مال غنیمت کی تقسیم کا بیان تمام اگلی امتوں پر مال غنیمت حرام ہے ۔ لیکن اس امت کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنی مہربانی سے اسے حلال کر دیا ۔ اس کی تقسیم کی تفصیل یہاں بیان ہو رہی ہے ۔ مال غنیمت وہ ہے جو مسلمانوں کو جہاد کے بعد کافروں سے ہاتھ لگے اور جو مال بغیر لڑے جنگ کے ہاتھ آئے مثلاً صلح ہو گئی اور مقررہ تاوان جنگ ان سے وصول کیا یا کوئی مر گیا اور لاوارث تھا یا جزئیے اور خراج کی رقم وغیرہ وہ فے ہے ۔ سلف و خلف کی ایک جماعت کا اور حضرت امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کا یہی خیال ہے ۔ بعض لوگ غنیمت کا اطلاق فے پر اور فے کا اطلاق غنیمت پر بھی کرتے ہیں ۔ اسی لئے قتادہ وغیرہ کا قول ہے کہ یہ آیت سورہ حشر کی ( آیت ماافاء اللہ الخ ، ) کی ناسخ ہے ۔ اب مال غنیمت میں فرق کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ وہ آیت تو فے کے بارے میں ہے اور یہ غنیمت کے بارے میں ۔ بعض بزرگوں کا خیال ہے کہ ان دونوں قسم کے مال کی تقسیم امام کی رائے پر ہے ۔ پس مقررہ حشر کی آیت اور اس آیت میں کوئی اختلاف نہیں جبکہ امام کی مرضی ہو واللہ اعلم ۔ آیت میں بیان ہے کہ خمس یعنی پانچواں حصہ مال غنیمت میں سے نکال دینا چاہئے ۔ چاہے وہ کم ہو یا زیادہ ہو ۔ گو سوئی ہو یا دھاگہ ہو ۔ پروردگار عالم فرماتا ہے جو خیانت کرے گا وہ اسے لے کر قیامت کے دن پیش ہو گا اور ہر ایک کو اس عمل کا پورا بدلہ ملے گا کسی پر ظلم نہ کیا جائے گا کہتے ہیں کہ خمس میں سے اللہ کے لئے مقرر شدہ حصہ کعبے میں داخل کیا جائے گا ۔ حضرت ابو العالیہ رباحی کہتے ہیں کہ غنیمت کے مال کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پانچ حصے کرتے تھے ۔ چار مجاہدین میں تقسیم ہوتے پانچویں میں سے آپ مٹھی بھر کر نکال لیتے اسے کنبے میں داخل کر دیتے پھر جو بچا اس کے پانچ حصے کر ڈالتے ایک رسول اللہ کا ایک قرابت داروں کا ۔ ایک یتیموں کا ایک مسکینوں کا ایک مسافروں کا یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہاں اللہ کا نام صرف بطور تبرک ہے گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حصے کے بیان کا وہ شروع ہے ۔ ابن عباس کا بیان ہے کہ جب حضور کوئی لشکر بھیجتے اور مال غنیمت کا مال ملتا تو آپ اس کے پانچ حصے کرتے اور پھر پانچویں حصے کے پانچ حصے کر ڈالتے پھر آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی ۔ پس یہ فرمان کہ ان للہ خمسہ یہ صرف کلام کے شروع کیلئے ہے ۔ زمین و آسمان میں جو کچھ ہے اللہ ہی کا ہے ۔ پانچویں حصے میں سے پانچواں حصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے بہت سے بزرگوں کا قول یہی ہے کہ اللہ رسول کا ایک ہی حصہ ہے ۔ اسی کی تائید بہیقی کی اس صحیح سند والی حدیث سے بھی ہوتی ہے کہ ایک صحابی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے وادی القریٰ میں آ کر سوال کیا کہ یا رسول اللہ غنیمت کے بارے میں آپ کیا ارشآد فرماتے ہیں؟ آپ نے فرمایا اس میں سے پانچواں حصہ اللہ کا ہے باقی کے چار حصے لشکریوں کے ۔ اس نے پوچھا تو اس میں کسی کو کسی پر زیادہ حق نہیں ؟ آپ نے فرمایا ہرگز نہیں یہاں تک کہ تو اپنے کسی دوست کے جسم سے تیر نکالے تو اس تیر کا بھی تو اس سے زیادہ مستحق نہیں حضرت حسن نے اپنے مال کے پانجویں حصے کی وصیت کی اور فرمایا کیا میں اپنے لئے اس حصے پر رضامند نہ ہو جاؤ؟ جو اللہ تعالیٰ نے خود اپنا رکھا ہے ۔ ابن عباس فرماتے ہیں کہ مال غنیمت کے پانچ حصے برابر کئے جاتے تھے چار تو ان لشکریوں کو ملتے تھے جو اس جنگ میں شامل تھے پھر پانچویں حصے کے جار حصے کئے جاتے تھے ایک چوتھائی اللہ کا اور اس کے رسول کا پھر یہ حصہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لیتے تھے یعنی پانچویں حصے کا پانچواں حصہ آپ اور آپ کے بعد جو بھی آپ کا نائب ہو اس کا ہے ۔ حضرت عبداللہ بن بریدہ فرماتے ہیں اللہ کا حصہ اللہ کے نبی کا ہے اور جو آپ کا حصہ تھا وہ آپ کی بیویوں کا ہے عطاء بن ابی رباح فرماتے ہیں اللہ اور اس کے رسول کا جو حصہ ہے وہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا ہے اختیار ہے جس کام میں آپ چاہیں لگائیں مقدام بن معدی کرب حضرت عبادہ بن صامت حضرت ابو درداء اور حضرت حارث بن معاویہ کندی رضی اللہ عنہم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کا ذکر ہونے لگا تو ابو داؤد نے عبادہ بن صامت سے کہا فلاں فلاں غزوے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خمس کے بارے میں کیا ارشاد فرمایا تھا ؟ آپ نے فرمایا کہ حضور نے ایک جہاد میں خمس کے ایک اونٹ کے پیچھے صحابہ کو نماز پڑھائی سلام کے بعد کھڑے ہوگئے اور چند بال چٹکی میں لے کر فرمایا کہ مال غنیمت کے اونٹ کے یہ بال بھی مال غنیمت میں سے ہی ہیں اور میرے نہیں ہیں میرا حصہ تو تمہارے ساتھ صرف پانچواں ہے اور پھر وہ بھی تم ہی کو واپس دے دیا جاتا ہے پس سوئی دھاگے تک ہر چھوٹی بڑی چیز پہنچا دیا کرو ، خیانت نہ کرو ، خیانت عار ہے اور خیانت کرنے والے کیلئے دونوں جہان میں آگ ہے ۔ قریب والوں سے دور والوں سے راہ حق میں جہاد جاری رکھو ۔ شرعی کاموں میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا خیال تک نہ کرو ۔ وطن میں اور سفر میں اللہ کی مقرر کردہ حدیں جاری کرتے رہو اللہ کے لئے جہاد کرتے رہو جہاد جنت کے بہت بڑے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے اسی جہاد کی وجہ سے اللہ تعالیٰ غم و رنج سے نجات دیتا ہے ( مسند امام احمد ) یہ حدیث حسن ہے اور بہت ہی اعلیٰ ہے ۔ صحاح ستہ میں اس سند سے مروی نہیں لیکن مسند ہی کی دوسری روایت میں دوسری سند سے خمس کا اور خیانت کا ذکر مروی ہے ۔ ابو داؤد اور نسائی میں بھی مختصراً یہ حدیث مروی ہے اس حصے میں سے آنحضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم بعض چیزیں اپنی ذات کے لئے بھی مخصوص فرما لیا کرتے تھے لونڈی غلام تلوار گھوڑا وغیرہ ۔ جیسا کہ محمد بن سیرین اور عامر شعبی اور اکثر علماء نے فرمایا ہے ترمذی وغیرہ میں ہے کہ ذوالفقار نامی تلوار بدر کے دن کے مال غنیمت میں سے تھی جو حضور کے پاس تھی اسی کے بارے میں احد والے دن خواب دیکھا تھا ۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا بھی اسی طرح آئیں تھیں ۔ ابو داؤد وغیرہ میں ہے حضرت یزید بن عبداللہ کہتے ہیں کہ ہم باڑے میں بیٹھے ہوئے تھے جو ایک صاحب تشریف لائے ان کے ہاتھ میں چمڑے کا ایک ٹکڑا تھا ہم نے اسے پڑھا تو اس میں تحریر تھا کہ یہ محمد رسول اللہ کی طرف سے زہیر بن اقیش کی طرف ہے کہ اگر تم اللہ کی وحدت کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی گواہی دو اور نمازیں قائم رکھو اور زکوٰۃ دیا کرو اور غنیمت کے مال سے خمس ادا کرتے رہو اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حصہ اور خالص حصہ ادا کرتے رہو تو تم اللہ اور اس کے رسول کی امن میں ہو ۔ ہم نے ان سے پوچھا کہ تجھے یہ کس نے لکھ دیا ہے اس نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ، پس ان صحیح احادیث کی دلالت اور ثبوت اس بات پر ہے اسی لئے اکثر بزرگوں نے اسے حضور کے خواص میں سے شمار کیا ہے ۔ صلوات اللہ وسلامہ علیہ اور لوگ کہتے ہیں کہ خمس میں امام وقت مسلمانوں کی مصلحت کے مطابق جو چاہے کر سکتا ہے ۔ جیسے کہ مال فے میں اسے اختیار ہے ۔ ہمارے شیخ علامہ ابن تیمیہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہی قول حضرت امام مالک کا ہے اور اکثر سلف کا ہے اور یہی سب سے زیادہ صحیح قول ہے ۔ جب یہ ثابت ہو گیا اور معلوم ہو گیا تو یہ بھی خیال رہے کہ خمس جو حضور کا حصہ تھا اسے اب آپ کے بعد کیا کیا جائے بعض تو کہتے ہیں کہ اب یہ حصہ امام وقت یعنی خلیفتہ المسلمین کا ہوگا ۔ حضرت ابو بکر حضرت علی حضرت قتادہ اور ایک جماعت کا یہی قول ہے ۔ اور اس بارے میں ایک مرفوع حدیث بھی آئی ہے کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ مسلمانوں کی مصلحت میں صرف ہو گا ایک قول ہے کہ یہ بھی اہل حاجت کی بقایا قسموں پر خرچ ہو گا یعنی قرابت دار یتیم مسکین اور مسافر ۔ امام ابن جریر کا مختار مذہب یہی ہے اور بزرگوں کا فرمان ہے کہ حضور کا اور آپ کے قرابت داروں کا حصہ یتیموں مسکینوں اور مسافروں کو دے دیا جائے ۔ عراق والوں کی ایک جماعت کا یہی قول ہے اور کہا گیا ہے خمس کا یہ پانچواں حصہ سب کا سب قرابت داروں کا ہے ۔ چنانچہ عبداللہ بن محمد بن علی اور علی بن حسین کا قول ہے کہ یہ ہمارا حق ہے پوچھا گیا کہ آیت میں یتیموں اور مسکینوں کا بھی ذکر ہے تو امام علی نے فرمایا اس سے مراد بھی ہمارے یتیم اور مسکین ہیں ۔ امام حسن بن محمد بن حنفیہ رحمہ اللہ تعالیٰ سے اس آیت کے بارے میں سوال ہوتا ہے تو فرماتے ہیں کہ کلام کا شروع اس طرح ہوا ہے ورنہ دنیا آخرت کا سب کچھ اللہ ہی کا ہے حضور کے بعد ان دونوں حصوں کے بارے میں کیا ہوا اس میں اختلاف ہے ۔ بعض کہتے ہیں حضرت کا حصہ آپ کے خلیفہ کو ملے گے ۔ بعض کہتے ہیں آپ کے قرابت داروں کو ۔ بعض کہتے ہیں خلیفہ کے قرابت داروں کو ان کی رائے میں ان دونوں حصوں کو گھوڑوں اور ہتھیاروں کے کام میں لگایا جائے اسی طرح خلافت صدیقی و فاروقی میں ہوتا بھی رہا ہے ۔ ابراہیم کہتے ہیں حضرت صدیق اکبر اور حضرت فاروق اعظم حضور کے اس حصے کو جہاد کے کام میں خرچ کر تے تھے ۔ پوچھا گیا کہ حضرت علی اس بارے میں کیا کرتے تھے؟ فرمایا وہ اس بارے میں ان سے سخت تھے ۔ اکثر علماء رحہم اللہ کا یہی قول ہے ۔ ہاں ذوی القربیٰ کا جو حصہ ہے وہ بنو ہاشم اور بنو عبدالمطلب کا ہے ۔ اس لئے کہ اولاد عبدالمطلب نے اولاد ہاشم کی جاہلیت میں اور اول اسلام میں موافقت کی اور انہی کے ساتھ انہوں نے گھاٹی میں قید ہونا بھی منظور کر لیا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ستائے جانے کی وجہ سے یہ لوگ بگڑ بیٹھے تھے اور آپ کی حمایت میں تھے ، ان میں سے مسلمان تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت کی وجہ سے ۔ کافر خاندانی طرف داری اور رشتوں ناتوں کی حمایت کی وجہ سے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابو طالب کی فرمانبرداری کی وجہ سے ستائے گئے ہاں بنو عبدشمس اور بنو نوفل گویہ بھی آپ کے چچازاد بھائی تھے ۔ لیکن وہ ان کی موافقت میں نہ تھے بلکہ ان کے خلاف تھے انہیں الگ کر چکے تھے اور ان سے لڑ رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ قریش کے تمام قبائل ان کے مخالف ہیں اسی لئے ابو طالب نے اپنے قصیدہ لامیہ میں ان کی بہت ہی مذمت کی ہے کیونکہ یہ قریبی قرابت دار تھے اس قصیدے میں انہوں نے کہا ہے کہ انہیں بہت جلد اللہ کی طرف سے ان کی اس شرارت کا پورا پورا بدلہ ملے گا ۔ ان بیوقوفوں نے اپنے ہو کر ایک خاندان اور ایک خون کے ہو کر ہم سے آنکھیں پھیر لی ہیں وغیرہ ۔ ایک موقعہ پر ابن جبیر بن معطم بن عدی بن نوفل اور حضرت عثمان بن عفان بن ابو العاص بن امیہ بن عبد شمس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور شکایت کی کہ آپ نے خیبر کے خمس میں سے بنو عبدالملطب کو تو دیا لیکن ہمیں چھوڑ دیا حالانکہ آپ کی قرابت داری کے لحاظ سے وہ اور ہم بالکل یکساں اور برابر ہیں آپ نے فرمایا سنو بنو ہاشم ہیں ۔ مجاہد کا قول ہے کہ اللہ کو علم تھا کہ بنو ہاشم میں فقراء ہیں پس صدقے کی جگہ ان کا حصہ مال غنیمت میں مقرر کر دیا ۔ یہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ قرابت دار ہیں جن پر صدقہ حرام ہے ۔ علی بن حسین سے بھی اسی طرح مروی ہے ۔ بعض کہتے ہیں یہ سب قریش ہیں ۔ ابن عباس سے استغفار کیا گیا کہ ذوی القربیٰ کون ہیں؟ آپ نے جواب تحریر فرمایا کہ ہم تو کہتے تھے ہم ہیں لیکن ہماری قوم نہیں مانتی وہ سب کہتے ہیں کہ سارے ہی قریش ہیں ( مسلم وغیرہ ) بعض روایتوں میں صرف پہلا جملہ ہی ہے ۔ دوسرے جملے کی روایت کے راوی ابو معشر نجیح بن عبدالرحمن مدنی کی روایت میں ہی یہ جملہ ہے کہ سب کہتے ہیں کہ سارے قریش ہیں ۔ اس میں ضعف بھی ہے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہارے لئے لوگوں کے میل کچیل سے تو میں نے منہ پھیر لیا خمس کا پانچواں حصہ تمہیں کافی ہے یہ حدیث حسن ہے اس کے راوی ابراہیم بن مہدی کو امام ابو حاتم ثقہ بتاتے ہیں لیکن یحییٰ بن معین کہتے ہیں کہ یہ منکر روایتیں لاتے ہیں واللہ اعلم ۔ آیت میں یتیموں کا ذکر ہے یعنی مسلمانوں کے وہ بچے جن کا باپ فوت ہو چکا ہو ۔ پھر بعض تو کہتے ہیں کہ یتیمی کے ساتھ فقیری بھی ہو تو وہ مستحق ہیں اور بعض کہتے ہیں ہر امیر فقیر یتیم کو یہ الفاظ شامل ہیں ۔ مساکین سے مراد وہ محتاج ہیں جن کے پاس اتنا نہیں کہ ان کی فقیری اور ان کی حاجت پوری ہو جائے اور انہیں کافی ہو جائے ۔ ابن السبیل وہ مسافر ہے جو اتنی حد تک وطن سے نکل چکا ہو یا جا رہا ہو کہ جہاں پہنچ کر اسے نماز کو قصر پڑھنا جائز ہو اور سفر خرچ کافی اس کے پاس نہ رہا ہو ۔ اس کی تفسیر سورہ برات کی ( آیت انما الصدقات الخ ، ) کی تفسیر میں آئے گی انشاء اللہ تعالیٰ ۔ ہمارا اللہ پر بھروسہ ہے اور اسی سے ہم مدد طلب کرتے ہیں ۔ پھر فرماتا ہے کہ اگر تمہارا اللہ پر اور اس کی اتاری ہوئی وحی پر ایمان ہے تو جو وہ فرما رہا ہے لاؤ یعنی مال غنیمت میں سے پانچواں حصہ الگ کر دیا کرو ۔ بخاری و مسلم میں ہے کہ وفد عبدالقیس کو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں تمہیں چار باتوں کا حکم کرتا ہوں اور چار سے منع کرتا ہوں میں تمہیں اللہ پر ایمان لانے کا حکم دیتا ہوں ۔ جانتے بھی ہو کہ اللہ پر ایمان لانا کیا ہے؟ گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور حضرت محمد اللہ کے رسول ہیں اور نماز کو پابندی سے ادا کرنا زکوٰۃ دینا اور غنیمت میں سے خمس ادا کرنا ۔ پس خمس کا دینا بھی ایمان میں داخل ہے ۔ حضرت امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی کتاب صحیح بخاری شریف میں باب باندھا ہے کہ خمس کا ادا کرنا ایمان میں ہے پھر اس حدیث کو وارد فرمایا ہے اور ہم نے شرح صحیح بخاری میں اس کا پورا مطلب واضح بھی کر دیا ہے واللہ الحمد و المنہ ۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنا ایک احسان و انعام بیان فرماتا ہے کہ اس نے حق و باطل میں فرق کر دیا ۔ اپنے دین کو غالب کیا اپنے نبی کی اور آپ کے لشکریوں کی مدد فرمائی اور جنگ بدر میں انہیں غلبہ دیا ۔ کلمہ ایمان کلمہ کفر پر چھا گیا پس یوم الفرقان سے مراد بدر کا دن ہے جس میں حق و باطل کی تمیز ہو گی ۔ بہت سے بزرگوں سے یہی تفسیر مروی ہے ۔ یہی سب سے پہلا غزوہ تھا ۔ مشرک لوگ عتبہ بن ربیعہ کی ماتحتی میں تھے جمعہ کے دن انیس یا سترہ رمضان کو یہ لڑائی ہوئی تھی اصحاب رسول تین سو دس سے کچھ اوپر تھے اور مشرکوں کی تعداد نو سو سے ایک ہزار تھی ۔ باوجود اس کے اللہ تبارک و تعالیٰ نے کافروں کو شکست دی ستر سے زائد تو کافر مارے گئے اور اتنے ہی قید کر لئے گئے ۔ مستدرک حاکم میں ہے ابن مسعود فرماتے ہیں کہ لیلتہ القدر کو گیارہویں رات میں ہی یقین کے ساتھ تلاش کرو اس لئے کہ اس کی صبح کو بدر کی لڑائی کا دن تھا ۔ حسن بن علی فرماتے ہیں کہ لیلتہ الفرقان جس دن دونوں جماعتوں میں گھمسان کی لڑائی ہوئی رمضان شریف کی سترہویں تھی یہ رات بھی جمعہ کی رات تھی ۔ غزوے اور سیرت کے مرتب کرنے والے کے نزدیک یہی صحیح ہے ۔ ہاں یزید بن ابو جعد جو اپنے زمانے کے مصری علاقے کے امام تھے فرماتے ہیں کہ بدر کا دن پیر کا دن تھا لیکن کسی اور نے ان کی متابعت نہیں کی اور جمہور کا قول یقینا ان کے قول پر مقدم ہے واللہ اعلم ۔
41۔ 1 غنیمت سے مراد وہ مال ہے جو کافروں سے کافروں پر لڑائی میں فتح و غلبہ حاصل ہونے کے بعد حاصل ہو پہلی امتوں میں اس کے لئے یہ طریقہ تھا کہ جنگ ختم ہونے کے بعد کافروں سے حاصل کردہ سارا مال ایک جگہ ڈھیر کردیا جاتا اور آسمان سے آگ آتی اور اسے جلا کر بھسم کر ڈالتی۔ لیکن امت مسلمہ کے لئے یہ مال غنیمت حلال کردیا گیا۔ اور جو مال بغیر لڑائی کے صلح کے ذریعہ یا جزیہ و خراج سے وصول ہو اسے فییٔ کہا جاتا ہے تھوڑا ہو یا زیادہ، قیمتی ہو یا معمولی سب کو جمع کر کے اس کی حسب ضابطہ تقسیم کی جائے گی۔ کسی سپاہی کو اس میں سے کوئی چیز تقسیم سے قبل اپنے پاس رکھنے کی اجازت نہیں۔ 41۔ 2 اللہ کا لفظ تو بطور تبرک کے ہے، نیز اس لئے ہے کہ ہر چیز کا اصل مالک وہی ہے اور حکم بھی اسی کا چلتا ہے، مراد اللہ اور اس کے رسول کے حصہ سے ایک ہی ہے، یعنی سارے مال غنیمت کے پانچ حصے کرکے چار حصے تو ان مجاہدین میں تقسیم کئے جائیں گے جنہوں نے جنگ میں حصہ لیا۔ ان میں پیادہ کو ایک حصہ اور سوار کو تین گنا حصہ ملے گا۔ پانچواں حصہ، جسے عربی میں خمس کہتے ہیں، کہا جاتا کہ اس کے پھر پانچ حصے کئے جائیں گے۔ ایک حصہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا (اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد اسے مفاد عامہ میں خرچ کیا جائے گا) جیسا کہ خود آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی یہ حصہ مسلمانوں پر ہی خرچ فرماتے تھے بلکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بھی ہے میرا جو پانچواں حصہ ہے وہ بھی مسلمانوں کے مصالح پر ہی خرچ ہوتا ہے دوسرا حصہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قرابت داروں کا، پھر یتیموں کا اور مسکینوں کا اور مسافروں کا کہا جاتا ہے کہ یہ خمس حسب ضرورت خرچ کیا جائے۔ 41۔ 3 اس نزول سے مراد فرشتوں کا اور آیات الٰہی (معجزات وغیرہ) کا نزول ہے جو بدر میں ہوا۔ 41۔ 4 بدر کی جنگ 2 ہجری 17 رمضان المبارک کو ہوئی۔ اس دن کو یوم الفرقان اس لئے کہا گیا ہے کہ یہ کافروں اور مسلمانوں کے درمیان پہلی جنگ تھی اور مسلمانوں کو فتح و غلبہ دے کر واضح کردیا گیا کہ اسلام حق ہے اور کفر شرک باطل ہے۔ 41۔ 5 یعنی مسلمانوں اور کافروں کی فوجیں
[٤٣] اللہ اور اس کے رسول کے پانچویں حصہ کی تقسیم کیسے ہوگی ؟:۔ اس آیت میں اس سوال کا تفصیلی جواب دیا جا رہا ہے۔ جس سے اس سورة کی ابتدا ہوئی تھی۔ وہاں صرف اتنا جواب دیا گیا کہ چونکہ یہ فتح خالصتاً اللہ کی امداد کے نتیجہ میں حاصل ہوئی تھی اس لیے سب اموال زائدہ (غنیمت سمیت) اللہ اور اس کے رسول کے ہیں۔ لہذا تمہیں آپس کا نزاع فوری طور پر بند کردینا چاہیئے اور تفصیلی جواب یہ ہے کہ اموال غنیمت کا پانچواں حصہ اللہ اور اس کے رسول کا اور باقی ٥ ٤ حصہ مجاہدین کا ہے۔ چناچہ غنیمت کا مال پورے کا پورا ایک جگہ اکٹھا کیا گیا اور اس کا ٥ ٤ حصہ جہاد میں حصہ لینے والے مجاہدین میں برابر تقسیم کردیا گیا۔- اب جو اللہ اور اس کے رسول کا پانچواں حصہ تھا اس کے پانچ مصرف بیان فرمائے۔ تاہم ان حصوں میں کمی بیشی اور تقسیم رسول اللہ کی صوابدید پر چھوڑ دی گئی۔ اس میں جو اللہ کا حصہ ہے یعنی پانچویں کا پانچواں حصہ یہ جہاد کی ضرورتوں اور مساجد کی تعمیر اور دیکھ بھال پر خرچ ہوگا، اور رسول کا جو حصہ ہے وہ آپ کی گھریلو یا خانگی ضروریات کے لیے مقرر ہوا۔ کیونکہ دینی مصروفیات کی وجہ سے آپ کوئی دوسرا کام کاج نہ کرسکتے تھے۔ تیسرا حصہ آپ کے رشتہ داروں یعنی بنی ہاشم، یا بنوعبد مناف کا تھا اور ان میں سے جس کو مستحق سمجھتے تھے اور جتنا سمجھتے دے دیتے تھے یہ اس لیے کہ بنو ہاشم نے آڑے وقتوں میں اسلام کی بہت حد تک حمایت اور مدد کی تھی اور اس لیے بھی کہ ان لوگوں کے لیے زکوٰۃ کا مال لینا ممنوع قرار دیا گیا تھا اور چوتھا اور پانچواں مصرف محتاجوں اور مسافروں کی ضروریات کو پورا کرنا تھا۔- بعض علماء کا خیال ہے کہ آپ کی وفات کے بعد آپ کا اور آپ کے قرابت داروں کا حصہ ختم ہوا اور باقی صرف تین مصرف رہ گئے اور بعض کا خیال ہے کہ آپ کا حصہ موجودہ امیر المومنین کو اور قرابت داروں کا حصہ خاندان نبوت کے محتاجوں کے لیے ہے۔ کیونکہ زکوٰۃ لینا ان کے لیے ممنوع ہے اور ہمارے خیال میں معاملہ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ حالات میں بہت تغیر رونما ہوچکا ہے اور اسی لحاظ سے ان مسائل میں بھی شوریٰ کے فیصلہ کے مطابق تبدیلی ہوگی۔ مثلاً دور نبوی میں صحابہ رضاکارانہ یا فرض سمجھ کر جہاد پر نکلتے، سواری اور ہتھیاروں کا اہتمام خود کرتے تھے جس کے عوض انہیں حصہ ملتا تھا مگر آج فوج کا محکمہ ہی الگ ہوتا ہے اور اس کی ابتدا دور فاروقی سے ہی ہوگئی تھی۔ یہ فوجی یا مجاہدین تنخواہ دار ہوتے ہیں۔ اسلحہ اور سواری کا اہتمام حکومت کے ذمہ ہوتا ہے۔ لہذا اب عام مسلمانوں پر جہاد فرض نہ رہا اور تنخواہ کی وجہ سے مجاہدین میں ایسی تقسیم کا قصہ بھی ختم ہوا۔ امیر کے حصہ کا بھی کیونکہ وہ خود سرکاری خزانہ کا تنخواہ دار ہوتا ہے اور فقراء وغیرہ کی ضرورتوں کو پورا کرنا ویسے ہی ایک اسلامی حکومت کا فریضہ ہوتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جنگوں کے طریق کار کا نقشہ یکسر بدل چکا ہے۔- بنو ہاشم کے لئے صدقات کی حرمت کے متعلق اجتہاد کی ضرورت :۔ یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اموال غنیمت کی تقسیم میں ایسی تبدیلی کی وجہ سے بنو ہاشم کے محتاجوں کی امداد کا مسئلہ ختم ہوگیا اور صدقات بالخصوص زکوٰۃ ویسے ہی ان کے لیے ممنوع ہے تو بنو ہاشم کے محتاجوں کی امداد کی آج کیا صورت ہوسکتی ہے۔ بالخصوص اس صورت میں جبکہ کسی ملک میں اسلامی نظام بھی قائم نہ ہو ؟ بعض علماء کے نزدیک صدقات و زکوٰۃ کی بنو ہاشم کے لیے ممانعت کی وجہ یہ تھی کہ صدقات و زکوٰۃ کی تقسیم بحیثیت قائد ملت رسول اللہ کے ہاتھ میں تھی۔ اگرچہ آپ نے صدقات اپنے خاندان کے لیے حرام قرار دیئے تھے۔ پھر بھی منافق لوگ آپ پر صدقات کی تقسیم میں الزام لگاتے رہے۔ لہذا آج ان صدقات کی ممانعت کا حکم مسلمانوں کے امیر اور اس کے خاندان کے لیے ہوگا۔ اسی طرح جو لوگ آج کل بنو ہاشم کی اولاد یا سید کہلاتے ہیں ان کے لیے صدقات و زکوٰۃ کی حرمت بھی ختم ہوجانی چاہیے۔ لہذا ان مسائل میں اجتہاد کرنا ضروری ہے کہ موجودہ دور میں بنو ہاشم اور بنو عبدالمطلب کی اولاد دنیا کے کس کس ملک میں پائی جاتی ہے اور ان کے محتاجوں کی امداد کس ذریعہ سے ممکن ہے۔- [٤٣۔ الف ] غزوہ ببدر یوم الفرقان کیسے تھا ؟:۔ یہ یوم الفرقان اس لحاظ سے تھا کہ اس معرکہ نے یہ فیصلہ کردیا تھا کہ حق کس فریق کے ساتھ ہے اور باطل پر کونسا فریق ہے اور یہ جمعۃ المبارک کا دن ١٧ رمضان المبارک ٢ ھ تھا اور جمعہ کا دن تھا۔ رہی یہ بات کہ اللہ تعالیٰ نے اس دن اپنے بندے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کیا نازل کیا تھا ؟ تو اس سے مراد بارش بھی ہوسکتی ہے اور فرشتے بھی اور تائید الٰہی کی دوسری صورتیں بھی جن میں اکثر کا ذکر گزر چکا ہے اور کچھ آگے مذکور ہیں اور سب چیزیں اور اسباب اس لیے پیدا ہوگئے کہ اللہ تعالیٰ ہر طرح کے ظاہری اور باطنی اسباب پر پوری قدرت رکھتا ہے۔- ضمناً اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جو شخص نزول ملائکہ یا آپ کے ریت یا مٹی پھینکنے سے کافروں کے اندھا ہونے کو یا ایسے ہی دوسرے خوارق کو تسلیم نہیں کرتا یا ان کی تاویل کرتا ہے وہ اللہ پر پوری طرح ایمان نہیں رکھتا۔
وَاعْلَمُوْٓا اَنَّـمَا غَنِمْتُمْ : غنیمت وہ مال ہے جو کفار سے جنگ کی صورت میں حاصل ہو، اگر ان سے جنگ کے بغیر کوئی مال حاصل ہو تو اسے فے کہتے ہیں، اس کا ذکر سورة حشر (٦ تا ٩) میں ہے، مثلاً کفار خود ہی ہتھیار پھینک دیں، یا صلح کی صورت میں ان سے جزیہ وصول ہو، یا زمین کا خراج وغیرہ ہو۔ غنیمت اور فے بعض اوقات ایک دوسرے کے معنی میں بھی آجاتے ہیں۔ ” غَنَمٌ“ کا معنی بھیڑ بکریاں ہے، جو عرب میں اکثر جنگ کے بعد غالب فریق کے قبضے میں آتی تھیں۔ بعد میں قبضے میں آنے والی ہر چیز کو غنیمت کہنے لگے۔ - سورت کے شروع میں ” انفال “ کو اللہ اور اس کے رسول کی ملکیت قرار دیا گیا تھا، اب غنیمت کی تقسیم کا طریقہ بیان ہوتا ہے۔ ایک مناسبت یہ ہے کہ اس سے پہلے (وَقَاتِلُوْهُمْ حَتّٰي لَا تَكُوْنَ فِتْنَةٌ) میں لڑائی کا حکم ہے جس کے نتیجے میں عموماً مال غنیمت حاصل ہوتا ہے، اس لیے اب اس کے خرچ کی جگہیں بیان فرمائیں۔ - مِّنْ شَيْءٍ : اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی بھی چیز بڑی سے بڑی ہو یا چھوٹی سے چھوٹی، کوئی شخص اپنے پاس نہیں رکھ سکتا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمان کے مطابق سوئی دھاگا حتیٰ کہ اونٹ کی اون کی گچھی تک جمع کروانا ہوگی، اگر رکھے گا تو یہ غلول (خیانت) شمار ہوگا، جس کی وعید سورة آل عمران (١٦١) میں ہے۔ - فَاَنَّ لِلّٰهِ خُمُسَهٗ وَلِلرَّسُوْلِ : مطلب یہ ہے کہ کل غنیمت کے پانچ حصے کیے جائیں گے، چار حصے ان لوگوں کو ملیں گے جنھوں نے جنگ میں شرکت کی، ان میں بھی پیادے کو ایک حصہ اور سوار کو تین حصے ملیں گے، ایک اس کا اپنا اور دو حصے گھوڑے کے اور خمس ( پانچواں حصہ) ان اغراض کے لیے الگ کرلیا جائے گا جن کا آیت میں ذکر کیا گیا ہے۔ یہ بھی امت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر احسان ہے، ورنہ پہلی امتوں میں تو اموال غنیمت حلال ہی نہ تھے بلکہ انھیں جلا دیا جاتا تھا۔ - یہاں اللہ تعالیٰ کا نام بطور برکت و تمہید آیا ہے، کیونکہ سب مال اللہ ہی کا ہے۔ اصل میں خمس کے مصرف پانچ ہیں، ایک حصہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی اور اپنی بیویوں کی ضروریات کے بعد عام مسلمانوں کی مصلحت میں خرچ کرتے تھے، مثلاً مجاہدین کے لیے اسلحہ اور سواریاں وغیرہ۔ آپ کے بعد خلیفۂ وقت جہاں مناسب سمجھے خرچ کرنے میں آپ کا جانشین ہوگا۔ خمس کے علاوہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سارے مال غنیمت میں سے کوئی ایک چیز مثلاً کوئی ہتھیار یا گھوڑا یا لونڈی اپنے لیے رکھنے کا اختیار تھا، اسے ” صَفِیٌّ“ کہتے ہیں۔ ” وَلِذِي الْقُرْبٰي “ سے مراد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قرابت دار ہیں، آپ کے جد اعلیٰ عبد مناف کی اولاد چار قبیلے تھے، بنو ہاشم، بنو مطلب، بنو عبد شمس اور بنو نوفل۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بنو ہاشم میں سے تھے، مگر آپ نے ” ذَوِی الْقُرْبٰی “ میں سے پہلے دو قبیلوں کو خمس میں سے حصہ دیا، بعد والے دو کو نہیں دیا اور ان کے پوچھنے پر بتایا کہ بنو مطلب اسلام لانے سے پہلے بھی بنو ہاشم کے ساتھی رہے ہیں، جبکہ آخری دونوں قبیلے اس وقت مخالفت میں سر گرم رہتے تھے۔ ” وَالْيَتٰمٰي “ وہ نابالغ بچے جن کے باپ فوت ہوچکے ہوں۔ ” وَالْمَسٰكِيْنِ “ وہ ضرورت مند جن کی آمدنی ضرورت سے کم ہو۔ ” وَابْنِ السَّبِيْلِ “ راہ گیر مسافر۔ اس خمس کا پانچ حصوں میں تقسیم کا طریقہ کیا ہوگا ؟ کیا سب کو برابر دیا جائے گا، یا حسب ضرورت خرچ کیا جائے گا ؟ امام مالک اور اکثر سلف (رض) کا خیال ہے کہ امام ( خلیفۂ اسلام) کو اختیار ہے کہ مسلمانوں کی اجتماعی مصلحت، مثلاً جہاد کی تیاری، اسلحہ کی خریداری وغیرہ کو پیش نظر رکھتے ہوئے جس طرح چاہے اسے تقسیم یا خرچ کرے۔ اسی پر خلفائے اربعہ (رض) کا عمل رہا ہے۔ (قرطبی) نسائی کی حدیث سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے، عبداللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک اونٹ کی کوہان سے دو انگلیوں میں تھوڑی سی پشم پکڑی، پھر فرمایا : ” میرے لیے فے (غنیمت) میں سے کچھ نہیں، حتیٰ کہ یہ ( پشم) بھی نہیں، مگر پانچواں حصہ اور وہ پانچواں حصہ بھی تمھی میں لوٹایا جائے گا۔ “ [ نسائی، أول کتاب قسم الفئ : ٤١٤٤، و صححہ الألبانی ]- پھر ضروری نہیں کہ پانچ حصوں میں برابر تقسیم کرے، جہاں زیادہ خرچ کرنے کی ضرورت ہو زیادہ کرسکتا ہے۔ حافظ ابن تیمیہ اور ابن کثیر ; نے اس کو سب سے صحیح قول قرار دیا ہے۔ - وَمَآ اَنْزَلْنَا عَلٰي عَبْدِنَا : یعنی جو فرشتے، آیات و معجزات اور نصرت الٰہی بدر میں اللہ تعالیٰ نے اتارے۔ ” عَبْدِنَا “ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنا بندہ کہہ کر خاص اعزاز بخشا، جیسا کہ (سُبْحٰنَ الَّذِيْٓ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ ) [ بنی إسرائیل : ١ ] میں اور (وَاِنْ كُنْتُمْ فِىْ رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰي عَبْدِنَا) [ البقرۃ : ٢٣ ] میں فرمایا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنا یہ اعزاز بہت عزیز تھا، آپ کی مشہور دعا ہے : ( اَللّٰھُمَّ إِنِّیْ عَبْدُکَ وَابْنُ عَبْدِکَ وَابْنُ أَمَتِکَ نَاصِیَتِیْ بِیَدِکَ ) [ أحمد : ١؍٣٩١، ح : ٣٧١١، عن ابن مسعود (رض) ]- يَوْمَ الْفُرْقَانِ : ” الْفُرْقَانِ “ واضح فیصلہ، یعنی بدر کے دن جس میں حق اور باطل کا فیصلہ ہوا، حق کو فتح ہوئی اور باطل مغلوب ہوا۔ (ابن کثیر) حق و باطل کے درمیان یہ پہلی باقاعدہ جنگ تھی جو ١٧ رمضان بروز جمعہ ( بروایت ابن جریر عن علی) واقع ہوئی۔
خلاصہ تفسیر - اور اس بات کو جان لو کہ جو شئے (کفار سے) بطور غنیمت کے تم کو حاصل ہو تو اس کا حکم یہ ہے کہ (اس کے کل پانچ حصے کئے جائیں جن میں سے چار حصے تو مقاتلین کا حق ہے اور ایک حصہ یعنی) اس کا پانچواں حصہ (پھر پانچ حصوں پر تقسیم ہوگا جن میں سے ایک تو) اللہ تعالیٰ کا اور اس کے رسول کا ہے (یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ملے گا جن کو دینا بمنزلہ اس کے ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں پیش کردیا) اور (ایک حصہ) آپ کے قرابت داروں کا ہے اور (ایک حصہ) یتیموں کا ہے (ایک حصہ) غریبوں کا ہے اور (ایک حصہ) مسافروں کا ہے اگر تم اللہ پر یقین رکھتے ہو اور اس چیز پر (یقین رکھتے ہو) جس کو ہم نے اپنے بندہ (محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر فیصلہ کے دن (یعنی) جس دن کہ (بدر میں) دونوں جماعتیں (مؤ منین اور کفار کی) باہم مقابل ہوئی تھیں نازل فرمایا تھا (مراد اس سے امداد غیبی بواسطہ ملائکہ کے ہے یعنی اگر ہم پر اور ہمارے الطاف غیبیہ پر یقین رکھتے ہو تو اس حکم کو جان رکھو اور عمل کرو یہ اس لئے بڑھا دیا کہ خمس نکالنا شاق نہ ہوا اور یہ سمجھ لیں کہ یہ ساری غنیمت اللہ ہی کی امداد سے تو ہاتھ آئی پھر اگر ہم کو ایک خمس نہ ملا تو کیا ہوا وہ چار خمس بھی تو ہماری قدرت سے خارج تھے بلکہ محض قدرت الہیہ سے حاصل ہوئے) اور اللہ (ہی) ہر شئے پر پوری قدرت رکھنے والے ہیں (پھر تمہارا استحقاق تو اتنا بھی نہیں تھا یہ بھی بہت مل گیا) ۔- معارف ومسائل - اس آیت میں مال غنیمت کے احکام اور اس کی تقسیم کا قانون مذکور ہے۔ اس سے پہلے چند ضروری الفاظ کی تشریح سن لیجئے۔ - لفظ غنیمت لغت میں اس مال کے لئے بولا جاتا ہے جو دشمن سے حاصل کیا جائے، اصطلاح شریعت میں غیر مسلموں سے جو مال جنگ و قتال اور قہر و غلبہ کے ذریعہ حاصل ہو اس کو غنیمت کہتے ہیں اور جو صلح و رضامندی سے حاصل ہو جیسے جزیہ و خراج وغیرہ اس کو فیئ کہا جاتا ہے۔ قرآن کریم میں انھیں دونوں لفظوں سے ان دونوں قسموں کے احکام بتلائے گئے ہیں۔ سورة انفال میں مال غنیمت کے احکام کا ذکر ہے جو جنگ و قتال کے وقت غیر مسلموں سے حاصل ہو۔ - یہاں سب سے پہلے ایک بات پیش نظر رہنا چاہئے وہ یہ کہ اسلامی اور قرآنی نظریہ کے مطابق تمام کائنات کی اصلی ملکیت صرف اس ذات حق تعالیٰ کی ہے جس نے انھیں پیدا کیا ہے انسان کی طرف کسی چیز کی ملکیت کا صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے قانون کے ذریعہ کسی شخص کی ملکیت قرار دے دی ہو۔ جیسے سورة یسین میں چوپائے جانوروں کے ذکر میں ارشاد فرمایا (آیت) اَوَلَمْ يَرَوْا اَنَّا خَلَقْنَا لَهُمْ مِّمَّا عَمِلَتْ اَيْدِيْنَآ اَنْعَامًا فَهُمْ لَهَا مٰلِكُوْنَ ۔ یعنی کیا یہ لوگ نہیں دیکھتے کہ چوپاؤں کو ہم اپنے ہاتھوں سے بنایا پھر لوگ ان کے مالک بن گئے۔ مطلب یہ ہے کہ ان کی ملکیت ذاتی نہیں ہم نے اپنے فضل سے ان کو مالک بنادیا۔ - جب کوئی قوم اللہ سے بغاوت کرتی ہے یعنی کفر و شرک میں مبتلا ہوجاتی ہے تو پہلے حق تعالیٰ ان کی اصلاح کے لئے اپنے رسول اور کتابیں بھیجتے ہیں جو بدبخت اس انعام الہی سے بھی متاثر نہیں ہوتے تو اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں کو ان کے مقابلہ میں جہاد و قتال کا حکم دے دیتے ہیں جس کا حاصل یہ ہوتا کہ ان باغیوں کے جان و مال سب مباح کردیئے گئے ان کو اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے اموال سے نفع اٹھانے کا حق نہیں رہا۔ بلکہ ان کے اموال بحق سرکار ضبط ہوگئے۔ انھیں ضبط شدہ اموال کا دوسرا نام مال غنیمت ہے جو کفار کی ملکیت سے نکل کر خالص حق تعالیٰ کی ملکیت میں رہ گئے۔- ان ضبط شدہ اموال کے لئے زمانہ قدیم سے حق تعالیٰ کا قانون یہ رہا ہے کہ ان سے کسی کو فائدہ اٹھانے کی اجازت نہیں ہوتی تھی بلکہ ایسے اموال کو جمع کرکے کسی کھلی جگہ میں رکھ دیا جاتا اور آسمان سے ایک بجلی آکر ان کو جلادیتی تھی۔ یہی علامت ہوتی تھی اس جہاد کے قبول ہونے کی۔ - خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جو چند خصوصیات حق تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوئیں ان میں ایک یہ بھی ہے کہ مال غنیمت آپ کی امت کے لئے حلال کردیا گیا۔ ( کما فی حدیث مسلم) اور حلال بھی ایسا کہ اس کو اطیب الاموال کہا جاتا ہے یعنی سب سے زیادہ پاک مال۔ وجہ یہ ہے کہ جو مال انسان اپنے کسب اور کمائی سے حاصل کرتا ہے اس میں انسانوں کی ملکیت سے واسطہ در واسطہ منتقل ہو کر ایک مال اس کی ملکیت میں آیا ہے اور ان واسطوں میں حرام و ناجائز یا مکروہ طریقوں کا احتمال رہتا ہے بخلاف مال غنیمت کے کہ کفار کی ملکیت ان سے ختم ہو کر براہ راست حق تعالیٰ کی ملکیت رہ گئی اور اب جس کو ملتا ہے براہ راست حق تعالیٰ کی ملکیت سے ملتا ہے جس میں کوئی شبہ اور شائبہ حرمت یا کراہت کا نہیں رہتا جیسے کنویں سے نکالا ہوا پانی یا خودرو گھاس جو براہ راست حق تعالیٰ کا انعام انسان کو ملتا ہے کوئی انسانی واسطہ درمیان میں نہیں ہوتا۔ - خلاصہ کلام یہ ہے کہ مال غنیمت جو پچھلی امتوں کے لئے حلال نہیں تھا امت مرحومہ کے لئے بطور انعام حلال کردیا گیا۔ آیت مذکورہ میں اس کی تقسیم کا ضابطہ اس عنوان سے بیان فرمایا گیا ہے کہ (آیت) وَاعْلَمُوْٓا اَنَّـمَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَيْءٍ ۔ اس میں عربی لغت کے قاعدہ سے اول تو لفظ مَا عموم پر دلالت کرتا ہے پھر اس عموم کی تاکید مزید کے لئے لفظ مّنْ شَيْءٍ بڑھایا گیا جس کے معنی یہ ہیں کہ جو کچھ چھوٹی بڑی چیز مال غنیمت میں حاصل ہو وہ سب اسی قانون کے تحت داخل ہے کسی چیز کو معمولی یا چھوٹا سمجھ کر کوئی شخص قانون تقسیم کے علاوہ اگر لے لے گا تو وہ سخت مجرم قرار پائے گا۔ اسی لئے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ ایک سوئی اور اس کا دھاگہ بھی جو مال غنیمت کا جز ہو کسی کے لئے اس کا بغیر اپنے حصہ شرعی کے لے لینا جائز نہیں۔ اور مال غنیمت میں سے کوئی چیز بغیر حصہ کے لینے کو حدیث میں غلول فرما کر اس پر شدید وعید فرمائی ہے اور عام چوری سے زیادہ شدید حرام قرار دیا ہے۔- ضابطہ تقسیم کا یہ عنوان دے کر تمام مجاہد مسلمانوں کو اس سے باخبر کردیا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ مال تمہارے لئے حلال کردیا ہے مگر ایک خاص ضابطہ کے تحت حلال ہے اس کے خلاف اگر کوئی لے گا تو وہ جہنم کا ایک انگارہ ہوگا۔- قرآنی قانون کا یہی وہ امتیاز ہے جو دنیا کے دوسرے قوانین کو حاصل نہیں اور یہی قانون قرآن کی تاثیر کامل اور کامیابی کا اصلی راز ہے کہ اول خوف خدا و آخرت کو پیش نظر کر کے اس سے ڈرایا گیا دوسرے نمبر میں تعزیری سزائیں بھی جاری کی گئیں۔ - ورنہ غور کا مقام ہے کہ عین میدان جنگ کی افراتفری کے وقت جو اموال غیر مسلموں کے قبضہ سے حاصل کئے جائیں جن کی تفصیل نہ پہلے سے مسلمانوں کے امیر کے علم میں ہے نہ کسی دوسرے کے۔ اور موقع میدان جنگ کا ہے جو عموما جنگل اور صحراء ہوتے ہیں جن میں چھپنے چھپانے کے ہزاروں مواقع ہوتے ہیں۔ نرے قانون کے زور سے ان اموال کی حفاظت کسی کے بس میں نہیں صرف خوف خدا و آخرت ہی وہ چیز تھی جس نے ایک ایک مسلمان کو ان اموال میں ادنی تصرف کرنے سے باز رکھا۔ - اب اس ضابطہ تقسیم کو دیکھئے ارشاد فرمایا (آیت) فَاَنَّ لِلّٰهِ خُمُسَهٗ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِي الْقُرْبٰي وَالْيَتٰمٰي وَالْمَسٰكِيْنِ وَابْنِ السَّبِيْلِ ۔ یعنی مال غنیمت کا پانچواں حصہ اللہ کا اور اس کے رسول کا اور اس کے رشتہ داروں کا اور یتیموں، مسکینوں، مسافروں کا ہے۔ - یہاں پہلے تو یہ بات غور طلب ہے کہ ضابطہ پورے مال غنیمت کی تقسیم کا بیان ہورہا ہے مگر قرآن نے صرف اس کے پانچویں حصے کی تقسیم کا ضابطہ یہاں ذکر فرمایا باقی چار حصوں کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔ اس میں کیا راز ہے اور باقی چار حصوں کی تقسیم کا کیا قانون ہے۔ لیکن قرآن میں غور و تدبر کرنے سے ان دونوں باتوں کا جواب انھیں لفظوں میں یہ نکل آتا ہے کہ قرآن کریم نے جہاد کرنے والے مسلمانوں کو خطاب کرکے فرمایا مَا غَنِمْتُمْ یعنی جو کچھ تم نے غنیمت میں حاصل کیا۔ اس میں اشارہ پایا جاتا ہے کہ یہ مال ان حاصل کرنے والوں کا حق ہے اور اس کے بعد جب یہ ارشاد فرما دیا کہ اس میں سے پانچواں حصہ اللہ اور رسول وغیرہ کا ہے تو اس کا نتیجہ صاف یہ نکل آیا کہ باقی چار حصے غانمین اور مجاہدین کے ہیں۔ جیسے قرآن کریم کے قانون وراثت میں ایک جگہ ارشاد ہے۔ وَّوَرِثَهٗٓ اَبَوٰهُ فَلِاُمِّهِ الثُّلُثُ ۔ یعنی جب کسی شخص کے وارث اس کے ماں باپ ہوں تو ماں کا تیسرا حصہ ہے۔ یہاں بھی صرف ماں کے ذکر پر اکتفاء کیا گیا جس سے معلوم ہوا کہ باقی دو حصے باپ کا حق ہیں۔ اسی طرح مَا غَنِمْتُمْ کے بعد جب صرف پانچویں حصہ کو اللہ کے لئے رکھا گیا تو معلوم ہوا کہ باقی چار حصے مجاہدین کا حق ہیں پھر رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بیان اور عمل نے اس کے اور اس کی پوری تفصیلات کو واضح کردیا کہ یہ چار حصے مجاہدین میں ایک خاص قانون کے تحت تقسیم فرمائے۔- اب اس پانچویں حصہ کی تفصیل سنئے جس کو قرآن کریم نے اس آیت میں متعین فرما دیا ہے الفاظ قرآنی میں اس جگہ چھ الفاظ مذکورہ میں لِلّٰهِ ۔ لِلرَّسُوْلِ ۔ لِذِي الْقُرْبٰي۔ الْيَتٰمٰي۔ الْمَسٰكِيْنِ ، ابْنِ السَّبِيْلِ ۔- اس میں لفظ للہ تو ایک جلی عنوان ہے ان مصارف کا جن میں یہ پا نچواں حصہ تقسیم ہوگا یعنی یہ سب مصارف خالص اللہ کے لئے ہیں۔ اور اس لفظ کے اس جگہ لانے میں ایک خاص حکمت ہے جس کی طرف تفسیر مظہری میں اشارہ کیا گیا ہے۔ وہ یہ کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے خاندان کے لئے صدقات کا مال حرام قرار دیا گیا ہے کہ وہ آپ کے شایان شان نہیں کیونکہ عام لوگوں کے اموال کو پاک کرنے کے لئے ان میں سے نکالا ہوا حصہ ہے جس کو حدیث میں اوساخ الناس فرمایا ہے یعنی لوگوں کا میل کچیل۔ وہ شان نبوت کے لائق نہیں۔- مال غنیمت کے پانچویں حصہ میں سے چونکہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے خاندان کو بھی قرآن کی اس آیت نے حصہ دیا ہے اس لئے اس پر متنبہ کیا گیا کہ یہ حصہ لوگوں کی ملیکت سے منتقل ہو کر نہیں آیا بلکہ بلاواسطہ اللہ تعالیٰ شانہ کی طرف سے ہے۔ جسیا کہ ابھی ذکر کیا گیا ہے کہ مال غنیمت کفار کی ملک سے نکل کر براہ راست حق تعالیٰ کی خالص ملکیت ہوجاتا ہے پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطور انعام تقسیم ہوتا ہے۔ اس لئے اس بات کی طرف اشارہ کرنے کے لئے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ذوی القربی کو جو حصہ مال غنیمت کے خمس سے دیا گیا ہے وہ لوگوں کے صدقات کا نہیں بلکہ براہ راست حق تعالیٰ کی طرف سے فضل و انعام ہے۔ شروع آیت میں فرمایا گیا لِلّٰهِ یعنی یہ سب مال اصل میں خالص ملکیت اللہ تعالیٰ کی ہے اسی کے فرمان کے مطابق مذکورہ مصارف میں خرچ کیا جائے گا۔- اس لئے اس خمس کے اصلی مصارف پانچ رہ گئے رسول۔ ذوی القربی، یتیم۔ مسکین، مسافر۔ پھر ان میں استحقاق کے درجے مختلف ہیں۔ قرآن کریم کی بلاغت دیکھئے کہ ان درجات استحقاق کا فرق کس باریک اور لطیف انداز سے ظاہر فرمایا گیا ہے کہ ان پانچ میں سے پہلے دو پر حرف لام لایا گیا للرَّسُوْلِ وَلِذِي الْقُرْبٰي۔ اور باقی تین قسموں کو بغیر حرف لام کے باہم معطوف بنا کر ذکر کردیا گیا۔ - حرف لام عربی زبان میں کسی خصوصیت کے اظہار کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ لفظ للہ میں حرف لام اختصاص ملکیت کے بیان کے لئے ہے کہ اصل مالک سب چیزوں کا اللہ تعالیٰ ہے اور لفظ للرَّسُوْلِ میں استحقاق کی خصوصیت کا بیان مقصود ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خمس غنیمت کے صرف کرنے اور تقسیم کرنے کا حق رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عطا فرمایا جس کا حاصل امام طحاوی کی تحقیق اور تفسیر مظہری کی تقریر کے مطابق یہ ہے کہ اگرچہ اس جگہ خمس کے مصارف میں پانچ ناموں کا ذکر ہے لیکن درحقیقت اس میں پورا تصرف نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حاصل ہے کہ آپ اپنی صوابدید کے مطابق ان پانچ قسموں میں خمس غنیمت کو صرف فرمائیں جیسا کہ سورة انفال کی پہلی آیت میں پورے مال غنیمت کا حکم یہی تھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی صوابدید کے مطابق جہاں چاہیں صرف فرمائیں جس کو چاہیں دیں۔ (آیت) وَاعْلَمُوْٓا اَنَّـمَا غَنِمْتُمْ نے کل مال غنیمت کے پانچ حصے کرکے چار کو مجاہدین کا حق قرار دے دیا مگر پانچواں حصہ بدستور اسی حکم میں رہا کہ اس کا صرف کرنا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صوابدید پر چھوڑا گیا صرف اتنی بات کا اضافہ ہوا کہ اس پانچویں حصے کے پانچ مصارف بیان کردیئے گئے کہ یہ ان میں دائر رہے گا۔ مگر جمہور ائمہ اہل تحقیق کے نزدیک آپ کے ذمہ یہ لازم نہیں تھا کہ اس خمس کے پانچ حصہ برابر کریں اور مندرجہ آیت پانچوں قسموں میں برابر تقسیم کریں بلکہ صرف اتنا ضروری تھا کہ خمس غنیمت کو انھیں پانچ قسموں کے اندر سب کو یا بعض کو اپنی صوابدید کے مطابق عطا فرمائیں۔- اس کی سب سے بڑی واضح دلیل خود اس آیت کے الفاظ اور ان میں بیان کی ہوئی مصارف کی قسمیں ہیں کہ یہ سب قسمیں عملاً الگ الگ نہیں بلکہ باہم مشترک بھی ہوسکتی ہیں مثلا جو شخص ذوی القربی میں داخل ہے وہ یتیم بھی ہوسکتا ہے مسکین اور مسافر بھی۔ اسی طرح مسکین اور مسافر یتیم بھی ہوسکتے ہیں ذوی القربی بھی۔ جو مسکین ہے وہ مسافر کی فہرست میں بھی آسکتا ہے اگر ان سب قسموں میں الگ الگ برابر تقسیم کرانا مقصود ہوتا تو یہ قسمیں ایسی ہونا چاہئے تھیں کہ ایک قسم کا آدمی دوسری قسم میں داخل نہ ہو۔ ورنہ پھر یہ لازم آئے گا کہ جو ذوی القربی میں سے ہے اور وہ یتیم بھی ہے مسکین بھی مسافر بھی تو اس کو ہر حیثت سے ایک ایک حصہ ملا کر چار حصے دیئے جائیں جیسا کہ تقسیم فرائض و میراث کا یہی قاعدہ ہے کہ ایک شخص کو میت کے ساتھ مختلف قسم کی قربتیں حاصل ہیں تو ہر قرابت کا حصہ اس کو الگ ملتا ہے اور امت میں اس کا کوئی قائل نہیں کہ ایک شخص کو چار حصے دیئے جائیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ مقصود اس آیت کا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یہ پابندی عائد کرنا نہیں ہے کہ ان سب قسموں کو ضرور ہی دیں اور برابر دیں، بلکہ مقصود یہ ہے کہ خمس غنیمت کا مال ان پانچ قسموں میں سے جس قسم پر جتنا خرچ کرنا آپ کی رائے میں مناسب ہو اتنا دے دیں ( تفسیر مظہری) - یہی وجہ ہے کہ حضرت فاطمہ زہرا (رض) نے جب اس خمس میں سے ایک خادم کا سوال آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں پیش کیا اور گھر کے کاموں میں اپنی محنت و مشقت اور کمزوری کا سبب بھی ظاہر کیا۔ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ عذر فرما کر ان کو دینے سے انکار کردیا کہ میرے سامنے تمہاری ضرورت سے زیادہ اہل صفہ صحابہ کرام کی ضرورت ہے جو انتہائی فقر و افلاس میں مبتلا ہیں ان کو چھوڑ کر میں تمہیں نہیں دے سکتا۔ ( صحیح بخاری و مسلم )- اس سے واضح ہوگیا کہ ہر ایک قسم کا الگ حق نہیں تھا ورنہ ذوی القربی کے حق میں فاطمہ زہرا (رض) سے کون مقدم ہوتا۔ بلکہ یہ سب بیان مصارف ہے بیان استحقاق نہیں۔- تقسیم خمس بعد وفات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) :- جمہور ائمہ کے نزدیک خمس غنیمت میں جو حصہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا رکھا گیا وہ آپ کے منصب نبوت و رسالت کی بنا پر ایسا ہی تھا جیسے آپ کو خصوصی طور پر یہ بھی حق دیا گیا تھا کہ پورے مال غنیمت میں آپ اپنے لئے کوئی چیز انتخاب کرکے لے لیں جس کی وجہ سے بعض غنیمتوں سے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بعض اشیاء لی بھی تھیں۔ اور خمس غنیمت میں سے آپ اپنا اور اپنے اہل و عیال کا نفقہ ادا فرماتے تھے۔ آپ کی وفات کے بعد حصہ خود بخود ختم ہوگیا کیونکہ آپ کے بعد کوئی رسول و نبی نہیں۔ - خمس ذوی القربی :- اس میں تو کسی کا اختلاف نہیں کہ فقراء ذوی القربی کا حق خمس غنیمت میں دوسرے مصارف یعنی یتیم، مسکین، مسافر سے مقدم ہے، کیونکہ فقراء ذوی القربی کی امداد زکوة و صدقات سے نہیں ہو سکتی دوسرے مصارف زکوة و صدقات سے بھی ہوسکتے ہیں ( کما صرح بہ فی الہدایہ و یقدمون) البتہ اغنیاء ذوی القربی کو اس میں سے دیا جائے گا یا نہیں۔ اس میں امام اعظم ابوحنیفہ کا فرمانا یہ ہے کہ خود آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی ذوی القربی کو عطا فرماتے تھے تو اس کی دو بنیادیں تھیں ایک ان کی حاجتمندی اور فقر دوسرے اقامت دین اور دفاع عن الاسلام میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نصرت و امداد۔ دوسرا سبب تو وفات نبوی کے ساتھ ختم ہوگیا صرف پہلا سبب فقر و حاجتمندی رہ گیا اس کی بنا پر تا قیامت ہر امام و امیر ان کو دوسروں سے مقدم رکھے گا ( ہدایہ۔ جصاص) امام شافعی سے بھی یہی قول منقول ہے ( قرطبی) - اور بعض فقہاء کے نزدیک سہم ذوی القربی بحیثیت قرابت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمیشہ کے لئے باقی ہے جس میں اغنیاء اور فقراء سب شریک ہیں البتہ امیر وقت اپنی صوابدید کے مطابق ان کو حصہ دے گا ( مظہری) - اور اصل چیز اس معاملہ میں خلفاء راشدین کا تعامل ہے کہ انہوں نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد کیا کیا۔ صاحب ہدایہ نے اس کے متعلق لکھا ہے :- ان الخلفاء الاربعة الراشدین قسموہ علی ثلثة اسھم۔ " چاروں خلفاء راشدین نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد خمس غنیمت کو صرف تین قسموں میں تقسیم فرمایا ہے " یتیم، مسکین، فقیر۔ البتہ حضرت فاروق اعظم سے ثابت ہے کہ فقراء ذوی القربی کو خمس غنیمت سے دیا کرتے تھے ( اخرجہ ابوداؤد) اور ظاہر ہے کہ یہ تخصیص صرف فاروق اعظم کی نہیں دوسرے خلفاء کا بھی یہی عمل ہوگا۔- اور جن روایات سے یہ ثابت ہے کہ صدیق اکبر اور فاروق اعظم اپنے آخری زمانہ خلافت تک ذوی القربی کا حق نکالتے تھے اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو اس کا متولی بنا کر ذوی القربی میں تقسیم کراتے تھے ( کما فی روایۃ کتاب الخراج لابی یوسف) تو یہ اس کے منافی نہیں ہے کہ وہ تقسیم فقراء ذوی القربی کے لئے مخصوص ہو۔ واللہ سبحانہ وتعالی اعلم۔- فائدہ :- ذوی القربی کی تعیین خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے عمل سے اس طرح فرما دی کہ بنو ہاشم تو آپ کا اپنا قبیلہ ہی تھا بنو المطلب کو بھی ان کے ساتھ اس لئے شامل فرما لیا تھا کہ یہ لوگ بھی جاہلیت و اسلام میں کبھی بنو ہاشم سے الگ نہیں ہوئے یہاں تک کہ قریش مکہ نے جب غذائی مقاطعہ بنو ہاشم کا کیا اور ان کو شعب ابی طالب میں بند کردیا تو بنو المطلب کو اگرچہ قریش نے مقاطعہ میں داخل نہیں کیا تھا مگر یہ لوگ اپنی رضا مندی سے مقاطعہ میں شریک ہوگئے ( مظہری) - غزوہ بدر کے دن کو یوم الفرقان فرمایا گیا :- آیت مذکورہ میں بدر کے دن کو یوم الفرقان فرمایا ہے وجہ اس کی یہ ہے کہ سب سے پہلے مادی اور ظاہری طور پر مسلمانوں کی واضح فتح اور کفار کی عبرتناک شکست اس دن میں ہونے کی بنا پر کفر و اسلام کا ظاہری فیصلہ بھی اس دن ہوگیا۔
وَاعْلَمُوْٓا اَنَّـمَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَيْءٍ فَاَنَّ لِلہِ خُمُسَہٗ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِي الْقُرْبٰي وَالْيَتٰمٰي وَالْمَسٰكِيْنِ وَابْنِ السَّبِيْلِ ٠ ۙ اِنْ كُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ بِاللہِ وَمَآ اَنْزَلْنَا عَلٰي عَبْدِنَا يَوْمَ الْفُرْقَانِ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعٰنِ ٠ ۭ وَاللہُ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ ٤١- علم - العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، وذلک ضربان :- أحدهما : إدراک ذات الشیء .- والثاني : الحکم علی الشیء بوجود شيء هو موجود له،- أو نفي شيء هو منفيّ عنه .- فالأوّل : هو المتعدّي إلى مفعول واحد نحو :- لا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ [ الأنفال 60] .- والثاني : المتعدّي إلى مفعولین، نحو قوله :- فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِناتٍ [ الممتحنة 10] ، وقوله : يَوْمَ يَجْمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَ إلى قوله :- لا عِلْمَ لَنا «3» فإشارة إلى أنّ عقولهم طاشت .- والعِلْمُ من وجه ضربان : نظريّ وعمليّ.- فالنّظريّ : ما إذا علم فقد کمل، نحو : العلم بموجودات العالَم .- والعمليّ : ما لا يتمّ إلا بأن يعمل کالعلم بالعبادات .- ومن وجه آخر ضربان : عقليّ وسمعيّ ،- وأَعْلَمْتُهُ وعَلَّمْتُهُ في الأصل واحد، إلّا أنّ الإعلام اختصّ بما کان بإخبار سریع، والتَّعْلِيمُ اختصّ بما يكون بتکرير وتكثير حتی يحصل منه أثر في نفس المُتَعَلِّمِ. قال بعضهم : التَّعْلِيمُ : تنبيه النّفس لتصوّر المعاني، والتَّعَلُّمُ : تنبّه النّفس لتصوّر ذلك، وربّما استعمل في معنی الإِعْلَامِ إذا کان فيه تكرير، نحو : أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات 16] ،- ( ع ل م ) العلم - کسی چیش کی حقیقت کا اور راک کرنا اور یہ قسم پر ہے اول یہ کہ کسی چیز کی ذات کا ادراک کرلینا دوم ایک چیز پر کسی صفت کے ساتھ حکم لگانا جو ( فی الواقع ) اس کے لئے ثابت ہو یا ایک چیز کی دوسری چیز سے نفی کرنا جو ( فی الواقع ) اس سے منفی ہو ۔ پہلی صورت میں یہ لفظ متعدی بیک مفعول ہوتا ہے جیسا کہ قرآن میں ہے : ۔ لا تَعْلَمُونَهُمُ اللَّهُ يَعْلَمُهُمْ [ الأنفال 60] جن کو تم نہیں جانتے اور خدا جانتا ہے ۔ اور دوسری صورت میں دو مفعول کی طرف متعدی ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِناتٍ [ الممتحنة 10] اگر تم کا معلوم ہو کہ مومن ہیں ۔ اور آیت يَوْمَ يَجْمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَاسے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ان کے ہوش و حواس قائم نہیں رہیں گے ۔- ایک دوسری حیثیت سے علم کی دوقسمیں ہیں - ( 1) نظری اور ( 2 ) عملی ۔ نظری وہ ہے جو حاصل ہونے کے ساتھ ہی مکمل ہوجائے جیسے وہ عالم جس کا تعلق موجودات عالم سے ہے اور علم عمل وہ ہے جو عمل کے بغیر تکمیل نہ پائے جسیے عبادات کا علم ایک اور حیثیت سے بھی علم کی دو قسمیں ہیں ۔ ( 1) عقلی یعنی وہ علم جو صرف عقل سے حاصل ہو سکے ( 2 ) سمعی یعنی وہ علم جو محض عقل سے حاصل نہ ہو بلکہ بذریعہ نقل وسماعت کے حاصل کیا جائے دراصل اعلمتہ وعلمتہ کے ایک معنی ہیں مگر اعلام جلدی سے بتادینے کے ساتھ مختص ہے اور تعلیم کے معنی با ر بار کثرت کے ساتھ خبر دینے کے ہیں ۔ حتٰی کہ متعلم کے ذہن میں اس کا اثر پیدا ہوجائے ۔ بعض نے کہا ہے کہ تعلیم کے معنی تصور کیلئے نفس کو متوجہ کرنا کے ہیں اور تعلم کے معنی ایسے تصور کی طرف متوجہ ہونا کے اور کبھی تعلیم کا لفظ اعلام کی جگہ آتا ہے جب کہ اس میں تاکید کے معنی مقصود ہوں جیسے فرمایا ۔ أَتُعَلِّمُونَ اللَّهَ بِدِينِكُمْ [ الحجرات 16] کیا تم خدا کو اپنی دینداری جتلاتے ہو ۔ اور حسب ذیل آیات میں تعلیم کا لفظ استعمال ہوا ہے جیسے فرمایا ۔ الرَّحْمنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ [ الرحمن 1- 2] خدا جو نہایت مہربان اس نے قرآن کی تعلیم فرمائی ۔ قلم کے ذریعہ ( لکھنا ) سکھایا ؛- غنم - الغَنَمُ معروف . قال تعالی: وَمِنَ الْبَقَرِ وَالْغَنَمِ حَرَّمْنا عَلَيْهِمْ شُحُومَهُما [ الأنعام 146] . والغُنْمُ : إصابته والظّفر به، ثم استعمل في كلّ مظفور به من جهة العدی وغیرهم . قال تعالی: وَاعْلَمُوا أَنَّما غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْءٍ [ الأنفال 41] ، فَكُلُوا مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلالًا طَيِّباً [ الأنفال 69] ، والمَغْنَمُ : ما يُغْنَمُ ، وجمعه مَغَانِمُ. قال : فَعِنْدَ اللَّهِ مَغانِمُ كَثِيرَةٌ [ النساء 94] .- ( غ ن م ) الغنم - بکریاں ۔ قرآن پاک میں ہے : وَمِنَ الْبَقَرِ وَالْغَنَمِ حَرَّمْنا عَلَيْهِمْ شُحُومَهُما [ الأنعام 146] اور گائیوں اور بکریوں سے ان کی چربی حرام کردی تھی ۔ الغنم کے اصل معنی کہیں سے بکریوں کا ہاتھ لگنا ۔ اور ان کو حاصل کرنے کے ہیں پھر یہ لفظ ہر اس چیز پر بولا جانے لگا ہے ۔ جو دشمن یا غیر دشمن سے حاصل ہو ۔ قرآن میں ہے : وَاعْلَمُوا أَنَّما غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْءٍ [ الأنفال 41] اور جان رکھو کہ جو چیز تم کفار سے لوٹ کر لاؤ ۔ فَكُلُوا مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلالًا طَيِّباً [ الأنفال 69] جو مال غنیمت تم کو ہے اسے کھاؤ کہ تمہارے لئے حلال طیب ہے ۔ المغنم مال غنیمت اس کی جمع مغانم آتی ہے ۔ قرآن پاک میں ہے ۔ فَعِنْدَ اللَّهِ مَغانِمُ كَثِيرَةٌ [ النساء 94] سو خدا کے پاس بہت سی غنیمتں ہیں ۔- خمس - أصل الخَمْس في العدد، قال تعالی: وَيَقُولُونَ خَمْسَةٌ سادِسُهُمْ كَلْبُهُمْ [ الكهف 22] ، وقال : فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ إِلَّا خَمْسِينَ عاماً [ العنکبوت 14] ، والخمیس : ثوب طوله خمس أذرع، ورمح مَخْمُوس کذلک . والخمس من أظماء الإبل، وخَمَسْتُ القومَ أَخْمُسُهُمْ : أخذت خمس أموالهم، وخَمَسْتُهُمْ أَخْمُسُهُمْ : كنت لهم خامسا، والخمیس في الأيّام معلوم .- ( خ م س ) الخمس ۔ ( پانچ ) اصل میں یہ لفظ اسم عدد ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَيَقُولُونَ خَمْسَةٌ سادِسُهُمْ كَلْبُهُمْ [ الكهف 22]( پچاس ) قرآن میں ہے :۔ فَلَبِثَ فِيهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ إِلَّا خَمْسِينَ عاماً [ العنکبوت 14] تو وہ ان میں پچاس برس کم ہزار برس رہے ۔ الخمیس ۔ جامہ پانچ گزی ۔ روز پنجشنبہ ۔ رمح مخموس ۔ نیز پانچ گزی ۔ الخمس پیاسے اونٹ جو چوتھے روز پانی پروارد ہوں ۔ خمست القوم ( ن ) پانچواں حصہ لینا ۔ خمستھم ( ض ) پانچواں ہونا ۔ - رسل - أصل الرِّسْلِ : الانبعاث علی التّؤدة وجمع الرّسول رُسُلٌ. ورُسُلُ اللہ تارة يراد بها الملائكة، وتارة يراد بها الأنبیاء، فمن الملائكة قوله تعالی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] ، وقوله : إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ومن الأنبیاء قوله : وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران 144]- ( ر س ل ) الرسل - الرسل ۔ اصل میں اس کے معنی آہستہ اور نرمی کے ساتھ چل پڑنے کے ہیں۔ اور رسول کی جمع رسل آتہ ہے اور قرآن پاک میں رسول اور رسل اللہ سے مراد کبھی فرشتے ہوتے ہیں جیسے فرمایا : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ [ التکوير 19] کہ یہ ( قرآن ) بیشک معزز فرشتے ( یعنی جبریل ) کا ( پہنچایا ہوا ) پیام ہے ۔ إِنَّا رُسُلُ رَبِّكَ لَنْ يَصِلُوا إِلَيْكَ [هود 81] ہم تمہارے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہی یہ لوگ تم تک نہیں پہنچ پائیں گے ۔ اور کبھی اس سے مراد انبیا (علیہ السلام) ہوتے ہیں جیسے فرماٰیا وَما مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ [ آل عمران 144] اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے بڑھ کر اور کیا کہ ایک رسول ہے اور بس - ذو - ذو علی وجهين : أحدهما : يتوصّل به إلى الوصف بأسماء الأجناس والأنواع، ويضاف إلى الظاهر دون المضمر، ويثنّى ويجمع، ويقال في المؤنّث : ذات، وفي التثنية : ذواتا، وفي الجمع : ذوات، ولا يستعمل شيء منها إلّا مضافا، قال : وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة 251] ، وقال : ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى [ النجم 6] ، وَذِي الْقُرْبى [ البقرة 83] ، وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ [هود 3] ، ذَوِي الْقُرْبى وَالْيَتامی [ البقرة 177] ، إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذاتِ الصُّدُورِ- [ الأنفال 43] ، وَنُقَلِّبُهُمْ ذاتَ الْيَمِينِ وَذاتَ الشِّمالِ [ الكهف 18] ، وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ [ الأنفال 7] ، وقال : ذَواتا أَفْنانٍ [ الرحمن 48] ، وقد استعار أصحاب المعاني الذّات، فجعلوها عبارة عن عين الشیء، جو هرا کان أو عرضا، واستعملوها مفردة ومضافة إلى المضمر بالألف واللام، وأجروها مجری النّفس والخاصّة، فقالوا : ذاته، ونفسه وخاصّته، ولیس ذلک من کلام العرب . - والثاني في لفظ ذو :- لغة لطيّئ، يستعملونه استعمال الذي، ويجعل في الرفع، والنصب والجرّ ، والجمع، والتأنيث علی لفظ واحد نحو : وبئري ذو حفرت وذو طویت - ( ذ و ) ذو ( والا ۔ صاحب )- یہ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے - ( 1) اول یہ کہ اسماء اجناس وانوع کے ساتھ توصیف کے لئے اسے ذریعہ بنایا جاتا ہے ۔ اس صورت میں اسم ضمیر کیطرف مضاف نہیں ہوتا بلکہ ہمیشہ اسم ظاہر کی طرف مضاف ہوتا ہے اور اس کا تنثیہ جمع بھی آتا ہے ۔ اور مونث کے لئے ذات کا صیغہ استعمال ہوتا ہے اس کا تثنیہ ذواتا اور جمع ذوات آتی ہے ۔ اور یہ تمام الفاظ مضاف ہوکر استعمال ہوتے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَلكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ [ البقرة 251] لیکن خدا اہل عالم پر بڑا مہرابان ہے ۔ ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى [ النجم 6] ( یعنی جبرئیل ) طاقتور نے پھر وہ پورے نظر آئے ۔ وَذِي الْقُرْبى [ البقرة 83] اور رشتہ داروں ۔ وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ [هود 3] اور ہر ساحب فضل کو اسکی بزرگی ( کی داو ) دیگا ۔ ذَوِي الْقُرْبى وَالْيَتامی [ البقرة 177] رشتہ داروں اور یتیموں ۔ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذاتِ الصُّدُورِ [ الأنفال 43] تو دلوں تک کی باتوں سے آگاہ ہے ۔ وَنُقَلِّبُهُمْ ذاتَ الْيَمِينِ وَذاتَ الشِّمالِ [ الكهف 18] اور ہم ان کو دائیں اور بائیں کروٹ بدلاتے ہیں ۔ وَتَوَدُّونَ أَنَّ غَيْرَ ذاتِ الشَّوْكَةِ تَكُونُ لَكُمْ [ الأنفال 7] اور تم چاہتے تھے کہ جو قافلہ بےشان و شوکت ( یعنی بےہتھیار ) ہے وہ تمہارے ہاتھ آجائے ۔ ذَواتا أَفْنانٍ [ الرحمن 48] ان دونوں میں بہت سے شاخیں یعنی قسم قسم کے میووں کے درخت ہیں ۔ علمائے معانی ( منطق وفلسفہ ) ذات کے لفظ کو بطور استعارہ عین شے کے معنی میں استعمال کرتے ہیں اور یہ جو ہر اور عرض دونوں پر بولاجاتا ہے اور پھر کبھی یہ مفرد یعنی بدون اضافت کت استعمال ہوتا ہے ۔ اور کبھی اسم ضمیر کی طرف مضاف ہو کر اور کبھی معرف بلالم ہوکر ۔ اور یہ لفظ بمنزلہ نفس اور خاصہ کے بولا جاتا ہے ۔ اور نفسہ وخاصتہ کی طرح ذاتہ بھی کہاجاتا ہے ۔ مگر یہ عربی زبان کے محاورات سے نہیں ہے - ( 2 ) دوم بنی طیی ذوبمعنی الذی استعمال کرتے ہیں اور یہ رفعی نصبی جری جمع اور تانیث کی صورت میں ایک ہی حالت پر رہتا ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے ع ( الوافر ) یعنی کنواں جسے میں نے کھودا اور صاف کیا ہے ۔- قربی - وفي النّسبة نحو : وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُولُوا الْقُرْبى[ النساء 8] ، وقال : الْوالِدانِ وَالْأَقْرَبُونَ [ النساء 7] ، وقال : وَلَوْ كانَ ذا قُرْبى [ فاطر 18] ، وَلِذِي الْقُرْبى [ الأنفال 41] ، وَالْجارِ ذِي الْقُرْبى [ النساء 36] ، يَتِيماً ذا مَقْرَبَةٍ [ البلد 15]- اور قرب نسبی کے متعلق فرمایا : وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُولُوا الْقُرْبى[ النساء 8] اور جب میراث کی تقسیم کے وقت ( غیر وارث ) رشتے دار آجائیں ۔ الْوالِدانِ وَالْأَقْرَبُونَ [ النساء 7] ماں باپ اور رشتے دار ۔ وَلَوْ كانَ ذا قُرْبى [ فاطر 18] گوہ وہ تمہاری رشتے دار ہو ۔ وَلِذِي الْقُرْبى [ الأنفال 41] اور اہل قرابت کا ۔ وَالْجارِ ذِي الْقُرْبى [ النساء 36] اور رشتے در ہمسایوں يَتِيماً ذا مَقْرَبَةٍ [ البلد 15] یتیم رشتے دار کو اور قرب بمعنی کے اعتبار سے کسی کے قریب ہونا - يتم - اليُتْمُ : انقطاع الصَّبيِّ عن أبيه قبل بلوغه، وفي سائر الحیوانات من قِبَلِ أمّه . قال تعالی: أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيماً فَآوی[ الضحی 6] ، وَيَتِيماً وَأَسِيراً [ الإنسان 8] وجمعه : يَتَامَى. قال تعالی: وَآتُوا الْيَتامی أَمْوالَهُمْ [ النساء 2] ، إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوالَ الْيَتامی [ النساء 10] ، وَيَسْئَلُونَكَ عَنِ الْيَتامی [ البقرة 220] وكلُّ منفردٍ يَتِيمٌ ، يقال : دُرَّةٌ يَتِيمَةٌ ، تنبيها علی أنّه انقطع مادّتها التي خرجت منها، وقیل : بَيْتٌ يَتِيمٌ تشبيها بالدّرّة اليَتِيمَةِ.- ( ی ت م ) الیتم - کے معنی نا بالغ بچہ کے تحت شفقت پدری سے محروم ہوجانے کے ہیں ۔ انسان کے علاوہ دیگر حیوانات میں یتم کا اعتبار ماں کیطرف سے ہوتا ہے اور جانور کے چھوٹے بچے کے بن ماں کے رہ جانے کو یتم کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيماً فَآوی[ الضحی 6] بھلا اس نے تمہیں یتیم پاکر جگہ نہیں دی ۔ وَيَتِيماً وَأَسِيراً [ الإنسان 8] یتیموں اور قیدیوں کو یتیم کی جمع یتامیٰ ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَآتُوا الْيَتامی أَمْوالَهُمْ [ النساء 2] اور یتیموں کا مال ( جو تمہاری تحویل میں ہو ) ان کے حوالے کردو ۔ إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوالَ الْيَتامی [ النساء 10] جو لوگ یتیموں کا مال ( ناجائز طور پر ) کھاتے ہیں ۔ وَيَسْئَلُونَكَ عَنِ الْيَتامی [ البقرة 220] اور تم سے یتیموں کے بارے میں دریاقت کرتے ہیں ۔ مجازا ہر یکتا اور بےملي چیز کو عربی میں یتیم کہاجاتا ہے ۔ جیسا کہ گوہر یکتا درۃ یتیمۃ کہہ دیتے ہیں ۔ اور اس میں اس کے مادہ کے منقطع ہونے پر تنبیہ کرنا مقصود ہوتا ہے اور درۃ کے ساتھ تشبیہ دے کر یکتا مکان کو بھی یتیم کہہ دیا جاتا ہے ۔- مِسْكِينُ- قيل : هو الذي لا شيء له، وهو أبلغ من الفقیر، وقوله تعالی: أَمَّا السَّفِينَةُ فَكانَتْ لِمَساكِينَ [ الكهف 79] ، فإنه جعلهم مساکين بعد ذهاب السّفينة، أو لأنّ سفینتهم غير معتدّ بها في جنب ما کان لهم من المسکنة، وقوله : ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ [ البقرة 61] ، فالمیم في ذلک زائدة في أصحّ القولین .- المسکین - المسکین بعض نے اس کی تفسیر ( یعنی جس کے پاس کچھ بھی نہ ہو ) کے ساتھ کی ہے اور یہ فقر سے ابلغ ہے ( یعنی بنسبت فقر کے زیادہ تا دار ہوتا ہے ) لیکن آیت : أَمَّا السَّفِينَةُ فَكانَتْ لِمَساكِينَ [ الكهف 79] اور کشتی غریب لوگوں کی تھی ۔ میں باوجود کشتی کا مالک ہونے کے انہیں مسکن قرار دینا مایؤؤل کے لحاظ سے ہے یعنی کشتی کے چلے جانے کے بعد کی حالت کے لحاظ سے انہیں مسکن کہا گیا ہے ۔ یا اس لئے کہ ان کی احتیاط اور مسکنت کے مقابلہ میں کشتی کی کچھ بھی حیثیت نہ تھی ۔ اور آیت : ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ [ البقرة 61] اور اخر کا ر ذلت روسوائی اور محتاجی ( اور بےنوائی ) ان سے چمٹا دی گئی ۔ میں اصح قول کے لحاظ سے مسکنتہ کی میم زائد ہے ( اور یہ سکون سے ہے ۔ )- أیمان - يستعمل اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید 19] .- ( ا م ن ) - الایمان - کے ایک معنی شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة 69] ، اور جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست۔ اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید کا اقرار کر کے شریعت محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ - نزل - النُّزُولُ في الأصل هو انحِطَاطٌ من عُلْوّ.- يقال : نَزَلَ عن دابَّته، والفَرْقُ بَيْنَ الإِنْزَالِ والتَّنْزِيلِ في وَصْفِ القُرآنِ والملائكةِ أنّ التَّنْزِيل يختصّ بالموضع الذي يُشِيرُ إليه إنزالُهُ مفرَّقاً ، ومرَّةً بعد أُخْرَى، والإنزالُ عَامٌّ ، فممَّا ذُكِرَ فيه التَّنزیلُ قولُه : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] وقرئ : نزل وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] - ( ن ز ل ) النزول ( ض )- اصل میں اس کے معنی بلند جگہ سے نیچے اترنا کے ہیں چناچہ محاورہ ہے : ۔ نزل عن دابۃ وہ سواری سے اتر پڑا ۔ نزل فی مکان کذا کسی جگہ پر ٹھہر نا انزل وافعال ) اتارنا قرآن میں ہے ۔ عذاب کے متعلق انزال کا لفظ استعمال ہوا ہے قرآن اور فرشتوں کے نازل کرنے کے متعلق انزال اور تنزیل دونوں لفظ استعمال ہوئے ہیں ان دونوں میں معنوی فرق یہ ہے کہ تنزیل کے معنی ایک چیز کو مرۃ بعد اخریٰ اور متفرق طور نازل کرنے کے ہوتے ہیں ۔ اور انزال کا لفظ عام ہے جو ایک ہی دفعہ مکمل طور کیس چیز نازل کرنے پر بھی بولا جاتا ہے چناچہ وہ آیات ملا حضہ ہو جہاں تنزیل لا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء 193] اس کو امانت دار فر شتہ لے کر اترا ۔ ایک قرات میں نزل ہے ۔ وَنَزَّلْناهُ تَنْزِيلًا[ الإسراء 106] اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا - عبد - والعَبْدُ يقال علی أربعة أضرب :- الأوّل : عَبْدٌ بحکم الشّرع، وهو الإنسان الذي يصحّ بيعه وابتیاعه، نحو : الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ- [ البقرة 178] ، وعَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل 75] .- الثاني : عَبْدٌ بالإيجاد، وذلک ليس إلّا لله، وإيّاه قصد بقوله : إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم 93] .- والثالث : عَبْدٌ بالعِبَادَةِ والخدمة،- والناس في هذا ضربان :- عبد لله مخلص، وهو المقصود بقوله : وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص 41] ، إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء 3] ، نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان 1] ، عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف 1] ، إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر 42] ، كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران 79] ، إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر 40] ، وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم 61] ، وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] ، فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان 23] ، فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف 65] . وعَبْدٌ للدّنيا وأعراضها، وهو المعتکف علی خدمتها ومراعاتها، وإيّاه قصد النّبي عليه الصلاة والسلام بقوله : «تعس عَبْدُ الدّرهمِ ، تعس عَبْدُ الدّينار» وعلی هذا النحو يصحّ أن يقال : ليس كلّ إنسان عَبْداً لله، فإنّ العَبْدَ علی هذا بمعنی العَابِدِ ، لکن العَبْدَ أبلغ من العابِدِ ، والناس کلّهم عِبَادُ اللہ بل الأشياء کلّها كذلك، لکن بعضها بالتّسخیر وبعضها بالاختیار، وجمع العَبْدِ الذي هو مُسترَقٌّ: عَبِيدٌ ، وقیل : عِبِدَّى وجمع العَبْدِ الذي هو العَابِدُ عِبَادٌ ، فالعَبِيدُ إذا أضيف إلى اللہ أعمّ من العِبَادِ. ولهذا قال : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق 29] ، فنبّه أنه لا يظلم من يختصّ بِعِبَادَتِهِ ومن انتسب إلى غيره من الّذين تسمّوا بِعَبْدِ الشمس وعَبْدِ اللّات ونحو ذلك . ويقال : طریق مُعَبَّدٌ ، أي : مذلّل بالوطء، وبعیر مُعَبَّدٌ: مذلّل بالقطران، وعَبَّدتُ فلاناً : إذا ذلّلته، وإذا اتّخذته عَبْداً. قال تعالی: أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء 22] .- العبد بمعنی غلام کا لفظ چار معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔- ( 1 ) العبد بمعنی غلام یعنی وہ انسان جس کی خریدنا اور فروخت کرنا شرعا جائز ہو چناچہ آیات کریمہ : ۔ الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ [ البقرة 178] اور غلام کے بدلے غلام عَبْداً مَمْلُوكاً لا يَقْدِرُ عَلى شَيْءٍ [ النحل 75] ایک غلام ہے جو بالکل دوسرے کے اختیار میں ہے ۔ میں عبد کا لفظ اس معنی میں استعمال ہوا ہے - ( 2 ) العبد بالایجاد یعنی وہ بندے جسے اللہ نے پیدا کیا ہے اس معنی میں عبودیۃ اللہ کے ساتھ مختص ہے کسی دوسرے کی طرف نسبت کرنا جائز نہیں ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ إِلَّا آتِي الرَّحْمنِ عَبْداً [ مریم 93] تمام شخص جو آسمان اور زمین میں ہیں خدا کے روبرو بندے ہوکر آئیں گے ۔ میں اسی معنی کی طرح اشارہ ہے ۔ - ( 3 ) عبد وہ ہے جو عبارت اور خدمت کی بدولت عبودیت کا درجہ حاصل کرلیتا ہے اس لحاظ سے جن پر عبد کا لفظ بولا گیا ہے - وہ دوقسم پر ہیں - ایک وہ جو اللہ تعالیٰ کے مخلص بندے بن جاتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق فرمایا : ۔ وَاذْكُرْ عَبْدَنا أَيُّوبَ [ ص 41] اور ہمارے بندے ایوب کو یاد کرو ۔ إِنَّهُ كانَ عَبْداً شَكُوراً [ الإسراء 3] بیشک نوح (علیہ السلام) ہمارے شکر گزار بندے تھے نَزَّلَ الْفُرْقانَ عَلى عَبْدِهِ [ الفرقان 1] جس نے اپنے بندے پر قرآن پاک میں نازل فرمایا : ۔ عَلى عَبْدِهِ الْكِتابَ [ الكهف 1] جس نے اپنی بندے ( محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ) پر یہ کتاب نازل کی ۔ إِنَّ عِبادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطانٌ [ الحجر 42] جو میرے مخلص بندے ہیں ان پر تیرا کچھ زور نہیں ۔ كُونُوا عِباداً لِي[ آل عمران 79] کہ میری بندے ہوجاؤ ۔ إِلَّا عِبادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ [ الحجر 40] ہاں ان میں جو تیرے مخلص بندے ہیں ۔ وَعَدَ الرَّحْمنُ عِبادَهُ بِالْغَيْبِ [ مریم 61] جس کا خدا نے اپنے بندوں سے وعدہ کیا ہے ۔ وَعِبادُ الرَّحْمنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْناً [ الفرقان 63] اور خدا کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں فَأَسْرِ بِعِبادِي لَيْلًا[ الدخان 23] ہمارے بندوں کو راتوں رات نکال لے جاؤ ۔ فَوَجَدا عَبْداً مِنْ عِبادِنا[ الكهف 65]( وہاں ) انہوں نے ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ دیکھا ۔- ( 2 ) دوسرے اس کی پر ستش میں لگے رہتے ہیں ۔ اور اسی کی طرف مائل رہتے ہیں چناچہ ایسے لوگوں کے متعلق ہی آنحضرت نے فرمایا ہے تعس عبد الدرھم تعس عبد الدینا ر ) درہم دینار کا بندہ ہلاک ہو ) عبد کے ان معانی کے پیش نظر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہر انسان اللہ کا بندہ نہیں ہے یعنی بندہ مخلص نہیں ہے لہذا یہاں عبد کے معنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہیں لیکن عبد عابد سے زیادہ بلیغ ہے اور یہ بھی کہہ سکتے ہیں : ۔ کہ تمام لوگ اللہ کے ہیں یعنی اللہ ہی نے سب کو پیدا کیا ہے بلکہ تمام اشیاء کا یہی حکم ہے ۔ بعض بعض عبد بالتسخیر ہیں اور بعض عبد بالا اختیار اور جب عبد کا لفظ غلام کے معنی میں استعمال ہو تو اس کی جمع عبید یا عبد آتی ہے اور جب عبد بمعنی عابد یعنی عبادت گزار کے ہو تو اس کی جمع عباد آئے گی لہذا جب عبید کی اضافت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو یہ عباد سے زیادہ عام ہوگا یہی وجہ ہے کہ آیت : وَما أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ [ ق 29] اور ہم بندوں پر ظلم نہیں کیا کرتے میں عبید سے ظلم کی نفی کر کے تنبیہ کی ہے وہ کسی بندے پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا خواہ وہ خدا کی پرستش کرتا ہو اور خواہ عبدالشمس یا عبد اللات ہونے کا مدعی ہو ۔ ہموار راستہ ہموار راستہ جس پر لوگ آسانی سے چل سکیں ۔ بعیر معبد جس پر تار کول مل کر اسے خوب بد صورت کردیا گیا ہو عبدت فلان میں نے اسے مطیع کرلیا محکوم بنالیا قرآن میں ہے : ۔ أَنْ عَبَّدْتَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ الشعراء 22] کہ تم نے بنی اسرائیل کو محکوم بنا رکھا ہے ۔- تَّفْرِيقُ ( فرقان)- أصله للتّكثير، ويقال ذلک في تشتیت الشّمل والکلمة . نحو :- يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ [ البقرة 102] ، رَّقْتَ بَيْنَ بَنِي إِسْرائِيلَ- [ طه 94] ، وقوله : لا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُسُلِهِ [ البقرة 285] ، وقوله : لا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْهُمْ [ البقرة 136] ، إنما جاز أن يجعل التّفریق منسوبا إلى (أحد) من حيث إنّ لفظ (أحد) يفيد في النّفي، وقال : إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ [ الأنعام 159] ، وقرئ :- فَارَقُوا «1» والفِراقُ والْمُفَارَقَةُ تکون بالأبدان أكثر . قال : هذا فِراقُ بَيْنِي وَبَيْنِكَ [ الكهف 78] ، وقوله : وَظَنَّ أَنَّهُ الْفِراقُ [ القیامة 28] ، أي : غلب علی قلبه أنه حين مفارقته الدّنيا بالموت، وقوله : وَيُرِيدُونَ أَنْ يُفَرِّقُوا بَيْنَ اللَّهِ وَرُسُلِهِ [ النساء 150] ، أي :- يظهرون الإيمان بالله ويکفرون بالرّسل خلاف ما أمرهم اللہ به . وقوله : وَلَمْ يُفَرِّقُوا بَيْنَ أَحَدٍ مِنْهُمْ [ النساء 152] ، أي : آمنوا برسل اللہ جمیعا، والفُرْقَانُ- أبلغ من الفرق، لأنه يستعمل في الفرق بين الحقّ والباطل، وتقدیره کتقدیر : رجل قنعان : يقنع به في الحکم، وهو اسم لا مصدر فيما قيل، والفرق يستعمل في ذلک وفي غيره، وقوله : يَوْمَ الْفُرْقانِ [ الأنفال 41] ، أي : الیوم الذي يفرق فيه بين الحقّ والباطل، والحجّة والشّبهة، وقوله : يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَتَّقُوا اللَّهَ يَجْعَلْ لَكُمْ فُرْقاناً- [ الأنفال 29] ، أي : نورا وتوفیقا علی قلوبکم يفرق به بين الحق والباطل «1» ، فکان الفرقان هاهنا کالسّكينة والرّوح في غيره، وقوله : وَما أَنْزَلْنا عَلى عَبْدِنا يَوْمَ الْفُرْقانِ [ الأنفال 41] ، قيل :- أريد به يوم بدر «2» ، فإنّه أوّل يوم فُرِقَ فيه بين الحقّ والباطل، والفُرْقَانُ : کلام اللہ تعالی، لفرقه بين الحقّ والباطل في الاعتقاد، والصّدق والکذب في المقال، والصالح والطّالح في الأعمال، وذلک في القرآن والتوراة والإنجیل، قال : وَإِذْ آتَيْنا مُوسَى الْكِتابَ وَالْفُرْقانَ [ البقرة 53] ، وَلَقَدْ آتَيْنا مُوسی وَهارُونَ الْفُرْقانَ [ الأنبیاء 48] ، تَبارَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقانَ [ الفرقان 1] ، شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّناتٍ مِنَ الْهُدى وَالْفُرْقانِ [ البقرة 185] .- والفَرَقُ : تَفَرُّقُ القلب من الخوف، واستعمال الفرق فيه کاستعمال الصّدع والشّقّ فيه . قال تعالی: وَلكِنَّهُمْ قَوْمٌ يَفْرَقُونَ [ التوبة 56] ، ويقال : رجل فَرُوقٌ وفَرُوقَةٌ ، وامرأة كذلك، ومنه قيل للناقة التي تذهب في الأرض نادّة من وجع المخاض : فَارِقٌ وفَارِقَةٌ «3» ، وبها شبّه السّحابة المنفردة فقیل : فَارِقٌ ، والْأَفْرَقُ من الدّيك : ما عُرْفُهُ مَفْرُوقٌ ، ومن الخیل : ما أحد وركيه أرفع من الآخر، والفَرِيقَةُ : تمر يطبخ بحلبة، والفَرُوقَةُ : شحم الکليتين .- التفریق - اصل میں تکثیر کے لئے ہے اور کسی چیز کے شیر ازہ اور اتحاد کو زائل کردینے پر بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ [ البقرة 102] جس سے میاں بیوی میں جدائی ڈال دیں ، رَّقْتَ بَيْنَ بَنِي إِسْرائِيلَ [ طه 94] کہ تم نے بنی اسرائیل میں تفرقہ ڈال دیا ۔ اور آیت کریمہ : لا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُسُلِهِ [ البقرة 285] ۔ اور کہتے ہیں کہ ہم اس کے پیغمبروں سے کسی میں کچھ فرق نہیں کرتے ۔ نیز آیت : ۔ لا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْهُمْ [ البقرة 136] ہم ان پیغمبروں میں سے کسی میں کچھ فرق نہیں کرتے میں احد کا لفظ چونکہ حرف نفی کے تحت واقع ہونے کی وجہ سے جمع کے معنی میں ہے لہذا تفریق کی نسبت اس کی طرف جائز ہے اور آیت کریمہ : إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ [ الأنعام 159] جن لوگوں نے اپنے دین میں بہت سے رستے نکالے ۔ میں ایک قرات فارقوا ہے اور فرق ومفارقۃ کا لفظ عام طور پر اجسام کے ایک دوسرے سے الگ ہونے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ هذا فِراقُ بَيْنِي وَبَيْنِكَ [ الكهف 78] اب مجھ میں اور تجھ میں علیحد گی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَظَنَّ أَنَّهُ الْفِراقُ [ القیامة 28] اس ( جان بلب ) نے سمجھا کہ اب سب سے جدائی ہے ۔ کے معنی یہ ہیں کہ اسے یقین ہوجاتا ہے کہ بس اب دنیا سے مفارقت کا وقت قریب آپہنچا ہے اور آیت کریمہ : وَيُرِيدُونَ أَنْ يُفَرِّقُوا بَيْنَ اللَّهِ وَرُسُلِهِ [ النساء 150] اور خدا اور اس کے پیغمبروں میں فرق کرنا چاہتے ہیں ۔ کے معنی یہ ہیں کہ وہ ظاہر تو یہ کرتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے ہیں مگر حکم الہی کی مخالفت کر کے اس کے پیغمبروں کے ساتھ کفر کرتے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَلَمْ يُفَرِّقُوا بَيْنَ أَحَدٍ مِنْهُمْ [ النساء 152] اور ان میں کسی میں فرق نہ کیا ۔ کے معنی یہ ہیں کہ وہ تمام پیغمبروں پر ایمان رکھتے ہیں ۔ - الفرقان - یہ فرق سے ابلغ ہے کیونکہ یہ حق اور باطل کو الگ الگ کردینا کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور یہ رجل وقنعان ( یعنی وہ آدمی جس کے حکم پر قناعت کی جائے ) کی طرح اسم صفت ہے مصدر نہیں ہے اور - فرق کا لفظ عام ہے جو حق کو باطل سے الگ کرنے کے لئے بھی آتا ہے اور دوسری چیزوں کے متعلق بھی استعمال ہوتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَتَّقُوا اللَّهَ يَجْعَلْ لَكُمْ فُرْقاناً [ الأنفال 29] مومنوں اگر تم خدا سے ڈرو گے تو وہ تمہارے لئے امر فارق پیدا کر دیگا ( یعنی تم کو ممتاز کر دے گا ۔ میں فر قان سے مراد یہ ہے کہ وہ تمہارے دلوں کے اندر نور اور توفیق پیدا کر دیگا جس کے ذریعہ تم حق و باطل میں امتیاز کرسکو گے تو گویا یہاں فرقان کا لفظ ایسے ہی ہے جیسا کہ دوسری جگہ سکینۃ اور روح کے الفاظ ہیں اور قرآن نے یوم الفرقان اس دن کو کہا ہے جس روز کہ حق و باطل اور صحیح وغلط کے مابین فرق اور امتیاز ظاہر ہوا چناچہ آیت : ۔ وَما أَنْزَلْنا عَلى عَبْدِنا يَوْمَ الْفُرْقانِ [ الأنفال 41] اور اس ( نصرت ) پر ایمان رکھتے ہو جو ( حق و باطل میں ) فرق کرنے کے دن نازل فرمائی ۔ میں یوم الفرقان سے جنگ بدر کا دن مراد ہے کیونکہ وہ ( تاریخ اسلام میں ) پہلا دن ہے جس میں حق و باطل میں کھلا کھلا امتیاز ہوگیا تھا ۔ اور کلام الہی ( وحی ) بھی فرقان ہوتی ہے کیونکہ وہ حق اور باطل عقائد میں فرق کردیتی ہے سچی اور جھوٹی باتوں اور اچھے برے اعمال کو بالکل الگ الگ بیان کردیتی ہے اس لئے قرآن کریم تورات اور انجیل کو فرقان سے تعبیر فرما گیا ہے چناچہ توراۃ کے متعلق فرمایا : ۔ وَلَقَدْ آتَيْنا مُوسی وَهارُونَ الْفُرْقانَ [ الأنبیاء 48] اور ہم نے موسیٰ اور ہارون هْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّناتٍ مِنَ الْهُدى وَالْفُرْقانِ [ البقرة 185] (علیہ السلام) کو ہدایت اور گمراہی میں ) فرق کردینے والی ۔ ،۔۔ عطا کی ۔ تَبارَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقانَ [ الفرقان 1] وہ خدائے عزوجل بہت ہی بابرکت ہے جس نے اپنے بندے پر قرآن نازل فرمایا : ۔ وَإِذْ آتَيْنا مُوسَى الْكِتابَ وَالْفُرْقانَ [ البقرة 53] اور جب ہم نے موسیٰ کو کتاب اور معجزے عنایت کئے ۔ وَلَقَدْ آتَيْنا مُوسی وَهارُونَ الْفُرْقانَ [ الأنبیاء 48] اور ہم نے موسیٰ اور ہارون کو معجزے دیئے روزوں کا مہینہ رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن ( اول اول ) نازل ہوا جو لوگوں کا رہنما ہے اور جس میں ہدایت کی کھلی نشانیاں ہیں اور حق و باطل کو ) الگ الگ کرنے والا ہے - الفرق - کے معنی خوف کی وجہ سے دل کے پرا گندہ ہوجانے کے ہیں اور دل کے متعلق اس کا استعمال ایسے ہی ہے جس طرح کہ صدع وشق کا لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلكِنَّهُمْ قَوْمٌ يَفْرَقُونَ [ التوبة 56] اصل یہ ہے کہ یہ ڈر پوک لوگ ہے ۔ اور فروق وفروقۃ کے معنی ڈرپوک مرد یا عورت کے ہیں اور اسی سے اس اونٹنی کو جو درندہ کی وجہ سے بدک کر دور بھاگ جائے ۔ فارق یا فارقۃ کہا جاتا ہے اور تشبیہ کے طور پر اس بدلی کو بھی فارق کہا جاتا ہے جو دوسری بد لیوں سے علیحد ہ ہو ۔ وہ مرغ جس کی کلفی شاخ در شاخ ہو ( 2 ) وہ گھوڑا جس کا ایک سرین دوسرے سے اونچا ہو ۔ الفریقۃ دودھ میں پکائی ہوئی کھجور ۔ الفریقہ گردوں کی چربی ۔- التقی - ۔ آمنے سامنے ہوئے۔ بالمقابل ہوئے۔ ان کی مڈبھیڑ ہوئی۔ ماضی واحد مذکر غائب ۔ التقاء مصدر ( افتعال) لقی مادہ - قَدِيرُ :- هو الفاعل لما يشاء علی قَدْرِ ما تقتضي الحکمة، لا زائدا عليه ولا ناقصا عنه، ولذلک لا يصحّ أن يوصف به إلا اللہ تعالی، قال : إِنَّ اللَّهَ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ [ البقرة 20] . والمُقْتَدِرُ يقاربه نحو : عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر 55] ، لکن قد يوصف به البشر، وإذا استعمل في اللہ تعالیٰ فمعناه القَدِيرُ ، وإذا استعمل في البشر فمعناه : المتکلّف والمکتسب للقدرة، يقال : قَدَرْتُ علی كذا قُدْرَةً. قال تعالی: لا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا[ البقرة 264] .- القدیر - اسے کہتے ہیں جو اقتضائے حکمت کے مطابق جو چاہے کرسکے اور اس میں کمی بیشی نہ ہونے دے ۔ لہذا اللہ کے سوا کسی کو قدیر نہیں کہہ سکتے ۔ قرآن میں ہے : اور وہ جب چاہے ان کے جمع کرلینے پر ۔۔۔۔ قادر ہے ۔ اور یہی معنی تقریبا مقتقدر کے ہیں جیسے فرمایا : عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ [ القمر 55] ہر طرح کی قدرت رکھنے والے بادشاہ کی بار گاہ میں ۔ فَإِنَّا عَلَيْهِمْ مُقْتَدِرُونَ [ الزخرف 42] ہم ان پر قابو رکھتے ہیں ۔ لیکن مقتدر کے ساتھ کبھی انسان بھی متصف ہوجاتا ہے ۔ اور جب اللہ تعالیٰ کے متعلق مقتدر کا لفظ استعمال ہو تو یہ قدیر کے ہم معنی ہوتا ہے اور جب انسان کا وصف واقع ہو تو اس کے معنی تکلیف سے قدرت حاصل کرنے والا کے ہوتے ہیں ۔ محاورہ ہے : قدرت علی کذا قدرۃ کہ میں نے فلاں چیز پر قدرت حاصل کرلی ۔ قرآن میں ہے : ( اسی طرح ) یہ ریا کار ) لوگ اپنے اعمال کا کچھ بھی صلہ نہیں لے سکیں گے۔
غنائم کی تقسیم کا بیان - قول باری ہے واعلموا انما غنتم من شئی فان للہ محمد وللرسول ولذی القربیٰ والیتمی والمساکین وابن السبیل۔ اور تمہیں معلوم ہو کہ جو کچھ مال غنیمت تم نے حاصل کیا ہے اس کا پانچواں حصہ اللہ اور اس کے رسول اور رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں کے لئے ہے) اللہ تعالیٰ نے ایک اور آیت میں فرمایا فکلوا مماغنمتم حلالاً صیبً ۔ پس جو کچھ مال تم نے حاصل کیا ہے اسے کھائو کہ وہ حلال اور پاک ہے) حضرت ابن عباس (رض) اور مجاہد سے مروی ہے کہ یہ آیت قول باری قل الانفال للہ والرسول کی ناسخ ہے۔ اس لئے کہ پہلے یہ بات تھی کہ جنگ میں مسلمانوں کے ہاتھ جو کچھ آتا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس میں سے جسے جتنا چاہتے دے دیتے۔ اس مال میں کسی کا حق نہ ہوتا صرف اس شخص کا حق ہوتا جسے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حقدار بنا دیتے۔ یہ صورت معرکہ بدر کے موقع پر پیش آئی تھی۔ ہم نے گزشتہ اوراق میں حضرت سعد (رض) کا واقعہ بیان کردیا ہے انہیں ایک تلوار ملی تھی انہوں نے بدر کے دن حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ تلوار بطور ہبہ مانگی تھی لیکن آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے یہ کہہ کر صاف جواب دے دیا کہ یہ تلوار نہ تو میری ملکیت ہے نہ تمہاری۔ پھر جب قل الانفال للہ والرسول) کا نزول ہوا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت سعد (رض) کو طلب کر کے فرمایا کہ تم نے مجھ سے یہ تلوا ر مانگی تھی۔ اس وقت یہ تلوار نہ میری ملکیت تھی اور نہ تمہاری۔ اب اللہ تعالیٰ نے اسے میری ملکیت میں دے دیا ہے اور میں اسے تمہیں دیتا ہوں۔ حضرت ابوہریرہ (رض) کی روایت ہے جسے ہمیں عبدالباقی بن قانع نے بیان کیا ہے انہیں بشربن موسیٰ نے انہیں عبداللہ بن صالح نے انہیں ابوالاحوص نے اعمش سے انہوں نے ابوصالح سے انہوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم سے پہلے کالے سروں والی کسی قوم کے لئے مال غنیمت حلال نہیں کیا گیا تھا۔ جب کوئی نبی اور اس کے رفقاء مال غنیمت حاصل کرتے تو وہ اسے ایک جگہ جمع کردیتے۔ پھر آسمان سے ایک آگ اترتی اور اسے کھا جاتی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی لولاکتاب من اللہ سبق لمسکم فیما اخذتم عذاب الیم فکلوا مما غنمتم حلالاًطیباً ۔ اگر اللہ کا نوشتہ پہلے نہ لکھا جا چکا ہوتا تو جو کچھ تم نے کیا ہے اس کی پاداش میں تم کو بڑی سزا دی جاتی پس جو کچھ تم نے مال حاصل کیا ہے اسے کھائو کہ وہ حلال اور پاک ہے) ۔ ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی، انہیں ابودائود نے انہیں احمد بن حنبل نے انہیں ابونوح نے انہیں عکرمہ بن عمار نے انہیں سماک الحنفی نے انہیں حضرت ابن عباس (رض) نے انہیں حضرت عمر (رض) نے کہ جب بدر کا معرکہ پیش آیا اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کافروں کے قیدیوں سے فدیہ لے کر انہیں چھوڑ دیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ماکان لنبی ان یکون لہ اسری حتی یتخن فی الارض۔ کسی نبی کے لئے یہ زیبا نہیں ہے کہ اس کے پاس قیدی ہوں جب تک کہ وہ زمین میں دشمنوں کو اچھی طرح کچل نہ دے) تا قول باری لمسکم فیما اخذتم) یعنی فدیہ کی رقم۔ اس کے بعد مسلمانوں کے لئے غنائم کی حلت ہوگئی۔ ان دونوں روایتوں میں یہ بتایا گیا ہے کہ غنائم کی حلت بدر کی جنگ کے بعد ہوئی ہے اور حلت کا یہ حکم قول باری قل الانفال للہ والرسول) پر مرتب ہے نیز یہ کہ اس کی تقسیم حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صوابدید پر چھوڑ دی گئی تھی۔ آیت قل الانفال للہ والرسول) پہلی آیت ہے جس میں غنائم کی اباحت کا حکم دیا گیا تھا۔ اسی میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ اختیار دیا گیا تھا کہ آپ جسے چاہیں اس میں سے دے دیں اس کے بعد یہ آیت نازل ہوئی واعلموا انما غنمتم من شئیً فان للہ خمسہ) نیز یہ آیت نازل ہوئی فکلوا مما غنمتم حلالاً طیباً ) اس میں قیدیوں سے لئے جانے والے فدیہ کا ذکر ہے۔ یہ واقعہ قول باری قل الانفال للہ والرسول) کے نزول کے بعد پیش آیا تھا۔- فدیہ والی آیت میں مسلمانوں کے اس عمل پر جس ناپسندیدگی کا اظہار کیا گیا ہے اس کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے ان قیدیوں کو قتل کردینے کی بجائے شروع ہی سے ان سے فدیہ لے لیا تھا۔ اس آیت میں یہ دلالت موجود نہیں ہے کہ غنائم کی اس وقت تک حلت نہیں ہوئی تھی جس میں تقسیم کا معاملہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا تھا۔ اس لئے کہ ممکن ہے کہ غنائم کی حلت تو ہوگئی ہو لیکن فدیہ کی ممانعت رہی ہو، امام ابوحنیفہ کا بھی یہی قول ہے کہ مشرکین کے قیدیوں سے فدیہ لے کر انہیں چھوڑ دینا جائز نہیں ہے۔ معرکہ بدر میں حصہ لینے والی فوج ما ل غنیمت کو آپس میں تقسیم کرلینے کی مستحق قرار نہیں دی گئی تھی۔ اس پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس مال غنیمت سے پانچواں حصہ الگ نہیں کیا تھا اور سوار اور پیدل سپاہیوں کے حصول کی نشاندہی نہیں کی تھی۔ یہاں تک کہ قول باری واعلموا انما غنمتم من شئی فان للہ خمسہ) کا نزول ہوگیا ۔ آپ نے اس آیت کی بنیاد پر غنائم کے پانچ حصے کر کے چار حصے جنگ میں حصہ لینے والوں کے درمیان تقسیم کردیئے اور پانچواں حصہ آیت میں مذکورہ مدوں کے لئے مخصوص کردیا۔ اس آیت کے ذریعے اسی اختیار کو منسوخ کردیا گیا جو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حاصل تھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جسے چاہتے غنائم میں سے نفل کے طور پردے دیتے۔ البتہ وہ صورت پھر بھی باقی رہی جس کے تحت مال غنیمت محفوظ کرلینے سے قبل آپ نفل کے طور پر جسے چاہتے اس میں سے کچھ دے دیتے۔ مثلاً یہ اعلان کردیتے کہ ” جسے کوئی چیز ہاتھ لگے وہ اس کی ہوگی “ یا ” جس شخص نے کسی دشمن کو قتل کردیا اسے اس کا سامان مل جائے گا۔ اس لئے کہ آیت واعلموا انما غنمتم من شئی) کا حکم اس صورت کو شامل نہیں ہوا کیونکہ اس صورت میں حاصل ہونے والی چیز صرف اس شخص کے لئے غنیمت بنی تھی جس کے ہاتھ یہ لگی تھی یا جس نے اس کے مالک کو قتل کردیا تھا۔ مال غنیمت محفوظ کرلینے کے بعد بطور نفل کسی کو کچھ دینے کے مسئلے میں اہل علم کے مابین اختلاف رائے ہے۔- اس مسئلے میں اختلاف کا ذکر - ہمارے اصحاب اور سفیان ثوری کا قول ہے کہ مال غنیمت محفوظ ہوجانے کے بعد کوئی نفل نہیں یعنی پھر کسی کو بھی اس کے حق سے زائد نہیں دیا جائے گا نفل کی صورت صرف یہ ہے کہ پہلے سے یہ اعلان کردیا جائے کہ جو شخص دشمن کے کسی آدمی کو قتل کرے گا اسے اس کا سامان مل جائے گا یا جس شخص کے ہاتھ کوئی چیز آئے گی وہ اس کی ہوگی۔ اوزاعی کا قول ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے طریق کار میں ہمارے لئے بہتر ین نمونہ موجود ہے۔ آپ ابتداء میں چوتھائی حصہ دیتے تھے اور واپسی پر تیسرا حصہ دیتے تھے۔ امام مالک اور امام شافعی کا قول ہے کہ مال غنیمت محفوظ ہوجانے کے بعد بھی امام یا سپہ سالار کے لئے اپنی صوابدید کے مطابق بطور نفل دینا جائز ہے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ مال غنیمت جمع کرنے سے پہلے کسی کو بطور نفل کچھ دینے کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ مثلا امام یہ اعلان کر دے کہ جو شخص دشمن کے کسی آدمی کو قتل کر دے گا اسے اس کا سامان مل جائے گایا یہ کہہ دے کہ جو چیز کسی کے ہاتھ آجائے گی وہ اس کی ہوجائے گی۔ حبیب بن مسلمہ نے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابتداء میں چوتھائی حصہ نفل کے طور پر دیا تھا اور واپسی پر خمس نکالنے کے بعد تیسرا حصہ دیا تھا۔ ابتداء میں نفل کے طور پر دینے کے متعلق ہم نے فقہاء کے اتفاق کا ذکر کردیا ہے۔ اب رہی یہ بات کہ واپسی پر تہائی حصہ بطور نفل دیا تھا اس میں دو احتمال ہیں۔ ایک تو یہ کہ آگے جانے والے فوجی دستہ کو واپسی پر ہی کچھ ہاتھ آئے وہ مراد ہے۔ مثلاً ان سے یہ کہہ دیا گیا ہو کہ جو کچھ تمہیں ہاتھ لگے اس میں سے خمس نکالنے کے بعد تہائی حصہ تمہیں مل جائے گا۔ اب یہ بات ظاہر ہے کہ غنائم کے مجموعہ کے بارے میں اس لفظ کے اندر عموم نہیں ہے۔ اس میں صرف حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے طرز عمل کی حکایت ہے جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کسی معین چیز کے متعلق اختیار کیا تھا جس کی کیفیت بیان نہیں کی تھی اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس کے معنی وہ لئے جائیں جو ہم نے بیان کئے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بات آگے جانے والے فوجی دستے کی واپسی کی صورت میں بیان کی تھی اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان لوگوں کے لئے واپسی میں جو حصہ مقرر کیا تھا وہ ابتداء میں مقرر کئے ہوئے حصے سے زائد تھا اس لئے کہ واپسی میں غنائم کی حفاظت اور اسے محفوظ کرنے کی ضرورت ہوتی تھی جبکہ ان کے چاروں طرف کفار پھیلے ہوتے اور ان پر حملہ کرنے کے لئے کیل کانٹے سے لیس تیار بیٹھے ہوتے اس لئے کہ انہیں ان کی سرزمین میں اسلامی لشکر کی آمد کی اطلاع مل جانے پر وہ ان کا مقابلہ کرنے کے لئے پوری طرح تیار ہوتے۔ اس میں دوسرا احتمال یہ ہے کہ بات مال غنیمت محفوظ کرلینے کے بعد کہی گئی ہو اور یہ اس وقت کی بات ہو جب سارا مال غنیمت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صوابدید پر چھوڑ دیا جاتا تھا اور پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جسے چاہتے دے دیتے تھے۔ پھر یہ حکم منسوخ ہوگیا جیسا کہ ہم بیان کر آئے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ حبیب بن مسلمہ کی روایت میں خمس نکالنے کے بعد ثلث کا ذکر ہے جو اس پر دلالت کرتا ہے کہ یہ بات آیت واعلموا انما غنمتم) کے نزول کے بعد کہی گئی تھی ۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ روایت میں معترض کے ذکر کردہ امر پر کوئی دلالت نہیں ہے۔ اس لئے کہ اس روایت میں یہ مذکورہ نہیں ہے کہ خمس سے مراد وہی خمس ہے جو پورے مال غنیمت سے نکالا جاتا ہے اور اس کے مستحقین میں تقسیم کردیا جاتا ہے جس کا ذکر اس قول باری میں کیا گیا ہے فان للہ خمسہ) تاآخر آیت یہ ممکن ہے کہ اس خمس کی وہی حیثیت ہو جو مال غنیمت میں تہائی یا چوتھائی حصے کی ہوتی ہے ان میں کوئی فرق نہ ہو۔ جب حبیب بن مسلمہ کی روایت میں یہ احتمال پیدا ہوگیا جس کا ہم نے ابھی ذکر کیا تو اس کے ذریعہ قول باری اواعلموا انما غنتم من شئی ) کے حکم میں کوئی تبدیلی جائز نہیں ہوگی۔ اس لئے کہ یہ قول باری چار حصے جنگ میں حصہ لینے والوں کے لئے مخصوص کردینے کا اسی طرح مقتضی ہے جس طرح پانچویں حصے کو آیت میں مذکور حقداروں کے لئے مخصوص کردینے کا موجب ہے۔ اس لئے جس وقت مال غنیمت جمع کر کے محفوظ کرلیا جائے گا اس میں سب کا حق ثابت ہوجائے گا ظاہر آیت اس کی مقتضی ہے اس لئے آیت کے مقتضی سے ہٹ کر مال غنیمت میں سے کچھ کسی غیر مستحق کو دے دینا جائز نہیں ہوگا البتہ یہ اس وقت ہوسکتا ہے جس اس کے لئے کوئی ایسی دلیل موجود ہو جس کے ذریعے آیت کی تخصیص جائز قرار دی جاسکتی ہو۔ ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی انہیں ابودائود نے انہیں مسدد نے انہیں یحییٰ نے عبیداللہ سے انہیں نافع نے حضرت ابن عمر (رض) سے انہوں نے فرمایا ” ہمیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک فوجی دستے کے ساتھ بھیجا۔ ہمیں بارہ اونٹوں کا حصہ ملا اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں فی کس ایک اونٹ نفل کے طور پر عطا کیا۔ حضر ت ابن عمر (رض) نے اس روایت میں لشکر کو مال غنیمت سے ملنے والے حصوں کو بیان کیا اور یہ بتایا کہ نفل پورے مال غنیمت سے نہیں دیا گیا بلکہ حصوں کی تقسیم کے بعد دیا گیا اور خمس میں سے دیا گیا۔ مال غنیمت محفوظ کرلینے کے بعد کسی کو بطور نفل کچھ دینا صرف خمس سے ہی جائز ہوتا ہے اس پر وہ روایت دلالت کرتی ہے جو ہمیں محمد بن بکر نے سنائی انہیں ابودائود نے انہیں ولید بن عتبہ نے انہیں ولید نے انہیں عبداللہ بن العلاء نے انہوں نے ابوسلام بن الاسود سے سنا وہ کہتے تھے کہ میں نے حضرت عمرو بن عبد (رض) کو یہ فرماتے ہوئے سنا تھا کہ ہمیں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مال غنیمت کے ایک اونٹ کو سترہ بنا کر نماز پڑھائی۔ جب آپ نے نماز سے فارغ ہوئے تو اس اونٹ کے پہلو سے ایک بال اٹھا کر فرمانے لگے میرے لئے تمہارے غنائم سے خمس کے سوا اس بال کے برابر بھی کوئی چیز حلال نہیں ہے اور یہ خمس بھی تمہاری طرف ہی لوٹا دیا جاتا ہے۔ اس روایت میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ واضح کردیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو غنائم میں خمس کے سوا اور کسی چیز کے اندر تصرف کرنے کا اختیار نہیں تھا۔ نیز یہ کہ باقی چار حصے غانمین کا حق شمار ہوتے تھے۔ اس حدیث میں یہ دلیل موجود ہے کہ ایسی معمولی چیزیں جن کی کوئی قیمت نہیں ہوتی اور جسے لینے پر لوگ ایک دوسرے کے لئے مانع نہ ہوتے۔ مثلاً گٹھلی، تنکا اور چیتھڑے وغیرہ جسے بیکار سمجھ کر پھینک دیا جاتا ہے ایک انسان کے لئے ایسی چیزیں اٹھا لینا اور لے جانا جائز ہوتا ہے اس لئے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اونٹ کے پہلو سے ایک بال اٹھا کر فرمایا تھا کہ تمہارے غنائم سے میرے لئے اس جیسی چیز بھی حلال نہیں ہے۔ یعنی میرے لئے اس جیسی چیز کا لے لینا اور اس سے فائدہ اٹھانا یا پورے گروہ میں سے کسی ایک کو دے دینا جائز نہیں ظاہر ہے کہ ایک بال کی کوئی قیمت نہیں ہوتی۔ اگر کوئی کہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا کہ میرے لئے اس جیسی چیز بھی حلال نہیں ہے اس سے آپ کی مراد ہی متعین چیز تھی یعنی بال۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ آپ کی اس سے مراد ایسی چیزیں تھیں جنہیں حاصل کرنے میں لوگ ایک دوسرے کے لئے مانع نہیں بنتے۔ بعینہ وہ بال مراد نہیں تھا اس لئے کہ وہ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لے لیا تھا۔ ہماری اس بات پر وہ روایت دلالت کرتی ہے جسے ابن المبارک نے نقل کیا ہے انہیں خالد الم خداء نے عبداللہ بن شفیق سے اور انہوں نے بلقین کے ایک شخص سے اس شخص نے ایک واقعہ کا ذکر کیا ہے۔ اسی سلسلے میں وہ کہتے ہیں کہ ہم نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا تھا اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس مال یعنی مال غنیمت کے متعلق آپ کیا فرماتے ہیں ؟ “ آپ نے جواب دیا۔ خمس اللہ کے لئے اور چار حصے فوج کے لئے ہے “۔ ہم نے پھر پوچھا :” آیا اس میں کسی کا حق کسی سے بڑھ کر بھی ہے ؟ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” اگر تم اپنے پہلو میں پیوست تیر بھی کھینچ کر نکال لو یعنی وہ دشمن کا تیر ہو اور اب مال غنیمت میں شامل ہو تو بھی تم اپنے مسلمان بھائی سے بڑھ کر اس کے حق دار نہیں بنوگے : ابوعاصم النبیل نے وہب بن ابی خالد الحمصی سے انہوں نے اپنے والد حضرت عریاض (رض) بن ساریہ سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک بال پکڑ کر فرمایا (مالی فیکم ھذہ مالی فیہ الاالخمس فادوالخیط والمخیط فانہ عار ونار وشنار علی صاحبہ یوم القیامۃ) تمہارے مال میں میرا اس بال جتنا بھی حق نہیں ہے مال غنیمت میں خمس کے سوا میرا کوئی حق نہیں ہے۔ اس لئے مال غنیمت کا دھاگہ اور سوئی بھی جمع کرا دو ، اس لئے کہ اسے دیا جانا قیامت کے دن دیئے جانے والے کے لئے شرمندگی جہنم کی آگ اور بدترین عیب کا سبب بن جائے گا۔- مال غنیمت اور تعمیر کردار - ہمیں محمد بن بکر نے روایت بیان کی انہیں ابودائود نے انہیں موسیٰ بن اسماعیل نے انہیں حماد نے محمد بن اسحاق سے انہوں نے عمرو بن شعیب سے انہوں نے اپنے والد سے والد نے عمرو کے دادا سے کہ دادا یعنی حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) نے قبیلہ ہوازن سے حاصل ہونے والے غنائم کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک اونٹ کے پاس چلے گئے اس کے کوہان سے ایک بال اٹھایا اور فرمایا : لوگو اس شے یعنی مال غنیمت میں خمس کے سوا میرے لئے کوئی چیز نہیں ہے یہ چیز تک بھی نہیں (یہ کہتے ہوئے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دو انگلیاں بلند کر کے اونٹ کے کوہان سے حاصل کردہ بال لوگوں کو دکھایا) اور یہ پانچواں حصہ بھی تمہیں لوٹا دیا جاتا ہے۔ اس لئے مال غنیمت کا دھاگہ اور سوئی بھی جمع کرا دو “۔ یہ سن کر ایک شخص کھڑا ہوگیا۔ اس کے ہاتھ میں اون کا گچھا تھا وہ کہنے لگا کہ ” میں نے اون کا یہ گچھا اپنی اونی چادر رفو کرنے کی غرض سے لیا تھا “۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے جواب میں فرمایا : خمس میں سے میرا اور عبدالمطلب کے گھرانے یعنی میرے قرابت داروں کا جو حصہ ہے وہ میں تمہیں دیتاہوں “۔ یہ سن کر وہ شخص کہنے لگا جب اس سلسلے میں آپ اس مقام کو پہنچ گئے ہیں جو مجھے نظر آرہا ہے تو مجھے بھی اس اون کی ضرورت نہیں ہے “۔ یہ کہہ کر اس شخص نے اون کا گچھا پھینک دیا۔ یہ تمام روایات ظاہر کتاب اللہ سے مطابقت رکھتی ہیں اس لئے یہ روایات حبیب بن مسلمہ کی روایت کردہ حدیث کے مقابلہ میں اولیٰ ہوں گی خاص طور پر جبکہ اس روایت میں اس تاویل کی گنجائش موجود ہے جس کا ہم نے سابقہ سطور میں ذکر بھی کردیا ہے یہ تمام روایات مال غنیمت کے چار حصوں میں غانمین یعنی جنگ میں حصہ لینے والوں کے سوا کسی اور کے حق کے ثبوت کے لئے مانع ہیں اور یہ بتاتی ہیں کہ ان چاروں حصوں میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بھی کوئی حق نہیں تھا۔ محمد بن سیرین نے روایت کی ہے کہ حضرت انس بن مالک (رض) حضرت عبیداللہ بن ابی بکرہ (رض) کی سرکردگی میں ایک مہم پر گئے ہوئے تھے۔ اس مہم کے اختتام پر کچھ قیدی ہاتھ آگئے، حضرت عبیداللہ نے حضرت انس (رض) کو ایک قیدی حوالہ کرنا چاہا تو حضرت انس نے انہیں ایسا کرنے سے منع کیا اور فرمایا کہ پہلے مال غنیمت تقسیم کر دو پھر خمس میں سے مجھے جو کچھ دینا ہے دو حضرت عبیداللہ نے کہا کہ میں تو پورے مال غنیمت میں سے تمہیں دوں گا حضرت انس (رض) نے اسے قبول کرنے سے انکار کردیا اور حضرت عبیداللہ خمس میں سے دینے پر رضامند نہیں ہوئے۔ ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی انہیں ابراہیم بن عبداللہ نے انہیں حجاج نے انہیں حماد نے محمد بن عمرو سے انہوں نے سعید بن المسیب سے انہوں نے فرمایا : حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد اب بطور نفل کسی کو کچھ دینے کی بات ختم ہوگئی۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ سعید بن المسیب کی شاید اس سے مراد یہ ہو کہ پورے مال غنیمت میں سے اب بطور نفل کسی کو کچھ نہیں دیا جائے گا اس لئے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بطور نفل لوگوں کو دیا کرتے تھے پھر مال غنیمت کی تقسیم کی آیت کے ذریعے یہ حکم منسوخ ہوگیا۔ اس قول سے ہمارے مسلک کے حق میں استدلال کیا جاسکتا ہے اس لئے کو سعید بن المسیب کا یہ قول ظاہر ی طور پر اس امر کا مقتضی ہے کہ عام حالات کے اندر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ بطور نفل کسی کو کوئی چیز دے دے البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ یہ دلالت موجود ہے کہ امام وقت یا سپہ سالار اگر یہ اعلان کر دے کہ جو شخص دشمن کے کسی آدمی کو قتل کرے گا اس کا سامان اسے مل جائے گا تو اس صورت میں وہ سامان اسے مل جائے گا، اس پر چونکہ سب کا اتفاق ہے اس اتفاق امت کی بنا پر ہم نے اس کی تخصیص کردی اور باقی صورتوں کو اس کے مقتضی پر رہنے دیا یعنی اگر امام یہ اعلان نہ کرے تو کسی کو بھی بطور نفل کوئی حصہ نہیں ملے گا۔ سعید بن المسیب سے یہ مروی ہے کہ لوگ خمس میں سے بطور نفل دیا کرتے تھے۔- بڑے سرداروں کو مال غنیمت دینا - اگر یہ کہا جائے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غزوہ حنین میں حاصل ہونے والے غنائم میں سے عرب کے مشہور سرداروں کو بڑے بڑے عطیے دیئے تھے ان میں اقرع بن حابس، عینیہ بن حصن، زبرقان بن بدر، ابوسفیان بن حرب اور صفوان بن امیہ دغیرہم شامل تھے۔ یہ بات واضح ہے کہ آپ نے ان میں سے ہر ایک کو مال غنیمت میں سے اس کا اپنا حصہ اور خمس میں سے ایک حصہ دو حصے ملا کر نہیں دیئے تھے اس لئے کہ یہ دونوں حصے مل کر بھی اس عطیے کی مقدار کو نہیں پہنچ سکتے تھے جو آپ نے ان میں سے ہر ایک کو دیا تھا۔ آپ نے ہر ایک کو سو سو اونٹ دیئے تھے انکے سوا کچھ دوسروں کو بھی اتنے ہی اونٹ دیئے تھے۔ آپ نے ان میں سے ہر ایک کو خمس میں سے اس کا حصہ دے کر خمس کے باقی ماندہ حصوں میں سے اسے نہیں دیا ہوگا اس لئے کہ خمس کے باقی ماندہ حصوں میں فقراء کا حق تھا اور یہ لوگ فقراء نہیں تھے اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ آپ نے انہیں پورے مال غنیمت میں سے دیا تھا اور چونکہ آپ نے اس سلسلے میں تمام لوگوں سے ان کی رضامندی بھی حاصل نہیں کی تھی اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ آپ نے انہیں یہ سب کچھ بطور نفل دیا تھا کیونکہ آپ کو بطور نفل کسی کو کچھ دے دینے کا اختیار تھا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ لوگ مونقہ القلوب کی مد میں آئے تھے اور اللہ تعالیٰ نے صدقات میں مونقہ القلوب کا حصہ رکھا ہے خمس کی حیثیت بھی اس لحاظ سے صدقہ کی طرح ہے کہ اس کا مصرف بھی فقراء ہیں جس طرح صدقات کا مصرف فقراء ہی ہیں۔ اس لئے یہ ممکن ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں پورے خمس میں سے دیا ہو جس طرح صدقات میں سے آپ انہیں دیتے تھے۔- مقتول دشمن کے سلب کے بارے میں فقہاء کی آراء - مقتول دشمن کے سازو سامان کی ملکیت کے بارے میں اختلاف رائے ہے۔ ہمارے اصحاب امام مالک اور سفیان ثوری کا قول ہے کہ مقتول کا سلب یعنی سازو سامان پورے مال غنیمت کا حصہ ہے۔ البتہ اگر امیر لشکر نے یہ اعلان کردیا ہو کہ جو شخص دشمن کے کسی آدمی کو قتل کرے گا اسے اس کا سازو سامان مل جائے گا۔ ایسی صورت میں یہ سازو سامان پورے مال غنیمت کا حصہ نہیں ہوگا۔ اوزاعی اور امام شافعی کا قول ہے کہ سلب ہر صورت میں قاتل کو مل جائے گا خواہ امیر لشکر نے اس کا اعلان نہ بھی کیا ہو۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ قول باری ہے واعلموا انما غنمتم من شئی فان للہ خمسہ) یہ آیت اس امر کی مقتضی ہے کہ مال غنیمت غانمین یعنی جنگ میں حصہ لینے والوں کو دینا لازم ہے اس لئے مال غنیمت میں سے کسی کو خصوصی طورپر کوئی چیز دے دینا اور دوسروں کو اس سے محروم رکھنا جائز نہیں ہوگا۔ اگر یہ کہا جائے کہ درج بالا وضاحت کی بنا پر سلب کو بھی مال غنیمت میں شمار کرنے پر آیت کی دلالت تسلیم کر لینی چاہیے اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ لفظ غنمتم کا مصداق وہ مال غنیمت ہے جو غازیوں نے اجتماعی طور پر نیز جنگ میں ایک دوسرے کا سہارا بن کر اور غنیمت کے طور پر سازوسامان اکٹھا کر کے حاصل کیا ہو جو شخص دشمن کے کسی آدمی کو قتل کردیتا ہے وہ دراصل پوری جماعت کی مدد اور اجتماعی قوت کے سہارے ایسا کرتا ہے اور مقتول کا سازو سامان حاصل کرتا ہے اس لئے اس سازوسامان کو مال غنیمت میں شمار کرنا واجب ہوجاتا ہے۔ اس پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ اگر وہ اس مقتول کو قتل کئے بغیر اس کا سلب لے لیتا تو اس صورت میں یہ سلب مال غنیمت کا حصہ شمار ہوتا۔ اس لئے کہ اسے اس سلب تک رسائی صرف پورے لشکر کی اجتماعی قوت کی بنا پر حاصل ہوئی تھی۔ اس کی مزید وضاحت اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ ایسا شخص جس نے عملاً جنگ میں حصہ نہ لیا ہو اور اسلامی لشکر کی صف میں صرف مددگار کی حیثیت سے کھڑا رہا ہو وہ بھی غنیمت کا مستحق ہوتا اور غانمین میں شامل ہوتا ہے اس لئے غنیمت کے حصول میں اس کی پشت پناہی اور سہارے کو بھی دخل ہے جب یہ بات ثابت ہوگئی تو اس سے سلب کا مال غنیمت ہونا واجب ہوگیا۔ اس صورت میں اس کی حیثیت غنائم کی دوسری اشیاء کی طرح ہوگی۔ اس پر قول باری فکلوامماغنمتم حلالاً طیباً بھی دلالت کرتا ہے اس لئے کہ سلب پوری جماعت نے بطور غنیمت حاصل کیا ہے اس لئے پوری جماعت کا اس پر حق ہوگا سنت کی جہت سے بھی اس پر دلالت ہو رہی ہے۔ ہمیں احمد بن خالد نے روایت بیان کی انہیں محمد بن یحییٰ نے انہیں محمد بن المبارک اور ہشام بن عمار نے ان دونوں کو عمرو بن واقد نے موسیٰ بن یسار سے انہوں نے مکحول سے اور انہوں نے قتادہ بن ابی امیہ سے وہ کہتے ہیں کہ ہم نے اسلامی لشکر کے ساتھ مقام وابق میں پڑائو ڈالا۔ حضرت ابوعبیدہ بن الجراح اسلامی لشکر کے سپہ سالار تھے۔ حبیب بن مسلمہ کو یہ اطلاع کہ قلعہ قبرس کا حاکم فندآذر بائیجان کی طرف بھاگنے کے لئے قلعہ سے چل پڑا ہے وہ اپنے ساتھ یاقوت و زمرد اور موتی نیز ریشمی کپڑوں کی بڑی مقدار لے جا رہا ہے۔ یہ سن کر حبیب بن مسلم اس کی تلاش میں پہاڑی راستوں پر چل پڑے اور ایک درے میں اسے جالیا اور قتل کر کے اس کا سارا مال و اسباب حضرت ابوعبیدہ (رض) کے پاس لے آئے۔ حضرت ابوعبیدہ (رض) نے اس سے خمس نکالنا چاہا تو حبیب کہنے لگے کہ آپ مجھے اس رزق سے کیوں محروم کرتے ہیں جو اللہ نے مجھے عطا کیا ہے۔ اس لئے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مقتول کا سارا مال و اسباب قاتل کو دینے کا حکم دیا ہے۔ یہ سن کر حضرت معا ذ بن جبل (رض) نے حبیب سے فرمایا ” حبیب ٹھہرو میں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ انماللمرء ما طابت بہ نفس امامہ۔ انسان کو وہی کچھ لینا چاہیے جو اس کا امام خوش ہو کر اسے دے دے) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد اس چیز کی ممانعت کا مقتضی ہے جو اس کا امام اسے خوش ہو کر نہ دے اس لئے امام جس شخص کو خوش ہو کر مقتول کا سلب دینا نہ چاہیے اس کے لئے وہ سلب حلال نہیں ہوگا، خاص طور پر جبکہ حضرت معاذ (رض) نے سلب کے متعلق حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد سنا دیا ہے۔- اگر کوئی کہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ایک جماعت نے جس میں حضرت ابوقتادہ (رض) ، حضرت طلحہ (رض) حضرت سمرہ بن جندب (رض) وغیرہم شامل ہیں یہ روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا من قتل قتیلاً فلہ سلبہ۔ جس شخص نے دشمن کے کسی آدمی کو قتل کردیا اسے اس کا سلب یعنی سازو سامان مل جائے گا) نیز حضرت سلمہ بن الاکوع حضرت ابن عباس (رض) حضرت عو ف بن مالک (رض) اور خالد بن الولید (رض) نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دشمن کے قاتل کو اس کا سلب دے دیا تھا۔ یہ روایت دو باتوں پر دلالت کرتی ہے ایک تو یہ کہ روایت سلب پر قاتل کے استحقاق کی مقتضی ہے۔ دوسری یہ کہ اس روایت سے حضرت معاذ (رض) کی روایت کی وضاحت ہوجاتی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قاتل کے اسی فعل پر خوش ہو کر اسے سلب دے دیا تھا اور یہ بات تو واضح ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) امام الائمہ تھے اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد لیس للمرء الاماطابت بہ نفس امامہ سے جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ کہ اس سے وہ امیر اور حاکم مراد ہے جس کی اطاعت قاتل پر سلب کا دعویدار ہے واجب ہو۔ حضرت معاذ (رض) نے بھی اس ارشاد سے یہی مفہوم اخذ کیا تھا آپ چونکہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس حدیث کے راوی ہیں اس لئے آپ کا اخذ کردہ مفہوم ہی درست قرار دیا جائے گا۔ اگر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے اس ارشاد سے اپنی ذات مراد لیتے تو حدیث کے الفاظ یہ ہوتے انماللمرء ما طابت بہ نفسی انسان کے لئے وہ کچھ ہے جو میں خوش ہو کر اسے دے دوں “۔ اس لئے معترض نے جس تاویل اور مفہوم کا ذکر کیا ہے وہ بےمعنی اور ساقط تاویل ہے رہ گئیں وہ روایتیں جن میں یہ مروی ہے کہ سلب قاتل کے لئے ہوتا ہے ان میں اس حکم کا ورود اس حالت کے تحت ہوا تھا جس میں آپ نے مجاہدین کو قتال پر ابھارا تھا۔ آپ یہ بات لوگوں کو قتال پر ابھارنے اور دشمنوں کے خلاف انہیں جوش دلانے کے لئے فرمایا کرتے تھے جس طرح آپ سے یہ مروی ہے کہ من اصاب شیئاً فھولہ۔ جس شخص کو کوئی چیز ہاتھ آجائے وہ اس کی ہوجائے گی۔ جس طرح ہمیں احمد بن اخلد الجزوری نے روایت سنائی ہے انہیں محمد یحییٰ الدھانی نے انہیں موسیٰ بن اسماعیل نے، انہیں غالب بن حجرہ نے انہیں ام عبداللہ نے یہ ملقام بن التلب کی بیٹی ہیں، انہوں نے اپنے والد سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا من اتی بمول فلہ سلبہ جو شخص کسی فرار ہونے والے کو پکڑ کر لائے گا اسے اس کا سازوسامان مل جائے گا) یہ بات واضح ہے کہ یہ حکم صرف متعلقہ جنگ کی حالت تک محدود تھا اس لئے کہ اس پر سب کا اتفاق ہے کہ جو شخص کسی فرار ہونے والے دشمن کو پکڑے گا وہ اس کے سلب کا حقدار نہیں بنے گا۔ آپ کا یہ ارشاد فتح مکہ کے دن آپ کے اس ارشاد کی طرح ہے کہ من دخل دارابی سفیان فھو امن ومن دخل المسجد فھوامن، ومن دخل بینہ فھوامن ومن القی سلاحہ فھوامن۔ جو شخص ابوسفیان کے گھر میں داخل ہوجائے گا اسے امن مل جائے گا جو شخص مسجد میں داخل ہوجائے گا اسے امن مل جائے گا جو شخص اپنے گھر میں داخل ہوجائے گا اسے امن مل جائے گا اور جو شخص اپنے ہتھیار پھینک دے گا اسے امن مل جائے گا) قاتل سلب کا مستحق نہیں ہوتا الایہ کہ امیر لشکر نے اعلان کردیا ہو کہ جو شخص کسی دشمن کو قتل کرے گا اسے اس کا سازوسامان مل جائے گا۔ اس پر وہ روایت دلالت کرتی ہے جو ہمیں محمد بن بکر نے سنائی ہے انہیں ابودائود نے انہیں احمد بن حنبل نے انہیں الولید بن مسلم نے انہیں صفوان بن عمرو نے عبدالرحمن بن جیر بن نفیر سے انہوں نے اپنے والد سے انہوں نے حضرت عوف بن مالک (رض) اشجعی سے وہ فرماتے ہیں کہ میں غزوہ موتہ میں حضرت زید بن حارثہ (رض) کے لشکر میں شامل ہوگیا میرے ساتھ قبیلہ مدد کا ایک یمنی باشندہ بھی تھا۔ اس کے پاس تلوار کے سوا اور کوئی ہتھیار نہیں تھا۔ ایک مسلمان نے اونٹ ذبح کیا اس شخص نے اس سے کھال کا ایک ٹکڑا طلب کیا جو اسے مل گیا۔ اس نے اس سے ایک ڈھال بنالی ہم آگے بڑھتے رہے پھر رومیوں سے ہماری مڈبھیڑ ہوئی۔ رومیوں کی فوج میں ایک شخص سرخ گھوڑے پر سوار تھا جس کی زین پر سونے کی پتریاں لگی ہوئی تھیں اسی طرح اس کے ہتھیار پر بھی سونے کی پتریاں چڑھی ہوئی تھیں وہ شخص رومیوں کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکاتا پھر رہا تھا قبیلہ مدد کا یہ یمنی باشندہ اس رومی کی گھات میں ایک چٹان کے پیچھے بیٹھ گیا جب رومی اپنے گھوڑے پر اس جگہ سے گزرا تو اس نے اس کی کونچیں کاٹ ڈالیں رومی گھوڑے سے گرپڑا۔ یہ شخص اس پر سوار ہوگیا اور اس کی گردن اڑا دی اور اس کے گھوڑے اور سازوسامان پر قبضہ کرلیا۔ پھر جب اللہ تعالیٰ نے اس معرکے میں مسلمانوں کو فتح دی تو حضرت خالد نے اس شخص کو طلب کر کے سارا سازوسامان اس سے رکھوالیا۔ عوف بن مالک (رض) کہتے ہیں کہ میں حضرت خالد (رض) کے پاس گیا اور ان سے کہا کہ کیا آپ کو یہ بات معلوم نہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ فیصلہ ہے کہ سلب قاتل کا ہوتا ہے انہوں نے جواب دیا کہ مجھے معلوم ہے لیکن مجھے اس سازوسامان کی مالیت بہت زیادہ معلوم ہوئی اس لئے میں نے سب کچھ رکھوالیا۔ یہ س کر میں نے کہا کہ آپ یہ سارا سلب اس شخص کو واپس دے دیں ورنہ میں آپ کے خلاف یہ معاملہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے پیش کر دوں گا۔ لیکن حضرت خالد (رض) نے میری بات ماننے سے انکار کردیا۔ جب ہماری واپسی ہوئی تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں ہم سب اکٹھے ہوگئے۔ میں نے سارا واقعہ اور حضرت خالد کا طرز عمل حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بیان کردیا۔ آپ نے حضرت خالد (رض) سے جواب طلبی کی انہوں نے عرض کیا کہ دراصل مجھے اس کی مالیت بہت زیادہ معلوم ہوئی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ سن کر انہیں سارا سامان واپس کرنے کا حکم دیدیا۔ میں نے یہ دیکھ کر حضرت خالد (رض) سے کہا ” کہیں ایسا تو نہیں ہوا کہ میں نے تمہاری اطاعت نہیں کی “۔ اس پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے استفسار کیا میں نے حضرت خالد (رض) کے ساتھ ہونیوالی اپنی پوری گفتگو دہرا دی جسے سن کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو غصہ آگیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” خالد یہ سامان واپس نہ کرو “۔ پھر سب سے مخاطب ہو کر فرمایا : کیا تم لوگ اپنے سرداروں اور امراء کو اس حالت پر پہنچا دینا چاہتے ہو کہ تمہیں تو ان کی حکومت وقیادت کا نتھرا ہوا حصہ ہاتھ آجانے اور گدلا حصہ ان کے سر پر جائے “۔ ہمیں محمد بن بکر نے بیان کیا، انہیں ابودائود نے انہیں احمد بن حنبل نے انہیں ولید نے کہ میں نے ثور سے اس روایت کے بارے میں دریافت کیا انہوں نے مجھے خالد بن معدان سے انہوں نے جبیر بن نفیر سے اور انہوں نے عوف بن مالک اشجعی (رض) سے اسی طرح کی روایت سنائی۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت خالد (رض) کو جب سلب واپس نہ کرنے کا حکم دیا تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوگئی کہ قاتل اس کا حق دار نہیں تھا۔ اس لئے کہ اگر قاتل اس کا حق دار ہوتا تو آپ کبھی بھی اس کا یہ حق اس سے نہ روکتے۔ اس سے یہ دلالت بھی حاصل ہوئی کہ شروع میں آپ نے سلب واپس کرنے کا جو حکم دیا تھا وہ دراصل ایجاب پر مبنی نہ تھا بلکہ نفل کے طور پر تھا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ خمس میں سے اسے یہ دینے کا حکم دیا گیا ہو اس پر وہ روایت بھی دلالت کرتی ہے جس کے راوی یوسف الماجثوں ہیں انہیں صالح بن ابراہیم نے اپنے والد سے انہوں نے حضرت عبدالرحمن بن عوف (رض) سے کہ معاذ بن عفراء اور معاذ بن عمرو بن الجموح نے جب ابوجہل کو قتل کردیا تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ تم دونوں نے اسے قتل کیا ہے لیکن آپ نے سلب معاذ بن عمرو کو دینے کا فیصلہ سنایا آپ نے سلب ان میں سے ایک کو دیا جبکہ پہلے فرما چکے تھے کہ دونوں اس کے قتل میں شریک ہیں۔ اس سے یہ دلالت حاصل ہوئی کہ یہ دونوں ننھے مجاہد ابوجہل کو قتل کرنے کی بنا پر اس کے سلف کے مستحق نہیں ٹھہرے تھے۔ آپ یہ نہیں دیکھتے کہ اگر میرا لشکر یہ اعلان کردیتا کہ جو شخص دشمن کے کسی آدمی کو قتل کرے گا اسے اس کا سلب مل جائے گا پھر دو شخص دشمن کے ایک آدمی کو قتل کردیتے تو دونوں آدھے آدھے سلب کے مستحق قرار پاتے۔ ایک آدمی مستحق قرار نہ پاتا لیکن درج بالا روایت میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صرف ایک قاتل کو سلب دے دیا جس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ سلب کا استحقاق قتل کی بنا پر نہیں ہوتا۔ اگر قاتل سلب کا مستحق ہوتا تو پھر ایسے مقتول کا سلب جس کا قاتل معلوم نہ ہو منجملہ مال غنیمت قرار نہ پاتا بلکہ لقطہ قررا دیا جاتا کیونکہ اس کا مستحق ایک متعین شخص ہوتا لیکن جب سب کا اس پر اتفاق ہے کہ میدان جنگ میں ایسے مقتول کا سلب مال غنیمت میں شمار ہوتا ہے جس کا قاتل معلوم نہ ہو تو اس سے یہ دلالت حاصل ہوئی کہ قاتل سلب کا مستحق نہیں ہوتا۔ امام شافعی (رض) نے یہ فرمایا ہے کہ میدان سے پیٹھ پھیر کر بھاگنے والے دشمن کا ک قاتل اس کے سلب کا مستحق نہیں ہوتا بلکہ مقابلہ کرنے والے دشمن کا قاتل اس کے سلب کا مستحق ہوتا ہے۔ یعنی ادبار کی صورت میں سلب کا استحقاق نہیں ہوتا۔ اقبال کی صورت میں ہوتا ہے جب کہ سلب کے بارے میں وارد روایت نے اقبال اور ادبار کی حالت کے درمیان کوئی فرق نہیں رکھا ہے۔ اگر امام شافعی اس روایت سے استدلال کرتے ہیں تو انہوں نے دونوں میں فرق کر کے اس کے خلاف مسلک اختیار کیا ہے اور اگر وہ نظر اور قیاس سے استدلال کرتے ہیں تو قیاس اس بات کا موجب ہے کہ سلب کا شمار مال غنیمت میں ہو جس کے سب مستحق ہوتے ہیں۔ اس لئے کہ سب کا اس پر اتفاق ہے کہ ادبار کی حالت میں قتل کرنے کی صورت میں قاتل سلب کا مستحق نہیں ہوتا بلکہ اس سلب کو مال غنیمت میں شامل کیا جاتا ہے۔ حالت ادبار اور حالت اقبال کے درمیا ن جو مشترک علت ہے وہ یہ ہے کہ قاتل نے دشمن کے آدمی کو پورے لشکر کی معاونت سے قتل کیا ہے اور امیر لشکر کی طرف سے اسے کے استحقاق کے لئے پہلے سے کوئی اعلان نہیں ہوا ہے قاتل صرف اسی وقت سلب کا مستحق ہوتا ہے جبکہ مال غنیمت سمیٹ کر محفوظ کرلینے سے پہلے پہلے امیر لشکر کی طرف سے اس قسم اک کوئی اعلان ہوچکا ہو اس پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ اگر امیر لشکر نے سلب کے استحقاق کے متعلق یہ اعلان کردیا ہو کہ جو شخص دشمن کے کسی آدمی کو قتل کرے گا اسے اس کا سلب مل جائے گا پھر کوئی شخص دشمن کے کسی آدمی کو ادبار یا اقبال کی حالت میں قتل کر دے تو اس کے سلب کا وہ مستحق ہوجائے گا اور اقبال یا ادبار کی حالت سے اس حکم میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اگر سلب کا استحقاق نفس قتل کی بنا پر ہوتا تو اقبال اور ادبار کی حالت کے لحاظ سے اس کے حکم میں فرق نہ ہوتا۔ حضرت براء بن عازب (رض) کے ہاتھ سے قتل ہونے والے دشمن کے آدمی کے سلب کے متعلق حضرت عمر (رض) کا یہ قول مروی ہے کہ ” ہم سلب میں خمس نہیں لیا کرتے تھے لیکن براء کو حاصل ہونے والے سلب اچھی خاصی مالیت کا ہے اور ہم ضرور اس کا خمس لیں گے “۔ امیر لشکر اگر یہ اعلان کر دے کہ جس شخص کو کوئی چیز ہاتھ لگ جائے وہ اس کی ہوگی تو اس اعلان کی کیا حیثیت ہوگی اس بارے میں فقہاء کے مابین اختلاف رائے ہے ہمارے اصحاب سفیان ثوری اور اوزاعی کا قول ہے کہ اس اعلان کے بموجب عمل ہوگا اور اس میں سے خمس وصول نہیں کیا جائے گا۔ امام مالک (رض) نے ایسے اعلان کو مکروہ سمجھا ہے اس لئے کہ پیسے اور انعام دے کر جنگ پر بھیجنے کے مترادف ہے۔ امام شافعی کا قول ہے مقتول کے سلب کے سوا جو چیز بھی کسی کے ہاتھ لگے گی اس میں سے خمس وصول کیا جائے گا۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ جب سب کا اس پر اتفاق ہے کہ امیر لشکر کی طرف سے اس قسم کا اعلان جائز ہے اور ایسے مال پر حق ثابت ہوجاتا ہے تو پھر یہ ضروری ہے کہ اس میں سے خمس نہ لیا جائے اور اس مال میں سے خمس کے مستحقین کے حقوق کو منقطع کردینا اسی طرح جائز ہوجائے گا جس طرح تمام اہل لشکر کے حقوق کو اس سے منقطع کردینا جائز ہوتا ہے۔ نیز امیر لشکر کا یہ اعلان اس کے اس اعلان کی طرح ہے کہ جو شخص دشمن کے کسی آدمی کو قتل کر دے گا اسے اس کا سلب مل جائے گا جب امیر کے اس اعلان کی بنا پر سلب میں خمس نکالنا واجب نہیں ہوتا تو پھر زیر بحث اعلان کی بنیاد پر حاصل ہونے والے مال میں سے خمس نکالنا واجب نہیں ہونا چاہیے نیز اللہ تعالیٰ نے اس مال میں خمس واجب کیا ہے جو مجاہدین کے لئے مال غنیمت بن چکا ہو۔ چناچہ ارشاد ہے واعلموا اذما غنمتم من شئی فان للہ خمسہ) اس لئے جو چیز مجاہدین کے لئے مال غنیمت نہ بنی ہو اس میں سے خمس نکالنا واجب قرار دینا نہیں چاہیے۔ اگر ایک شخص امیر کی اجازت کے بغیر دارالحرب میں گھس جائے اور مال وغیرہ سمیٹ کر واپس آجائے تو آیا اس مال سے خمس وصول کیا جائے گا یا نہیں ہمارے اصحاب کا قول ہے یہ مال اس کا ہوگا اور اس میں سے اس وقت تک خمس وصول نہیں کیا جائے گا جب تک کارروائی ایک جتھے کی شکل میں نہ ہوئی ہوگی جتھے سے مراد یہ ہے کہ یہ گروہ طاقت و قوت کا مالک ہو امام محمد نے جتھے کے لئے نفری کی کوئی حد مقرر نہیں کی ہے البتہ امام ابویوسف کا قول یہ ہے کہ اگر جتھا کم از کم نوافراد پر مشتمل ہو تو پھر اس مال سے خمس وصول کیا جائے گا سفیان ثوری اور امام شافعی کا قول ہے کہ چاہے ایک فرد بھی یہ کارروائی کرے حاصل کردہ مال میں سے خمس وصول کیا جائے گا اور باقی چار حصے اس کے ہوں گے اوزاعی کا قول ہے کہ اگر امام چاہے گا تو اس شخص کو اس حرکت کی سزا دے گا اور سزا کے طور پر اسے مال سے محروم کر دے گا اور اگر چاہے گا تو مخس وصول کر کے باقی مال اسے دے دے گا۔- ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ قول باری واعلموا انماغنمتم من شئی فان للہ خمسہ) اس بات کا مقتضی ہے کہ مال غنیمت حاصل کرنے والے ایک جماعت اور گروہ کی شکل میں ہوں۔ اس لئے کہ جماعت کی صورت میں مال غنیمت کا حصول استحقاق کی شرط ہے۔ اس حکم کی حیثیت قول باری اقتلوا المشرکین ، مشرکین کو قتل کردو) یا (قاتلوا الذین لا یومنون باللہ ولا بالیوم الاخر۔ ان لوگوں سے جنگ کرو جو اللہ پر ایمان نہ لاتے اور نہ ہی یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں) میں مذکور حکم کی طرح نہیں ہے۔ اس حکم میں ایک شخص کو بھی جب وہ مشرک ہو قتل کرنے کالزوم ہے خواہ اس کے ساتھ کوئی جماعت یا گروہ نہ بھی ہو۔ اس لئے کہ آیت میں مشرکین کی جماعت کو قتل کرنے کا حکم ہے اور جماعت کو قتل کرنے کا حکم پوری جماعت کے اعتبار کو متلزم نہیں ہے اس لئے کہ اس میں یہ اعتبار شرط نہیں ہے جبکہ قول باری واعلموا انما غنمتم من شئی) میں شرط کی صورت موجود ہے۔ وہ شرط یہ ہے کہ غنیمت ایک گروہ کو حاصل ہو اور اس گروہ کے قتال کی بنا پر حاصل ہو اس لئے اس حکم کی حیثیت قائل کے اس قول کی طرح ہے کہ اگر ” میں اس جماعت سے کلام کروں تو میرا غلام آزاد ہے “ اس جملے میں قسم ٹوٹنے کی شرط یہ ہے کہ پوری جماعت سے کلام کیا جائے۔ اگر اس جماعت کے بعض افراد سے کلام کرے گا تو احنث نہیں ہوگا۔ اسے ایک اور پہلو سے دیکھے سب کا اس پر اتفاق ہے کہ جب ایک لشکر مال غنیمت حاصل کرلے تو خمس نکالنے کے بعد باقی ماندہ چار حصوں میں دوسرے تمام مسلمان شریک نہیں ہوں گے اس لئے کہ وہ جنگ میں شریک نہیں ہوئے تھے اور غنیمت کو سمیٹ کر محفوظ کرنے میں ان کا کوئی حصہ نہیں تھا۔ اس سے یہ بات واجب ہوگئی کہ دارالحرب میں گھس کر مال سمیٹ لینے والا یہ ایک شخص تنہا اس مال کا مستحق قرار پائے۔ رہ گئی خمس کی بات تو وہ اس مال غنیمت میں واجب ہوتا ہے جو مسلمانوں کی مدد اور ان کی نصرت کی بنا پر حاصل ہوتا ہے۔ اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ مال غنیمت حاصل کرنے والوں کو دیگر مسلمانوں کی پشت پناہی حاصل ہو اب جو شخص تنہا لوٹ مار اور مال سمیٹنے کی نیت سے دارالحرب میں جا گھسے گا وہ امام المسلمین کی نصرت اور اس کی پشت پناہی سے اپنا تعلق قطع کرلے گا اس لئے کہ اس کی اجازت کے بغیر یہ کارروائی کرنے کی بنا پر وہ اس کی نافرمانی کرنے والا قرار پائے گا جس سے یہ ضروری ہوجائے گا کہ اس کے حاصل کردہ مال میں امام کے لئے خمس کا کوئی استحقاق نہ پیدا ہو۔- زمینی دفینوں کا حکم - اسی بناء پر ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ ایسا رکاز (زمین کے اندر موجود معدنیات دھاتیں نیز دفینے) جو دارالاسلام میں ملے اس میں خمس واجب ہوگا اس لئے کہ وہ ایسی سرزمین میں پایا گیا جس پر اسلام کا غلبہ ہے۔ لیکن اگر یہ رکاز دارالحرب میں مل جائے تو اس میں خمس واجب نہیں ہوگا۔ اگر کوئی شخص امام کی اجازت سے دارالحرب میں گھس کر وہاں سے مال وغیرہ سمیٹ لائے تو اس مال میں خمس واجب ہوگا اس لئے کہ امام المسلمین نے جب اسے یہ کارروائی کرنے کی اجازت دے دی تو وہ اس کی مدد اور پشت پناہی کا ضامن بن گیا اور اس سلسلے میں وہ مسلمانوں کی جماعت کے قائم مقام ہوگیا اس لئے اس مال میں مسلمانوں کے لئے اسے خمس کا استحقاق حاصل ہوگیا۔ امام کی اجازت کے بغیر دارالحرب میں گھس کر لوٹ مار کرنے والے اگر ایک گروہ کی شکل میں ہوں جنہیں طاقت و قوت بھی حاصل ہو تو ان کے حاصل کردہ مال میں خمس واجب ہوگا اس لئے کہ قول باری ہے واعلموا انماغنمتم من شئی فان للہ خمسہ) اس صورت میں اس گروہ کی حیثیت فوجی دستے اور لشکر جیسی ہوگی۔ اس لئے کہ انہیں طاقت و قوت حاصل ہوگی اور مذکورہ بالا آیت میں ان کے غنائم سے خمس کے اخراج کا خطاب ان کی طرف متوجہ ہوگا۔- بعد میں شامل جنگ ہونے والوں کے خمس کا حکم - اگر اسلامی لشکر دارالحرب میں مصروف پیکار ہو اور مال غنیمت محفوظ کرلینے سے پہلے کوئی اور فوجی دستہ یا لشکر کمک کے طور پر ان سے جا ملے تو آیا وہ بھی اس مال غنیمت میں حصہ دار ہوگایا نہیں۔ اس بارے میں فقہاء کے درمیان اختلاف رائے ہے۔ ہمارے اصحاب کا قول ہے کہ جب اسلامی لشکر کو دارالحرب میں مال غنیمت حاصل ہوجائے اور اسے دارالاسلام میں پہنچانے سیقبل کوئی اور دستہ بطور کمک ان سے آملے تو آنے والے لوگ اس مال غنیمت میں حصہ دار بنیں گے۔ امام مالک سفیان ثوری لیب بن سعد، اوزاعی اور امام شافعی کا قول ہے کہ حصہ دار نہیں بنیں گے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ ہمارے اصحاب کے نزدیک ا س مسئلے کی بنیاد یہ ہے کہ مال غنیمت میں حق اس وقت ثابت ہوتا ہے جب اسے دارالاسلام میں لا کر محفوظ کرلیا جائے اور پھر تقسیم کی بنا پر اس میں ملکیت ثابت ہوتی ہے لیکن دارالحرب میں اس مال کا ہاتھ آجانا حق کے اثبات کے لئے کافی نہیں ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ دارالحرب میں جس جگہ اسلامی فوج پہنچ جائے اگر مسلمان اس جگہ کو فتح نہ کرسکیں تو وہاں سے حاصل شدہ مال مال غنیمت نہیں کہلائے گا۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اگر اسلامی فوج اس جگہ سے نکل آئے اور اس کے بعد کوئی اور فوج وہاں داخل ہو کر اسے فتح کرلے تو وہ جگہ مسلمانوں کی ملکیت شمار نہیں ہوگی بلکہ اس کی حیثیت دارالحرب کے دوسرے علاقوں اور جگہوں کی طرح رہے گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگرچہ اسلامی فوج اس جگہ تک پہنچ گئی تھی لیکن چونکہ اس جگہ یا علاقے کا اتصال دارالاسلام کے ساتھ نہیں ہوا اور وہ دارالاسلام میں شامل نہیں کیا جاسکا اس لئے وہ دارالحرب کا ہی علاقہ رہا۔ اسی طرح دارالحرب میں مسلمانوں کو حاصل ہونے والی ہر چیز میں اس وقت تک حق ثابت نہیں ہوگا جب تک اسے دارالاسلام پہنچا کر محفوظ نہ کرلیا جائے اس لئے اس عمل سے پہلے پہلے اگر کمک کے طور پر اسلامی لشکر کے ساتھ کوئی اور لشکر یا فوجی دستہ آملتا ہے تو اس حاصل شدہ مال غنیمت کا حکم وہی ہوگا جو کافروں کے قبضے میں موجود اشیاء کا ہے اس لئے اس مال میں پرانے اور نئے آنے والے سب شریک ہوں گے۔ نیز قول باری واعلموا انما غنمتم من شئی فان للہ خمسہ) بھی اس امر کا مقتضی ہے کہ حاصل شدہ یہ مال غنیمت نئے آنے والوں کے لئے بھی مال غنیمت شمار کرلیا جائے اس لئے کہ اس مال کو دارالاسلام میں لاکر محفوظ کردینے میں ان لوگوں کا بھی حصہ ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ جب تک اسلامی لشکر دارالحرب میں پڑائو ڈالے رہے گا اسے مال غنیمت کو دارالاسلام میں لا کر محفوظ کردینے کے سلسلے میں ان نئے آنے والوں کی معاونت کی ضرورت رہے گی جس طرح اس صروت میں ان کی معاونت کی ضرورت رہتی جب وہ اس مال غنیمت کے حصول سے پہلے اسلامی لشکر سے آملتے۔ اس صورت میں مال غنیمت میں اس کی شرکت ہوجاتی ہے اس لئے زیر بحث صورت میں بھی مال غنیمت کے اندر ان کی شرکت ہونی چاہیے اگر مال غنیمت کا ہاتھ آجانا ہی حق کے اثبات کے لئے کافی ہوتا اور اس کے لئے اسے دارالاسلام میں لاکر محفوظ کرلینے کی شرط نہ ہوتی تو پھر اسلامی فوج کے قدموں تلے آنے والے دشمن کے ہر علاقے کو دارالاسلام شمار کرنا ضرور ی ہوجاتا جس طرح اس علاقے کو فتح کرلینے کے بعد اسے دارالاسلام کا حصہ شمار کیا جاتا ہے جب سب کا اس پر اتفاق ہے کہ اسلامی فوج کے قدموں تلے آنے والے دشمن کا علاقہ صرف اتنی بات پر دارالاسلام کا حصہ شمار نہیں ہوتا تو اس میں یہ دلیل بھی موجود ہے کہ دارالحرب میں ہاتھ آنے والے مال غنیمت میں اس وقت حق ثابت ہوتا ہے جب اسے دارالاسلام میں لاکر محفوظ کرلیا جائے۔ جو حضرات کمک کے طور پر آنے والے لشکر کو مال غنیمت میں شامل نہیں کرتے ان کا استدلال یہ ہے کہ زہری نے عنبسہ بن سعید اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابان بن سعید کو نجد کی طرف جانے والی ایک فوجی مہم کا قائد بنا کر روانہ کیا تھا حضرت ابان (رض) کامیابی حاصل کرنے کے بعد اپنے رفقاء سمیت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس خیبر پہنچ گئے جب آپ وہاں پہنچے تو خیبر فتح ہوچکا تھا اور کھجور کی چھالوں سے گھوڑوں پر گٹھڑیاں باندھی جا چکی تھیں۔ حضرت ابان (رض) نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ ہمیں بھی خیبر کے مال غنیمت سے حصہ ملنا چاہیے حضرت ابوہریرہ (رض) کہتے ہیں کہ میں نے فوراً عرض کیا کہ انہیں کوئی حصہ نہ دیا جائے یہ سن کر حضرت ابان (رض) کو غصہ آگیا اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) کو نجدی دیہاتی، تمہاری یہ جرات کہہ کر ڈانٹ دیا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابان (رض) کو بیٹھنے کا حکم دیا اور انہیں کوئی حصہ نہیں دیا۔ اس روایت میں ان حضرات کے قول کی تائید میں کوئی دلیل نہیں ہے اس لئے کہ خیبر پر جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا غلبہ ہوا تھا اس کے ساتھ ہی وہ دارالاسلام بن گیا تھا اس بارے میں کوئی اختلاف رائے نہیں ہے۔- خیبر کا مال غنیمت شرکائے حدیبیہ کے لئے مخصوص تھا - اس سلسلے میں ایک اور روایت بھی ہے حماد بن سلمہ نے علی بن زید سے انہوں نے عمار بن ابی عمار سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کی ہے وہ فرماتے ہیں میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جب کبھی مال غنیمت کی تقسیم کے وقت موجود ہوتا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے اس میں سے ضرور حصہ دیتے صرف خیبر کے موقع پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مال غنیمت میں سے مجھے کچھ نہی دیا اس لئے کہ یہ مال غنیمت صرف ان مجاہدین کے لئے مخصوص تھا جو حدیبیہ کے موقع پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمراہ تھے۔ حضرت ابوہریرہ (رض) نے اس روایت میں یہ بات بتائی کہ خیبر میں حاصل ہونے والا مال غنیمت اہل حدیبیہ کے لئے مخصوص تھا خواہ انہوں نے غزوہ خیبر میں حصہ لیا تھا یا نہیں لیا تھا۔ اس مال غنیمت میں ان کے سوا کسی اور کا حصہ نہیں رکھا گیا تھا اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے اہل حدیبیہ سے اس مال غنیمت کا وعدہ فرمایا تھا چنانچہ ارشاد ہے واخری لم تقدرواعلیھا قداحاط اللہ بھا۔ اور ایک اور فتح بھی ہے جو ابھی تمہارے قابو میں نہیں آئی ہے اللہ اسے احاطہ قدرت میں لئے ہونے ہے) اس سے پہلے ارشاد ہوا وعدکم اللہ مغانم کیثرۃ تاخذونھا فعجل لکم۔ اللہ نے تم سے اور بھی بہت سی غنیمتوں کا وعدہ کر رکھا ہے کہ تم انہیں لوگے سو ان میں سے یہ فتح تمہیں سردست دے دی ہے۔ ابوبردہ نے حضرت ابوموسی (رض) سے روایت کی ہے کہ وہ فرماتے ہیں ہم فتح خیبر کے تین دن بعد حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس پہنچے آپ نے ہمیں مال غنیمت میں سے حصہ دیا اور ہمارے سوا کسی اور جو اس غزوہ میں شریک نہیں ہوا تھا کوئی حصہ نہیں د یا “۔ اس روایت میں یہ ذکر ہوا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حضرت ابوموسی (رض) اور ان کے رفقاء کو مال غنیمت میں حصہ دیا حالانکہ یہ حضرات فتح خیبر میں شریک نہیں تھے۔ ان کے سوا کسی اور کوئی حصہ نہیں دیا جو اس معرکہ میں شریک نہیں تھا۔ اس میں یہ احتمال ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان حضرات کو اس بنا پر حصہ دیا تھا کہ یہ لوگ اہل حدیبیہ میں سے تھے اور یہ بھی احتمال ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں اسی بنا پر حصہ دیا تھا کہ اس غنیمت کے مستحقین نے خوشدلی سے اس کی اجازت دے دی تھی جس طرح خثیم بن عراک نے اپنے والد سے اور انہوں نے اپنے قبیلے کے کچھ لوگوں سے روایت کی ہے کہ حضرت ابوہریرہ (رض) اپنے رفقا سمیت مدینہ پہنچے اس وقت حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ سے جا چکے تھے یہ حضرات بھی مدینہ سے روانہ ہو کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس اس وقت پہنچے جب خیبر فتح ہوچکا تھا ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان حضرات کے حصوں کے بارے میں مجاہدین سے گفتگو کرنے کے بعد انہیں بھی مال غنیمت میں شریک کرلیا ان روایات میں اس بات پر کوئی دلالت نہیں ہے کہ اگر دارالحرب میں موجود اسلامی لشکر کا کوئی کمک پہنچ جائے تو اسے مال غنیمت میں شریک نہیں کیا جاتا۔ قیس بن مسلم نے طارق بن شہاب سے روایت کی ہے کہ اہل بصرہ نے نہاوند پر حملہ کیا۔ اہل کوفہ نے انکے لئے کمک بھیجی۔ اس وقت نہاوند فتح ہوچکا تھا۔ اہل بصرہ نے اہل کوفہ کو غنیمت کے مال میں شریک کرنا نہیں چاہا۔ اہل کوفہ کی کمک حضرت عمار (رض) کی سرکردگی میں گئی تھی بنو عطارد کے ایک شخص نے حضرت عمار (رض) سے گستاخانہ انداز میں کہا ” اوکن کٹے کیا ہمارے غنائم میں شریک ہونا چاہتے ہو ؟ آپ نے جواب میں فرمایا ہاں شریک ہونا چاہتے ہیں کیونکہ ہماری مدد سے تم نے یہ قیدی گرفتار کئے ہیں۔ پھر حضرت عمر (رض) کو اس کے متعلق لکھا گیا۔ حضرت عمر (رض) نے جواب میں تحریر فرمایا کہ مال غنیمت ان لوگوں کو ملے گا جو اس جنگ میں شریک ہوئے ہیں اس روایت میں بھی ہمارے قول کے خلاف دلالت موجود نہیں ہے۔ اس لئے کہ مسلمان نہاوند پر قابض ہوگئے تھے جس کی بنا پر یہ بایں معنی دارالاسلام بن گیا تھا کہ کافروں کے لئے وہاں کوئی پشت پناہ گروہ باقی نہیں رہا تھا۔ حضرت عمر (رض) نے یہ حکم اس لئے دیا تھا کہ حضرت عمار (رض) اور ان کے رفقاء اس وقت جا کر شامل ہوئے تھے جب نہاوند دارالاسلام بن چکا تھا تاہم عمار (رض) اور آپ کے رفقاء کا خیال یہ تھا کہ مال غنیمت میں شرکت ہونی چاہیے اور حضرت عمر (رض) کا خیال تھا کہ شرکت نہیں ہونی چاہیے اس لئے کہ یہ حضرات نہاوند فتح ہوجانے کے بعد شریک ہوئے تھے اور مال غنیمت بایں معنی دارالاسلام میں محفوظ کیا جا چکا تھا کہ اس وقت تک نہاوند کی سرزمین دارالاسلام بن چکی تھی۔- گھڑ سواروں کے حصے - قول باری ہے (واعلموا انماغنمتم من شئی فان للہ خمسہ) ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ ظاہر قول باری سوار اور پیادہ کے حصوں میں مساوات کا مقتضی ہے۔ اس میں تمام غانمین کو خطاب ہے اور یہ اسم ان سب کو شامل ہے۔ آپ نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے فان کن نساء فوق اثنتین فلھن ثلثا ماترک ۔ اگر عورتیں دو سے زائد ہوں تو انہیں ترکہ کادوتہائی ملے گا) ظاہر آیت سے یہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ اگر میت کی بیٹیاں دو سے زائد ہوں تو دوتہائی ترک کی مساوی طور پر مستحق ہوں گی یعنی دوتہائی ترکہ کو آپس میں مساوی طور پر تقسیم کرلیں گی۔ اسی طرح اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میرا یہ غلام ان لوگوں کے لئے ہے تو اسے اس مفہوم پر محمول کیا جائے گا کہ غلام مساوی طو ر پر ان لوگوں کا ہوگا۔ الایہ کہ ان لوگوں میں سے کسی کے حصے کی زیادتی بیان کردی گئی ہو اسی طرح قول باری غنمتم کا مقتضی یہ ہے کہ سب غانمین مال غنیمت کے حصوں میں مساوی اور یکساں ہوں گے اس لئے کہ قول باری غنمتم اس مفہوم سے عبارت ہے کہ مال غنیمت پر اسی کی ملکیت ہوتی ہے تاہم گھڑ سوار کے حصے کے متعلق فقہاء میں اختلاف رائے ہے۔- پیادوں اور سواروں کے حصص میں اختلاف رائے - امام ابوحنیفہ کا قول ہے کہ سوار کو دو حصے اور پیادہ کوا یک حصہ ملے گا امام ابویوسف امام محمد ابن ابی لیلیٰ ، امام مالک، سفیان ثوری، لیث بن سعد، اوزاعی اور امام شافعی کا قول ہے کہ سوار کو تین حصے ملیں گے اور پیادہ کو ایک حصے ملے گا حضرت عمر (رض) کے گورنر المنذر بن ابی حمصہ سے امام ابوحنیفہ کے قول کی طرح روایت منقول ہے کہ انہوں نے سوار کو دو حصے اور پیادہ کو ایک حصہ دیا تھا اور حضرت عمر (رض) نے اس پر صاد کیا تھا حسن بصری سے بھی یہی قول منقول ہے شریک نے ابواسحاق سے راویت کی ہے کہ قثم بن العباس، سعید بن عثمان کے پاس خراساں پہنچے جبکہ انہیں مال غنیمت ہاتھ آچکا تھا۔ سعید بن عثمان نے ان سے کہا کہ ” میں تمہارا انعام یہ رکھتا ہوں کہ ما ل غنیمت میں سے ہزار حصے تمہیں دیتا ہوں “۔ قثم بن العباس نے یہ سن کر ان سے کہا کہ ایک حصہ میرا مقرر کرو اور ایک حصہ میرے گھوڑے کا۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ ہم نے سابقہ سطور میں بیان کردیا ہے کہ ظاہر آیت سوار اور پیادہ کے درمیان حصوں میں مساوات کی مقتضی ہے لیکن جب سب کا اس پر اتفاق ہوگیا کہ سوار کو ایک حصہ زائد ملے گا تو ہم نے اسے ایک حصہ زائد دیا اور اس اتفاق امت کی بنا پر ظاہر آیت کی تخصیص کردی اور آیت کے الفاظ کا حکم باقی ماندہ صورتوں کے لئے علی حالہ ثابت رہا۔ ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی۔ انہیں یعقوب بن غیلان العمانی نے انہیں محمد بن الصالح الجرجرائی نے انہیں عبداللہ بن رجا سفیان ثوری سے انہوں نے عبیداللہ بن عمر سے انہوں نے نافع سے اور انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سوار کے لئے دو حصے اور پیادہ کے لئے ایک حصہ مقرر فرمایا تھا۔ عبدالباقی نے کہا ہے کہ اس روایت کو ثوری سے محمد بن الصباح کے سوا کسی اور نے روایت نہیں کی۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ ہمیں عبدالباقی نے روایت بیان کی انہیں بشر بن موسیٰ نے انہیں الحمیدی نے انہیں ابواسامہ نے عبیداللہ سے انہوں نے نافع سے انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا للفارس ثلثۃ اسھم، سھم لہ و سلیمان لفرسہ۔ سوار کے لئے تین حصے ہیں ایک حصہ اس کے لئے دو حصے اس کے گھوڑے کے لئے) اس بارے میں عبیداللہ بن عمر کی روایتوں میں اختلاف پیدا ہوگیا ممکن ہے یہ دونوں روایتیں اس طرح درست ہوں کہ آپ نے پہلے تو سوار کو دو حصے دیے ہوں اور یہی اس کا حق ہو۔ پھر کسی اور مال غنیمت میں تین حصے دیئے ہوں۔ ایک زائد اسے بطور نفل عطا کیا ہو۔ یہ بات تو واضح ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی کو اس کا حق دینے میں رکاوٹ نہیں ڈالتے تھے اور ایسا بھی ہوتا تھا کہ ایک شخص کو بطور نفل اس کے حق سے زائد دے دیتے تھے جس طرح حضرت ابن عمر (رض) نے اس روایت میں ذکر کیا ہے جسے ہم نے پہلے بیان کردیا ہے کہ بقول حضرت ابن عمر (رض) ہمارے حصے میں بارہ بارہ اونٹ نظر آئے اور پھر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں ایک ایک اونٹ بطور نفل عطا کیا۔ ہمیں عبدالباقی بن قانع نے روایت بیان کی انہیں حسن بن الکیت الموصلی نے انہیں صبح بن دینار نے، انہیں غصیف بن سالم نے عبیداللہ بن عمر سے انہوں نے نافع سے اور انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے معرکہ بدر کے موقع پر سوار کو دو حصے اور پیادہ کو ایک حصہ عطا کیا تھا۔ یہ روایت اگر ثابت بھی ہوجائے تو بھی امام ابوحنیفہ کے لئے بطور حجت کام نہیں دے سکتی اس لئے کہ غزوہ بدر میں مال غنیمت کی تقسیم اس بنیاد پر نہیں ہوئی تھی کہ اس پر مجاہدین کا حق تھا اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے اس موقع پر انفال حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حوالے کرکے آپ کو یہ اختیار دے دیا تھا کہ جسے جتنا چاہیں دے دیں۔ اگر آپ اس موقع پر انفال میں سے کسی کو کچھ نہ دیتے پھر بھی آپ کا یہ اقدام درست ہوتا۔ اس وقت تک مال غنیمت پر جنگ میں شریک افراد کا استحقاق ثابت نہیں ہوا تھا۔ مال پر استحقاق کا وجوب اس کے بعد ہوا جب یہ آیت نازل ہوئی واعلموا انما غنمتم من شئی فان للہ خمسہ) اس کے ذریعے انفال کا وہ حکم منسوخ ہوگیا جس میں پورے مال غنیمت کو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سپرد کردیا گیا تھا۔ مجمع بن جاریہ نے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فتح خیبر کے موقع پر غنائم کی تقسیم اس طرح فرمائی تھی کہ سوار کو دو حصے عطا کئے تھے اور پیادہ کو ایک حصہ دیا تھا۔ ابن الفضیل نے حجاج سے انہوں نے ابوصالح سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فتح خیبر کے موقع پر غنائم کی تقسیم اس طرح کی کہ سوار کو تین حصے دیے اور پیادہ کو ایک حصہ عطا کیا۔ یہ روایت مجمع بن جاریہ کی روایت کے خلاف ہے ان دونوں روایتوں میں اس طرح تطبیق ہوسکتی ہے کہ آپ نے بعض سواروں کو دو حصے عطا کئے جو کہ ان کا حق تھا اور بعض کو تین حصے دیئے زائد حصہ بطور نفل عطا کیا۔ جس طرح حضرت سلمہ بن الاکوع سے مروی ہے کہ آپ نے انہیں غزوہ ذی قرد میں سوار اور پیادہ دونوں کے حصوں کے طور پر دو حصے عطا کئے تھے۔ حضرت سلمہ (رض) اس روز پیادہ تھے یا جس طرح مروی ہے کہ آپ نے اس دن حضرت زبیر (رض) کو چار حصے عطا کئے تھے۔ سفیان بن عینیہ نے ہشام بن عروہ سے روایت کی ہے انہوں نے یحییٰ بن عباد بن عبداللہ بن الزبیر (رض) سے کہ حضرت زبیر کے لئے مال غنیمت میں سے چار حصے رکھے جاتے تھے یہ زائد حصے دراصل بطور نفل ہوتے تھے اور اس کے ذریعے سواروں کو دشمنوں پر گھوڑے دوڑانے کے لئے برانگیختہ کیا جاتا تھا جس طرح آپ اسی مقصد کے تحت قاتل کو مقتول کا سلب دیے دیتے تھے اور اعلان فرما دیتے من اصاب شیئاً فھولہ۔ جو چیز کسی شخص کے ہاتھ آجائے گی وہ اس کی ہوگی) یہ اقدام دراصل جنگ پر برانگیختہ کرنے کی خاطر اٹھایا جاتا تھا۔ اگر یہ کہا جائے کہ جب سوار کے حصے کے متعلق مروی روایات میں اختلاف ہے تو اس صورت میں وہ روایت اولی ہوگی جس میں زائد حصے کی بات منقول ہے۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ یہ بات اس وقت ہوتی جب یہ چیز ثابت ہوجاتی کہ یہ زائد حصہ استحقاق کی بنیاد پر دیا گیا تھا۔ لیکن جب اس میں یہ احتمال پیدا ہوگیا ہے کہ شائد یہ زائد حصہ نفل کے طور پر دیا گیا تھا۔ تو اب زائد حصے کا اثبات استحقاق کی بنیاد پر نہیں ہوسکتا اس میں ایک اور پہلو بھی ہے جس روایت سے ہم استدلال کرتے ہیں اس میں پیادہ کے حصے کے اندر اضافہ ہے اس لئے کہ جب سوار کا حصہ کم ہوجائے گا تو اس کے نتیجے میں پیادہ کو ملنے والا حصہ بڑھ جائے گا ہماری اس بات پر نظر اور قیاس کی جہت سے بھی دلالت ہو رہی ہے۔ وہ یہ کہ جنگ میں گھوڑے کی حیثیت آلہ حرب کی طرح ہوتی ہے جس کی بنا پر قیاس کا تقاضا تھا کہ اسے کوئی حصہ نہ ملے جس طرح دیگر آلات جنگ کے لئے کوئی حصہ نہیں ہوتا لیکن ہم نے ایک حصے کے سلسلے میں قیاس کو ترک کردیا اور باقی کو قیاس پر محمول کیا اسی بنا پر اگر میدان جنگ میں صرف گھوڑا موجود ہو اور اس کا سوار غائب رہے تو اس گھوڑے کو کوئی حصہ نہیں ملے گا اور اگر ایک شخص گھوڑے کے بغیر جنگ میں موجود ہو تو وہ حصے کا مستحق ہوگا جب ایک شخص یعنی پیادہ کو ایک حصے سے زائد نہیں دیا جاتا تو گھوڑے کو بطریق اولی نہیں دیا۔ نیز حصے کے استحقاق میں پیادہ کا معاملہ گھوڑے کی بہ نسبت زیادہ موکد ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ جنگ میں خواہ جتنے بھی افراد شریک ہوں سب کے سب اپنے اپنے حصوں کے مستحق قرار پائیں گے لیکن اس کے برعکس اگر ایک شخص کئی گھوڑے لے کر میدان جنگ میں جائے گا تو صرف ایک ہی گھوڑے کا حصہ ملے گا جب ایک آدمی کا معاملہ گھوڑے سے بڑھ کر موکد ہوتا ہے لیکن اسے ایک حصے سے زائد نہیں دیا جاتا تو گھوڑے کو بطریق اولی ایک حصے سے زائد نہیں ملنا چاہیے۔- مختلف الاقسام جنگی گھوڑوں کے حصص میں اختلاف رائے - برذون یعنی ٹٹویا ترکی گھوڑے کے حصے کے متعلق فقہاء میں اختلاف رائے ہے ہمارے صحاب امام مالک، سفیان ثوری اور امام شافعی کا قول ہے کہ فرس اور برذون دونوں یکساں ہیں اوزاعی کا قول ہے کہ مسلمانوں کے ائمہ یعنی خلفاء برذون کو کوئی حصہ نہیں دیتے تھے یہاں تک کہ خلفیہ ولید بن یزید کے قتل کے بعد جب فتنہ و فساد پھیل گیا تو پھر برذون کو بھی حصہ ملنے لگا۔ لیث بن سعد کا قول ہے کہ ٹٹو اور دوغلی نسل کے گھوڑے دونوں کو صرف ایک حصہ ملے گا۔ یہ دونوں خالص عربی النسل گھوڑوں کے درجے کو نہیں پہنچ سکتے۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ قول باری ہے ومن رباط الخیل ترھبون بہ عدوا اللہ وعدوکم۔ اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے تاکہ اس کے ذریعے اللہ کے اور اپنے دشمنوں کو خوف زدہ کردو) نیز فرمایا فما اوجغتم علیہ من خیل ولارکاب۔ سو تم نے اس کے لئے نہ گھوڑے دوڑائے اور نہ اونٹ) نیز فرمایا والخیل والبغال والحمیر۔ اور گھوڑے، خچر اور گدھے) ان آیات سے خیل کے اسم سے ترکی نسل کے گھوڑوں یعنی براذین کا اسی طرح مفہوم حاصل ہوتا ہے جس طرح عربی النسل کے گھوڑوں کا جب خیل کا اسم دونوں کو شامل ہے تو پھر یہ واجب ہوگیا کہ حصوں کے اندر بھی ان دونوں کو یکساں سمجھا جائے اس پر یہ بات بھی دلالت کرتی ہے کہ برذون کا سوار بھی فارس کہلاتا ہے جس طرح عربی نسل کے گھوڑے کا سوار فارس کہلاتا ہے جب ان دونوں پر فارس کے اسم کا اطلاق ہوتا ہے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے للناس سھمان والراجل سھم) تو اس حکم کے عموم میں برذون یعنی ترکی نسل کے گھوڑے کا سوار بھی اسی طرح داخل ہوگا جس طرح عربی نسل کے گھوڑے کا سوار داخل ہے نیز اگر برذون گھوڑا ہے تو پھر یہ ضروری ہے کہ اس کے حصے اور عربی نسل کے گھوڑے کے حصے میں کوئی فرق نہ ہو اگر برذون گھوڑا نہیں ہے تو پھر یہ ضروری ہوگا کہ اسے کسی حصے کا مستحق قرار نہ دیا جائے۔ جب لیث بن سعد اور ان کے ہمنوا اس بات پر ہمارے ساتھ اتفاق کرتے ہیں کہ برذون کے لئے بھی حصہ نکالا جائے گا تو اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اسے گھوڑوں میں شمار کیا جاتا ہے نیز یہ کہ اس کے اور عربی گھوڑے کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ نیز فقہاء کا اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اس کا گوشت کھانے کے جواز اور عدم جواز کے مسئلے میں اس کی حیثیت عربی گھوڑے جیسی ہے گھوڑے کے گوشت کے جواز اور عدم جواز کے مسئلے میں فقہاء کے مابین اختلاف رائے ہے) یہ امر اس پر دلالت کرتا ہے کہ ان دونوں کی جنس ایک ہے اس لئے ان دونوں کے درمیان جو فرق ہے وہ اسی طرح کا ہے جو نر اور مادہ فربہ اور لاغر جانور کے درمیان یا عمدہ اور گھٹیا گھوڑے کے مابین ہوتا ہے۔ اس جہت سے ان دونوں کے درمیان فرق ان کے حصوں کے درمیان فرق کا موجب نہیں بن سکتا۔ نیز اگر عربی گھوڑا ترکی گھوڑے یعنی ٹٹو سے تیز رفتاری میں فائق ہوتا ہے تو ترکی گھوڑا اسلحہ وغیرہ کا بوجھ اٹھانے میں عربی گھوڑے سے برتر ہوتا ہے نیز جب حصوں کے لحاظ سے عربی اور عجمی سپاہیوں میں کوئی فرق نہیں ہوتا توعربی اور عجمی گھوڑوں کا بھی یہی حکم ہونا چاہیے۔ عبداللہ بن دینار کہتے ہیں میں نے سعدی بن المسیب سے براذین یعنی عجمی گھوڑوں کی زکواۃ کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے جواب میں فرمایا ” آیا گھوڑوں پر بھی کوئی زکوا ۃ ہوتی ہے ؟ حسن سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا ” میرا ذہن خیل یعنی گھوڑوں کی طرح ہوتے ہیں “ مکحول کا قول ہے کہ سب سے پہلے جس سپہ سالار نے براذین کو حصہ دیا وہ حضرت خالد بن الولید تھے انہوں نے دمشق کی جنگ میں براذین کو گھوڑوں کے حصے کا نصف دیا جب انہوں نے ان کی تیز رفتاری اور بوجھ ڈھونے کی قوت دیکھی تو یہ طریق کار اختیار کیا اور براذین کو بھی حصے دینے لگے لیکن یہ روایت مقطوع ہے اور اس میں یہ بھی مذکور ہے کہ حضرت خالد (رض) نے یہ قدم براذین کی طاقت و قوت کو دیکھنے کے بعد اپنی رائے اور اجتہاد سے اٹھایا تھا اس لئے یہ توقیف نہیں کہلا سکتی یعنی اسے کوئی شرعی دلیل قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ابراہیم بن محمد بن المنتشر نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ سواروں کا دستہ شام کے علاقے پر حملہ آور ہوا اس دستے کے سالار ہمدان کے ایک شخص تھے جس کا نام المنذر بن ابی حمصہ الوادعی تھا پہلے روز تو عربی گھوڑوں پر سوار دستے نے کامیابی حاصل کی اور مال غنیمت حاصل ہوا دوسرے روز ٹٹوں یعنی غیر عربی گھوڑوں پر سوار دستے نے مال غنیمت حاصل کیا سالارنے یہ فیصلہ دیا کہ ٹٹوئوں کو کوئی حصہ نہیں ملے گا گویا ان کے ذریعے کچھ حاصل نہیں ہوا اس کے متعلق حضرت عمر (رض) کو لکھا گیا آپ نے جواب میں تحریر فرمایا اس وادعی یعنی سالار کی ماں اسے گم کرے اس نے تو مجھے بھی بات یاد دلا دی ہے اس نے جو کہا ہے اس کے مطابق عمل کرو “۔ اس روایت سے ان حضرات نے استدلال کیا ہے جو براذین کو حصہ دینے کے قائل نہیں ہیں لیکن اس روایت میں اس بات پر کوئی دلالت نہیں ہے کہ یہ حضرت عمر (رض) کی رائے تھی۔ حضرت عمر (رض) نے اس کی اجازت صرف اس لئے دی تھی کہ اس میں اجتہاد کی گنجائش تھی نیز امیر لشکر یہ حکم دے بیٹھا تھا اس لئے آپ نے اس کے حکم کی توفیق فرما دی۔- ایک شخص کئی گھوڑے میدان جہاد میں لے جائے انکے حصے کیا ہوں گے ؟- ایک شخص اگر کئی گھوڑے لے کر میدان جہاد میں جاتا ہے تو اسے کس قدر حصہ دیا جائے گا اس بارے میں فقہاء کے مابین اختلاف رائے ہے۔ امام ابوحنیفہ امام محمد امام مالک اور امام شافعی کا قول ہے کہ اسے صرف ایک گھوڑے کا حصہ ملے گا امام ابویوسف سفیان ثوری اوزاعی اور لیث بن سعد کا قول ہے کہ اسے دو گھوڑوں کے حصے ملیں گے پہلے قول کی صحت پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ تاریخ میں اس امر سے سارے آگاہ ہیں کہ اسلام کے غلبے کے بعد حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سرکردگی میں اسلامی لشکر نے خیبر مکہ اور حنین کے معرکوں میں حصہ لیا۔ اسلامی لشکر ایسے گروہ ہوتے تھے جن کے افراد کے پاس ایک سے زائد گھوڑے ہوتے لیکن یہ بات کسی روایت میں مذکورہ نہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسے کسی سوار کو ایک گھوڑے کے حصے سے زائد دیا ہو۔ نیز گھوڑا ایک آلہ جنگ ہے اس لحاظ سے قیاس کا تقاضا تو یہ تھا کہ اسے بھی کوئی حصہ نہ دیا جائے جس طرح دیگر آلات حرب کو حصے نہیں دیئے جاتے لیکن جب سنت اور اتفاق امت کی جہت سے گھوڑے کے لئے بھی ایک حصے کا ثبوت مل گیا تو ہم نے اسے قیاس کے حکم سے مستثنیٰ کردیا اب اس پر اضافہ صرف کسی توقیف یعنی شرعی دلیل کے ذریعے ہی ثابت ہوسکتا ہے اس لئے کہ قیاس سے تو اس حکم کی ممانعت ہوتی ہے۔- خمس کی تقسیم کا بیان - قول باری ہے فان للہ خمسہ و للرسول ولذی القربی والیتامی والمساکین و ابن سبیل۔ اس کا پانچواں حصہ اللہ ، رسول، رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کے لئے ہے) خمس کی تقسیم کے سلسلے میں سلف کے مابین بنیادی طور پر اختلاف رائے رہا ہے۔ معاویہ بن صالح نے علی بن ابی طلحہ سے روایت کی ہے اور انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے کہ مال غنیمت کے پانچ حصے ہوتے تھے چار حصے ان لوگوں کو مل اجتے تھے جو جنگ میں ہوتے اور پانچویں حصے کے چار حصے کر کے چوتھائی حصہ اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قرابت داروں کے لئے مخصوص کردیا جاتا اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نام کا جو حصہ ہوتا وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قرابت داروں کو مل جاتا۔ آپ خمس میں سے کوئی چیز نہ لیتے۔ دوسری چوتھائی یتیموں کے لئے مخصوص ہوتی۔ تیسری چوتھائی مسکینوں اور چوتھی مسافروں کے لئے مخصوص ہوتی۔ ابن السبیل سے مراد وہ مسافر ہوتا جو مہمان بن کر مسلمانوں کے پاس آکر ٹھہر جاتا قتادہ نے عکرمہ سے بھی اسی طرح کی روایت کی ہے۔ قول باری فان للہ خمسہ) کی تفسیر میں قتادہ کا قول ہے کہ خمس کے پانچ حصے کئے جائیں گے اللہ اور اس کے رسول کا ایک حصہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قرابت داروں کا ایک حصہ اور یتیموں مسکینوں اور مسافروں کا ایک ایک حصہ ہوگا۔ خطا اور شعبی کا قول ہے کہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے خمس میں سے ایک ہی حصہ ہوگا۔ شعبی کا قول ہے آیت میں اللہ کا ذکر صرف آغاز کلام کے طور پر ہوا ہے ۔ سفیان نے قیس بن مسلم سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں میں نے حسن بن محمد بن الحنفیہ سے قول باری فان للہ خمسہ) کی تفسیر پوچھی تو انہوں نے جواب میں فرمایا ” دنیا اور آخرت میں اللہ کے لئے کوئی حصہ نہیں ہے آیت میں اس کا ذکر صرف آغاز کلام کے طور پر ہوا ہے یحییٰ بن الجزار نے درج بالا قول باری کی تفسیر میں کہا ہے کہ اللہ کے لئے تو ہر چیز ہے دراصل حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے خمس کا پانچواں حصہ ہے۔ ابوجعفر الرازی نے ربیع بن انس سے اور انہوں نے ابوالعالیہ سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس مال غنیمت یعنی خمس لایا جاتا آپ اپنا دست مبارک اس پر مارتے، اس کی گرفت میں جو چیز آجاتی وہ کعبۃ اللہ کے لئے مخصوص ہوجاتی یہ بیت کا حصہ کہلاتی۔ پھر باقی ماندہ خمس کے پانچ حصے کئے جاتے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک حصہ ملتا آپ کے قرابت داروں کو ایک حصہ دیا جاتا اور یتیموں مسکینوں اور مسافروں کے لئے ایک ایک حصہ مخصوص کردیا جاتا جو حصہ کعبہ کے لئے مخصوص ہو وہ اللہ کا حصہ کہلاتا “۔ ابویوسف نے اشعث بن سوار سے انہوں نے ابن الزبیر سے اور انہوں نے حضرت جابر (رض) سے روایت کی ہے کہ خمس کو اللہ کے راستے میں اور لوگوں کی ضرورتوں میں صرف کیا جاتا تھا جب مال غنیمت کی کثرت ہوگئی جس کے نتیجے میں خمس بھی اچھا خاصا نکلنے لگا تو اسے دوسرے مصارف میں خرچ کیا جانے لگا۔ امام ابویوسف نے الکلبی سے انہوں نے ابوصالح سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں خمس کے پانچ حصے کئے جاتے تھے۔ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے ایک حصہ ہوتا۔ آپ کے رشتہ داروں کے لئے ایک حصہ ہوتا اور یتیموں مسکینوں نیز مسافروں کیلئے ایک ایک حصہ ہوتا پھر حضرت ابوبکر (رض) ، حضرت عمر (رض) حضرت عثمان (رض) اور حضرت علی (رض) اپنے اپنے زمانہ خلافت میں خمس کے تین حصے کرتے ایک حصہ یتیموں کا ہوتا دوسرا مسکینوں کا اور تیسرا مسافروں کا۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ خمس کی تقسیم میں سلف کے مابین اختلاف رائے کی درج بالا صورتیں تھیں۔ حضرت ابن عباس (رض) کا بردایت علی ابن ابی طلحہ یہ قول ہے کہ اس کے چار حصے کئے جاتے تھے اللہ اللہ کے رسول اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رشتہ داروں کے لئے ایک حصہ ہوتا اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خمس میں سے کچھ نہ لیتے تھے۔ دوسرے حضرات کا قول ہے کہ فان للہ خمسہ) میں اللہ کے حصے کا ذکر محض آغاز کلام کے طور پر کیا گیا ہے اور خمس کو پانچ حصوں پر تقیسم کیا جائے عطا شعبی اور قتادہ کا یہی قول ہے جبکہ ابوالعالیہ کا قول ہے کہ خمس کے چھ حصے ہوتے تھے اللہ اک ایک حصہ اللہ کے رسول کا ایک حصہ رشتہ داروں کا ایک حصہ اور یتیموں مسکینوں اور مسافروں کے لئے ایک ایک حصہ ہوتا اللہ کا حصہ کعبۃ اللہ کے لئے مخصوص کردیا جاتا۔ الکلبی کی روایت کے بموجب حضرت ابن عباس (رض) کا قول ہے کہ چاروں خلفائے راشدین نے خمس کے تین حصے کئے تھے جبکہ حضرت جابر بن عبداللہ (رض) کا قول ہے کہ خمس کو اللہ کے راستے میں خرچ کیا جاتا تھا لوگوں کی پیش آمدہ اجتماعی قسم کی ضروریات پوری کی جاتی تھیں اور بعد میں جب خمس کی آمدنی میں بہت اضایہ ہوگیا تو دوسری مدوں میں بھی اسے صرف کیا جانے لگا محمد بن مسلمہ، جو اہل مدینہ کے متاخرین میں سے تھے فرماتے ہیں کہ خمس کے معاملے کو اللہ تعالیٰ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صوابدید پر چھوڑ دیا تھا جس طرح تقسیم غنائم کی آیت کے نزول سے قبل انفال کا معاملہ بھی آپ کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا تھا۔ آیت کے نزول کے بعد مال غنیمت کے چار حصوں کے بارے میں انفال کا حکم منسوخ ہوگیا لیکن باقی ماندہ پانچویں حصے کا معاملہ حسب سابق حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صوابدید پر رہنے دیا گیا جس طرح یہ قول باری ہے ماافاء اللہ علی رسولہ من اھل القری فللہ وللرسول ولذی القربی والیتامی والمساکین وابن السبیل کی لایکون دولۃ بین الاغنیاء منکم۔ جو کچھ اللہ اپنے رسول کو دوسری بستیوں والوں سے بطور فی دلوائے سو وہ اللہ ہی کا حق ہے اور رسول کا اور رسول کے قرابت داروں کا اور یتیموں کا اور مسکینوں کا اور مسافروں کا تاکہ وہ مال فے تمہارے تونکروں کے قبضے میں نہ آجائے۔ پھر فرمایا وما اتاکم الرسول فخذوہ۔ اور جو کچھ تمہیں اللہ کے رسول دیں اسے لے لو) اس آیت کے آخر میں بیان فرما دیا کہ اس معاملہ کو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا ہے اسی طرح خمس کے متعلق ارشاد ہوا کہ للہ وللرسول یعنی اس کی تقسیم کو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا کہ آپ جن مصارف میں اسے مناسب سمجھیں خرچ کریں اس پر وہ روایت دلالت کرتی ہے جسے عبدالواحد بن زیاد نے حجاج بن ارطاۃ سے نقل کیا ہے انہیں ابوالزبیر نے حضرت جابر (رض) سے کہ جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خمس کو کن مصارف میں خرچ کرتے تھے تو فرمایا حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے ذریعے اللہ کے راستے میں ایک شخص کا سازو سامان تیار کرتے پھر ایک شخص کا پھرا یک شخص کا حضرت جابرری اللہ عنہ کے اس قول کا مفہوم یہ ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خمس میں سے مستحقین کو دیا کرتے تھے اور خمس کے پانچ حصے نہیں کیا کرتے تھے۔- خمس میں سے خانہ کعبہ کا حصہ - جو حضرات یہ کہتے ہیں کہ اصل میں خمس کے چھ حصے کئے جاتے تھے اور اللہ کے حصے کو خانہ کعبہ پر خرچ کیا جاتا تھا ان کا یہ کہنا ایک بےمعنی سی بات ہے اس لئے کہ اگر یہ بات ہوتی تو تواتر کے ساتھ اس کی روایت ہوتی اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد خلفائے راشدین اس پر سب سے بڑھ چڑھ کر عمل کرتے جب حضرات خلفائے راشدین سے یہ بات ثابت نہیں ہے تو اس سے یہ معلوم ہوگیا کہ سرے سے اس بات کا ثبوت ہی نہیں ہے نیز کعبہ کا حصہ آیت میں مذکورہ دوسرے تمام حصوں سے بڑھ کر اللہ کی طرف نسبت کا مستحق نہیں ہے کیونکہ مذکورہ تمام حصے بھی تقرب الٰہی کے مصارف میں خرچ کئے جاتے ہیں۔ یہ امر اس پر دلالت کرتا ہے کہ قول باری فان للہ خمسہ) کعبہ کے حصے کے ساتھ مخصوص نہیں ہے جب یہ بات غلط ہوگئی تو اب مذکورہ بالا آیت سے دو باتوں میں سے ایک مراد ہے یا تو یہ آغاز کلام کے طور پر مذکور ہوا ہے جیسا کہ ہم نے سلف کی ایک جماعت سے یہ بات نقل کی ہے اس طرح آغاز کر کے دراصل ہمیں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ اللہ کا نام لے کر برکت حاصل کریں اور تمام کاموں کا آغاز اس کے نام سے کریں یا اس سے مراد یہ ہے کہ خمس کی تقرب الٰہی کے مصارف میں صرف کیا جائے پھر اللہ تعالیٰ نے ان مصارف کی خود وضاحت فرما دی ارشاد ہوا للرسول ولذی القربی والیتامی والمساکین وابن السبیل) اس طرح ابتداء میں خمس کے حکم کو مجملا بیان فرمایا پھر اس اجمال کی آگے تفصیل یبان فرما دی۔ اگر کوئی یہ کہے کہ اگر آپ کی بیان کردہ وضاحت اللہ کی مراد ہوتی تو آپکے الفاظ اس طرح ہونے چاہئیں تھے فان للہ خمسہ وللرسول ولذی القربی “۔ یعنی پھر اللہ کے نام اور اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نام کے درمیان حرف وائونہ آتا۔ اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ایسا ہونا ضروری نہیں تھا۔ وجہ یہ ہے کہ ایسے دو اسموں کے مابین وائو داخل کر کے اور اس سے کوئی معنی مراد نہ لینا لغت کے لحاظ سے جائز ہے۔ جس طرح یہ قول باری ہے ولقد اتیناموسی وھرون الفرقان وضیاً ۔ ہم نے موسیٰ اور ہارون کو فرقان اور روشن کتاب عطا کی) نیز ضیاء دونوں کا مصداق ایک ہے۔ اسی طرح ارشاد ہے فلما اسلما وتلہ للجبین۔ جب دونوں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام) نے سرتسلیم خم کردیا اور اس ابراہیم (علیہ السلام) نے اسے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کو پیشانی کے بل پچھاڑ دیا اس کے معنی ہیں جب دونوں نے سر تسلیم خم کردیا تو ابراہیم (علیہ السلام) نے اسماعیل (علیہ السلام) کو پچھاڑ دیا اس لئے کہ قول باری فلما اسلما جواب کا مقتضی ہے اور جواب تلہ للجبین ہے اس لئے ان دونوں کے درمیان حرف وائو ملغیٰ ہے یعنی اس کے کوئی معنی نہیں ہیں جس طرح شاعر کا یہ شعر ہے۔ بلی شئی یوافق بعض شئی واحیانا وباطلہ کثیراً ۔ کیوں نہیں بعض دفعہ ایک چیز دوسری چیز کے موافق ہوتی ہے اگرچہ غلط باتوں کی بہت کثرت ہے۔ یہاں معنی کے اعتبار سے عبارت اس طرح ہے شئی یوافق بعض شیء حیانا اور حرف وائو کے کوئی معنی نہیں ہیں اسی طرح ایک اور شاعر کا شع رہے۔ فان رشیداً وابن مروان لم یکن…لیفعل حتی یصدرالامرمصدرا…بے شک رشید یعنی ابن مروان کوئی کام کرنے والا نہیں جب تک اس کام کا حکم صادر نہ ہوجائے یہاں رشید اور ابن مروان دونوں کا مصداق ایک شخص ہے یعنی مروان کا بیٹا رشید۔ ایک اور شاعر کا قول ہے : الی الملک القرم وابن الھمام… ولیث الکتیبۃ فی المزدحم…میں ایسے بادشاہ کی طرف جا رہا ہوں جو عظیم سردار اور ایک فیاض بہادر سردار کا بیٹا ہے۔ وہ میدان جنگ میں لڑنے والی فوج کا شیر ہے۔- یہاں الملک القوم اور ابن الھمام کا مصداق ایک شخص ہے اور حرف وائو ملغی ہے ان تمام مثالوں میں معنی کے اعتبار سے حرف وائو کا کلام میں آنا اور نہ آنا دونوں کی حیثیت یکساں ہے۔ اس سے ہماری بات ثابت ہوگئی کہ قول باری فان للہ خمسہ) میں دو باتوں میں سے ایک مراد ہے یہ بھی ممکن ہے کہ دونوں باتیں مراد لی جائیں اس لئے کہ آیت میں ان دونوں کا احتمال موجود ہے۔ اس بنا پر آیت اس مفہوم پر مشتمل ہوگی کہ ہمیں تمام کاموں کو اللہ کے نام سے شروع کرنے کی تعلیم دی گئی ہے اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ خمس کو اللہ کے تقرب اور رضا جوئی کی راہوں میں خرچ کرنا چاہیے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خمس میں سے ایک حصہ ملتا، وہ چیز بھی آپ کی ہوجاتی جسے آپ پسند کرلیتے اور جنگ میں شریک ایک سپاہی کی حیثیت سے مال غنیمت میں سے بھی ایک حصہ مل جاتا۔ ابوحمزہ نے حضرت ابن عباس (رض) اور انہوں نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے کہ آپ نے عبدالقیس کے وفد سے فرمایا تھا امرکم باریع شھادۃ ان لا الہ الا اللہ، وتقیموا الصلوۃ وتعطواسھم اللہ من الغنائم والصفی، میں تمہیں چار باتوں کا حکم دیتا ہوں اس بات کی گواہی کا کہ اللہ کے سوا کوئی اور معبود نہیں نماز قائم کرنے کا غنائم میں سے اللہ کا حصہ نکالنے کا اور صفی ادا کرنے کا) مال غنیمت میں وہ حصہ یا چیز جسے سردار اپنے لئے مخصوص کرلے صفیٰ کے نام سے موسوم ہے۔- (آیت ہذا کی بقیہ تفسیر اگلی آیت کے ذیل میں ملاحظہ فرمائیں)
(٤١) اے مسلمانوں کی جماعت جو اموال غنیمت تمہارے ہاتھ آئے تو اس کے کل پانچ حصے ہیں اس میں ایک حصہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے لیے اور ایک حصہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قرابت داروں کے لیے اور ایک حصہ یتامی بن عبدالمطلب کے علاوہ دوسرے یتیموں کا ہے اور ایک حصہ مساکین بنی عبدالمطلب کے علاوہ دوسرے مسکینوں کا ہے اور ایک حصہ کمزور محتاج مسافروں کا ہے، جتنا بھی ہو، رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور میں مال غنیمت کے پانچویں حصے پانچ حصوں پر تقسیم کیے جاتے تھے۔- اول : رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اور وہی اللہ تعالیٰ کا حصہ ہے۔- دوم : قرابت داروں کا کیوں کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے قرابت داروں کو پرانی نصرت کی وجہ سے حصہ دیا کرتے تھے۔- سوم : یتیموں کا حصہ۔- چہارم : مسکینوں کا حصہ۔- پنجم : مسافروں کا حصہ۔- آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے انتقال کے بعد آپ کا حصہ اور وہ حصہ جو آپ قرابت داروں کو دیا کرتے تھے حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے فرمان پر ساقط ہوگیا، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے، آپ فرما رہے تھے کہ ایک نبی کو اپنی زندگی میں کھانے کھلانے کا حق ہوتا ہے، جب وہ وفات فرماجائے تو وہ حق ساقط ہوجاتا ہے اور اس نبی کے بعد پھر کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہوتا، اور حضرت ابوبکر صدیق (رض) ، حضرت عمر فاروق (رض) ، حضرت عثمان غنی (رض) حضرت علی مرتضی (رض) اپنے اپنے دور حکومت میں مال غنیمت کے پانچوں حصوں کو تین حصوں پر تقسیم فرمایا کرتے تھے۔- اول : یتیموں کا حصہ۔- دوم : مسکینوں کا حصہ۔- سوم : مسافروں کا حصہ۔- اگر تم لوگ اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہو اور اس چیز پر جو کہ ہم نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اتاری۔ یا یہ کہ یوم الفرقان کا مطلب حق اور باطل کے درمیان فرق کا دن ہے اور غزوہ بدر کا دن ہے کہ جس دن اللہ تعالیٰ نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ کرام (رض) کے لیے غنیمت اور مدد کا فیصلہ فرمایا۔- اور ابوجہل اور اس کے ساتھیوں کے حق میں قتل اور شکست کھانے کا تصفیہ کیا جس دن دونوں جماعتیں یعنی رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جماعت اور ابوسفیان کی جماعت باہم مدمقابل آئیں۔- اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ کرام (رض) کی مدد فرمانے اور مال غنیمت دینے اور ابوجہل اور اس کی جماعت کو مارنے اور شکست دینے پر اللہ تعالیٰ کو پورے اختیارات ہیں۔
آیت ٤١ (وَاعْلَمُوْٓا اَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَیْءٍ فَاَنَّ لِلّٰہِ خُمُسَہٗ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِی الْقُرْبٰی) - اس آیت میں مال غنیمت کا حکم بیان ہو رہا ہے۔ واضح رہے کہ بعثت کے بعد سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذریعہ معاش کوئی نہیں تھا۔ شادی کے بعد حضرت خدیجہ (رض) نے اپنی ساری دولت ہر قسم کے تصرف کے لیے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو پیش کردی تھی۔ جب تک آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ میں رہے ‘ کسی نہ کسی طرح اسی سرمائے سے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذاتی اخراجات چلتے رہے ‘ لیکن ہجرت کے بعد اس سلسلے میں کوئی مستقل انتظام نہیں تھا۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قرابت دار اور اہل و عیال بھی تھے جن کی کفالت آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذمہ تھی۔ ان سب اخراجات کے لیے ضروری تھا کہ کوئی معقول اور مستقل انتظام کردیا جائے۔ چناچہ غنائم میں سے پانچواں حصہ مستقل طور پر بیت المال کو دے دیا گیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذاتی اخراجات ‘ ازواج مطہرات (رض) کا نان نفقہ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قرابت داروں کی کفالت بیت المال کے ذمہ طے پائی ۔- (وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنِ وَابْنِ السَّبِیْلِلا) - اسی پانچویں حصے میں سے معاشرے کے محروم افراد کی مدد بھی کی جائے گی۔- (اِنْ کُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ باللّٰہِ وَمَآ اَنْزَلْنَا عَلٰی عَبْدِنَا یَوْمَ الْفُرْقَانِ یَوْمَ الْتَقَی الْجَمْعٰنِ ط) (وَاللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ ) - فیصلے (غزوۂ بدر) کے دن جو شے خصوصی طور پر نازل کی گئی وہ غیبی امداد اور نصرت الٰہی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا تھا کہ تمہاری مدد کے لیے فرشتے آئیں گے۔ وہ فرشتے اگرچہ کسی کو نظر تو نہیں آتے تھے ‘ لیکن جیسے تم لوگ بہت سی دوسری چیزوں پر ایمان بالغیب رکھتے ہو ‘ اللہ پر اور اس کی وحی پر ایمان رکھتے ہو ‘ جبرائیل ( علیہ السلام) کے وحی لانے پر ایمان رکھتے ہو اور اس قرآن کے منزل من اللہ ہونے پر ایمان رکھتے ہو ‘ اسی طرح تمہارا یہ ایمان بھی ہونا چاہیے کہ اللہ نے اپنا وعدہ پورا کردیا جو اس نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں کی مدد کے سلسلے میں کیا تھا اور یہ کہ تمہاری یہ فتح اللہ کی مدد سے ہی ممکن ہوئی ہے۔ اگر تم لوگوں کا اس حقیقت پر یقین کامل ہے تو پھر اللہ کا یہ فیصلہ بھی دل کی آمادگی اور خوشی سے قبول کرلو کہ مال غنیمت میں سے پانچواں حصہ اللہ ‘ اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور بیت المال کا ہوگا۔- اس حکم کے نازل ہونے کے بعد تمام مال غنیمت ایک جگہ جمع کیا گیا اور اس میں سے پانچواں حصہ بیت المال کے لیے نکال کر باقی چار حصے مجاہدین میں تقسیم کردیے گئے۔ اس میں سے ہر اس شخص کو برابر کا حصہ ملا جو لشکر میں جنگ کے لیے شامل تھا ‘ قطع نظر اس کے کہ کسی نے عملی طور پر قتال کیا تھا یا نہیں کیا تھا اور قطع نظر اس کے کہ کسی نے بہت سا مال غنیمت جمع کیا تھا یا کسی نے کچھ بھی جمع نہیں کیا تھا۔ البتہ اس تقسیم میں سوار کے دو حصے رکھے گئے اور پیدل کے لیے ایک حصہ۔ اس لیے کہ سواریوں کے جانور مہیّا کرنے اور ان جانوروں پر اٹھنے والے اخراجات متعلقہ افراد ذاتی طور پر برداشت کرتے تھے۔
سورة الْاَنْفَال حاشیہ نمبر :32 یہاں اس مال غنیمت کی تقسیم کا قانون بتایا ہے جس کے متعلق تقریر کی ابتدا میں کہا گیا تھا کہ یہ اللہ کا انعام ہے جس کے بارے میں فیصلہ کرنے کا اختیار اللہ اور اس کے رسول ہی کو حاصل ہے ۔ اب وہ فیصلہ بیان کر دیا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ لڑائی کے بعد تمام سپاہی ہر طرح کا مال غنیمت لا کر امیر یا امام کے سامنے رکھ دیں اور کوئی چیز چھپا کر نہ رکھیں ۔ پھر اس مال میں سے پانچواں حصہ ان اغراض کے لیے نکال لیا جائے جو آیت میں بیان ہوئی ہیں ، اور باقی چار حصے ان سب لوگوں میں تقسیم کر دیے جائیں جنہوں نے جنگ میں حصہ لیا ہو ۔ چنانچہ اس آیت کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ لڑائی کے بعد اعلان فرمایا کرتے تھے کہ ان ھٰذہ غنائمکم و انہ لیس لے فیھا الا نصیبی معکم الخمس ولاخمس مردود علیکم فادوا الخیط المخیط و اکبر من ذٰلک و اصغر ولا تغلوا جان الغلول عار و نار ۔ ”یہ غنائم تمہارے ہی لیے ہیں ، میری اپنی ذات کا ان میں کوئی حصہ نہیں ہے بجز خمس کے اور وہ خمس بھی تمہارے ہی اجتماعی مصالح پر صرف کر دیا جاتا ہے ۔ “ لہٰذا ایک ایک سوئی اور ایک ایک تاگا تک لا کر رکھ دو ، کوئی چھوٹی یا بڑی چیز چھپا کر نہ رکھو کہ ایسا کرنا شرمناک ہے اور اس کا نتیجہ دوزخ ہے ۔ اس تقسیم میں اللہ اور رسول کا حصہ ایک ہی ہے اور اس سے مقصود یہ ہے کہ خمس کا ایک جزء اعلاء کلمۃ اللہ اور اقامت دین حق کے کام میں صرف کیا جائے رشتہ داروں سے مراد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں تو حضور ہی کے رشتہ دار تھے کیونکہ جب آپ اپنا سارا وقت دین کے کام میں صرف فرماتے تھے اور اپنی معاش کے لیے کوئی کام کرنا آپ کے لیے ممکن نہ رہا تھا تو لامحالہ اس کا انتظام ہونا چاہیے تھا کہ آپ کی اور آپ کے اہل و عیال اور ان دوسرے اقربا کی ، جن کی کفالت آپ کے ذمہ تھی ، ضروریات پوری ہوں اس لیے خمس میں آپ کے اقربا کا حصہ رکھا گیا ۔ لیکن اس امر میں اختلاف ہے کہ حضور کی وفات کے بعد ذوی القربیٰ کا یہ حصہ کس کو پہنچتا ہے ۔ ایک گروہ کی رائے یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد یہ حصہ منسوخ ہوگیا ۔ دوسرے گروہ کی رائے ہے کہ حضور کے بعد یہ حصہ اس شخص کے اقربا کو پہنچے گا جو حضور کی جگہ خلافت کی خدمت انجام دے ۔ تیسرے گروہ کے نزدیک یہ حصہ خاندان نبوت کے فقراء میں تقسیم کیا جاتا رہے گا ۔ جہاں تک میں تحقیق کر سکا ہوں خلفاء راشدین کے زمانہ میں اسی تیسری رائے پر عمل ہوتا تھا ۔ سورة الْاَنْفَال حاشیہ نمبر :33 یعنی وہ تائید وہ نصرت جس کی بدولت تمہیں فتح حاصل ہوئی ۔
26:: دُشمن کا جو مال جہاد کے دوران مجاہدین کے ہاتھ آیا ہو، وہ مالِ غنیمت کہلاتا ہے۔ اس آیت میں اس کی تقسیم کا اصول بیان فرمایا گیا ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جتنا مال اس طرح حاصل ہو، اُس کے پانچ حصے کئے جائیں گے۔ ان میں سے چار حصے تو مجاہدین کے درمیان تقسیم ہوں گے، اور پانچواں حصہ بیت المال میں داخل کیا جائے گا۔ پھر بیت المال کے اس پانچویں حصہ (خمس) کو کس طرح خرچ کیا جائے گا؟ اس کی تفصیل کرتے ہوئے اس آیت نے اوّل تو یہ بتلایا ہے کہ یہ مال اصل میں اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہے، اور اسی کے حکم کے تحت تقسیم ہوگا، اس کے بعد اس کے پانچ مصارف بیان فرمائے گئے ہیں۔ ایک حصہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے ،دوسرا حصہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قریبی رشتہ داروں کا ہے، کیونکہ انہوں نے آپ کی اور اِسلام کی نصرت میں بڑی قربانیاں دی تھیں، اور اُن کے لئے زکوٰۃ کا مال بھی حرام قرار ددے دیا گیا تھا۔ اور باقی تین حصے یتیموں، مسکینوں اور مسافروں میں خرچ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جو حصہ تھا، وہ جمہور فقہاء کے نزدیک آپ کی وفات کے بعد ختم ہوگیا۔ آپ کے رشتہ داروں کے حصے کے بارے میں فقہاء کے درمیان کچھ اختلاف ہے۔ اِمام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک یہ حصہ اب بھی باقی ہے، اور بنو ہاشم اور بنو المطلب کو بطورِ اِستحقاق دینا ضروری ہے، چاہے وہ حاجت مند ہوں یا مال دار۔ لیکن دوسرے تمام فقہاء اہلِ سنت یہ فرماتے ہیں کہ اگر وہ حاجت مند ہوں تب تو انہیں دوسرے حاجت مندوں پر ترجیح دے کر اس خمس میں سے دیا جائے گا، اور اگر وہ حاجت مند نہ ہوں توان کا کوئی مستقل حصہ نہیں ہوگا۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے ایک مرتبہ حضرت علی رضی اﷲ عنہ کو خمس میں سے حصہ دیا تو حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے یہ فرماکر لینے سے انکار کردیا کہ اس سال ہمارے خاندان کو ضرورت نہیں ہے۔ (ابو داد، حدیث نمبر : ۴۸۹۲) چنانچہ حضرت علیؓ سمیت چاروں خلفائے راشدین کا عمل یہی رہا کہ بنو ہاشم اور بنو المطلب کے حضرات اگر حاجت مند ہوتے تو ان کو خمس میں سے حصہ دینے میں دوسروں پر مقدم رکھتے تھے، اور اگر حاجت مند نہ ہوتے تو نہیں دیتے تھے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اکثر فقہاء اور مفسرین کے نزدیک اس آیت میں جو پانچ مصارف بیان کئے گئے ہیں، ان کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان سب کو ضرور دیا جائے، اور سب کو برابر دیا جائے، بلکہ مصرف زکوٰۃ کے آٹھ مصارف کی طرح ہے ( جن کا ذکر سورۂ توبہ : ۹۔ ۰۶ میں آنے والا ہے) کہ اِمام یعنی سربراہِ حکومت کو اِختیار ہے کہ وہ ضرورت کے مطابق ان مصارف میں سے جس مصرف میں جتنا مناسب سمجھے تقسیم کرے۔ اس مسئلے کی مکمل تحقیق بندہ نے اپنی صحیح مسلم کی شرح فتح الملہم (ج : ۳ ص ۴۵۲ تا ۸۵۲) میں بیان کی ہے۔ 27: اس سے مراد جنگِ بدر کا دن ہے، اس کو آیت میں ’’یوم الفرقان‘‘ فرمایا گیا ہے، یعنی وہ دن جس میں حق وباطل کے درمیان فیصلہ ہوگیا کے تین سوتیرہ بے سروسامان لوگ ایک ہزار مسلح فوج پر معجزانہ طور سے غالب آگئے۔ اور جو چیز اُس دن نازل کی تھی اُس سے مراد فرشتوں کی مدد اور قرآنِ کریم کی وہ آیات ہیں جو اُس دن مسلمانوں کی تسلی کے لئے نازل کی گئیں۔