44۔ 1 تاکہ وہ کافر بھی تم سے خوف کھا کر پیچھے نہ ہٹیں، پہلا واقعہ خواب کا تھا اور یہ دکھلانا عین قتال کے وقت تھا، جیسا کہ الفاظ قرآنی سے واضح ہے۔ تاہم یہ معاملہ ابتدا میں تھا، لیکن جب باقاعدہ لڑائی شروع ہوگئی تو پھر کافروں کو مسلمان اپنے سے دوگنا نظر آتے تھے، جیسا کہ سورة ، آل عمران کی آیت 13 سے معلوم ہوتا ہے۔ بعد میں زیادہ دکھانے کی حکمت یہ نظر آتی ہے کہ کثرت دیکھ کر ان کے اندر مسلمانوں کا خوف اور دہشت بیٹھ جائے، جس سے ان کے اندر بزدلی اور پست ہمتی پیدا ہو، اس کے برعکس پہلے کم دکھانے میں حکمت یہ تھی کہ وہ لڑنے سے گریز نہ کریں۔ 44۔ 2 اس سب کا مقصد یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے جو فیصلہ کیا ہوا تھا، وہ پورا ہوجائے۔ اس لئے اس نے اس کے اسباب پیدا فرما دے۔
[٤٩] آپ کی خالی مربع کی صورت میں صف بندی :۔ یعنی تم مسلمان کافروں کی تعداد اصل تعداد سے تھوڑی سمجھ رہے تھے اور دشمن یہ سمجھتا تھا کہ مسلمان ہماری نسبت بہت تھوڑے ہیں۔ اس طرح فریقین کے حوصلے بڑھ گئے اور لڑنے کے لیے تیار ہوگئے۔ اس طرح جو کام مشیت الٰہی میں ہونا مقدر تھا۔ اس کے اسباب پیدا ہوتے گئے اور وہ بالآخر ہو کے رہا۔- یہاں یہ وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے کہ یہ اس وقت کی بات ہے جب دونوں لشکر ابھی صف آرا نہ ہوئے تھے اور جب صف آرا ہوگئے تو اس وقت کافروں کو مسلمانوں کی تعداد ان کی اصل تعداد سے دگنی نظر آنے لگی تھی۔ جیسا سورة آل عمران میں مذکور ہے۔ (يَّرَوْنَھُمْ مِّثْلَيْهِمْ رَاْيَ الْعَيْنِ 13) 3 ۔ آل عمران :13) اور یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایک نہایت ماہرانہ جنگی تدبیر تھی کہ آپ نے صحابہ کی صف آرائی خالی مربع ( ) کی شکل میں کی تھی جس کی وجہ سے کافروں کو مسلمانوں کی تعداد فی الواقع دو گنا نظر آنے لگی تھی اور اس طرح ان کے حوصلے پست ہوجانا لازمی امر تھا۔ اور بعض علماء کا قول ہے کہ یہ اس وقت کی بات ہے جب غزوہ بدر میں فرشتوں کا نزول ہوا تھا۔ میرے خیال میں تو یہ توجیہ درست نہیں کیونکہ فرشتے تو اکثر مسلمانوں کو بھی نظر نہیں آتے تھے۔ کافروں کو کیسے نظر آسکتے تھے ؟
وَاِذْ يُرِيْكُمُوْهُمْ اِذِ الْتَقَيْتُمْ فِيْٓ اَعْيُنِكُمْ قَلِيْلًا : پہلا واقعہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خواب کا تھا، یہ عین میدان جنگ کا واقعہ ہے، جب جنگ ہونے والی تھی مگر ابھی شروع نہیں ہوئی تھی، کافر مسلمانوں کو تھوڑے نظر آتے تھے، حتیٰ کہ بعض نے دوسرے سے پوچھا، تمہارے خیال میں یہ کتنے ہوں گے ؟ اس نے کہا، ستر (٧٠) کے قریب ہوں گے۔ اس سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خواب کی بھی تائید ہو رہی تھی اور یہ بھی کہ مسلمانوں کی ہمت بڑھ جائے اور کفار کی نظر میں مسلمانوں کو کم دکھانے کی حکمت یہ تھی کہ وہ زیادہ تیاری کی ضرورت نہ سمجھیں اور لڑائی سے گریز نہ کریں، بلکہ دونوں فریق ایک دوسرے کو کم سمجھتے ہوئے لڑائی پر آمادہ ہوجائیں۔ یہ شروع کی بات ہے، مگر جب جنگ شروع ہوگئی تو کافروں کو مسلمانوں کی تعداد زیادہ نظر آنے لگی، جیسا کہ آل عمران میں ہے : ( وَاُخْرٰى كَافِرَةٌ يَّرَوْنَھُمْ مِّثْلَيْهِمْ رَاْيَ الْعَيْنِ ) [ آل عمران : ١٣ ] ” اور دوسری جماعت کافر تھی جو ان (مسلمانوں) کو آنکھوں سے دیکھتے ہوئے اپنے سے دو گنا دیکھ رہے تھے۔ “ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ جنگ شروع ہوگئی، پھر شروع ہونے پر کافروں کے حوصلے پست ہوگئے اور وہ جلد ہی شکست کھا کر پیچھے کی طرف بھاگنے لگے اور مسلمانوں کے حوصلے بدستور بڑھتے گئے۔ - لِيَقْضِيَ اللّٰهُ اَمْرًا كَانَ مَفْعُوْلًا : یعنی وہی کہ اسلام کی فتح اور کفر کی شکست ہو اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سچائی پر معجزانہ دلیل قائم ہوجائے۔ - وَاِلَى اللّٰهِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ : یعنی وہی جو چاہتا ہے فیصلہ کرتا ہے اور پھر جب اصل اختیار ہر چیز میں اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے تو مسلمان کو چاہیے کہ اسی کو اپنا مقصود بنائے۔
آخری آیت میں اس کے ساتھ یہ بھی مذکور ہے (آیت) يُقَلِّلُكُمْ فِيْٓ اَعْيُنِهِمْ ، یعنی اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو بھی مقابل لشکر کی نظر میں کم کرکے دکھلایا۔ اس کے یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں مسلمانوں کی تعداد تو حقیقت ہی میں کم تھی وہ صحیح تعداد ان کو دکھلا دی اور یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ جتنی تعداد واقعی تھی اس سے بھی کم کرکے دکھلایا گیا جیسا کہ بعض روایات میں ہے کہ ابوجہل نے مسلمانوں کے لشکر کو دیکھ کر اپنے ساتھیوں سے کہا کہ ان کی تعداد تو اس سے زیادہ معلوم نہیں ہوتی جن کی خوراک ایک اونٹ ہو۔ عرب میں کسی لشکر کی تعداد معلوم کرنے کے لئے اس سے اندازہ قائم کیا جاتا تھا کہ کتنے جانور ان کی خوراک کے لئے ذبح ہوتے ہیں، ایک اونٹ سو آدمیوں کی خوراک سمجھا جاتا تھا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی اس میدان بدر میں وہاں کے کچھ لوگوں سے قریش مکہ کے لشکر کا بتہ چلانے کے لئے پوچھا تھا کہ ان کے لشکر میں روزانہ کتنے اونٹ ذبح کئے جاتے ہیں تو آپ کو دس اونٹ روزانہ بتلائے گئے جس سے آپ نے ایک ہزار لشکر کا تخمینہ قائم فرمایا۔ خلاصہ یہ ہے کہ ابو جہل کی نظر میں مسلمان کل سو آدمی کی تعداد میں دکھلائے گئے۔ یہاں بھی کم کرکے دکھلانے میں یہ حکمت تھی کہ مشرکین کے قلوب پر مسلمانوں کا رعب پہلے ہی نہ چھا جائے جس کی وجہ سے وہ میدان چھوڑ بھاگیں۔- فائدہ :- اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بعض اوقات معجزہ اور خرق عادت کے طور پر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آنکھوں کا مشاہدہ غلط ہوجائے۔ جیسا یہاں ہوا۔ اسی لئے اس جگہ دوبارہ فرمایا (آیت) لِيَقْضِيَ اللّٰهُ اَمْرًا كَانَ مَفْعُوْلًا۔ یعنی یہ کرشمہ قدرت اور آنکھوں کے مشاہدات پر تصرف اس لئے ظاہر کیا گیا کہ جو کام اللہ تعالیٰ کرنا چاہتے ہیں وہ پورا ہوجائے۔ یعنی مسلمانوں کو قلت و بےسامانی کے باوجود فتح دے کر اسلام کی حقانیت اور تائید غیبی کا اظہار جو اس جنگ سے مقصود تھا وہ پورا کر دکھائے۔ - آخر آیت میں ارشاد فرمایا (آیت) وَاِلَى اللّٰهِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ ، یعنی آخر کار سب کام اللہ تعالیٰ ہی کی طرف لوٹتے ہیں جو چاہے کرے جو چاہے حکم دے۔ قلت کو کثرت پر قوت کو ضعف پر غلبہ دے دے کم کو زیادہ، زیادہ کو کم کر دے۔ مولانا رومی نے خوب فرمایا :- گر تو خواہی عین غم شادی شود عین بند پائے آزادی شود - چوں تو خواہی آتش آب خوش شود در تو خواہی آب ہم آتش شود - خاک و باد و آب و آتش بندہ اند بامن و تو مردہ باحق زندہ اند
وَاِذْ يُرِيْكُمُوْہُمْ اِذِ الْتَقَيْتُمْ فِيْٓ اَعْيُنِكُمْ قَلِيْلًا وَّيُقَلِّلُكُمْ فِيْٓ اَعْيُنِہِمْ لِيَقْضِيَ اللہُ اَمْرًا كَانَ مَفْعُوْلًا ٠ ۭ وَاِلَى اللہِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ ٤٤ ۧ- إذا - إذا يعبّر به عن کلّ زمان مستقبل، وقد يضمّن معنی الشرط فيجزم به، وذلک في الشعر أكثر، و «إذ» يعبر به عن الزمان الماضي، ولا يجازی به إلا إذا ضمّ إليه «ما» نحو :إذ ما أتيت علی الرّسول فقل له - ( اذ ا ) اذ ا - ۔ ( ظرف زماں ) زمانہ مستقبل پر دلالت کرتا ہے کبھی جب اس میں شرطیت کا مفہوم پایا جاتا ہے تو فعل مضارع کو جزم دیتا ہے اور یہ عام طور پر نظم میں آتا ہے اور اذ ( ظرف ) ماضی کیلئے آتا ہے اور جب ما کے ساتھ مرکب ہو ( اذما) تو معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ع (11) اذمااتیت علی الرسول فقل لہ جب تو رسول اللہ کے پاس جائے تو ان سے کہنا ۔- اذا کی مختلف صورتیں ہیں :۔- (1) یہ ظرف زمان ہے۔ ( زجاج، ریاشی)- (2) یہ ظرف مکان ہے۔ ( مبرد، سیبوبہ)- (3) اکثر و بیشتر اذا شرط ہوتا ہے۔- مفسرین نے تینوں معنوں میں اس کا استعمال کیا ہے۔- (1) ظرف زمان : اور جب تو وہاں ( کی نعمتیں) دیکھے گا۔ تو تجھ کو وہاں بڑی نعمت اور شاہی سازو سامان نظر آئے گا۔ ( تفسیر حقانی) - (2) ظرف مکان : اور جدھر بھی تم وہاں دیکھو گے تمہیں نعمتیں ہی نعمتیں اور وسیع مملکت نظر آئے گی۔ ( تفسیر ضیاء القرآن)- (3) اذا شرطیہ۔ اور اگر تو اس جگہ کو دیکھے توتجھے بڑی نعمت اور بڑی سلطنت دکھائی دے۔ ( تفسیر ماجدی)- عين - ويقال لذي العَيْنِ : عَيْنٌ وللمراعي للشیء عَيْنٌ ، وفلان بِعَيْنِي، أي : أحفظه وأراعيه، کقولک : هو بمرأى منّي ومسمع، قال : فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنا[ الطور 48] ، وقال : تَجْرِي بِأَعْيُنِنا[ القمر 14] ، وَاصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنا[هود 37] ، أي : بحیث نریونحفظ . وَلِتُصْنَعَ عَلى عَيْنِي[ طه 39] ، أي : بکلاء تي وحفظي . ومنه : عَيْنُ اللہ عليك أي : كنت في حفظ اللہ ورعایته، وقیل : جعل ذلک حفظته وجنوده الذین يحفظونه، وجمعه : أَعْيُنٌ وعُيُونٌ. قال تعالی: وَلا أَقُولُ لِلَّذِينَ تَزْدَرِي أَعْيُنُكُمْ [هود 31] ، رَبَّنا هَبْ لَنا مِنْ أَزْواجِنا وَذُرِّيَّاتِنا قُرَّةَ أَعْيُنٍ [ الفرقان 74] .- ويستعار الْعَيْنُ لمعان هي موجودة في الجارحة بنظرات مختلفة،- واستعیر للثّقب في المزادة تشبيها بها في الهيئة، وفي سيلان الماء منها فاشتقّ منها : سقاء عَيِّنٌ ومُتَعَيِّنٌ: إذا سال منها الماء، وقولهم : عَيِّنْ قربتک «1» ، أي : صبّ فيها ما ينسدّ بسیلانه آثار خرزه، وقیل للمتجسّس : عَيْنٌ تشبيها بها في نظرها، وذلک کما تسمّى المرأة فرجا، والمرکوب ظهرا، فيقال : فلان يملك كذا فرجا وکذا ظهرا لمّا کان المقصود منهما العضوین، وقیل للذّهب : عَيْنٌ تشبيها بها في كونها أفضل الجواهر، كما أنّ هذه الجارحة أفضل الجوارح ومنه قيل : أَعْيَانُ القوم لأفاضلهم، وأَعْيَانُ الإخوة : لنبي أب وأمّ ، قال بعضهم : الْعَيْنُ إذا استعمل في معنی ذات الشیء فيقال : كلّ ماله عَيْنٌ ، فکاستعمال الرّقبة في المماليك، وتسمية النّساء بالفرج من حيث إنه هو المقصود منهنّ ، ويقال لمنبع الماء : عَيْنٌ تشبيها بها لما فيها من الماء، ومن عَيْنِ الماء اشتقّ : ماء مَعِينٌ. أي : ظاهر للعیون، وعَيِّنٌ أي : سائل . قال تعالی: عَيْناً فِيها تُسَمَّى سَلْسَبِيلًا[ الإنسان 18] ، وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُوناً [ القمر 12] ، فِيهِما عَيْنانِ تَجْرِيانِ [ الرحمن 50] ، يْنانِ نَضَّاخَتانِ [ الرحمن 66] ، وَأَسَلْنا لَهُ عَيْنَ الْقِطْرِ [ سبأ 12] ، فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الحجر 45] ، مِنْ جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الشعراء 57] ، وجَنَّاتٍ وَعُيُونٍ وَزُرُوعٍ [ الدخان 25- 26] . وعِنْتُ الرّجل : أصبت عَيْنَهُ ، نحو : رأسته وفأدته، وعِنْتُهُ : أصبته بعیني نحو سفته : أصبته بسیفي، وذلک أنه يجعل تارة من الجارحة المضروبة نحو : رأسته وفأدته، وتارة من الجارحة التي هي آلة في الضّرب فيجري مجری سفته ورمحته، وعلی نحوه في المعنيين قولهم : يديت، فإنه يقال : إذا أصبت يده، وإذا أصبته بيدك، وتقول : عِنْتُ البئر أثرت عَيْنَ مائها، قال :إِلى رَبْوَةٍ ذاتِ قَرارٍ وَمَعِينٍ [ المؤمنون 50] ، فَمَنْ يَأْتِيكُمْ بِماءٍ مَعِينٍ [ الملک 30] . وقیل : المیم فيه أصليّة، وإنما هو من : معنت «2» . وتستعار العَيْنُ للمیل في المیزان ويقال لبقر الوحش : أَعْيَنُ وعَيْنَاءُ لحسن عينه، وجمعها : عِينٌ ، وبها شبّه النّساء . قال تعالی: قاصِراتُ الطَّرْفِ عِينٌ- [ الصافات 48] ، وَحُورٌ عِينٌ [ الواقعة 22] .- ( ع ی ن ) العین - اور عین کے معنی شخص اور کسی چیز کا محافظ کے بھی آتے ہیں اور فلان بعینی کے معنی ہیں ۔ فلاں میری حفاظت اور نگہبانی میں ہے جیسا کہ ھو بمر ا ئ منی ومسمع کا محاورہ ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِنَّكَ بِأَعْيُنِنا[ الطور 48] تم تو ہماری آنکھوں کے سامنے ہو ۔ وہ ہماری آنکھوں کے سامنے چلتی تھی ۔ وَلِتُصْنَعَ عَلى عَيْنِي[ طه 39] اور اس لئے کہ تم میرے سامنے پر دریش پاؤ ۔ اور اسی سے عین اللہ علیک ہے جس کے معنی ہیں اللہ تعالیٰ تمہاری حفاظت اور نگہداشت فرمائے یا اللہ تعالیٰ تم پر اپنے نگہبان فرشتے مقرر کرے جو تمہاری حفاظت کریں اور اعین وعیون دونوں عین کی جمع ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَلا أَقُولُ لِلَّذِينَ تَزْدَرِي أَعْيُنُكُمْ [هود 31] ، اور نہ ان کی نسبت جن کو تم حقارت کی نظر سے دیکھتے ہو یہ کہتا ہوں کہ ۔ رَبَّنا هَبْ لَنا مِنْ أَزْواجِنا وَذُرِّيَّاتِنا قُرَّةَ أَعْيُنٍ [ الفرقان 74] اے ہمارے پروردگار ہم کو ہماری بیویوں کی طرف سے آ نکھ کی ٹھنڈک عطا فرما ۔ اور استعارہ کے طور پر عین کا لفظ کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے جو مختلف اعتبارات سے آنکھ میں پائے جاتے ہیں ۔ مشکیزہ کے سوراخ کو عین کہا جاتا ہے کیونکہ وہ ہیئت اور اس سے پانی بہنے کے اعتبار سے آنکھ کے مشابہ ہوتا ہے ۔ پھر اس سے اشتقاق کے ساتھ کہا جاتا ہے ۔ سقاء عین ومعین پانی کی مشک جس سے پانی ٹپکتا ہو عین قر بتک اپنی نئی مشک میں پانی ڈالواتا کہ تر ہو کر اس میں سلائی کے سوراخ بھر جائیں ، جاسوس کو عین کہا جاتا ہے کیونکہ وہ دشمن پر آنکھ لگائے رہتا ہے جس طرح کو عورت کو فرج اور سواری کو ظھر کہا جاتا ہے کیونکہ ان دونوں سے مقصود یہی دو چیزیں ہوتی ہیں چناچنہ محاورہ ہے فلان یملک کذا فرجا وکذا ظھرا ( فلاں کے پاس اس قدر لونڈ یاں اور اتنی سواریاں ہیں ۔ (3) عین بمعنی سونا بھی آتا ہے کیونکہ جو جواہر میں افضل سمجھا جاتا ہے جیسا کہ اعضاء میں آنکھ سب سے افضل ہوتی ہے اور ماں باپ دونوں کی طرف سے حقیقی بھائیوں کو اعیان الاخوۃ کہاجاتا ہے ۔ (4) بعض نے کہا ہے کہ عین کا لفظ جب ذات شے کے معنی میں استعمال ہوجی سے کل مالہ عین تو یہ معنی مجاز ہی ہوگا جیسا کہ غلام کو رقبۃ ( گردن ) کہہ دیا جاتا ہے اور عورت کو فرج ( شرمگاہ ) کہہ دیتے ہیں کیونکہ عورت سے مقصود ہی یہی جگہ ہوتی ہے ۔ (5) پانی کے چشمہ کو بھی عین کہاجاتا ہے ۔ کیونکہ اس سے پانی ابلتا ہے جس طرح کہ آنکھ سے آنسو جاری ہوتے ہیں اور عین الماء سے ماء معین کا محاورہ لیا گیا ہے جس کے معنی جاری پانی کے میں جو صاف طور پر چلتا ہوا دکھائی دے ۔ اور عین کے معنی جاری چشمہ کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : عَيْناً فِيها تُسَمَّى سَلْسَبِيلًا[ الإنسان 18] یہ بہشت میں ایک چشمہ ہے جس کا نام سلسبیل ہے ۔ وَفَجَّرْنَا الْأَرْضَ عُيُوناً [ القمر 12] اور زمین میں چشمے جاری کردیئے ۔ فِيهِما عَيْنانِ تَجْرِيانِ [ الرحمن 50] ان میں دو چشمے بہ رہے ہیں ۔ يْنانِ نَضَّاخَتانِ [ الرحمن 66] دو چشمے ابل رہے ہیں ۔ وَأَسَلْنا لَهُ عَيْنَ الْقِطْرِ [ سبأ 12] اور ان کیلئے ہم نے تانبے کا چشمہ بہا دیا تھا ۔ فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الحجر 45] باغ اور چشموں میں ۔ مِنْ جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ [ الشعراء 57] باغ اور چشمے اور کھیتیاں ۔ عنت الرجل کے معنی ہیں میں نے اس کی آنکھ پر مارا جیسے راستہ کے معنی ہوتے ہیں میں نے اس کے سر پر مارا فادتہ میں نے اس کے دل پر مارا نیز عنتہ کے معنی ہیں میں نے اسے نظر بد لگادی جیسے سفتہ کے معنی ہیں میں نے اسے تلوار سے مارا یہ اس لئے کہ اہل عرب کبھی تو اس عضو سے فعل مشتق کرتے ہیں جس پر مارا جاتا ہے اور کبھی اس چیز سے جو مار نے کا آلہ ہوتی ہے جیسے سفتہ ورمحتہ چناچہ یدیتہ کا لفظ ان ہر دومعنی میں استعمال ہوتا ہے یعنی میں نے اسے ہاتھ سے مارا یا اس کے ہاتھ پر مارا اور عنت البئر کے معنی ہیں کنواں کھودتے کھودتے اس کے چشمہ تک پہنچ گیا قرآن پاک میں ہے :إِلى رَبْوَةٍ ذاتِ قَرارٍ وَمَعِينٍ [ المؤمنون 50] ایک اونچی جگہ پر جو رہنے کے لائق تھی اور ہوا پانی جاری تھا ۔ فَمَنْ يَأْتِيكُمْ بِماءٍ مَعِينٍ [ الملک 30] تو ( سوائے خدا کے ) کون ہے جو تمہارے لئے شیریں پال کا چشمہ بہالائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ معین میں لفظ میم حروف اصلیہ سے ہے اور یہ معنت سے مشتق ہے جسکے معنی ہیں کسی چیز کا سہولت سے چلنا یا بہنا اور پر بھی بولا جاتا ہے اور وحشی گائے کو آنکھ کی خوب صورتی کہ وجہ سے اعین دعیناء کہاجاتا ہے اس کی جمع عین سے پھر گاواں وحشی کے ساتھ تشبیہ دے کر خوبصورت عورتوں کو بھی عین کہاجاتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : قاصِراتُ الطَّرْفِ عِينٌ [ الصافات 48] جو نگاہیں نیچی رکھتی ہوں ( اور ) آنکھیں بڑی بڑی ۔ وَحُورٌ عِينٌ [ الواقعة 22] اور بڑی بڑی آنکھوں والی حوریں ۔- إلى- إلى: حرف يحدّ به النهاية من الجوانب الست، - الیٰ ۔ حرف ( جر ) ہے اور جہات ستہ میں سے کسی جہت کی نہایتہ حدبیان کرنے کے لئے آتا ہے - رجع - الرُّجُوعُ : العود إلى ما کان منه البدء، أو تقدیر البدء مکانا کان أو فعلا، أو قولا، وبذاته کان رجوعه، أو بجزء من أجزائه، أو بفعل من أفعاله . فَالرُّجُوعُ : العود، - ( ر ج ع ) الرجوع - اس کے اصل معنی کسی چیز کے اپنے میدا حقیقی یا تقدیر ی کی طرف لوٹنے کے ہیں خواہ وہ کوئی مکان ہو یا فعل ہو یا قول اور خواہ وہ رجوع بذاتہ ہو یا باعتبار جز کے اور یا باعتبار فعل کے ہو الغرض رجوع کے معنی عود کرنے اور لوٹنے کے ہیں اور رجع کے معنی لوٹا نے کے
(٤٤) اور اس وقت کو بھی یاد کیجیے جب بدر کے تم باہم مقابل ہوئے تو تمہاری نگاہوں میں کفار کو ہم تھوڑے کرکے دکھلا رہے تھے تاکہ تمہیں ان پر جرأت ہو اور اسی طرح ان کو بھی تاکہ وہ تم پر جرأت کریں تاکہ جو بات اللہ تعالیٰ کو کرنا منظور تھی، اس کو مکمل کردے یعنی رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ کرام (رض) کو فتح وغنیمت دے اور ابوجہل اور اس کی جماعت کو شکست ہو اور وہ مارے جائیں اور آخرت میں تمام باتوں کے انجام اسی کے سامنے پیش کیے جائیں گے۔
آیت ٤٤ (وَاِذْ یُرِیْکُمُوْہُمْ اِذِ الْتَقَیْتُمْ فِیْٓ اَعْیُنِکُمْ قَلِیْلاً وَّیُقَلِّلُکُمْ فِیْٓ اَعْیُنِہِمْ ) - جب دونوں لشکر مقابلے کے لیے آمنے سامنے ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے ایسی کیفیت پیدا کردی کہ مسلمانوں کو بھی دیکھنے میں کفار تھوڑے لگ رہے تھے اور کفار کو بھی مسلمان تھوڑے نظر آ رہے تھے۔ ایسی صورت حال اللہ تعالیٰ نے اس لیے پیدا فرما دی تاکہ یہ جنگ ڈٹ کر ہو۔ اس لیے کہ وہ اس دن کو یوم الفرقان بنانا چاہتا تھا اور نہیں چاہتا تھا کہ کوئی فریق بھی میدان سے کنی کترائے۔
31: یہ اس خواب کے علاوہ بیداری کا واقعہ ہے جو عین اس وقت پیش آیا جب دونوں لشکر آمنے سامنے آگئے اس وقت اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر کچھ ایسی کیفیت طاری فرمادی کہ کفار کا وہ لشکر جرار ان کو بہت معمولی محسوس ہوا۔