Blog
Books
Search Quran
Tafseer Ibn-e-Kaseer
by Amam Ibn-e-Kaseer

Ahsan ul Bayan
by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

54۔ 1 یہ اس بات کی تاکید ہے جو پہلے گزری، البتہ اس میں ہلاکت کی صورت کا اضافہ ہے کہ انہیں غرق کردیا گیا۔ علاوہ ازیں یہ واضح کردیا کہ اللہ نے ان کو غرق کر کے ان پر ظلم نہیں کیا، بلکہ یہ خود ہی اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے تھے۔ اللہ تو کسی پر ظلم نہیں کرتا (وَمَا رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِّـلْعَبِيْدِ ) 41 ۔ فصلت :46)

Taiseer ul Quran
by Abdul Rehman Kilani

[ ٥٧۔ الف ] یعنی ان کفار مکہ سے پہلے ہم نے آل فرعون پر اور بہت سی دوسری اقوام پر انعامات کی بارش کی تھی۔ لیکن انہوں نے ان انعامات کی ناقدری کی۔ ان کی نیتوں میں فتور آگیا۔ اللہ کا شکر ادا کرنے اور اس کی فرمانبرداری کرنے کے بجائے وہ اس کی نافرمانی اور سرکشی پر اتر آئے تھے۔ لہذا ہم نے انہیں ان کے گناہوں کی پاداش میں تباہ و برباد کر ڈالا اور آل فرعون کو تو سمندر میں ڈبو کر ان کا نام و نشان تک ختم کر ڈالا۔ یہ سب قومیں نافرمان تھیں اور سب ہی ہلاک کردی گئی تھیں تو اب کیا یہ کافر اپنے انجام بد سے محفوظ رہ سکتے ہیں ؟

Tafseer al Quran
by Abdul Salam Bhatvi

كَدَاْبِ اٰلِ فِرْعَوْنَ : یعنی آپ سے لڑنے والے ان لوگوں کا حال آل فرعون اور ان سے پہلے کفار جیسا ہے۔ یہ بات دہرانے سے مقصود ایک تو پہلی بات کی تاکید ہے، جیسے فرمایا : (اَوْلٰى لَكَ فَاَوْلٰى۔ ثُمَّ اَوْلٰى لَكَ فَاَوْلٰى) [ القیامۃ : ٣٤، ٣٥ ] دوسرا اس میں پچھلی آیت کی کچھ تفصیل ہے، اس میں ”ۭكَفَرُوْا بِاٰيٰتِ اللّٰهِ “ یعنی اللہ کی آیات کے انکار اور نہ ماننے کا ذکر تھا، یہاں تفصیل ہے کہ انھوں نے انکار کے ساتھ انھیں جھٹلایا بھی تھا۔ تیسرا اس میں گناہوں پر گرفت کا ذکر تھا، اس میں آل فرعون پر اس گرفت کی تفصیل، یعنی غرق کا بیان ہے اور عذاب کے سبب کی صاف الفاظ میں وضاحت ہے کہ وہ سب ظالم تھے، جب کہ اس سے پہلے قریب ہی فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ذرہ برابر ظلم کرنے والا نہیں، اگر وہ ظالم و گناہ گار نہ ہوتے تو اللہ تعالیٰ کو ان سے کوئی ذاتی بیر نہ تھا کہ انھیں بلاوجہ ہلاک یا غرق کردیتا۔ واضح رہے کہ اللہ کی آیات سے مراد رسولوں کے لائے ہوئے احکام بھی ہیں اور نشانیاں اور معجزات بھی۔

Maariful Quran
by Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر - (پس اس امر تغییر میں بھی) ان کی حالت فرعون والوں اور ان سے پہلے والوں کی سی حالت ہے کہ انہوں نے اپنے رب کی آیات کو جھٹلایا اس پر ہم نے ان کو ان کے (ان) گناہوں کے سبب ہلاک کردیا اور (ان میں) فرعون والوں کو خاص طور پر ہلاک کیا کہ (ان کو) غرق کردیا اور وہ (فرعون والے اور پہلے والے) سب ظالم تھے بلاشبہ بدترین خلائق اللہ کے نزدیک یہ کافر لوگ ہیں (جب یہ علم الہی میں ایسے ہیں) تو یہ ایمان نہ لائیں گے جن کی یہ کیفیت ہے کہ آپ ان سے (کئی بار) عہد لے چکے ہیں (مگر) پھر (بھی) وہ ہر بار اپنا عہد توڑ ڈالتے ہیں اور وہ (عہد شکنی سے) ڈرتے نہیں سو اگر آپ لڑائی میں ان لوگوں پر قابو پائیں (اور یہ آپ کے ہاتھ آئیں) تو ان پر حملہ کرکے (اس) کے ذریعہ سے اور لوگوں کو جو کہ ان کے علاوہ ہیں منتشر کردیجئے تاکہ وہ لوگ سمجھ جائیں (کہ نقض عہد کا یہ وبال ہوا ہم ایسا نہ کریں۔ یہ حکم تو اس وقت ہے کہ جب ان لوگوں نے عہد علانیہ توڑ دیا ہو) اور اگر (ابھی تک علانیہ تو نہیں توڑا لیکن) آپ کو کسی قوم سے خیانت (یعنی اس طرح اس عہد کے باقی نہ رہنے کی اطلاع کردیجئے) کہ آپ اور وہ (اس اطلاع میں) برابر ہوجائیں (اور بدون ایسی صاف اطلاع کے لڑنا خیانت ہے اور) بلاشبہ اللہ تعالیٰ خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں کرتے۔- معارف و مسائل - آیات مذکورہ میں سے پہلی آیت کا مضمون بلکہ الفاظ تقریبا وہی ہیں جو ایک آیت پہلے آچکے ہیں (آیت) كَدَاْبِ اٰلِ فِرْعَوْنَ ۙ وَالَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ ۭكَفَرُوْا بِاٰيٰتِ اللّٰهِ فَاَخَذَهُمُ اللّٰهُ بِذُنُوْبِهِمْ ، مگر مقصد بیان دونوں میں جدا جدا ہے پہلی آیت میں اس کا بیان مقصود تھا کہ ان لوگوں کا کفر ان کے عذاب کا سبب بنا اور اس آیت میں مقصود یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا عام قانون یہ ہے کہ جب کسی قوم پر اللہ تعالیٰ کی نعمتیں مبذول ہوں اور وہ ان کی قدر نہ پہچانے اور اللہ کے سامنے نہ جھکے تو اس کی نعمتیں نقمتوں اور مصیبتوں سے بدل دی جاتی ہیں۔ قوم فرعون اور ان سے پہلی اقوام نے بھی جب اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی قدر نہ کی تو ان سے تعمتیں چھین لی گئی اور نعمتوں کے بجائے عذاب میں پکڑ لئے گئے کچھ الفاظ میں بھی کہیں کہیں فرق کرکے خاص خاص اشارے فرمائے گئے ہیں۔ مثلا پہلی آیت میں كَفَرُوْا بِاٰيٰتِ اللّٰهِ کے الفاظ تھے اور یہاں بِاٰيٰتِ رَبِّهِمْ کا لفظ اللہ کے بجائے صفت رب ذکر کرکے اس کی طرف اشارہ کردیا کہ یہ لوگ بڑے ہی ظالم ناحق شناس تھے کہ جو ذات ان کی رب ہے ان کے ابتداء وجود سے لے کر موجودہ حالات تک اس کی تعمتوں ہی میں ان کی پرورش ہوئی اسی کی نشانیوں کو جھٹلانے لگے۔- نیز پہلی آیت (آیت) فَاَخَذَهُمُ اللّٰهُ بِذُنُوْبِهِمْ فرمایا تھا یہاں فَاَهْلَكْنٰهُمْ بِذُنُوْبِهِمْ ارشاد فرمایا۔ اس میں اس اجمال کی تفصیل و تشریح ہوگئی کیونکہ آیت میں ان کا عذاب میں پکڑا جانا ذکر کیا گیا جس کی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں۔ زندہ اور باقی رہتے ہوئے مصیبتوں میں گرفتار ہوجائیں یا سرے سے ان کا وجود ہی ختم کردیا جائے۔ اس آیت میں اَهْلَكْنٰهُمْ فرما کر واضح کردیا کہ ان سب قوموں کی سزا سزائے موت تھی ہم نے ان سب کو ہلاک کر ڈالا۔ ہر قوم کی ہلاکت کی مختلف صورتیں ظاہر ہوئیں ان میں سے فرعون چونکہ خدائی کا دعویدار تھا اور اس کی قوم اس کی تصدیق کرتی تھی اس لئے خصوصیت کے ساتھ اس کا ذکر کردیا گیا (آیت) وَاَغْرَقْنَآ اٰلَ فِرْعَوْنَ یعنی ہم نے آل فرعون کو غرق کردیا۔ دوسری قوموں کی ہلاکت کی صورتیں یہاں بیان نہیں کی گئی، دوسری آیات میں اس کی بھی تفصیل موجود ہے کہ کسی پر زلزلہ آیا، کوئی زمین کے اندر دھنسا دی گئی، کسی کی صورتیں مسخ ہوگئی، کسی پر ہوا کا طوفان مسلط ہوگیا۔ اور آخر میں مشرکین مکہ پر غزوہ بدر میں مسلمانوں کے ہاتھوں سے عذاب آیا۔

Mufradat ul Quran
by Imam Raghib Isfahani

كَدَاْبِ اٰلِ فِرْعَوْنَ۝ ٠ ۙ وَالَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ۝ ٠ ۭ كَذَّبُوْا بِاٰيٰتِ رَبِّہِمْ فَاَہْلَكْنٰہُمْ بِذُنُوْبِہِمْ وَاَغْرَقْنَآ اٰلَ فِرْعَوْنَ۝ ٠ ۚ وَكُلٌّ كَانُوْا ظٰلِمِيْنَ۝ ٥٤- دأب - الدَّأْب : إدامة السّير، دَأَبَ في السّير دَأْباً. قال تعالی: وَسَخَّرَ لَكُمُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ دائِبَيْنِ- [إبراهيم 33] ، والدّأب : العادة المستمرّة دائما علی حالة، قال تعالی: كَدَأْبِ آلِ فِرْعَوْنَ [ آل عمران 11] ، أي : کعادتهم التي يستمرّون عليها .- ( د ء ب ) الداب - کے معنی مسلسل چلنے کے ہیں ۔ کہا جاتا ہے ۔ داب السیر دابا ۔ وہ مسلسل چلا ۔ قرآن میں ہے وَسَخّرَ لَكُمُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ دائِبَيْنِ [إبراهيم 33] اور سورج اور چاند کو تمہارے لئے کام میں لگا دیا کہ دونوں ( دن رات ) ایک دستور پر چل رہے ہیں ۔ نیز داب کا لفظ عادۃ مستمرہ پر بھی بولا جاتا ہے جیسے فرمایا :۔ كَدَأْبِ آلِ فِرْعَوْنَ [ آل عمران 11] ان کا حال بھی فرعونیوں کا سا ہے یعنی انکی اسی عادت جس پر وہ ہمیشہ چلتے رہے ہیں ۔- كذب - وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی:- إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] ،- ( ک ذ ب ) الکذب - قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے - هلك - الْهَلَاكُ علی ثلاثة أوجه :- افتقاد الشیء عنك، وهو عند غيرک موجود کقوله تعالی: هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة 29] - وهَلَاكِ الشیء باستحالة و فساد کقوله :- وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة 205] ويقال : هَلَكَ الطعام .- والثالث :- الموت کقوله : إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء 176] وقال تعالیٰ مخبرا عن الکفّار : وَما يُهْلِكُنا إِلَّا الدَّهْرُ [ الجاثية 24] .- ( ھ ل ک ) الھلاک - یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے - ایک یہ کہ - کسی چیز کا اپنے پاس سے جاتے رہنا خواہ وہ دوسرے کے پاس موجود ہو جیسے فرمایا : هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة 29] ہائے میری سلطنت خاک میں مل گئی ۔- دوسرے یہ کہ - کسی چیز میں خرابی اور تغیر پیدا ہوجانا جیسا کہ طعام ( کھانا ) کے خراب ہونے پر ھلک الطعام بولا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة 205] اور کھیتی کو بر باد اور انسانوں اور حیوانوں کی نسل کو نابود کردی ۔ - موت کے معنی میں - جیسے فرمایا : ۔ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء 176] اگر کوئی ایسا مرد جائے ۔- غرق - الغَرَقُ : الرّسوب في الماء وفي البلاء، وغَرِقَ فلان يَغْرَقُ غَرَقاً ، وأَغْرَقَهُ. قال تعالی: حَتَّى إِذا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ [يونس 90] ،- ( غ ر ق ) الغرق - پانی میں تہ نشین ہوجانا کسی مصیبت میں گرفتار ہوجانا ۔ غرق ( س) فلان یغرق غرق فلاں پانی میں ڈوب گیا ۔ قرآں میں ہے : حَتَّى إِذا أَدْرَكَهُ الْغَرَقُ [يونس 90] یہاں تک کہ جب اسے غرقابی نے آلیا ۔- ظلم - وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه،- قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ:- الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی،- وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] - والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس،- وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری 42] - والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه،- وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] ،- ( ظ ل م ) ۔- الظلم - اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر - بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے - (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی سب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا - :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ - (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے - ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔- ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے - ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں

Ahkam ul Quran
by Amam Abubakr

Tafseer Ibn e Abbas
by Ibn e Abbas

(٥٤) ان کی حالت فرعون کی جماعت اور ان سے پہلے والوں کی سی ہے جیسا کہ ان لوگوں نے آسمانی کتابوں اور رسولوں کی تکذیب کی، اسی طرح یہ کفار مکہ کرتے ہیں نتیجہ یہ ہوا کہ ہم نے انکی اس تکذیب کی وجہ سے ہلاک کیا اور فرعون والوں کو غرق کردیا اور یہ سب کافر تھے۔

Bayan ul Quran
by Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran
by Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran
by Mufti Taqi Usmani