Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

لڑائی میں مومن کم اور کفار زیادہ دکھائی دئیے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو خواب میں مشرکوں کی تعداد بہت کم دکھائی آپ نے اپنے اصحاب سے ذکر کیا یہ چیز ان کی ثابت قدمی کا باعث بن گئی ۔ بعض بزرگ کہتے ہیں کہ آپ کو آپ کی آنکھوں سے ان کی تعداد کم دکھائی ۔ جن آنکھوں سے آپ سوتے تھے ۔ لیکن یہ قول غریب ہے جب قرآن میں منام کے لفظ ہیں تو اس کی تاویل بلا دلیل کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ ممکن تھا کہ ان کی تعداد کی زیادتی میں رعب بٹھا دے اور آپس میں اختلاف شروع ہو جائے کہ آیا ان سے لڑیں یا نہ لڑیں؟ اللہ تعالیٰ نے اس بات سے ہی بچا لیا اور ان کی تعداد کم کرکے دکھائی ۔ اللہ پاک دلوں کے بھید سے سینے کے راز سے واقف ہے آنکھوں کی خیانت اور دل کے بھید جانتا ہے ۔ خواب میں تعداد میں کم دکھا کر پھر یہ بھی مہربانی فرمائی کہ بوقت جنگ بھی مسلمانوں کی نگاہوں اور ان کی جانچ میں وہ بہت ہی کم آئے تاکہ مسلمان دلیر ہو جائیں اور انہیں کوئی چیز نہ سمجھیں ۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میں نے اندازہ کرکے اپنے ساتھی سے کہا کہ یہ لوگ تو کوئی ستر کے قریب ہوں گے اس نے پورا اندازہ کر کے کہا نہیں کوئی ایک ہزار کا یہ لشکر ہے ۔ پھر اسی طرح کافروں کی نظروں میں بھی اللہ حکیم نے مسلمانوں کی تعداد کم دکھائی اب تو وہ ان پر اور یہ ان پر ٹوٹ پڑے ۔ تاکہ رب کا کام جس کا کرنا وہ اپنے علم میں مقرر کر چکا تھا پورا ہو جائے کافروں پر اپنی پکڑ اور مومنوں پر اپنی رحمت نازل فرما دے ۔ جب تک لڑائی شروع نہیں ہوئی تھی یہی کیفیت دونوں جانب رہی لڑائی شروع ہوتے ہی اللہ تعالیٰ نے ایک ہزار فرشتوں سے اپنے بندوں کی مدد فرمائی مسلمانوں کا لشکر بڑھ گیا اور کافروں کا زور ٹوٹ گیا ۔ چنانچہ اب تو کافروں کو مسلمان اپنے سے دگنے نظر آنے لگے اور اللہ نے موحدوں کی مدد کی اور آنکھوں والوں کیلئے عبرت کا خزانہ کھول دیا ۔ جیسے کہ ( قَدْ كَانَ لَكُمْ اٰيَةٌ فِيْ فِئَتَيْنِ الْتَقَتَا ۭ فِئَةٌ تُقَاتِلُ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَاُخْرٰى كَافِرَةٌ يَّرَوْنَھُمْ مِّثْلَيْهِمْ رَاْيَ الْعَيْنِ ۭ وَاللّٰهُ يُؤَيِّدُ بِنَصْرِهٖ مَنْ يَّشَاۗءُ ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَعِبْرَةً لِّاُولِي الْاَبْصَارِ 13؀ ) 3-آل عمران:13 ) میں بیان ہوا ہے ۔ پس دونوں آیتیں ایک سی ہیں مسلمان تب تک کم نظر آتے رہے جب تک لڑائی شروع نہیں ہوئی ۔ شروع ہوتے ہیں مسلمان دگنے دکھائی دینے لگے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

43۔ 1 اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خواب میں کافروں کی تعداد تھوڑی دکھائی اور وہی تعداد آپ نے صحابہ کرام کے سامنے بیان فرمائی، جس سے ان کے حوصلے بڑھ گئے تھے، اگر اس کے برعکس کافروں کی تعداد زیادہ دکھائی جاتی تو صحابہ میں باہمی اختلاف کا اندیشہ تھا۔ لیکن اللہ نے ان دونوں باتوں سے بچا لیا۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤٨] کافروں کی تعداد تھوڑی دکھلانے کا مقصد :۔ یعنی یہ بھی اللہ تعالیٰ کی امداد ہی کی ایک صورت تھی کہ عریش میں اللہ کے حضور آہ وزاری و فتح و نصرت کی دعائیں مانگنے کے بعد جب آپ پر نیند کا غلبہ ہوا تو حالت خواب میں آپ کو کفار کی تعداد ان کی اصل تعداد سے کم دکھلائی گئی اور اس کا فائدہ یہ تھا کہ مسلمان کہیں کفار کی تعداد اور ان کے اسلحہ جنگ سے مرعوب ہو کر ہمت ہی نہ ہار بیٹھیں اور مشورہ کی صورت میں جنگ کرنے یا نہ کرنے کی مصلحتوں پر غور کیا جانے لگے۔ پھر اس میں اختلاف ہونے لگے۔ گویا ایسا خواب دکھلانے کا ایک مقصد تو مسلمانوں کی ہمت بندھانا تھا اور دوسرا اختلافات سے بچانا اور جنگ پر دلیر بنانا تھا۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اِذْ يُرِيْكَهُمُ اللّٰهُ فِيْ مَنَامِكَ قَلِيْلًا : نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خواب میں دیکھا کہ کافروں کی تعداد زیادہ نہیں ہے، اسی کی خبر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کو دی، جس کا فائدہ یہ ہوا کہ مسلمانوں میں ہمت اور ثابت قدمی پیدا ہوگئی۔ یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ نبی کا خواب تو وحی ہوتا ہے، پھر آپ کو وہ کم کیوں نظر آئے ؟ جواب اس کا یہ ہے کہ آپ کا خواب اس لحاظ سے سچا تھا کہ بعد میں ان کافروں میں سے بہت سے لوگ مسلمان ہوگئے، دوسرے یہ کہ مسلمانوں کے ساتھ فرشتے بھی شامل تھے، اس لیے ان کے مقابلے میں کافروں کی تعداد کم ہی تھی یا معنوی طور پر یعنی اخلاقی اور روحانی طور پر ان میں قوت و طاقت نہ تھی، بظاہر وہ بہت تھے لیکن میدان کار زار میں ثبات و استقلال میں کمزور تھے، اس لیے گویا وہ تعداد میں بھی کم تھے۔- وَلَتَنَازَعْتُمْ فِي الْاَمْرِ : یعنی کوئی کہتا لڑو اور کوئی کہتا نہ لڑو، وہ بہت ہیں اور ہم کم۔ - وَلٰكِنَّ اللّٰهَ سَلَّمَ : یعنی نہ ہمت ہار جانے کا موقع دیا اور نہ آپس میں لڑنے جھگڑنے کا۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

تینتالیسویں اور چوالیسویں دونوں آیتوں میں ایک خاص کرشمہ قدرت کا ذکر ہے جو غزوہ بدر کے میدان میں اس غرض کے لئے عمل میں لایا گیا کہ ایسا نہ ہونے پائے کہ دونوں لشکروں میں سے کوئی بھی میدان جنگ چھوڑ کر اس جنگ کو ہی ختم کر ڈالے کیونکہ اس جنگ کے نتیجہ میں مادی حیثیت سے بھی حقانیت اسلام کا مظاہرہ کرنا مقدر تھا۔- اور وہ کرشمہ قدرت یہ تھا کہ لشکر کفار اگرچہ واقع میں مسلمانوں سے تین گنا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے محض اپنی قدرت کاملہ سے مسلمانوں کو ان کی تعداد بہت کم کرکے دکھلائی۔ تاکہ مسلمانوں میں کمزوری اور اختلاف پیدا نہ ہوجائے۔ اور یہ واقعہ دو مرتبہ پیش آیا۔ ایک مرتبہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خواب میں دکھلایا گیا آپ نے سب مسلمانوں سے بتلا دیا جس سے ان کی ہمت بڑھ گئی۔ دوسری مرتبہ عین میدان جنگ میں جب دونوں فریق آمنے سامنے کھڑے تھے مسلمانوں کو ان کی تعداد کم دکھلائی گئی۔ آیت ٤٣ میں خواب کا واقعہ اور ٤٤ میں بیداری کا مذکور ہے۔- حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ ہماری نظروں میں اپنا مقابل لشکر ایسا نظر آرہا تھا کہ میں نے اپنے قریب کے ایک آدمی سے کہا کہ یہ لوگ نوے آدمیوں کی تعداد میں ہوں گے اس شخص نے کہا کہ نہیں سو (100) ہوں گے۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِذْ يُرِيْكَہُمُ اللہُ فِيْ مَنَامِكَ قَلِيْلًا۝ ٠ ۭ وَلَوْ اَرٰىكَہُمْ كَثِيْرًا لَّفَشِلْتُمْ وَلَتَنَازَعْتُمْ فِي الْاَمْرِ وَلٰكِنَّ اللہَ سَلَّمَ۝ ٠ ۭ اِنَّہٗ عَلِيْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ۝ ٤٣- رأى- والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس :- والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو :- لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] ،- والثاني : بالوهم والتّخيّل،- نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] .- والثالث : بالتّفكّر، - نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] .- والرابع : بالعقل،- وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] ،- ( ر ء ی ) رای - الرؤیتہ - کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور - قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں - ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا - جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔- ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا - جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔- (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا - جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے - ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا - جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ - نوم - النّوم : فسّر علی أوجه كلّها صحیح بنظرات مختلفة، قيل : هو استرخاء أعصاب الدّماغ برطوبات البخار الصاعد إليه، وقیل : هو أن يتوفّى اللہ النّفس من غير موت . قال تعالی:- اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ الآية [ الزمر 42] . وقیل : النّوم موت خفیف، والموت نوم ثقیل، ورجل نؤوم ونُوَمَة : كثير النّوم، والمَنَام : النّوم . قال تعالی: وَمِنْ آياتِهِ مَنامُكُمْ بِاللَّيْلِ [ الروم 23] ، وَجَعَلْنا نَوْمَكُمْ سُباتاً [ النبأ 9] ، لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ [ البقرة 255] والنُّوَمَة أيضا : خامل الذّكر، واستنام فلان إلى كذا : اطمأنّ إليه، والمنامة : الثّوب الذي ينام فيه، ونامت السّوق : کسدت، ونام الثّوب : أخلق، أو خلق معا، واستعمال النّوم فيهما علی التّشبيه .- ( ن و م ) النوم ۔ اس کی تفسیر گئی ہے اور مختلف اعتبارات سے تمام وجوہ صحیح ہوسکتی ہیں ۔ بعض نے کہا نے کہ بخارات کی رطوبت سی اعصاب دماغ کے ڈھیلا ہونے کا نام نوم ہے ۔ اور بعض کے نزدیک اللہ تعالیٰ کا بغیر موت کے روح کو قبض کرلینے کا نام نوم ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : اللَّهُ يَتَوَفَّى الْأَنْفُسَ الآية [ الزمر 42] خدا لوگوں کے مرنے کے وقت ان کی روحیں قبض کرلیتا ہے اور جو مرے نہیں ان کی ( روحیں ) سوتے میں ( قبض کرلیتا ہے ) اور بعض نوم کو موت خفیف اور موت کو نوم ثقیل کہتے ہیں رجل نووم ونومۃ بہت زیادہ سونے والا اور منام بمعنی نوم آتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَمِنْ آياتِهِ مَنامُكُمْ بِاللَّيْلِ [ الروم 23] اور اسی کے نشانات ( اور تصرفات ) میں سے ہے تمہارا رات میں ۔۔۔ سونا ۔ وَجَعَلْنا نَوْمَكُمْ سُباتاً [ النبأ 9] تمہارے لئے موجب آرام بنایا ۔ لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ [ البقرة 255] اسے نہ اونگھ آتی ہے اور نہ نیند ۔ نیز النومۃ کے معنی خامل لذکر یعني گم نام بھی آتے ہیں ۔ کہاجاتا ہے ۔ استنام فلان الی ٰکذا ۔ کسی چیز سے اطمینان حاصل کرنا ۔ منامۃ ۔ لباس خواب ۔ نامت السوق کساد بازاری ہونا ۔ نام الثوب ( لازم ومتعدی ) کپڑے کا پرانا ہونا یا کرنا ۔ ان دونون معنی میں نام کا لفظ تشبیہ کے طور مجازا استعمال ہوتا ہے ۔- قل - القِلَّةُ والکثرة يستعملان في الأعداد، كما أنّ العظم والصّغر يستعملان في الأجسام، ثم يستعار کلّ واحد من الکثرة والعظم، ومن القلّة والصّغر للآخر . وقوله تعالی: ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب 60] - ( ق ل ل ) القلۃ - والکثرۃ بلحاظ اصل وضع کے صفات عدد سے ہیں جیسا کہ عظم اور صغر صفات اجسام سے ہیں بعد کثرت وقلت اور عظم وصغڑ میں سے ہر ایک دوسرے کی جگہ بطور استعارہ استعمال ہونے لگا ہے اور آیت کریمہ ؛ثُمَّ لا يُجاوِرُونَكَ فِيها إِلَّا قَلِيلًا[ الأحزاب 60] پھر وہاں تمہارے پڑوس میں نہیں رہ سکیں گے مگر تھوڑے دن ۔ میں قلیلا سے عرصہ قلیل مراد ہے ۔ - كثر - الْكِثْرَةَ والقلّة يستعملان في الكمّيّة المنفصلة كالأعداد قال تعالی: وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] - ( ک ث ر )- کثرت اور قلت کمیت منفصل یعنی اعداد میں استعمال ہوتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيراً [ المائدة 64] اس سے ان میں سے اکثر کی سر کشی اور کفر اور بڑ ھیگا ۔- فشل - الفَشَلُ : ضعف مع جبن . قال تعالی: حَتَّى إِذا فَشِلْتُمْ [ آل عمران 152] ، فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ [ الأنفال 46] ، لَفَشِلْتُمْ وَلَتَنازَعْتُمْ [ الأنفال 43] ، وتَفَشَّلَ الماء : سال .- ( ف ش ل ) الفشل ( س ) کے معنی کمزوری کے ساتھ بزدلی کے ہیں قرآن پاک میں ہے : حَتَّى إِذا فَشِلْتُمْ [ آل عمران 152] یہاں تک کہ تم نے ہمت ہاردی اور حکم ( پیغمبر میں جھگڑا کرنے لگے ۔ فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ [ الأنفال 46] تو تم بزدل ہوجاؤ گے ۔ اور تمہارا اقبال جاتا رہے گا ۔ لَفَشِلْتُمْ وَلَتَنازَعْتُمْ [ الأنفال 43] تو تم لوگ جی چھوڑ دیتے اور ( جو ) معاملہ ) درپیش تھا اس ) میں جھگڑنے لگتے ۔ تفسل الماء : پانی بہہ پڑا ۔- نزع - نَزَعَ الشیء : جَذَبَهُ من مقرِّه كنَزْعِ القَوْس عن کبده، ويُستعمَل ذلک في الأعراض، ومنه : نَزْعُ العَداوة والمَحبّة من القلب . قال تعالی:- وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍ [ الأعراف 43] . وَانْتَزَعْتُ آيةً من القرآن في كذا، ونَزَعَ فلان کذا، أي : سَلَبَ. قال تعالی: تَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشاءُ [ آل عمران 26] ، وقوله : وَالنَّازِعاتِ غَرْقاً [ النازعات 1] قيل : هي الملائكة التي تَنْزِعُ الأرواح عن الأَشْباح، وقوله :إِنَّا أَرْسَلْنا عَلَيْهِمْ رِيحاً صَرْصَراً فِي يَوْمِ نَحْسٍ مُسْتَمِرٍّ [ القمر 19] وقوله : تَنْزِعُ النَّاسَ [ القمر 20] قيل : تقلع الناس من مقرّهم لشدَّة هبوبها . وقیل : تنزع أرواحهم من أبدانهم، والتَّنَازُعُ والمُنَازَعَةُ : المُجَاذَبَة، ويُعَبَّرُ بهما عن المخاصَمة والمُجادَلة، قال : فَإِنْ تَنازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ [ النساء 59] ، فَتَنازَعُوا أَمْرَهُمْ بَيْنَهُمْ [ طه 62] ، والنَّزْعُ عن الشیء : الكَفُّ عنه . والنُّزُوعُ : الاشتیاق الشّديد، وذلک هو المُعَبَّر عنه بإِمحَال النَّفْس مع الحبیب، ونَازَعَتْنِي نفسي إلى كذا، وأَنْزَعَ القومُ : نَزَعَتْ إِبِلُهم إلى مَوَاطِنِهِمْ. أي : حَنَّتْ ، ورجل أَنْزَعُ : زَالَ عنه شَعَرُ رَأْسِهِ كأنه نُزِعَ عنه ففارَقَ ، والنَّزْعَة : المَوْضِعُ من رأسِ الأَنْزَعِ ، ويقال : امرَأَةٌ زَعْرَاء، ولا يقال نَزْعَاء، وبئر نَزُوعٌ: قریبةُ القَعْرِ يُنْزَعُ منها بالید، وشرابٌ طَيِّبُ المَنْزَعَةِ. أي : المقطَع إذا شُرِبَ كما قال تعالی: خِتامُهُ مِسْكٌ [ المطففین 26] .- ( ن زع ) نزع - ( ن زع ) نزع اشئی کے معنی کسی چیز کو اس کی قرار گاہ سے کھینچنے کے ہیں ۔ جیسا کہ کمانکو در میان سے کھینچا جاتا ہے اور کبھی یہ لفظ اعراض کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور محبت یا عداوت کے دل سے کھینچ لینے کو بھی نزع کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍ [ الأعراف 43] اور جو کینے ان کے دلوں میں ہوں گے ۔ ہم سب نکال ڈالیں گے ۔ آیت کو کسی واقعہ میں بطور مثال کے پیش کرنا ۔ نزع فلان کذا کے معنی کسی چیز کو چھین لینے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ تَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشاءُ [ آل عمران 26] اور جس سے چاہے بادشاہی چھین لے اور آیت کریمہ : ۔ وَالنَّازِعاتِ غَرْقاً [ النازعات 1] ان فرشتوں کی قسم جو ڈوب کر کھینچ لیتے ہیں ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ نازعات سے مراد فرشتے ہیں جو روحوں کو جسموں سے کھینچتے ہیں ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّا أَرْسَلْنا عَلَيْهِمْ رِيحاً صَرْصَراً فِي يَوْمِ نَحْسٍ مُسْتَمِرٍّ [ القمر 19] ہم نے ان پر سخت منحوس دن میں آندھی چلائی وہ لوگوں کو اس طرح اکھیڑ ڈالتی تھی ۔ میں تنزع الناس کے معنی یہ ہیں کہ وہ ہو اپنی تیز کی وجہ سے لوگوں کو ان کے ٹھکانوں سے نکال باہر پھینک دیتی تھی بعض نے کہا ہے کہ لوگوں کی روحوں کو ان کے بد نوں سے کھینچ لینا مراد ہے ۔ التنازع والمنازعۃ : باہم ایک دوسرے کو کھینچا اس سے مخاصمت اور مجا دلہ یعنی باہم جھگڑا کرنا مراد ہوتا ہے ۔ چناچہ ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ فَإِنْ تَنازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ [ النساء 59] اور اگر کسی بات میں تم میں اختلاف واقع ہو تو رجوع کرو ۔ فَتَنازَعُوا أَمْرَهُمْ بَيْنَهُمْ [ طه 62] تو وہ باہم اپنے معاملہ میں جھگڑنے لگے ۔ النزع عن الشئی کے معنی کسی چیز سے رک جانے کے ہیں اور النزوع سخت اشتیاق کو کہتے ہیں ۔ وناز عتنی نفسی الیٰ کذا : نفس کا کسی طرف کھینچ کرلے جانا کس کا اشتیاق غالب آجانا ۔ انزع القوم اونٹوں کا پانے وطن کا مشتاق ہونا رجل انزع کے معنی سر کے بال بھڑ جانا کے ہیں ۔ اور نزعۃ سر کے اس حصہ کو کہتے ہیں جہاں سے بال جھڑ جائیں ۔ اور تانیث کے لئے نزعاء کی بجائے زعراء کا لفظ استعمال ہوتا ہے بئر نزدع کم گہرا کنواں جس سے ہاتھ کے - صدر - الصَّدْرُ : الجارحة . قال تعالی: رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي [ طه 25] ، وجمعه : صُدُورٌ. قال : وَحُصِّلَ ما فِي الصُّدُورِ [ العادیات 10] - ( ص در ) الصدر - سینہ کو کہتے ہیں قرآن میں ہے ۔ رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي [ طه 25] میرے پروردگار اس کا م کے لئے میرا سینہ کھول دے ۔ اس کی جمع صدور آتی ہے جیسے فرمایا : وَحُصِّلَ ما فِي الصُّدُورِ [ العادیات 10] اور جو بھید دلوں میں وہ ظاہر کردیئے جائیں گے

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٤٣) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وہ وقت بھی یاد کیجئے جب بدر سے پہلے اللہ تعالیٰ نے آپ کو خواب میں ان لوگوں کو کم دکھا یا اور اگر اللہ تعالیٰ ان کو زیادہ دکھلاتا تو تمہاری ہمتیں جواب دے دیتیں اور امر قتال میں تم میں جھگڑا ہوتا لیکن اللہ تعالیٰ نے تمہیں بچالیا وہ دلوں کی باتوں کو اچھی طرح جانتا ہے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٤٣ (اِذْ یُرِیْکَہُمُ اللّٰہُ فِیْ مَنَامِکَ قَلِیْلاً ط) - رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خواب میں دیکھا کہ قریش کے لشکر کی تعداد بہت زیادہ نہیں ہے ‘ بس تھوڑے سے لوگ ہیں جو بدر کی طرف جنگ کے لیے آ رہے ہیں ‘ حالانکہ وہ ایک ہزار افراد پر مشتمل بہت بڑا لشکر تھا۔- (وَلَوْ اَرٰٹکَہُمْ کَثِیْرًا) - اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ساتھیوں کو وہ خبر جوں کی توں بتائی ہوتی :- (لَّفَشِلْتُمْ وَلَتَنَازَعْتُمْ فِی الْاَمْرِ ) - دشمن کی اصل تعداد اور طاقت کے بارے میں جان کر آپ لوگ پست ہمت ہوجاتے اور اختلاف میں پڑجاتے کہ ہمیں بدر میں جا کر اس لشکر کا مقابلہ کرنا بھی چاہیے یا نہیں۔ اس طرح آراء میں اختلاف کی بنا پر بھی تمہاری جمعیت میں کمزوری آجاتی۔- (وَلٰکِنَّ اللّٰہَ سَلَّمَط اِنَّہٗ عَلِیْمٌم بِذَات الصُّدُوْرِ )- رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو خواب دیکھا وہ تو غلط نہیں ہوسکتا تھا ‘ کیونکہ انبیاء ( علیہ السلام) کے تمام خواب سچے ہوتے ہیں۔ اس لیے مفسرین نے اس نکتے کی توجیہہ اس طرح کی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو لشکر کفار کی معنوی حقیقت دکھائی گئی تھی۔ یعنی کسی چیز کی ایک کمیت ( ) ہوتی ہے اور ایک اس کی کیفیت اور اس کی اصل حقیقت ہوتی ہے۔ کمیت کے پہلو سے دیکھا جائے تو لشکر کفار کی تعداد ایک ہزار تھی اور وہ مسلمانوں سے تین گنا تھے ‘ مگر اس لشکر کی اندرونی کیفیت یکسر مختلف تھی۔ درحقیقت مکہ کے عوام الناس کی اکثریت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنے معاشرے کا بہترین انسان سمجھتی تھی۔ ان کی سوچ کے مطابق آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تمام ساتھی بھی مکہ کے بہترین لوگ تھے۔ مکہ کا عام آدمی دل سے اس حقیقت کو تسلیم کرتا تھا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھیوں نے کوئی جرم نہیں کیا ہے ‘ بلکہ یہ لوگ ایک خدا کو ماننے والے ‘ نیکیوں کا حکم دینے والے اور شریف لوگ ہیں۔ چناچہ مکہ کی خاموش اکثریت کی ہمدردیاں مسلمانوں کے ساتھ تھیں۔ ایسے تمام لوگ اپنے سرداروں اور لیڈروں کے حکم کی تعمیل میں لشکر میں شامل تو ہوگئے تھے ‘ مگر ان کے دل اپنے لیڈروں کے ساتھ نہیں تھے۔ جنگ میں دراصل جان کی بازی لگانے کا جذبہ ہی انسان کو بہادر اور طاقتور بناتا ہے اور یہ جذبہ نظریے کی سچائی اور نظر یاتی پختگی سے پیدا ہوتا ہے۔ قریش کے اس لشکر میں کسی ایسے حقیقی جذبے کا سرے سے فقدان تھا۔ لہٰذا تعداد میں اگرچہ وہ لوگ زیادہ تھے مگر معنوی طور پر ان کی جو کیفیت اور اصل حقیقت تھی اس لحاظ سے وہ بہت کم تھے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خواب میں اللہ تعالیٰ نے ان کی اصل حقیقت دکھائی تھی۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَنْفَال حاشیہ نمبر :36 یہ اس وقت کی بات ہے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کو لے کر مدینہ سے نکل رہے تھے یا راستہ میں کسی منزل پر تھے اور یہ متحقق نہ ہوا تھا کہ کفار کا لشکر فی الواقع کتنا ہے ۔ اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب میں اس لشکر کو دیکھا اور جو منظر آپ کے سامنے پیش کیا گیا اس سے آپ نے اندازہ لگایا کہ دشمنوں کی تعداد کچھ بہت زیادہ نہیں ہے ۔ یہی خواب آپ نے مسلمانوں کو سنا دیا اور اس سے ہمت پا کر مسلمان آگے بڑھتے چلے گئے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

30: جنگ شروع ہونے سے پہلے جب ابھی تک مسلمانوں کو یہ پتہ نہیں چلا تھا کہ حملہ آور کافروں کی تعداد کتنی ہے؟ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خواب میں کافروں کے لشکر کو کم کرکے دکھایا گیا، آپ نے وہ خواب صحابہ کرام سے بیان فرمایا، جس سے ان کے حوصلے بلند ہوئے، امام رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ نبی کا خواب چونکہ واقعہ کے خلاف نہیں ہوسکتا اس لئے بظاہر آپ کو لشکر کا ایک حصہ دکھایا گیا تھا، آپ نے اسی حصہ کے بارے میں لوگوں کو بتایا کہ وہ تھوڑے سے لوگ ہیں، اور بعض حضرات نے یہ بھی فرمایا ہے کہ خواب میں جو چیز دکھائی جاتی ہے وہ عالم مثال سے تعلق رکھتی ہے عین وہ چیز مراد نہیں ہوتی جو خواب میں نظر آرہی ہو، اسی لئے خواب میں تعبیر کی ضرورت پڑتی ہے لہذا خواب میں سارے لشکر کی تعداد اگرچہ واقعی کم دکھائی گئی ؛ لیکن اس کمی کی اصل تعبیر یہ تھی کہ یہ سارا لشکر بے حیثیت ہے، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس تعبیر کا علم تھا اور آپ نے یہ خواب صحابہ (رض) کے سامنے اس لئے بیان فرمایا تاکہ انکے حوصلے بڑھ جائیں۔