Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

اللہ ظالم نہیں لوگ خود اپنے اوپر ظلم کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کے عدل و انصاف کا بیان ہو رہا ہے کہ وہ اپنی دی ہوئی نعمتیں گناہوں سے پہلے نہیں چھینتا ۔ جیسے ایک اور آیت میں ہے اللہ تعالیٰ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک کہ وہ اپنی ان باتوں کو نہ بدل دیں جو ان کے دلوں میں ہیں ۔ جب وہ کسی قوم کی باتوں کی وجہ سے انہیں برائی پہنچانا چاہتا ہے تو اس کے ارادے کوئی بدل نہیں سکتا ۔ نہ اس کے پاس کوئی حمایتی کھڑا ہو سکتا ہے ۔ تم دیکھ لو کہ فرعونیوں اور ان جیسے ان سے گذشتہ لوگوں کے ساتھ بھی یہی ہوا ۔ انہیں اللہ نے اپنی نعمتیں دیں وہ سیاہ کاریوں میں مبتلا ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے دیئے ہوئے باغات چشمے کھیتیاں خزانے محلات اور نعمتیں جن میں وہ بد مست ہو رہے تھے سب چھین لیں ۔ اس بارے میں انہوں نے اپنا برا آپ کیا ۔ اللہ نے ان پر کوئی ظلم نہیں کیا تھا ۔

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

53۔ 1 اس کا مطلب یہ ہے کہ جب تک کوئی قوم کفران نعمت کا راستہ اختیار کرکے اور اللہ تعالیٰ کے احکام سے اعراض کر کے اپنے احوال و اخلاق کو نہیں بدل لیتی، اللہ تعالیٰ اس پر اپنی نعمتوں کا دروازہ بند نہیں فرماتا۔ دوسرے لفظوں میں اللہ تعالیٰ گناہوں کی وجہ سے اپنی نعمتیں سلب فرمالیتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے انعامات کا مستحق بننے کے لئے ضروری ہے کہ گناہوں سے اجتناب کیا جائے۔ گویا تبدیلی کا مطلب یہی ہے کہ قوم گناہوں کو چھوڑ کر اطاعت الٰہی کا راستہ اختیار کرے۔

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[٥٧] نیت کے فتور سے نعمت چھن جاتی ہے :۔ اس آیت کے الفاظ بڑے وسیع معنی رکھتے ہیں اور اس کے کئی مطلب ہوسکتے ہیں مثلاً ایک یہ کہ ما کو کسی قوم کی خوشحالی پر محمول کیا جائے۔ اس صورت میں اس کے وہی معنی ہیں جو ترجمہ میں کئے گئے ہیں۔ البتہ (مَا بِاَنْفُسِهِمْ 53؀ۙ ) 8 ۔ الانفال :53) کا معنی طرز عمل کے بجائے نیت کا فتور بھی ہوسکتا ہے۔ یعنی جب تک کوئی قوم اللہ تعالیٰ کی فرمانبردار بن کر رہے۔ اللہ تعالیٰ اس سے وہ نعمت نہیں چھینتا، پھر جب ان لوگوں کی نیتوں میں فتور آگیا یا بگاڑ پیدا ہوگیا۔ تو اللہ تعالیٰ کی نعمت بھی ان سے چھین لی جاتی ہے۔- اور اگر ما کو کسی قوم کی بدحالی اور مصائب پر محمول کیا جائے تو اس کا یہ مطلب ہوگا کہ جو قوم بدحالی اور مصائب کا شکار ہے۔ جب تک وہ خود اپنی اس پریشانی اور بدحالی کو بدلنے کی کوشش نہ کرے گی۔ اللہ بھی انہیں اسی حال میں رہنے دیتا ہے اور اس کی بدحالی کو دور نہیں کرتا جیسا کہ حالی نے کہا ہے - خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی۔۔ نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت بدلنے کا

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

حَتّٰي يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ : ” جو ان کے دلوں میں ہے “ یعنی اعتقاد اور نیت جب تک نہ بدلے اللہ کی بخشی ہوئی نعمت چھینی نہیں جاتی۔ (موضح) مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی قوم کو اپنی عطا کردہ نعمت سے اسی صورت میں محروم کرتا ہے جب وہ اپنے عقائد و اعمال اور اخلاق کو بدل کر اپنے متعلق ثابت کردیتی ہے کہ وہ اس نعمت کی مستحق ہرگز نہیں ہے، مثلاً ایمان کے بجائے کفر، شکر کے بجائے نا شکری اور نیکی کے بجائے گناہ کرنے لگتی ہے، اس وقت اللہ تعالیٰ بھی اس سے اپنی عطا کردہ نعمت واپس لے لیتا ہے اور اسے مختلف قسم کے عذابوں میں مبتلا کردیتا ہے۔ فرعون کی قوم اور اسی طرح قریش کو اللہ تعالیٰ نے بڑی شان و شوکت اور خوش حالی سے نوازا تھا، لیکن ان سے اپنی نعمتیں چھین لیں۔ اس زمانے میں مسلمان جو ساری دنیا میں ذلت، غلامی اور دوسروں کی حاشیہ برداری کی زندگی بسر کر رہے ہیں وہ بھی ان کی اپنی بد اعمالیوں کی سزا ہے، ورنہ ممکن ہی نہیں کہ ایک قوم کتاب اللہ اور سنت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان رکھتی ہو اور اس پر عامل ہو، پھر بھی دنیا میں ذلیل و خوار رہے۔ - وَاَنَّ اللّٰهَ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ : یعنی وہ سب کچھ سننے والا دیکھنے والا ہے، اس کے بندے جیسا طرز عمل اختیار کرتے ہیں ویسا ہی وہ انھیں بدلہ دیتا ہے۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

چوتھی آیت میں حق تعالیٰ نے اپنے انعام و عطا کے قائم اور باقی رکھنے کا ایک ضابطہ بیان فرمایا۔ ارشاد فرمایا (آیت) بِاَنَّ اللّٰهَ لَمْ يَكُ مُغَيِّرًا نِّعْمَةً اَنْعَمَهَا عَلٰي قَوْمٍ حَتّٰي يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ ۔ یعنی اللہ تعالیٰ جو نعمت کسی قوم کو عطا فرماتے ہیں اس کو اس وقت تک بدلتے نہیں جب تک یہ لوگ خود ہی اپنے حالات اور عمال کو نہ بدل دیں۔- یہاں پہلی بات قابل غور یہ ہے کہ حق تعالیٰ نے عطاء نعمت کے لئے کوئی ضابطہ نہیں بیان فرمایا، نہ اس کے لئے کوئی قید و شرط لگائی نہ اس کو کسی کے اچھے عمل پر موقوف رکھا، کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو سب سے پہلی نعمت جو خود ہمارا وجود ہے اور اس میں قدرت حق جل شانہ کی عجیب صنعت گری سے ہزاروں حیرت انگیز نعمتیں ودیعت رکھی گئی ہیں یہ نعمتیں ظاہر ہے کہ اس وقت عطا ہوئیں، جب کہ نہ ہم تھے نہ ہمارا کوئی عمل تھا - مانبو دیم و تقاضا ما نبود لطف تو ناگفتہ مامی شنود - اگر اللہ تعالیٰ کے انعامات و احسانات بندوں کے نیک اعمال کے منتظر رہا کرتے تو ہمارا وجود ہی قائم نہ ہوتا۔- حق تعالیٰ کی نعمت و رحمت تو اس کے رب العالمین اور رحمن و رحیم ہونے کے نتیجہ میں خود بخود ہے۔ ہاں اس نعمت و رحمت کے قائم اور باقی رہنے کا ایک ضابطہ اس آیت میں یہ بیان کیا گیا کہ جس قوم کو اللہ تعالیٰ کوئی نعمت دیتے ہیں اس سے اس وقت تک واپس نہیں لیتے جب تک وہ اپنے حالات اور اعمال کو بدل کر خود ہی اللہ کے عذاب کو دعوت نہ دے۔- حالات کے بدلنے سے مراد ہے کہ اچھے اعمال اور حالات کو بدل کر برے اعمال اور برے حالات اختیار کرلے یا یہ کہ اللہ کی نعمتیں مبذول ہونے کے وقت جن اعمال بد اور گناہوں میں مبتلا تھا نعمتوں کے ملنے کے بعد ان سے زیادہ برے اعمال میں مبتلا ہوجائے۔- اس تفصیل سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ جن قوموں کا ذکر پچھلی آیات میں آیا ہے یعنی کفار قریش اور آل فرعون ان کا تعلق اس آیت سے اس بنا پر ہے کہ یہ لوگ اگرچہ اللہ تعالیٰ کی نعمتیں ملنے کے وقت بھی کچھ اچھے حالات میں نہیں تھے سب کے سب مشرک اور کافر تھے۔ لیکن انعامات کے بعد یہ لوگ اپنی بدعملیوں اور شرارتوں میں پہلے سے زیادہ تیز ہوگئے۔- آل فرعون نے بنی اسرائیل پر طرح طرح کے مظالم کرنے شروع کردیئے، پھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے مقابلہ اور مخالفت پر آمادہ ہوگئے جو ان کے پچھلے جرائم میں ایک شدید اضافہ تھا جس کے ذریعہ انہوں نے اپنے حالات مزید برائی کی طرف بدل ڈالے تو اللہ تعالیٰ نے بھی اپنی نعمت کو نقمت اور عذاب سے بدل دیا۔ اسی طرح قریش مکہ اگرچہ مشرک اور بدعمل تھے لیکن اس کے ساتھ ان میں کچھ اچھے اعمال صلہ رحمی، مہمان نوازی، حجاج کی خدمت، بیت اللہ کی تعظیم وغیرہ بھی تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر دین و دنیا کی نعمتوں کے دروازے کھول دیئے۔ دنیا میں ان کی تجارتوں کو فروغ دیا۔ اور ایسے ملک میں جہاں کسی کا تجارتی قافلہ سلامتی سے نہ گزر سکتا تھا ان لوگوں کے تجارتی قافلے ملک شام و یمن میں جاتے اور کامیاب آتے تھے جس کا ذکر قرآن کریم نے سورة لایلف میں (آیت) رِحْلَةَ الشِّتَاۗءِ وَالصَّيْفِ کے عنوان سے کیا ہے۔- اور دین کے اعتبار سے وہ عظیم نعمت ان کو عطا ہوئی جو پچھلی کسی قوم کو نہیں ملی تھی کہ سید الانبیاء خاتم النبیین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان میں مبعوث ہوئے اللہ تعالیٰ کی آخری اور جامع کتاب قرآن ان میں بھیجی گئی۔- مگر ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے ان انعامات کی شکر گزاری اور قدر کرنے اور اس کے ذریعہ اپنے حالات کو درست کرنے کے بجائے پہلے سے بھی زیادہ گندے کردیئے کہ صلہ رحمی کو چھوڑ کر مسلمان ہوجانے والے بھائی بھتیجوں پر وحشیانہ مظالم کرنے لگے۔ مہمان نوازی کے بجائے ان مسلمانوں پر آب و دانہ بند کرنے کے عہدنامے لکھے گئے۔ حجاج کی خدمت کے بجائے مسلمانوں کو حرم میں داخل ہونے سے روکنے لگے۔ یہ وہ حالات تھے جن کو کفار قریش نے بدلا۔ اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمتوں کو نقمتوں اور عذاب کی صورت میں تبدیل کردیا کہ وہ دنیا میں بھی ذلیل و خوار ہوئے اور جو ذات رحمتہ للعلمین بن کر آئی تھی اسی کے ذریعہ انہوں نے اپنی موت و ہلاکت کو دعوت دے دی۔- اور تفسیر مظہری میں معتمد کتب تاریخ کے حوالہ سے لکھا ہے کہ کلاب بن مرہ جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نسب میں تیسرے دادا کے دادا ہیں یہ ابتداء سے دین ابراہیم و اسماعیل (علیہ السلام) کے پابند اور اس پر قائم تھے اور نسلاً بعد نسل اس دین کی قیادت و سیادت ان کے ہاتھ میں رہی۔ قصی بن کلاب کے زمانہ میں ان لوگوں میں بت پرستی کا آغاز ہوا۔ ان سے پہلے کعب بن لوی ان کے دینی قائد تھے جمعہ کے روز جس کو ان کی زبان میں عروبہ کہا جاتا تھا سب لوگوں کو جمع کرکے خطبہ دیا کرتے اور بتلایا کرتے تھے کہ ان کی اولاد میں خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پیدا ہوں گے۔ ان کا اتباع سب پر لازم ہوگا۔ جو ان پر ایمان نہ لائے گا اس کا کوئی عمل قابل قبول نہ ہوگا۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں ان کے عربی اشعار شعراء جاہلیت میں مشہور و معروف ہیں۔ اور قصی بن کلاب تمام حجاج کے لئے کھانے اور پانی کا اتنظام کرتے تھے۔ یہاں تک کہ یہ چیزیں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خاندان میں آپ کے عہد مبارک تک قائم رہیں۔ اس تاریخی تشریح سے یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ قریش کی تبدیلی حالات سے یہ مراد ہو کہ دین ابراہیمی کو چھوڑ کر بت پرستی اختیار کرلی۔- بہرحال مضمون آیت سے یہ معلوم ہوا کہ بعض اوقات حق تعالیٰ اپنی نعمت ایسے لوگوں کو بھی عطا فرماتے ہیں جو اپنے عمل سے اس کے مستحق نہیں ہوتے لیکن عطاء نعمت کے بعد اگر وہ اپنے اعمال کا رخ اصلاح و درستی کی طرف پھیرنے کے بجائے اعمال بد میں اور زیادتی کرنے لگیں تو پھر یہ نعمت ان سے چھین لی جاتی ہے اور وہ عذاب الہی کے مستحق ہوجاتے ہیں۔- آخر آیت میں فرمایا (آیت) وَاَنَّ اللّٰهَ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ، یعنی اللہ تعالیٰ ان کی ہر گفتگو کو سننے والے اور ان کے تمام اعمال و افعال کو جاننے والے ہیں اس میں کسی غلطی یا غلط فہمی کا امکان نہیں۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

ذٰلِكَ بِاَنَّ اللہَ لَمْ يَكُ مُغَيِّرًا نِّعْمَۃً اَنْعَمَہَا عَلٰي قَوْمٍ حَتّٰي يُغَيِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِہِمْ۝ ٠ ۙ وَاَنَّ اللہَ سَمِيْعٌ عَلِيْمٌ۝ ٥٣ ۙ- ( غیر) تَّغْيِيرُ- والتَّغْيِيرُ يقال علی وجهين :- أحدهما : لتغيير صورة الشیء دون ذاته . يقال : غَيَّرْتُ داري : إذا بنیتها بناء غير الذي كان .- والثاني : لتبدیله بغیره . نحو : غَيَّرْتُ غلامي ودابّتي : إذا أبدلتهما بغیرهما . نحو : إِنَّ اللَّهَ لا يُغَيِّرُ ما بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا ما بِأَنْفُسِهِمْ [ الرعد 11] .- والفرق بين غيرين ومختلفین أنّ الغیرین أعمّ ، فإنّ الغیرین قد يکونان متّفقین في الجواهر بخلاف المختلفین، فالجوهران المتحيّزان هما غيران ولیسا مختلفین، فكلّ خلافین غيران، ولیس کلّ غيرين خلافین .- اور تغییر کا لفظ بھی دوطرح استعمال ہوتا ہے ایک صرف کسی چیز کی صورت کو بدلنا جیسے غیرت داری یعنی میں نے اپنے گھر کی شکل و صورت بدل دی۔ دوم کسی دوسری چیز سے تبدیل کرلینا جیسے غیرت غلامی وداتبی ویعنی میں نے اپنا غلام یا جانور دوسرے سے تبدیل گرلیا ۔ قرآن میں ہے :إِنَّ اللَّهَ لا يُغَيِّرُ ما بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا ما بِأَنْفُسِهِمْ [ الرعد 11] خدا اس نعمت کو جو کسی قوم کو حاصل ہے نہیں بدلتا جب تک کہ وہ اپنی حالت کو نہ بدلیں ۔ اور لفظ غیر اور مختلف میں معنوی لحاظ سے فرق یہ ہے کہ غیر کا مفہوم لفظ مختلف سے زیادہ عام ہے کیونکہ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ چیز دوسری کی غیر ہے تو ان دونوں چیزوں کا بلحاظ جو ہر کے مختلف ہونا ضروری نہیں ہے ۔ بلکہ تغایرنی الوصف کی صورت میں ایک کو دوسری کا غیر کہا جاسکتا ہے مگر ایک چیز کو دوسری سے مختلف اس صورت میں کہا جاسکتا ہے جب کہ ان دونوں میں تغایر بلحاظ جو ہر کے پایا جائے ۔ بس اس سے واضح ہوتا ہے ک ہر جگہ مختلفیں کو متغائرین تو کہہ سکتے ہیں مگر ہر موقعہ پر متغایرین کو مختلفیں نہیں کہہ سکتے ۔- نعم - النِّعْمَةُ : الحالةُ الحسنةُ ، وبِنَاء النِّعْمَة بِناء الحالةِ التي يكون عليها الإنسان کالجِلْسَة والرِّكْبَة، والنَّعْمَةُ : التَّنَعُّمُ ، وبِنَاؤُها بِنَاءُ المَرَّة من الفِعْلِ کا لضَّرْبَة والشَّتْمَة، والنِّعْمَةُ للجِنْسِ تقال للقلیلِ والکثيرِ. قال تعالی: وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل 18] - ( ن ع م ) النعمۃ - اچھی حالت کو کہتے ہیں ۔ اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو کسی حالت کے معنی کو ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے جیسے : ۔ جلسۃ ورکبۃ وغیرہ ذالک ۔ اور نعمۃ کے معنی تنعم یعنی آرام و آسائش کے ہیں اور یہ فعلۃ کے وزن پر ہے جو مرۃ ہے جو مرۃ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے : ۔ ضر بۃ وشتمۃ اور نعمۃ کا لفظ اسم جنس ہے جو قلیل وکثیر کیلئے استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لا تُحْصُوها[ النحل 18] اور اگر خدا کے احسان گننے لگو تو شمار نہ کرسکو ۔- قوم - والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] ، - ( ق و م ) قيام - القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات 11] - نفس - الَّنْفُس : الرُّوحُ في قوله تعالی: أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ [ الأنعام 93] قال : وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ [ البقرة 235] ، وقوله : تَعْلَمُ ما فِي نَفْسِي وَلا أَعْلَمُ ما فِي نَفْسِكَ [ المائدة 116] ، وقوله : وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] فَنَفْسُهُ : ذَاتُهُ ، وهذا۔ وإن کان قد حَصَلَ من حَيْثُ اللَّفْظُ مضافٌ ومضافٌ إليه يقتضي المغایرةَ ، وإثباتَ شيئين من حيث العبارةُ- فلا شيءَ من حيث المعنی سِوَاهُ تعالیٰ عن الاثْنَوِيَّة من کلِّ وجهٍ. وقال بعض الناس : إن إضافَةَ النَّفْسِ إليه تعالیٰ إضافةُ المِلْك، ويعني بنفسه نُفُوسَنا الأَمَّارَةَ بالسُّوء، وأضاف إليه علی سبیل المِلْك . - ( ن ف س ) النفس - کے معنی روح کے آتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ [ الأنعام 93] کہ نکال لو اپنی جانیں ۔ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ ما فِي أَنْفُسِكُمْ فَاحْذَرُوهُ [ البقرة 235] اور جان رکھو جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے خدا کو سب معلوم ہے ۔ اور ذیل کی دونوں آیتوں ۔ تَعْلَمُ ما فِي نَفْسِي وَلا أَعْلَمُ ما فِي نَفْسِكَ [ المائدة 116] اور جو بات میرے دل میں ہے تو اسے جانتا ہے اور جو تیرے ضمیر میں ہے میں اسے نہیں جنتا ہوں ۔ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران 30] اور خدا تم کو اپنے ( غضب سے ڈراتا ہے ۔ میں نفس بمعنی ذات ہے اور یہاں نفسہ کی اضافت اگر چہ لفظی لحاظ سے مضاف اور مضاف الیہ میں مغایرۃ کو چاہتی ہے لیکن من حیث المعنی دونوں سے ایک ہی ذات مراد ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ ہر قسم کی دوائی سے پاک ہے بعض کا قول ہے کہ ذات باری تعالیٰ کی طرف نفس کی اضافت اضافت ملک ہے اور اس سے ہمارے نفوس امارہ مراد ہیں جو ہر وقت برائی پر ابھارتے رہتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٥٣) اور یہ سزا اس لیے تھے کہ اللہ نے کتاب اور رسول اور امن وسلامتی کی جو نعمت عطا فرمائی ہے اس کو اس وقت تک نہیں بدلتے جبکہ وہی لوگ کفران نعمت پر نہ تل جائیں اور اللہ تعالیٰ تمہاری دعاؤں کو سننے والے اور ان کی قبولیت کو جاننے والے ہیں۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

آیت ٥٣ (ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ لَمْ یَکُ مُغَیِّرًا نِّعْمَۃً اَنْعَمَہَا عَلٰی قَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِہِمْ لا) - اللہ تعالیٰ نے ہر قوم کی طرف اپنا پیغمبر مبعوث کیا ‘ جس نے اللہ کی توحید اور اس کے احکام کے مطابق اس قوم کو دعوت دی۔ پیغمبر کی دعوت پر لبیک کہنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمتوں سے نوازا ‘ ان پر اپنے انعامات و احسانات کی بارشیں کیں۔ پھر اپنے پیغمبر کے بعد ان لوگوں نے آہستہ آہستہ کفرو ضلالت کی روش اختیار کی اور توحید کی شاہراہ کو چھوڑ کر شرک کی پگڈنڈیاں اختیار کرلیں تو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں نے بھی ان سے منہ موڑ لیا ‘ انعامات کی جگہ اللہ کے عذاب نے لے لی اور یوں وہ قوم تباہ و برباد کردی گئی۔ - حضرت نوح (علیہ السلام) کی کشتی پر سوار ہونے والے مؤمنین کی نسل سے ایک قوم وجود میں آئی۔ جب وہ قوم گمراہ ہوئی تو حضرت ہود (علیہ السلام) کو ان کی طرف بھیجا گیا۔ پھر حضرت ہود (علیہ السلام) پر ایمان لانے والوں کی نسل سے ایک قوم نے جنم لیا اور پھر جب وہ لوگ گمراہ ہوئے تو ان کی طرف حضرت صالح (علیہ السلام) مبعوث ہوئے۔ گویا ہر قوم اسی طرح وجود میں آئی ‘ مگر اللہ تعالیٰ نے کسی قوم سے اپنی نعمت اس وقت تک سلب نہیں کی جب تک کہ خود انہوں نے ہدایت کی راہ کو چھوڑ کر گمراہی اختیار نہیں کی۔ یہ مضمون بعد میں سورة الرعد (آیت ١١) میں بھی آئے گا۔ مولانا ظفر علی خان نے اس مضمون کو ایک خوبصورت شعر میں اس طرح ڈھالا ہے : ؂ - خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی - نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا - اس فلسفے کے مطابق جب کوئی قوم محنت کو اپنا شعار بنا لیتی ہے تو اس کے ظاہری حالات میں مثبت تبدیلی آتی ہے اور یوں اس کی تقدیر بدلتی ہے۔ صرف خوش فہمیوں ( ) اور دعاؤں سے قوموں کی تقدیریں نہیں بدلا کرتیں ‘ اور قوم چونکہ افراد کا مجموعہ ہوتی ہے ‘ اس لیے تبدیلی کا آغاز افراد سے ہوتا ہے۔ پہلے چند افراد کی قلب ماہیت ہوتی ہے اور ان کی سوچ ‘ ان کے نظریات ‘ ان کے خیالات ‘ ان کے مقاصد ‘ ان کی دلچسپیاں اور ان کی امنگیں تبدیل ہوتی ہیں۔ جب ایسے پاک باطن لوگوں کی تعداد رفتہ رفتہ بڑھتی ہے اور وہ لوگ ایک طاقت اور قوت کے طور پر خود کو منظم کر کے باطل کی راہ میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑے ہوجاتے ہیں تو طاغوتی طوفان اپنا رخ بدلنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ یوں اہل حق کی قربانیوں سے نظام بدلتا ہے ‘ معاشرہ پھر سے راہ حق پر گامزن ہوتا ہے اور انقلاب کی سحر پر نور طلوع ہوتی ہے۔ لیکن یاد رکھیں اس انقلاب کے لیے فکری و عملی بنیاد اور اس کٹھن سفر میں زاد راہ کی فراہمی صرف اور صرف قرآنی تعلیمات سے ممکن ہے۔ اسی سے انسان کے اندر کی دنیا میں انقلاب آتا ہے۔ اسی اکسیر سے اس کی قلب ماہیت ہوتی ہے اور پھر مٹی کا یہ انبار یکایک شمشیر بےزنہار کا روپ دھار لیتا ہے۔ علامہ اقبالؔ نے اس لطیف نکتے کی وضاحت اس طرح کی ہے : ؂- چوں بحاں در رفت جاں دیگر شود - جاں چوں دیگر شد جہاں دیگر شود - یعنی جب یہ قرآن کسی انسان کے دل کے اندر اتر جاتا ہے تو اس کے دل اور اس کی روح کو بدل کر رکھ دیتا ہے۔ اور ایک بندۂ مؤمن کے اندر کا یہی انقلاب بالآخر عالمی انقلاب کی صورت اختیار کرسکتا ہے۔

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

سورة الْاَنْفَال حاشیہ نمبر :40 یعنی جب تک کوئی قوم اپنے آپ کو پوری طرح اللہ کی نعمت کا غیر مستحق نہیں بنا دیتی اللہ اس سے اپنی نعمت سلب نہیں کیا کرتا ۔

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani

36: یعنی اللہ تعالیٰ اپنی نعمتوں کو عذاب سے اسی وقت بدلتا ہے جب کوئی قوم اپنی حالت کو خود بدل لیتی ہے، کفار مکہ کو اللہ تعالیٰ نے ہر قسم کی نعمتیں عطا فرمائی تھیں جن میں سب سے بڑی نعمت یہ تھی کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو انہی کے درمیان مبعوث کیا گیا اگر وہ اس وقت ضد سے کام لینے کے بجائے حق طلبی اور انصاف سے کام لیتے تو ان کے لئے اسلام قبول کرنا کچھ مشکل نہیں تھا لیکن انہوں نے اس نعمت کی ناشکری کرکے اور ضد سے کام لے کر اپنی حالت کو بدل لیا اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے اسلام قبول کرنے کو اپنے وقار کا مسئلہ بنالیا جس سے حق کو قبول کرنا ان کے لئے مشکل ہوگیا، جب انہوں نے اپنی حالت اس طرح بدل لی تو اللہ تعالیٰ نے بھی اپنی نعمتوں کو عذاب سے تبدیل کردیا۔