39۔ 1 فتنہ سے مراد شرک ہے۔ یعنی اس وقت تک جہاد جاری رکھو، جب تک شرک کا خاتمہ نہ ہوجائے۔ 39۔ 2 یعنی اللہ کی توحید کا پرچار تمام عالم میں لہرا جائے۔ 39۔ 3 یعنی تمہارے لئے ان کا ظاہری اسلام ہی کافی ہے، باطن کا معاملہ اللہ کے سپرد کردو، کیونکہ اس کو ظاہر و باطن ہر چیز کا علم ہے۔
[٤٠] فتنہ کا مفہوم اور جہاد کی ضرورت :۔ فتنہ کا لفظ بڑا وسیع المعنیٰ ہے اور یہاں اس کا مفہوم اسلام کے خلاف ہر وہ معاندانہ کوشش ہے جو اسلام کی راہ میں رکاوٹ بن رہی ہو۔ ایسی رکاوٹ کو راستے سے ہٹانے اور اسلام کی راہ صاف کرنے کا نام جہاد فی سبیل اللہ ہے۔ اب ان معاندانہ سرگرمیوں کی بھی دو قسمیں ہیں۔ ایک یہ کہ جہاں مسلمان رہتے ہوں وہاں کے کافر انہیں شرعی احکام بجا لانے کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کردیں یا ان پر عرصہ حیات تنگ کردیں اور دوسری قسم یہ ہے کہ مسلمان اپنی جگہ تو آزاد ہوں مگر دوسروں تک اسلام کی آواز پہنچانے میں رکاوٹیں کھڑی کردی جائیں۔ اسلام ان دونوں صورتوں میں جہاد کا حکم دیتا ہے۔ آج کی زبان میں پہلی قسم کے جہاد کا نام دفاعی جنگ ہے اور دوسری قسم کے جہاد کا نام جارحانہ جنگ ہے۔ اسلام ان دونوں طرح کی جنگوں میں کوئی فرق نہیں کرتا۔ کیونکہ جہاد فی سبیل اللہ کی تعریف ہی یہ ہے کہ (وَكَلِمَةُ اللّٰهِ ھِىَ الْعُلْيَا ۭوَاللّٰهُ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ 40) 9 ۔ التوبہ :40) یعنی اللہ کے کلمہ کا بول بالا ہو اور یہ اسی صورت میں حاصل ہوسکتا ہے کہ ہر طرح کی رکاوٹ یا فتنہ کا قلع قمع کردیا جائے۔- [٤١] جارحانہ جہاد کے لیے شرائط :۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ جب تک ساری دنیا مسلمان نہ ہوجائے جہاد کرتے رہو۔ ایسی جارحانہ جنگ کا کوئی جواز نہیں۔ کیونکہ اسلام لانے پر کسی کو مجبور نہیں کیا جاسکتا چہ جائیکہ بزور شمشیر اسلام لانے پر مجبور کیا جائے۔ بلکہ یہ مطلب ہے کہ کوئی ملک یا علاقہ یا قوم اسلام کی راہ میں رکاوٹ کھڑی نہ کرے اور اس کی کئی صورتیں ہیں۔ مثلاً وہ مسلمان ہوجائے یا جزیہ دینا قبول کرلے یا مسلمانوں کی حلیف بن جائے یا غیر جانبدار رہنا گوارا کرلے اور معاہد بن جائے ان صورتوں میں اس سے تعرض نہیں کیا جائے گا۔ بالفاظ دیگر اس جملہ کا یہ مطلب ہوگا کہ اسلام کی بالادستی قائم ہوجائے اور اس بالادستی کی مکمل ترین صورت یہ ہے کہ ساری دنیا مسلمان ہوجائے جیسا کہ نزول مسیح کے بعد عیسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ میں ہوگا۔
وَقَاتِلُوْهُمْ حَتّٰي لَا تَكُوْنَ فِتْنَةٌ : ” فِتْنَةٌ“ کے لفظی معنی آگ میں تپانے اور آزمانے کے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت تک کفار سے لڑتے رہو جب تک کسی شخص کے اسلام لانے پر مشرکوں کی اسے ستانے اور آزمائش میں ڈالنے کی قوت ختم نہیں ہوجاتی اور تمام دنیا سے شرک کا غلبہ ختم نہیں ہوتا۔ اس لیے صحیح احادیث میں فتنہ کا معنی شرک بھی آیا ہے۔ مگر اس سے مراد زبردستی مسلمان بنانا اور مشرکین و کفار کو ختم کرنا نہیں، فرمایا : (لَآ اِكْرَاهَ فِي الدِّيْنِ ) [ البقرۃ : ٢٥٦ ] ” دین میں کوئی زبردستی نہیں۔ “ کیونکہ پھر کفار کے جزیہ دینے کی نوبت ہی نہیں آسکتی، بلکہ اس وقت تک لڑتے رہنا ہے جب تک ایمان لانے والوں کے راستے میں کفار کے رکاوٹ بننے کی قوت ختم نہیں ہوتی، پوری دنیا پر اسلام کا غلبہ نہیں ہوتا اور کفر پر اصرار کی صورت میں جزیہ دے کر اسلام کی برتری تسلیم نہیں کرتے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے سورة بقرہ (١٩١، ١٩٣، ٢١٧) اور توبہ (٢٩) ۔- وَّيَكُوْنَ الدِّيْنُ كُلُّهٗ لِلّٰهِ : یعنی تمام دینوں پر اسلام کا غلبہ ہوجائے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے جنگ کرتا رہوں، یہاں تک کہ وہ لا الٰہ الا اللہ کی شہادت اور محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شہادت دیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں، پھر جب وہ یہ کچھ کرلیں تو انھوں نے اپنے خون اور اموال مجھ سے محفوظ کرلیے، مگر اسلام کے حق کے ساتھ اور ان کا حساب اللہ کے ذمے ہے۔ “ [ بخاری، الإیمان، باب فإن تابوا و أقاموا۔۔ : ٢٥، عن عبداللہ بن عمرو (رض) ۔ مسلم : ٢٢ ]- فَاِنِ انْتَهَـوْا فَاِنَّ اللّٰهَ بِمَا يَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ : یعنی اسلام لے آئیں تو تمہارے لیے ان کا ظاہر کافی ہے۔ اگر وہ دل سے مسلمان نہیں ہوئے یا چھپ کر کوئی غلط کام کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کے ظاہری اور باطنی اعمال کو خوب دیکھنے والا ہے، وہ خود نمٹ لے گا۔
خلاصہ تفسیر - اور (پھر ان کے اس کافر رہنے کی صورت میں اے مسلمانو) تم ان (کفار عرب) سے اس حد تک لڑو کہ ان میں فساد عقیدہ (یعنی شرک) نہ رہے اور ( اللہ کا) دین (خالص) اللہ ہی کا ہوجائے (اور کسی کے دین کا خالصۃً اللہ ہی کے لئے ہوجانا موقوف ہے قبول اسلام پر تو حاصل یہ ہوا کہ شرک چھوڑ کر اسلام اختیار کریں خلاصہ یہ کہ اگر نہ اسلام لائیں تو ان سے لڑو جب تک اسلام نہ لائیں کیونکہ کفار عرب سے جزیہ نہیں لیا جاتا) پھر اگر یہ (کفر سے) باز آجائیں تو (ان کے ظاہری اسلام کو قبول کرو دل کا حال مت ٹٹولو کیونکہ اگر یہ دل سے ایمان نہ لائیں گے تو) اللہ تعالیٰ ان کے اعمال کو خوب دیکھتے ہیں (وہ آپ سمجھ لیں گے تم کو کیا) اور اگر ( اسلام سے) روگردانی کریں تو ( اللہ کا نام لے کر ان کے مقابلہ سے مت ہٹو اور) یقین رکھو کہ اللہ تعالیٰ (ان کے مقابلہ میں) تمہارا رفیق ہے وہ بہت اچھا رفیق ہے اور بہت اچھا مددگار ہے (سو وہ تمہاری رفاقت اور نصرت کرے گا) ۔- معارف و مسائل - یہ سورة انفال کی انتالیسویں آیت ہے اس میں دو لفظ قابل غور ہیں ایک لفظ فتنہ دوسرا دین۔ یہ دونوں لفظ عربی لغت کے اعتبار سے کئی معنی کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔ - ائمة تفسیر صحابہ وتابعین سے اس جگہ دو معنی منقول ہیں۔ ایک یہ کہ فتنہ سے مراد کفر و شرک اور دین سے مراد دین اسلام لیا جائے۔ حضرت عبداللہ بن عباس سے یہی تفسیر منقول ہے۔ اس تفسیر پر معنی آیت کے یہ ہوں گے کہ مسلمانون کو کفار سے قتال اس وقت تک جاری رکھنا چاہئے جب تک کہ کفر مٹ کر اس کی جگہ اسلام آجائے اسلام کے سوا کوئی دین و مذہب باقی نہ رہے۔ اس صورت میں یہ حکم صرف اہل مکہ اور اہل عرب کے لئے مخصوص ہوگا۔ کیونکہ جزیرة العرب اسلام کا گھر ہے اس میں اسلام کے سوا کوئی دوسرا دین رہے تو دین اسلام کے لئے خطرہ ہے۔ باقی ساری دنیا میں دوسرے ادیان و مذاہب کو قائم رکھا جاسکتا ہے۔ جیسا کہ قرآن کریم کی دوسری آیات اور روایات حدیث اس پر شاہد ہیں۔- اور دوسری تفسیر جو حضرت عبداللہ بن عمر وغیرہ سے منقول ہے وہ یہ ہے کہ فتنہ سے مراد اس جگہ وہ ایذاء اور عذاب و مصیبت ہے جس کا سلسلہ کفار مکہ کی طرف سے مسلمانوں پر ہمیشہ جاری رہا تھا جب تک وہ مکہ میں تھے تو ہر وقت ان کے نرغہ میں پھنسے ہوئے طرح طرح کی ایذائیں سہتے رہے پھر جب مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت کی تو ایک ایک مسلمان کا تعاقب کرکے قتل و غارتگری کرتے رہے مدینہ میں پہنچنے کے بعد بھی پورے مدینہ پر حملوں کی صورت میں ان کا غیظ و غضب ظاہر ہوتا رہا۔ - اور اس کے بالمقابل دین کے معنی قہر و غلبہ کے ہیں اس صورت میں تفسیر آیت کی یہ ہوگئی کہ مسلمانوں کو کفار سے اس وقت تک قتال کرتے رہنا چاہئے جب تک کہ مسلمان ان کے مظالم سے محفوظ نہ ہوجائیں اور دین اسلام کا غلبہ نہ ہوجائے کہ وہ غیروں کے مظالم سے مسلمانوں کی حفاظت کرسکے۔ حضرت عبداللہ بن عمر کے ایک واقعہ سے بھی اسی تفسیر کی تائید ہوتی ہے، واقعہ یہ ہے کہ جب امیر مکہ حضرت عبداللہ بن زبیر کے مقابلہ میں حجاج بن یوسف نے فوج کشی کی اور دونوں طرف مسلمانوں کی تلواریں مسلمانوں کے مقابلہ پر چل رہی تھیں تو دو شخص حضرت عبداللہ بن عمر کے پاس حاضر ہوئے اور کہا کہ اس وقت جس بلاء میں مسلمان مبتلا ہیں آپ دیکھ رہے ہیں حالانکہ آپ عمر بن خطاب (رض) کے صاجزادے ہیں جو کسی طرح ایسے فتنوں کو برداشت کرنے والے نہ تھے۔ کیا سبب ہے کہ آپ اس فتنہ کو رفع کرنے کے لئے میدان میں نہیں آتے۔ تو حضرت عبداللہ بن عمر نے فرمایا کہ سبب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کسی مسلمان کا خون بہانا حرام قرار دیا ہے۔ ان دونوں نے عرض کیا کہ کیا آپ قرآن کی یہ آیت نہیں پڑھتے (آیت) قَاتِلُوْهُمْ حَتّٰي لَا تَكُوْنَ فِتْنَةٌ۔ یعنی مقاتلہ کرتے رہو یہاں تک کہ فتنہ نہ رہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر نے فرمایا کہ بیشک میں یہ آیت پڑھتا ہوں اور اس پر عمل بھی کرتا ہوں۔ ہم نے اس آیت کے مطابق کفار سے قنال جاری رکھا یہاں تک کہ فتنہ ختم ہوگیا اور غلبہ دین اسلام کا ہوگیا۔ اور تم لوگ یہ چاہتے ہو کہ اب باہم قتال کرکے فتنہ پھر پیدا کردو اور غلبہ غیر اللہ کا اور دین حق کے خلاف کا ہوجائے۔ مطلب یہ تھا کہ جہاد و قتال کا حکم فتنہ کفر اور مظالم کفار کے مقابلہ میں تھا وہ ہم کرچکے اور برابر کرتے رہے یہاں تک کہ یہ فتنہ فرو ہوگیا۔ مسلمانوں کی باہمی خانہ جنگی کو اس پر قیاس کرنا صحیح نہیں بلکہ مسلمانوں کے باہمی مقاتلہ کے وقت تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہدایات یہ ہیں کہ اس میں بیٹھا رہنے والا کھڑا ہونے والے سے بہتر ہے۔- خلاصہ اس تفسیر کا یہ ہے کہ مسلمانوں پر اعداء اسلام کے خلاف جہاد و قتال اس وقت تک واجب ہے جب تک کہ مسلمانوں پر ان کے مظالم کا فتنہ ختم نہ ہوجائے اور اسلام کو سب ادیان پر غلبہ حاصل نہ ہوجائے۔ اور یہ صورت صرف قرب قیامت میں ہوگی اس لئے جہاد کا حکم قیامت تک جاری اور باقی ہے۔- اعداء اسلام کے خلاف جہاد و قتال کے نتیجہ میں دو صورتیں پیدا ہوسکتی تھیں۔ ایک یہ کہ وہ مسلمانوں پر ظلم و جور سے باز آجائیں خواہ اس طرح کہ اسلامی برادری میں داخل ہو کر بھائی بن جائیں یا اس طرح کہ اپنے مذہب پر رہتے مسلمانوں پر ظلم و ستم سے باز آجائیں اور اطاعت کا معاہدہ کرلیں۔ - دوسرے یہ کہ وہ ان صورتوں میں سے کسی کو قبول نہ کریں اور مقابلہ پر جمے رہیں اگلی آیت میں ان دونوں صورتوں کے احکام مذکور ہیں۔ ارشاد فرمایا :- (آیت) فَاِنِ انْتَهَـوْا فَاِنَّ اللّٰهَ بِمَا يَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ، یعنی اگر وہ باز آجائیں تو اللہ تعالیٰ ان کے اعمال کو خوب دیکھتے ہیں۔ - اس کے مطابق ان کے ساتھ معاملہ فرمادیں گے جس کا حاصل یہ ہے کہ اگر وہ باز آجائیں تو ان کے خلاف جہاد کو بند کردیا جائے۔ اس صورت میں مسلمانوں کو یہ خطرہ ہوسکتا تھا کہ معرکہ قتال کے بعد کفار کی طرف سے صلح کا معاہدہ یا مسلمان ہوجانے کا اظہار بہت ممکن ہے کہ محض کوئی جنگی چال اور دھوکہ ہو۔ ایسی صورت میں جنگ بند کردیا مسلمانوں کے لئے مضر ہوسکتا ہے۔ اس کا جواب ان الفاظ سے دیا گیا کہ مسلمان تو ظاہری اعمال کے پابند ہیں، دلوں کا دیکھنے والا اور ان کے مخفی سرائر کا جاننے والا صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ اس لئے جب وہ مسلمان ہونے کا اظہار کریں یا معاہدہ صلح کرلیں تو مسلمان اس پر مجبور ہیں کہ جہاد و قتال بند کردیں۔ رہا یہ معاملہ کہ انہوں نے سچے دل سے اسلام یا صلح کو قبول کیا ہے یا اس میں دھوکہ ہے اس کو اللہ تعالیٰ خوب دیکھتے جانتے ہیں اگر وہ ایسا کریں گے تو اس کا دوسرا انتظام ہوجائے گا۔ مسلمانوں کو ان خیالات اور خطرات پر اپنے معاملات کی بنیاد نہیں رکھنا چاہئے۔ - اگر اظہار اسلام یا معاہدہ صلح کے بعد ان پر ہاتھ اٹھایا گیا تو جہاد کرنے والے مجرم ہوجائیں گے جیسا کہ صحیح بخاری و مسلم کی ایک حدیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ مجھے اس کا حکم دیا گیا ہے کہ میں دشمنان اسلام سے قتال کرتا رہوں یہاں تک کہ وہ کلمہ لآ الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کو قبول کرلیں اور نماز قائم کریں اور زکوة ادا کریں اور جب وہ ایسا کرلیں تو ان کے خون اور اموال سب محفوظ ہوجائیں گے۔ بجز اس کے کہ اسلامی قانون کے ماتحت کسی جرم کی پاداش میں ان کو سزا دی جائے۔ اور ان کے دلوں کا حساب اللہ پر رہے گا کہ وہ سچے دل سے اس کلمہ اور اعمال اسلام کو قبول کررہے ہیں یا نفاق سے۔ - دوسری ایک حدیث جو ابوداؤد نے بہت سے صحابہ کرام کی روایت سے نقل کی ہے یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جو شخص کسی معاہد پر یعنی اس شخص پر جس نے اسلامی حکومت کی اطاعت و وفاداری کا معاہدہ کرلیا ہو کوئی ظلم کرے یا اس کو نقصان پہنچائے یا اس سے کوئی ایسا کام لے جو اس کی طاقت سے زائد ہے یا اس کی کوئی چیز بغیر اس کی دلی رضامندی کے حاصل کرے تو میں قیامت کے دن اس مسلمان کے خلاف معاہد کی حمایت کروں گا۔ - قرآن مجید کی آیت مذکورہ اور روایات حدیث نے بظاہر مسلمانوں کو ایک سیاسی خطرہ میں مبتلا کردیا کہ بڑے سے بڑا دشمن اسلام جب ان کی زد میں آجائے اور محض جان بچانے کے لئے کلمہ اسلام پڑھ لے تو مسلمانوں پر لازم کردیا کہ فورا اپنا ہاتھ روک لیں اس طرح تو وہ کسی دشمن پر بھی قابو نہیں پاسکتے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے ان کے مخفی سرائر کو اپنے ذمہ لے کر معجزانہ انداز میں یہ کر دکھایا کہ عملی طور پر مسلمانوں کو کسی میدان جنگ میں ایسا ابتلاء پیش نہیں آیا۔ البتہ صلح کی حالت میں سیکڑوں منافقین پیدا ہوئے جنہوں نے دھوکہ دینے کے لئے اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کیا اور بظاہر نماز روزہ بھی ادا کرنے لگے۔ ان میں سے بعض کم ظرف لوگوں کا تو اتنا ہی مقصد تھا کہ مسلمانوں سے کچھ فوائد حاصل کرلیں اور دشمنی کرنے کے باوجود ان کے اتنقام سے محفوظ رہیں۔ اور بعض وہ بھی تھے جو سیاسی مقصد لے کر مسلمانوں کے راز معلوم کرنے اور مخالفین سے سازش کرنے کے لئے ایسا کررہے تھے۔ مگر اللہ تعالیٰ کے قانون نے ان سب کے بارے میں مسلمانوں کو یہی ہدایت دی کہ وہ ان کے ساتھ مسلمانوں کا سا معاملہ کریں جب تک خود ان کی طرف سے اسلام دشمنی اور معاہدہ کی خلاف ورزی ثابت نہ ہوجائے۔ - قرآن کی یہ تعلیم تو اس صورت میں تھی جب کہ دشمنان اسلام اپنی دشمنی سے باز آجانے کا اقرار اور معاہدہ کرلیں۔
وَقَاتِلُوْہُمْ حَتّٰي لَا تَكُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّيَكُوْنَ الدِّيْنُ كُلُّہٗ لِلہِ ٠ ۚ فَاِنِ انْتَہَـوْا فَاِنَّ اللہَ بِمَا يَعْمَلُوْنَ بَصِيْرٌ ٣٩- قتل - أصل القَتْلِ : إزالة الروح عن الجسد کالموت، لکن إذا اعتبر بفعل المتولّي لذلک يقال : قَتْلٌ ، وإذا اعتبر بفوت الحیاة يقال : موت . قال تعالی: أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144] - ( ق ت ل ) القتل - ( ن ) الموت کی طرح اس کے معنی بھی جسم سے روح کو زائل کرنے کے ہیں لیکن موت اور قتل میں فرق یہ ہے کہ اگر اس فعل کو سرا انجام دینے والے کا اعتبار کیا جائے تو اسے قتل کہا جاتا ہے اور اگر صرف روح کے فوت ہونے کا اعتبار کیا جائے تو اسے موت کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں قرآن میں ہے : ۔ أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران 144]- فتن - أصل الفَتْنِ : إدخال الذّهب النار لتظهر جو دته من رداء ته، واستعمل في إدخال الإنسان النار . قال تعالی: يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات 13] - ( ف ت ن ) الفتن - دراصل فتن کے معنی سونے کو آگ میں گلانے کے ہیں تاکہ اس کا کھرا کھوٹا ہونا ہوجائے اس لحاظ سے کسی انسان کو آگ میں ڈالنے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے قرآن میں ہے : ۔ يَوْمَ هُمْ عَلَى النَّارِ يُفْتَنُونَ [ الذاریات 13] جب ان کو آگ میں عذاب دیا جائے گا ۔ - دين - والدِّينُ يقال للطاعة والجزاء، واستعیر للشریعة، والدِّينُ کالملّة، لكنّه يقال اعتبارا بالطاعة والانقیاد للشریعة، قال إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران 19]- ( د ی ن ) دين - الدین کے معنی طاعت اور جزا کے کے آتے ہیں اور دین ملت کی طرح ہے لیکن شریعت کی طاعت اور فرمانبردار ی کے لحاظ سے اسے دین کہا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلامُ [ آل عمران 19] دین تو خدا کے نزدیک اسلام ہے ۔- عمل - العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ- [ البقرة 277] - ( ع م ل ) العمل - ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے
جنگ کا مقصود غلبہ دین ہے - قول باری ہے وقاتلوھم حتی لاتکون فتنۃ ویکون الدین کلہ للہ۔ اے ایمان لانے والو ان کافروں سے جنگ کرو۔ یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ ہے اور دین پورے کا پورا اللہ کے لئے ہوجائے) حضرت ابن عباس (رض) اور حسن کا قول ہے کہ شرک باقی نہ رہے۔ محمد بن اسحاق کا قول ہے کہ ان سے جنگ کرو یہاں تک کہ کسی مومن کو اس کے دین سے ہٹانے کا عمل باقی نہ رہے۔ اس مقام پر فتنہ سے کفر مراد لینا بھی درست ہے اور سرکشی و فساد مراد لینا بھی جائز ہے اس لئے کہ کفر کو اس کے اندر پائے جانے والے فساد کی بنا پر فتنہ کا نام دیا گیا ہے۔ اس لئے آیت کفار سرکشوں اور فساد مچانے والوں کیخلاف قتال کے حکم کو متضمن ہوگی۔ آیت بغاوت پر آمادہ گروہ کے خلاف جنگی کارروائی کے وجوب پر بھی دلالت کرتی ہے۔ قول باری ویکون الدین کلہ للہ) تمام اقسام کے کافروں کے خلاف جنگ کرنے کے وجوب پر دلالت کرتا ہے۔ اس حکم سے صرف وہ لوگ خارج ہوں گے جن کی کتاب و سنت کے ذریعہ تخصیص کردی گئی ہے۔ یہ اہل کتاب اور مجوس ہیں ان سے جزیہ لے کر اپنے مذہب پر برقرا رہنے دیا گیا ہے۔ اس آیت سے وہ لوگ استدلال کرتے ہیں جو اہل کتاب اور مجوسیوں کے سوا باقی ماندہ کافروں کو ذمی بنا کر ان کے مذہب پر برقرار رکھنے کے قائل نہیں ہیں۔ اہل کتاب اور مجوسیوں کو جزیہ لے کر ان کے مذہب پر برقرار رکھنے کے جواز پر دلالت موجود ہے۔
(٣٩) اور مومنوں مکہ کے کافروں سے اس حد تک لڑائی کرو کہ ان میں کفر وشرک بتوں کی پوجا اور حدود حرم میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ لڑائی کا وسوسہ باقی نہ رہے اور حرم اور پرستش میں صرف دین اسلام ہی باقی رہ جائے، پھر اگر یہ کفر وشرک اور بتوں کی پوجا اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ قتال سے رک جائیں تو اللہ تعالیٰ خیر وشر ہر ایک سے باخبر ہے۔
آیت ٣٩ (وَقَاتِلُوْہُمْ حَتّٰی لاَ تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّیَکُوْنَ الدِّیْنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ ج) ۔- یہی حکم سورة البقرۃ کی آیت ١٩٣ میں بھی آچکا ہے۔ البتہ یہاں اس کے الفاظ میں کُلُّہٗکی اضافی شان اور مزید تاکید پائی جاتی ہے۔ یعنی اے مسلمانو تمہاری تحریک کو شروع ہوئے پندرہ برس ہوگئے۔ اس دوران میں دعوت ‘ تنظیم ‘ تربیت اور صبر محض کے مراحل کامیابی سے طے ہوچکے ہیں۔ چناچہ اب کا دور ختم سمجھو۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے اقدام ( ) کا آغاز ہوچکا ہے اور اس اقدام کے نتیجے میں اب یہ تحریک مسلح تصادم ( ) کے مرحلے میں داخل ہوگئی ہے۔ لہٰذا جب ایک دفعہ تلواریں تلواروں سے ٹکرا چکی ہیں تو تمہاری یہ تلواریں اب واپس نیاموں میں اس وقت تک نہیں جائیں گی جب تک یہ کام مکمل نہ ہوجائے اور اس کام کی تکمیل کا تقاضا یہ ہے کہ فتنہ بالکل ختم ہوجائے۔ فتنہ کسی معاشرے کے اندر باطل کے غلبے کی کیفیت کا نام ہے جس کی وجہ سے اس معاشرے کے لوگوں کے لیے ایمان پر قائم رہنا اور اللہ کے احکامات پر عمل کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ لہٰذا یہ جنگ اب اس وقت تک جاری رہے گی جب تک باطل مکمل طور پر مغلوب اور اللہ کا دین پوری طرح سے غالب نہ ہوجائے۔ اللہ کے دین کا یہ غلبہ جزوی طور پر بھی قابل قبول نہیں بلکہ دین کل کا کل اللہ کے تابع ہونا چاہیے۔
سورة الْاَنْفَال حاشیہ نمبر :31 یہاں پھر مسلمانوں کی جنگ کے اسے ایک مقصد کا اعادہ کیا گیا ہے جو اس سے پہلے سورة بقر آیت ١۹۳ میں بیان کیا گیا تھا ۔ اس مقصد کا سلبی جزء یہ ہے کہ فتنہ باقی رہ رہے ، اور ایجابی جزء یہ ہے کہ دین بالکل اللہ کے لیے ہو جائے بس یہی ایک اخلاقی مقصد ایسا ہے جس کے لیے لڑنا اہل ایمان کے لیے جائز بلکہ فرض ہے ۔ اس کے سوا کسی دوسرے مقصد کی لڑائی جائز نہیں ہے اور نہ اہل ایمان کو زیبا ہے کہ اس میں کسی طرح حصہ لیں ۔ ( تشریح کے یے ملاحظہ ہو سورہ بقرہ ، حواشی ۲۰٤و ۲۰۵ )
24: جیسا کہ آگے سورۂ توبہ میں آئے گا، جزیرۂ عرب کو اﷲ تعالیٰ نے اسلام کا مرکز بنایا ہے، اس لئے یہاں حکم یہ ہے کہ کوئی کافر یا مشرک مستقل طور پر نہیں رہ سکتا۔ یا اسلام لائے، یا کہیں اور چلا جائے۔ اس لئے جزیرۂ عرب میں کافروں سے اس وقت تک جنگ کا حکم دیا گیا ہے جب تک وہ ان دو باتوں میں سے کوئی ایک بات اختیار نہ کرلیں۔ البتہ جزیرۂ عرب سے باہر کا حکم مختلف ہے۔ وہاں غیر مسلموں کے ساتھ مختلف قسم کے معاہدے ہوسکتے ہیں۔ آیت کے تقریبا یہی الفاظ سورۂ بقرہ (۲: ۱۹۳) میں بھی گذرے ہیں۔ وہاں ہم نے جو حاشیہ لکھا ہے اسے بھی ملاحظہ فرمالیا جائے۔ 25: اور اگر کوئی کافر ظاہری طور پر اسلام لے آئے تو مسلمانوں کو یہی حکم ہے کہ وہ اسے مسلمان سمجھیں، اور دل کو ٹٹولنے کی کوشش نہ کریں، کیونکہ دل کا حال اﷲ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا، وہی ان کے اعمال کو اچھی طرح دیکھ رہا ہے، اور آخرت میں اسی کے مطابق فیصلہ کرے گا۔