِ ۚ فَاِنْ فَاۗءَتْ فَاَصْلِحُوْا بَيْنَهُمَا بِالْعَدْلِ وَاَقْسِطُوْا ۭ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِيْنَ Ḍ ) 49- الحجرات:9 ) ، کو پیش نظر رکھ کر آپ اس وقت کی باہمی جنگ میں شرکت کیوں نہیں کرتے؟ آپ نے فرمایا تم لوگوں کا یہ طعنہ اس سے بہت ہلکا ہے کہ میں کسی مومن کو قتل کر کے جہنمی بن جاؤں جیسے فرمان الٰہی ہے ومن یقتل مومنا متعمدا الخ ، اس نے کہا اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ فتنہ باقی ہو تب تک لڑائی جاری رکھو ۔ آپ نے فرمایا یہی ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کیا ۔ اس وقت مسلمان کم تھے ، انہیں کافر گرفتار کر لیتے تھے اور دین میں فتنے ڈالتے تھے یا تو قتل کر ڈالتے تھے یا قید کر لیتے تھے ۔ جب مسلمان بڑھ گئے وہ فتنہ جاتا رہا ۔ اس نے جب دیکھا کہ آپ مانتے نہیں تو کہا اچھا حضرت علی اور حضرت عثمان کے بارے میں کیا خیال رکھتے ہیں؟ آپ نے فرمایا حضرت عثمان کو اللہ نے معاف فرمایا لیکن تمہیں اللہ کی وہ معافی بری معلوم ہوتی ہے ۔ حضرت علی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی تھے اور آپ کے داماد تھے ، یہ ہیں آپ کی صاحبزادی ، یہ کہتے ہوئے ان کے مکان کی طرف اشارہ کیا ۔ ابن عمر ایک مرتبہ لوگوں کے پاس آئے تو کسی نے کہا کہ اس فتنے کے وقت کی لڑائی کی نسبت جناب کا کیا خیال ہے ؟ آپ نے فرمایا جانتے بھی ہو فتنے سے کیا مراد ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کافروں سے جنگ کرتے تھے ، اس وقت ان کا زور تھا ، ان میں جانا فتنہ تھا ، تمہاری تو یہ ملکی لڑائیاں ہیں اور روایت میں ہے کہ حضرت ابن زبیر کے زمانے میں دو شخص حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ لوگ جو کچھ کر رہے ہیں وہ آپ کے سامنے ہے آپ حضرت عمر کے صاحبزادے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہیں ۔ آپ کیوں میدان جنگ میں نہیں اترے؟ فرمایا اس لئے کہ اللہ نے ہر مومن کا خون حرام کر دیا ہے انہوں نے کہا کیا فتنے کے باقی رہنے تک لڑنا اللہ کا حکم نہیں؟ آپ نے فرمایا ہے اور ہم نے اسے نبھایا بھی یہاں تک کہ فتنہ دور ہو گیا اور دین سب اللہ ہی کا ہو گیا ، اب تم اپنی اس باہمی جنگ سے فتنہ کھڑا کرنا اور غیر اللہ کے دین کے لئے ہو جانا جاہتے ہو ۔ ذوالسطبین حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے میں ہرگز اس شخص سے جنگ نہ کروں گا جو لا الہ الہ اللہ کا قائل ہو ۔ حضرت سعد بن مالک رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر اس کی تائید کی اور فرمایا میں بھی یہی کہتا ہوں تو ان پر بھی یہی آیت پیش کی گئی اور یہی جواب آپ نے بھی دیا ۔ بقول ابن عباس وعیرہ فتنہ سے مراد شرک ہے اور یہ بھی کہ مسلمانوں کی کمزوری ایسی نہ رہے کہ کوئی انہیں ان کے سچے دین سے مرتد کرنے کی طاقت رکھے ۔ دین سب اللہ کا ہو جائے یعنی توحید نکھر جائے لا الہ الا اللہ کا کلمہ زبانوں پر چڑھ جائے شرک اور معبود ان باطل کی پرستش اٹھ جائے ۔ تمہارے دین کے ساتھ کفر باقی نہ رہے ۔ بخاری و مسلم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مجھے حکم فرمایا گیا ہے کہ میں لوگوں سے جہاد جاری رکھوں یہاں تک کہ وہ لا الہ اللہ کہہ لیں جب وہ اسے کہہ لیں گے تو مجھ سے اپنی جانیں اور اپنے مال بچا لیں گے ہاں حق اسلام کے ساتھ اور ان کا حساب اللہ تعالیٰ کے ذمے ہے بخاری مسلم کی ایک اور روایت میں ہے کہ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ ایک شخص اپنی بہادری کیلئے ، ایک شخص غیرت کیلئے ، ایک شخص ریا کاری کیلئے لڑائی کر رہا ہے تو اللہ کی راہ میں ان میں سے کون ہے؟ آپ نے فرمایا جو اللہ کے کلمے کو بلند کرنے کی غرض سے جہاد کرے وہ اللہ کی راہ میں ہے ۔ پھر فرمایا کہ اگر تمہارے جہاد کی وجہ سے یہ اپنے کفر سے باز آ جائیں تو تم ان سے لڑائی موقوف کر دو ان کے دلوں کا حال سپرد رب کر دو ۔ اللہ ان کے اعمال کا دیکھنے والا ہے ۔ جیسے فرمان ہے ( فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوةَ فَخَــلُّوْا سَـبِيْلَهُمْ ۭاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ Ĉ ) 9- التوبہ:5 ) ، یعنی اگر یہ توبہ کرلیں اور نمازی اور زکوٰۃ دیین والے بن جائیں تو ان کی راہ چھوڑ دو ، ان کے راستے نہ روکو ، اور آیت میں ہے کہ اس صورت میں وہ تمہارے دینی بھأای ہیں اور آیت میں ہے کہ ان سے لڑو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین اللہ کا ہو جائے پھر اگر وہ باز آ جائیں تو زیادتی کا بدلہ تو صرف ظالموں کے لئے ہی ہے ۔ ایک صحیح رویت میں ہے کہ حضرت اسامہ ایک شخص پر تلوار لے کر چڑھ گئے جب وہ زد میں آ گیا اور دیکھا کہ تلوار چلا جاہتی ہے تو اس نے جلدی سے لا الہ الا اللہ کہدیا لیکن اس کے سر پر تلوار پڑ گئی اور وہ قتل ہو گیا ۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اس واقعہ کا بیان ہوا تو آپ نے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا کیا تو نے اسے اس کے لا الہ الا اللہ کہنے کے بعد قتل کیا ؟ تو لا الہ الا اللہ کے ساتھ قیامت کے دن کیا کرے گا ؟ حضرت اسامہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ یہ تو اس نے صرف اپنے بچاؤ کیلئے کہا تھا ۔ آپ نے فرمایا کیا تو نے اس کا دل چیر کر دیکھا تھا ؟ بتا کون ہو گا جو قیامت کے دن لا الہ الا اللہ کا مقابلہ کرے ۔ بار بار آپ یہی فرماتے رہے یہاں تک کہ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میرے دل میں خیال آنے لگا کہ کاش کہ میں آج کے دن سے پہلے مسلمان ہی نہ ہوا ہوتا ؟ پھر فرماتا ہے کہ اگر یہ اب بھی باز نہ رہیں تمہاری مخالفت اور تم سے لڑائی نہ چھوڑیں تو تم یقین مانو کہ اللہ تعالیٰ تمہارا موالا ، تمہارا مالک ، تمہارا مددگار اور ناصر ہے ۔ وہ تمہیں ان پر غالب کرے گا ۔ وہ بہترین مولا اور بہترین مددگار ہے ۔ ابن جریری ہے کہ عبدالملک بن مروان نے حضرت عروہ سے کچھ باتیں دریافت کی تھیں جس کے جواب میں آپ نے انہیں لکھا سلام علیک کے بعد میں آپ کیس امنے اس اللہ کی تعریفیں کرتا ہوں جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ۔ بعد حمد و صلوۃ کے آپ کا خط ملا آپ نے ہجرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت مجھ سے سوال کیا ہے میں آپ کو اس واقعہ کی خبر لکھتا ہوں ۔ اللہ ہی کی مدد پر خیر کرنا اور شر سے روکنا موقوف ہے مکہ شریف سے آپ کے تشریف لے جانے کا واقعہ یوں ہے کہ جب اللہ تعالیٰ ٰ نے آپ کو نبوت دی ، سبحان اللہ کیسے اچھے پیشوا بہترین رہنما تھے ، اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے ہمیں جنت میں آپ کی زیارت نصیب فرمائے ہمیں آپ ہی کے دین پر زندہ رکھے اسی پر موت دے اور اسی پر قیامت کے دن کھڑا کرے ، آمیں ۔ جب آپ نے اپنی قوم کو ہدایت اور نور کی طرف دعوت دی جو اللہ نے آپ کو عطا فرمایا تھا تو شروع شروع تو انہیں کچھ زیادہ برا نہی معلوم ہوا بلکہ قریب تھا کہ آپ کی باتین سننے لگیں مگر جب ان کے معوبد ان باطل کا ذکر آیا اس وقت وہ بگڑے بیٹھے ، آپ کی باتوں کا برا ماننے لگے ، آپ پر سختی کرنے لگے ، اسی زمانے میں طائف کے چند قریشی مال لے کر پہنچے وہ بھی ان کے شریک حال ہوگئے ، اب آپ کی باتوں کے ماننے والے مسلمانوں کو طرح طرح سے ستانے لگے جس کی وجہ سے عام لوگ آپ کے اس آنے جانے سے ہٹ گئے بجز ان چند ہستیوں کے جو اللہ کی حفاظت میں تھیں یہی حالت ایک عرصے تک رہی جب تک کہ مسلمانوں کی تعداد کی کمی زیادتی کی حد تک نہیں پہنچی تھی ۔ پھر سرداران کفر نے آپ میں مشورہ کیا کہ جتنے لوگ ایمان لا چکے ہیں ان پر اور زیادہ سختی کی جائے جو جس کا رشتہ دار اور قریبی ہو وہ اسے ہر طرح تنگ کرے تاکہ وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ چھوڑ دیں اب فتنہ بڑھ گیا اور بعض لوگ ان کی سزاؤں کی تاب نہ لا کر ان کی ہاں میں ہاں ملانے لگے ۔ کھرے اور ثابت قدم لوگ دین حق پر اس مصیبت کے زمانے میں بھی جمے رہے اور اللہ نے انہیں مضبوط کر دیا اور محفوظ رکھ لیا ۔ آخر جب تکلیفیں حد سے گذر نے لگین تو رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حبشہ کی طرف ہجرت کر جانے کی اجازت دے دی ۔ حبشہ کا بادشاہ نجاشی ایک نیک آدمی تھا اس کی سلطنت ظلم و زیادتی سے خالی تھی ہر طرف اس کی تعریفیں ہو رہی تھیں ۔ یہ جگہ قریش کی تجارتی منڈی تھی جہاں ان کے تاجر رہا کرتے تھے اور بےخوف و خطر بڑی بڑی تجارتیں کیا کرتے تھے ۔ پس جو لوگ یہاں مکہ شریف میں کافروں کے ہاتھوں بہت تنگ آ گئے تھے اور اب مصیبت جھیلنے کے قابل نہیں رہے تھے اور ہر وقت انہیں اپنے دین کے اپنے ہاتھ سے چھوٹ جانے کا خطرہ لگا رہتا تھا وہ سب حبشہ چلے گئے ۔ لیکن خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہیں ٹھہرے رہے ۔ اس پر بھی جب کئی سال گذر گئے تو یہاں اللہ کے فضل سے مسلمانوں کی تعداد خاصی ہو گئی اسلام پھیل گیا اور شریف اور سردار لوگ بھی اسلامی جھنڈے تلے آ گئے یہ دیکھ کر کفر کو اپنی دشمنی کا جوش ٹھنڈا کرنا پڑا ۔ وہ ظلم و زیادتی سے بالکل تو نہیں لیکن کچھ نہ کچھ رک گئے ۔ پس وہ فتنہ جس کے زلزلوں نے صحابہ کو وطن چھوڑ نے اور حبشہ جانے پر مجبور کیا تھا اس کے کچ ھدب جانے کی خبروں نے مہاجرین حبشہ کو پھر آمادہ کیا کہ وہ مکے شریف واپس چلے آئیں ۔ چنانچہ وہ بھی تھوڑے بہت آ گئے اسی اثناء میں مدینہ شریف کے چند انصار ملسمان ہوگئے ۔ ان کی وجہ سے مدینہ شریف میں بھی اشاعت اسلام ہونے لگی ۔ ان کا مکہ شریف آنا جانا شروع ہوا اس سے مکہ والے کچھ بگڑے اور بپھر کر ارادہ کر لیا کہ دوبارہ سخت سختی کریں چنانچہ دوسری مرتبہ پھر فتنہ شروع ہوا ۔ ہجرت حبش پر پہلے فتنے نے آمادہ کیا واپسی پر پھر فتنہ پھیلا ۔ اب ستر بزرگ سردار ان مدینہ یہاں آئے اور مسلمان ہو کر آنحضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی ۔ موسم حج کے موقعہ پر یہ آئے تھے ۔ قبہ میں انہوں نے بیعت کی ، عہدو پیمان ، قول و قرر ہوئے کہ ہم آپ کے اور آپ ہمارے ۔ اگر کوئی بھی آپ کا آدمی ہمارے ہاں آ جائے تو ہم اس کے امن و امان کے ذمے دار ہیں خود آپ اگر تشریف لائیں تو ہم جان مال سے آپ کے ساتھ ہیں ۔ اس چیز نے قریش کو اور بھڑکا دیا اور انہوں نے ضعیف اور کمزور مسلمانوں کو اور ستانا شروع کر دیا ۔ ان کی سزائیں بڑھا دیں اور خون کے پیاسے ہوگئے ۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دے دی کہ وہ مدینہ شریف کی طرف ہجرت کر جائیں یہ تھا آخری اور انتہائی فتنہ جس نے نہ صرف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ہی نکالا بلکہ خود اللہ کے محترم رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی مکے کو خالی کر گئے ۔ یہی ہے وہ جسے اللہ فرماتا ہے ان سے جہاد جاری رکھو یہاں تک کہ فتنہ مٹ جائے اور سارا دین اللہ کا ہی ہو جائے ۔ الحمد اللہ نویں پارے کی تفسیر بھی ختم ہوئی ۔ اللہ تعالیٰ اسے قبول فرمائے ۔
38۔ 1 باز آجانے کا مطلب، مسلمان ہونا ہے۔ جس طرح حدیث میں بھی ہے جس نے اسلام قبول کرکے نیکی کا راستہ اپنالیا، اس سے اس کے ان گناہوں کی باز پرس نہیں ہوگی جو اس نے جاہلیت میں کئے ہونگے اور جس نے اسلام لاکر بھی برائی نہ چھوڑی، اس سے اگلے پچھلے سب عملوں کا مواخذہ ہوگا (صحیح مسلم) ایک اور حدیث میں ہے۔ اسلام ماقبل کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔ 38۔ 2 یعنی اگر وہ اپنے کفر وعناد پر قائم رہے تو جلد یا بدیر عذاب الہی کے مورد بن کر رہیں گے۔
[٣٩] یعنی غزوہ بدر میں شکست فاش سے دو چار ہونے کے بعد اگر اب بھی یہ کافر اپنی معاندانہ سرگرمیوں سے باز آجائیں تو ان کی سابقہ خطائیں معاف ہوسکتی ہیں اور اگر باز نہیں آتے تو ان کا بھی وہی حشر ہوگا جو غزوہ بدر میں ان کے پیشروؤں کا ہوچکا ہے (سنۃ الاولین) کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کافر قوم پر بھی اسی طرح اللہ کا عذاب آئے گا۔ جس طرح سابقہ سرکش اقوام پر آتا رہا ہے۔
قُلْ لِّلَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اِنْ يَّنْتَهُوْا : ” نَھٰی یَنْھَی “ منع کرنا اور ” اِنْتَھَی یَنْتَھِیْ “ باز آجانا۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ عذاب کی ان تمام وعیدوں کے باوجود امید کا دروازہ کھلا ہے۔ چناچہ نبی رحمت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم ہوا کہ آپ ان منکروں سے کہہ دیں کہ اب بھی اگر وہ عناد اور کفر سے باز آجائیں، اسلام میں داخل ہوجائیں اور ایک اللہ کی عبادت اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت اختیار کرلیں تو ان کے پہلے قصور معاف کردیے جائیں گے۔ عمرو بن العاص (رض) فرماتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے میرے دل کو اسلام کی طرف مائل کیا تو میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا : ” اپنا دایاں ہاتھ پھیلائیے کہ میں بیعت کروں۔ “ آپ نے اپنا دایاں ہاتھ پھیلایا تو میں نے اپنا ہاتھ پیچھے ہٹا لیا، آپ نے فرمایا : ” عمرو تمہیں کیا ہوا ؟ “ میں نے عرض کیا : ” میں ایک شرط کرنا چاہتا ہوں ؟ “ فرمایا : ” کس چیز کی شرط کرنا چاہتے ہو ؟ “ میں نے کہا : ” یہ کہ مجھے بخش دیا جائے۔ “ آپ نے فرمایا : ” کیا تمہیں معلوم نہیں کہ اسلام اپنے سے پہلے گناہ گرا دیتا ہے اور ہجرت اپنے سے پہلے گناہ گرا دیتی ہے اور حج اپنے سے پہلے گناہ گرا دیتا ہے۔ “ [ مسلم، الإیمان، باب کون الإیمان یہدم ما قبلہ : ١٢١ ]- باز آجانے میں یہ بھی شامل ہے کہ اسلام لا کر اپنی حالت بھی بدلیں۔ ابن مسعود (رض) فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے کہا : ” یارسول اللہ کیا ہم نے جو کچھ جاہلیت میں کیا اس پر ہمارا مؤاخذہ ہوگا ؟ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” جو اسلام میں اچھے عمل کرے گا تو اس سے جاہلیت میں کیے ہوئے اعمال کا مؤاخذہ نہیں ہوگا اور جس نے اسلام میں برے عمل کیے وہ پہلے اور پچھلے اعمال کے ساتھ پکڑا جائے گا۔ “ [ بخاری، استتابۃ المرتدین والمعاندین و قتالہم، باب إثم من أشرک۔۔ : ٦٩٢١ ]- وَاِنْ يَّعُوْدُوْا فَقَدْ مَضَتْ سُنَّةُ الْاَوَّلِيْنَ : یعنی اگر پھر اسلام کو اکھیڑنے اور مسلمانوں کی طاقت ختم کرنے کا منصوبہ بنائیں تو جس طرح پہلے لوگ تباہ و برباد ہوئے، جنھوں نے انبیاء کو ستایا اور ان سے جنگ کی اسی طرح یہ بھی تباہ و برباد ہوں گے اور اس سے پہلے جنگ بدر میں ان کا جو حشر ہوا اب بھی وہی ہوگا۔ (ابن کثیر)
اڑتیسویں آیت میں کفار کے لئے پھر ایک مربیانہ خطاب ہے جس میں ترغیب بھی ہے اور ترہیب بھی۔ ترغیب اس کی ہے کہ اگر وہ ان تمام افعال شنیعہ کے بعد اب بھی توبہ کرلیں اور ایمان لے آئیں تو پچھلے سب گناہ معاف کردیئے جائیں گے اور ترہیب یہ کہ اگر وہ اب بھی باز نہ آئے تو سمجھ لیں کہ ان کے لئے اللہ تعالیٰ کو کوئی نیا قانون بنانا یا سوچنا نہیں پڑتا۔ پہلے زمانہ کے کافروں کے لئے جو قانون جاری ہوچکا ہے وہ ہی ان پر بھی جاری ہوگا کہ دنیا میں ہلاک و برباد ہوئے اور آخرت میں عذاب کے مستحق ہوئے۔
قُلْ لِّلَّذِيْنَ كَفَرُوْٓا اِنْ يَّنْتَہُوْا يُغْفَرْ لَہُمْ مَّا قَدْ سَلَفَ ٠ ۚ وَاِنْ يَّعُوْدُوْا فَقَدْ مَضَتْ سُـنَّۃُ الْاَوَّلِيْنَ ٣٨- كفر - الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، - وأعظم الكُفْرِ- : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] - ( ک ف ر ) الکفر - اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔- اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔- نهى- النهي : الزّجر عن الشیء . قال تعالی: أَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهى عَبْداً إِذا صَلَّى[ العلق 9- 10]- ( ن ھ ی ) النهي - کسی چیز سے منع کردینا ۔ قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهى عَبْداً إِذا صَلَّى[ العلق 9- 10] بھلاتم نے اس شخص کو دیکھا جو منع کرتا ہے ( یعنی ) ایک بندے کو جب وہ نماز پڑھنے لگتا ہے ۔- سلف - السَّلَفُ : المتقدّم، قال تعالی: فَجَعَلْناهُمْ سَلَفاً وَمَثَلًا لِلْآخِرِينَ [ الزخرف 56] ، أي : معتبرا متقدّما، وقال تعالی: فَلَهُ ما سَلَفَ [ البقرة 275] ، أي : يتجافی عمّا تقدّم من ذنبه، وکذا قوله : وَأَنْ تَجْمَعُوا بَيْنَ الْأُخْتَيْنِ إِلَّا ما قَدْ سَلَفَ [ النساء 23] ، أي : ما تقدّم من فعلکم، فذلک متجافی عنه، فالاستثناء عن الإثم لا عن جواز الفعل، ولفلان سَلَفٌ كريم، أي :- آباء متقدّمون، جمعه أَسْلَافٌ ، وسُلُوفٌ. والسَّالِفَةُ صفحة العنق، والسَّلَفُ : ما قدّم من الثّمن علی المبیع، والسَّالِفَةُ والسُّلَافُ : المتقدّمون في حرب، أو سفر، وسُلَافَةُ الخمر :- ما بقي من العصیر، والسُّلْفَةُ : ما يقدّم من الطعام علی القری، يقال : سَلِّفُوا ضيفكم ولهّنوه - ( س ل ف ) السلف کے معنی متقدم یعنی پہلے گزر جانے والا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ؛ فَجَعَلْناهُمْ سَلَفاً وَمَثَلًا لِلْآخِرِينَ [ الزخرف 56] ان کو گئے گزرے کردیا اور پچھلوں کے لئے عبرت بنا دیا ۔ فَلَهُ ما سَلَفَ [ البقرة 275] تو جو پہلے ہوچکا وہ اسکا ۔ یعنی اس کے پہلے گناہ کو معاف کردیا جائے گا ۔ اور اس پر کوئی گرفت نہیں ہوگی ۔ اس طرح آیت إِلَّا ما قَدْ سَلَفَ [ النساء 23] مگر ( جاہلیت میں ) جو ہوچکا ( سو ہوچکا ) میں ما سلف سے مراد یہ ہے کہ جو گناہ اس سے قبل ہوچکے ہیں وہ معاف کردیے جائیں گے ۔ تو یہاں استثناء جواز فعل سے نہیں ہے کہ جو نکاح پہلے ہوچکے ہیں وہ جائز اور مباح ہیں بلکہ یہاں استثناء گناہ سے ہے یعنی اس سے قبل جو نکاح ہوچکے ہیں ان کا گناہ معاف کردیا جائیگا اور اس پر کوئی گرفت نہیں ہوگی اور لفلان سلف کریم کے معنی ہیں اس کے آباؤ اجداد کریم تھے ۔ سلف کی جمع اسلاف اور سلوف آتی ہے ۔ اور کسی چیز کی پیشگی قیمت ادا کرنے کو بھی سلف کہا جاتا ہے ۔ السالفۃ گردن کے کنارے کو کہتے ہیں اور لڑائی میں ہراول دستہ یا سفر میں قافلہ سے آگے جانے والے لوگوں کو سالفۃ اور سلاف کہا جاتا ہے ۔ سلافۃ الخمر باقی ماندہ عصیرہ ۔ السلفۃ ( ناشتہ ) یعنی وہ طعام جو مہمانی سے پہلے مہمان کو پیش کیا جائے ۔ محاورہ ہے ۔ سَلِّفُوا ضيفكم ولهّنوه : اپنے مہمان کو نکل کھلاؤ ۔ ( س ل ق ) السلق قہر و غلبہ کے ساتھ دست یا زبان درازی کرنا کے ہیں اور اسی سے تسلق علی الحائط ہے جس کے معنی دیوار پھاندنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : سَلَقُوكُمْ بِأَلْسِنَةٍ حِدادٍ [ الأحزاب 19] تو تیز زبانوں کے ساتھ تمہارے بارے میں زبان درازی کریں گے ۔ محاورہ ہے : سَلَقَ امرأته : اپنی عورت کو زبردستی لٹا کر اس کے ساتھ جماع کیا ۔ (235) ( وإن شئت سلقناک ... وإن شئت علی أربع ) چاہو تو چت لیٹ جاؤ اور چاہو تو پٹ لیٹو ۔ اور سلق کے معنی شلیتے کے ایک حلقے کو دوسرے میں داخل کرنے کے ہیں اور میدہ کی روٹی کو سلیقۃ کہا جاتا ہے اس کی جمع سلائق آتی ہے اور سلیقۃ بمعنی طبیعت بھی آتا ہے اور سلق کے معنی ہموار اور عمدہ زمین کے ہیں ۔ - مضی - المُضِيُّ والمَضَاءُ : النّفاذ، ويقال ذلک في الأعيان والأحداث . قال تعالی: وَمَضى مَثَلُ الْأَوَّلِينَ- [ الزخرف 8] ، فَقَدْ مَضَتْ سُنَّتُ الْأَوَّلِينَ [ الأنفال 38] .- ( م ض ی ) المضی - والمضاء کسی چیز کا گذر جانا اور چلے جانا یہ اعیان واحد اث دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَمَضى مَثَلُ الْأَوَّلِينَ [ الزخرف 8] اور اگلے لوگوں کی مثال گذر گئی ۔ فَقَدْ مَضَتْ سُنَّتُ الْأَوَّلِينَ [ الأنفال 38] رو اگلے لوگوں کی سنت گذر چکی ہے ( وہی ان کے حق میں برقی جائے گی ۔- سنن - وتنحّ عن سَنَنِ الطّريق، وسُنَنِهِ وسِنَنِهِ ، فالسُّنَنُ : جمع سُنَّةٍ ، وسُنَّةُ الوجه : طریقته، وسُنَّةُ النّبيّ : طریقته التي کان يتحرّاها، وسُنَّةُ اللہ تعالی: قد تقال لطریقة حکمته، وطریقة طاعته، نحو : سُنَّةَ اللَّهِ الَّتِي قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلُ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبْدِيلًا [ الفتح 23] ، وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّهِ تَحْوِيلًا [ فاطر 43] ، فتنبيه أنّ فروع الشّرائع۔ وإن اختلفت صورها۔ فالغرض المقصود منها لا يختلف ولا يتبدّل، وهو تطهير النّفس، وترشیحها للوصول إلى ثواب اللہ تعالیٰ وجواره، وقوله : مِنْ حَمَإٍ مَسْنُونٍ [ الحجر 26] ، قيل : متغيّر، وقوله : لَمْ يَتَسَنَّهْ [ البقرة 259] ، معناه : لم يتغيّر، والهاء للاستراحة «1» .- سنن - تنح عن سنن الطریق ( بسین مثلثہ ) راستہ کے کھلے حصہ سے مٹ ج اور ۔ پس سنن کا لفظ سنۃ کی جمع ہے اور سنۃ الوجہ کے معنی دائرہ رد کے ہیں اور سنۃ النبی سے مراد آنحضرت کا وہ طریقہ ہے جسے آپ اختیار فرماتے تھے ۔ اور سنۃ اللہ سے مراد حق تعالیٰ کی حکمت اور اطاعت کا طریقہ مراد ہوتا ہے جیسے فرمایا : سُنَّةَ اللَّهِ الَّتِي قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلُ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبْدِيلًا [ الفتح 23]( یہی) خدا کی عادت ہے جو پہلے سے چلی آتی ہے اور تم خدا کی عادت کبھی بدلتی نہ دیکھو گے ۔ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّهِ تَحْوِيلًا [ فاطر 43] اور خدا کے طریقے میں کبھی تغیر نہ دیکھو گے ۔ تو آیت میں اس بات پر تنبیہ پائی جاتی ہے ۔ کہ شرائع کے فروغی احکام کی گو مختلف صورتیں چلی آئی ہیں ۔ لیکن ان سب سے مقصد ایک ہی ہے ۔ یعنی نفس کو پاکر کرنا اور اسے اللہ تعالیٰ کے ہاں ثواب اور اس کا جوار حاصل کرنے کے لئے تیار کرنا اور یہ مقصد ایسا ہے کہ اس میں اختلاف یا تبدیلی نہیں ہوسکتی ۔ اور آیت :- مِنْ حَمَإٍ مَسْنُونٍ [ الحجر 26] سڑے ہوئے گارے سے ۔
(٣٨) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ابوسفیان اور اس کی جماعت سے کہہ دیجیے کہ اگر یہ کفر وشرک اور بتوں کی عبادت اور آپ کے ساتھ لڑائی کرنے سے رک جائیں تو ان کے پہلے تمام گناہ معاف کردیے جائیں گے اور اگر یہ آپ کے ساتھ لڑائی اور دشمنی باقی رکھیں گے تو پہلے کافروں کے بارے میں قانون نافذ ہوچکا ہے کہ اولیاء اللہ کی بدر کے دن اعداء اللہ کے مقابلہ میں مدد کی گئی۔
آیت ٣٨ (قُلْ لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اِنْ یَّنْتَہُوْا یُغْفَرْ لَہُمْ مَّا قَدْ سَلَفََ ج) ۔- یعنی اب بھی موقع ہے کہ ایمان لے آؤ تو تمہاری پہلی تمام خطائیں معاف کردی جائیں گی۔- (وَاِنْ یَّعُوْدُوْا فَقَدْ مَضَتْ سُنَّتُ الْاَوَّلِیْنَ ) ۔- انہیں سب معلوم ہے کہ جن قوموں نے اپنے رسولوں کا انکار کیا تھا ان کا کیا انجام ہو اتھا۔ سورة الانفال سے پہلے مکی قرآن تو پورے کا پورا نازل ہوچکا تھا ‘ سورة الانعام اور سورة الاعراف بھی نازل ہوچکی تھیں۔ لہٰذا قوم نوح ( علیہ السلام) ‘ قوم ہود ( علیہ السلام) ‘ قوم صالح ( علیہ السلام) ‘ قوم شعیب ( علیہ السلام) اور قوم لوط ( علیہ السلام) کے عبرتناک انجام کی تفصیلات سب کو معلوم ہوچکی تھیں۔
22: اس آیت نے یہ اصول بتا دیا ہے کہ جب کوئی شخص ایمان لے آئے تو کفر کی حالت میں اس نے جتنے بھی گناہ کئے ہوں وہ سب معاف ہوجاتے ہیں، یہاں تک کہ پچھلی نمازوں، روزوں اور دوسری عبادتوں کی قضا بھی اس کے ذمے لازم نہیں ہوتی۔ 23: اس سے ان کافروں کی بھی اشارہ ہے جو جنگ بدر میں مارے گئے اور ان پچھلی امتوں کی طرف بھی جن پر عذاب نازل ہوا۔ مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کا انجام تمہارے سامنے گذر چکا ہے۔ اگر تم اپنی ضد سے باز نہ آئے تو ویسا ہی انجام تمہارا بھی ہوسکتا ہے۔