Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

اللہ تعالی نے غزوہ بدر کے ذریعے ایمان کو کفر سے ممتاز کر دیا فرماتا ہے کہ اس دن تم وادی الدینا میں تھے جو مدینے شریف سے قریب ہے اور مشرک لوگ مکے کی جانب مدینے کی دور کی وادی میں تھے اور ابو سفیان اور اس کا قافلہ تجارتی اسباب سمیت نیچے کی جانب دریا کی طرف تھا اگر تم کفار قریش سے جنگ کا ارادہ پہلے سے کرتے تو یقینا تم میں اختلاف پڑتا کہ لڑائی کہاں ہو؟ یہ بھی مطلب کہا گیا ہے کہ اگر تم لوگ آپس میں طے کر کے جنگ کے لئے تیار ہوتے اور پھر تمہیں ان کی کثرت تعداد اور کثرت اسباب معلوم ہوتی تو بہت ممکن تھا کہ ارادے پست ہو جاتے ۔ اس لئے قدرت نے پہلے سے طے کئے بغیر دونوں جماعتوں کو اچانک ملا دیا کہ اللہ کا یہ ارادہ پورا ہو جائے کہ اسلام اور مسلمانوں کو بلندی حاصل ہو اور شرک اور مشرکوں کو پستی ملے پس جو کرنا تھا اللہ پاک کر گذرا ۔ چنانچہ کعب کی حدیث میں ہے کہ حضور اور مسلمان تو صرف قافلے کے ارادے سے ہی نکلے تھے اللہ نے دشمن سے مڈبھیڑ کرادی بغیر کسی تقرر کے اور بغیر کسی جنگی تیاری کے ۔ ابو سفیان ملک شام سے قافلہ لے کر چلا ابو جہل اسے مسلمانوں سے بچانے کیلئے مکے سے نکلا ۔ قافلہ دوسرے راستے سے نکل گیا اور مسلمانوں اور کافروں کی جنگ ہو گئی اس سے پہلے دونوں ایک دوسرے سے بےخبر تھے ایک دوسرے کو خصوصاً پانی لانے والوں کو دیکھ کر انہیں ان کا اور انہیں ان کا علم ہوا ۔ سیرت محمد بن اسحاق میں ہے کہ حضور برابر اپنے ارادے سے جا رہے تھے صفراء کے قریب پہنچ کر سیس بن عمرو اور عدی بن ابو الزعباء جہنی کو ابو سفیان کا پتہ چلانے کیلئے بھیجا ان دونوں نے بدر کے میدان میں پہنچ کر بطحا کے ایک ٹیلے پر اپنی سواریاں بٹھائیں اور پانی کے لئے نکلے ۔ راستے میں دو لڑکیوں کو آپس میں جھگڑتے ہوئے دیکھا ایک دوسری سے کہتی ہے تو میرا قرضہ کیوں ادا نہیں کرتی؟ اس نے کہا جلدی نہ کر کل یا پرسوں یہاں قافلہ آنے والا ہے میں تجھے تیرا حق دے دوں گی ۔ مجدیٰ بن عمرو بیچ میں بول اٹھا اور کہا یہ سچ کہتی ہے اسے ان دونوں صحابیوں نے سن لیا اپنے اونٹ کسے اور فوراً خدمت نبوی میں جا کر آپ کو خبر دی ۔ ادھر ابو سفیان اپنے قافلے سے پہلے یہاں اکیلا پہنچا اور مجدی بن عمرو سے کہا کہ اس کنویں پر تم نے کسی کو دیکھا ؟ اس نے کہا نہیں البتہ دو سوار آئے تھے اپنے اونٹ اور ٹیلے پر بٹھائے اپنی مشک میں پانی بھر اور چل دئیے ۔ یہ سن کر یہ اس جگہ پہنچا مینگنیاں لیں اور انہیں توڑا اور کھجورں کی گھٹلیاں ان میں پا کر کہنے لگا واللہ یہ مدنی لوگ ہیں وہیں سے واپس اپنے قافلے میں پہنچا اور راستہ بدل کر سمندر کے کنارے چل دیا جب اسے اس طرف سے اطمینان ہو گیا تو اس نے اپنا قاصد قریشیوں کو بھیجا کہ اللہ نے تمھارے قافلے مال اور آدمیوں کو بچا لیا تم لوٹ جاؤ یہ سن کر ابو جہل نے کہا نہیں جب یہاں تک ہم آ چکے ہیں تو ہم بدر تک ضرور جائیں گے یہاں ایک بازار لگا کرتا تھا ۔ وہاں ہم تین روز ٹھہریں گے وہاں اونٹ ذبح کریں گے ۔ شرابیں پئیں گے کباب بنائیں گے تاکہ عرب میں ہماری دھوم مچ جائے اور ہر ایک کو ہماری بہادری اور بےجگری معلوم ہو اور وہ ہمیشہ ہم سے خوف زدہ رہیں ۔ لیکن اخنس بن شریق نے کہا کہ بنو زہرہ کے لوگو اللہ تعالیٰ نے تمہارے مال محفوظ کر دیئے تم کو چاہئے کہ اب واپس چلے جاؤ ۔ اس کے قبیلے نے اس کی مان لی یہ لوگ اور بنو عدی لوٹ گئے ۔ بدر کے قریب پہنچ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی بن ابی طالب ، حضرت سعد بن وقاص اور حضرت زبیر بن عوام کو خبر لانے کے لئے بھیجا چند اور صحابہ کو بھی ان کے ساتھ کر دیا انہیں بنوسعید بن عاص کا اور بنو حجاج کا غلام کنویں پر مل گیا دونوں کو گرفتار کر لیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا اس وقت آپ نماز میں تھے صحابہ نے ان سے سوال کرنا شروع کیا کہ تم کون ہو؟ انہوں نے کہا قریش کے سقے ہیں انہوں نے ہمیں پانی لانے کیلئے بھیجا تھا ۔ صحابہ کا خیال تھا کہ یہ ابو سفیان کے آدمی ہیں اس لئے انہوں نے ان پر سختی شروع کی آخر گھبرا کر انہوں نے کہدیا کہ ہم ابو سفیان کے قافلے کے ہیں تب انہیں چھوڑا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رکعت پڑھ کر سلام پھیر دیا اور فرمایا کہ جب تک یہ سچ بولتے رہے تم انہیں مارتے پیٹتے رہے اور جب انہوں نے جھوٹ کہا تم نے چھوڑ دیا واللہ یہ سچے ہیں یہ قریش کے غلام ہیں ٠ ہاں جی بتاؤ قریش کا لشکر کہاں ہے ؟ انہوں نے کہا وادی قصویٰ کے اس طرف ٹیلے کے پیچھے ۔ آپ نے فرمایا وہ تعداد میں کتنے ہیں؟ انہوں نے کہا بہت ہیں آپ نے فرمایا آخر کتنے ایک؟ انہوں نے کہا تعداد توہمیں معلوم نہیں آپ نے فرمایا اچھا یہ بتا سکتے ہو ہر روز کتنے اونٹ کٹتے ہیں؟ انہوں نے کہا ایک دن نو ایک دن دس ۔ آپ نے فرمایا پھر وہ نو سو سے ایک ہزار تک ہیں ۔ پھر آپ نے دریافت فرمایا کہ ان میں سرداران قریش میں سے کون کون ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ عتبہ بن ربیعہ ، شیبہ بن ربیعہ ، ابو البختری بن ہشام ، حکیم بن حزام ، نوفل ، طعیمہ بن عدی ، نضر بن حارث ، زمعہ بن اسود ، ابو جہل ، امیہ بن خلف ، منبہ بن حجاج ، سہیل بن عمرو ، عمرو بن عبدود ۔ یہ سن کر آپ نے صحابہ سے فرمایا لو مکے نے اپنے جگر کے ٹکڑے تمہاری طرف ڈال دیئے ہیں ۔ بدر کے دن جب دونوں جماعتوں کا مقابلہ شروع ہونے لگا تو حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ اگر آپ اجازت دیں تو ہم آپ کے لئے ایک جھونپڑی بنا دیں آپ وہاں رہیں ہم اپنے جانوروں کو یہیں بٹھا کر میدان میں جا کودیں اگر فتح ہوئی تو الحمد اللہ یہی مطلوب ہے ورنہ آپ ہمارے جانوروں پر سوار ہو کر انہیں اپنے ساتھ لے کر ہماری قوم کے ان حضرات کے پاس چلے جائیں جو مدینہ شریف میں ہیں وہ ہم سے زیادہ آپ سے محبت رکھتے ہیں ۔ انہیں معلوم نہ تھا کہ کوئی جنگ ہونے والی ہے ورنہ وہ ہرگز آپ کا ساتھ نہ چھوڑتے آپ کی مدد کے لئے آپ کے ہم رکاب نکل کھڑے ہوتے ۔ حضور نے ان کے اس مشورے کی قدر کی انہیں دعا دی اور اس ڈیرے میں آپ ٹھہر گئے آپ کے ساتھ صرف حضرت ابو بکر تھے اور کوئی نہ تھا ۔ صبح ہوتے ہی قریشیوں کے لشکر ٹیلے کے پیچھے سے آتے ہوئے نمودار ہوئے انہیں دیکھ کر آپ نے جناب باری میں دعا کی کہ باری تعالیٰ یہ فخر و غرور کے ساتھ تجھ سے لڑانے اور تیرے رسول کو جھٹلانے کیلئے آ رہے ہیں ۔ باری تعالیٰ تو انہیں پست و ذلیل کر ۔ اس آیت کے آخری جملے کی تفسیر سیرۃ ابن اسحاق میں ہے کہ یہ اس لئے کہ کفر کرنے والے دلیل ربانی دیکھ لیں گو کفر ہی پر رہیں اور ایمان والے بھی دلیل کے ساتھ ایمان لائیں ۔ یعنی آمادگی اور بغیر شرط و قرار داد کے اللہ تعالیٰ نے مومنوں اور مشرکوں کا یہاں اچانک آمنا سامنا کرا دیا کہ حقانیت کو باطل پر غلبہ دے کر حق کو مکمل طور پر ظاہر کر دے اس طرح کہ کسی کو شک شبہ باقی نہ رہے ۔ اب جو کفر پر رہے وہ بھی کفر کو کفر سمجھ کے رہے اور جو ایمان والا ہو جائے وہ دلیل دیکھ کر ایمان دار بنے ایمان ہی دلوں کی زندگی ہے اور کفر ہی اصلی ہلاکت ہے ۔ جیسے فرمان قرآن ہے ( آیت اومن کان میتا فاحییناہ الخ ، ) یعنی وہ جو مردہ تھا پھر ہم نے اسے جلا دیا اور اس کے لئے نور بنا دیا کہ اس کی روشنی میں وہ لوگوں میں چل پھر رہا ہے ۔ تہمت کے قصہ میں حضرت عائشہ کے الفاظ ہیں کہ پھر جسے ہلاک ہونا تھا وہ ہلاک ہو گیا یعنی بہتان میں حصہ لیا اللہ تعالیٰ تمہارے تضرع و زاری اور تمہاری دعا و استغفار اور فریاد و مناجات کا سننے والا ہے وہ خوب جانتا ہے کہ تم اہل حق ہو تم مستحق امداد ہو تم اس قابل ہو کر تمہیں کافروں اور مشرکوں پر غلبہ دیا جائے ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

42۔ 1 دُنْیَاسے مراد وہ کنارہ جو مدینہ شہر کے قریب تھا۔ قصویٰ کہتے ہیں دور کو۔ کافر اس کنارے پر تھے جو مدینہ سے دور تھا۔ 42۔ 2 اس سے مراد تجارتی قافلہ ہے جو حضرت ابو سفیان کی قیادت میں شام سے مکہ جا رہا تھا اور جسے حاصل کرنے کے لئے ہی دراصل مسلمان اس طرف آئے تھے۔ یہ پہاڑ سے بہت دور مغرب کی طرف نشیب میں تھا، جب کہ بدر کا مقام، جہاں جنگ ہوئی، بلندی پر تھا۔ 42۔ 3 یعنی اگر جنگ کے لئے باقاعدہ دن اور تاریخ کا ایک دوسرے کے ساتھ وعدہ یا اعلان ہوتا تو ممکن بلکہ یقین تھا کہ کوئی فریق لڑائی کئے بغیر ہی پسپائی اختیار کرلیتا لیکن چونکہ اس جنگ کا ہونا اللہ نے لکھ رکھا تھا اس لئے ایسے اسباب پیدا کردیئے گئے کہ دونوں فریق بدر کے مقام پر ایک دوسرے کے مقابل بغیر پیشگی وعدہ وعید کے، صف آرا ہوجائیں۔ 42۔ 4 یہ علت ہے اللہ کی اس تقدیری مشیت کی جس کے تحت بدر میں فریقین کا اجتماع ہوا، تاکہ جو ایمان پر زندہ رہے تو وہ دلیل کے ساتھ زندہ رہے اور اسے یقین ہو کہ اسلام حق ہے کیونکہ اس کی حقانیت کا مشاہدہ وہ بدر میں کرچکا ہے اور جو کفر کے ساتھ ہلاک ہو تو بھی دلیل کے ساتھ ہلاک ہو کیونکہ اس پر یہ واضح ہوچکا ہے کہ مشرکین کا راستہ گمراہی اور باطل کا راستہ ہے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٤٤] اس کنارے یا نزدیکی کنارے سے مراد وہ سمت ہے جو مدینہ کی طرف تھی اور پرلے کنارے سے مراد اس سے مخالف سمت ہے جو مکہ کی طرف تھی۔- [٤٥] جنگ بدر اضطراراً واقع ہوئی تھی :۔ یعنی مسلمان جب مدینہ سے نکلے تو جہاد کی غرض سے نہیں بلکہ تجارتی قافلہ پر حملہ کی غرض سے نکلے تھے۔ اسی وجہ سے غزوہ بدر سے پیچھے رہ جانے والے مسلمانوں پر کوئی مواخذہ نہیں اور کافر اس غرض سے نہیں نکلے تھے کہ جنگ لڑیں گے بلکہ اپنے قافلہ کو بچانے کی غرض سے نکلے تھے۔ اب اللہ کا کرنا یہ ہوا کہ وہ قافلہ تو بچ بچا کر نکل آیا۔ اس طرح دونوں لشکروں کی آپس میں مڈ بھیڑ ہوگئی، اور یہ سب کچھ اللہ کی مشیت کے مطابق ہو رہا تھا۔- [٤٦] یعنی اگر کافر اور مسلمان آپس میں لڑائی کے لیے کوئی عہد و پیمان کرتے تو عین ممکن تھا کہ دونوں فریق یا کوئی ایک فریق وعدہ خلافی کر کے مقررہ وقت اور مقررہ جگہ پر نہ پہنچ سکتا یا پہنچنے سے راہ فرار اختیار کرجاتا اور اس طرح یہ معرکہ حق و باطل وقوع پذیر ہی نہ ہوتا۔ لہذا اللہ تعالیٰ نے حالات ہی ایسے پیدا کردیئے کہ یہ جنگ واقع ہو کے رہی۔- [٤٧] جنگ بدر حق وباطل میں فیصلہ کن معرکہ تھا :۔ یعنی مرنے والے کافر بھی اور زندہ رہنے والے بھی اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں کہ حق پر کون فریق تھا اور کس فریق کی اللہ تعالیٰ نے مدد فرمائی۔ یا اس کا مطلب یہ ہے کہ کافروں کا یہ انجام دیکھنے کے بعد پھر بھی جو کافر کفر پر ہی قائم رہنا چاہتا ہے۔ وہ اپنی ہی گور گردن پر رہے جو اسلام لانا چاہے تو وہ اللہ کی یہ واضح تائید دیکھ کر اسلام لائے اور اس کا اسی کو فائدہ ہوگا۔ بہرحال شرک و کفر کے باطل ہونے کا ایک جیتا جاگتا ثبوت اللہ تعالیٰ نے سب کو دکھلا دیا ہے۔

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

اِذْ اَنْتُمْ بالْعُدْوَةِ الدُّنْيَا : جنگ کا محل وقوع ذکر کرنے سے مقصود یہ ہے کہ تم جس ارادے سے نکلے تھے کہ ہمیں وہ قافلہ مل جائے گا جو نہایت قیمتی ہے اور جس کے محافظ صرف تیس یا چالیس شخص ہیں، اس کے برعکس اللہ تعالیٰ نے تمہیں ایسی جگہ لا کھڑا کیا جہاں لڑائی کے بغیر چارہ نہ تھا۔ ” عُدْوَۃٌ“ کنارا۔ ” الدُّنْيَا “ ” دُنُوٌّ“ ( قریب ہونا) میں سے ” أَدْنٰی “ کی مؤنث ہے، قریب ترین، یعنی تم وادی بدر کے اس سرے پر تھے جو مدینہ کے قریب ترین ہے۔ ” الْقُصْوٰي “ ” أَقْصٰی “ کی مؤنث ہے دور ترین، یعنی قریش اسی وادی بدر کے مدینہ سے دور والے کنارے پر تھے۔ ” وَالرَّكْبُ اَسْفَلَ مِنْكُمْ “ یعنی جس قافلے کی خاطر تم نکلے تھے وہ تم سے نیچے ساحل سمندر پر تھا، جہاں تمہارا پہنچنا اس وقت ممکن نہ تھا اور تم اور قریش کسی پیشگی ارادے کے بغیر ایک ہی وادی کے کناروں پر آ جمع ہوئے تھے، نہ انھیں تمہارا علم تھا نہ تمہیں ان کا اور اللہ تعالیٰ یہ چاہتا تھا کہ حق و باطل کا ٹکراؤ کروا کر حق واضح کر دے۔ اگر تم اور قریش وقت اور جگہ طے کر کے لڑائی کے لیے نکلتے تو یقیناً طے کردہ وعدے پر پہنچنے میں کمی بیشی ہوجاتی، یا تم اپنی تعداد اور تیاری کی کمی کی وجہ سے نہ پہنچتے، یا کفار رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ رعب سے خائف ہو کر نہ پہنچتے، مگر اللہ تعالیٰ کا تمہیں عین ایک ہی وادی میں لا جمع کرنا اس لیے تھا کہ اللہ تعالیٰ جو کچھ کرنا چاہتا تھا وہ پورا کر دے، یعنی مسلمانوں کو فتح اور کفار کو شکست ہو۔ - لِّيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْۢ بَيِّنَةٍ : یعنی اس لیے کہ کفار کی اتنی کثرت اور تیاری اور مسلمانوں کی قلت اور بےسروسامانی کے باوجود مسلمانوں کی فتح کے ساتھ کفار پر حجت پوری ہوجائے اور اسلام کی حقانیت واضح ہوجائے، اس کے بعد اگر کوئی کافر رہے تو دلیل دیکھ کر کافر رہے اور ہلاکت میں پڑے اور جو کوئی مسلمان ہو تو وہ بھی دلیل دیکھ کر مسلمان ہو اور ہمیشہ کی زندگی حاصل کرے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - یہ وہ وقت تھا کہ جب تم اس میدان کے ادھر والے کنارہ پر تھے اور وہ لوگ ( یعنی کفار) اس میدان کے ادھر والے کنارہ پر تھے ( ادھر والے سے مراد مدینہ سے نزدیک کا موقع اور ادھر والے سے مراد مدینہ سے دور کا موقع) اور وہ قافلہ ( قریش کا) تم سے نیچے کی طرف کو ( بچا ہوا) تھا ( یعنی سمندر کے کنارے کنارے جارہا تھا حاصل یہ کہ پورے جوش کا سامان جمع ہو رہا تھا کہ دونوں آپس میں آمنے سامنے تھے کہ ہر ایک دوسرے کو دیکھ کر جوش میں آئے ادھر قافلہ رستہ ہی میں تھا جس کی وجہ سے لشکر کفار کو اس کی حمایت کا خیال دلنشین ہوا جس سے اور جوش میں زیادتی ہو غرض وہ ایسا شدید وقت تھا پھر بھی اللہ تعالیٰ نے تم پر امداد غیبی نازل کی جیسا اوپر ارشاد ہوا ہے (آیت) اَنْزَلْنَا عَلٰي عَبْدِنَا) اور ( وہ تو مصلحت یہ ہوئی کہ اتفاقا مقابلہ ہوگیا ورنہ) اگر ( پہلے سے حسب معمول و عادت) تم اور وہ ( لڑائی کے لئے) کوئی بات ٹھہراتے ( کہ فلاں وقت لڑیں گے) تو ( مقتضا حالت موجودہ کا یہ تھا کہ) ضرور اس تقرر کے بارے میں تم میں اختلاف ہوتا ( یعنی خواہ صرف مسلمانوں میں باہم کہ بوجہ بےسرو سامانی کے کوئی کچھ کہتا کوئی کچھ کہتا اور خواہ کفار کے ساتھ اختلاف ہوتا جس کی وجہ اس طرف بےسرو سامانی اور اس طرف مسلمانوں کا رعب بہرحال دونوں طرح اس جنگ کی نوبت نہ آتی پس اس میں جو فوائد ہوئے وہ ظہور میں نہ آتے جن کا بیان لِّيَهْلِكَ میں آتا ہے) لیکن ( اللہ تعالیٰ نے ایسا سامان کردیا کہ اس کی نوبت نہیں آئی بلا قصد لڑائی ٹھن گئی) تاکہ جو کام اللہ کو کرنا منظور تھا اس کی تکمیل کردے یعنی تاکہ ( حق کا نشان ظاہر ہوجائے اور) جس کو برباد ( یعنی گمراہ) ہونا ہے وہ نشان آئے پیچھے برباد ہو اور جس کو زندہ ( یعنی ہدایت یافتہ) ہونا ہے وہ ( بھی) نشان آئے پیچھے زندہ ہو ( مطلب یہ کہ اللہ تعالیٰ کو منظور تھا لڑائی ہونا تاکہ ایک خاص طریق سے اسلام کا حق ہونا ظاہر ہوجائے کہ اس قلت عدد و کم سامانی پر مسلمان غالب آئے جو کہ خارق عادت ہے جس سے معلوم ہوا کہ اسلام حق ہے پس اس سے حجت الہیہ تام ہوگئی اس کے بعد جو گمراہ ہوگا وہ وضوح حق کے بعد ہوگا کہ جس میں عذاب کا پورا استحقاق ہوگیا اور عذر کی گنجائش ہی نہ رہی اسی طرح جس کو ہدایت ہونا ہوگا وہ حق قبول کرلے گا۔ خلاصہ حکمت کا یہ ہوا کہ حق واضح ہوجائے) اور بلاشبہ اللہ تعالیٰ خوب سننے والے خوب جاننے والے ہیں ( کہ اس وضوح کے بعد زبان اور قلب سے کون کفر کرتا ہے اور کون ایمان لاتا ہے اور) وہ وقت بھی قابل ذکر ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے آپ کے خواب میں آپ کو وہ لوگ کم دکھلائے ( چناچہ آپ نے صحابہ کو اس خواب کی خبر کی ان کے دل خوب قوی ہوگئے) اور اگر اللہ تعالیٰ آپ کو وہ لوگ زیادہ کرکے دکھا دیتے ( اور آپ صحابہ سے فرما دیتے) تو ( اے صحابہ) تمہاری ہمتیں ہار جاتیں اور اس امر ( قتال) میں تم میں باہم نزاع ( اور اختلاف) ہوجاتا لیکن اللہ تعالیٰ نے ( اس کم ہمتی اور اختلاف سے تم کو بچا لیا بیشک وہ دلوں کی باتوں کو خوب جانتا ہے ( اس کو معلوم تھا کہ اس طرح ضعف پیدا ہوگا اس طرح قوت، اس لئے ایسی تدبیر کی) اور ( صرف خواب ہی میں آپ کو کم دکھلانے پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ تتمیم حکمت کے لئے بیداری میں مقابلہ کے وقت مسلمانوں کی نظر میں بھی کفار کم دکھلائی دیئے جیسا کہ بالعکس بھی ہوا جو کہ واقع کے مطابق بھی تھا چناچہ فرماتے ہیں کہ) اس وقت کو یاد کرو جبکہ اللہ تعالیٰ تمہیں جبکہ تم مقابل ہوئے ان لوگوں کو تمہاری نظر میں کم کرکے دکھلا رہے تھے اور ( اسی طرح) ان کی نگاہ میں تم کو کم کرکے دکھلا رہے تھے تاکہ جو کام اللہ کو کرنا منظور تھا اس کی تکمیل کردے ( جیسا پہلے بیان ہوچکا ہے لِّيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ الخ) اور سب مقدمے خدا ہی کی طرف رجوع کئے جائیں گے ( وہ ہالک اور حی یعنی گمراہ اور مہتد کو سزا و جزا دیں گے ) ۔- معارف ومسائل - غزوہ بدر کفر و اسلام کا وہ پہلا معرکہ تھا جس نے ظاہری اور مادی طور پر بھی اسلام کی برتری اور حقانیت کا ثبوت دیا اس لئے قرآن کریم نے اس کی تفصیلات بیان کرنے کا خاص اہتمام فرمایا۔ آیات متذکرہ میں اسی کا بیان ہے۔ جس کے ذکر میں بہت سی حکمتوں اور مصلحتوں کے علاوہ ایک خاص مصلحت اس کا اظہار ہے کہ اس معرکہ میں ظاہری اور مادی طور پر مسلمانوں کے فتح پانے کا کوئی امکان نہ تھا اور مشرکین مکہ کی شکست کا کوئی احتمال نہ تھا۔ مگر اللہ تعالیٰ کی غیبی قوت نے سارے ساز و سامان اور ظاہری اسباب کی کایا پلٹ دی۔ اسی واقعہ کی وضاحت کے لئے ان آیات میں غزوہ بدر کے محاذجنگ کا پورا نقشہ قرآن کریم نے بیان فرمایا ہے ان آیات کی تشریح سے پہلے چند الفاظ و لغات کی تشریح دیکھ لیجئے۔- عُدْوَةِ کے یعنی ایک جانب کے آتے ہیں اور لفظ دُّنْيَا ادنی سے بنا ہے جس کے معنی ہیں قریب تر۔ آخرت کے مقابلہ میں اس جہان کو بھی دنیا اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ عالم آخرت کی نسبت انسان کی طرف قریب تر ہے۔ اور لفظ قُصْوٰي اقصی سے بنا ہے اقصی کے معنی ہیں بعید تر۔ - بیالیسویں آیت میں ہلاکت اور اس کے مقابلہ میں حیات کا ذکر آیا ہے۔ ان دونوں لفظوں سے موت وحیات کے ظاہری معنی مراد نہیں بلکہ معنوی موت وحیات یا ہلاکت و نجات مراد ہے۔ معنوی حیات اسلام و ایمان ہے اور موت شرک و کفر۔ قرآن کریم نے کئی جگہ یہ الفاظ اس معنی میں استعمال کئے۔ ایک جگہ ارشاد ہے (آیت) يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِيْبُوْا لِلّٰهِ وَلِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيْكُمْ ، یعنی اے ایمان والو تم کہا مانو اللہ و رسول کا جب تم کو وہ ایسی چیز کی طرف بلائیں جس میں تمہاری حیات ہے۔ مراد حیات سے وہ حقیقی حیات اور دائمی راحت ہے جو ایمان و اسلام کے صلہ میں ملتی ہے۔ اب آیات کی تفسیر یہ ہوئی کہ :- بیالیسویں آیت میں غزوہ بدر کے محاذ جنگ کا نقشہ یہ بتلایا گیا ہے کہ مسلمان عُدْوَةِ دُّنْيَا کے پاس تھے اور کفار عُدْوَةِ قُصْوٰي کے پاس مسلمانوں کا مقام اس میدان کے اس کنارہ پر تھا جو مدینہ سے قریب تھا اور کفار میدان کے دوسرے کنارے پر تھے جو مدینہ سے بعید تھا۔ اور ابو سفیان کے تجارتی قافلہ جس کی وجہ سے یہ جہاد کھڑا کیا گیا تھا وہ بھی مکہ سے آنے والے لشکر کفار سے قریب اور مسلمانوں کی زد سے باہر تین میل کے فاصلہ پر سمندر کے کنارے کنارے چل رہا تھا۔ اس نقشہ جنگ کے بیان سے مقصد یہ بتلانا ہے کہ جنگی اعتبار سے مسلمان بالکل بےموقع غلط جگہ ٹھہرے تھے جہاں سے دشمن پر قابو پانے کا بلکہ اپنی جان بچانے کا بھی کوئی امکان ظاہری اعتبار سے نہ تھا۔ کیونکہ اس میدان کی وہ جانب جو مدینہ سے قریب تھی ایک ریتیلی زمین تھی جس میں چلنا بھی دو بھر تھا۔ پھر پانی کی کوئی جگہ ان کے پاس نہ تھی۔ اور مدینہ سے بعید والی جانب جس پر کفار نے اپنا پڑاؤ ڈالا تھا وہ صاف زمین تھی اور پانی بھی وہاں سے قریب تھا۔ - اور اس میدان کے دونوں کناروں کا پتہ دے کر یہ بھی بتلا دیا کہ دونوں لشکر باکل آمنے سامنے تھے کہ کسی کی طاقت یا ضعف دوسرے سے مخفی نہ رہ سکتا۔ نیز یہ بھی بتلا دیا کہ مشرکین مکہ کے لشکر کو یہ بھی اطمینان حاصل تھا کہ ہمارا تجارتی قافلہ مسلمانوں کی زد سے نکل چکا ہے اب اگر ہمیں ضرورت پڑے تو وہ بھی ہماری امداد کرسکتا ہے۔ اس کے بالمقابل مسلمان اپنی جگہ کے اعتبار سے بھی تکلیف و پریشانی میں تھے اور کہیں سے کمک ملنے کا بھی کوئی احتمال نہ تھا۔ اور یہ بات پہلے سے متعین اور ہر لکھے پڑھے آدمی کو معلوم ہے کہ مسلمانوں کے پاس نہ سواریوں کی تعداد کافی تھی اور نہ اسلحہ کی۔ اس کے بالمقابل لشکر کفار ان سب چیزوں سے آراستہ تھا۔- نہ مسلمان اس جہاد میں کسی مسلح لشکر سے جنگ کی تیاری کرکے نکلے تھے۔ ہنگامی طور پر ایک تجارتی قافلہ کا راستہ روکنے اور دشمن کی قوت کو پست کرنے کے خیال سے صرف تین سو تیرہ مسلمان بےسامانی کے عالم میں نکل کھڑے ہوئے تھے اچانک غیر ارادی طور پر ایک ہزار جوانوں کے مسلح لشکر سے مقابلہ پڑگیا۔ قرآن کی اس آیت نے بتلایا کہ لوگوں کی نظر میں یہ واقعہ اگرچہ ایک اتفاقی حادثہ کی سورت میں بلا ارادہ پیش آیا۔ لیکن دنیا میں جتنے اتفاقات غیر اختیاری صورت سے پیش آیا کرتے ہیں ان کی سطح اور صورت اگرچہ محض اتفاقات کی ہوتی ہے لیکن خالق کائنات کی نظر میں وہ سب کے سب ایک مستحکم نظام کی لگی بندھی کڑیاں ہوتی ہیں ان میں کوئی چیز بےربط یا بےموقع نہیں ہوتی۔ جب وہ پورا انظام سامنے آجائے اس وقت انسان کو پتہ لگ سکتا ہے کہ اس اتفاقی واقعہ میں کیا کیا حکمتیں مستور تھیں۔- غزوہ بدر ہی کے واقعہ کو لے لیجئے اس کی اتفاقی اور غیر اختیاری صورت سے ظاہر ہونے میں یہ مصلحت تھی کہ (آیت) وَلَوْ تَوَاعَدْتُّمْ لَاخْتَلَفْتُمْ فِي الْمِيْعٰدِ ، یعنی اگر عام دنیا کی جنگوں کی طرف یہ جنگ بھی تمام پہلوؤں پر غور و فکر اور باہمی قراردادوں کے ذریعہ لڑی جاتی تو حالات کا تقاضا یہ تھا کہ یہ جنگ ہوتی ہی نہیں بلکہ اس میں اختلاف پڑجاتا خواہ اس طرح کہ خود مسلمانوں کی رائے اپنی قلت و کمزوری اور مقابل کی کثرت و قوت کو دیکھ کر مختلف ہوجاتی یا اس طرح کہ دونوں فریق اہل کفر و اہل اسلام مقررہ وعدہ پر میدان میں نہ پہنچتے۔ مسلمان تو اپنی قلت و کمزوری کو دیکھ کر اقدام کی ہمت نہ کرتے اور کفار پر حق تعالیٰ نے مسلمانوں کا رعب جمایا ہوا تھا وہ کثرت و قوت کے باوجود مقابلہ پر آنے سے گھبراتے۔- اس لئے قدرت کے مستحکم نظام نے دونوں طرف ایسے حالات پیدا کردیئے کہ زیادہ سوچنے سمجھنے کا موقع ہی نہ ملے۔ مکہ والوں کو تو ابوسفیان کے قافلہ کی گھبرائی ہوئی فریاد نے ایک ہولناک صورت میں سامنے آکر بےسوچے سمجھے چلنے پر آمادہ کردیا۔ مسلمانوں کو اس خیال نے کہ ہمارے مقابلہ پر کوئی جنگی مسلح لشکر نہیں۔ ایک معمولی تجارتی قافلہ ہے۔ مگر علیم وخبیر کو منظور یہ تھا کہ دونوں میں باقاعدہ جنگ ہوجائے تاکہ اس جنگ کے پیچھے جو نتائج فتح اسلام کے ظہور میں آنے والے ہیں وہ سامنے آجائیں۔ اسی لئے فرمایا (آیت) وَلٰكِنْ لِّيَقْضِيَ اللّٰهُ اَمْرًا كَانَ مَفْعُوْلًا، یعنی ان حالات کے باوجود جنگ اس لئے ہو کر رہی کہ اللہ تعالیٰ کو جو کام کرنا ہے اس کی تکمیل کر دکھائے۔ اور وہ یہ تھا کہ ایک ہزار جوانوں کے مسلح باسامان لشکر کے مقابلہ میں تین سو تیرہ بےسرو سامان فاقہ زدہ مسلمانوں کی ایک ٹولی اور وہ بھی محاذجنگ کے اعتبار سے بےموقع جب اس پہاڑ سے ٹکراتی ہے تو یہ پہاڑ پاش پاش ہوجاتا ہے اور یہ چھوٹی سی جماعت فتح مند ہوتی ہے جو کھلی آنکھوں اس کا مشاہدہ ہے کہ اس جماعت کی پیٹھ پر کوئی بڑی قدرت اور طاقت کام کر رہی تھی جس سے یہ ایک ہزار کا لشکر محروم تھا۔ اور یہ بھی ظاہر ہے کہ اس کی تائید اسلام کی وجہ سے اور اس کی محرومی کفر کی وجہ سے تھی۔ جس سے حق و باطل اور کھرے کھوٹے کا پورا امتیاز ہر سمجھدار انسان کے سامنے آگیا۔ اسی لئے آخر آیت میں ارشاد فرمایا۔ (آیت) لِّيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْۢ بَيِّنَةٍ وَّيَحْيٰي مَنْ حَيَّ عَنْۢ بَيِّنَةٍ ۔ یعنی واقعہ بدر میں اسلام کی کھلی حقانیت اور کفر و شرک کے باطل و مردود ہونے کو اس لئے کھول دیا گیا کہ آئندہ جو ہلاکت میں پڑے وہ دیکھ بھال کر پڑے اور جو زندہ رہے وہ بھی دیکھ بھال کر رہے۔ اندھیرے اور مغالطہ میں کوئی کام نہ ہو۔- اس آیت کے الفاظ میں ہلاکت سے مراد کفر اور حیات و زندگی سے مراد اسلام ہے۔ مطلب یہ ہے کہ حق واضح ہوجانے کے بعد غلط فہمی کا احتمال اور عذر تو ختم ہوگیا اب جو کفر اختیار کرتا ہے وہ دیکھتی آنکھوں ہلاکت کی طرف جارہا ہے اور جو اسلام اختیار کرتا ہے وہ دیکھ بھال کر دائمی زندگی اختیار کر رہا ہے پھر فرمایا (آیت) وَاِنَّ اللّٰهَ لَسَمِيْعٌ عَلِيْمٌ، یعنی اللہ تعالیٰ خوب سننے والے جاننے والے ہیں کہ سب کے دلوں میں چپھے ہوئے کفر و ایمان تک ان کے سامنے ہیں اور ہر ایک کی سزا و جزاء بھی۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

اِذْ اَنْتُمْ بِالْعُدْوَۃِ الدُّنْيَا وَہُمْ بِالْعُدْوَۃِ الْقُصْوٰي وَالرَّكْبُ اَسْفَلَ مِنْكُمْ۝ ٠ ۭ وَلَوْ تَوَاعَدْتُّمْ لَاخْتَلَفْتُمْ فِي الْمِيْعٰدِ۝ ٠ ۙ وَلٰكِنْ لِّيَقْضِيَ اللہُ اَمْرًا كَانَ مَفْعُوْلًا۝ ٠ۥۙ لِّـيَہْلِكَ مَنْ ہَلَكَ عَنْۢ بَيِّنَۃٍ وَّيَحْيٰي مَنْ حَيَّ عَنْۢ بَيِّنَۃٍ۝ ٠ ۭ وَاِنَّ اللہَ لَسَمِيْعٌ عَلِيْمٌ۝ ٤٢ ۙ- ( العدوة)- اسم بمعنی جانب الوادي أو حافّته، وزنه فعلة بضمّ الفاء وسکون العین . وقوله : إِذْ أَنْتُمْ بِالْعُدْوَةِ الدُّنْيا وَهُمْ بِالْعُدْوَةِ الْقُصْوى[ الأنفال 42] ، أي : الجانب المتجاوز للقرب - دنا - الدّنوّ : القرب بالذّات، أو بالحکم، ويستعمل في المکان والزّمان والمنزلة . قال تعالی: وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام 99] ، وقال تعالی: ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم 8] ، هذا بالحکم . ويعبّر بالأدنی تارة عن الأصغر، فيقابل بالأكبر نحو : وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَ وعن الأوّل فيقابل بالآخر، نحو : خَسِرَ الدُّنْيا وَالْآخِرَةَ [ الحج 11] - دنا - ( دن و ) الدنو ( ن) کے معنی قریب ہونے کے ہیں اور یہ قرب ذاتی ، حکمی ، مکانی ، زمانی اور قرب بلحاظ مرتبہ سب کو شامل ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام 99] اور کھجور کے گابھے میں سے قریب جھکے ہوئے خوشے کو ۔ اور آیت کریمہ :۔ ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم 8] پھر قریب ہوئے اور آگے بڑھے ۔ میں قرب حکمی مراد ہے ۔ اور لفظ ادنیٰ کبھی معنی اصغر ( آنا ہے۔ اس صورت میں اکبر کے بالمقابل استعمال ہوتا هے۔ جیسے فرمایا :۔ وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَاور نہ اس سے کم نہ زیادہ ۔ اور کبھی ادنیٰ بمعنی ( ارذل استعمال ہوتا ہے اس وقت یہ خبر کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ [ البقرة 61] بھلا عمدہ چیزیں چھوڑ کر ان کے عوض ناقص چیزیں کیوں چاہتے ہو۔ اور کبھی بمعنی اول ( نشاۃ اولٰی ) استعمال ہوتا ہے اور الآخر ( نشاۃ ثانیہ) کے مقابلہ میں بولا جاتا ہے جیسے فرمایا :۔ کہ اگر اس کے پاس ایک دینا بھی امانت رکھو ۔ خَسِرَ الدُّنْيا وَالْآخِرَةَ [ الحج 11] اس نے دنیا میں بھی نقصان اٹھایا اور آخرت میں بھی - قصی - القَصَى: البعد، والْقَصِيُّ : البعید . يقال : قَصَوْتُ عنه، وأَقْصَيْتُ : أبعدت، والمکان الأَقْصَى، والناحية الْقَصْوَى، ومنه قوله : وَجاءَ رَجُلٌ مِنْ أَقْصَى الْمَدِينَةِ يَسْعى [ القصص - 20] ، وقوله : إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى [ الإسراء 1] يعني : بيت المقدس، فسمّاه الْأَقْصَى اعتبارا بمکان المخاطبین به من النبيّ وأصحابه، وقال : إِذْ أَنْتُمْ بِالْعُدْوَةِ الدُّنْيا وَهُمْ بِالْعُدْوَةِ الْقُصْوى[ الأنفال 42] . وقَصَوْتُ البعیر : قطعت أذنه، وناقة قَصْوَاءُ ، وحکوا أنه يقال : بعیر أَقْصَى، والْقَصِيَّةُ من الإبلِ : البعیدةُ عن الاستعمال .- ( ق ص و ) القصی - کے معنی بعد یعنی دوری کے ہیں اور قصی بعید کو کہا جاتا ہے محاورہ ہے : ۔ قصؤت عنہ میں اس سے دور ہوا اقصیہ میں نے اسے دور کردیا ۔ المکان الاقصی دور دراز جگہ الناحیۃ القصویٰ دور یا کنارہ اسی سے قرآن پاک میں ہے : ۔ وَجاءَ رَجُلٌ مِنْ أَقْصَى الْمَدِينَةِ يَسْعى [ القصص اور ایک شخص شہر کی پر لی طرف سے دوڑتا ہوا آیا ۔ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى [ الإسراء 1] مسجد اقصی ٰ یعنی بیت المقدس تک ۔ میں المسجد الاقصیٰ سے مراد بیت المقدس ہے اور اسے الاقصیٰ مخاطبین یعنی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام کے مقام سکونت کے اعتبار سے کہا ہے ۔ کیونکہ وہ مدینہ سے دور تھی ۔ إِذْ أَنْتُمْ بِالْعُدْوَةِ الدُّنْيا وَهُمْ بِالْعُدْوَةِ الْقُصْوى[ الأنفال 42] جس وقت تم ( مدینے سے ) قریب ناکے پر تھے اور کافر بعید کے نا کے پر ۔ قصؤت البعیر کے معنی اونٹ کا کان قطع کرنے کے ہیں اور کان کٹی اونٹنی کو ناقۃ قصراء کہا جاتا ہے اور اس معنی میں بعیر اقصیٰ کا ماکورہ بھی منقول ہے قصیۃ اس اونٹنی کو کہا جاتا ہے جو کام کاج سے دور رکھی گئی ہو ( اصیل اونٹنی )- ركب - الرُّكُوبُ في الأصل : كون الإنسان علی ظهر حيوان، وقد يستعمل في السّفينة، والرَّاكِبُ اختصّ في التّعارف بممتطي البعیر، وجمعه رَكْبٌ ، ورُكْبَانٌ ، ورُكُوبٌ ، واختصّ الرِّكَابُ بالمرکوب، قال تعالی: وَالْخَيْلَ وَالْبِغالَ وَالْحَمِيرَ لِتَرْكَبُوها وَزِينَةً [ النحل 8] ، فَإِذا رَكِبُوا فِي الْفُلْكِ- ) رک ب ) الرکوب - کے اصل معنی حیوان کی پیٹھ پر سوار ہونے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے :۔ لِتَرْكَبُوها وَزِينَةً [ النحل 8] تاکہ ان سے سواری کا کام لو اور ( سواری کے علاوہ یہ چیزیں ) موجب زینت ( بھی ) ہیں ۔ مگر کبھی کشتی وغیرہ سواری ہونے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :۔ فَإِذا رَكِبُوا فِي الْفُلْكِ [ العنکبوت 65] پھر جب لوگ کشتی میں سوار ہوتے ہیں ۔ - سفل - السُّفْلُ : ضدّ العلو، وسَفُلَ فهو سَافِلٌ ، قال تعالی: فَجَعَلْنا عالِيَها سافِلَها [ الحجر 74] ، وأَسْفَل ضدّ أعلی،- ( س ف ل ) السفل - یہ علو کی ضد ہے اور سفل ( سفولا ) فھوا سافل کے معنی پست اور حقیر ہونے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے فَجَعَلْنا عالِيَها سافِلَها [ الحجر 74]- لو - لَوْ : قيل : هو لامتناع الشیء لامتناع غيره، ويتضمّن معنی الشرط نحو : قوله تعالی: قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء 100] .- ( لو ) لو ( حرف ) بعض نے کہا ہے کہ یہ امتناع الشئی لا متناع غیر ہ کے لئے آتا ہے ( یعنی ایک چیز کا دوسری کے امتناع کے سبب ناممکن ہونا اور معنی شرط کو متضمن ہوتا ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ لَوْ أَنْتُمْ تَمْلِكُونَ [ الإسراء 100] کہہ دو کہ اگر میرے پروردگار کی رحمت کے خزانے تمہارے ہاتھ میں ہوتے ۔ - وعد - الوَعْدُ يكون في الخیر والشّرّ. يقال وَعَدْتُهُ بنفع وضرّ وَعْداً ومَوْعِداً ومِيعَاداً ، والوَعِيدُ في الشّرّ خاصّة . يقال منه : أَوْعَدْتُهُ ، ويقال : وَاعَدْتُهُ وتَوَاعَدْنَا . قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم 22] ، أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص 61] ،- ( وع د ) الوعد - ( وعدہ کرنا ) کا لفظ خیر وشر یعنی اچھے اور برے ( وعدہ دونوں پر بولا جاتا ہے اور اس معنی میں استعمال ہوتا ہے مگر الوعید کا لفظ خاص کر شر ( یعنی دھمکی اور تہدید ) کے لئے بولا جاتا ہے ۔ اور اس معنی میں باب اوعد ( توقد استعمال ہوتا ہے ۔ اور واعدتہ مفاعلۃ ) وتوا عدنا ( تفاعل ) کے معنی باہم عہدو پیمان کر نا کے ہیں ( قرآن کریم میں ودع کا لفظ خرٰا و شر دونوں کے لئے استعمال ہوا ہے ( چناچہ وعدہ خیر کے متعلق فرمایا إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِ [إبراهيم 22] جو ودعے خدا نے تم سے کیا تھا وہ تو سچا تھا ۔ أَفَمَنْ وَعَدْناهُ وَعْداً حَسَناً فَهُوَ لاقِيهِ [ القصص 61] بھلا جس شخص سے ہم نے نیک وعدہ کیا ۔ - الاختلافُ والمخالفة- والاختلافُ والمخالفة : أن يأخذ کلّ واحد طریقا غير طریق الآخر في حاله أو قوله، والخِلَاف أعمّ من الضّدّ ، لأنّ كلّ ضدّين مختلفان، ولیس کلّ مختلفین ضدّين، ولمّا کان الاختلاف بين النّاس في القول قد يقتضي التّنازع استعیر ذلک للمنازعة والمجادلة، قال : فَاخْتَلَفَ الْأَحْزابُ [ مریم 37] - ( خ ل ف ) الاختلاف والمخالفۃ - الاختلاف والمخالفۃ کے معنی کسی حالت یا قول میں ایک دوسرے کے خلاف کا لفظ ان دونوں سے اعم ہے کیونکہ ضدین کا مختلف ہونا تو ضروری ہوتا ہے مگر مختلفین کا ضدین ہونا ضروری نہیں ہوتا ۔ پھر لوگوں کا باہم کسی بات میں اختلاف کرنا عموما نزاع کا سبب بنتا ہے ۔ اس لئے استعارۃ اختلاف کا لفظ نزاع اور جدال کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَاخْتَلَفَ الْأَحْزابُ [ مریم 37] پھر کتنے فرقے پھٹ گئے ۔ - قضی - الْقَضَاءُ : فصل الأمر قولا کان ذلک أو فعلا، وكلّ واحد منهما علی وجهين : إلهيّ ، وبشريّ. فمن القول الإلهيّ قوله تعالی:- وَقَضى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] أي : أمر بذلک،- ( ق ض ی ) القضاء - کے معنی قولا یا عملا کیس کام کا فیصلہ کردینے کے ہیں اور قضاء قولی وعملی میں سے ہر ایک کی دو قسمیں ہیں قضا الہیٰ اور قضاء بشری چناچہ قضاء الہیٰ کے متعلق فرمایا : ۔ وَقَضى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء 23] اور تمہارے پروردگار نے ارشاد فرمایا کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔ - فعل - الفِعْلُ : التأثير من جهة مؤثّر، وهو عامّ لما کان بإجادة أو غير إجادة، ولما کان بعلم أو غير علم، وقصد أو غير قصد، ولما کان من الإنسان والحیوان والجمادات، والعمل مثله، - ( ف ع ل ) الفعل - کے معنی کسی اثر انداز کی طرف سے اثر اندازی کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ تاثیر عمدگی کے ساتھ ہو یا بغیر عمدگی کے ہو اور علم سے ہو یا بغیر علم کے قصدا کی جائے یا بغیر قصد کے پھر وہ تاثیر انسان کی طرف سے ہو یا دو سے حیوانات اور جمادات کی طرف سے ہو یہی معنی لفظ عمل کے ہیں ۔ - هلك - الْهَلَاكُ علی ثلاثة أوجه :- افتقاد الشیء عنك، وهو عند غيرک موجود کقوله تعالی: هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة 29] - وهَلَاكِ الشیء باستحالة و فساد کقوله :- وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة 205] ويقال : هَلَكَ الطعام .- والثالث :- الموت کقوله : إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء 176] وقال تعالیٰ مخبرا عن الکفّار : وَما يُهْلِكُنا إِلَّا الدَّهْرُ [ الجاثية 24] .- ( ھ ل ک ) الھلاک - یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ایک یہ کہ - کسی چیز کا اپنے پاس سے جاتے رہنا خواہ وہ دوسرے کے پاس موجود ہو جیسے فرمایا : هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة 29] ہائے میری سلطنت خاک میں مل گئی ۔- دوسرے یہ کہ - کسی چیز میں خرابی اور تغیر پیدا ہوجانا جیسا کہ طعام ( کھانا ) کے خراب ہونے پر ھلک الطعام بولا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة 205] اور کھیتی کو بر باد اور انسانوں اور حیوانوں کی نسل کو نابود کردی ۔ - موت کے معنی میں - جیسے فرمایا : ۔ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء 176] اگر کوئی ایسا مرد جائے ۔- بَيِّنَة- والبَيِّنَة : الدلالة الواضحة عقلية کانت أو محسوسة، وسمي الشاهدان بيّنة لقوله عليه السلام : «البيّنة علی المدّعي والیمین علی من أنكر» «وقال سبحانه : أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود 17] ، وقال : لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال 42] ، جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم 9] .- ( ب ی ن ) البَيِّنَة- کے معنی واضح دلیل کے ہیں ۔ خواہ وہ دلالت عقلیہ ہو یا محسوسۃ اور شاھدان ( دو گواہ ) کو بھی بینۃ کہا جاتا ہے جیسا کہ آنحضرت نے فرمایا ہے : کہ مدعی پر گواہ لانا ہے اور مدعا علیہ پر حلف ۔ قرآن میں ہے أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود 17] بھلا جو لوگ اپنے پروردگار کی طرف سے دلیل ( روشن رکھتے ہیں ۔ لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال 42] تاکہ جو مرے بصیرت پر ( یعنی یقین جان کر ) مرے اور جو جیتا رہے وہ بھی بصیرت پر ) یعنی حق پہچان کر ) جیتا رہے ۔ جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم 9] ان کے پاس ان کے پیغمبر نشانیاں کے کر آئے ۔ - حيى- الحیاة تستعمل علی أوجه :- الأوّل : للقوّة النّامية الموجودة في النّبات والحیوان، ومنه قيل : نبات حَيٌّ ، قال عزّ وجلّ : اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید 17] ، - الثانية : للقوّة الحسّاسة، وبه سمّي الحیوان حيوانا،- قال عزّ وجلّ : وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر 22] ،- الثالثة : للقوّة العاملة العاقلة، کقوله تعالی:- أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] - والرابعة : عبارة عن ارتفاع الغمّ ،- وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] ، أي : هم متلذّذون، لما روي في الأخبار الکثيرة في أرواح الشّهداء - والخامسة : الحیاة الأخرويّة الأبديّة،- وذلک يتوصّل إليه بالحیاة التي هي العقل والعلم، قال اللہ تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال 24] - والسادسة : الحیاة التي يوصف بها الباري،- فإنه إذا قيل فيه تعالی: هو حيّ ، فمعناه : لا يصحّ عليه الموت، ولیس ذلک إلّا لله عزّ وجلّ.- ( ح ی ی ) الحیاۃ )- زندگی ، جینا یہ اصل میں - حیی ( س ) یحییٰ کا مصدر ہے ) کا استعمال مختلف وجوہ پر ہوتا ہے ۔- ( 1) قوت نامیہ جو حیوانات اور نباتات دونوں میں پائی جاتی ہے - ۔ اسی معنی کے لحاظ سے نوبت کو حیہ یعنی زندہ کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید 17] جان رکھو کہ خدا ہی زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ - ۔ ( 2 ) دوم حیاۃ کے معنی قوت احساس کے آتے ہیں - اور اسی قوت کی بناء پر حیوان کو حیوان کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر 22] اور زندے اور مردے برابر ہوسکتے ہیں ۔ - ( 3 ) قوت عاملہ کا عطا کرنا مراد ہوتا ہے - چنانچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔- ( 4 ) غم کا دور ہونا مراد ہوتا ہے - ۔ اس معنی میں شاعر نے کہا ہے ( خفیف ) جو شخص مرکر راحت کی نیند سوگیا وہ درحقیقت مردہ نہیں ہے حقیقتا مردے بنے ہوئے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران 169] جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھنا وہ مرے ہوئے نہیں ہیں بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہیں ۔ میں شہداء کو اسی معنی میں احیاء یعنی زندے کہا ہے کیونکہ وہ لذت و راحت میں ہیں جیسا کہ ارواح شہداء کے متعلق بہت سی احادیث مروی ہیں ۔ - ( 5 ) حیات سے آخرت کی دائمی زندگی مراد ہوتی ہے - ۔ جو کہ علم کی زندگی کے ذریعے حاصل ہوسکتی ہے : قرآن میں ہے : ۔ اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال 24] خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو جب کہ رسول خدا تمہیں ایسے کام کے لئے بلاتے ہیں جو تم کو زندگی ( جادواں ) بخشتا ہے۔- ( 6 ) وہ حیات جس سے صرف ذات باری تعالیٰ متصف ہوتی ہے - ۔ چناچہ جب اللہ تعالیٰ کی صفت میں حی کہا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ ذات اقدس ہوئی ہے جس کے متعلق موت کا تصور بھی نہیں ہوسکتا ۔ پھر دنیا اور آخرت کے لحاظ بھی زندگی دو قسم پر ہے یعنی حیات دنیا اور حیات آخرت چناچہ فرمایا : ۔ فَأَمَّا مَنْ طَغى وَآثَرَ الْحَياةَ الدُّنْيا [ النازعات 38] تو جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو مقدم سمجھنا ۔- الله - الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم 65] . - ( ا ل ہ ) اللہ - (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

(سابقہ آیت کی بقیہ تفسیر)- آنحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد خمس کا مصرف - حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد خمس میں آپ کے حصے کے مصرف کے متعلق سلف کے مابین اختلاف رائے ہے۔ سفیان نے قیس بن مسلم سے انہوں نے حسن بن محمد بن الحنفیہ سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد آپ کے حصے اور آپ کے قرابت داروں کے حصے کے متعلق لوگوں میں اختلاف رائے پیدا ہوگیا۔ ایک گروہ کا خیال یہ تھا کہ آپ کے بعد آپ کا حصہ آپ کی خلیفہ کو ملنا چاہیے۔ ایک اور گروہ کا خیال تھا کہ آپ کے قرابت داروں کا حصہ خلیفہ کے قرابت داروں کو ملنا چاہیے پھر سب کا اس پر اجماع ہوگیا کہ یہ دونوں حصے جہاد فی سبیل اللہ کے لئے سازوسامان اور ہتھیاروں کی تیاری نیز اس مقصد کے لئے گھوڑوں وغیرہ کی پرورش پر صرف کئے جائیں۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حصہ صرف اس وقت تک کے لئے تھا جب تک آپ زندہ تھے، آپ کی وفات کے بعد یہ حصہ بھی اسی طرح ساقط ہوگیا جس طرح صفی کا سقوط ہوگیا یعنی مال غنیمت میں آپ کے لئے مخصوص حصہ یا مخصوص چیز کا حکم آپ کی وفات کے ساتھ ہی ساقط ہوگیا۔ آپ کی وفات کے بعد آپ کے حصے کو نیز صفی کو مال غنیمت میں شامل کرلیا گیا اور اسے اجتماعی ضرورت کے مصرف میں خرچ کرنے کے لئے نہیں رکھا گیا۔ آپ کے قرابت داروں کے حصے کے مصرف کے متعلق فقہاء میں اختلاف رائے ہے۔ جامع صغیر کی روایت کے مطابق امام ابوحنیفہ (رح) کے نزدیک خمس کو تین حصوں پر تقسیم کیا جائے اور ان حصوں کو فقراء مساکین اور مسافروں پر خرچ کیا جائے گا۔ بشربن الولید نے امام ابویوسف سے اور انہوں نے امام ابوحنیفہ سے روایت کی ہے کہ اللہ اور اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دونوں کے لئے ایک خمس ہے یعنی مال غنیمت کے خمس کا پانچواں حصہ۔ قرابت داروں کے لئے پانچواں حصہ اور آیت میں مذکورہ تین اصناف یعنی تیامی، مساکین اور مسافروں میں سے ہر ایک صنف کے لئے پانچواں حصہ ہے۔ اس طرح مال غنیمت کے خمس کے پانچ حصے کئے جائیں گے سفیان ثوری کا قول ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے مال غنیمت کے خمس میں سے پانچواں حصہ ہے اور باقیماندہ چار حصے ان اصناف کے لئے ہوں گے جن کا ذکر اللہ تعالیٰ نے آیت کے اندر فرمایا ہے۔- امام مالک (رض) کا قول ہے کہ امام المسلمین اپنی صوابدید اور اجتہاد کے مطابق مال غنیمت کے خمس میں سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قرابت داروں کو دے گا۔ اوزاعی کا قول ہے کہ مال غنیمت کا خمس ان اصناف کے لئے ہے جن کا ذکر اللہ تعالیٰ نے آیت میں فرمایا ہے۔ امام شافعی کا قول ہے کہ حضو ر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قرابت داروں کا حصہ ان کے اغنیاء اور فقراء کے درمیان تقسیم کردیا جائے گا۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ قول باری (ولذی القربی) ایک مجمل لفظ ہے جس بیان اور تفصیل کی ضرورت ہے اس میں عموم نہیذں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ذوی القربیٰ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قرابت داروں کے ساتھ خاص نہیں ہے۔ دوسری طرف یہ بات واضح ہے کہ اس سے تمام لوگوں کے قرابت دار مراد نہیں ہیں۔ اس لئے یہ فقط مجمل بن گیا اور اسے بیان کی ضرورت پیش آ گئی۔ سلف کا اس پر اتفاق ہے کہ اس سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قرابت دار مراد ہیں۔ پھر ان سے کچھ حضرات کا قول ہے کہ آپ کے قرابت داروں میں سے خمس کے پانچویں حصے کے مستحقین صرف وہی لوگ تھے جو آپ کی نصرت کرتے تھے اور اس حصے کا استحقاق دو باتوں پر مبنی تھا، ایک قرابت داری اور دوسری نصرت، آپ کی وفات کی وفات کے بعد پیدا ہونے والے آپ کے رشتہ دار جن کا آپ کی نصرت میں کوئی حصہ نہیں تھا وہ فقر کی بناء پر اس حصے کے مستحق ہوں گے جس طرح دوسرے تمام فقراء اس کے مستحق ہیں۔- ان حضرات نے اپنے اس مسلک کے لئے اس روایت سے استدلال کیا ہے جسے زہری نے سعید بن المسیب سے اور انہوں نے حضرت جبیر بن مطعم (رض) سے روایت کی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ذوی القربیٰ کچا حصہ بنو ہاشم اور بنو المطلب کے درمیان تقسیم کردیا تو میں اور عثمان آپ کے پاس آئے اور عرض کیا کہ بنو ہاشم کو جو فضیلت حاصل ہے اس کا ہم انکار نہیں کرتے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس خاندان میں پیدا فرمایا، لیکن بنو المطلب کو آپ نے حصہ دیا اور ہمیں یعنی بنو عبد شمس کو محروم رکھا، آخر اس کی کیا وجہ ہے ؟ جب کہ آپ سے ان کی اور ہماری قرابت یکساں ہے۔ یہ سن کر آپ نے فرمایا : ” بنو المطلب نے میرا ساتھ کبھی نہیں چھوڑا نہ زمانہ جاہلیت میں اور نہ ہی زمانہ اسلام میں، میرے لئے بنو ہاشم اور بنو المطلب ایک ہی چیز ہیں۔ “ یہ فرماتے ہوئے آپ نے اپنی انگلیوں کی تشبیک کی یعنی انہیں ایک دوسرے میں داخل کردیا۔ یہ روایت دو وجوہ سے اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ صرف قرابت کی بناء پر اس حصے کا استحقاق نہیں ہوتا تھا۔ ایک وجہ تو یہ کہ بنو المطلب اور بنو عبد شمس قرابت کے لحاظ سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یکساں درجے پر تھے۔ لیکن آپ نے بنو المطلب کو حصہ دیا اور بنو شمس کو کوئی حصہ نہ دیا۔ گر قرابت کی بنا پر استحقاق ہوتا تو آپ ان دونوں خاندانوں کچو مساوی طور پر حصہ دیتے۔- دوسری وجہ یہ ہے کہ آیت میں ذوی القربیٰ کے ذکر میں جو اجمال تھا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ فعل اس اجمال کا بیان اور اس کی تفصیل بن گیا اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کوئی فعل جب بیان کے طور پر وارد وتا ہے تو اسے وجوب پر محمول کیا جاتا ہے۔ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرابت ک ساتھ نصرت کا بھی ذکر فرمایا تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوئی کہ اللہ کے ہاں بھی یہی مراد ہے اس لء جن قرابت داروں کا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نصرت میں کوئی حصہ نہیں ہے۔ وہ فقر کی بنا پر ذوی القربیٰ کے حصے کے مستحق ہوں گے۔ نیز چاروں خلفائے راشدین اس بات پر متفق ہیں کہ اس کا استحقاق فقر کی بنا پر ہوتا ہے۔ محمد بن اسحاق کہتے ہیں کہ میں نے محمد بن علی سے دریافت کیا تھا کہ حضرت علی (رض) نے ذوی القربیٰ کے حصے کی تقسیم کس طرح کی تھی۔ انہوں نے جواب دیا کہ جب آپ خلیفہ بنے تو اس معاملے میں آپ نے حضرت ابوبکر (رض) اور حضرت عمر (رض) کا طریقہ اپنایا۔ آپ یہ بات ناپسند کرتے تھے کہ ان دونوں حضرات کی مخالفت کا آپ پر الزام عائد کیا جائے۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ اگر اس بارے میں حضرت علی (رض) کی اپنی بھی یہ رائے نہ ہوتی تو آپ ہرگز یہ فیصلہ نہ کرتے اس لئے کہ آپ نے بہت سے مسائل میں ان دونوں حضرات سے مختلف مسلک اختیار کیا تھا۔ مثلاً میراث میں دادا کے حصے کے متعلق اسی طرح وظائف میں یکسانیت کے بارے میں آپ کی رائے ان دونوں حضرات سے مختلف تھی۔ اسی طرح کئی اور مسائل ہیں جن میں آپ نے ان حضرات سے اختلاف کیا تھا اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ حضرت علی (رض) کو اس بارے میں حضر ابوبکر (رض) اور عمر (رض) سے اتفاق تھا کہ ذوی القربیٰ کے حصے کا استحقاق حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صرف ان رشتہ داروں کو تھا جو فقراء تھے۔- جب چاروں خلفاء راشدین اس امر پر متفق ہوئے تو ان کے اجماع کی بنا پر اس مسئلے کی حجت اور قطعیت ثابت ہوگئی اس لئے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے (علیکم بسنتی و سنۃ الخلفاء الراشدین من بعدی۔ تم پر میری سنت اور میرے بعد آنے والے خلفائے راشدین کے طریقے کی اتباع لازم ہے۔ ) یزید بن ہرمز نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ جب نجدہ حروری (خوراج کا ایک بڑا سردار) نے حضرت ابن عباس (رض) سے ذوی القربیٰ کے حصے کے متعلق دریافت کروایا تو آپ نے اسے جو تحریر لکھی تھی اس میں یہ درج تھا۔ ” ہمارا خیال تھا کہ یہ حصہ ہمارے لئے ہے، حضرت عمر (رض) نے ہمارے خاندان والوں کو بلا کر یہ پیشکش کی تھی کہ اس حصے کی مد میں آنے والے مال سے ہم اپنی بین بیاہی اور بیوہ خواتین کی شادیاں کرا دیں اور قرض داروں کے قرض ادا کردیں لیکن ہم اس بات پر اڑ گئے تھے کہ یہ حصہ ہمیں نہ دیا جائے۔ ہماری قوم یعنی خاندان والوں نے اسے قبول کرنے سے انکار کردیا تھا۔ ” بعض روایات کے الفاظ یہ ہیں۔ لیکچن ہمارے بنو عم نے یہ بات تسلیم نہیں کی تھی۔ “ حضرت ابن عباس (رض) نے یہ بتایا کہ ان کی قوم نے جو سب کے سب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحابہ کرام تھے۔ یہ سمجھا تھا کہ یہ حصہ ان کے فقراء کے لئے ہے، اغنیاء کے لئے نہیں ہے۔- رہ گیا حضرت ابن عباس (رض) کا یہ قول کہ ” ہم سمجھتے ہیں تھے کہ یہ حصہ ہمارے لئے ہے۔ “ دراصل ان کی اپنی رائے تھی اور اسی بنا پر انہوں نے یہ بات کہی تھی، لیکن سنت اور خلفاء اربعہ کے متعفقہ طرزعمل کے مقابلہ میں اس رائے کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) کے اس بیان کی روشنی میں جو انہوں نے حضرت عمر (رض) سے نقل کیا ہے، حضرت عمر (رح) کے قول کی صحت پر زہری کی وہ حدیث دلالت کرتی ہے جو انہوں نے عبداللہ بن الحارث بن نوفل سے روایت کی ہے اور انہوں نے المطلب بن ربیعہ بن الحارث سے بیان کیا ہے کہ مطلب (رض) اور فضل بن عباس (رض) دونوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ ہم شادی کی عمر کو پہنچ گئے ہیں اور ہمارے پاس مہر میں دینے کے لئے کچھ نہیں ہے ۔ ہم آپ کے پاس اس لئے آئے ہیں کہ ہمیں صدقات کی وصولی پر مقرر کردیا جائے اور پھر ہم اس کی وصولی کر کے دوسرے عمال کی طرح آپ کو لا کردیں اور ان کی طرح اس میں سے ہمیں بھی حصہ مل جائے۔ اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں فرمایا (ان الصدقۃ لا تنبغی لال محمد، انماھی اوساخ الناس) ۔- زکوٰۃ کا مال آل محمد کے گھروں میں نہیں جانا چاہیے تو یہ لوگوں کا میل کچیل ہے) پھر آپ نے محمیہ کو حکم دیا کہ ان دونوں کو مہر کی رقم کی مقدار خمس میں سے دے دیں۔ یہ روایت اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ ذوی القربیٰ کے حصے کا استحقاق فقر کی بنا پر ہوتا ہے کیونکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان دونوں کو مہر کی مقدار دینے کا حکم دیا تھا، انہیں نکاح کرنے کے لئے اتنی ہی مقدار کی ضرورت تھی۔ آپ نے انہیں ان کی ضرورت سے زائد دینے کا حکم نہیں دیا۔ خمس کو حصول کے مطابق تقسیم کرنا ضروری نہیں ہے بلکہ اس کی تقسیم کا مسئلہ امام المسلمین کی رائے اور اس کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد دلالت کرتا ہے (مالی من ھذا الامال الا الخمس والخمس مردود فیکم۔ اسمال غنیمت سے میرے لئے صرف پانچواں حصہ ہے اور یہ پانچواں حصہ بھی تمہارے اوپر صرف کردیا جاتا ہے) آپ نے اس میں اپنی قرابت داری کی کوئی تخصیص نہیں کی اور دوسروں کو اس سے خارج نہیں کیا۔ یہ بات اس پر دلالت کرتی ہے کہ خمس کے معاملے میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قرابت دار دوسرے فقراء کی طرح ہیں اس میں ان کا صرف اتنا ہی حصہ ہوگا جو ان کی ضرورت پوری کرنے کے لئے کافی ہوجائے۔ اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد بھی دلالت کرتا ہے (یذھب کسری فلا کسری بعدہ ابدا و یذھب قیصر فلا قیصر بعدہ ابدا والذی نفسی بیدہ لتنفقن کنوزھما فی سبیل اللہ۔ کسریٰ ، یعنی شہنشاہ ایران ختم ہوجائے گا اور اس کے بعد کبھی کوئی کسریٰ پیدا نہیں ہوگا۔ قیصر یعنی شاہ روم ختم ہوجائے گا اور اس کے بعد کبھی کوئی قیصر پیدا نہیں ہوگا۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے تم لوگ ان دونوں کے خزانوں کو اللہ کے راستے میں خرچ کرو گے) آپ نے یہ بتایا کہ ان کے خزانے اللہ کے راستے میں خرچ ہوں گے۔ آپ نے ان خزانوں کے ساتھ کسی قوم کی تخصیص نہیں کی۔ خمس کی تقسیم کا معاملہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا تھا اس پر یہ امر دلالت کرتا ہے کہ آپ نے خمس میں ان لوگوں کو بھی دیا تھا جو مولفۃ القلوب کے ضمن میں آتے تھے حالانکہ آیت خمس میں ان کا ذکر نہیں ہے۔ یہ چیز ہماری بیان کردہ بات پر دلالت کرتی ہے۔ اس پر یہ امر بھی دلالت کرتا ہے کہ آیت خمس میں جن لوگوں کا ذکر کیا گیا انہیں صرف فقر کی بنا پر مستحق قرار دیا گیا ہے۔ یہ یتامیٰ ، مساکین اور ابن السبیل یعنی مسافر لوگ ہیں اس لئے ذوی القربیٰ بھی ایسے ہی لوگ ہونے چاہئیں۔ اس لئے کہ انہیں بھی خمس سے حصہ ملتا ہے۔ اس پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قرابت داروں پر زکوۃ و صدقات کا مال حرام کردیا گیا تو اس کی جگہ ان کے لئے خمس میں سے حصہ مقرر کردیا گیا اس سے یہ ضروری ہوگیا کہ اس حصے کے صرف وہی لوگ حقدار بنیں جو ان میں سے فقراء ہوں۔ جس طرح اصل یعنی زکوٰۃ و صدقات کے صرف وہی لوگ مستحق قرار پائے جو فقراء و مساکین ہوتے ہیں۔ اس لئے کہ خمس کا یہ حصہ اس اصل کے قائم مقام قرار دیا گیا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ بنو ہاشم کے موالی یعنی ان کے آزاد کردہ غلاموں اور ان کے ساتھ عقد موالات کرنے والوں کے لئے زکوٰۃ و صدقات کا مال حلال نہیں ہوتا لیکن یہ لوگ خمس کے حصے کے مستحقین میں شامل نہیں ہیں۔ اس کے جواب میں کا ہ جائے گا کہ یہب ات غلط ہے۔ اس لئے کہ بنو ہاشم کے موالی کے لئے خمس کے اندر حصہ ہوتا ہے بشرطیکہ وہ فقراء ہوں جس طرح بنو ہاشم کے لئے حصہ ہوتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قرابت دار فقر اور حاجت کی بنا پر خمس کے حصے کے حق دار شمار ہوتے ہیں تو پھر آیت میں خصوصیت کے ساتھ ان کے ذکر کی کیا وجہ ہے جب کہ یہ مساکین کے گروہ میں شامل ہیں۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا ان کے ذکر کی وہی حیثیت ہے جو یتامیٰ اور ابن السبیل کے ذکر کی ہے حالانکہ یتامیٰ اور ابن السبیل فقر کی بنا پر ہی خمس کے حصے کے مستحق ہوتے ہیں۔ نیز اللہ تعالیٰ نے جب خمس کو یتامیٰ ، مساکین اور ابن السبیل کے لئے مخصوص کردیا جس طرح صدقات کی اپنے اس قول کے ذریعے تخصیص کردی (انما الصدقات للفقراء والمساکین) تا آخر آیت۔ دوسری طرف حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرما دیا (ان الصدقۃ لا تحل لال محمد آل محمد کے لئے صدقات حلال نہیں) تو اگر آیت خمس میں ان قرابت داروں کا ذکر نہ ہوتا تو کوئی یہ گمان کرسکتا تھا کہ خمس میں سے انہیں دینا جائز نہیں ہے جس طرح زکوٰۃ و صدقات میں سے انہیں دینا جائز نہیں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے آیت خمس میں ان کا ذکر کر کے یہ بتادیا کہ خمس کے مال میں ان کا حکم زکوۃ و صدقات کے مال کے حکم سے مختلف ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے چچا حضرت عباس (رض) کو خمس میں سے دیا تھا، حالانکہ وہ مالدار تھے جس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ خمس میں ذوالقربیٰ کا حصہ ان کے فقراء اور اغنیاء سب کے لئے ہے ۔ اس اعتراض کا جواب دو طرح سے دیا جائے گا۔ ایک تو یہ کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بتادیا تھا کہ آپ نے انہیں قرابت داری اور نصرت کی بنا پر خمس میں سے یہ حصہ دیا تھا۔ چناچہ آپ کا ارشاد ہے (انھم لم یفار قونی فی الجاھلیۃ ولا اسلام۔ ان لوگوں نے زمانہ جاہلیت اور زمانہ اسلام دونوں میں میرا ساتھ نہیں چھوڑا) اس لئے قرابت اور نصرت میں یکسانیت کی بناء پر آپ کے تمام رشتہ دار خواہ وہ فقیر ہوں یا غنی خمس میں ذوی القربیٰ کے حصے کے یکساں مستحق ہوں گے۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ شاید آپ نے حضرت عباس (رض) کو یہ حصہ فقراء بنی ہاشم کے درمیان تقسیم کرنے کے لئے دیا ہو، خود ان کی ذات کو نہ دیا ہو۔- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قرابت دار کون ہیں ؟- حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قرابت دار کون ہیں اس مسئلے میں فقہاء کے مابین اختلاف رائے ہے۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ آپ کے قرابت دار وہ لوگ ہیں جن پر زکوۃ و صدقات کا مال حرام ہے۔ یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رشتہ دار اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آل، یہ لوگ آل جعفر، آل عقیل اور حارث بن عبدالمطلب کی اولاد ہیں۔ زید بن ارقم سے اسی قسم کی روایت منقول ہے۔ بعض حضرات کا قول ہے کہ عبدالمطلب کا سارا گھرانہ اس میں داخل ہے اس لئے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں خمس میں سے حصہ دیا تھا۔ بعض دوسرے حضرات کا قول ہے کہ پورا قبیلہ قریش حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا قرابت دار ہے۔ خمس میں ان سب کا حصہ ہے۔ البتہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ اختیار تھا کہ اپنی صوابدید کے مطابق ان میں سے جسے چاہیں حصہ دے دیں۔ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ جن رشتہ داروں کا ہم نے ذکر کیا ہے ان کے متعلق فقہاء کچا اتفاق ہے کہ یہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قرابت دار ہیں۔ بنو المطلب اور بنو عبد شمس قرابتداری میں یکساں درجے پر ہیں۔ اگر بنو مطلب کا ایسے قرابت داروں میں شامل ہونا ضروری ہے جن پر زکوۃ و صدقات کا مال حرام ہے تو پھر بنو عبدشمس کا بھی ان کی طرح ہونا ضروری ہوگا اس لئے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قرابت داری میں بنو عبدشمس بنو مطلب کے ہم پلہ اور یکساں درجے پر ہیں۔ اب رہی یہ بات کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنو مطلب کو خمس میں طے حصہ دیا تھا اور بنو عبدشمس کو نہیں دیا تھا تو اس کی وجہ یہ ہے کہ بنو مطلب کو یہ حصہ آپ کی نصرت کرنے کی بنا پر ملا تھا اس لئے کہ آپ نے خود فرما دیا تھا کہ ان لوگوں نے زمانہ جاہلیت اور زمانہ اسلام دونوں میں آپ کا ساتھ نہیں چھوڑا تھا۔ رہ گئی زکوۃ اور دیگر صدقات تو تمام فقہاء کے نزدیک اس کی تحریم کا نصرت سے کوی تعلق نہیں ہوتا۔ اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ بنو المطلب بنی عبدشمس کی طرح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آل میں سے نہیں ہیں جن پر زکوۃ حرام ہوتی ہے۔ بنو ہاشم کے موالی پر زکوۃ حرام ہوتی ہے حالانکہ ان کی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کوئی قرابت داری نہیں ہوتی۔ یہ لوگ قرابت کی بنیاد پر خمس کے مستحق نہیں ہوتے۔ حضرت فاطمہ (رض) نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خمس کے مال میں سے ایک خدمت گار طلب کیا تھا تو آپ نے انہیں تسبیحات پڑھنے کے لئے کہا تھا اور کچھ بھی نہیں دیا تھا۔- اگر یہ کہا جائے کہ آپ نے حضرت فاطمہ (رض) کو خمس میں سے اس لئے نہیں دیا تھا کہ وہ آپ کے ذوی القربیٰ کے ضمن میں نہیں آتی تھیں اس لئے کہ وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قرابت داروں سے بڑھ کر آپ کی قرابت دار تھیں۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی (رض) کو بھی اسی خطاب سے پکارا تھا جبکہ حضرت علی (رض) آپ کے ذوی القربی کے ضمن میں شامل تھے۔ اسی طرح آپ نے اپین بعض چچازاد بہنوں کو جب وہ حضرت فاطمہ (رض) کے ساتھ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خدمت گار طلب کرنے گئی تھیں فرما دیا تھا (سبتکن یتامی بدر، جو لوگ بدر میں شہید ہوئے تھے ان کی یتیم اولاد تم سے سبقت لے گئی) یعنی ان کی ضروریات پہلے پوری کردی گئیں جبکہ ان یتیموں میں ایے بھی تھے جن کا تعلق بنو ہاشم سے نہیں تھا۔ اس لئے کہ ان میں اکثر حضرات انصار کی اولاد تھی۔ اگر حضرت فاطمہ (رض) اور ان کے ساتھ جانے والی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچازاد بہن قرابت کی بنا پر کسی چیز کی مستحق ہوتیں جس سے انہیں روکنا جائز نہ ہوتا تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہرگز ان سے ان کا حق نہ روکتے اور کسی اور کو نہ دیتے۔ اس امر میں دو باتوں پر دلیل موجود ہے۔ ایک تو یہ کہ خمس میں ذوی القربیٰ کے حصے کی تقسیم کا معاملہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا تھا کہ آپ ان میں سے جسے چاہتے اس حصے میں سے دے دیتے۔ دوسری بات یہ کہ انہیں خمس میں سے دینے یا نہ دینے کا تحریم صدقات کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ جو لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ قریش کا سارا قبیلہ آپ کا قرابت دار ہے وہ اس بات سے استدلال کرتے ہیں کہ جب قول باری (و انذر عشیرتک الاقربین اور اپنے کنبہ کے عزیزوں کو ڈراتے رہیں) کا نزول ہوا تو آپ نے قبیلہ قریش کے بطون یعنی مختلف شاخوں کا نام لے کر مثلاً ” اے بنی فہر، اے بنی عدی،۔ اے بنی فلاں وغیرہ “ ان سے فرمایا (انی نذیرلکم بین یدی عذاب شدید، میں تمہیں ایک زبردست عذاب کی آمد سے ڈرا رہا ہوں) آپ سے یہ بھی مروی ہے کہ اس موقع پر آپ نے یہ بھی فرمایا تھا : اے بنی کعب بن لوئی، اے بنی ہاشم۔ اے بنی قصی، اے بنی عبد مناف “ آپ کا یہ قول بھی مروی ہے : ’ دشاید میں بنی ہاشم کو جمع کرلوں۔ “ بنو ہاشم کے افراد کی تعداد چالیس تھی۔ ان حضرات کا کہنا ہے کہ جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ قبیلہ قریش سارے کا سارا آپ کا قرابت دار ہے اور خمس میں سے انہیں کچھ دینے کا معاملہ آپ کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا تھا تو آپ نے ان میں سے صرف ایسے لوگوں کو کچھ دیا، جنہوں نے آپ کی نصرت کی تھی۔ دوسروں کو کچھ نہیں دیا۔- ابوبکرجصاص کہتے ہیں قرابت کے اسم کا ان سب پر اطلاق ہوتا ہے اس لئے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے درج بالا آیت کے نزول کے بعد ان سب کو اسلام کی دعوت دینے کے لئے اکٹھا کیا تھا جس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ قرابت کا اسم ان سب کو شامل ہے۔ اس طرح حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذوی القربیٰ کے ساتھ تین احکام کا تعلق ہوگیا۔ اول خمس کے ایک حصے میں ان کا استحقاق اس لئے کہ قول باری ہے (وللرسول ولذی القربی) تاہم ان شرطوں کے مطابق ان کا فقراء ہونا ضروری ہوگا جن کا ہم نے ان کے معتلق اختلاف رائے رکھنے والوں کے اقوال کی صورت میں ذکر کردیا ہے۔ دوسرا حکم یہ ہے کہ ان پر زکوٰۃ و صدقات کا مال حرام ہے۔ یہ آل علی، آل عباس، آل عقیل، آل جعفر اور حارث بن عبدالمطلب کی اولاد ہیں۔ یہ اہل بیت نبی کہلاتے ہیں، بنو المطلب کے ساتھ اس حکم کا کوئی تعلق نہیں ہے اس لئے کہ یہ لوگ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اہل بیت میں شمار نہیں ہوتے۔ اگر یہ لوگ آپ کے اہل بیت میں داخل ہوتے تو اس صورت میں بنو امیہ بھی آپ کے اہل بیت اور آل میں شامل ہوتے جب کہ اس پر سب کا اتفاق ہے کہ بنی امیہ کو یہ حیثیت حاصل نہیں ہے اس لئے بنو المطلب کو بھی یہی حیثیت ہوگی اس لئے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے رشتہ داری کے اندر ان دونوں خاندانوں کو یکساں درجہ حاصل ہے۔- تیسرا حکم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے اپنے قرابت داروں کو اللہ کے عذاب سے ڈرانے کی تخصیص فرما دی۔ یہ چیز قبیلہ قریش کی تمام شاخوں کو شامل تھی جیسا کہ روایت میں آیا ہے کہ آیت (وانذر عشیرتک الاقربین) کے نزول پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قریش کے پورے قبیلے کو عذاب الٰہی سے ڈرایا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ حکم اس لئے دیا تھا کہ آیت کے نزول پر یہ طریق کار دین کی طرف بلانے کے لئے زیادہ موثر تھا اور اس کے ذریعہ اللہ کی طرف دعوت کے کام میں نرمی نہ دکھانے اور باہمی تعلقات الفت و نظرانداز کردینے کا بھوپر مظاہرہ ہوا تھا۔ اس لئے جب تمام لوگوں کو اس بات کا علم ہوگیا ہو گا کہ آپ نے اپنے قبیلے کے لوگوں کی بت پرستی کو برداشت نہیں کیا بلکہ انہیں اس کے انجام سے ڈرایا اور انہیں اس سے روکا تو انہیں یہ محسوس ہوگیا ہو گا کہ آپ دوسرے لوگوں کی بت پرستی کو کیسے برداشت کرسکتے ہیں۔ اس لئے کہ اگر باہمی الفت و محبت اور رشتہ داری اس کے آڑے آسکتی تو پھر آپ کے قرابت دار تمام لوگوں سے بڑھ کر اس لحاظ کے مستحق ہوتے۔- یتیم کسے کہتے ہیں ؟- قول باری ہے (والیتامی) یتیم کے اصل معنی تنہا رہ جانے کے ہیں۔ اسی بناء پر ریگستان میں تنہا ٹیلے کو یتیمہ کہتے ہیں۔ اسی طرح وہ عورت بھی یتیمہ کہلاتی ہے جو شادی کے جھمیلوں سے اپنے آپ کو الگ رکھتی ہے ۔ تاہم عرف عام میں یتیم اس نابالغ بچے کو کہا جاتا ہے جس کا باپ گزر چکا ہو۔ جب اس کا اطلاق ہوتا ہے تو اس سے فقیر کے معنی کا بھی احساس پیدا ہوتا ہے۔ اسی بناء پر ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ اگر کوئی شخص کسی خاندان کے یتیموں کے لئے کچھ وصیت کر جائے اور اس خاندان میں بیشمار یتیم ہوں تو وصیت درست ہوگی اور ان میں جو فقراء ہوں گے انہیں یہ وصیت مل جائے گی نیز اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ آیت زیر بحث میں یتیمی کے ساتھ فقر بھی مراد ہے اور مالدار یتیموں کا خمس کے اندر کوئی حق نہیں ہوتا۔ یتیم کے لفظ کا اطلاق اس نابالغ پر ہوتا ہے جس کا باپ فوت ہوگیا ہو، بالغ پر نہیں ہوتا اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد دلالت کرتا ہے کہ (لا یتم بعد حلم۔ بلوغت کے بعد کوئی یتیمی نہیں رہتی) ایک قول ہے کہ انسان کے سوا ہر جاندار کا بچہ اپنی ماں کے مرجانے پر یتیم کہلاتا ہے لیکن انسان کا بچہ باپ کے مرجانے پر یتیم شمار ہوتا ہے۔- ابن السبیل - قول باری ہے (وابن السبیل) اس سے مراد وہ مسافر ہے جو اپنے گھر سے بچھڑ گیا ہو اور اسے اپنے گھر تک پہنچنے کے لئے مدد حاصل کرنے کی ضرورت ہو خواہ گھر پر مال کیوں نہ موجود ہو۔ اس کی حیثیت اس فقیر جیسی ہوگی جس کے پاس کوئی مال نہیں، اس لئے کہ فقیر کو خمس میں سے دینے کے وجوب کی علت یہ ہے کہ اسے مال کی حاجت ہوتی ہے۔ اس لئے ایسا شخص جس کے پاس مال تو ہو لیکن اس کی دسترس سے باہر ہو اس شخص کی طرح ہوتا ہے جس کے پاس سرے سے مال ہی نہیں ہوتا۔ ان دونوں میں احتیاج کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہوتا۔ مسکین کے متعلق فقاء کے مابین اختلاف رائے ہے ہم اس کا صدقات کی آیت کی تفسیر میں ذکر کریں گے۔ جب تمام کا اس پر اتفاق ہوگیا کہ ابن السبیل اور یتیم اپنے نام اور لیبل کی بنا پر خمس کے اندر حصے کے مستحق نہیں ہوتے بلکہ فقر اور حاجت مندی کی بنا پر ہوتے ہیں تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوگئی کہ خمس کا مقصد صرف یہ ہے کہ اسے مساکین پر صرف کیا جائے۔- اگر یہ کہا جائے کہ جب فقر استحقاق کی علت قرار پایا ہے تو پھر ذوی القربیٰ کے ذکر کا کیا فائدہ ہوا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ان کے ذکر میں بہت بڑا فائدہ پوشیدہ ہے۔ وہ یہ کہ جب آل نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر صدقات و زکوۃ کا مال حرام کردیا گیا تو کسی شخص کے ذہن میں یہ بات آسکتی تھی کہ ان پر صدقات کی طرح خمس بھی حرام ہے کیونکہ خمس کا مصرف بھی فقراء تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آیت خمس میں، ان کا ذکر کر کے یہ واضح فرما دیا کہ فقر کی بناء پر ذوی القربیٰ بھی خمس کے اندر حصوں کے حقدار ہوں گے اور انہیں اس علت کی بناء پر حصہ دینا جائز ہوگا۔ اس اعتراض سے خود معترض پر یہ اعتراض لازم آتا ہے کہ پھر اسے نام کی نبی اد پر یتیموں اور مسافروں کو خمس میں سے حصہ دینا چاہیے اور فقر و حاجت مندی کو نظرانداز کردینا چاہیے۔ اس لئے ذوی القربیٰ کی صورت میں اگر معترض کا اعتراف تسلیم کرلیا جائے تو یہی بات ابن السبیل اور یتامیٰ کے بارے میں بھی کہی جاسکتی ہے کہ جب استحقاق فقر کی بنیاد پر ہوتا ہے تو پھر آیت خمس میں ابن السبیل اور یتامیٰ کے ذکر کا کوئی فائدہ نہیں جب کہ یہ دونوں فقرز ہی کی بنا پر خمس کے اندر کسی حصے کا استحقاق رکھ سکتے ہیں۔

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٤٢) اے مومنوں کی جماعت جب کہ تم مدینہ منورہ سے قریب ایک گھاٹی کے اس طرف اور ابوجہل اور اس کے ساتھی مدینہ منورہ سے دور وادی کے پیچھے تھے اور ابوسفیان اور اس کے ساتھیوں کا قافلہ دریا کے کنارا پر اس سے تین میل دور تھا اور اگر تم مدینہ منورہ میں لڑائی کے لیے کوئی اور بات طے کرتے تو مدینہ منورہ میں اس چیز کے بارے میں تمہارے اندر ضرور اختلاف ہوتا لیکن اللہ تعالیٰ کو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ کرام (رض) کی مدد اور مال غنیمت کا دینا اور ابوجہل اور اس کے ساتھیوں کا مارا جانا اور شکست کھانا منظور تھا، لہٰذا اس کی تکمیل کردی تاکہ جس کو اللہ تعالیٰ کفر پر ہلاک کرنا چاہے اس کو ہلاک فرما دے اس کے باوجود کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نصرت کا اعلان ہوچکا ہو، اور اس اعلان کے بعد جس کو اللہ تعالیٰ ایمان پر ثابت قدم رکھنا چاہے، اسے ثابت قدم رکھ دے یا یہ کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مدد کے اعلان کے بعد جس کو اللہ تعالیٰ کافر رکھنا چاہے وہ کافر رہے اور جس کو ایمان پر ثابت قدم رکھنا چاہے وہ اس چیز کے بیان کے بعد بھی ایمان پر ثابت قدم رہے، اللہ تعالیٰ تمہاری دعاؤں کو سننے والے اور ان کی قبولیت اور تمہاری مدد کو اچھی طرح جاننے والے ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٤٢ (اِذْ اَنْتُمْ بالْعُدْوَۃِ الدُّنْیَا وَہُمْ بالْعُدْوَۃِ الْقُصْوٰی) - وادئ بدر دونوں اطراف سے تنگ ہے جب کہ درمیان میں میدان کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ اس وادی کا ایک تنگ کنارہ شمال کی طرف ہے جہاں سے شام کی طرف راستہ نکلتا ہے اور دوسرا کنارہ جنوب کی طرف ہے جہاں سے مکہ کو راستہ جاتا ہے۔ وادی میں سے ایک راستہ مشرق کی سمت بھی نکلتا ہے جو مدینہ کی طرف جاتا ہے۔ لہٰذا پرانے زمانے میں حاجیوں کے زیادہ تر فاقلے وادئ بدر سے ہی گزرتے تھے۔ اب نئی موٹر وے طریق الھجرۃ بن جانے سے لوگوں کو ان مقامات سے گزرنے کا موقع نہیں ملتا۔ غزوۂ بدر کے موقع پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسی تدبیر کا ظہور ہوا کہ دونوں لشکر وادئ بدر میں ایک ساتھ پہنچے۔ یہاں اسی کا ذکر ہے کہ جب قریش کا لشکر وادی کے دور والے (جنوبی) کنارے پر آپہنچا اور مشرق کی جانب سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنا لشکر لے کر اس کنارے پر پہنچ گئے جو مدینہ سے قریب تھا۔- (وَالرَّکْبُ اَسْفَلَ مِنْکُمْ ط) - قریش کا تجارتی قافلہ اس وقت نیچے ساحل سمندر کی طرف سے ہو کر گزر رہا تھا۔ ابوسفیان نے ایک طرف تو قافلے کی حفاظت کے لیے مکہ والوں کو پیغام بھیج دیا تھا اور دوسری طرف اصل راستے کو چھوڑ دیا تھا جو وادی بدر سے ہو کر گزرتا تھا اور اب یہ قافلہ ساحل سمندر کے ساتھ ساتھ سفر کرتے ہوئے آگے بڑھ رہا تھا۔ بدر کے پہاڑی سلسلے سے آگے تہامہ کا میدان ہے جو ساحل سمندر تک پھیلا ہوا ہے۔ اور قافلہ اس وقت اس میدان کی بھی آخری حدود پر سمندر کی جانب تھا۔ اس لیے فرمایا گیا کہ قافلہ تم سے نچلی سطح پر تھا۔- (وَلَوْ تَوَاعَدْتُّمْ لاَخْتَلَفْتُمْ فِی الْْمِیْعٰدِلا) - یعنی یہ تو اللہ کی مشیت کے تحت دونوں لشکر ٹھیک ایک ہی وقت پر وادی کے دونوں کناروں پر پہنچے تھے۔ اگر آپ لوگوں نے مقام معین پر پہنچنے کے لیے آپس میں کوئی وقت مقرر کیا ہوتا تو اس میں ضرور تقدیم و تاخیر ہوجاتی ‘ لیکن ہم نے دونوں لشکروں کو عین وقت پر ایک ساتھ آمنے سامنے لا کھڑا کیا ‘ کیونکہ ہم چاہتے تھے کہ یہ ٹکراؤ ہوجائے اور اہل مکہ پر یہ بات واضح ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ کی نصرت کس کے ساتھ ہے۔- (وَلٰکِنْ لِّیَقْضِیَ اللّٰہُ اَمْرًا کَانَ مَفْعُوْلاً لا) (لِّیَہْلِکَ مَنْ ہَلَکَ عَنْم بَیِّنَۃٍ ) - یعنی حق کے واضح ہوجانے میں کوئی ابہام نہ رہ جائے۔ اہل مکہ میں سے ان عوام کے لیے بھی حق کو پہچاننے میں کوئی شک و شبہ باقی نہ رہے جنہیں اب تک سرداروں نے گمراہ کر رکھا تھا۔ اگر اب بھی کسی کی آنکھیں نہیں کھلتیں اور وہ ہلاکت کے راستے پر ہی گامزن رہنے کو ترجیح دیتا ہے تو یہ اس کی مرضی ‘ مگر ہم چاہتے ہیں کہ اگر ایسے لوگوں کو ہلاک ہی ہونا ہے تو ان میں سے ہر فرد حق کے پوری طرح واضح ہونے کے بعد ہلاک ہو۔- (وَّیَحْیٰی مَنْ حَیَّ عَنْم بَیِّنَۃٍط وَاِنَّ اللّٰہَ لَسَمِیْعٌ عَلِیْمٌ ) ۔- جو سیدھے راستے پر آنا چاہتا ہے وہ بھی اس بَیِّنَہ کی بنا پر سیدھے راستے پر آجائے اور حیات معنوی حاصل کرلے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَنْفَال حاشیہ نمبر :34 یعنی ثابت ہو جائے کہ جو زندہ رہا اسے زندہ ہی رہنا چاہیے تھا اور جو ہلاک ہوا اسے ہلاک ہی ہونا چاہیے تھا ۔ یہاں زندہ رہنے والے اور ہلاک ہونے والے سے مراد افراد نہیں ہیں بلکہ اسلام اور جاہلیت ہیں ۔ سورة الْاَنْفَال حاشیہ نمبر :35 یعنی خدا اندھا ، بہرا ، بے خبر خدا نہیں ہے بلکہ دانا و بینا ہے ۔ اس کی خدائی میں اندھا دُھند کام نہیں ہو رہا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

28: یہ میدانِ جنگ کا نقشہ بتایاجارہا ہے۔ ’’بدر‘‘ ایک ودای کا نام ہے، اُس کا وہ کنارہ جو مدینہ منورہ سے قریب تر ہے، اس پر مسلمانوں کا لشکر فروکش تھا، جو کنارہ مدینہ منورہ سے نسبۃً دُور ہے، اُس پر کفار کا لشکر تھا۔ اور قافلے سے مراد ابوسفیان کا قافلہ ہے جو اس وادی کے نیچے کی جانب ساحلِ سمندر کی طرف بچ کر نکل گیا تھا۔ تفصیل اس سورت کے شروع میں بیان ہوچکی ہے۔ 29: مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسباب ایسے پیدا فرمادیئے کہ کفارِ مکہ سے باقاعدہ جنگ ٹھن گئی، ورنہ اگر دونوں فریق پہلے سے جنگ کے لئے کوئی وقت طے کرنا چاہتے تو اِختلاف ہوجاتا، مسلمان چونکہ بے سروسامان تھے، اس لئے باقاعدہ جنگ سے کتراتے، اور مشرکین کے دِلوں پر بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہیبت تھی، اس لئے وہ بھی خواہش کے باوجود جنگ کو ٹلانا چاہتے۔ لیکن جب انہیں اپنا تجارتی قافلہ خطرے میں نظر آیا تو ان کے پاس جنگ کے سوا کوئی چارہ نہ رہا، اور مسلمانوں کے سامنے جب لشکر آہی گیا تو وہ بھی لڑنے پر مجبور ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ فرمارہے ہیں کہ یہ اسباب ہم نے اس لئے پیدا کئے کہ ایک مرتبہ فیصلہ کن معرکہ ہوجائے، اور اللہ تعالیٰ کی عطا فرمائی ہوئی فتح ونصرت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حقانیت کھل کر سامنے آجائے۔ اس کے بعد بھی اگر کوئی شخص کفر کرکے بربادی کا راستہ اختیار کرے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے دلیل کے واضح ہونے کے بعد اِختیار کرے، اور جو شخص اسلام لاکر باعزت زندگی اختیار کرے، وہ بھی اس واضی دلیل کی روشنی میں کرے۔